تخلیق و تنقید کا باہمی ربط تحقیقی مطالعہ

Abstract:

The world of Arts is an imaginary one where concept and feelings merged together but there in another domain of art which comprised much of an intellectual effort.Creativity and criticism have a relation which is more oftenly an explaination of a thought but how does this relationship helps in creation of a piece of work? It is hard to decide that which comes first,creation or criticism but it is an understood fact that creation could not be transmitted without criticism finds a bridge for reader and creation.Criticism explores the undefined meaning of the text because a critic in subsequently a creation as well.The process of creation and criticism merely look same but an unmatchable effort lies in the up bringing of them.Whether a critic or an artist, feels the same artistic pain for commenting or creating a literary piece.

The above mentioned topic in though a new one for traditional Urdu reader but somehow English literary world has some rudiments of it. In this regard, relationship between creation and criticism go side by side as the quotations and references in this article proved that relation and counted “Criticism as a part of creation.”Ancient and contemporary references from literary stalwarts showed the eagerness and struggle of the then researcher.

Short keys:Creation,Criticism,Urdu Literature,Reader,Writer,Research.

معلوم اور نامعلوم کائنات ‘کُن اورفیَکون کے فکری مباحث سے گزرتی ہوئی اقبال کے اس شعر پرآکر ٹھہر ی ہے۔

ع:

یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید

کہ آرہی ہے دمادم صدائے کُن فیکوں

اقبال کے اس شعر سے قطع نظرخالق اورتخلیق ‘محرک اور حرکت ‘طبیعات اورمابعدطبیعات کے مباحث وجودیت اورتجربیت کے جلو میں  انسان کی معاشرتی زندگی کو نئی نئی حیرانیوں سے آشنا کیے ہوئے ہیں انہی حیرانیوں میں  سب سے بڑی حیرانی انسان کی اپنی ذات ہے اوریہ ذات خالق و مخلوق ہونے کی بیک وقت دعوے دار!علم الانساب اسی تخلیقی مظاہرے سے جڑا ہوا نسب نامے کا علم ہے جبکہ شیوا فزائش کا دیوتا اس تخلیقی بساط کے خُلق کرنے کا باعث مانا جاتا ہے کوئی بھی ذات اپنے اطراف واکناف سے اکتساب کرتی ہے اسلامی نقطۂ نظرسے علم کے دومنبع ہیں ایک وہبی اورایک کسبی۔وہبی ودیعت الٰہی جبکہ کسبی اکتسابی حوالہ ہے انہی دونوں دائروں میں  انسانی ذات کی جلوہ گری ممکن ہے صفاتی کہیں یا وجود کی وحدت قرار دیں یاشہود کی سرحدوں تک جانکلیں!سرسیّد کا یہ کہنا کہ تعلیم باطنی صلاحیتوں کواجاگر کرنے کا نام ہے یعنی اکتسابی نوعیت بھی وہبی کی رہین منت ہے۔بقول تلسی داس(۱):

ع:

تلسی تم تو کہت ہو سنگت سے گُن ہوئے

اِیکھ میں  نکلے رام سن رس کا ہے نہ ہوئے

ان معروضات کی روشنی میں  انسانی ذات کی بوقلمونی انسان کو تہذیب تک لے آئی اورمختلف النوع انسانی ذات کے مظاہروں نے محلِ وقوع کی مناسبت سے مختلف شعبہ ہائے زندگی کی داغ بیل ڈالی ۔اس اعتبار سے دوجہات داخلی اورخارجی کی اصطلاحات وضع کی گئیں خارجی کائناتی اورداخلی ذاتی قرار پائیں۔علوم کی ترویج نے انسانی ذات کے جملہ پہلوؤں کواجاگر کرنے کی سعی کی اس منظرنامے میں  بلاشبہ ادب جسے علوم کی ماں کہنے میں  کوئی عار نہیں ہونی چاہیے نے کلیدی کام کیا۔جب ہم ادب کی بات کرتے ہیں تودراصل زندگی کی تہہ داریوں سے جڑے ہوئے اظہار کی بات کرتے ہیں زندگی کی تہہ داریوں کی بات اپنے جلو میں  طبیعات اورمابعدطبیعات سمیٹے ہوئے ہے یہی وجہ ہے کہ جو مقام شاعر اوراس کے اظہار کو حاصل ہے وہ کسی کونہیں چونکہ سب سے پہلے شاعر نے ہی اس بات کا اہتمام کیا کہ وہ ان تہہ داریوں کااس طرح اظہار کرے کہ جس سے جو بات وہ کہنا چاہتا ہے وہ بھی آجائے اورکہی کے ساتھ اَن کہی بھی ہو یہی وجہ ہے کہ اُس نے علم البیان کا پیمانہ تراشا ‘مماثلتیں ڈھونڈیں ‘مشاہداتی نوعیتوں کورہنما بنایا ۔ادب کے حوالے سے کوئی بھی اظہار اس وقت تک تخلیقی قرار نہیں دیا جاسکتا کہ جس میں  زندگی اورکائنات کی بوقلمونی نہ پائی جاتی ہو اسی لیے شاعرکااظہار اشاراتی اور علامتی بھی ہوجاتا ہے یہی نوعیت ادبی نثرکی بھی ہے کہ جس میں  اظہار ی نوعیت زندگی سے جڑکرکسی بھی تجربے کو نئی معنویت سے ہمکنار کرنے کاباعث ہوتی ہے اس میں  کمال زبان دانی کا بھی ہے اورتخلیق کار کا تخلیقی ہونا بھی اگرہم صرف ورڈزورتھ کےاس بات کو پیش نظر رکھیں کہ ادبی نثر منتخب الفاظ کا مجموعہ ہوتی ہے جبکہ شاعری اُن منتخب الفاظ کا بھی انتخاب ہوتی ہے ۔(۲)تو بات آکر زبان پر ٹھہر جاتی ہے کیا زبان جاننے والا تخلیقی ہوتا ہے زبان تو اس تخلیق کارکی تخلیقیت کا بنیادی تلازمہ ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ تخلیق کار کا بنیادی طورپر تخلیقی ہونا ناگزیر ہے ورنہ تخلیقی عمل ناہمواری کا شکارنظرآئے گا یہی وجہ ہے کہ شاعر ہوتا ہے یا نہیں ہوتا ‘مسلمہ ہے بقول افلاطون: ’’فنون کی مقدس دوشیزاؤں کاسایہ ہوتا ہے‘‘(۳)

اس اعتبارسے کسی بھی تخلیق کار کامعیار اس کی ادبی معنویت سے آشکارہوتا ہے ادبی معنویت ارسطو کی (POIETICS)بوطیقا سے لے کر ورڈزورتھ کی لیریکل بیلڈ (Preface to the Lyrical Ballads)تک‘مقدمہ شعروشاعری سے تا حال ثقہ ناقدین کے یہاں تخلیقی صورت گری کی پرکھ کے ذیل میں  دیکھا جاسکتا ہے۔ڈاکٹر مسعودحسین خاں کے مطابق:

’’تخلیقی عمل کی صحیح ترجمانی لفظ’’جَست‘‘ سے کی جاسکتی ہے اس میں  بجلی کی سی سُرعت ہوتی ہے ‘جس کا تنقیدی شعور تجزیہ کرنے سے معذور ہے تخیل اور جذبے کے آئینہ درآئینہ عمل میں  فکر ایک تھرتھراتی ہوئی لو ہوتی ہے اس کا تعین صرف اس کے عکس سے کیا جاسکتا ہے’‘(۴)

مسعود حسین خاں کا یہ فقرہ کہ تخلیقی عمل کی صحیح ترجمانی لفظ’’جست‘‘ سے کی جاسکتی ہے ۔تخلیقی عمل وجدان کارہینِ منت ہوتا ہے جست کی بات دراصل وجدان کی بات ہے وجدانی عمل کامظاہر ہ طلوع اسلام کے اس مصرعے میں  بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ

؎ لہو خورشید کاٹپکے جوذرّے کا جگر چیریں

عہدِ اقبال میں  ایٹم ناقابلِ تسخیر ذرّہ تھا جبکہ اقبال نے اس وجدانی جست کے ذریعہ ایٹم کوتقسیم کرکے دکھا دیا۔

 تخلیق میں  تنقید کا عمل دخل:

خدا کی پیدا کردہ یہ کائنات تخلیقیت کی کُل کہی جائے تو بے جا نہ ہوگا۔اس کُل کے مختلف النوع اجزاء بکھرنے اور سنورنے کے عمل سے عرصۂ درازتک دوچار رہے بکھرنے اور سنورنے کے اس عمل کو کائناتی ارتقاء کانام دیاجاتا ہے‘ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کائنات کے کچھ سرے ہاتھ آجانے کے بعد بھی ارتقائی مراحل جاری رہتے ہیں ‘ایک دائرے سے نکل کر دوسرے دوائرے میں  داخل ہونا ارتقائی عمل کا بنیادی وصف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی مصوری، شاعری اورموسیقی اکائی کی طرح تھیں لیکن آج قطرے میں  دجلے کی مانند تفہیمی نوعیت کے حامل ہیں۔یہی کچھ احوال اردوادب کا ہے۔اس دجلہ کے قطرے نظم ونثر کے بنیادی ڈھانچوں کوقراردیا جاسکتا ہے۔انہی قطروں میں  ایک قطرہ تنقید بھی ہے۔ جیسا کہ ہم اوپر بیان کرآئے ہیں کہ کائنات تخلیقیت کا کُل ہے تو یقینا تنقید بھی کائناتی مظاہر میں  داخل کی بوقلمونی کاسامان رکھتی ہے۔پھریہ کہ انسانی ذات کے تخلیقی مزاج کو بازیافت کرتے ہوئے کائناتی مظاہر سے ہم رنگ ہونے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہواکہ یہ تمام تر صورتحال فرد (Indivisual)سے ہوتی ہوئی کائناتی (Collective) ہونا چاہتی ہے ‘یعنی کسی بھی تخلیق کے لیے تخلیق کارزماں (عصرTime) اور مکاں(Space) کی اہمیت ناگزیر ہے ۔تخلیق کار کی تخلیقی اُپج کسی بھی تخلیق کا آفاقی ہونا اجتماعی شعور(Collective Persaption) کے بغیر ممکن نہیں جبکہ یہ اجتماعی شعور انسان کی فطرت سے جڑا ہوتا ہے انسانی جبلت اور تخلیق کار میں  قوتِ متخیلہ، جذبہ اور احساس اس طرح ہم آمیز ہوجاتے ہیں کہ تخلیق کار کا تخلیقی شاہکار سب کے دلوں کی دھڑکن بن جاتا ہے بہرحال کیا یہ سب تنقیدی عمل سے گزرے بغیر ممکن ہوسکتا ہے۔؟ کیا تخلیقی عمل کو جانے بغیر تنقید کی سرحدوں تک پہنچا جاسکتا ہے۔جواب ہوگا یقینا نہیں۔اس بات کو’’تنقید اوراس کا فن’‘ میں  ڈاکٹر عبدالسلام نے واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ:

’’تنقید اور تخلیق کا مسئلہ مرغی اور انڈے والے مسئلہ کی طرح ہے۔اسکاٹ جیمس نے ایسا فیصلہ کرنے کی کوشش کی جس سے دونوں فریق خوش ہوجائیں۔‘‘(۵)

تنقید اورتخلیق لازم وملزوم ہیں کوئی بھی تخلیق کارتنقیدی شعورکے بغیرکسی بھی سطح کی تخلیق کا حامل نہیں ہوسکتا۔ڈاکٹرمحمداحسن فاروقی ’’تخلیقی تنقید‘‘میں  لکھتے ہیں کہ:

’’ تنقید علم بھی ہے اور فن بھی اگروہ کسی ادیب صنفِ ادب یاادبی اصول کے بابت محض معلومات کاذخیرہ ہے تو وہ علم ہی ہے اگروہ ان ہی چیزوں کے بابت کسی گہرے جذبے کواس طرح ادا کرتی ہے کہ ایک نیا عالم تخلیق ہوجائے تووہ فن ہے اوراس وقت وہ تخلیقی تنقید کہلائی جاسکتی ہے’‘ (۶)

فنِ تنقید میں  بیش تر ناقدین وہ ہیں کہ جن کی حیثیت بیک وقت تخلیق کار اورناقد کی رہی ہے ان کی تنقیدتخلیقی تنقید کے زمرے میں  شمارکی جاتی ہے۔ مجنوں گورکھپوری اس ضمن میں لکھتے ہیں کہ:

’’ تخلیق اور تنقید دونوں کوایک ہی قوت کے دومظاہر سمجھا جاتا تھا ۔شاعری کے دائرے میں اگر بحث کومحدود رکھا جائے توکہاجاسکتا ہے کہ شاعرکانقّاد اورنقّاد کاشاعرہونا لازمی تھا جب شاعر ’’تحسینِ ناشناس ٭‘‘ اور ’’ سکوتِ سخن شناس‘‘ کا ذکرکرتا تھا تواس کامطلب یہی ہوتا تھا کہ اصلی نقاد خود بھی شاعر ہوتا ہے یہ دوسری بات ہے کہ وہ شعرنہ کہتا ہو‘‘(۷)

تحسینِ ناشناس کسی بھی تخلیق کارکے لیے بے داد کی حیثیت رکھتی ہے۔تفہیم کے بغیر کوئی تخلیق حقیقی تائید حاصل نہیں کرسکتی تحسینِ ناشناس کی معنویت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جبکہ سکوتِ سخن شناس تخلیق کے حوالے سے ہر سطح پر معنویت کی نئی شمعیں روشن کرتا ہے اس کی مثال میرتقی میرکے حوالے سے تاریخ میں  ملتی ہے کہ جب میرؔ صاحب نے نوجوان شاعرغلام احمدہمدانی متخلص مصحفی ؔ کے ایک شعر پر مکرّر کہا تو وہ شعر ادبی تاریخ کاحصہ بن گیا ۔وہ شعر حسب ذیل ہے

 ؎یاں لعلِ فسوں ساز نے باتوں میں  لگایا

 دے پیچ اُدھر زلف اُڑا لے گئی دل کو

 سماجی سطح پر تنقید کا کام کھوٹے کھرے کو پرکھنا ہے ادبی تخلیقات کامنطقی نتیجہ ناقدکے ذریعے خوبیوں یا ادبی اچھائیوں کا فروغ ہے۔

محی الدین قادری زور ’’روحِ تنقید‘‘ میں  لکھتے ہیں:

’’صحیح مذاق پیدا کرنے کی کوشش کو تنقید کہتے ہیں تنقید میں  نہ صرف تقریظی پہلو ہوتاہے بلکہ تخلیقی بھی ،اس کا کام نہ صرف برائی کی مذمت کرنا ہے بلکہ اچھائیوں کی بھی صحیح طورپر ترجمانی کرکے انھیں ترقی دینا‘‘(۸)

تخلیقی ادب زندگی کا آئینہ ہوتا ہے تخلیقی سطح ہر زندگی کی تشریح کاعمل جاری رہتا ہے جبکہ ناقدین اپنے اپنے دائروں میں  اس کی تشریح کے ذریعہ فکراورنظریات کے فروغ کاسبب بنتے ہیں اسی فروغ کے سبب دنیائے ادب میں  تنقیدی دبستانوں کا ظہو رممکن ہوسکا ہے۔علامہ نیاز فتح پوری کے مطابق:

’’ ادبیات میں  سب سے زیادہ بلند چیز تخلیقی ادبCreative Litrratureہے جس سے مراد زندگی کی تشریح ہے اس لیے ایک بلند انتقاد کاصحیح مدعا یہ ہونا چاہیئے کہ ادبیات کی تمام ان صورتوں پر غور کرے جن کے ذریعہ سے زندگی کی تشریح کی جاتی ہے‘‘(۹)

اسی طرح محمد جلال الدین اپنے مضمون ’’تنقید‘‘ میں  لکھتے ہیں کہ:

’’ حقیقی تنقید ایک طرح کے تخلیقی ادب کے زمرے میں  داخل کی جاسکتی ہے کیونکہ یہ بھی اپنا مواد شاعری کی طرح زندگی ہی سے حاصل کرتی ہے’‘(۱۰)

یعنی حقیقی تنقید تخلیق میں  شمارکی جاتی ہے کیوں کہ تنقید کا بنیادی کام تخلیق کے معائب ومحاسن کی جستجو کرنا ہے۔کلیم الدین احمد کی تحریروں نے اردو ادب میں  تنقید کے ماضی ومستقبل کے ضمن میں  نئے سوالوں کو جنم دیا تخلیق وتنقید کی معنویت کے حوالے وہ ’’ ادبی تنقید’‘ میں  رقمطراز ہیں کہ:

’’ وہ جذبہ تحقیق جو فن پاروں کو وجود میں  لانے کا ذمہ دارہے اور وہ شعور نقد وانتقادجوفن پاروں کی تعین قدرکرتا ہے دونوں ہمارے اندرموجودہیں اور یہ دونوں صلاحیتیں خلقی اور فطری ہیں ان کی فطریت پراعتراض خود زندگی کی فطریت پراعتراض ہے‘‘(۱۱)

گویا تنقیدکے ساتھ تحقیق کو بھی ناگزیر سمجھنا چاہیے، معائب ومحاسن کی جستجو میں  زبان وادب سے جڑے ہوئے سماجی حقائق تنقید نگار تحقیقی وتخلیقی شعورکے بغیر پرکھ ہی نہیں سکتا۔تنقید ِحیات سماج کی تشکیل ِ نومیں  بنیاد کاکام کرتی ہے اس تشکیلی مرحلے میں  ادب اس کا ناگزیر حصہ بنتا ہے۔اس نکتے کی وضاحت ڈاکٹر عبادت بریلوی نے ’’اردو تنقید کاارتقا ‘‘ میں کچھ یوں کی ہے کہ:

’’ میتھیوآرنلڈ نے ادب کو ’’نقد حیات‘‘ کہا ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ تخلیقی ادب زندگی کی تزئینِ نوکی کوشش ہے اسی طرح تنقید ادب وفن کی تزئین نوکانام ہے تنقید عروس ادب وفن کی مشاطگی کاکام انجام دیتی ہے’‘(۱۲)

یہ بات مسلّمہ ہے کہ تنقیدی شعور کے بغیر کسی تخلیق کاظہورپذیر ہوناناممکن ہے یعنی تخلیقی شہ پاروں کا جائزہ لیا جائے تو تخلیق کارکے تنقیدی شعورکی جھلک واضح دکھائی دیتی ہے کہ کس طرح وہ لفظ اوراس کی نشست وبرخاست سے شعر میں  یا نثرمیں  سلاست کے ساتھ انفرادی خوبی کو اجاگر کرتا ہے ۔اس امر کی تائیدکرتے ہوئے نجم الہدیٰ ’’فنِ تنقید اور تنقیدی مضامین‘‘ میں  لکھتے ہیں کہ:

’’ مفکرین اورناقدین کی اکثریت اس بات پرمتفق ہے کہ اعلیٰ تخلیق بغیر تنقیدی شعورکے ممکن نہیں اس لیے یہ کہنا بجا ہے کہ ہر تخلیق میں  تنقیدی شعورکارفرماہوتا ہے۔’‘ (۱۳)

نیزعابد علی عابدنے ’’اصول ِ انتقادِ ادبیات‘‘ میں لکھا کہ:

’’ تنقید تخلیقی ادب سے کسی طرح کمتر نہیں ہوتی بلکہ وہ خود تخلیقی ہوجاتی ہے‘‘(۱۴)

 یعنی تخلیق اوّل اوّل تخلیق کارکے تنقیدی شعور کی نمائندہ ہوتی ہے بعدازاں ناقد تخلیقی سطح پر تنقیدی فریضہ انجام دے توایسی تنقید کو تخلیق سے کم نہیں سمجھنا چاہیے۔تخلیق اورتنقید کے باہمی روابط تخلیقی مراحل سے جڑے ہوئے ہیں۔ پروفیسر نورالحسن نقوی کے مطابق تنقید کاعمل اسی وقت شروع ہوجاتا ہے جب تخلیق کارکسی ادب پارے کی تشکیل وجدانی یاذہنی طورپر کررہا ہوتا ہے۔پروفیسر نورالحسن نقوی ’’فنِ تنقیداوراردوتنقید نگاری‘‘میں لکھتے ہیں:

’’ادب میں  تنقید کی کارفرمائی اسی وقت شروع ہوجاتی ہے جب فنکار کے ذہن میں  کسی فن پارے کی داغ بیل پڑنے لگتی ہے گویا تخلیقی عمل کے ساتھ ساتھ تنقیدی عمل بھی شروع ہوجاتاہے’‘ (۱۵)

جس طرح اعلیٰ تخلیق کے لیے تخلیق کارکے پاس مطالعہ ومشاہدہ اورتجزیہ زندگی کے رموز سے آگہی ضروری ہے اسی طرح ناقد کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ ماضی اورحال کے تمام علوم سے واقفیت رکھتا ہو تاکہ وہ تخلیقی ادب کے ذریعہ مستقبل میں  جھانکنے کی سعی کرسکے۔ اسی لیے ڈاکٹر محمد احسن فاروقی نے اپنے مضمون’’فنِ تنقید‘‘میں لکھا:

’’تنقید کے فن کے لیے تمام علومِ تنقید سے واقفیت ضروری ہے۔’‘ (۱۶)

اسی مضمون میں  فنّی شعور اورتنقیدی شعور کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر محمداحسن فاروقی نے علوم تنقید سے واقفیت کے ساتھ ساتھ فنّی رموز سے واقفیت کوبھی لازم قراردیا ہے وہ لکھتے ہیں:

’’ فنّی شعوراور تنقیدی شعور ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں ہر بڑا فنکار تنقیدی شعور بھی ضرور رکھتا ہے وہ زندگی کا مبصرہوتا ہے اور اپنے طریقہ پر زندگی کی تشکیل سے اس کے شعورکا صاف پتہ لگتا ہے ہمارے میر، غالب، میرانیس، اقبال سب کے ہاں اعلیٰ تنقیدی شعور کاثبوت ملتا ہے’‘(۱۷)

ارسطو کاتنقیدی کارنامہ(Poetics)جس کے کئی تراجم اردومیں  بوطیقا کے نام سے ہوئے ۔تھیٹر کی منظوم شاعری پر تنقید ہے اس میں  ارسطو نے تنقید کے جملہ لوازمات کوملحوظ رکھا ۔اس پر ’’ تنقیداور تنقیدی شعور‘‘میں  تبصرہ کرتے ہوئے ناظر کاکوروی لکھتے ہیںکہ:

 ’’دنیا میں  تخلیق کا عمل تنقیدسے پہلے کاکام ہے یہی وجہ ہے کہ ’’ارسطونے جب المیہ کے بارے میں  اپنی مشہورعالم رائے دی تھی تواس نے اس دورکے اعلیٰ درجے کے ڈرامہ نویسوں کی تخلیقات کواپنے سامنے رکھا تھا۔’‘ (۱۸)

بوطیقا میں  ارسطو اوڈیسی اورایلیڈ کوسامنے رکھ کر اعلیٰ درجہ کی تنقید کرنے میں  کامیاب ہوا ہے اس کے تنقیدی نتائج کے ضمن میں  یہ بات سامنے آئی کہ تخلیق کا عمل تنقید سے پہلے کا کام ہے تخلیق کارکے تنقیدی شعور نے ’’تخلیق‘‘ کاکارنامہ انجام دے دیا اس کے بعد ناقد کا تخلیقی شعور اُس تخلیق کو اپنی سطح پر پرکھے گا ناقد کے لیے لازم ہے کہ جس تخلیق کووہ پرکھ رہا ہے اس سے متعلق کماحقہ‘ واقفیت رکھتا ہو ورنہ اس کا تجزیہ اورتفہیم ناقص ٹھہرے گی۔اگرکوئی ایسا ناقد جو تنقید اورعلوم ادب سے واقف ہو یعنی جملہ امور سے آگاہ ہواوروہ کسی تخلیقی شاہکار پر کوئی رائے زنی کرے تو اس کی رائے کو تخلیق ہی کے زمرے میں  شمارکیا جاناچاہیے جیساکہ ڈاکٹر عبادت بریلوی نےاپنے ایک مضمون’’تنقید نگاری‘‘ میں وضاحت کی ہے:

 ’’ تنقید خود تخلیقی ادب کی ایک شاخ ہے اور تنقید کوتخلیقی ادب کے تحت شمارنہ کرنا بہت بڑی زیادتی ہے اس میں  کونسی بات ایسی ہوتی ہے جس کو تخلیقی نہیں کہا جاسکتا؟ کسی تخلیقی شاہکار کے متعلق نقاد کاکچھ کہنابذاتِ خود ایک تخلیق ہے‘ ‘(۱۹)

تخلیق کار میں  تنقیدی صلاحیت جتنی قوی ہوگی اس کا تخلیقی کارنامہ بھی اسی قدراہم ہوگا اسی طرح جس ناقد میں  تخلیقی شعور اورتنقیدی شعور جس قدر زیادہ ہوگا اس کی تنقیدی جہات بھی اسی درجہ اہمیت کی حامل ہوں گی ۔تخلیقی مواد کو تنقید ایک وحدت عطاکرتی ہے جیسا کہ نامور محقق اورنقاد ڈاکٹر جمیل جالبی’’تنقید اور تجربہ‘‘میں  تحریر کرتے ہیں کہ:

’’ تخلیقی قوت اپنے جوہر اسی وقت بہترین طورپر دکھاسکتی ہے کہ جب تخلیق کا مواد تنقید نے اس طور پر تیار کردیا ہوکہ فنکارخدائی صفات سے اسے ایک نئے رشتے میں  پروکرایک وحدت بنادے‘‘(۲۰)

تخلیق کی اہمیت اورتنقید کی افادیت سے انکارممکن نہیں ۔ڈاکٹر سلیم اختر عہد ِ حاضر کے اہم محقق نقاد شمار کیے جاتے ہیں ان کی ہشت پہلو شخصیت کوان کے مطالعے اورتحقیق نے جِلا بخشی ہے ۔تخلیق اورتنقید کے حوالے سے ان کی اہم کتب میں  ’’ تخلیق اور لاشعوری محرکات‘‘، ’’تخلیق، تخلیقی شخصیات اور تنقید‘‘، ’’ادب اور لاشعور‘‘وغیرہ اس حوالے سے اہم ہیں۔ ڈاکٹر سلیم اختر بھی تخلیقی حوالے سے نفسیاتی عمل کو کام میں  لاتے ہیں۔ وہ تخلیق کی اہمیت کومنواکرتنقید پر کچھ شرائط عائد کرتے ہوئے ’’نقدِ اقبال کا تجزیاتی مطالعہ’‘ میں لکھتے ہیں کہ:

’’تنقیدتخلیق کے بعد جنم لیتی ہے لیکن تخلیق کا فکری مرتبہ متعین کرنے میں  تنقید خودبھی تخلیق کا مرتبہ پاسکتی ہے بالکل اسی طرح جیسے اصول سازی سے تنقید فلسفے کی ہم پایہ ہوجاتی ہے‘‘(۲۱)

تخلیق کار کسی بھی عصر میں  زندہ رہے جبکہ وہ کسی سماج میں  بھی اپنے افعالی نظام کے ساتھ محاسن ومعائب کے متعین یا غیر متعین حوالے سے سرگرداں رہتا ہے۔(غیر متعین کو ادیب، شاعریا تخلیق کی آزادی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے) اس کا مطلب یہ ہوا کہ تخلیق کارہی تنقید کا اوّلین معمار ہے کوئی بھی تخلیق کار لفظ ومعنی کا محتاج ہے اور یہ لفظ ومعنی سماج کی کس درجہ نمائندگی کے حامل ہیں ۔جبکہ ٹائم یا عصر مذکورہ لفظ ومعنی کی افادیت یا اہمیت کا تعین کرتا ہے کہ آیا عصری سرگرمیوں نے تو کہیں مذکورہ لفظ و معنی کو متروک تو نہیں کردیا ہے۔اس اعتبار سے تخلیق تنقید کے بغیر نوالہ بھی نہیں توڑسکتی یہی وجہ ہے کہ دنیائے ادب کے معروف نقادوں نے تخلیق و تنقید پر ہزارہا مضامین لکھے نیز کتب بھی تصنیف کی گئیں۔اس ذیل میں  اردو تنقید ہرچند کہ اپنے معیارات، اسالیب اور اصولوں کی جستجو میں  مبتلا ہے۔

تخلیق و تنقید کے باہمی ربط کو مذکورہ بالا تحاریر سے بآسانی سمجھا جاسکتا ہے نیز یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ ہمارے ہاں اردوتنقید میں  اس حوالے سے بہت زیادہ کام نہیں ہوا۔کوئی ایسی مخصوص کتاب کہ جسے ہم تخلیق اور تنقید کے باہمی ربط کا منشور قرار دے سکیں نظر نہیں آتی اس کے باوجود قابلِ ذکر حوالوں سے ڈاکٹر وزیر آغا کی ’’تخلیقی عمل’‘ کو کہا جاسکتا ہے جبکہ ’’تنقیدی تھیوری کے سوسال‘‘اور، ’’نئے مقالات(مجموعہ مضامین)‘‘میں  بھی اس حوالے مضامین حاصلِ مطالعہ کہے جاسکتے ہیں۔اسی طرح محمد حمید شاہد کی مرتب کردہ ’’تخلیق، تنقید اور نئے تصورات‘‘ از شمس الرحمٰن فاروقی‘‘ میں  بھی اس موضوع پر کچھ گراں قدر مطالعہ ملتا ہے نیز ڈاکٹر محمد احسن فاروقی کی ’’ تخلیقی تنقید (مجموعہ مضامین)‘‘بھی جس کے حوالے گذشتہ سطورمیں  پیش کیے جاچکے اس موضوع کا احاطہ کرتی ہے۔

عبیداللہ علیم نے ناقد کو ادب کا تیسرا فریق قراردیاتھا ۔شاید علیم کا یہ فقرہ اس ردِ عمل کا شاخسانہ قرار دیا جاسکتا ہے کہ جہاں ناقد تخلیق و تنقید کے باہمی ربط کو نظرانداز کرتاہوا ایک نیا جہانِ تفہیم پیش کردیتا ہے۔بہرحال یہ بات دنیائے ادب میں  مسلّمہ رہی ہے اور تاحال اس میں  کوئی شک نہیں کہ تخلیق کار ہی تنقید کا صحیح معنوں میں  حق ادا کرتا ہے یا پھر تخلیق وتنقید کے باہمی ربط سے جڑا ہوا ناقد !نقد کا اصل کام فرد کی تخلیقی اُپج کو اجتماعی شعور کی کسوٹی سے گزار کر تخلیق کی تفہیم میں  معاونت کرناہے۔

 حواشی و تعلیقات:

(۱)تلسی داس: پیدائش سمبت ۱۵۵۴ء، راجہ پورگاؤں ضلع باندہ۔وفات:۱۶۸۰ء، برہمن گھرانے میں  پیدا ہوئے، نرسنگھ داس کی تربیت سے عالم فاضل ہوئے۔معروف تصانیف میں رامائن۔دوہاولی ان کے دوہوں کا مجموعہ ہے دیگر تصانیف میں  رام گیتاولی، کوتاولی، ست سئی شامل ہیں ۔ماخوذ:

گوسوامی ۔تلسی۔داسhttp://www.urduencycloprdia.org/general/index.php-

(۲)محمدہادی حسین‘ مترجم، ’’مغربی شعریات‘‘لاہور:مجلس ترقی ادب‘طبع اوّل:مارچ ۱۹۶۸ئ‘ص:۴۸

(۳)(الف)

’’افلاطون فیڈرس (Phaedrus)میں  اس تصور کو یوں پیش کرتا ہے:’’جنون کی تیسری قسم وہ ہے جوان لوگوں کو لاحق ہوتی ہے جن کے سرپر فنون کی مقدس دوشیزاؤں کا سایہ ہو‘یہ جنون کسی لطیف اورمنزہ روح میں  حلول کرجاتا ہے اوراس روح کے اندر ایک خروش پیدا کرکے اس سے غنائیہ کلام تخلیق کراتا ہے‘‘…‘‘ماخوذ:محمدہادی حسین‘ مترجم، ’’مغربی شعریات‘‘ ۱۹۶۸ئ‘ ص:۲

(ب)عزیزاحمد، مترجم، ’’بوطیقا‘فن شاعری از:ارسطو‘‘ کراچی:انجمن ترقی اردو پاکستان‘ طبع سوم‘۱۹۷۴ئ‘ص:۱۰

(۴)مسعودحسین خاں، ڈاکٹر، ’’مقدمات شعروزبان’‘حیدرآباد:نیشنل فائن پرنٹنگ پریس چار کمان‘۱۹۶۶ئ‘ص:۳تا ۴

(۵)عبدالسلام، ڈاکٹر، ’’تنقید اور اس کا فن‘‘، کراچی:قمرکتاب گھر‘۱۹۸۲ء ‘ص:۱۲۱

(۶)محمد احسن فاروقی، ڈاکٹر، ’’تخلیقی تنقید‘‘کراچی:اردواکیڈمی سندھ‘۱۹۶۸ئ‘صـ:۲۶

(۷)’’٭ صائب کا شعرہے فارسی’‘از ماخوذ:مجنوں گورکھپوری، ’’ادب اورزندگی(مجموعہ مضامین)‘‘کراچی:مکتبہ دانیال ‘۱۹۸۵ئ‘ ص:۳۲

(۸)محی الدین قادری زور، ’’روح تنقید‘‘ دکن:شعبہ اردو جامعہ عثمانیہ ‘حیدرآباد‘۱۹۲۷ئ‘ص:۷

(۹)نیاز فتح پوری، علامہ، ’’انتقادیات‘‘(مضامین)لاہور:الوقار پبلی کیشنز‘۲۰۰۵ئ‘ص:۳۶۱تا۳۶۲

(۱۰)محمد جلال الدین، اشک، ’’تنقید‘‘مشمولہ:’’فن تنقید اور تنقیدیں‘‘مؤلف ومرتب، عبدالرزاق، پروفیسر، لاہور:نوید بکڈپو‘ ۱۹۶۵ئ‘ص:۹

(۱۱)کلیم الدین احمد، ’’ادبی تنقید‘‘، مشمولہ:’’اردوتنقید(منتخب مقالات)، (مرتب)حامدی کاشمیری‘نئی دہلی، ساہتیہ اکیڈمی‘ ۱۹۹۷ئ‘ص: ۸۶ تا ۸۷

(۱۲)عبادت بریلوی، ڈاکٹر، ’’اردوتنقید کا ارتقائ‘‘کراچی: انجمن ترقی اردو پاکستان‘طبع سوم‘۱۹۷۹ئ‘ص:۱۱

(۱۳)نجم الہدیٰ، ’’فن تنقید اورتنقیدی مضامین‘‘ پٹنہ، کتاب منزل، سبزی باغ۴‘سن ندارد‘ص:۲

(۱۴)عابد علی عابد، ’’اصولِ انتقاد ادبیات‘‘، لاہور:مجلس ترقی ادب‘۱۹۶۰ئ‘ص:۱۳

(۱۵)نورالحسن نقوی، پروفیسر’’فن تنقید اوراردو تنقید نگاری‘‘علی گڑھ:ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس‘۲۰۰۵ئ‘ص:۸

(۱۶)محمداحسن فاروقی، ڈاکٹر، ’’فنِ تنقید‘‘ مشمولہ:’’نیادور‘‘ کراچی:شمارہ:۳۔۴‘۱۹۵۶ئ‘ص:۱۱۸

(۱۷)محمداحسن فاروقی، ڈاکٹر، ’’فنِ تنقید‘‘ مشمولہ:’’نیادور‘‘ ۱۹۵۶ئ‘ص:۱۱۸تا۱۱۹

(۱۸)ناظرکاکوروی، ’’تنقید اور تنقیدی شعور‘‘الہ آباد: ادارۂ انیس اردو‘۱۹۶۰ئ‘ص:۴۱تا۴۲

(۱۹)عبادت بریلوی، ڈاکٹر، ’’تنقید نگاری‘‘مشمولہ:’’تنقیدی نظریات‘‘سیّداحتشام حسین‘مرتب، لاہور:لاہور اکیڈمی‘ ۱۹۶۸ئ‘ص:۵۷

(۲۰)جمیلجالبی، ڈاکٹر، ’’تنقیداورتجربہ‘‘مشمولہ:’’نیادور‘‘کراچی:شمارہ:۴۳۔۴۴‘۱۹۶۷ء‘ص:۲۶۶

(۲۱)سلیم اختر، ڈاکٹر، ’’نقدِ اقبال کاتجزیاتی مطالعہ‘‘مشمولہ:’’تخلیق، تخلیقی شخصیات اورتنقید‘‘ ۱۹۸۹ء ‘ص:۸۳۶

مطالعاتی ماخذات:

٭محمد احسن فاروقی، ڈاکٹر، ’’تخلیقی تنقید‘‘کراچی:اردواکیڈمی سندھ‘۱۹۶۸ء

٭وزیرآغا، ڈاکٹر، ’’تخلیقی عمل‘‘ لاہور:مجلس ترقی ادب‘مارچ ۲۰۱۰ء

٭وزیر آغا، ڈاکٹر، ’’تنقیدی تھیوری کے سوسال‘‘لاہور:سانجھ پبلی کیشنز‘۲۰۱۲ء

٭وزیرآغا، ڈاکٹر، ’’نئے مقالات‘‘ (مجموعہ مضامین)لاہور: جمہوری پبلی کیشنز‘۲۰۱۲ء

٭محمد حمید شاہد، مرتب ’’تخلیق، تنقید اورنئے تصورات‘‘ (مضامین شمس الرحمٰن فاروقی)اسلا م آباد: پورب اکادمی‘۲۰۱۱ء

٭سلیم اختر، ڈاکٹر، ’’تخلیق اور لاشعوری محرکات‘‘لاہور:سنگ میل پبلی کیشنز‘۲۰۰۹ء

٭سلیم اختر، ڈاکٹر، ’’تخلیق، تخلیقی شخصیات اورتنقید‘‘لاہور:سنگ میل پبلی کیشنز‘۱۹۸۹ء

٭سلیم اختر، ڈاکٹر، ’’ادب اور لاشعور‘‘لاہور:سنگ میل پبلی کیشنز‘۲۰۰۸ء

Leave a Reply

1 Comment on "تخلیق و تنقید کا باہمی ربط تحقیقی مطالعہ"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] 131.         تخلیق و تنقید کا باہمی ربط تحقیقی مطالعہ […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.