کرشن چندر کے ناولوں میں نسوانی مسائل

 ساری دنیا میں عورتوں کو کم وبیش ایک ہی نظر سے دیکھا اور جانا جاتا ہے۔ ان کے استحصال کا سلسلہ زمانۂ قدیم سے ہر جگہ اورہر دور میں قائم رہا ہے، جنہیں وقت نے مختلف طور پر بیان کیا۔ عورت کی زندگی چاہے اندرون خانہ کی ہو چاہے محفل ومجلس کی زمانہ دوراں میں رونما ہونے والے واقعات کی اصل محرک وہی ہوتی ہے۔ زندگی کی چمق دمق ہو یا نشیب و فراز سب کے پیچھے اس کا عمل دخل ہوتا ہے۔ عورت کے بغیر ادب کا ہی نہیں بلکہ دنیا کا تصور ممکن نہیں۔ دورِ قدیم سے عورت ادب کا مرکز رہی ہے۔ دوسرے عورت دورِ قدیم سے پر مردوں کا بھی ساتھ دیتی آرہی ہے۔ کبھی ماں، بہن کی شکل میں، تو کبھی بیوی اوربیٹی کی شکل میں لیکن مردوں کی جماعت نے عورتوں کا ہمیشہ سے استحصال کیا ہے۔ اس طرح عورتوں کے استحصال کا سلسلہ ساری دنیا میں قائم رہا ہے، چاہے وہ کسی بھی ذا ت، سماج، مذہب اور معاشرے کی بات ہو عورتوں کی حالت کہیں بھی اچھی نہیں رہی ہے اس لئے مہ نور زمانی بیگم لکھتیں ہیں: ۔

’’ حقیقت یہ ہے کہ پہلے کے ہر غیر متمدن سماج میں عورت کو اس کی مخصوص خصوصیات یعنی اس میں ہمدردی، محبت خدمت اور ایثار جیسے جذبات کی فراوانی کی بنا پر مرد پر فوقیت اور عزت واحترام حاصل تھا۔ جوں جوں انسان ترقی یافتہ ہوتا گیا اور عورت کے مقابلے مرد اپنی بڑھتی ہوئی جسمانی طاقتوں کے بل پر کئی ترقی یافتہ دماغی صلاحیتوں کا مالک بن گیا تو اس نے محسوس کیا کہ عورت اس سے پست ہے اور حاکم کے بجائے محکوم رکھی جانے کے قابل ہے۔ یہ صورتِحال چین اور یونان کے علاوہ ہندوستان میں وید کہ دور کے بعد کسی عہد میں پیدا ہوئی تھی۔’‘ ۱؎

 مذہبی اور معاشرتی ترقی سے پہلے عورتوں کے عزت و احترام میں کوئی کمی نہ تھی لیکن عورت کے حقوق اور احترام کو لے کر دنیا کے تمام مفکر ین اور مذہبوں کے نمائندوں نے دقیانوسی خیالات کے اظہار کئے، سماجی اور مذہبی روایت قائم کئے لیکن ادبی دنیا نے عورتوں کو سمجھا اور ان کے خلاف آواز بلند کئے کرشن چندرنے بھی اپنے ناولوں میں پورے آب وتاب کے ساتھ عورتوں کے مسائلوں کو بیان کیاہے، ہلاکہ ان سے پہلے اردوناول میں نذیر احمد سے لے پریم چند نے عورتوں کی اصلاح اور مسائل کو اپنا موضوع بنایالیکن پریم چند کے بعد عوا م کے زندگی کی سچّی تصویر صرف کرشن چندر کے یہا ں دیکھنے کو ملتی ہے۔ جن میں کم عمر کی شادی، بے میل شادی یاعورتوں کے خرید وفروخت وغیرہ شامل ہیں۔ اس طرح انہوں نے بھی عورتوں کے ساتھ والے نارواسلوک کے خلاف جم کرآواز بلند کی۔ اسی لئے رفیعہ شبنم عابدی کچھ اس طرح لکھی ہیں: ۔

’’کرشن چندر کی کہانیوں کی آرٹ گیلری میں عورتوں کی کمی نہیں۔ ابتداء سے آخر تک ان کی ساری تحریر یں اٹھا کر دیکھ لیجئے حسنِ زن اور حسن ِ ظن سے معمور ملیں گی۔ وہ اپنی کہانیوں میں ڈھونڈڈھونڈ کر ایک عورت کہیں نہ کہیں سے اٹھالاتے ہیں۔ کشمیر کی شاداب وادیوں میں اور پنجاب کے مرغ زادوں میں تو یہ کام ان کے لئے بہت آسان تھا۔ دہلی اور حیدرآباد، بمبئی، پونے بلکہ پورے ہندوستان میں ان کی یہ تلاش جاری رہتی ہے۔ مزدور عورتیں، چرواہیاں، کسان عورتیں، گوجریاں، دفتر میں کام کرنے والی عورتیں گھر کی نوکرانیاں۔ غریب پتی ورتائیں، سوشل کا نٹیکٹ بیویاں، خانہ بدوش عورتیں، رقاصائیاں، طوائفیں اور کال گرلز یہاں تک کر غیر ملکی عورتیں سیاحوں کی صورت میں کسی نہ کسی ہوٹل پارٹی یا کلب میں انھیں مل ہی جاتی ہیں، تاکہ وہ ان کے حسن کا بیان اور بکھان کر سکیں۔ اور صرف جوان ہی نہیں، بوڑھی عورتیں بھی اپنے کردار کا حسن بکھیرتی دکھائی دیتی ہیں۔’‘ ۲؎

 اس بات میں شک نہیں ہے کہ کرشن چندر کا مطالعہ ٔ کائنات بہت وسیع ہے اسی لئے ان کے یہاں عورت سے مطالق ہر طرح کر کردار دیکھنے کو ملتے ہیں۔ وہ نہ صرف اپنے عہد کی سماجی، سیاسی واقتصادی معاملات کا گہرائی سے مطالعہ رکھتے تھے بلکہ انسانی تاریخ اور مذہبوں کے مسائل اور اس کے رسومات سماجی شعور کو بھی بہت گہرائی سے دیکھتے اورسمجھنے کا کام کرتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ وہ انسانی رشتوں میں عورتوں کے کردار کو بخوبی پیش کرتے ہیں۔ ان کا موضوع چاہے کتنی بھی کڑوی کیوں نہ ہو لیکن پیش کس اس طرح سادا اور سچا ہوتا ہے کہ وہ دلوں میں اترجاتا ہے اور انسان سوچنے پر مجبور ہوتا ہے۔

 ’’اور اس سے بڑا کون ہوتا ہے ؟

 اور اس سے بڑا خدا ہوتا ہے !خوب چند نے گویا معاملے کو ختم کر تے ہوئے کہا۔

 لالچی چُپ ہوگئی۔ دیر تک چُپ رہی۔ پھر آہستہ سے بولی۔

 خدا بھی مرد ہے۔ اس سنسار میں جتنے بھی بڑے بابو ہیں سبھی مرد ہیں۔

 پھر مجھے انصاف کہاں سے ملے گا‘‘۔۳؎

 لالچی کرشن چندر کے ناول’’ ایک عورت ہزار دیوانے‘‘ کی ایک خانہ بدوش لڑکی ہے۔ ناول نگار جس طرح ایک خانہ بدوش لڑکی سے یہ بات کہلواتے ہیں۔ اس سے عورتوں کے استحصال کی صدیوں پرانی تصویر یں ابھرآتی ہیں۔ وہ عورتوں کا ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے عوام کی بہتری کے خواہشمند ہیں۔ جس کے سبب ہر طرح کی تاریکی کو روشنی دکھانے کا کام کرتے ہیں۔ اب ایسی لڑکی جسے ایک وقت کی روٹی کے لئے بھیک ماگنے پڑے اوراپنے والد کی عمر سے بھی زیادہ عمر کے مرد اس کے جسم کو اپنی باہوں میں بھرنے کو بے تاب ہوں ہو۔ ایک آنہ دینے کے عوض میں جسم پر پھٹے ہوئے کپڑے اپنی گندی نظروں کی تیر سے تار تار کرتے ہوں توا یسی عورت کا مردوں پر اس قدرسوال ہونا لازمی ہے پھر چاہے مرد کی ذات میں خدا ہی کیوں نہ، شائد لاچی یہ کہنا چاہتی ہے۔

میر اقاتل ہی میرا مصنف ہے  کیا مرے حق میں فیصلہ دے گا

 محبت میں خود کشی ایک بڑا مسئلہ ہے جس میں عورت اور مرد دونوں شامل ہوتے ہیں۔ کرشن چندر جس کی مخالفت کرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ وہ صرف محبت کی زبان سمجھتے اور سمجھاتے ہیں محبت کی بے وفائی میں جان گنوانے کے عمل کو بزدلانہ حرکت مانتے ہیں۔ اور ایسی حرکت کو سرے سے رد رکرتے ہیں۔ وہ ایک محبت کے قائل نہیں ہیں بوسیدہ محبت کے بدلے نئی محبت کی تلاش میں ہوتے ہیں مثلاََ۔

’’اس میں غلط بات کیا ہے ؟ تم اپنے جسم کی مالک ہو۔ یہ جسم تمہارا ہے، کسی دوسرے کا تو نہیں ہے۔ اور محبت تو بے کار سا خیال ہے، آتی جاتی بات ہے، زندگی میں دس بار محبت ہوتی ہے، بیس بار ٹوٹ جاتی ہے۔ چالیس بار پھر ہوجاتی ہے، خود میں نے اپنی جوانی میں جانے کتنی محبتیں کر ڈالیں۔ جب پہلی محبت ذرا پرانی اور بوسیدہ ہونے لگی۔ میں نے اس محبت کا دروازہ بند کرکے نئی محبت کا دروازہ کھول لیا۔’‘ ۴؎

ان کے یہاں جہاں چندرا اور لاچی جیسے ایک محبت پر جان دینے والے کردار ہیں تو وہیں دوسرے کردار بھی ہیں جو ایک زندگی میں کئی محبت کرتے ہیں وہ زندگی کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں محبت کو خوش رہنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں ایسے کرداروں کو بھی پیش کرتے ہیں جو محبت کے لئے خودکشی کر لیتے ہیں لیکن کرشن چندر ایسے کو ایک احمق سے زیادہ کچھ نہیں مانتے۔ ان کے یہاں خودکشی خود ایک مسئلہ ہے اتنا ہی نہیں وہ زندگی کے ہرپہلو کی بھر پور نمائندگی کرتے ہیں۔ وہ کم عمرمیں لڑکیوں کی شادی کے خلاف ہیں۔ جس سے ان کو کئی طرح کے نقصانات ہوتے ہیں۔ پریم چند کے یہاں کم عمر کی شادی کا دبے الفاظ میں احتجاج ملتا ہے۔ جب کہ کرشن چندر کے یہاں کھل کر کم عمر کی شادی کا احتجاج سامنے آتا ہے۔ ان کے یہاں کردار اور معاشرہ کم عمر کی شادی سے آزادی حاصل کر لیتا ہے۔ آج کی عورتیں اپنی مرضی کی شادی، تعلیم اور نوکری کرنا پسند کرتی ہیں۔ وہ ناول ’’مہارانی‘‘ میں کم عمر کے شادی کی مخالفت کرتے ہوئے لکھتے ہیں اقتباس ملاحظہ ہوں۔

’’ تیری شادی کب ہورہی ہے اما‘‘

’’ماں کو شادی بیاہ کے علاوہ کچھ نہیں سوجھتا۔ ماں تو شادی بیاہ کرنے والے کا ایک بیورو کھول لے۔ اس سے آمدنی بھی بڑھے گی۔ اور تمہارا دل بھی لگا رہے گا۔ پہلے تم دونوں کی شادی تو ہوجائے پھر بیورو کھولونگی۔ جب میں تیری عمر کی تھی۔ تو دو بچوں کی ماں بن چکی تھی’‘

اور وہ دونوں مر گئے تھے ماں’‘۵؎

 اما آج کی تعلیم یافتہ نئی پیڑھی لکھی لڑکی ہے جو اچھے برے سے واقف ہے۔ اس کے ذریعے کرشن چندر نہ صرف کم عمر کی شادی کی مخالفت کرتے ہیں بلکہ اس سے کم عمر میں شادی ہونے کے نقصانات کو بھی بیان کرتے ہیں۔ کرشن چندر نے دوسرے طرح کے مسائل کو بھی قلم بند کیا ہے جہاں والدین دولت کے لئے لڑکیوں کو بیچ دیتے ہیں۔ جس سے لڑکیاں اپنی قسمت کا فیصلہ خود نہیں کر پاتی اور پوری زندگی قید وبند کے عالم میں گزارتی ہیں۔ پھر ان کی خوشیوں کا اور محبتوں کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہوجاتا ہے۔ کرشن چندر اس مسئلے کو ایک عورت ہزار دیوانے میں اس طرح پیش کر تے ہیں: ۔

 ’’خوشی تو اس دنیا میں عورت کو کہاں ملتی ہے۔ ؟ کو شلپا غصے میں بولی۔

 ’’میرے ماں باپ نے دولت کے لالچ میں آکر مجھے ایک بڈھے کے گلے سے باندھ دیا’‘۶؎

 سماج میں اس طرح کے کچھ رواج قائم ہوگئے ہیں جہاں پیدا ہوتے ہی لڑکیوں کو سمجھانا شروع کردیا جاتا ہے کہ وہ گائے کی طرح ہے ایک کھونٹے سے دوسرے کھونٹے میں اسے بدھنا ہے اور ہر حال میں اس چپ رہنا ہے۔ اس طرح قدیم زمانے سے چلے آرہے رواج کو ہی لڑکیاں اپنا فرض سمجھنے لگتی ہیں اور بنا کسی طرح کی مخالفت کے وہ ہر طرح کے ظلم برداشت کرنے کی عادی ہوجاتی ہیں۔ اس بات کو کرشن چندر اپنے ناول ’’باون پتے میں’‘ بڑی ہی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ جس سے عورت کی بے بسی اور مظلومیت کا اندازہ ہوتا ہے اقتباس۔

’’ وہ صرف اتنا جانتی تھی کہ عورتیں بیاہنے کے لئے بستر پر لپٹ جانے کے لئے اور بچے پیدا کرکے اُن کی پرورش کرنے کے لئے بنائی گئی ہیں۔ ان کے خاندان میں ہمیشہ ایسا ہوتا آیا تھا اور ان کے آس پاس خاندانوں میں ہزاروں سالوں سے ایسا ہی ہوتا آیا تھا۔ اور ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ اس لئے جب بھی کوئی مصیبت آتی ہے تو عورت دعا کے لئے دونوں ہاتھ اٹھا دینے کے سوا اور کیا کر سکتی ہے۔’‘۷؎

 یہ ساری دنیا کی حقیقت ہے کہ جب عورت یا غریب کسی طرح کی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ بھگوان اور خدا کو یاد کرتا ہے خود سے اس مصیبت سے نکلنے کی ترکیب نہیں تلاش کرتا۔ جس میں طنز کا پہلو پوشیدہ ہے۔ اس سے اس قرسودہ عمل کے خلاف ماحول پیدا ہوجاتا ہے۔ کرشن چندر ویسے عورتوں کی زندگی کے ہر معاملات کو پیش کیا ہے لیکن عورت کی شادی اور شادی کے متعلق معاملوں کو بہت ہی صاف شفاف انداز میں پیش کرتے ہیں۔ وہ ایسے ماں باپ پر طنز کستے ہیں جو اپنی لڑکیوں کی شادی کے واسطے کسی بڑے گھر کی تلاش میں پھرتے ہیں اور اپنی لڑکی کے دل کو نہیں دیکھتے اس کی خواہشوں کو نہیں دیکھتے اس کی محبت کو نہیں سمجھتے اور دولت وشہرت کی خاطر ایک طرفہ فیصلہ سنا دیتے ہیں۔ مثال کے لئے ناول ’’ ہونولولو کا راجکمار’‘ سے اقتباس دیکھئے:۔

’’ کیا تمہارے پتا جی کسی طرح نہیں مانتے ؟

ہریش نے پوچھا۔

نہیں۔ انہوں نے صاف انکار کر دیا ہے۔ ماں جی نے تو تمہاری بہت سفارش کی مگر وہ کسی طرح نہیں مانتے کہتے ہیں میری لڑکی تو کسی بڑے گھر میں جائے گی۔‘‘ ۸؎

بڑے گھر کی تلاش میں ہی ہمارے سماج میں جہیز جیسی لعنت کا رواج قائم ہوگیا ہے۔ہندوستان میں سب سے بڑا مسئلہ ذات پات کا ہے۔ جس کے چلتے عورتوں کا خوب استحصال ہوتا رہا ہے۔ بڑی ذات کے لوگ چھوٹی ذات کی عورتوں کا جسمانی اور جنسی استحصال کرتے رہے ہیں۔ کرشن چندر اپنی کہانیوں میں اس موضوع کو شد ومد کے ساتھ بیان کر ان طاقتوں کو کند کر دار تک پہنچا دیا ہے۔ جولو گ کمزور ذات کی عورتوں پر ظلم و زیادتی کرتے ہیں۔ کرشن چندر اس طرح کے ذاتی نظام کو غلط قرار دیتے ہیں اور اس سے پیدا ہوئے ہر طرح کے استحصال کو در کرنا چاہتے ہیں اسی لئے وہ اپنے پہلے ناول میں اس کے خلاف چندرا اور ونتی جیسے مضبوط کردار کو پیش کرتے ہیں۔ آج بھی ہندوستان میں اس طرح کے مسائل روز آنا ہوتے رہتے ہیں۔ جس پر کرشن چندر نے بہت ہی صفائی سے قلم چلایا ہے۔ اقتباس دیکھئے: ۔

’’شیام ٹہلتا ہوا دوسرے گروہ میں جاملا، یہاں ایک آدمی کہہ رہا تھا، میں ایمان کی بات کرتا ہوں میں نے سنا ہے کہ بسنت کشن ایک دفعہ چندرا کو گھاٹی پر چھیڑا تھا، اور اس کی عصمت دری کرنے کی کوشش کی تھی۔ ۔۔۔۔ ’’تو اس میں کیا ہے۔ ’’ ایک اور بولا۔ ’’ اس حرام زادی چندرا کا کیا ہے نیچ ذات کی آوارہ عورت تھی۔ اگر بسنت کشن نے اس سے دو مذاق بھی کر لئے تھے تو کون سی آفت آگئی تھی۔ وہ کون سے ایسے خاندان سے تھی۔ ملکہ تھی، شہزادی تھی ؟ کیا تھی وہ ؟ کل تک وہ اور اس کی ماں ٹکے ٹکے کے لئے ماری ماری پھرتی تھیں اور آج بڑی عزت والی بن گئی ہیں۔ اونہہ۔’‘ ۹؎

 ہندوستان میں ذاتی نظام اپنے آپ میں بہت بڑاکلنک ہے۔ اس اقتباس سے ذاتیوں پر ہونے والے مظالم کی تصویر صاف ہوتی ہے۔چندراایک شدرا ذات کی لڑکی ہے۔ہندوستان میں عورتوں اور شودروں کے استحصال کا اندازہ تلسی داس کے اس دوہے سے لگایا جاسکتا ہے۔ جو ایک مذہبی رہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

 شدرگوار ڈھول پشو ناری   یہ سب تاڑن کے ادکاری

 کرشن چندر اس طرح کے نظام زندگی کی کھل کر مخالفت کر تے ہیں۔ ہندوستان میں جو لوگ ہندوستانی تہذیب کی بہت دہائی دیتے ہیں اور دوسرے ملکوں کے نظام کو صرف اس لئے نکارتے ہیں کہ ان کے مقابلے ہماری تہذیب بہت قدیم اور مضبوط ہے۔ کرشن چندر ایسے لوگوں سے سوال کرتے ہیں کہ کیا ہماری یہی اچھی تہذیب ہے۔جو ذاتی تعوصب اور چھوا چھوت کو بڑھاتا ہے یاعورتوں اور غریبوں کا استحصال کرتا ہے۔کرشن چندر اس سب استحصال کا ذمہ دار صرف فرسودہ تہذیبوں اور اس کے رسم وراج کو ہی مانتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ کوئی بچہ پیدا ہوتے برانہیں ہوتا اسے ماحول اور معاشرہ بگاڑ دیتا ہے اور یہ ماحول اور معاشرہ کسی خاص تہذیب رسم و رواج کے سبب بنتا ہے یہ ہم سب جانتے ہیں۔

 ناول شکست میں چندرا اور اس کی ماں یا پھر ونتی کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہیں وہ محض ایک تہذیب کے بناپر ہی ہوتا ہے۔ایک بڑی ذات کے مرد یا عورت کے ساتھ ایک چھوٹی ذات کا مرد یا عورت اس لئے پیار، محبت نہیں کرسکتے کہ سماج کے کچھ ٹھیکداروں نے مل کر اس طرح کے تہذیبی نظام قائم کئے ہیں کہ جس سے وہ ایسا نہیں کرسکتے کیوں کہ ایسا پرانی تہذیبوں میں نہیں ہوا ہے۔جب کہ ان کے تہذیب میں چھوٹی ذاتی کی عورتوں کے ساتھ زور زبردستی دھر م کے خلاف نہیں ہے ؟۔پنڈت سروپ کشن چندرا اور موہن سنگھ کو جدا کرنے کے واسطے سماجی، ذاتی اور مذہبی ہر طرح کا ہتھیارچلاتا ہے کیوں نکہ یہ دونوں چھوٹی بڑی ذات سے ہیں۔ ذات ومذہب کا یہ فرسودہ اصول چندرا کو ایسی حالت میں پہنچادیتے ہیں کہ چندرا اپنے انجام کو پہنچتی ہے۔اقتباس ملاحظہ کیجئے۔

’’چندرا پاگل ہوگئی تھی وہ گائوں گائوں گھومتی پھرتی تھی اس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے وہ ہر شخص کو موہن سنگھ سمجھتی تھی، اور اسے زبردستی مکئی کے کھیتوں میں گھسیٹ لے جاتی تھی۔اس کے منھ سے لار بہتی تھی‘‘۱۰؎ ص۲۴۴

 چندرا کی اس حالت کے پیچھے صرف عورت کے تئیں مردوں کا رویہ ہی نہیں بلکہ چھوٹی ذات کے متعلق ان کی ذہنیت کا اظہاربھی سامنے آتا ہے۔ اگر چندرا راجپوت ہوتی تو موہن سنگھ اور چندرا کی یہ حالت نہ ہوتی کیوں نکہ یہاں بات صرف محبت اور عشق و عورت کا ہی نہیں بلکہ ایک نیچ ذات کا ہے جو غیر انسانی تہذیب کا حصّہ ہے۔ سماج میں برادری کے نام پر ہندوستان میں عورتوں کا جس طرح سے استحصال کیا گیا ہے اس کی مثال پوری دنیا میں کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملتی۔ جسے کرشن چندر نے بڑے درد کے ساتھ بیان کر ذاتیوں کی کھل کر مخالفت کی ہے۔

 کرشن چندر ایک ایسے موضوع کی طرف سنجید گی سے دیکھتے ہیں جہاں معصوم لڑکیوں کی خرید وفروخت ہوتی ہے۔ کہیں بے عمر شادی کے نام پر تو کہیں طوائف خانوں میں بیٹھانے کے لئے ایک ایسے ہی کہانی کو ناول’’ ایک کروڑ کی بوتل’‘میں پیش کرتے ہیں۔ جہاں ادھیڑ عمر کا مردکمسن عمر کی غریب لڑکیوں کو خریدتا ہے اقتباس۔

’’مگن بھائی اب روز ہمارے گھر آتا ہے، رانی بالا کا سینہ فخر اور غرور سے تننے لگا۔

’’اچھا۔اندو کے مکھ سے نکلا۔

’’ہاں ! اور اب وہ بیس ہزار روپیہ دینے کو تیار ہے۔ پر میری ماں ایک فلیٹ اور گاڑی بھی مانگتی ہے۔‘‘۱۱؎

 کرشن چندر یہ بھی جانتے ہیں کہ دولت ایسی شئے ہے جس کے آگے دنیا کی ساری شرافتیں مٹی میں مل جاتی ہیں۔ کوئی مجبوری میں بکتا ہے تو کوئی شوق سے لیکن دولت زیادہ تر انسان کو خرید تی ہی ہے۔ چاہے وہ کسی بھی صورت میں ہو۔موجودہ دور میں بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری اس امل کو اور بھی بڑھاوا دے رہی ہے۔یہ رواج نیا نہیں ہے جہاں عورتیں بیچی اور خریدی جاتی ہیں، دوسرے مردوں کے بستر گرم کرنے کو مجبور کی جاتی ہیں۔ طوائف کا کاروبار موجودہ دور میں بھی بڑا مسئلہ ہے۔ جس کا وقت کے ساتھ کام اور نام بدلتا رہتا ہے عورتوں کے استحصال اور ان کے ظلم وستم کے داستان کم ہونے کا نام نہیں لے رہے ہیں مرد جوان کے حسن اور جسم کے خریدار ہیں وہ کبھی انچے دام دے کر تو کبھی زبر دستی ہی عورتوں کو حاصل کرتے ہیں۔ کرشن چندر نے مسائل کو بڑی خوبصورتی سے اپنے ناولوں میں پیش کیا ہے۔ ایک ایسی ہی کردار کی کہانی ’’ایک وائین سمندر کے کنارے‘‘پیش کرتے ہیں جس سے مردوں کی ذہنیت عورتوں کے طے معلوم ہوتی ہے اقتباس۔

 ’’کس طرح کے یہ مرد ہوتے ہیں جو عورت کے جسم پر اپنے نام کی تختی لگا دیتے ہیں اور اسے شادی کہتے ہیں یا محبت کہتے ہیں یا طوائف کہتے اور سوچتے ہیں کہ کچھ نہیں بدلہ عورت کا کیا ایک فلیٹ ہے جو کہ وہ لکڑی کی ایک تختی ہے کہ جو گرم گوشت کا ایک لوتھڑا ہے کہ وہ ایک قرض ہے جو کہ آنے پائیوں کسی کے ساتھ چکایا جاتا ہے کہ محض ایک جسم ہے جسے سماج کے قصائی کاٹ کاٹ کر مختلف گاہکوں کے ہاتھ فروخت کرتے رہتے ہیں ؟کیا وہ جانتے نہیں ہیں کہ عورت کے جسم کے اندر ایک روح رہتی ہے۔ کچھ آرزوئیں، کچھ تمنائیں کچھ یادیں، کچھ تصویریں جن کے نام کی تختی کبھی نہیں بدلتی۔ پھر یہ مرد کیوں اس طرح کے سلوک کرتے ہیں۔ کیوں ہماری آرزئوں کو کچلتے ہیں۔ ہماری یادوں کو پائوں تلے روند تے ہیں، ہماری تصویروں کو اپنی ہوس رانیوں کا شکار بناکر داغدار کرتے ہیں اور ہماری تمنائوں کے گلے پر چھری رکھ کر کہتے ہیں کہ کچھ نہیں بدلتا‘‘۱۲؎

 اس ناول میں کرشن چندر نے شوبھا کے ذریعہ نہ صرف طوائفوں کی زندگی میں پیش آنے والے مسائل کی طرف اشارہ کیا ہے بلکہ عام عورت کے مسائل کو بھی روشن کیا ہے۔ ان کی ذہنی، جسمانی، تمنائیں کس طرح مرد کے ہاتھوں کچل دی جاتی ہیں۔ وہ مندرجہ بالا اقتباس میں پوری طرح روشن ہوتا ہے۔ اس ناول میں بھی طوائف کے مسائل کو پیش کیا ہے جس سے ایک عورت کی مجبوری کا اندازہ ہوتا ہے۔جمنا ایک ایسی طوائف تھی جیسے ہیروئن کی صورت ملنے کے سبباسے فلم میں ادا کاری کا موقعہ مل جاتا ہے۔جہاں اسے دولت نے کچھ ہی وقت میں بدل دیا لیکن وہی سڑک پر دھندہ کرنے والی رضیہ، جانکی اور تائی بائی جیسے بہت سی عورتیں ہیں۔ جن کی نہ سرکار کو خبر ہے نہ عوام کو لیکن حکومتیں جو دوسری دنیا کے ترقی کی باتیں کرتی ہیں۔ جنھیں اس دنیا سے مطلب نہیں کرشن چندر ایسی ترقی پر گہرا طنز کرتے ہوئے ناول’ پانچ لوفر‘ میں لکھتے ہیں: ۔

’’چلے جائص اس سے بھی تیز رفتار سے اور پہنچ جائو چاند میں اور مریخ میں اور وہاں سے رڈار کی دوربین نکل کر اس زمین کو دیکھنا اس شہر کو دیکھنا اس کے ایک چوک کو دیکھنا جہاں بس اسٹاپ کے اڈے پر کھڑی ایک سوکھی روٹی کے لئے اپنے جسم کا سودا کر ہی ہے’‘۱۳؎

 کرشن چندر طوائف کو سماجی زندگی گزارنے کی آزادی دلانا چاہتے ہیں۔ وہ طوائف کو کسی کی بہن کسی کی بیٹی اور کسی کی بہو اور کسی کی بیوی کی شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس لئے سماج کی فرسودہ خیالات اور فرسودہ روازوں کے خلاف آج اٹھاتے ہیں۔ چندا کی چاندنی میں ایک طوائف عزت دار مرد کے ساتھ شادی کی کہانی کو بیان کیا ہے اور جہا ں چندا کے والد اس کو اپنی بیٹی سماج کے سامنے مان لیتے ہیں۔ عورتوں کے ساتھ ناروا سلوک میں صرف سماج کے ٹھیکداروں کا ہی عمل دخل نہیں ہے بلکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی شامل ہیں۔ ان کے اہلکار نہ صرف ظالم قوتوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں بلکہ خود بھی وہ عورتوں کا استحصال کرتے ہیں۔ جس کی مثال ناول‘‘چنبل کی چمیلی‘‘میں عام طور پر دیکھی جا سکتی ہے اقتباس۔

’’چاردن پتلی کو کابل سنگھ نے حوالات میں رکھا گھر جانے نہیں دیا دوسرے دن بھی اسکے ساتھ یہی سلوک ہوا تیسرے دن بھی، چوتھے دن بھی، پانچویں دن پتلی کی ماں کا بل سنگھ کی ہتھیلی پر دوہزار روپئے کے نوٹ رکھ کر زخمی بیٹی کو چھڑا کر لے گئی۔ دن پھر اپنے کوٹھے پر وہ زخمی پتلی کے جسم کو سینکتی رہی اور دوادارو کرتی رہی مگر پتلی بالکل خاموش رہی رہ رہ کر اُس کے جسم میں ایک لمبی جھر جھری آتی۔ مگر وہ اپنے ہونٹ بھینچ لیتی۔ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب وحشت ناک چمک تھی جس سے اس کی ماں کو بڑا ڈر لگ رہا تھا۔‘‘۱۴؎

 کرشن چندر نے اپنے کئی ناولوں میں پولیس کے زوروظلم سے پردہ اٹھایا ہے اور ان کے ذریعے ہوئے عو رتوں کے استحصا ل کوبیان ہے۔ سوتن ایک سماجی مسائل ہے۔ جس کو کرشن چندربڑے مزے سے ناول ’’ ایک گدھے کی سر گزشت’‘ میں پیش کیاہے مثلاََ: ۔

’’ روپ وتی بیر کے بجائے ہاتھ گھماتے ہوئے بولی ’’ اچھا یہ بتاؤ کیا تم سچ مچ اس کتیا پر عاشق ہو’‘

’’ کون ہے وہ ؟میں آپ کا اشارہ نہیں سمجھا‘‘

’’ وہی کملا !‘‘

’’ ہاں۔ ہاں وہی بے حیا کتیا۔ ’’ روپ وتی بڑی نفرت سے بولی کم بخت عورت ہے کہ مربّے کا ڈبّہ ہے۔ جب دیکھو دوچار مرد چیونٹیوں کی طرح اس کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں !‘‘۱۵؎

 یہ بات تو سچ ہے کہ سوتن ایک بڑا مسئلہ ہے جو عورتوں کے ساتھ پیش آتا ہے اوروہ اس کو بہت زیادہ پیچیدہ بنا دیتی ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے۔ جب انسان کسی سے محبت کرتا ہے تو وہ اسے کھونا نہیں چاہتا تو ایسے میں اس محبت کے درمیان کوئی اور آتا ہے تو بچھڑنے کا خوف اس کے اندر پیدا ہوجاتا ہے۔ جو کسی بھی سچّے عاشق بہت پریشان کرتا ہے اور یہی پریشانی سوتن کے تمام تر مسئلے کو ابھارتی ہے۔

 اردو ادب میں ناول کی ابتداء سے پہلے عورتوں کو ایک الگ نظریات سے پیش کیا جاتا تھا۔جن میں صرف ان کے حسن وجمال کی ہی باتیں ادب کا حصہ بنتی تھیں لیکن وقت نے اردو ناول کو رسوا، پریم چند اور بیدی، قرۃ العین حیدر عصمت چغتائی جیسے ناول نگار دئے۔ جنھوں نے اردو ناول میں عورتوں کے کردار اور افعال کو بدلنے کی کوشش کی۔ کرشن چندر نے جیسے اوربھی مظبوطی سے ناولوں میں پیش کیا ہے۔ ان کے یہاں عورت حسن و شباب کے ساتھ پورے اعتماد سے بھرپور نظر آتی ہے۔ وہ مرد سے اپنا حق پانے کے لئے گھٹنے نہیں ٹیکتی بلکہ وہ اپنے حق کے لئے خود منزل کی طرف بڑھتی ہے۔ کرشن چندر سے قبل اردو ادب میں کسی فنکار کے تحریر میں عورتوں کے سوکھتے ہونٹھ، خردرے ہاتھ، گندی اور پھٹی ہو ئی ساڑی میں ملوث عورت نظر نہیں آتی ہے۔ لیکن یہ سب کرشن چندر کے ناولوں میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مزدور عورت کے حسن اور اس کی محنت، مزدوری اور مشقت کی تصویر پیش کر تی ہے۔جس سے مزدور عورت کے حسن کے علاوہ اس کے پیٹ کی آگ اور اس کی مشقت کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ناول شکست سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو۔

’’ بہت سے شاعروں کا اگر بس چلے تو بے چاری حسین عورت کو صرف ہوا پر جینے دیں۔ شاید اسی لئے بہت سے شاعروں نے اس کی کمر غائب کر دی تھی۔ اس نے آج تک ایسی عورت نہ دیکھی تھی جس کی کمر نہ ہو اور پھر ایک اچمبے بات تھی۔ حسین عورت کی آنکھوں، بالوں، رخساروں، ہونٹوں اور باہوں، پاؤں، ٹخنوں، رانوں، کولہو ں اور جسم کے ہر عضو کا ذکر کیا جاتا تھا۔ اور ان کے اعضا کی تعریف میں زمین اور آسمان کے قلابے ملائے جاتے تھے، لیکن بیچارے پیٹ کا کہیں ذکر نہ تھا۔ قیاس غالب ہے کہ حسین عورت کا پیٹ نہ ہوتا ہوگا کم از کم ان شاعروں کی لغت میں تو یہ چیز کہیں موجود نہ تھی یہ شاعر اپنے آپ کو خوبصورتی کا پرستار کہتے تھے۔ ۔۔۔۔۔۔اور اگر خود نہ کھائے بغیر ایک لمحہ زندہ نہ رہ سکتے تھے لیکن عورت کے بارے میں وہ اس قسم کی لغویات روا نہ رکھ سکتے تھے اور ان کے خیال میں حسن، پیٹ، بچے، بیماری، سماجی نظام اور اس قسم کی بدعنوانیاں کا پابند نہیں ہوتا۔ اس لئے وہ اگر کبھی کبھار بھولے بھٹکے اپنی شاعری میں کسی مزدور عورت کی تصویر کھنچی تو اس کے سوگوار حسن کا تذکرہ ان سے دلکش پیرائے میں کرتے کہ وہ مزدور عورت دوسری عورتوں سے بھی زیادہ حسین نظر آتی اگر وہ مزدور عورت پتھر کو توڑتی ہوتی تو بھی اس کے ہاتھ حنائی ہوتے۔’‘۱۶؎

 اب اس طرح سے نہ صرف عورت کی بے بسی اس کے کھردرے ہاتھ اور حنائی ہاتھ میں فرق اور خاوند وبچے کی دیکھ بھال اور دوسروں کی غلامی وغیر ہ عورتوں تمام تر مسائل کو زور دار طریقے سے کرشن چندر نے بیان کیا ہے۔ اورشاعروں کو اپنے طنز کے نشانے پر لیا ہے جنھیں عورتوں کی صرف حسن ہی نظر آتی ہے۔ جنھیں کھیتوں میں اورسڑکوں پر پتھر توڑتے یادوسروں کی خدمت میں اپنی نیند گنواتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی۔ وہ عورت کا احترام کر تے ہیں اس کی بد حالی کے لئے سماج کے فرسودہ نظام کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ ان کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ کرشن چندر کو سماج اور حالات کی ستائی ہوئی عورتوں سے ہمدردی ہے۔ ان کے اس خصوصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے مہ نور زمانی بیگم لکھتی ہیں: ۔

’’ کرشن چندر نے اپنے دل میں پائی جانے والی عورت کے اس احترام اور اس سے اس قدر شدید عقیدت کے باعث ہندوستان میں عورت کی سماجی بدحالی کی مختلف صورتوں کا مطالعہ کیا ان پر نئے نئے زاویوں سے روشنی ڈالی ہے اور انجانے حقائق کو واضح کیا ہے تاکہ عوام میں عورت سے متعلق مسائل کو نئے نئے طریقوں سے حل کرنے کا شعور پیدا ہو اوراس سلسلے میں کامیاب کوشش کی جائیں۔ انہوں نے ممبئی آنے کے بعد فلمی دنیا میں داخل ہوکر کے مسائل کو قریب سے دیکھا تھا اور اس کے علاوہ بھی ہندوستانی سماج میں جہاں کہی کھوٹ نظر آیا انھونے اس کے قریب ہوکر اس کو جاننے اور پہنچاننے کی کوشش کی تھی’‘۔۱۷؎

 ہر اچھے اور بہترین ادب کا مقصد ہوتا ہے کہ ایک بہترین سماج اور بہترین اخلاق کی بنیاد ڈالنا۔ کرشن چندر صرف عورتوں کے مسائلوں کو ہی نہیں بلکہ عوام کے مسائل کو بھی اتنے ہی سدت سے پیش کرتے ہیں

یہ کہنا بالکل غلط نہ ہوگا کہ کرشن چندر کے یہاں یہی سب کچھ ہے جس کے لئے وہ جانے جاتے ہیں۔ ان کے یہاں زندگی کی ادب سے نزدیکی رومان اور حقیقت کی اعلیٰ مثال پیش کرتی ہیں۔

حواشی۔

۱۔  کرشن چندر کے ناولوں میں نسوانی کردار، مہ نور زمانی بیگم۔ ص۴۳

 ۲۔ اردو دنیا، رفیعہ شبنم عابدی نومبر ۲۰۱۴ ئ۔ ص۲۶

۳۔ ایک عورت ہزار دیوانے۔ ص ۱۲۹

۴۔ ایک عورت ہزار دیوانے، بیسوی صدی اگست۔۱۹۶۳ء۔ ص۱۶۵

۵۔ مہارانی پنجابی پستک بھنڈار دہلی۔۶پہلا ایڈیشن نومبر۔۱۹۷۱ء۔ ص۵۴

۶۔ ایک عورت ہزار دیوانے۔ ص۱۶۹

۱۰۔ باون پتے ص۔۱۲۸

۱۱۔ ہونولولو کا راجکمار۔ ص۱۳۰

۱۳۔ شکست۔ ص۳۶

۱۳۔ شکست۔ ص۲۴۴

۱۷۔ ایک کروڑ کی بوتل۔ ص۱۲۵

۱۹۔ ایک وائین سمندر کے کنارے۔ ص۲۹۹

۲۱۔ ’ پانچ لوفر‘۔ ص۱۴۹

۲۵۔ چنبل کی چمیلی۔ ص۱۰۶

۲۶۔ ایک گدھے کی سرگزشت میں۔ ص۱۵۵

۳۱۔ شکست۔ ص۷۵۔۷۶

۳۲۔ کرشن چندر کے ناولوں میں نسوانی کردار، مہ نور زمانی بیگم۔ ص۷۶

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیبولال

ریسرچ اسکالر

دہلی یونیورسٹی دہلی

nlal599@gmail.com

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.