اردو ماہنامہ سائنس کے 25 سال مکمل پونے پر سلور جوبلی تقریب کا انعقاد

نئی دہلی۔ 4مارچ،  اردو ماہنامہ ـ’سائنس‘ کے پچیس سال مکمل ہونے پر غالب اکیڈمی، بستی حضرت نظام الدین، نئی دہلی میں سلور جوبلی تقریب کا انعقاد کیا گیا جس سے خطاب کرتے ہوئے ماہنامہ سائنس کے بانی و ایڈیٹر ڈاکٹر محمد اسلم پرویز نے رسالہ کے اغراض ومقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ماہنامہ ہی نہیں بلکہ اردو میں سائنس کو فروغ دینے کی ایک تحریک ہے جس کا مقصد مکمل علم اور مکمل دین کی دعوت دیناہے۔ انہوں میں مسلمانوں میں سائنسی علوم سے دوری پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ قرآن کی چند آیتوں ہی کو مکمل اسلام سمجھے ہوئے ہیں۔ قرآن مسلمانوں کو کائنات میں غوروفکر کی دعوت دیتا ہے۔ جب قانون دین میں شامل ہے تو قانون فطرت کا علم دین سے الگ کیسے ہوسکتا ہے؟ انہوں نے علم کی نافع اور غیر نافع کی تقسیم کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ سبھی علوم فائدے مند ہیںخرابی ان کے غلط استعمال میں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ قرآن کی سب سے بڑی بے حرمتی یہ ہے کہ اس میں غور وفکر کرنے کے بجائے جزودان میں لپیٹ کر طاق پر رکھ دیا جائے۔

اپنے صدارتی خطاب میں پروفیسر شمس الرحمن فاروقی نے کہا کہ قرآن ایک اٹل حقیقت ہے جب کہ سائنسی نظریات میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے اس وجہ سے ہر سائنسی تھیوری کو قرآنی آیات سے  پیش کرنے کی روش خطرناک ثابت ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ وہ خود رسالہ نکال چکے ہیں اس وجہ سے اس کی مشکلات سے بخوبی واقف ہیں۔ انہوں نے ماہنامہ سائنس کے کامیاب پچیس سالہ سفر پر ڈاکٹرمحمد اسلم پرویز کو مبارکباد پیش کیا۔

پروفیسر شمیم حنفی نے اپنے خطاب میں ڈاکٹر محمد اسلم پرویز کی کوششوں کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ وہ اکیلے جتنا کام کرلیتے ہیں اتنا اداروں سے بھی نہیں ہوپاتا۔ انہوں نے اردو میں سائنسی علوم کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ انیسویں صدی تک کا سائنسی ادب قابل قدر ہے۔  دھیرے دھیرے اردو والوں نے اپنے آپ کو کچھ خاص علوم تک محدود کرلیاجس کی وجہ سے ان علوم کے ماہرین بھی اردو سے دور ہوگیے۔ انہوں نے کہا کہ پوری کائنات جس طرح ایک اکائی ہے اسی طرح علوم بھی ایک اکائی ہیں۔ کوئی علم کسی دوسرے علم کی ضد نہیں ہے۔ پروفیسر ابن کنول نے اپنے خطاب میں کہا کہ ڈاکٹر محمد اسلم پرویز  سر سید کے  مشن کو لے کر آگے آئے ہیں انہوں نے اردو میں سائنسی رسالہ نکالنے کا کام کیا جو کہ ایک قسم سے گھاٹے کا سودا تھا۔وہ اردو برادری کو بیدار کرنا چاہتے تھے انہیں سائنس سے جوڑنا چاہتے تھے اس وجہ سے انہوں نے یہ جوکھم اٹھایا۔ انہوںنے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اردو میں کتابیں خرید کر پڑھنے کا رواج کم ہوتا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہی زبان زندہ رہتی ہے جس کے بولنے والے اس کے لیے کچھ خرچ کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ڈاکٹر شاہد جمیل نے سائنس اور مذہب کو ایک ساتھ جوڑنے کو غلط قرادیا۔ انہوںنے ماہنامہ سائنس سے اپنی وابستگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ رسالے کے ابتدائی دنوں میں انہوں نے ینگ سائنٹسٹ ایوارڈ کی آدھی رقم ماہنامہ سائنس کو ہدیہ کردیا تھا۔ پروفیسر وہاب قیصر نے ڈاکٹر محمد اسلم پرویز کے مختلف اداریوں اور تحریروں کی روشنی میں ماہنامہ سائنس کے مشن پر روشنی ڈالی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالمعز نے کہا کہ یہ مجلس اس بات کی دلیل ہے کہ اردو صرف شعروشاعری کی زبان نہیں ہے۔ ڈاکٹر عابد معید نے رسالے کی بقا اور ترقی کے لیے ایک ٹرسٹ کے قیام پر زور دیا۔ پروگرام کی نظامت شعبہ اردو دہلی یونی ورسٹی کے سینئر استاد ڈاکٹر محمد کاظم نے اور شکریہ کی رسم پروفیسر ابن کنول نے انجام دیے۔ اس موقع پر ماہنامہ سائنس کی اردو ویب سائٹ اور شمس الاسلام فاروقی کی مرتب کردہ  کتاب  توضیحی فرہنگ (حیوانیات  وحشریات ) کا اجرا بھی عمل میں آیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.