سر سید کے تعلیمی افکار، مکاتیب سر سید کی روشنی میں

 اردو زبان وادب کے معماروں میں سر سید کا نام ایک ستون کی حیثیت رکھتا ہے۔سرسید اور ان کے رفقانے اردو زبان وادب کو جدید نثر کا تحفہ عطا کیا، سر سید کے رفقا کی تعلیم و افکار میں ان کی تربیت کا نمایاں حصہ نظر آتاہے۔اردو زبان جو عشق وعاشقی اور تکلفات و ملمع سازیوں میں پھنسی ہوئی تھی، اسے سر سید نے مختصر مدت میں اس قابل بنادیا کہ اس میں فنی، سیاسی، اخلاقی، تاریخی، علمی اور تہذیبی ہر قسم کے مضامین کے بخوبی ادا کیا جا سکے، سرسید نے قیل وقال پر اکتفا نہیں کیا بلکہ خود کردار کے غازی بن کر اس کا عملی نمونہ بھی پیش کیا۔علمی، ادبی، تاریخی، سماجی، ثقافتی اور سیاسی تحریریں آپ کی عبقریت پر شاہدہیں۔ مولانا شبلی نے صحیح لکھاہے کہ ـــ:”سرسید کے جس قدر کارنامے ہیں اگرچہ ریفارمیشن اور اصلاح کی حیثیت ہر جگہ نظر آتی ہے لیکن جو چیزیں خصوصیت کے ساتھ ان کی اصلاح کی بدولت ذرہ سے آفتاب بن گئییں ان  میں ایک اردو لٹریچر بھی ہے”۔

اردو زبان میں  خطوط نگاری قدیم زمانے سے ہی رائج رہی ہے، ابتدائی خطوط نگاری کامطالعہ کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ شروع میں فارسی مکتوب کی طرح مقصد و مطلب کے بجائے زبان اور انداز بیان کو زیادہ اہمیت حاصل تھی، لمبے چوڑے القاب و آداب، تصنعات و تکلفات ہی کو کمال معراج سمجھاجاتاتھا، سب سے پہلے اردو خطوط نگاری میں مرزا غالب نے تکلف و تصنع اور بے جا القاب و آداب کے رسمی انداز تحریر کو ترک کر کے ایسا انداز تحریر اپنایا کہ بقول خود مرزا غالب میں نے وہ انداز تحریر ایجاد کیا ہے کہ مراسلہ کو مکالمہ بنادیا ہے، گو کہ مرزا غالب کو مکمل کامیابی نہیں ملی، ان کے یہاں بھی بہت سارے خطوط میں  تکلف و تصنع اور بے جاالقاب کی وبا پائی جاتی ہے۔

غالب کی خطوط نگاری سے متصلا ہی سر سید کی خطوط نگاری کا زمانہ بھی ہے، سر سید نے جس وقت خطوط نگاری شروع کی اس وقت غالب کے خطوط کا نمونہ موجود تھا، سرسید کی شخصیت ہشت پہل تھی، تمام اصناف پر آپ کی تحریریں اور کتابیں موجود ہیں، آپ ایک مستند مورخ، صاحب طرز انشا پرداز، معتبر سیرت نگار، مصلح قوم اور ملک و ملت کے بہی خواہ و ہمدرد ہو نے کے ساتھ ایک منفرد اور یکتا مکتوب نگار بھی تھے، آپ کے مکاتیب ملکی وملی، اخلاقی وتہذیبی، تاریخی وثقافتی، علمی و ادبی، صحافتی ومذہبی کارناموں کے بین دلیل ہیں، آپ کے خطوط کا مطالعہ کر کے ہم سر سید کے افکارونظریات اور مقصد حیات تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔

سرسید نے اپنے خطوط میں  ہندوستانی قوم کے دن بدن تعلیم وتربیت سے دور ہونے کا درد بیان کیاہے، اور انھیں علم واخلاق، تہذیب و ثقافت سے آراستہ کرنے کے افکار جا بجا پھیلے نظر آتے ہیں، سرسید نے اپنی زندگی کا مقصد ہی فلاح وبہبود کو بنا لیا تھا اور اس کے لیے انہوں نے نسخٔہ تعلیم وتربیت کا استعمال کیا، اسی لیے ہمیں  سرسید کے مقالات و خطبات کے علاوہ مکتوبات میں بھی تعلیمی افکار بکثرت نظر آتے ہیں خواجہ احمد فاروقی سرسید کے خطوط کے متعلق لکھتے ہیں کہ’’اگر ہ میں  آدم نثرِ جدید، بانیٔ مدرسۃ العلوم اور حامیٔ ملک وملت کے چہرہ کے تمام خط و خال دیکھنا ہے تو ہ میں  سرسید کے خطوط کا مطالعہ کرنا چاہیے، وہاں انہوں نے اپنا دل اور دماغ کھول کر رکھ دیا ہے، یہ خطوط ان کے اخلاق و عادات، اعتقادات و نظریات، سیرت و کردار اور عصری معلومات وتحریکات کا خزینہ اور گنجینہ ہے’‘ (صفحہ ۴۱ سر سید بازیافت )

سرسید کی زندگی کا بغور مطالعہ کرنے سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ سرسید کی زندگی کا سب سے اہم مقصد اور ان کی آراوافکار کا خلاصہ و نچوڑ ملک و قوم کی فلاح وبہبود اور ان کی عظمت و سربلندی ہی تھی اور اس کے لیے انہوں نے جوذریعہ اختیار کیا وہ تعلیم تھا، سرسید تعلیم کوجدید و قدیم میں تقسیم کرنے کے قائل گرچہ نہ تھے ؛مگر انہوں نے قدیم نصاب تعلیم میں اصلاحات کے مشورے ضرور دیے ہیں دراصل وہ خذما صفا و دع ماکدر کے اصول پر عمل پیرا تھے 1857کے حالات اور مسلمانوں پر انگریزوں کے بے انتہا مظالم نے ہندوستان کے مسلمانوں کو انگریزوں اور ان کی لائی ہوئی تعلیم و تہذیب اور اخلاق و کردار سے بدگمان کر دیا تھا مگر سرسید نے مسلم حکومت کے زوال کا خود مشاہدہ کیا تھا اور اپنی بصیرت سے یہ سمجھ لیا تھا کہ انگریزوں سے مقابلہ اسی وقت ممکن ہے جبکہ ہم خود بھی انھیں تعلیمات، اخلاق و کردار اور صفات و اقدار سے آراستہ ہوں انہوں نے جدیدتعلیم کی طرف اپنی قوم کی توجہ دلائی اس راہ میں  انھیں بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اپنی ہی قو م سے طعن و تشنیع اور سب و شتم سننا پڑا، سرسید کی تعلیمی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے پنڈت جواہر لال نہرو ان الفاظ میں خراج ِ عقیدت پیش کرتے ہیں، ’’سرسید نے اپنی پوری قوت جدید تعلیم کی طرف مرکوز کر دی اور اپنی قوم کو ہم نوا بنانے کی کوشش کی وہ اپنی قوم کو کسی دوسری طرف متوجہ ہونے نہیں دینا چاہتے تھے کیوں کہ یہ ایک مشکل کام تھا اور مسلمانو ں کی ہچکچاہٹ دور کرنا اور مشکل تھا’‘۔

سرسید نے تعلیم ہی کو کامیابی کی کنجی تصور کیا اور وہ تعلیم ہی کو برائی بھلائی میں تمیز کرنے، قدرت الہی کے ایجادات و اختراعات کو سمجھنے اور اخلاق وکردار کی درستگی کا ذریعہ سمجھتے تھے، سرسیدنے قوم کے لیے تعلیم کی فکر بڑے ہی اعلی سطح پر کی اور انہوں نے اپنے ذہن میں کسی چھوٹے اسکول یا مدرسہ کا خاکہ تیار نہیں کیا ؛بلکہ ا س وقت کی سب سے بڑی یوروپی درسگاہوں آکسفورڈ اور کیمبرج کے طرز پر ایک ادارہ کے قیام کا ارادہ کیا اور اسی غرض سے یوروپ کا سفر کیا اس سفرکے کچھ اور بھی اہم مقاصد تھے انہوں نے وہاں کی تہذیب و تمدن، رہن سہن، اور اخلاق و کردار کابغور مشاہدہ کیا اس سے ان کے اندر یہ جذبہ اور تڑپ اور بھی شدت اختیار کر گیا کہ ہماری قوم بھی اسی طرح ترقی یافتہ، مہذب اور آپس میں محبت ومودت کے ساتھ زندگی گزارنے والی قوم بن جائے اور ان کے اخلاق و کردار کا معیار نہایت ہی اعلی ہوجائے اور تعلیم و تربیت حاصل کرکے وہ بلند مقام پر فائز ہوجائیں، نواب عمادالملک کے نام اپنے خط میں ان احساسات و جذبات کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں ’’جناب مجھ کو قوم کی طرف سے اور اسکی بھلائی اور ترقی کی طرف سے بالکل مایوسی ہے لیکن ا س خیال سے کہ کوشش کرنا ہمارا فرض ہے کیے جاتے ہیں’‘(صفحہ 350مکتوبات سرسید شیخ اسماعیل پانی پتی )۔

مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال کی منظر کشی:

1857کی بغاوت کے بعد مسلمانوں کے حالات تعلیمی و تہذیبی لحاظ سے ابتر ہونے لگے کیوں کہ مسلمانوں نے انگریزوں کی لائی ہوئی جدید تعلیم و تہذیب کو اپنے لیے کچھ بہتر نہ سمجھا مسلمانوں کے مذہبی پیشوا اس کو باعث گناہ تصور کرتے تھے حتی کہ انہوں نے انگریزوں سے وابستہ تمام چیزوں کا بائیکاٹ کیا، حالاں کہ بعد کے حالات سے یہ واضح ہو گیا کہ وہ محض ایک غلط فہمی تھی جس کی وجہ سے مسلمان جدید تعلیم سے یکسر دور ہوتے گئے جبکہ سرسید نے ان حالات کا ڈٹ کر نہ صرف مقابلہ کیابلکہ وہ ان تاریک حالات کے درخشاں ستارے ثابت ہوئے، اس سلسلہ میں ان کی کوششیں تاریخ کا ایک روشن باب ہیں، چنانچہ سر سید لندن سے اپنے خط میں محسن الملک کو قوم کی تعلیمی بدحالی بیان کرتے ہوئے غایت درجہ افسردہ ہیں ’’افسوس کہ مسلمان ہندوستان کے ڈوبے جاتے ہیں اور کوئی ان کا نکالنے والا نہیں ہائے افسوس امرت تھوکتے ہیں اور زہر اگلتے ہیں، ہائے افسوس ہاتھ پکڑنے والے کا ہاتھ جھٹک دیتے ہیں اور مگر کے منھ  میں ہاتھ دیتے ہیں اے بھائی مہدی فکر کرو اور یقین جان لو کہ مسلمانوں کے ہونٹوں تک پانی آگیا ہے اب ڈوبنے  میں بہت ہی کم فاصلہ باقی ہے اگر تم یہاں آتے تو دیکھتے کہ تربیت کس طرح ہوتی ہے اور تعلیم اولاد کا کیا قائدہ ہے اور علم کیوں کر آتا ہے اور کس طرح پر کوئی قوم عزت حاصل کرتی ہے انشاء اللہ تعالی  میں یہاں سے واپس آکر سب کچھ کہوں گا اور کروں گا’‘(صفحہ نمبر 90مکتوبات سرسید شیخ اسماعیل پانی پتی )۔

تعلیم نسواں کی وکالت:

معترضین سر سید کا اعتراض ہے کہ سرسید تعلیم نسواں کے خلاف تھے حالاں کے ان کے خطوط اور دیگر تحریروں کے مطالعہ سے معاملہ برعکس نظر آتا ہے، انہوں نے اپنے کئی خطوط میں تعلیم نسواں کی نہ صرف یہ کہ زبردست وکالت کی ہے بلکہ دیگر اقوام کی خواتین سے مقابلہ کرکے تعلیم کی طرف مزید توجہ دلائی ہے انہوں نے ہمیشہ جدید تعلیم یافتہ خواتین کی علمی وثقافتی برتری کو تسلیم کیا، ؛بلکہ ان کو مثالوں میں بھی پیش کیا ان کے تئیں خلوص و احترام اور محبت کا اظہارسرسید کے جذبۂ تعلیم نسواں کی پرزور وکالت کرتے ہیں مثال میں ان کے خط کا ایک اقتباس پیش ہے ’’اگر ہندوستان  میں کوئی عورت بالکل برہنہ بازار میں  پھرنے لگے تو ہمارے ہم وطنو ں کو کیسا تعجب اور کس قدر حیرت ہوگی، بلا مبالغہ یہ مثال ہے کہ جب یہاں کی عورتیں یہ سنتی ہیں کہ ہندوستان کی عورتیں پڑھنا لکھنا نہیں جانتیں اور حلیۂ تربیت اور زیور تعلیم سے بالکل برہنہ ہیں تو ان کو ایسا ہی تعجب ہوتا ہے اور کمال نفرت اور کمال حقارت ان کے خِیال  میں گزرتی ہے’‘(صفحہ 24مکاتیب سر سید مشتاق حسین )۔

مسلم ممالک کی تعلیمی صورتحال:

سرسید احمد خاں نہ صرف یہ کہ یورپ کے تعلیمی صورتحال سے متاثر تھے اور اسے ہی رول ماڈل مانتے تھے بلکہ ان کے پیش نظر روم و مصر اور دیگر مسلم ممالک کی تعلیمی صورتحال بھی تھی، جہاں بلاتفریق صنف تعلیم کو فروغ دیا جا رہا تھا اور وہاں کے لوگ تمام علوم و فنون میں اپنے آپ کو آراستہ و پیراستہ کرکے ترقی کے منازل طے کررہے تھے سرسید انھیں خطوط و نقوش کو یہاں بھی رواج دینا چاہتے تھے، ان کے اس پہلو کو اس خط میں دیکھا جا سکتا ہے، ’’روم ومصر دونوں  میں روز بروز تعلیم کی ترقی ہے، عورتیں بھی روزبروز زیادہ پڑھی لکھی ہوتی جاتی ہیں، مصر کی ایک مسلمان لڑکی کا  میں  نے ذکر سنا کہ سوائے عربی زبان کے جو اس کی اصلی زبان ہے اور جس  میں وہ نہایت فصاحت سے لکھتی پڑھتی ہے فرنچ زبان بھی نہایت خوب بولتی ہے اور لیٹن اس قدر جانتی ہے کہ جو مضمون یا شعر اس کے سامنے رکھا جاوے اس کو پڑھ لیتی ہے اور مضمون سمجھ لیتی ہے اس کے بھائی نے فرانس  میں تربیت پائی تھی جب وہ اپنے گھر گیا تو اس کی بہن نے جس کو پڑھنے بہت شوق تھا اور اپنے کنبہ کے بزرگوں سے اس نے اپنی زبان عربی  میں بہت کچھ پڑھا تھا اپنے بھائی سے فرنچ اور لیٹن سیکھ لی’‘(صفحہ نمبر 29/30مکاتیب سرسید مشتاق حسین )۔

جدید تعلیم کی تحریک:

سرسید کی تعلیم گرچہ قدیم روایتی اندامیں  ہوئی تھی مگر ان کی فطرت جدت پسند واقع ہوئی تھی، قدرت کی طرف سے ان کو دور اندیشی ودیعت کی گئی تھی، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی جدید فطرت سے احباب اور قوم کومزین کرنا چاہتے تھے جس میں دیگر چیزوں کے ساتھ جدید تعلیم پر کافی زور تھا، مخالفتوں کے باوجود ہمیشہ ان کی کوشش یہ رہی کہ ان کی قو م اپنی مذہبی تعلیمات کے ساتھ وہ تمام علوم حاصل کرے جن کو جدید علوم سے تعبیر کیا جاتا ہے، ایسا نہیں کہ ان کے نزدیک وہ قدیم علوم جو مدارس میں پڑھائے جاتے ہیں وہ بے بنیا داور غیر اہم ہیں بلکہ صرف ان پر اکتفا کرنا عالمی تقابل میں پچھڑنے کے مترادف تھا، وہ نہیں چاہتے تھے کہ مسلم قوم اقوام عالم میں اپنی کم علمی کی وجہ سے پستہ قدی کا شکار ہوں، ا س لیے ان سے اسی وقت تعلیمی اقدام میں جو کچھ بن سکا کیا، سائنٹفک سوسائٹی، سفر لند، تہذیب الاخلاقاور محمڈن اینگلو اورینٹل کالج وغیرہ تمام اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔

1857 کے بغاوت کے بعد سرسید نے مسلمانوں کے مفادات کی بڑی جر ات سے وکالت کی، ان کا اہم ترین کارنامہ ان کی تعلیمی کوششیں ہیں، سرسید کا نقطۂ نظر تھا کہ مسلم قوم کی ترقی کی راہ تعلیم کی مددسے ہی ہموار کی جا سکتی ہے انہوں نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ جدید تعلیم حاصل کریں اور دوسری اقوام کے شانہ بشانہ آگے بڑھیں، انہوں نے محض مشورہ ہی نہیں دیا؛بلکہ مسلمانوں کے لیے جدید علوم کے حصول کی سہولتیں بھی فراہم کرنے کی پوری کوشش کی، انہوں نے سائنس، ادب اور معاشرتی علوم کی طرف مسلمانوں کو راغب کیا، انہوں نے انگریزی کی تعلیم کومسلمانوں کی کامیابی کے لیے زینہ قرار دیا تاکہ وہ دوسری قوم کے مساوی معاشرتی درجہ حاصل کر سکیں، دیگر تحریروں کے علاہ خطوط میں بھی ان کے تعلیمی نظریات کو جا بجا دیکھا جا سکتا ہے۔

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.