رپورتاژ ’’دو ملک ایک کہانی‘‘ (ابراہیم جلیس) : ایک جائزہ

  ابراہیم جلیس کا شمار اردو کے بہترین افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔کم عمری سے ہی انھوں نے افسانے لکھنے شروع کئے۔انھوں نے افسانے کے ساتھ انشائیہ اوررپورتاژ نگاری میں بھی طبع أزمائی کی۔انسانی نفسیات کا گہرا مطالعہ ان کی تصنیفات کی جان ہے۔ابراہیم جلیس ادبی ذوق کے ساتھ سیاسی شعور بھی رکھتے تھے۔

 ابراہیم جلیس نے سب سے پہلا رپورتاژ’’شہر‘‘ ۱۹۴۴ میں ممبئی میں قیام کے دوران لکھا۔ یہ رپورتاژ سماجی نوعیت کا ہے،جو ایک مکمل تہذیبی، سماجی اور ادبی تحریر کا درجہ رکھتا ہے، جس میں ممبئی کی زندگی کا اندرونی نقش مکمل طور پر موجود ہے۔ یہ رسالہ ہفتہ وار ’’نظام‘‘ ممبئی میں ۴۷۔۱۹۴۶ میں شائع ہوا، یہ رپورتاژ سات قسطوں پر مشتمل ہے۔

 ابراہیم جلیس کا دوسرا رپورتاژ ’’دو ملک ایک کہانی‘‘ ہے۔ جس کا تجزیہ آئندہ سطور میں پیش کیا جائے گا۔

 ابراہیم جلیس کا آخری رپورتاژ’’جیل کے دن اور جیل کی راتیں ‘‘ہیں ۔ یہ رپورتاژ پاکستان میں تخلیق کیا گیا۔ اس رپورتاژ میں پاکستان کے سیاسی، سماجی، معاشی،تہذیبی و تمدنی نقوش پیش کئے گئے ہیں ۔پاکستان میں ابراہیم جلیس کو جیل کی ہوا بھی کھانی پڑی تھی اس لئے اس میں جیل کی روداد بھی بیان کی گئی ہے۔ابراہیم جلیس نے تمام رپورتاژمیں آپ بیتی کے اثرات کو نمایاں کیا ہے۔

 ابراہیم جلیس کا دوسرارپورتاژ’’دو ملک ایک کہانی‘‘ ہے جس کو اردو ادب کا شاہکار رپورتاژ کہا جا تاہے۔ اس رپورتاژ میں ریاست حیدرآباد کے آخری دور کی داستان رقم ہے۔ اس رپورتاژ میں اس وقت کا حیدر آبادمکمل طور چلتا پھرتا اور بولتاچالتا دکھائی دیتا ہے۔ حیدرآباد ایک مشہور ریاست تھی۔ جس کی شناخت علمی اور تحقیقی میدان میں پوری دنیا میں تھی۔ نظام اپنی دلچسپی سے دکن کے علاوہ ہندوستان اور دنیا کے دیگر تعلیمی اورثقافتی اداروں کی سرپرستی کیا کرتے تھے۔ ریاست میں مذہبی ہم آہنگی کی عمدہ تصویر مکمل طور پردیکھنے کوملتی تھی۔ اس شاندار اورعظیم ریاست کے انحطاط اور انتشار کی داستان تقسیم ہند کے ساتھ شروع ہوتی ہے۔۱۴؍اگست ۱۹۴۷ تاریخ کا وہ عظیم دن ہے جس میں آزادی کا سورج طلوع ہوا۔ آزادی تومل گئی، لیکن انگریز جاتے جاتے نفرت و عداوت کا ایسا بیج بو گئے جس کی وجہ سے آج تک دونوں ملکوں کا سکون غارت ہے۔ اس کے علاوہ اس ریاست کی آزادی یا خود مختاری کا مسئلہ سب سے سنگین تھا۔ سردارولبھ بھائی پٹیل کی قیادت میں انڈین یونین نے ہندوستان کی تمام ریاستوں کو ہندوستان میں شامل ہونے کے لئے مجبور کیا۔ انڈین یونین کے اس قدم سے آزاد رہنے والی ریاستوں میں بے چینی پھیل گئی۔ آزاد رہنے والی ریاستوں میں حیدرآباد بھی شامل تھا، جو اپنا اقتدار اعلیٰ برقرار رکھنا چاہتا تھا۔ نظام تاجدار میر عثمان علی اورحیدرآباد میں مسلم مفادات کی محافظ سیاسی تنظیم اتحاد المسلمین نے حیدرآباد کی آزادی کے لئے پھر پور کوشش کی۔ان دونوں کی سرگرمیوں کے پیش نظر ہندوستان نے حیدرآباد کی معاشی ناکہ بندی کردی۔ جس کی وجہ سے ہندوستان سے خوردونوش کی اشیاء آنا بند ہو گئیں ۔ کچھ تاجروں نے ذخیرہ اندوزی کرنی شروع کردی۔ جس کی وجہ سے گرانی بڑھ گئی۔ میڈیکل اسٹو ر دوائوں سے خالی ہو گئے۔ حیدر آباد میں کالرا اور ہیضہ کی وبا پھیل گئی۔ معاشی ناکہ بندی سے نظاموں اور اتحاد المسلمین کی گرفت کمزور پڑ نے لگی۔ اور عوام بے چین ہو گئی اسی وقت انڈین یونین نے حیدرآباد پر حملہ کردیا۔ نظام اور اتحاد المسلمین کے اراکین و رضاکاروں نے مقابلہ کیا لیکن دھیرے دھیرے حیدرآباد مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکلتا گیا۔ صرف ریڈیوحیدرآباد دکن سے مسلمانوں کا حوصلہ اورجوش بڑھانے کے لئے پروگرام نشر کئے جارہے تھے۔ ابراہیم جلیس اس وقت ریڈیو حیدرآباد میں بطور اسکرپٹ رائٹرکام کررہے تھے۔ ’’دوملک ایک کہانی‘‘ رپورتاژاسی پس منظر میں لکھا گیا ہے۔

 ابرہیم جلیس نے رپورتاژ کی شکل میں تقسیم ہند کا نوحہ رقم کیا ہے۔ یہ رپورتاژ ایک دلدوز رپورتاژ ہے۔ جس کو ایک ناول کے طور پر پڑھا جا سکتا ہے۔ اس میں افسانے کا وحدت تاثر بھی ہے۔ ڈرامے کی روانی اور حرکت بھی موجود ہے۔ اس میں خودنوشت کی چاشنی بھی پائی جاتی ہے۔ فسادات کے ادب پر یہ ایک ایسادستاویز ہے جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ مجموعی طور پر یہ رپورتاژ آنسوئوں اور آہوں سے تربتر موثر مرقع ہے۔

 ’’دو ملک ایک کہانی‘‘ ابراہیم جلیس کے دکھی دل کی آواز اور داستان ہے۔ اس میں ’آپ بیتی‘، ’جگ بیتی‘، ’ڈائری‘، ’سفرنامے‘، ’کہانی‘، ’ناول‘، ’افسانے‘،’ڈرامے‘ غرض ان تمام اصناف کے رنگ و آہنگ پائے جاتے ہیں ۔ اس کے تمام کردار اور واقعات سچے ہیں ۔ ابراہیم جلیس کی خوبی یہ ہے کہ اس نے حذف واضافہ سے کام نہیں لیا بلکہ اس نے اپنی بزدلی،کردار کی کمزوری، اپنی ابن الوقتی وغیرہ وغیرہ سب کچھ بلا کم و کاشت بیان کردیا ہے۔

 ابراہیم جلیس نے رپورتاژ ’’دو ملک ایک کہانی‘‘ میں حیدرآباد کی صورتحال کو بہت ہی خوبصورت اور جذباتی اندازمیں پیش کیا ہے۔ اس میں انہوں نے نظام تاجدار میر عثمان علی کی لغزشوں کی نشان دہی بھی کی ہے اور ان پر سخت تنقید بھی کی ہے اور حسب ضرورت طنز کے تیر وں کی بارش بھی کی ہے۔ ان کے لہجے میں ترشی و تلخی بھری پڑی ہے۔یہ رپورتاژ موضوع کے بے پناہ تنوع، ہمہ گیریت اور بے مثل فنکارانہ خوبیوں کے سبب اردوادب میں شاہکار کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس رپورتاژ کو نیا ادارہ لاہور نے شائع کیا۔ کتاب پر سن درج نہیں ہے۔کتاب کاا نتساب حمید اختر کے نام ہے۔کتاب کے نفس مضمون کو سمجھنے میں یہ عبارت معاون ہوگی:

’’حمید اختر کے نام!

 جو موت کی گھنیری چھائوں میں اپنی بہن کی لاش کندھے پر اٹھائے انسانی لہو کی ہزاروں ندیاں عبور کرتا اپنا سب کچھ لٹا کر لدھیانے سے لاہور پہنچا۔لاہور والٹن کیمپ میں ہیضہ اور ملیریا کے بیچوں بیچ بھی موت پر وردہ زندگی گزارتا رہا۔مگر جس نے اپنا ذہنی توازن نہیں کھویا۔ جو ایک زلزلہ اور آغوش زمین پر بھی ثابت قدم رہاجس کے دل میں فرقہ واری تعصب اور مذہبی اورنسلی نفرت کی ایک چنگاری بھی بھڑک نہ سکی۔ حالانکہ ارض ھمالہ آتش کدہ بنا ہوا تھا۔ ‘‘۱؎

۱۔ ابراہیم جلیس، ’’دو ملک ایک کہانی‘‘، نیاادارہ،لاہور، ص’انتساب‘۔

 اس رپورتاژ میں کہانیوں کو تسلسل کے ساتھ دیگر عنوانات سے پیش کیا گیا ہے۔

 ’’دو ملک ایک کہانی‘‘ میں جو مضامین موجود ہیں ، وہ موضوع کے اعتبار سے ہیں ۔ جن کو ہم تین حصوں یا تین ادوار میں تقسیم کرسکتے ہیں ۔ ادوارلفظ کا استعمال اس لئے کیا ہے کہ ادوار کے لحاظ سے ابراہیم جلیس کی فکر کے افق روشن ہوتے گئے ہیں ۔ اس لئے ہر دور میں ان کی سوچ کے ساتھ ان کی مضامین کے رجحان بھی بدلتے گئے ہیں ۔

 رپورتاژ کے پہلے دور میں براہیم جلیس ایک ترقی پسند ادیب کے روپ میں سامنے آئے ہیں ۔ان کی ترقی پسندی ’’ہز مجسٹی یاروفادار‘‘ سے شروع ہوتی ہے اور ’’زہر کے تاجر ‘‘ تک باقی رہتی ہے۔ جلیس ایک صاف گو انسان اور بے باک ادیب تھے اس لئے ان کی تحریروں میں ابتدا سے ہی لگی لپٹی نہیں ہوتی ہے۔

 ابراہیم جلیس کا خمیر دکنی تھا، مگر ضمیرنجیب الطرفین تھا۔ نظاموں کی سلطنت دکن میں رہنے کے باوجود ان سے وہ کبھی محبت نہ کرسکے بلکہ از راہ مصلحت سمجھوتے کی بنا پر زندگی کو گزار رہے تھے۔ ان کی نفرت انگیزی ان کے قلم میں نظر آئی۔ وہ نظاموں کی فطرت، کردار اورشہوت پرستی پر طنز کرتے ہو ئے لکھتے ہیں :

 ’’نذرانے وصول کرنا حضور نظام کی سب سے بڑی ہابی ہے۔ وہ جس آدمی کوبھی اپنی بارگاہ میں بازیاب کرتے ہیں ۔ اسے کم از کم حضور کی خدمت میں ایک سونے کی اشرفی ضرور بطور نذرانہ گزارنا پڑتی ہے۔اس طرح حضور اقدس کی روزانہ آمدنی کم از کم پانچ سو سونے کی اشرفیاں ہیں اور حضور اقدس نے اس طرح اتنی دولت اکٹھی کرلی ہے کہ وہ دنیا کے چار امیر ترین انسانوں میں سے ایک ہیں ۔۔۔

اعلیٰ حضرت ایک نظام کی کنگ کوٹھی مبارک میں تین چیزیں دیکھنے کے قابل ہیں دولت، نظام اور تین ساڑھے تین سو عورتیں جو کبھی ان کی پیاری رعایا کی بہو بیٹیاں تھیں ۔ مگر کمبخت اس قدر خوبصورت تھیں کہ حضور کے حرم کے سوا کو ئی اور جگہ ان کے لئے کرہ ارض پر تھی ہی نہیں ۔حضور نے ان کو صرف ایک باراپنے جسم سے سرفراز فرمایا اور کنگ کوٹھی کی اونچی اونچی دیواروں میں جوانی کی آگ میں جلنے جھلسنے کے لئے ہمیشہ کے لئے قید فرما دیا۔ ‘‘ ۲ ؎

۲۔ ابراہیم جلیس، ’’دو ملک ایک کہانی‘‘، نیاادارہ،لاہور، ص۱۳۔

 ابراہیم جلیس کا قلم ان خیالات کاساتھ دیتے دیتے’’زہر کے تاجر‘‘تک برقرار رہتا ہے۔ لیکن اس کے بعد ابراہیم جلیس کے اندر کا ادیب ایک لبرل خیال سے فرقہ پرستی کے ساتھ مذہبی اور جنونی ہوجاتاہے۔ وہ انگریزی سامراج کو بھی تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔ ان کی تحریروں میں جنوبی پاکستان کے حوالے سے تیزی سے پھیلنے والاتصور بھی ہے۔ حیدر آباد کے معصوم،عیار، مفلس اور امراء کے ساتھ شاہ پرستوں کی زندگیوں کی تصویر بھی ہے۔ لیکن یہ سارے خیالات’’زھر کے تاجر‘‘تک ہی برقرار رہتے ہیں ۔ اس مضمون کے نصف آخر تک آتے آتے ابراہیم جلیس کمیونسٹ یا شوسلسٹ انسان نہیں رہتا ہے بلکہ وہ سخت مذہبی مسلمان بن جاتا ہے۔ وہی مسلمان اس کو اتحاد المسلمین کا رکن بھی بنا دیتا ہے۔ ابراہیم جلیس کو ایک جنونی مسلمان بنانے میں ان حیدرآبادی اخبارت نے اہم رول ادا کیا، جن میں ہندوئوں اور سکھوں کے بارے میں زہر افشانی کی جاتی تھی۔

 ابراہیم جلیس کے اندر کا مسلمان جب جاگ جاتا ہے تو اس کی تمام تر سرگرمیاں مجلس اتحاد المسلمین سے وابستہ ہو جاتی ہیں ۔ وہ جس کو بھی دیکھتا ہے صرف مذہب کی عینک سے۔ بلکہ مذہب کی عینک سے مسلمان اور اتحاد المسلمین کے علاوہ کچھ اور نظر نہیں آتا ہے۔مسلمان ابراہیم جلیس کی فکر اور اس کا قلم صرف مسلمانوں تک ہی محدود تھی۔ ان کی تحریروں میں انڈین یونین اور ہندئوں کے متعلق شدید نفرت کا اظہار موجود تھا۔ کیونکہ اس وقت بلقیس جہاں کی عصمت دری کا واقعہ پیش آچکا تھا۔ ابراہیم جلیس کے یہاں بلقیس جہاں کو ئی حقیقی عورت نہیں بلکہ یہ ایک خیالی اور تخلیقی کردار ہے۔ جو حیدرآباد اور ہندوستان میں مظلوم عورتوں کی علامت ہے۔ یہ اور اس طرح کے کچھ ایسے واقعات تھے جن سے متاثر ہوکر براہیم جلیس اتحاد المسلمین کے ممبر بنے اور پھر ایک فعال کارکن بن گئے اور رضاکار تحریک سے وابستہ ہو گئے۔ آزادی ملنے کے بعد فساد پھوٹ پڑا، جس میں سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کا ہوا۔ حیدر آباد ایک اسلامی ریاست تھی۔ مگر اس میں ہندئوں کی تعداد نصف آبادی سے زیادہ تھی۔ اسی لئے انڈین یونین اور ہندئوں کی ملی بھگت سے سقوط حیدرآباد کا واقعہ پیش آیا اور تقریباََ پندرہ لاکھ مسلمان سخت مشکلات سے دو چار ہو ئے۔ ہندوستان سے مہاجرین کی تعداد کثرت کے ساتھ حیدرآباد پہنچنے لگی، اس لئے حیدرآباد ہی ان کو پناہ گاہ نظر آرہی تھی۔ چونکہ سقوط حیدرآباد انڈین یونین کی وجہ سے ہوا تھا اس لئے حید رآبادی مسلمانوں میں یونین کے خلاف نفرت میں شدت کا جذبہ بڑھتا گیا۔ اتحاد المسلمین سے ابراہیم جلیس کو اس قدرعقیدت تھی کہ پورا ایک مضمون ان کے نام سے رقم کرڈالا۔’’ مسٹر اتحادالمسلمین‘‘ میں حیدر آباد کی سیاسی فضا موجود ہے۔

 ابراہیم جلیس کی شخصیت کے تیسرے کردارسے ہماری ملاقات کتاب کے آخری حصے میں ہوتی ہے۔ اس کردار کی خاصیت یہ ہے کہ وہ ترقی پسند اور کمیونسٹ ہے۔ ترقی پسند اور کمیونسٹ ادیب نے جب اس آخری حصے کو صفحہ قرطاس پر اتارنا شروع کیا، تو اس میں حیدر آباد سے فرارہونے کی صعوبتیں اور پاکستان پہنچنے تک کی پریشانیوں کی روداد رقم کردیں ۔حیدرآباد سے فرار ہوتے وقت اور پاکستان پہنچ کرشدید ذہنی دبائو کا شکار تھے۔ سب سے بڑا مسئلہ تو ان جوشیلی اور جذباتی تقریروں کا تھاجو انہوں نے اپنے اندر کے مسلمان کے جاگنے کے بعد ریڈیو سے نشر کی تھیں ۔ان تقریروں پر وہ حیدرآباد میں بھی کف افسو س ملتے رہے اور پاکستان پہنچ کر بھی ان ترقی پسندوں سے نظریں نہیں ملا پا رہے تھے۔ غرض اس میں ابراہیم جلیس نے انہیں حادثات، واقعات اور پریشانیوں کا ذکر کیا ہے جس سے وہ براہ راست متاثر ہوئے۔ابراہیم جلیس حیدرآباد سے بمبئی پہنچے اور پھر بمبئی سے کراچی اور پھر کراچی سے لاہور پہنچے۔ دوران سفر بھی ابراہیم جلیس کے اندر جوش اور زندگی ابھی بھی کہیں نہ کہیں رواں دواں تھی۔

 رپورتاژ کے آخری حصے میں اس پاکستان کا بھی ذکر ہے جس کے لئے ابراہیم جلیس نے اپنا مولد اور اپنا وطن بھی چھوڑ دیا تھا۔ اس گوشے میں مصنف نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سیاسی و سماجی اور معاشرتی منظر نامے کو بھی بیان کیا۔ وہاں پہنچنے کے بعد اپنی حالت زار کا بھی ذکر کیا ہے اور ان نام نہاد ادیبوں کا ذکر کیا ہے جو اپنی دنیا اور اپنے بحث میں مصروف تھے اور آس پاس کی دنیا سے بے خبر تھے۔ حالانکہ ان کی تحریروں میں انسانیت کا درد مکمل طور پر موجود تھا۔

 ابراہیم جلیس نے رپورتاژ کے آخری حصے میں پاکستان کی مکمل تصویر پیش کی ہے۔ کہ وہاں کا سیاسی و سماجی منظرنامہ کیسا ہے۔ ادیبوں کے حالات بھی قلمبند کئے ہیں کہ ادیب کس طرح سے کسم پرسی کی حالت میں پاکستان میں زندہ ہے اور اد ب کی حالت بھی ناگفتہ بہ ہے۔ ادب کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ہی نہیں جاتاہے۔ ابراہیم جلیس نے اس میں اپنی ذاتی اور شخصی ناہمواریوں کا بھی ذکر بھی کیا ہے۔ ابراہیم جلیس حیدرآباد میں اپنی کی ہوئی جوشیلی تقریروں پر پہلے سے ہی پشیمان تھے اور اس طرح کی تحریریں لکھنے سے باز آگئے تھے لیکن جب وہ بے سروسامانی اور بے روزگاری کے عالم میں کراچی پہنچے تو روزگار دینے کے بعد ان سے ایسی تحریروں کا مطالبہ کیا گیا جن میں فرقہ وارانہ ادب کا تاثر واضح ہو۔ لیکن بے روزگاری کے عالم میں بھی ابراہیم جلیس نے ’’ترنگے کی چھائوں میں ‘‘ جیسی دوسری تحریر لکھنے سے معذرت کرلی۔

 ابراہیم جلیس نے اس رپورتاژ میں کہیں کہیں خاکہ نگاری کے نمونے بھی پیش کئے ہیں ۔ حالانکہ ان کی خاکہ نگاری بہت ہی جامع ہے۔ مختصر الفاظ میں ا نہوں نے کردار کی تصویر اس طرح کھینچی ہے کہ موصوف کا مکمل سراپا نظروں کے سامنے آجاتا ہے۔ کچھ ایسے ہی انداز سے انہوں نے فیض احمد فیض ؔ کا خاکہ کھینچا ہے:

’’فیض احمد فیض ایک دلکش شخصیت، مسکراتا چہرہ،گنگناتا تخیل مگر اس کے باوجود چہرے کا ایک ایک نقش فریادی ہے۔ میں فیض صاحب سے اتنا مرعوب ہو گیا تھا کہ فورا پھر ملنے کا وعدہ کرکے پھر اٹھ کھڑاہوا۔ ‘‘ ۳ ؎

۳۔ ابراہیم جلیس، ’’دو ملک ایک کہانی‘‘، نیاادارہ،لاہور، ص۱۵۸۔

 ابراہیم جلیس نے ظہیر کاشمیری کا نقشہ بھی اسی انداز میں ابھارنے کی کوشش کی ہے:

’’حضرت ظہیر کاشمیری آجاتے ہیں ۔ سب پر سناٹا طاری ہو جاتا ہے۔ا ن کی سنہری زلفوں ، سرخ چہرے، خمیدہ ناک، شیکسپرین سرخ داڑھی اور سفید دھاریوں والے ڈارک بلو سوٹ سے ترقی پسند ادب اگلنے لگتا ہے۔‘‘ ۴ ؎

۴۔ ابراہیم جلیس، ’’دو ملک ایک کہانی‘‘، نیاادارہ،لاہور، ص۱۵۹۔

 ’’دو ملک ایک کہانی‘‘ ابراہیم جلیس کی شاندار تخلیق ہے اور اردو ادب کا لاثانی رپورتاژ ہے۔ اس رپورتاژ کا نام بھی بہت ہی موزوں منتخب کیا گیا ہے۔ اس لئے کہ بھلے ہی تقسیم کی دیوار نے دونوں ملکوں کو الگ الگ کردیا ہو مگردونوں ہی ملکوں میں ایک ہی طرح کی کہانی دہرائی جا رہی ہے۔ دونوں ملکوں میں فسادات کا مکروہ کھیل کھیلا گیا۔ دونوں ملکوں میں صرف غریب ہی متاثر ہوا۔ اس لئے کہ اس کا کوئی مسیحانہیں تھا۔ دونوں ملکوں میں امیر ہی محفوظ رہا۔ سیاست داں محفوظ بھی رہااور مضبوط بھی ہوتا گیا۔ غرض دونوں ملکوں میں ایک ہی طرح کی کہانی دوہرائی جا رہی تھی۔بس صرف نام اور مذہب کا فرق تھا، کہیں سکینہ تھی تو کہیں لاجونتی۔ فسادات اور ہجرت کے دوران ان پر ظلم کے وہ پہاڑ توڑے گئے کہ ان کا نام اردو ادب میں ایک استعارہ بن گیا۔ علی محمد اور نریندر سنگھ کی زندگی سرحد کے دونوں جانب ایک ہی جیسی تھی۔دونوں کی زندگیاں فسادات اور ہجرت کی نذر ہو گئیں ۔ ابراہیم جلیس نے اس حصے میں طنز کے ترکش کا آخری تیر بھی چھوڑ دیا ہے۔ اور بے ساختہ لکھ دیا ہے کہ لاشوں نے ہی ہندوستان اور پاکستان بنایا۔

 تقسیم وطن کے بعد حیدرآباد سیاسی کشمکش کا شکار رہا۔ نظاموں کی خواہش تھی کہ حیدرآبادکو بھی پاکستان میں شامل کیا جائے،مگر حیدرآباد کا محل وقوع ایسا تھا کہ اس کی ایک بھی سرحد پاکستان سے نہیں مل رہی تھی۔ اور شاید ہندوستانی حکومت اس کو پاکستان میں شامل بھی نہیں کرنا چاہ رہی تھی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ نظاموں کی بے تحاشہ دولت تھی(نظام میر عثمان علی دنیا کے چار امیر ترین لوگوں میں سے ایک تھے) اس کے علاوہ آزاد حیدرآباد کا نعرہ، اتحاد المسلمین کی سرگرمیاں بھی ہندوستان کے لئے سردرد بنی ہوئی تھیں اس لئے انڈین یونین کی فوج نے محمد علی جناح کی وفات کے بعد ہی حیدرآباد پرحملہ کردیا اور اس پر قبضہ کرلیا۔ ان تمام واقعات کے ابراہیم جلیس چشم دید گواہ تھے۔ ’’دو ملک ایک کہانی‘‘ میں نظاموں کی طرز زندگی، سماجی، معاشی اور خلاقی تمام پہلو پیش کئے گئے ہیں ۔ امراء کا کردار(بدکرداری) بھی موجود ہے اورقدم قدم پر طنز کے تیر بھی چلائے ہیں ۔ اس میں تلخی اور ترشی کوٹ کوٹ کر بھری ہو ئی ہے۔موضوع اور فن کے اعتبار سے یہ ایک بے مثل ادب پارہ ہے۔ ’’دو ملک ایک کہانی ‘‘ کو رپورتاژ کے ارتقا کے سلسلے میں ایک اعلیٰ معیار اور نمونے کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔

 ’’دو ملک ایک کہانی‘‘ فسادات کے موضوع پر تحریر کئے گئے ادب میں ایک ممتاز ادبی دستاویزکی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ابراہیم جلیس کا طرئہ امیتاز ہے کہ سقوط حیدرآباد کوانہوں نے رپورتاژ کی شکل میں اتنے عمدہ اور شاہکار انداز میں پیش کیا کہ اس کو اردو ادب نے اپنی تاریخ کے روشن باب میں شامل کرلیا۔

ٌٌٌ ٌٌٌ ********

Research Scholar

Noor Bano ( Phd )

Mob: 9999927970

Email : mohdzahid2819@gmail.com

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.