حسین بن منصور حلاج اور سد ھا رتھ میں فکر ی مماثلت:  تحقیقی و تنقید ی جا ئز ہ

Abstract:

The Critical Analysis regarding Comparison of Intellectual Leitmotifs of Hussain Bin Mansoor Hillaj and Siddhartha

Novel Dasht-E-Soos is comprised of Hussain’s life while novel Siddhartha discusses the life of Gotham. Both the novels are about the matchless personalities of history mysticism/spiritualism of God, existentialism human beings, the relation between society and universe, spiritual and mental anxiety and the quest of truth under the owthemticity of metaphysical experiences are the subjects of both novels. This research article critically analysis regarding compersion of intellectual lietmotifs of Hussain Bin Mansoor Hillaj and Siddhartha, the heros of these novels.

دشتِ سُو س اور سد ھا رتھ کے مر کز ی کر دا ر وں حسین بن منصو ر حلاج اور سد ھا رتھ میں مو ا فقت کا تنقیدی مطا لعہ مند ر جہ ذ یل ہے-:

۱۔جذبے کی صداقت:

’’دشتِ سُوس‘‘ کاحسین بن منصور حلاج اپنے جذبے کی صداقت میں کوئی ثانی نہیں رکھتا۔ وہ اگر چاہتا تو دربار سے جڑارہ کر ہر طرح کے فوائد حاصل کر سکتاتھالیکن اس نے خلیفہ کاقرب حاصل ہونے کے باوجود دربار کی آسائشات سے بھری زندگی کوچھوڑ کر صوفیا کرام کی خانقاہوں اورمدارس کاانتخاب کرکے مجاہدات اور نفس کشی کی ریاضتوں سے پُر ایک مشکل زندگی کاانتخاب کیا۔ حسین راہ حق کاوہ مسافر ہے کہ جو اپنی منزل کے حصول کے لیے دنیاومافی ھا سے بے خبر ہوکر جدوجہد جاری رکھتاہے۔ اسلوب احمدانصاری لکھتے ہیں:

’’ حسین بن منصور کامعاملہ سب سے الگ او رنرالاتھا۔ وہ عبادات میں بھی خشوع وخضوع اورغلو کے ساتھ مستغرق رہتاتھا اور اس دنیاومافی ھا سے بے خبر اور بے نیاز ہوجاتاتھا اور دوسری طرف اس کانعرہ انالحق اس کے جسم و جان کو الہتاب میں جھونک دیتاتھا۔یہ ہر لمحہ اس کی زبان پر جاری رہتا اور اس کی رگ رگ میں اور نس نس میں اترا ہوتاتھا۔یہی ا س کی محیرالعقول روحانی قوت کاسرچشمہ تھا۔‘‘(۱)

حسین حق کو خود پر ظاہر ہونے کی ہمہ وقت دعائیں کرتارہتا۔اس کی پیاس شدید تھی اور جذبے جو ان اور خلوص سے بھرے ہوئے تھے۔ وہ ایک ایساسوالی تھاجس کے سوال میں شدید طلب اور حق کے لیے شدید محبت تھی۔

’’ وہ جبل رحمت پر بیٹھا رہتا اور سوالی ہوتا۔ اے نورحق! مجھ پر ظاہر ہو۔ اے نور حق مجھ پر ظاہر ہو۔ اے رب کعبہ مجھ پر منکشف ہو۔جیسے ایک ذرۂ ناچیز آفتاب کوپکارے۔ اپنے آفتاب ہونے پر دلیل دے۔حسین تم کہیں کے نہ رہے۔ ایں ہمہ رفت و آں ہم رفت۔‘‘(۲)

سدھارتھ بھی حسین کی طر ح جب راہ حق کا مسافر بنتا ہے توایک پر آسائش زندگی چھوڑ کر تکالیف وآلام کو گلے لگالیتا ہے۔ وہ ایک برہمن زادہ ہوتے ہوئے زندگی کے ہرسکھ کو بڑے قریب سے دیکھتاہے۔ اس کے بعد اس کی زندگی مجاہدوں اور ریاضتوں کے طویل اور کٹھن مراحل سے گزرتی ہے:

’’ سدھارتھ تپسیا کرنے لگا۔ وہ سخت گرمی میں پیاس اور درد کو برداشت کرتا ہوااس وقت تک چپ چاپ کھڑارہا جب تک پیاس اور درد کااحساس ختم نہیں ہوگیا۔وہ بارش میں بھیگتارہا۔ اس کے بال پانی میں تربہ تر ہوگئے اور ان میں سے بوندیں ٹپکنے لگیں۔ٹھٹھرتے کندھوں، لرزتے کولہوں اور پیروں پر۔ پھر بھی وہ کندھوں اور پیروں کے انجماد تک کھڑابھیگتارہا۔ وہ کانٹوں کی سیج پر لیٹ گیا۔ جسم سے خون رسنے لگا۔ زخم ناسور ہوگئے، پھر بھی وہ کھڑا رہاجب تک کہ خون بہنابند نہ ہوگیا۔ ٹیس ختم نہ ہوگئی۔‘‘(۳)

۲۔بغاوت:

’’دشتِ سُوس’’ کاحسین بن منصور حلاج کسی مرشداور ہاد ی کی ضرورت سے ماوراتھا۔ کئی امور میں وہ اپنے اساتذہ سے بھی آگے تھا، وہ معرفت اور راہ سلوک کے رازوں سے آگاہی حاصل کرناچاہتاتھا۔ اسے اسم اعظم جاننے کی بھی خواہش تھی۔وہ اپنے اساتذہ کی غلطیاں پکڑتاتھا۔ اسے روایتی درس، علم اور سوچ سے آزادی کی خواہش تھی۔ وہ آسان اور مخصوص نظریات کے گرد بسر ہونے والی زندگی کوناپسند کرتاتھا۔ اس کی پیشانی پر جلنے کاداغ اس کی بغاوت کانشان تھا۔اس نے منع کرنے کے باوجود گنج نامہ چرایا کیونکہ وہ ہر حال میں اس کے رازوں سے واقفیت حاصل کرناچاہتاتھا:

’’قرب الہٰی کاخواہاں شخص روح کوشق کیے بناقرب حاصل نہیں کر سکتا، مگر اس راستے  میں دوہزار آگ کے پہاڑ اور ایک ہزار ہلاکت خیز بحربیکراں ہیں جو ان دونوں سے خائف ہوۓ بغیر راستہ طے کرنا چاہے وہ اس  میں قدم رکھے۔ زمین کے مخفی خزانے اور ان کے اسرار ،ابلیس کے انکار سجدہ کا اسرار فرشتوں کے سجدہ کا اسرار، روح کے شق کا اسرار۔ قرب الہی کا اسرار۔ نفس کے شق کا اسرار۔ اسے یہ تو معلوم ہوگیاتھا کہ اسرار کیاہیں مگر وہ کیاہیں اس کی خبر اسے نہیں ہوسکی تھی۔ اس نے گنج نامہ کے سارے مطالب نقل کر لیے تھے۔‘‘(۴)

ناول کامرکزی کردار حسین مختلف مواقع پر بغاوت کے خیالات کاپرچار کرتانظر آتاہے:

’’جب تم مجھے دیکھتے ہو توگویا اسے دیکھتے ہو۔‘‘(۵)

’’ تم میراطواف کر لو۔ سات بار میرے گرد چکر لگالو۔‘‘(۶)

’’ ابلیس اور محمدؐ کے سوا اور کسی کاخاص مقام نہیں۔’‘(۷)

’’یہ کیا لکھ رہے ہو ؟ اقطع نے اس کی طرف دیکھ کر سوال کیا؟ قرآن حکیم کاجواب حسین نے سراٹھائے بناجواب دیا۔‘‘(۸)

حسین بن منصور حلاج اور سدھارتھ دونوں اپنے اساتذہ اور مذہبی رہنمائوں کی تعلیمات اور عقائد پر اندھا یقین کرنے کے بجائے اپنی ذات کی تلاش کے سفر پر نکلتے ہیں۔دونوں اس دنیامیں  رہتے ہوئے ہر مشکل کو برداشت کرکے آگے کی طرف سفر جاری رکھتے ہیں۔ دونوں سخت مذہبی انتشار کاشکار ہوتے ہیں اور اپنے علما کی تعلیم پر شک کااظہار کرتے ہیں۔دونوں خود اپنی کوشش سے اپنے مقصدتک پہنچنے یااس کی تلاش میں فناہوجانے کے عزم کااظہار کرتے ہیں۔

سدھارتھ گوتم بدھ کی تتھاگت کی تعلیم سے متاثر ہونے کے باوجود اس کے بعض پہلوئوں سے متفق نہ ہونے کے باعث مکمل اطاعت قبول نہیں کرتا اور اپنے لیے خود راستہ بناکربغاوت کرتاہے:

’’ایک شخص ملاصرف ایک شخص جس کے سامنے آنکھیں خودبخود جھک گئیں، سدھارتھ نے سوچا، اب کسی کے بھی آگے آنکھیں نہیں جھکائوں گا۔ اب کسی کی نصیحتیں مجھے متاثر نہیں کر سکیں گی۔ جب اس آدمی کی نصیحتیں ایسانہ کر سکیں۔’‘(۹)

۳۔تحصیلِ علم کی پیاس:

’’دشتِ سُوس‘‘ کاحسین علم کی پیاس رکھتا ہے جس کے لیے وہ دیار غیر کاسفر اختیار کرتاہے۔مختلف صعوبتیں برداشت کرتاہے۔ حسین کاآبائی علاقے سے تستر، تستر سے بصرہ وہاں سے دوحرقہ، پھر بیضا، اس کے بعد بغداد، حجاز اور مختلف علاقوں کاسفر کرنا، سہل بن عبداللہ تستری، عمر بن عثمان مکی، ابویعقوب اقطع، حضرت جنید بغدادی، حضرت شبلی جیسی نابغہ روز گار ہستیوں سے فیض حاصل کرنااس کی تحصیل علم کی پیاس کی طر ف اشارہ کرتاہے۔ علم کی آتشِ شوق حسین کو مدام حالت اضطراب میں رکھتی ہے لیکن یہ امر بہرحال قابل غور ہے کہ حسین جوہمہ وقت حالت اضطراب وکشاکش میں  الجھارہتاہے کہیں سے اپنے لیے تسکین کاکوئی پہلو نہیں پاتا تو وہ علم و آگاہی کی ان حدود سے باہر نکال کر وسیع تر فضائوں میں پرواز کرناچاہتاہے کیونکہ وہ خالق حقیقی سے براہِ راست ربط و اتصال کاخواہاں ہے۔ حسین حقیقت مطلقہ کے بارے میں جاننا چاہتاہے۔ا س کی جب کہیں سے تسلی وتشفی نہیں ہوتی تووہ ان سوالات کے جوابات حاصل کرنے کے لیے خود غور وفکر کرتاہے۔ وہ ان اسرار ورموز کاعلم حاصل کرناچاہتاہے جو اس کے اور حق کے درمیان حائل ہیں۔حسین کی تحصیل علم کی اس پیاس کو اس کے دشمن غلط رنگ دے کر اس کے خون کے پیاسے ہو کر اپنی پیاس بجھانے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ حسین عمار سے ہونے والے مکالمے میں حامد بن عباس کے بارے میں بتاتاہے:

’’سجدے سے سراٹھاکر حسین نے کہا: جو پیاس خون سے بجھ سکے گی اسے آب زمزم نہیں بجھاسکتا۔‘‘(۱۰)

حسین مختلف مواقع پر علم سے اپنی محبت کااظہا رکرتاہے۔ ا س پر تنقید کے نشتر بھی برسائے گئے کہ وہ شعبدہ باز ہے اور لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے روحانیت کالبادہ اوڑھ لیتاہے۔ حسین تو راہ حق کامتلاشی تھا جس کی طلب وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جارہی تھی:

’’حسین نے اپنے جھومتے ہوئے سر کو سنبھالنے کی کوشش  میں کہا:  میں ذاتِ الہٰی  میں فناہوناچاہتاہوں۔نظارگی  میں میری ہوشیاری اور سرمستی حائل ہے۔‘‘(۱۱)

 ’’حسین کے اندر کے سپاہی نے اس کے جامے  میں چھپے دربار دار نے سراٹھایا۔  میں ریاکار نہیں راہ طلب حق کامسافر ہوں۔’‘(۱۲)

سدھارتھ اور حسین بن منصور حلاج دونوں علم کی پیاسی شخصیات ہیں۔علم کامطلب ہے جاننا، دونوں عظیم ہستیاں اپنی ذات کی جان پہچان کے لیے راہ حق کی مسافر بنتی ہیں۔روحانیت کی بنیادعلم اورعمل پراستوار ہے۔شعور ذات اور شعور زماں صرف علم کے ذریعے ممکن ہے۔علم ہی وہ واحدہتھیار ہے کہ جس کوحاصل کرکے انسان آگہی حاصل کرتاہے اور یہی شے اسے جانوروں سے ممتاز کرتی ہے۔

سدھارتھ کے حصول علم کی خواہش اسے باپ کی نظروں میں بھی اہم مقام دلارہی تھی:

’’سدھارتھ کی صلاحیت اور حصول علم کی شدیدخواہش دیکھ کر باپ مسرور ہوا۔‘‘(۱۳)

۴۔مشکل پسندی:

’’دشتِ سُوس‘‘ کاحسین بن منصور حلاج مشکل پسند اور حالات کامقابلہ کرنے والاہے۔ وہ نتائج کی پرواہ کیے بغیراپنی سوچ کوعملی جامہ پہنانے والاایک بہادر شخص ہے۔ گنج نامہ چرانے کے بعد وہ اس کی سزا بھی بھگتنے کے لیے تیارہے۔ ’’انالحق‘‘ کانعرہ مستانہ لگانے پر مثلہ ہونے کاامتحان ہو یا حامد بن عباس کی ذاتی دشمنی کے نتیجے میں مصائب و آلام کاسامنا وہ ہر مشکل کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جاتاہے۔ حامد بن عباس حسین سے اغول کی محبت کے دکھ میں اپنے رقیب سے انتقام میں ہر حد پھلانگ جاتاہے۔ایسے میں حسین قوت اور طاقت رکھنے کے باوجود پابند سلاسل رہتاہے:

’’کیاتمہیں رہائی کی ضرورت نہیں۔عمار نے پوچھا ، میں جس کی قید میں  ہوں وہ مجھے نہایت درجے عزیز ہے۔اس کی ایک نگاہ کے لیے  میں اس زندگی کو ہی نہیں ایسی سینکڑوں زندگیوں کوقربان کر سکتاہوں۔میری ہستی کیاشے ہے۔‘‘(۱۴)

شغب کی فرار کی پیش کش کے جواب میں وہ شہادت کے مرتبے پر فائز ہونے کوترجیح دیتاہے۔وہ اپنی فطرت میں موجود مشکل پسندی کی بدولت مشکلات کے سامنے سینہ تان کر کھڑاہوجاتاہے:

’’ شغب نے کہایاشیخ !  میں نے آپ کے یہاں سے فرار کامنصوبہ بنایاہے۔اگر آپ صاد کریں تو آج ہی رات نکل جائیں۔ام جعفر۔ شہادت کی رات برسوں  میں صدیوں  میں قرنوں  میں  ایک رات ہوتی ہے۔ کیااسے ٹھکرا دیاجائے۔‘‘(۱۵)

اسی طرح آقائے رازی کے فرار کے منصوبہ میں بھی وہ مثبت جواب نہیں دیتا حالانکہ اس وقت بھی جیل کی سلاخیں اپنی جگہ سے ہٹ جاتی ہیں:

’’ حسین نے سلاخوں کی طرف دیکھا جوراستے سے ہٹ گئیں۔وہ دونوں پاس کھڑے تھے ، میں جس کی قید میں  ہوں وہ مجھے رہاکرے تو، اس نے کہا۔‘‘(۱۶)

حسین اپنے ’’انالحق‘‘ نعرے کی پا دا ش میں سنگ باری سہتا ہے، کوڑے برداشت کرتا ہے، پائوں کٹواتا ہے یہاں تک کہ اس کی ایک ایک نس کاٹنے کاحکم دیاجاتاہے وہ ان تمام مظالم کابڑی خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتاہے کیونکہ مشکل پسندی اس کے خون کاحصہ ہے۔ حسین کی طر ح سد ھا ر تھ کی شخصیت میں بھی مشکل پسند ی کا و صف تھا۔وہ اپنی زندگی کی مشکلات کے بارے میں  سوچتا ہے تو اس کے سامنے پوری تصویر آجاتی ہے:

’’’میری زندگی بھی کتنی عجیب ہے۔ اس نے سوچا، عجیب راہوں  میں بھٹکتارہا۔جب بچہ تھا تو دیوتائوں اور ریگیوں کے زیر اثر تھا۔ جوان ہوا تو عبادات  میں ، غور وفکر اور استغراق  میں لگارہا، برہم کی تلاش  میں تھا۔ آتما  میں  موجود غیر فانی وجود کی عبادت کرتاتھا۔جب جوان تھا تو آتما کی صفائی کی طرف بھی راغب ہوا۔ جنگلوں  میں رہا۔گرمی اور دوسری مشکلات برداشت کی۔بھوک پر عبور حاصل کیا۔اپنے وجود پر فتح حاصل کی۔‘‘(۱۷)

۵۔حقیقت پسندی:

’’دشتِ سُوس‘‘ کے حسین بن منصور حلاج کی حقیقت پسندی بطور مثال پیش کی جاسکتی ہے۔ ناول میں کئی مواقع پر اس کی عملی تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔ حسین اس حقیقت کوپالیتاہے کہ راہ رسلوک کی منازل طے کرنے کے لیے دربار کی آسائشات کی قربانی دیناہوگی۔ ایک صوفی کا حکمرانوں یادربار سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ عمر بن عثمان مکی سے ہونے والے مکالمے میں وہ خود کودربار سے علیحدہ کرنے او ران کے درس میں شمولیت کافیصلہ کرتاہے:

’’ میں  دربار کو چھوڑ دوں گا۔ آپ مجھے اپنے سائے  میں رہنے کی اجازت دیں۔ اس کی عاجزی دیدنی تھی۔ اس کاساراوجود پانی بن کرخاک بن کر، ہوا بن کر ان کے قدموں  میں  تھا۔‘‘(۱۸)

حسین اپنے آپ کو روئی دھننے کے کام سے بھی علیحدہ کر لیتاہے۔ دنیا کی طلب چھوڑ کر وہ تصوف کے راستے پر چل پڑتاہے حالانکہ اس کے روئی دھننے میں غیبی مدد بھی شامل ہوتی تھی:

’’ اس کے روئی دھننے کی رفتار عام لوگوں سے بہت زیادہ تھی۔ لوگ کہتے وہ خود بیٹھارہتاہے سب کام دست غیب سے

 ہوتاہے۔‘‘(۱۹)

حسین اپنے مخالفین کو معاف کر دیتاہے جولوگ اس کے خلاف فتویٰ دیتے ہیں اور جو اس پر سنگ باری کرتے ہیں وہ ان سے کوئی عدوات نہیں رکھتا ہے اسے اس بات کاادراک ہے کہ راہ تصوف میں وہ جس منزل پر پہنچ چکاہے اور اللہ تعالیٰ نے غیب کے جوپر دے اس کے سامنے چاک کر دیے ہیں دوسرے ان کا تصوربھی نہیں کر سکتے۔ یہ خاص لطف و کرم اس کی ذات پر ہے۔ حق کی جو تفہیم اسے ہوئی ہے وہ شاید دوسروں کامقدر نہیں ہوسکتا اس لیے وہ اپنے مخالفن کوبے قصور قرار دیتاہے کیونکہ انھیں اس کی حقیقت اور بلندمقام کااندازہ نہیں ہے۔اسے تو شبلی کے پھول مارنے پر زیادہ تکلیف ہوتی ہے کہ ان کا رویہ دوسرے صوفیہ واکابرین سے مختلف ہے۔ اس کے نزدیک شبلی کاسنگ کی بجائے پھول مارناحقیقت کے برعکس ہے۔ شبلی کو خلق خدا کے ساتھ بالخصوص اپنے ساتھی مشائخ کے ساتھ کھڑا ہوناچاہیے تھاکیونکہ یہی اس کامقدر تھا اور مقدر کے لکھے کو کوئی ٹال نہیں سکتا:

’’کیایہ سنگ باری کفر کے خلاف نہیں ہے کہ تم لوگ اس  میں حصہ نہیں لیتے۔ قاضی نے سنگ ریزہ شبلی کے ہاتھ  میں تھمادیا۔ یاشیخ یہ کفر کے خلاف ہے۔ کلمہ اناالحق اور اس کاکہنے والاسارے فقہا کے فتویٰ سے قابل گردن زنی قرار پایاہے۔ آپ بھی دیوانے پر پتھر پھینکیں۔ شبلی نے پھول اٹھایا۔ اس کواپنے ہاتھ  میں تولا۔نہایت آہستہ سے بازولہرایا اورحسین بن منصور حلاج کی طرف اس کی پرواز کو دیکھتے رہے۔‘‘(۲۰)

حسین ان افراد کو کہ جو اس کے روحانیت میں مقامِ بلند کی حقیقت سے ناآشنا ر ہتے ہیں کو موردالزام ٹھہرانے کی بجائے ان کے نہ جاننے کی اصلیت سے آگاہ ہوکر کوئی بھی غلط امید وابستہ کرنے کی بجائے حقیقت پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے نہ صرف انھیں معاف کردیتاہے بلکہ جو ظلم وستم وہ حسین پر روارکھتے ہیں انھیں ہنسی خوشی جھیلتا ہے کیونکہ وہ اس معاملے میں بھی حقیقت پسندی کاثبوت دیتے ہوئے جانتاہے کہ نعرہ’’اناالحق‘‘ کی حقیقت سے ناآشنا لوگوں کی طرف سے کس قدر شدید اور جان لیوا ردعمل آسکتاہے۔’’دشتِ سُوس‘‘ کا حسین اور ’’سدھارتھ‘‘ کاسدھارتھ دونوں حقیقت پسند ہیں۔ وہ دونوں لوگوں اور حالات سے زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کرتے۔ اس کے ساتھ ساتھ جو لوگ انھیں نہیں سمجھتے وہ انھیں موردالزام نہیں ٹھہراتے۔

سدھارتھ مایا کے جال میں پھنس گیا اور دنیاوی لذتوں میں پڑ کر عیاشی، کاہلی اور قابل نفرت عادات میں گرفتارہوگیا۔اس نے دولت کمائی اور گنوائی اوریوں اس کے دل سے غریبوں کی امداد کی خواہش بھی جاتی رہی، قرض داروں کے تاخیر کرنے پر وہ جھلااٹھتا اوراسے ذرہ برابر ندامت نہ ہوتی تھی، دولت بڑھانے کے لیے وہ جواری بن گیا تھا۔ وہ طوائف کی زلفوں کااسیر ہوکراس کے جسم سے کھیلتارہا، جس کے نتیجے میں وہ ناجائزبیٹے کاباپ بن گیا۔وہ زندگی کے بھنور میں مکمل پھنس چکاتھا۔ ایک اسپنج کی طرح وہ دنیا کی غلاظت کواس وقت تک جذب کرتاگیا جب تک کہ وہ پوری طرح بھیگ نہ گیا۔ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود بھی وہ فطرت کی طرف لوٹ آتاہے کیونکہ وہ زندگی کی حقیقت کوسمجھ جاتاہے کہ یہ خواہشات، یہ عیش وعشرت اسے مسرت اور تسلی نہیں دے سکتی اور یہ کہ یہ زندگی فانی اور ناقابل اعتبار شے ہے یہی بات وہ اپنے دوست گووندا سے بھی کہتاہے:

 ’’ یادرکھوگووندا دکھائی دینے والی دنیافانی ہے۔ہمارے کپڑے اور بالوں کی تراش بھی فانی ہے، ہمارے جسم بھی فانی ہیں۔’‘(۲۱)

۶۔نظریات و خیالات کی اثر پذیری کے حوالے سے:

حسین بن منصورحلاج اپنے مراقبات، گوشہ نشینی، عبادا ت میں خشوع وخضوع، نفس کشی اور مجاہدات کی بدولت لوگوں میں مقبول ہوگیاتھا۔ وہ قابل احترام گردانا جاتا تھا۔ دوسروں کی حاجت روائی کے سلسلے میں مستعدی اور خلوص کی وجہ سے ایک زمانہ اس کے نظریات و خیالات کامعتقد تھا۔ جہاں حسین کے دشمن اور مخالفین موجود تھے وہاں ا س کی ایک آوازپر اپنی جان نثار کردینے والوں کی بھی کمی نہ تھی۔اس کے رسائل اور خطوط لوگوں نے اپنے گھروں میں محفوظ کیے ہوئے تھے۔

’’ بڑھیا کے پاس تھیلے  میں چند خطوط تھے جو اسے ترکستان سے ابن منصور نے لکھے تھے‘‘۔(۲۲)

سہل بن عبداللہ تستری، حضرت عمربن عثمان مکی، جنیدبغدادی، شبلی کا آپ کے تصوف میں بلندمقام کااقرار، ابوعمر کااپنے فیصلے پر نظرثانی کافیصلہ، شغب اور سیاوش کارہائی میں کردار ادا کرنے کافیصلہ، حبشی اور پتھروں کابھی ’’اناالحق‘‘ پکار اٹھنا، سزاپر لوگوں کی متضاد آرا، مثلہ اور دار کی سزائوں کے باوجود حامد بن عباس کو قرار نہ ملنا اور سب سے بڑھ کرمحمی کے پوتے حسین کاخود آتشکدہ بن کر اناالحق اناالحق پکارنااور ہجوم کا برابر ساتھ دینا اس کے نظریات کی دلوں پر حکمرانی کامنہ بولتاثبوت ہے:

’’ کٹے ہوئے سربریدہ لاشے کو، ان مثلہ کئے ہوئے بازئوں اور پائوں کو اس ڈھیر پر آگ لگادی۔ ہجوم برابر نعرے لگا رہاتھا اور واویلا کر رہاتھا اور ہوا میں  شعلے اور چنگاریاں اور ذرے اناالحق پکار رہے تھے۔‘‘(۲۳)

’’دشتِ سُوس‘‘ کا حسین اور’’ سدھارتھ’’ کاسدھارتھ دونوں اپنے اپنے نظریات وخیالات میں مخلص تھے۔ انھوں نے زندگی کی حقیقت کاراز بڑی ریاضت، محنت، مجاہدوں اور تپسیا کے بعدحاصل کیا تھااس لیے ان کے الفاظ دوسروں پر اثر کرتے تھے۔ دونوں کے نظریات کی اثر پذیری دونوں ناولوں کاخاصہ ہے جہاں دشتِ سُوس کے حسین کے چاہنے والے نظر آتے ہیں تو وہاں سدھارتھ کے فلسفے کی سچائی گووندا کے سدھارتھ کے بارے میں خیالات سے لگائی جاسکتی ہے:

’’…  میں دیکھ رہاہوں کہ تم نے سکون حاصل کر لیا ہے۔  میں  یہ بھی محسوس کرتاہوں کہ  میں اسے نہیں حاصل کر سکا۔ مجھے ایک بات اور بتائو میرے محترم دوست ایسی کوئی بات بتائو جس پر غور وفکر کر سکوں۔جسے  میں سمجھ سکوں، میراراستہ اکثر مشکل اور تاریک رہاہے۔‘‘(۲۴)

’’دشتِ سُوس‘‘ کے حسین کے جس قدر مخالفین تھے اس قدر ان لوگوں کی بھی کمی نہیں تھی جواس کے نظریات سے متفق تھے اور اس کے روحانی مقام سے بھی واقف تھے۔ حسین کے بارے میں دشتِ سُوس میں ایسے کئی مقامات نظر آتے ہیں جہاں اس کے نظریات کی عظمت کی گواہی بھی ملتی ہے۔

۷۔معاملہ فہمی:

’’دشتِ سُوس‘‘ کاحسین معاملہ فہمی میں بھی اپنی مثال آپ ہے۔ اگر وہ چاہتا تو ناول میں کئی مواقع پر انتشار پیداکر سکتا تھا لیکن اس کانظریہ امن و آتشی ہے۔وہ تخریب کی بجائے تعمیر کاقائل ہے وہ دوستوں کے ساتھ ساتھ دشمنوں کو بھی گلے لگاتا ہے۔ بڑی فراخ دلی سے اپنے مخالفین کومعاف کر دیتاہے۔وہ عشق حقیقی کے ساتھ ساتھ عشق مجازی میں بھی جان سے گزر جانا توپسند کر لیتاہے لیکن محبوب کو رسوا کرنااس کے شایان شان نہیں۔ اغول سے اس کاعشق انتہائی بلندسطح پر تھا لیکن جب منصور اس سے اس بابت پوچھتا ہے تووہ باپ کے سامنے بھی اس کااظہار کرنامناسب نہیں سمجھتا:

’’منصور نے ایک عاشق زار باپ کی طرح حسین کادل ڈوبتامحسوس کیا۔ اس کی زمانہ شناس نگاہوں نے اس مرض کو بھی شناخت کر لیا۔ اپنے بچے کے چہرے پر بکھری زردی اور ناامیدی نے اس کی اپنی غم آشناروح کو نہایت مضطرب کیا…جسے حسین نے ہر فانی نگاہ سے چھپاکر بالکل محفوظ رکھاتھا۔‘‘(۲۵)

ہرمن ہیسے اور جمیلہ ہاشمی نے اپنے مرکزی کرداروں میں معاملہ فہمی کی صلاحتیں بھی رکھی ہیں۔ حسین اور سدھارتھ کے نظریات میں معاملہ فہمی بخوبی دیکھی جاسکتی ہے۔ دونوں کردار نہ صرف اپنی سوچ و فکر کسی پر تھوپتے نہیں ہیں بلکہ دوسروں کی رائے کابھی احترام کرتے ہیں۔ سدھارتھ اپنے بیٹے کی محبت میں سرتاپا ڈوباہوا تھا لیکن جب واسودیواسے سمجھاتا ہے کہ تم نے باپ کوچھوڑ کر اپناراستہ خود بنایاتھا تم اس سے زبردستی کرکے اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتے ہولہٰذا اسے اکیلاچھوڑ کر آزاد کردو تو وہ اس حقیقت کو پالیتاہے اور معاملہ فہمی کاثبوت دیتے ہوئے بیٹے کی جدائی کوقبول کر لیتاہے:

’’… اس نے پھر غور کیا تواحسا س ہوا کہ وہ بیٹے کے لیے پریشان نہیں تھا اور اس کامن جانتاتھاکہ نہ تووہ مصیبت  میں پھنسا ہے اور نہ ہی اسے لوٹایا جاسکتاہے پھر بھی وہ لگاتار آگے بڑھتا گیا۔ اسے بچانے کی فکر  میں نہیں بلکہ اسے ایک بار آخری بار ہی سہی دیکھ پانے کی خواہش  میں وہ شہر کی حد تک جاپہنچا۔‘‘(۲۶)

حسین حامد بن عباس کے مظالم کاجواب صبر سے دیتاہے۔ وہ چاہتاتو دربار کااثر استعمال کرکے نہ صرف اپنادفاع کر سکتاتھا بلکہ حامد بن عباس کے لیے مشکلات بھی پیداکرسکتاتھا۔حسین نے جیل سے فرار کرانے کے تمام منصوبوں کو رد کر کے حالات و واقعات کو قابو میں رکھا۔ اس نے اپنے معتقدین کو بغاوت پر نہیں اکسایا۔ اس نے اپنے علم اور عمل سے ہر سوالی کو فیض پہنچایا۔ حسین نے ہمیشہ اپنے والد منصور کے ہر حکم پر لبیک کہا۔ اپنے اسا تذہ کی ہمیشہ دل آزاری کرنے سے گر یز کیا۔ اپنے خلاف فتویٰ دینے والوں کو بھی دوست قرار دیا اور سزا پر عمل درآمد کرنے والوں کو معاف کر دیا بلکہ سزا پر خوشی کا اظہار کیا کہ اب اس کے اور حق کے درمیان کی آخری دیوار بھی گرنے والی تھی۔ موت کے دروازے پر دشتِ سُوس کاحسین معاملہ فہم شخصیت کے طور پر سامنے آیا۔اس کے مخالفین کو بھی احساس ہوگیا تھاکہ اسے سزاسنا کر اس پر ظلم عظیم کیاگیاہے۔ناول میں  قاضی ابوعمر اس کااظہا ریوں کرتے ہیں:

’’ میں  اس سے ملاہوں۔مجھے تو حُب جاہ اور حُب دنیادونوں میں سے ایک خواہش بھی اس  میں نظرنہیں آئی۔ وہ تو موت کاطلب گار اور اس سے محبت کرنے والاہے۔ وہ تو آزاد آدمی ہے۔آزاد آپ سمجھتے ہیں نا۔پھر تھوڑی دیر خاموش رہ کر قاضی ابوعمر نے کہا۔ اس کاایک قدم عقبیٰ پر ہے اور ایک دنیاپر، حامد اسے کسی بات کی پرواہ نہیں اس لیے  میں  سمجھتاہوں کہ تم اس کی موت کو قریب لاکر اس کی آرزوپوری کرو گے اور اس کاخون ناحق تمہاری گردن پر ہوگا۔ وہ چپ ہوگئے۔‘‘(۲۷)

حسین نے کسی کو بغاوت پر نہیں اکسایابلکہ ہمیشہ معاملہ فہمی سے کام لیالیکن زبانِ خلق کو نقارہ خداسمجھاتاجاتا ہے۔ ہر زبان اس کے بے قصور ہونے کی گواہی دے رہی تھی اور اس پر ظلم کرنے والوں کو دار پر کھینچنے کی آوازیں اٹھ رہی تھیں:

’’کون ہے اس قتل بے گناہ کااصل محرک کون ہے، لوگوں نے ایک دوسرے سے پوچھا لوگ گھروں سے نکل کر پل کی طرف بھاگ رہے تھے۔ دجلہ کے دونوں کنارے ہجوم خلق سے بے تاب لگتے تھے۔ بوڑھے سر ہلاکر کہتے تھے اس خون ناحق کی وجہ سے اب بغداد پر آفت آئے گی۔ہراساں عورتیں بے پردہ اپنے بچوں کو سینے سے چمٹائے نکل آئیں، کیا قیامت قائم ہوگئی تھی۔اس خون ناحق کے ذمہ دارکو دار پر کھینچو۔‘‘(۲۸)

۸۔عشق مجازی کے حوالے سے:

اغول بصرہ جانے والے قافلے کی نسطوری عیسائی سنہری بالوں اور نیلی آنکھوں والی ایک کنیز تھی۔ اگرچہ حسین اور اس کاساتھ عارضی نوعیت کاتھالیکن یہی وہ لمحہ تھا جسے مجاز اور حقیقت کی بجاطور پر کشمکش قرار دیاجاسکتاہے:

’’تم انسانوں  میں ذرادلچسپی نہیں لیتے؟ اس نے ہنس کر پوچھا۔ جب وہ ہنسی تو اس کے دانتوں کی سفیدی چاندنی  میں بڑی

 دلآویز تھی۔ وہ چپ رہاتو اس نے کہا۔ سب سے اعلیٰ مخلوق انسان ہے اور اگر خدا توفیق دے تو اس کوضرور غور سے دیکھو۔ ہوسکتاہے خداکاجلوہ کسی طور کسی چہرے  میں کسی سراپے  میں تمہیں دکھائی دے۔ حسین نے نگاہ اٹکاکر اس کی طرف دیکھا۔ اس کے بال زردی مائل سنہرے تھے۔ جیسے چاندنی ان  میں گندھی ہوئی ہو۔چہرہ اور آنکھیں بخدا اس نے ایسا حسن پہلے کبھی نہیں دیکھتاتھا۔‘‘(۲۹)

بقول ڈاکٹر سلیم اختر:

’’ یہ تعلق پہلے تعلق خاطر بنااور پھر تعلق روح۔ یوں کہ ایک دوسرے سے ملے بغیر بھی واقف حال رہے۔وہ جوکہاجاتاہے کہ مجاز حقیقت کی سیڑھی ہے تو حسین ایک ہی جست  میں مجاز کے مراحل طے کر گیا۔‘‘(۳۰)

’’دشتِ سُوس‘‘ کاحسین اغول سے ملاقات کے بعد عشق حقیقی کی اس منزل تک پہنچ گیا کہ جس کاتصور بھی محال ہے۔مجاز سے حقیقت کے اس انوکھے سفر میں حسین دنیائے تصوف کے لیے ایک راہنماتصور کیاجانے لگا:

’’ حسین کیا تم اتنے دیوانے ہوکہ تمہیں جان سے گزرنے کابھی خیال نہیں رازی نے کہا کیوں نہیں۔کیوں نہیں۔یہ جان ہی تو تھی کہ راہ  میں حائل تھی۔ اب  میں آزاد ہوں۔  میں  اور وہ یوں مل گئے ہیں جیسے شراب پانی  میں مل جاتی ہے۔ حسین حسین فاطمہ نیشاپوری نے اپنے جگر کوتھام کر کہا۔یہ کیاہے یہ تصوف ہے۔ راضی برضا۔ خوش۔ مستعد۔ اس کو پانے کی خوشی  میں دیوانہ۔‘‘(۳۱)

’’سدھارتھ‘‘ کاہیروسدھارتھ بھی کملاکی محبت  میں اپنی زندگی کے بیشتر ایام تج دیتاہے اسے صنف مخالف  میں ایک انجانی کشش محسوس ہوتی ہے۔وہ مجازی عشق کے خوشگوار تجربے سے گزر کر زندگی  میں رنگ اور سرور لے آتاہے:

’’سدھارتھ نے کہا: پیاری کملا! جب  میں باغ  میں تمہارے پاس آیاتھا تو وہ میری پہلی کوشش تھی۔  میں شہر کی حسین ترین عورت سے محبت کی تعلیم پاناچاہتاتھا۔‘‘(۳۲)

کملابھی سدھارتھ سے محبت کادم بھرتی ہے او راس کی محبت میں  گرفتار ہونے کااقرار کرتی ہے۔

’’سدھارتھ تم بڑے خوش نصیب نکلے تمہارے لیے دروازے کھلتے جارہے ہیں۔ یہ کیسے ہورہاہے؟ تم کوئی ساحر تو نہیں ہو۔‘‘(۳۳)

ہرمن ہیسے کے ’’سدھارتھ‘‘ اور جمیلہ ہاشمی کے ’’دشتِ سُوس‘‘ کے کرداروں میں جذبہ عشق اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ موجود ہے۔دونوں ہیرو جہاں حقیقی عشق کے اعلی تجربے سے گزرتے ہیں وہاں عشق مجازی سے بھی اپنی زندگیوں کومعطر کرتے ہیں یوں دونوں مجاز سے حقیقت تک کا سفر جذبہ محبت سے ہمکنار ہوکر کرتے ہیں۔ ایک کاراستہ اغول سے اور دوسرے کاکملاسے ہے۔سد ھا رتھ عشقِ مجا زی سے عشقِ حقیقی کو پا لیتا ہے۔ جس کا اقرار گو وندا یو ں کر تا ہے:

’’…  میں دیکھ رہاہوں کہ تم نے سکون حاصل کر لیا ہے۔  میں  یہ بھی محسوس کرتاہوں کہ  میں اسے نہیں حاصل کر سکا۔ مجھے

ایک بات اور بتائو میرے محترم دوست ایسی کوئی بات بتائو جس پر غور وفکر کر سکوں۔جسے  میں سمجھ سکوں، میراراستہ اکثر مشکل

 اور تاریک رہاہے۔‘‘(۳۴)

حو اشی

۱۔اسلوب احمدانصاری: اردو کے پندرہ ناول؛لاہور؛ مکتبہ قاسم العلوم؛س۔ن؛ص۳۵۹

۲۔جمیلہ ہاشمی:دشتِ سُوس:حسین بن منصور حلاج۔ ایک غنائیہ: لاہور؛ سنگ میل پبلی کیشنز؛ ۲۰۱۰ئ؛ص۱۹۴

۳۔ہرمن ہیسے: سدھارتھ(مترجم: یعقوب یاور کوٹی)؛ لاہور؛نگارشات پبلشرز؛ص۲۴

۴۔جمیلہ ہاشمی:دشتِ سُوس:حسین بن منصور حلاج۔ ایک غنائیہ: ص۱۷۱۔۱۷۲

۵۔ایضاً:ص۳۶۹

۶۔ایضاً:ص۳۹۳

۷۔ایضاً:ص۳۷۸

۸۔ایضاً:ص۳۲۵

۹۔ہرمن ہیسے: سدھارتھ(مترجم: یعقوب یاور کوٹی)؛ ص۶۱

۱۰۔جمیلہ ہاشمی:دشتِ سُوس:حسین بن منصور حلاج۔ ایک غنائیہ؛ص۴۴۹

۱۱۔ایضاً:ص۱۷۵

۱۲۔ایضاً:ص۱۷۶

۱۳۔ہرمن ہیسے: سدھارتھ(مترجم: یعقوب یاور کوٹی)؛ ص۱۳

۱۴۔جمیلہ ہاشمی:دشتِ سُوس:حسین بن منصور حلاج۔ ایک غنائیہ؛ ص۳۳۱

۱۵۔ایضاً:ص۴۷۷

۱۶۔ایضاً:ص۴۷۵

۱۷۔ایضاً:ص۹۵

۱۸۔ایضاً:ص۱۵۱

۱۹۔ایضاً:ص۱۸۰

۲۰۔ایضاً:ص۴۹۵

۲۱۔ہرمن ہیسے: سدھارتھ(مترجم: یعقوب یاور کوٹی)؛ ص۹۲

۲۲۔جمیلہ ہاشمی:دشتِ سُوس:حسین بن منصور حلاج۔ ایک غنائیہص۳۸۱

۲۳۔ایضاً:ص۵۰۲

۲۴۔ہرمن ہیسے: سدھارتھ(مترجم: یعقوب یاور کوٹی)؛ص۱۴۲

۲۵۔ایضاً:ص۸۶

۲۶۔ایضاً:ص۱۲۲

۲۷۔ایضاً؛ص۴۸۶

۲۸۔ایضاً:ص۵۰۱

۲۹۔ایضاً:ص۷۸

۳۰۔سلیم اختر، ڈاکٹر: داستان اور ناول:تنقیدی مطالعہ(مشمولہ: جمیلہ ہاشمی۔رومان سے تصوف تک)؛ لاہور؛سنگ میل پبلی کیشنز؛ ص۱۶۹

۳۱۔جمیلہ ہاشمی:دشتِ سُوس:حسین بن منصور حلاج۔ ایک غنائیہ؛ص۴۹۸۔۴۹۹

۳۲۔ہرمن ہیسے: سدھارتھ(مترجم: یعقوب یاور کوٹی)؛ص۶۴

۳۳۔ایضاً:ص۶۴

۳۴۔ایضاً؛ ۱۴۲

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محمد فر ید

٭لیکچر ار شعبئہ اُردو، اوپی ایف بو ائز کا لج ایچ ایٹ فو ر، اسلام آ باد، پاکستان۔ mfaridislamabad@gmail.com

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.