اردو کے ہردلعزیز شاعر ندا فاضلی کا انتقال

ندا فاضلی 8 فروری 2016

ندا فاضلی 8 فروری 2016

عابد سہیل، انتظار حسین اور محی الدین نواب کے بعد اردو کے عظیم شاعر ندا فاضلی کا بھی 78 سال کی عمر میں ممبئی میں انتقال ہوگیا۔ ان کی موت  اردو دنیا کے لیے ایک عظیم سانحہ ہے۔ ندا فاضلی کا پورا نام  مقتدا حسن ندا فاضلی ہے۔ وہ 12 اکتوبر 1938 ‏کو گوالیار میں پیدا ہوائے۔ مقتدا حسن ندا فاضلی  ندا فاضلی کے نام سے مشہور ہوئے۔

ابتدائی زندگی

ندا فاضلی گوالیار میں پیدا ہوئے، دہلی میں تعلیم پائی۔ ان کے والد ایک شاعر تھے۔ تقسیم کے بعد ان کے والدین اور خاندان کے افراد پاکستان چلے گئے، لیکن فاضلی بھارت ہی میں رہ گئے۔

بچپن میں ہندو مندر سے ایک بھجن کی آواز سنی، اور شاعری کی طرف مرغوب ہوئے۔ انسانیت پر انہوں نے شاعری کی. اس دور میں مرزا اسداللہ خاں غالب ، میر تقی میر سے متاثر ہوئے، میرا اور کبیر سے بھی۔ انہوں نے ایلئیٹ، گگول، اینٹن چکوف (انتون چیخوف) اور ٹکاساکی کو بھی پڑھا اور اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کا اضافہ کیا۔

بالی وڈ

ندا فاضلی۔
ابتدائی دنوں میں انہوں نے ملازمت کی تلاش میں ممبئی آئے اور دھرم یُگ (رسالہ) اور بلٹز کے لئے لکھتے رہے۔ ان کا شاعرانہ لہجہ لوگوں کو پسند آیا، اور فلم بنانے والوں کی نظر ان پر پڑی ساتھ ساتھ ہندی اور اردو ادب والوں کی۔ مشاعروں میں بلائے جانے لگے۔

کئی گلوکاروں نے اور غزل گانے والوں نے ان کی غزلیں، نظمیں اور گیت گائے، جس سے ان کو شہرت ملہ۔

ان کے شہرہ یافتہ غزلوں میں، ” دنیا جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونہ ہے، مل جائے تو مٹی ہے کھوجائے تو سوناہے” مشہور ہے۔

فلمی گیتوں میں ٭ آ بھی جا ( سُر – زندگی کا نغمہ) ٭ تو اس طرح سے میری زندگی میں شامل ہے ( فلم – آپ تو ایسے نہ تھے) ٭ ہوش والوں کو خبر کیا زندگی کیا چیز ہے (فلم – سر فروش)

کیریر
انہوں نے 1960 کے دور کے شعراء پر تنقیدی مضانین لکھے لکھے، جس کا عنوان “ملاقاتیں“ تھا۔

مشہور فلم ہدایتکار کمال امروہی نے ندا فاضلی سے مل کر کہا کہ فلم رضیہ سلطانہ کے لئے گیت لکھے، جب کہ یہ گیت جاں نثار اختر کو لکھنا تھا، لیکن اسی دوراں ان کی وفات ہو گئی تھی۔ انہوں نے اس فلم کے دو نغمے لکھے اور کافی مشہور بھی ہوئے (1983)۔ اس طرح انہوں نے فلمی دنیا کو اپنی طرف متوجہ کر پائے۔

ان کے مشہور فلمی نغموں میں فلم آپ تو ایسے نہ تھے، گڈیا، شامل ہیں۔ انہوں نے کئی ٹی۔وی۔ سیرئیلس کے لئے بھی نغمے اور گیت لکھے۔ سائلاب، نیم کا پیڑ، جانے کیا بات ہوئی اور جیوتی کے لئے ٹائٹل نغمے لکھے..

….. از طرف : شفیق جے ایچ…..

انتظار حسین اور محی الدین نواب کے انتقال کے فورا بعد ندا فاضلی کا ہم سے جدا ہوجانا اردو دنیا کے لیے بہت بڑا خسارہ ہے جس کی بھر پائی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ شاعر کا یہ قول شاید ایسے ہی موقعے کے لیے تھا۔:

جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں

کہیں سے آب بقائے دام لا ساقی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.