ڈاکٹروزیرآغاکی طویل نظمیں

Dr. Wazir Agha is essentially a prolific poet. His marvelous Long Poems, specially “Aadhi Sadi ke Ba`ad” and “Ek katha anokhi” are the reflection of his great thoughts and his profound command on poetry. These poems are translated into English, Swedish, Greek, Spanish, Hindi and different Local languages of the sub continent.

His literary contribution is remarkable and widely appreciated through out the literary circles of the world. His thought provoking poetry with modern sensibility is a valuable asset of Urdu Language and his Long poems are full of freshness of images. He wrote several poems of great prominence. He also promoted modern long poems through his literary magzine “Auraq”. His critical work on modern poetry is particularly of a great significance. He inspired several young poets. In fact he is a trend-setter poet/writer with unique thoughts.

اُردو میں طویل نظم اپنے منفرد مزاج اور اسلوب کے باوصف جداگانہ خدوخال کے ساتھ اُبھری ہے۔ اِس صنف نے قاری کو عجلت پسندی کے بجائے سیرابیت عطا کی ہے۔اظہاریے کومختصرمزاج سے نکال کر وسعت آشناکر دیا ہے۔یوں اِس شش جہت پھیلا ئو نے تہذیبی و ثقافتی ورثے کی کڑیوں کو مربوط کرنے میں اپنا اہم کردار انجام دیا۔طویل نظم کا ایک پہلو اِس کا رجائی انداز بھی ہے،جو زندگی کے لیے ایک مثبت لائحہ عمل کا زائیدہ ہے۔طویل نظم کسی لمحاتی کیفیت کی اُچٹتی نظر میں معلق ہو کر نہیں رہ جاتی بلکہ تخیل اور جذبہ کی وارفتگی اور کثرت اِسے ٹھہرائو عطا کرتی ہے۔ طویل نظم کی شعریات میں طوالت ایک اہم عنصر ہے،جو اِس صنف کو مختصر نظم سے امتیاز عطا کرتا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ طویل نظم کا موضوع درخت کی شاخوں کی طرح ظاہری طور پر نظر آنے والے پھیلائو کی طرح تو دِکھائی دیتا ہے، کیا زمین کے اندر بھی جڑوں کی صورت اُتنا ہی گہرا ہے یا نہیں ! طویل نظم کو کسی صورت بھی مصرعوں کا انبار ہرگزقرار نہیں دیا جا سکتا۔ڈاکٹر وزیرآغا کا شمار طویل نظم کے رجحان ساز شاعر کے طور پر ہوتا ہے،اُن کی طویل نظموں کا مطالعہ اِس صنف کو سمجھنے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے:

اَندر کے رونے کی آواز

سارے موسم

چہکتا ہوا ایک موسم بنیں !

رنگ بکھریں

قبائوں پہ،چوغوں پہ،کوری ردائوں پہ نقشے بنائیں ۱؎

ڈاکٹروزیرؔآغا (۱۸مئی۱۹۲۲ء تا ۷ستمبر۲۰۱۰ئ) کی طویل نظم ’’اندر کے رونے کی آواز‘‘ اُن کے شعری مجموعے ’’گھاس میں تتلیاں ‘‘ میں شامل ہے۔ علاوہ ازیں ادبی رسالہ ’’اوراق‘‘ کی اشاعت جولائی،اگست ۱۹۸۴ء میں بھی اِسے شائع کیا گیاہے۔نظم Inselfسے مکالمے کی بازگشت ہے۔ ہجر اور جدائی کے انسلاک سے جنم لینے والی گونج جب قاری پر اپنا پہلا ہی تاثر چھوڑتی ہے تو اُس کی گرفت کا حصار آخر تک قائم رہتا ہے :

’’وداع کا وہ منظر میں بھولا نہیں ہوں ‘‘(گھاس میں تتلیاں : ص۱۳۱)

یہ طرز ِ احساس اُسے فرقت کے اُس لمحے نے دیا ہے جہاں وہ ریل کی سیٹی کی گونج سے دولخت ہو چکا ہے،گویا وہ ایک ایسے جہان میں تنہا رہنے پر مجبورہو چکا ہے جہاں وہ کسی کے ہونٹوں پہ موجزن شفق اور آنکھوں میں ستاروں کی اُجلی کرن کو وداع کر چکا ہے۔اُس کے سامنے منظروں کانوع بہ نوع ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔مگر یہ منظر نہ تو اُدھورے ہیں اور نہ ہی بے معنویت (Absurdity) کی کسی صورت میں ڈھل رہے ہیں ۔نظم میں پرندہ،ریل،ندی،بارش،تتلی،دھواں ،آواز،موسم ایسے تلازمات ہیں جن سے ’’یاد‘‘ کا انسلاک فطری ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ نظم،تیز بارش کے بعد پتّوں سے لرزتی اور پھر ٹپکتی بوندوں کی طرح پڑھنے والے کے احساسات پر گررہی ہے۔اور اُسے اُس آواز کی بازگشت سُننے کے لیے اُبھارتی ہے جو لبوں کو مقفل کیے اپنے ہی اندر سُلگ رہی ہے:

آواز مجھ کو ہمیشہ سے آتی رہی ہے

میں اندر کے رونے کی اِس بھیگی آواز کو جانتا ہوں

ازل سے میں اس بھیگی آواز کو سن رہا ہوں

اسے خوب پہچانتا ہوں !! ۲؎

مغرب سے نظم جدید کی ہیئتی پرچھائیوں نے اُردو نظم پر بھی اپنے اثرات مرتسم کیے،اِن میں موزیک،مونتاج اور کولاژ (کولاج) اہم ہیں ۔بنیادی طور پر کولاژمصوری کی اصطلاح ہے۔جس میں مختلف چیزوں (امیجز) کوچسپاں کرکے تصویر کے خدوخال اُبھارے جاتے ہیں ۔زیریں سطح پر ایک مخفی لہر ہے جو آپسی ربط بناتی ہے۔بالکل شیشے کے اُن ٹکڑوں کی طرح جن میں ہر ٹکڑا اپنے اپنے عکس محدود زاویے سے دکھاتاہے مگرجب وہی ٹکڑے جڑ کرایک مہاتصویر میں ڈھل جاتے ہیں تو ایک مختلف تصویر ہمارے سامنے آتی ہے۔ ہمارے ہاں شاعری میں ترکیب سازی کا عمل کولاژ (کولاج) کو سمجھنے کے لیے ہماری مدد کر سکتا ہے،کیونکہ ترکیب میں بھی ہر لفظ کا اپنا انفرادی معنی ہوتا ہے لیکن جب دو یا دو سے زائد الفاظ مل کر ایک ترکیب بناتے ہیں تو ہر لفظ اپنے انفرادی معنی کو معطل کرکے،ایک نئے معنی کو جنم دیتا ہے۔مثال کے طور پر ’’کاسۂ شام‘‘ میں کاسہ اور شام کے اپنے اپنے معنی ہیں لیکن ترکیب میں جڑ کر ایک نیا معنی پیدا ہو جاتا ہے۔کولاژ کی حیثیت بھی ایسی ہی ہے۔

کولاژ کی ہیئتی صورت بھی ہے اور تخیلاتی بھی۔وزیرآغا کی مذکورہ نظم’’اندر کے رونے کی آواز‘‘ کے یہ چند صوری امیجز اپنے طورپراورمجموعی لحاظ سے ایک ایسی فضاCreate کرتے ہیں ،جہاں قاری بیک وقت ایک ہی نظم پڑھتے ہوئے دو مختلف سطحوں سے گزرتا ہے اوریہ دونوں ہی زاویے اُس کے لیے جہانِ نو کا درجہ رکھتے ہیں :

دور تک،ہر طرف

ملگجے سے اندھیرے کی زنجیر تھی

رات بھیگی ہوئی تھی(گھاس میں تتلیاں :ص ۱۳۱)

——-

مگر ریل

ندی میں بہتے ہوئے ایک تنکے کی صورت

بس اِک پل رُکی(ایضاً:ص ۱۳۲)

——-

دھواں مُوقلم تھا

پُرانی حکایت نئی طرز میں لکھ رہا تھا(ایضاً:ص ۱۳۲)

——-

چاروں طرف سے ……. اُسے

اُس کے اپنے ہی سایے نے گھیرا ہوا ہے(ایضاً:ص ۱۳۴)

——-

وہ اپنی ہی آواز کی قید میں ہے

ہمہ وقت اپنے ہی خنجر کی زد پر کھڑا ہے(ایضاً:ص ۱۳۴)

——-

پھیلے ہوئے ’’ہست‘‘ کے ایک گوشے میں

سمٹا ہوا ایک پنچھی ہے(ایضاً:ص ۱۳۵)

نظم کی مجموعی فضا اُداس کردینے والی ہے، یہ اُداسی شاعر کو مرتکز کرتی ہے نہ کہ وہ بکھرائو کی طرف گامزن ہوتا ہے۔مرتکز ہونے کے عمل سے دھیان انجماد کی طرف بھی منتقل ہو سکتا ہے لیکن اِس حوالے سے بھی نظم کی گمبھیرتا بالیدگی سے ہم رشتہ ہو کر جذب کی کیفیتوں سے نامعلوم کو مس کرتی ہے اور اپنے اندرونی آہنگ کے باعث ایک بڑی نظم کہلائے جانے کی مستحق ہے، یہ چند مناظر ملاحظہ کیجئے:

پرندہ !

اگر ریل کی دُکھ بھری چیخ سنتا

تو اِک پل میں بیدار ہوتا

لرزتی ہوئی شب کی پلکوں سے

آنسوکی اِک بوند بن کر ٹپکتا(ایضاً:ص ۱۳۱)

——-

لبوں کو مقفل کیے

اپنے اندر ہی اندر سُلگتی رہی ہے

سدا اپنے اندر ہی اندر سُلگتی رہے گی(ایضاً:ص ۱۳۲)

——-

دھرتی……. جو اب تک اُسے

گود میں لے کے لوری سُناتی رہی تھی

لرزتی ہوئی اُس کی پلکوں پہ

پل بھر چمک کر

ابھی ایک موٹے سے آنسو کی صورت

سُلگتے ہوئے سرخ لاوے کی ٹھہری ہوئی جھیل میں

جا گری ہے(محولا بالا:ص ۱۳۵)

ڈاکٹر وزیرؔآغا اپنی اِس نظم میں ’’ربطِ اولین‘‘ کے لمس سے بھی آشنا ہوئے ہیں ،اُن کے ہاں جذبے کی ایسی نرم اور نازک، احساسی صورت ہمارے سامنے آتی ہے کہ پھولوں کی پتیوں پر اوس کے قطروں کا گمان ہوتا ہے۔اوردوسری لہراُن کے اندر اُس سلگتی چنگاری کو ہوا دیتی ہے جس کے بارے میں امینؔ راحت چغتائی لکھتے ہیں :

’’نظم میں وزیرآغا نے اپنے غم کو کائنات کا غم بنا دیا ہے۔ بنی آدم اپنے کیے کی سزا بھگت رہا ہے،یعنی اپنا مواخذہ خود کر رہا ہے۔‘‘ ۳؎

ئزء

الائو

ڈاکٹروزیرؔآغا کی طویل نظم ’’الائو‘‘ اُن کے شعری مجموعے ’’گھاس میں تتلیاں ‘‘ کا حصہ ہے۔ بعد ازاں یہ نظم اَدبی رسالہ ’’اوراق‘‘ کی اشاعت مئی، جون ۱۹۸۳ء میں بھی شامل ہوئی۔الائو کی عمومی صفات میں گھٹن،دبائو،جبریت کا نفوذ، فطری لپک،تغیرات ایسے تلازمات شامل ہیں ۔کیا عجب ہے کہ نظم میں بھی ایسے الفاظ در آئے ہیں جن کی تپش پڑھنے والے کو بھی محسوس ہوتی ہے۔مثلاً ’گرم خوابوں کی لوری‘،’سرخ سورج کے بھالے‘،’چمک دار جبڑے‘،’بدن کی حرارت‘،’برق کی قاش‘،’جھونکے کی تُندی‘،’لہو کی جوالا‘،’الائو کی اُجلی تمازت‘،’سرخ قشقہ‘،’سلگتے اعضا‘ وغیرہ ایسے اشارے ہیں جن سے حدت کی موجودگی کا واضح احساس ہوتا ہے،جو زیر سطح رونما ہونے والے جوار بھاٹے کواُس فشاری قوت سے مس کر رہی ہے جسے آخر کار ’’الائو‘‘ کا روپ دھار لینا ہے،یہی صورت انسانی کے اندر پکنے والی اُس کیفیت کی غمازی بھی کرتی ہے جو اپنا اظہار چاہتی ہے،جو ساری حدوں کو توڑکرہر رشتے ہر تعلق کو مسمار کر دینا چاہتی ہے،جو نہ جانے کتنے عرصے سے سلگ رہی تھی:

اپنی آواز سے تم بچھڑتے گئے

اور درختوں ،مکانوں ،

گپھائوں سے

لاکھوں کی تعداد میں سال خوردہ

گُر سنہ صدائیں

تمھیں دیکھ کر تلملاتی رہیں ۴؎

 نظم کی کئی پرتیں ہیں ، ان میں انکشاف ذات ایک اہم پرت ہے،فرد اور معاشرے کا تصادم اور اُس سے جنم لینے والی ناہمواری،وہ پیچیدگی جو اُسے غیر مربوط اور منقسم نظریات کی سرحد پر لاکھڑا کرتی ہے،جہاں دھندلی فضا اپنے پنجے گاڑھ لیتی ہے اور ہر منظر غیر شفاف ہونے لگتا ہے، تخت سنگھ لکھتے ہیں :

’’سوچتا ہوں جس گم شدہ آواز کووزیرآغا نے الائو کوروشن رکھنے کے لیے ایندھن کے طور پر استعمال کیا ہے، آخر وہ ہے کیا؟ کیا قوتِ حیات کی گم شدگی کا ماتم تو نہیں منایا گیا یا ضمیر انسان کی مُردہ آواز پر طنز کیا گیا ہے؟ اس مشینی جُگ میں اپنی پہچان کھو چکے انسان کو تو ہدفِ ملامت نہیں بنایا گیا؟ یہی خیال انگیزی تو اِس طویل نظم کا اصل مدعا ہے۔‘‘ ۵؎

 تاریخی شعورکے ساتھ دیومالائی کیفیتیں بھی نظم کے اہم پہلو ہیں ،جنھیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔لیکن نظم کا کوئی حصہ بھی شعریت سے تہی نہیں ہے۔ فرد اور معاشرے کا تعلق اکہری معنویت کے باوصف باطن سے اُٹھنے والی ہر کیفیت پر اپنا پرتوثبت کر دیتا ہے۔بلراج کومل لکھتے ہیں :

’’اس مسلسل شعلگی اور آتش زدگی کے روحانی، جذباتی اور وجودیاتی تجربے کے الائو کی ہم سفر شاید ایک اور زیرزمیں موج نرم رو۔وزیرآغا کے ہاں شروع سے آخر تک موجود ہے۔‘‘ ۶؎

تمھاری صدا

سارے عالم کی واحد صدا تھی

کہاں تم نے کھودی وہ اپنی صدا؟

بولتے کیوں نہیں ہو ؟؟ ۷؎

نظم ایک روحانی تجربے کو آشکار کرتی ہے، دورانِ قرأت،قاری ایک اَن جانی گرفت میں آ جاتا ہے۔تاہم اِ س گرفت کو فرد کی تنہائی کا المیہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایک ایسا احساس جو کُل سے ٹوٹ کر لخت لخت ہو چکا ہے،لیکن اِس کیفیت کا حصار شعری کائنات سے باہر نہیں ، احمد ظفر لکھتے ہیں :

ًً’’فرد کے المیے کو بڑی خوبی، رکھ رکھائو اور پورے محرکات کے ساتھ اور اپنے مخصوص شاعرانہ انداز میں بیان کیا ہے۔‘‘ ۸؎

مظہر الزمان خان لکھتے ہیں :

’’الائو، ایک ایسی نظم ہے جو زمین سے اُٹھ کر شفق بن جاتی ہے۔‘‘ ۹؎

’’فاعلاتن فعولن فعولن فعول ‘‘ارکان کی حامل اِس نظم میں لفظ کی مفرد حیثیت کا اعلامیہ دراصل ایک ایسی خود مختار اکائی کی صورت سامنے آیا ہے،جسے کسی قسم کا آرائشی روپ پسند نہیں ۔’’الائو‘‘ میں اِس کا اظہارمنفرد طریقے سے ہوا ہے،نظم میں کوئی اضافت نہیں ،لیکن مصرعوں میں الفاظ کا ایک فطری رشتہ بھی ہوتا ہے،جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ایک دوسرا پہلو نظم میں علامتی آہنگ کا در آنا بھی ہے۔سنتوکھ سری بھی اِس پہلو کی طرف متوجہ ہوتے دِکھائی دیتے ہیں :

’’اِس نظم میں دو مرکزی نکات ہیں ۔الائو اور پریت۔ الائو جو عمل، حرکت، اجتہاد، انقلاب اور ضیا کی علامت ہے اور پریت، جس کے کچے دھاگے میں دنیا کی ہر شے بندھی ہے۔‘‘ ۱۰؎

ایک گہرے تاریخی شعور کی حامل اس طویل نظم کاآغاز چاردِیواری کے جذباتی ماحول سے ہوتا ہے اوریہ نظم کائناتی رشتوں کونہ صرف مس کرتی ہے بلکہ بڑی مضبوطی سے اُن سے اپنا تعلق جوڑلیتی ہے۔

ئزء

ٹرمینس

وزیرآغا کی طویل نظم ’’ٹرمینس‘‘ اُن کے شعری مجموعے ’’گھاس میں تتلیاں ‘‘ میں شامل ہے بعد ازاں یہ نظم ادبی رسالہ ’’سمبل‘‘ میں بھی شائع ہوئی۔اوراِس اشاعت کی خاص بات یہ ہے کہ اِس رسالے میں وزیرآغا کے ہاتھ سے لکھی ہوئی نظم کا عکس شائع کیا گیا ہے۔اِس لیے حوالہ کے طور پر اِسی اشاعت کا انتخاب کیا گیا ہے۔ نظم کے معروضی نکات میں جن زاویوں پر بات کی گئی ہے اُن میں سے چند ایک کا ذکر تو خود شاعر نے بھی حاشیہ میں کر دیا ہے۔ یعنی دریائے چناب پر چھنی کھچی کے مقام پر ریلوے لائن کا فل سٹاپ تھا جہاں سے آگے گاڑی نہیں جا سکتی تھی،وغیرہ۔یہ نظم اُس سٹیشن اور اُس کے گردونواح کا بیانیہ ہے۔لیکن بباطن یہ نظم بہت گہری ہے،یہ محض ایک نسل کا دوسری نسل سے مکالمے تک بھی محدود نہیں بلکہ اِسے کی جڑیں ایک تہذیب سے دوسری تہذیب تک پھیلی ہوئی ہیں :

سیہ، ریل کی لائنیں

اِک پہاڑی کے سینے سے ٹکرا کے

رُک سی گئی ہیں

ہزاروں برس سے

وہیں ……. چھنی کھچی کے قدموں میں

بے حس پڑی تھیں ۱۱؎

یہ محض ریلوے لائنیں نہیں ہیں بلکہ وہ کہنہ روایات ہیں جوزنگ آلود ہوچکی ہیں ۔نہ صرف اِس نے نظام کو بنجر کر دیا ہے۔بلکہ ہر آنے والی تبدیلی بھی یہاں آ کر رُک جاتی ہے۔منہ زوری اور طاقت بھی یہاں آ کر بے بس ہو جاتی ہے کیونکہ ایک طرف پانی کی اتھاہ گہرائی ہے اور دوسری طرف کالے،چٹیل پہاڑوں کی قدیمی آماجگاہیں ہیں ۔اگرنظم کے اُس حصے کو توجہ دیں جس میں بچہ اپنے بابا سے یہ جگہ دیکھنے کی ضد کرتا ہے تو وہ اُسے جواب دیتا ہے کہ تم وہاں جا کر کیا کرو گے۔وہاں تو بس ایک ’’آہنی سرخ کمرہ‘‘ ہے جہاں لائنیں رُک جاتی ہیں اور ایک سیہ تختے پر لکھا ہوا ہے کہ:

’’اب آگے کچھ بھی نہیں ہے‘‘(سمبل: ص۴۱۵)

اور پھر جب بچے کے مجبور کرنے پر بابااُسے’’ چھنی کھچی‘‘(جو ایک علامتی پیرایہ ہے )لے جاتے ہیں توبچے کے سامنے جو تصویر اُبھرتی ہے اُس میں ریل کی کھڑکیوں کے منظر میں پُراسراریت کی ایک جھلک نظر آئی جس میں ’’بکھری ہوئی دھجیاں ‘‘ اور نیلے فلک کو بادلوں کی دریدہ لبادے نے سب کچھ عیاں کر دیا:

زمانے کی پھیلی ہوئی ڈور میں

چھنی کھیچی گرہ ہے

گرہ کُھل گئی گر

تو کچھ نہ رہے گا ! ۱۲؎

’’سرخ سگنل،کف آلود دریا،آہنی پل،پہاڑی کا سینہ،زرد بچے،آہنی سرخ کمرہ،لوہے کا کمرہ،زنگ آلود ماضی،پہاڑی کی دِیوار،مردہ لمے،سیہ ننگی بانہیں ،بھیگا ہوا پرندہ،چکنے پتھر‘‘ یہ ایسے تلازمات ہیں جن کی مدد سے ایک بہت بڑے تہذیبی و ثقافتی دائرے (Circle)کافکری طور پر احاطہ کیا جا سکتا ہے:

 میں اُس روز لمحے کے پل کو اگر پار کرتا

تو پھر رُک نہ سکتا

اگر کف اُڑاتاہوا تُند دریا

مجھے راستہ دے ہی دیتا

……………. ۱۳؎

دراصل کسی پُل کو پار کرنے کی خواہش ہی تبدیلی کی خواہش ہے۔پل ایک Bondaryبھی ہے۔جو اِس کے پار گیا،سو گیا۔یعنی اب اُس کا واپس آنا قسمت سے ہی ہو گا۔پل ملنے او بچھڑنے کاایک سنگم ہے۔اور’’تنددریا کا رستہ دینا‘‘ بھی اُسی خواہش کی تکمیل کا ایک روپ ہے۔یہ ایسی رکاوٹیں ہیں جن کے سامنے اِرادہ بے بس ہے۔خواہش اُدھوری ہے۔جذبہ خوابیدہ ہو چکا ہے اورجرأت بے ہمتی کی تصویر بنی ہوئی ہے:

میں ….. ازل اور ابد کے کناروں میں

بے نام، بے سمت

اَن گھڑ سے گھوڑے کی ٹوٹی رکابوں سے

چمٹا ہوا

بس بھٹکتا ہی رہتا

بھٹکتا ہی رہتا !! ۱۴؎

نظم میں کوئی اضافت نہیں ۔یہ ہنر وزیرآغا کی نظم کا وصف بھی ہے۔ وہ مفرد لفظ کو اُس کی زنبیل،یعنی یک رخے معانی سے نکال کر آئینے کی صورت عطا کر دیتے ہیں کہ جس سے عکسوں کا ایک لامتناہی سلسلہ جنم لیتا ہے۔ امین راحت چغتائی ’’ٹرمینس‘‘ کو وزیرآغا کے شعری نظام سے منسلک کرنا چاہتے ہیں ،وہ لکھتے ہیں :

’’ٹرمینس بڑا حکیمانہ موضوع ہے۔وزیرآغا ہستی کی گتھی سلجھانا تو چاہتے ہیں لیکن خود شناسی کے حوالے سے اپنے تشخص کے دائرے میں رہ کر ! نظم کو وزیرآغا کے نظام فکر کے اجزائے ترکیبی سے ملا کر دیکھا جائے تو اس کے نین نقش کچھ اور تیکھے نظر آتے ہیں ۔‘‘ ۱۵؎

’’ٹرمینس ‘‘کے حوالے سے ارمان نجمی لکھتے ہیں :

’’ٹرمینس‘ اگرچہ بچپن کے اِک تجربہ کی بازیافت ہے مگر ساتھ ہی قلبی واردات کی سرگزشت بھی ہے۔اُفقی اور عمودی سمتوں کی بیکرانی کے ادراک سے پیدا شدہ کیفیتوں کے سرور نے اِسے روانی تناظر عطا کیا ہے جس کی بدولت یہ شخصی وجدان کی حکایت بن جاتی ہے۔‘‘(۱۶)

ئزء

اِک کتھا انوکھی

اِک جنگل تھا

گھنی گھنیری جھاڑیوں والا

بہت پُرانا جنگل

………

اپنے بدن کی چھال میں لپٹا

اپنی کھال کے اندر گم صم

………

بے سُدھ

بے آواز پڑاتھا ۱۷؎

ڈاکٹر وزیرآغا کی طویل نظم ’’اِ ک کتھا انوکھی‘‘ اُن کے اِسی نام کے مجموعے میں شامل ہے۔شعری مجموعہ ’’اِک کتھا انوکھی ‘‘ میں اِس نظم کے علاوہ چند ایک مختصر نظمیں اور غزلیں بھی شامل ہیں ۔’’اِک کتھا انوکھی‘‘ اپنے اچھوتے اسلوب کے ساتھ ساتھ فنی لحاظ سے بھی گہرے مطالعے کی متقاضی ہے۔یہ نظم بحر متقارب مزاحف یعنی فعلن،فعلن،فعلن،فعلن،فعلن،فعلن،فع /فاع کے وزن پر لکھی گئی ہے،اور ضرورت کے مطابق سطروں کو فعلن،فعل،فعولن میں بھی ڈھالا گیا ہے۔چھوٹے سطروں کی اِس طویل نظم میں مخصوص روانی ہے،جس نے نظم کو مزید جولانی عطا کی ہے۔اِس نظم کا منظوم پنجابی ترجمہ ڈاکٹر یونس خیال نے نہایت خوبی سے کیا جو ’’پنجابی‘‘ لاہور میں بھی شائع ہوئی۔ نظم کے مجموعی مزاج کو سمجھنے کے لیے ڈاکٹر ناصر عباس نیئر کی یہ رائے ملاحظہ کیجئے۔وہ لکھتے ہیں :

’’یہ نظم کہانی کی تکنیک میں لکھی گئی ہے۔ کہانی کا کچھ حصہ بیانیہ اور بیشتر حصہ مکالماتی ہے۔ کہانی کا بیان کنندہ شاعر ہے اور مکالمہ، شاعر اور ایک تخیلی اساطیری کردار کے درمیان ہوتا ہے۔ چونکہ ان کرداروں میں ایک شاعر اور دوسرا اساطیری فرد ہے،اس لیے پوری نظم کی زبان، امیجری اور فضا اساطیری اور علامتی ہے۔اس نظم کو جدید عہد کی اسطورہ کہنا کچھ غلط نہ ہو گا۔ ‘‘ ۱۸؎

میں کہتا ہوں :

تُو کس جُگ میں رُکا کھڑا ہے

آنکھیں کھول کے باہر آ

اور دیکھ کہ گلیاں سب

اُجڑی ہیں ۱۹؎

اِس نظم کو انسانی المیوں کا نوحہ بھی قرار دیا سکتا ہے لیکن ہر وضع کی آلودگی کے لیے لفظ کا دیپ ہی واحد راستہ ہے۔نظم میں اساطیری ماحول کے باوجود اسلوب نہایت رواں ہے۔مکالمے کا انداز تخلیقی ہے۔

Roberta GodLstein کادرج ذیل پیراگراف ڈاکٹر وزیرآغا کی اِس طویل نظم کا شاندار اعتراف ہے،ملاحظہ کیجئے:

Wazir Agha in his apocalyptic poem has created a tale to remember. His intensely vivid imagery and use of symbolism swiftly involve our mind, senses and spirit in this gripping tale of doom.(۲۰)

’’پُرانا جنگل،بدن کی چھال،ٹھنڈی پوریں ،بانجھ ملوں کے پنجر،فولاد کا راج،وحشی گرداب،نسلی پاگل پن،آگ کے دُرّے،بجلی کی سیڑھی،مہتاب کا کاسہ،لفظ کا دیپ‘‘ ایسے تلازمات ہیں جن کی مدد سے ذہن انسانی کی کروٹوں کو پڑھنے کے ایسے کوڈز،ڈی کوڈ ہو سکتے ہیں جو پتھر سے لوہے تک کی سرگزشت بیان کرنے کے لیے کافی ہیں ۔جہاں یہ نظم علامتی پیرائے میں اپنے Fragmentsچھوڑتی جاتی ہے وہیں اِس کا انداز بہت سامنے کا سا ہے،یعنی’’تتلی،بھونرا،کوئل،چڑیا‘‘ ایسے کومل جذبے لوہے کی ساخت ایسی بے حسی میں بدل جاتے ہیں :

ساگر جس نے

اِن کیڑوں کو جنم دیا تھا

اَب اِک گندا جوہڑ بن کر

اِن کے اَندر کے جوہڑ سے

آن ملا ہے ۲۱؎

Dr. Werner Manheim جدید انسان اور اُس سے وابستہ خواہشات کا تکمیلہ اِس نظم میں تلاش کرتے ہیں ،اور اِس تناظر سے زائیدہ محرکات کو یوں بیان کرتے ہیں :

 It is a powerful demonstration of modern man`s loss of spirit and of his failure to fulfil his task on earth. It is marvellous document about the weakness of modern man and his lost opportunities.(22)

نظم میں تلمیحات کا ایک جہان آباد ہے۔اساطیری کرداروں کے ساتھ،ہندومدیومالا کے حوالے بھی در آئے ہیں ، جن کی بہت سی توجیحات ہیں ۔امین راحت چغتائی اُن میں سے چند ایک کا ذکر اِن الفاظ میں کرتے ہیں ۔

وہ لکھتے ہیں :

’’نظم کا مرکزی خیال یہ ہے کہ ہماری دھرتی دوسری بار ناقابل تصور حد تک بھیانک دورِ ابتلا سے گزر رہی ہے۔ایک بار طوفانِ نوح سے تہس نہس ہو گئی تھی اور اس بار نذر آتش ہو گئی ہے جو نتیجہ ہے میدانِ تبتل (مراجعت) کو نظر انداز کرنے کا۔میدان تبتل کے تقاضے ہیں کہ حرام وحلال کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے، کینہ و عداوت سے اجتناب کیا جائے، مخاصمت کے بجائے مفاہمت کی راہ اختیار کی جائے۔ پانی اور آگ دونوں پر انسانی زندگی کا دارومدار ہے، لیکن تخلیق آدم کے ارفع مقاصد بھی اُنھیں سے برباد ہوئے۔‘‘ ۲۳؎

لوہا،سر پر اِک فولادی تاج رکھے

اِس دھرتی کا سرتاج ہوا تھا

وہ دِن اور پھر آج کا دِن

اِس دھرتی پر نہ رات آئی

نہ دِن نکلا ۲۴؎

لوہے کا جاگ اُٹھنا دراصل صنعتی معاشرے کی عمل داری اور اُس کے راج کا اشارہ ہے جو استعماری قوتوں کی سرایت کی جانب مُڑ جاتا ہے اور انسان اُسی لوہے کا محتاج ہو کر رہ گیا ہے۔پرندوں کا جنگل سے اُڑ جانا بھی گویا فطرت سے الگ ہو جانا ہے۔دھواں اُگلنے سے اُگ آنے والے یہ خرابے اپنے ساتھ ڈالر،ایڈز،پلاسٹک،پھوڑے،بِس (زہر) کی پڑیاں ، گیس کے گولے اپنی آنے والی نسلوں میں بانٹ رہے ہیں اور ننھی منی سندر آنکھیں کو روشن کرکے اور اُن کے سیب ایسے گالوں پر زہریلا پائوڈر مل کر ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ بچوں کے مکھڑے چاند کی طرح روشن ہوگئے ہیں :

جب سے ہم

’’اندر‘‘ سے کٹ کر

’’باہر‘‘ میں آباد ہوئے ہیں

بھاری بوجھل آوازوں کے

قدموں میں پامال ہوئے ہیں ۲۵؎

شاہین بدرؔ نے نظم کے بطون سے پھوٹنے والی جس Civilizationکا احاطہ کیا ہے،اُس سے کئی نکات سامنے آتے ہیں ، وہ لکھتے ہیں :

’’اِک کتھا انوکھی‘‘ صد جہتی نظم ہے، جسے پڑھتے وقت قاری کے ذہن میں صد ہزار جہانِ معنی بیدار ہوتے ہیں ۔ یہ نظم اُردو کے شعری ادب میں ایک ایسا اضافہ ہے جو پوری انسانی تاریخ کااحاطہ کرتی ہے۔فطرت کی آغوش سے نکل کر انسان رفتہ رفتہ صنعتی عہد میں آ گیا ہے۔ا س عہد نے اس سے اس کا فطری حسن اور معصومیت چھین لی ہے۔ مشینی عہد نے انسان کو ہلاکت اور تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔‘‘ ۲۶؎

اِس طویل نظم سے بہت سے موضوعات پھوٹتے ہیں ۔جن میں سے کچھ کا تعلق ہمارے اجتماعی شعور سے بھی ہے۔وہ خوابیدگی جس کی بیداری کے لیے دستک وقفے وقفے سے سنائی دیتی ہے،ذکاالدین شایان لکھتے ہیں :

’’اِک کتھا انوکھی، کا ماحاصل یہ ہے کہ وہ نجات دلانے والا وجود اِس ’کلجگ‘‘ میں شاید اب ’’ظاہر‘‘ ہونے کو تیار نہیں ، وہ اپنے خواب میں ہی رہنا پسند کرتا ہے۔‘‘ ۲۷؎

اور جنگل کے پنچھی سارے

آگ کے جلتے بجھتے اکھر

دور…… آکاش کی جانب اُڑ کر

چاند اور سورج کے کنگروں پر

جا بیٹھے ہیں ۲۸؎

جنگل بذاتِ خود ایک وسیع علامت ہے۔ جو فطرت کا ایک پوترروپ ہے جس سے نکل کر انسان نے خود کو’’غیر محفوظ‘‘ بنا لیا ہے۔ اِس پناہ گاہ میں تحرک تھا،اگرباقی رہنا ہے تومسلسل لمحۂ موجود میں رہنا ہی بقا کی ضمانت ہے،ڈاکٹر نیر صمدانی لکھتے ہیں :

’’انسان کے ازلی خوابوں کا خون موجودہ تہذیب کے چہرے کا غازہ بن گیاہے۔ انسان کو بچے کی طرح میکانکی کھلونے دے کربہلا یا گیا ہے۔ جب کہ انسان اپنے وجود میں سمٹ کر حقیر ہو گیا ہے۔ انسان نفرتوں کے جنگل میں گم ہے اور چلمنوں کی جگہ پتھر کی دیوار بن گئی ہے۔ سرشام کسی چاپ پر دل دھڑکنا بھول گیا ہے اوردریچوں سے جھانکنے والی بیلیں مرجھا گئی ہیں ۔ وزیرآغا کے یہاں اس اثاثے کی بربادی کا غم بہت نمایاں ہے۔‘‘ ۲۹؎

نظم جو ’’پُرانے جنگل‘‘ سے شروع ہوتی ہے اور ’’لفظ کے دیپ‘‘پرختم ہوتی ہے۔لیکن جس شعریات کا ظہور اِس نظم میں ہوا ہے،اور جس لفظیاتی اظہاریہ کو برتا گیا ہے اُس نے نظم میں خیال،جذبے اور امیجری کو یکجا کر دیا ہے،عبداللہ جاوید لکھتے ہیں :

’’دھوپ جو سندر تھی، اونی شال جیسی تھی،جس کا لمس مامتا سے معمور تھا جس میں مرغابی کے پَر کی گرمی اور کچی کلیوں کی مہک تھی۔وہ دھوپ ناری آتش کا پرکالہ ہے۔اس لفظی پیکر کو ڈاکٹر وزیرآغا سریانی صنمیات کی فضا سے نکال کر سامی (Samitic) فضائوں میں لا کر قاری کو طوفانِ نوح اور اس کے فوری بعد کے مرحلے میں پہنچا دیتے ہیں ۔‘‘۳۰؎

ڈاکٹر وزیرآغا ہر شعری مہم کو ’’اک کتھا انوکھی‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں ،پیش لفظ میں یوں رقم طرازہوتے ہیں :

تخلیقِ شعر کا عمل بھی مزاجاً ایک ایسا ہی سفر ہے جو دائرے یا خطِ مستقیم کے بجائے بعض پُراسرار اُبعاد کے اندر طے ہوتا ہے۔اِسی لیے ہر شعری مہم ایک انوکھی کتھا ہے۔اگر وہ انوکھی نہ ہو تو پھر وہ شعری مہم نہیں ،کوئی اور شے ہے۔‘‘(۳۱)

ئزء

آدھی صدی کے بعد

وزیرآغاؔ کی یک کتابی طویل نظم ’’آدھی صدی کے بعد‘‘مکتبہ اُردوزبان،سرگودھا نے جنوری ۱۹۸۱ء میں شائع ہوئی۔اگرچہ اُنھوں نے اِس نظم کو اپنی منظوم سوانح عمری قرار دیا ہے،لیکن اِس پس منظر سے الگ ہو کر بھی یہ نظم اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہے۔ کیونکہ اِس میں ایک بھرپور شعری تجربہ موجود ہے۔اِسے طویل نظم کی روایت میں ایک منفرد تخلیق بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔نظم آپ بیتی بھی ہے اور جگ بیتی کے عناصر بھی اِس میں موجود ہیں ۔ نظم چار حصوں میں منقسم ہے۔ ’جھرنا‘ ’ندی‘ ’دریا‘اور ’سمندر‘۔چاروں میں پانی مشترکہ جوہر (قوت)ہے۔لیکن اِن چاروں میں پانی کی اپنی مخصوص کیفیت بھی ہے۔’’جھرنے ‘‘ میں پانی بچے کی طرح شرارتی ہے، مختلف آوازیں نکالتا ہے۔تیزی سے بل کھاتا ہوا اِدھر سے اُدھر جا نکلتا ہے،اوپرسے نیچے گرتا ہے۔جب کہ ندی میں پانی کو جتنا تنگ دامنی سمیٹی ہے وہ اُتنا ہی پھیلائو کی طرف جا تا ہے۔زیرسطح اُس میں طغیانی کی لہریں جنم لیتی ہے لیکن بباطن دِکھائی نہیں دیتی اور پھر ’’دریا‘‘ میں پانی کی منہ زوری کو کسی بند سے روکنا ممکن نہیں رہتا۔اُس میں ظاہری اور باطنی ہر دو سطحوں پر طغیانی موجود ہوتی ہے اور جس کا سامنا کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ۔ پھر ’’سمندر‘‘ بظاہر شانت مگر اپنی وسعت، بے پناہ گہرائی اور بے کنار ہونے کے باعث تخلیقیت کا بھی حوالہ بن جاتا ہے۔ یہ چار مراحل انسانی عمر میں بھی آتے ہیں اور اِن کے اپنے اپنے مدارج ہیں ۔انسان جن عناصر کا مجموعہ ہے اُن میں ایک پانی بھی ہے اور پانی کی ایک شکل انسانی آنکھ میں بھی ہوتی ہے۔غلام الثقلین نقوی رقم طراز ہیں :

’’جس طرح وقت ناقابل تقسیم ہے، اِسی طرح زندگی کی آگہی اور شعور کو بھی لمحوں اور ساعتوں ، بچپن، جوانی اور بڑھاپے میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔وقت کا تسلسل اور پانی کے نہ ٹوٹنے والا دھارا کہیں بھی آپ کو ایک دوسرے سے جُدا یا ٹوٹا ہوا محسوس نہ ہو گا۔‘‘ ۳۲؎

ہر جگہ

اُلجھے بالوں ، چمکتی ہوئی

تیز آنکھوں میں

’’بچپن‘‘

خنک چاندنی کی طرح

آج بھی موجزن ہے

زمانے کی رفتار پر خندہ زن ہے !! ۳۳؎

پروفیسرجمیل آذرؔاِس طویل نظمیے کے بطون میں امکانات کو جس وسیع کینوس پر پھیلا دیکھتے ہیں ،اُس کا اظہار وہ اِن الفاظ میں کرتے ہیں :

’’یہ نظم نہایت ہی پہلو دار اور متنوع موضوعات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ لطف یہ ہے کہ اس کی پیش کش بیانیہ نہیں ہے، بلکہ شاعر نے انوکھی علامات، لطیف استعارات اور شاداب تمثیلات سے ہمہ جہت اور کثیرالامکانات معنی کو سمیٹا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کتاب جسے طویل نظم بھی کہا گیا ہے، حجم کے لحاظ سے موٹی اور بھاری بھر کم نہیں ہے، بلکہ شعری امکانات اور معنوی جہات کے اعتبار سے وسیع کینوس پر پھیلی ہوئی ہے۔‘‘ ۳۴؎

زمانہ تو بھیگا ہوا ایک چابک ہے

میرے بدن پر

مسلسل

انوکھے سفر کی کہانی سی اِک

لکھ رہا ہے ۳۵؎

عرفانِ ذات،ایک تخلیقی تجربہ ہے،اِسے محض اندر کی غواصی سے نتھی کردینا،دراصل اِس کے دائرہ کار کو محدود کر دینا ہے،کیونکہ اِس سے جو فضا ترتیب پاتی ہے اُس کا بیانیہ یہ ہے کہ انسان معاشرے سے کٹ کر کسی ایک ’’مرکزے‘‘ سے جُڑ جاتا ہے اور اُسے منظروں کی دھندلاہٹ،ماحول کی اجنبیت،جہانِ دیگر میں لے جاتی ہے کیونکہ شعری پیکر صرف فن یا ہنروری کامرہون منت نہیں بلکہ عرفانِ ذات کے حوالے سے بھی ایک لطیف سا اشارہ ہے۔وزیرآغا کے ہاں کشفی اور انجذابی ہر دو کیفیات میں وارفتگی ہے،اُن میں طے شدہ ہیئتوں کو توڑنے کی جستجو دِکھائی دیتی ہے اور ہیئت صرف سانچے کی سطح پر نہیں بلکہ اسلوب میں بھی ملاحظہ کی جا سکتی ہے،عبداللہ جاوید لکھتے ہیں :

’’پانی کا استعارہ بھی اِس نظم میں کیا سے کیا ہو جاتا ہے۔ پھر برگد اور پھر ہوا…….. نظم کے اواخر میں وہ اپنے ہونے کے عرفان کی بات بھی کرتے ہیں ……. عرفان کا معمول کا سفر جو مشرقی فکر کی اساس ہے۔‘‘ ۳۶؎

نصف شب

جیسے خوشبو بھری گود

رستے ہوئے زخم پرجیسے پھاہا

بدن کو تھپکتی ہوئی چاندنی

سر کے ژولیدہ بالوں میں پھرتی ہوئی

ریشمی اُنگلیاں ۳۷؎

وزیرآغا کی نظم کی عطا یہ ہے کہ وہ مفرد لفظ کے جوہر سے واقف ہیں بلکہ اُن کی نظم میں لفظ کا زینہ معنی سے زیادہ جذبے کی طرف اُترتا ہے۔اُن کے ہاں لفظ کا رویہ وہی ہے جو بیج کا زمین سے ہے، یعنی زمین کے نم سے جُڑ کر جڑپکڑتا ہے، اور پھر اُس کا اظہاریہ ایک بھرپور منظرپیش کرتا ہے۔ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ معنی کا برتائو3D اینگلزکا view پیش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن جذبے کا کوئی انت نہیں ،کیونکہ اِس کی بنیاد احساس پر استوار ہوتی ہے:

شب کا پچھلا پہر

پھڑپھڑاتے ستارے

گھنی گھاس کی نوک پر آسماں

سے اُترتی نمی

اورپورب کے ماتھے پہ

قشقے کا مدھم نشاں ۳۸؎

ڈاکٹررفیق سندیلوی اِس طویل نظم کوموضوع اور بُنت ہر دو سطح پر پرکھتے ہیں ،اور اُس پُراسرایت کو مس کرنے کی کوشش کرتے ہیں جہاں وزیرآغا نے اپنی ذات کی یافت کی ہے،چنانچہ وہ لکھتے ہیں :

’’آدھی صدی کے بعد‘ ایک ایسی نظم ہے جو اپنی باطنی اُنگلیوں کی مدد سے ذات و کائنات کی گرہیں کھولتی ہے ……… اِس نظم میں موضوع اور ہیئت آپس میں اِس طرح چمٹے ہوئے ہیں کہ اُنھیں کھرچ کر ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ نظم میں خیال کا سارا سفر خوش اسلوبی سے طے ہوا ہے۔یہاں رہوارِ تخیل بے تحاشا اور بے محابا نہیں دوڑتا کہ ہم اُس کے سموں سے اُٹھنے والی گرد میں کچھ دیکھ ہی نہ پائیں ۔‘‘(۳۹)

وزیرآغا شاعری میں جمالیاتی نظریے کے قریب ہیں ،اُن کے وجدانی جوہرکااظہاریوں تو اُن کی ساری شاعری میں محسوس کیا جا سکتا ہے لیکن نظم میں اِس کی رعنائی کہیں زیادہ ہے،اُنھوں نے علامت کو ابہام تک نہیں پہنچنے دیا،بلکہ علامت کے ارتقائی تجربے کو بھی شعری واردات سے مملو کر دیا ہے،انور جمال لکھتے ہیں :

’’جھرنے سے سمندر تک کے مناظر میں جو Temporal Contiguity پائی جاتی ہے، اس کی وجہ سے یہ نظم تخلیق میں بچپن اور ا س کے خوابوں کو ایک نفسیاتی Treatment دیا گیا ہے۔ یہ انسان اگر اپنے ماضی کے دریچوں میں سے جھانکے تو اسی قسم کی پرچھائیں ذہن پرسوار ہوتی ہیں ۔‘‘ ۴۰؎

تب ہوا نے

بیاضِ زمیں کھول دی

اور رنگین اوراق

اُڑنے لگے

لفظ

جملوں کی شاخوں سے نیچے

اُترنے لگے ۴۱؎

ترکیب سازی،شاعری میں ایک ایسا حربہ ہے جس سے تخلیقی جست کا تصور پیدا ہوتا ہے،مگر یہ بھی مدنظر رہے کہ تراکیب،ہیجانی کیفیات کو جنم دیتی ہیں جن میں چونکنے اور متحرک ہونے کی فضا از خود بیدار ہو جاتی ہے،وزیرآغا نے نظم کی بُنت میں اِس سے استفادہ ضرور کیا ہے لیکن اِسے اظہاری اختصاص کے طور پر برتا ہے۔نیز وہ اساطیر کی کہنگی میں بھی تخلیق کا نم پیدا کر دیتے ہیں ،جس سے اُن کے ہاں شعری ارتباط کا اظہار ہوتا ہے،اختر احسن لکھتے ہیں :

’’وزیرآغا کی طویل نظم مختلف ذاتی، تاریخی، لمحاتی اور دیومالائی حوالوں سے گزرتی ہوئی ابدیت کا ایک خوبصورت تاروپود بُنتی ہے۔ شانگری لا، طوفانِ نوح، یم راج اور تاریخ کا ما بعد، سب گھل مل کر جڑ کی وحدت اور اس کے اوتاروں کی شکل اختیار کرتے ہیں ۔ نظم اِن اشکال کے ذریعے ایک کائناتی روح کی مثال بن جاتی ہے۔‘‘ ۴۲؎

مگر سبز دھرتی کی

ٹھنڈی تہوں میں

جڑوں کی پُراسرار وحدت تھی

سب فاصلے

ایک نقطے میں سمٹے ہوئے تھے ۴۳؎

’’آدھی صدی کے بعد‘‘ میں سوانحی تاثر بھی ہے، عام رویہ یہی ہے کہ خود نوشت سوانح نگار،نثر و نظم دونوں اصناف میں اپنے آپ کو ’’مرکز‘‘ مان کر تانے بانے بُنتا ہے اور خودنوشت سوانح عمری میں یہ کسی حد تک فطری بھی معلوم ہوتا ہے لیکن اِس نظم کی خوبصورتی یہ ہے کہ وزیرآغا نے اپنے سوانحی حالات کو منظوم کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے فکری دھارے سے بھی مربوط کر دیا ہے۔ فضیل جعفری کی رائے دیکھئے:

’’آدھی صدی کے بعد ‘ مجھے اِس لیے بطورخاص پسند ہے کہ اِس نظم میں وزیرآغا نے نہ صرف ہیئت اور موضوع کے اعتبار سے عمومی اسلوب اور ڈکشن کے اعتبار سے بھی اپنی تمام تر پچھلی نظموں پر تنقیدی نگاہ ڈالتے ہوئے قدم آگے بڑھایا ہے۔‘‘ ۴۴؎

اِس طویل نظم میں سوئمبر(ہندوئوں کی قدیم رسم)اوڈیسس(یونان کی ایک زرمیہ داستان کا ہیرو)قاف(ایک پہاڑ جہاں پریاں آباد ہیں )شانگری لا(ناول،لاسٹ ہورائیزن کا ایک خیالی شہر)لچھمن ریکھا(رام اور سیتا کی کہانی کی طرف اشارہ)یم راج(ہندئو دیومالا میں موت کے فرشتے کا نام ہے) ایسی تلمیحات بھی درآئی ہیں ۔

ڈاکٹر وزیرآغا نے اِس نظم کو اپنی سوانح عمر ی قرار دیا ہے،مگر اُنھوں نے کہیں بھی اپنے آپ کو مرکزعالم نہیں بنایا اور نہ ہی اپنے قاری کو بھٹکنے دیا،اُن کا یہ سفر،سیاحتِ باطنی کا مرقع ہے،پیش لفظ میں وہ لکھتے ہیں :

’’آدھی صدی کے بعد‘‘ دراصل میری اُس واپسی کے سفر ہی کی داستان ہے بلکہ یہ تو بجائے خود ایک مہم ہے،کیونکہ واپسی کے سفر میں مجھے پہلی بار وہ سب کچھ نظر آیا ہے جو اِن طویل مسافتوں میں ہمہ وقت دعوتِ نظارہ تو دیتا ہے مگر جو مجھے اپنے سفر کے دوران محض اس لیے نظرنہ آیا تھا کہ میری آنکھ بیدار نہیں تھی۔‘‘(۴۵)

ئزء

حوالے و حواشی

۱۔ڈاکٹروزیرآغاؔ: گھاس میں تتلیاں لاہور:مکتبہ فکر و خیال،۱۹۸۵ء،ص۱۳۳

۲۔ایضاً،ص۱۳۱

۳۔امینؔ راحت چغتائی :’’وزیرآغا کی طویل نظمیں ‘‘ مشمولہ کاغذی پیرہن(۱۴)لاہور: مئی،جون ۲۰۰۵ء،ص۹۷

۴۔ڈاکٹروزیرآغاؔ :’’الائو‘‘مشمولہ اورا ق لاہور:مئی،جون ۱۹۸۳ئ،ص۱۹

۵۔تخت سنگھ :’’آپس کی باتیں ‘‘ مشمولہ اورا ق لاہور:نومبر،دسمبر،۱۹۸۳ئ،ص ۲۶۴

۶۔بلراج کوملؔ: ’’رائے‘‘ مشمولہ شام کا سورج مرتب: ڈاکٹر انور سدید،لاہور:مکتبہ فکر و خیال،۱۹۸۹ئ، ص ۳۰۲

۷۔ڈاکٹروزیرآغاؔ:’’الائو‘‘مشمولہ اورا ق لاہور:مئی،جون ۱۹۸۳ئ،ص۱۹

۸۔احمد ظفرؔ: ’’آپس کی باتیں ‘‘ مشمولہ اورا ق لاہور:نومبر،دسمبر،۱۹۸۳ئ،ص ۲۶۵

۹۔مظہرالزمان خان: ’’آپس کی باتیں ‘‘ مشمولہ اورا ق لاہور:نومبر،دسمبر،۱۹۸۳ئ،ص ۲۷۰

۱۰۔سنتوکھ سری :’’آپس کی باتیں ‘‘ مشمولہ اورا ق لاہور: نومبر،دسمبر،۱۹۸۳ئ،ص ۲۷۷

۱۱۔وزیرآغاؔ:’’ٹرمینس‘‘ مشمولہ سمبل راول پنڈی، جولائی تادسمبر ۲۰۰۷ء ص ۴۱۳

۱۲۔ایضاً، ص ۴۲۰

۱۳۔ایضاً، ص ۴۲۰

۱۴۔ایضاً، ص ۴۲۰

۱۵۔امین راحتؔ چغتائی: ’’وزیرآغا کی طویل نظمیں ‘‘ مشمولہ:کاغذی پیرہنلاہور،مئی،جون ۲۰۰۵ئ، ص ۹۴

۱۶۔ارمان نجمی:بیاض شب و روز لاہور:کاغذی پیرہن،۲۰۰۱ء،ص۲۳

۱۷۔ڈاکٹروزیرآغاؔ:اِک کتھا انوکھیلاہور:مکتبہ فکر وخیال،۱۹۹۰ئ،ص۱۱

۱۸۔ڈاکٹر ناصر عباس نیئر ’’تجزیاتی مطالعہ ‘‘ مشمولہ کاغذی پیرہن (طویل نظم نمبر)لاہور،مارچ ‘ اپریل،۲۰۰۳ء،ص ۲۶

۱۹۔ڈاکٹروزیرآغاؔ:اِک کتھا انوکھی لاہور:مکتبہ فکر وخیال،۱۹۹۰ئ،ص۱۵

۲۰۔پسِ ورق ’’عجب اِک مسکراہٹ‘‘ازڈاکٹر،سرگودھا:مکتبۂ نردبان‘‘۱۹۹۷ء

۲۱۔ایضاً،ص۳۳

۲۲۔ پسِ ورق ’’عجب اِک مسکراہٹ‘‘ازڈاکٹر،سرگودھا:مکتبۂ نردبان‘‘۱۹۹۷ء

۲۳۔امین راحتؔ چغتائی ’’وزیرآغا کی طویل نظمیں ‘‘ مشمولہ کاغذی پیرہن لاہور، مئی، جون ۲۰۰۵ئ، ص ۱۰۱

۲۴۔ڈاکٹروزیرآغاؔ:اِک کتھا انوکھیلاہور:مکتبہ فکر وخیال،۱۹۹۰ئ،ص۱۹

۲۵۔ایضاًص۳۰

۲۶۔شاہین بدر’’رائے‘‘ مشمولہ سہ ماہی ابجد(۲)سرگودھا:ردیف فورم، ۲۰۱۵ء ص۸۹

۲۷۔ذکا الدین شایان ’’آپس کی باتیں ‘‘ مشمولہ اوراق لاہور،دسمبر،۱۹۹۰ئ،ص ۳۴۴

۲۸۔ڈاکٹروزیرآغاؔ:اِک کتھا انوکھیلاہور:مکتبہ فکر وخیال،۱۹۹۰ئ،ص ۳۵

۲۹۔ڈاکٹر نیرصمدانی:اعتبارات لاہور:وکٹری بک بنک،۱۹۹۵ئ، ص۱۳۳

۳۰۔عبداللہ جاوید’’ڈاکٹر وزیرآغا کی دو طویل نظمیں ‘‘ مشمولہ روشنائی کراچیجولائی تا ستمبر ۲۰۱۱ء،ص۳۷

۳۱۔وزیرآغااِک کتھا انوکھی پیش لفظ،لاہور:مکتبۂ فکر و خیال،۱۹۹۰ئ،ص۸

۳۲۔غلام الثقلین نقوی ’’آدھی صدی کے بعد ‘‘ (تجزیہ) مشمولہ شام کا سورج مرتب; ڈاکٹر انور سدید، لاہور: مکتبۂ فکر و خیال،

۱۹۸۹ء، ص ۳۳۵

۳۳۔ڈاکٹروزیرآغا: آدھی صدی کے بعد سرگودھا:مکتبۂ نردبان،جنوری ۱۹۸۱، ص۲۷

۳۴۔پروفیسرجمیل آذرؔ (تجزیہ) مشمولہ جدید ادب رحیم یار خان، فروری۱۹۸۲ئ، ص ۷۲۔۷۳

۳۵۔ڈاکٹروزیرآغا: آدھی صدی کے بعد سرگودھا:مکتبۂ نردبان،جنوری ۱۹۸۱، ص۳۷

۳۶۔عبداللہ جاوید’’ڈاکٹر وزیرآغا کی دو طویل نظمیں ‘‘ مشمولہ روشنائی کراچیجولائی تا ستمبر ۲۰۱۱ء،ص۳۱

۳۷۔ڈاکٹروزیرآغا: آدھی صدی کے بعد سرگودھا:مکتبۂ نردبان،جنوری ۱۹۸۱، ص۲۴

۳۸۔ایضاً،ص۱۰۳۔۱۰۴

۳۹۔رفیق سندیلوی: ڈاکٹروزیرآغا:شخصیت اور فن (معمارِ اَدب)اسلام آباد:اکادمی ادبیات،۲۰۰۶ئ،ص۴۴

۴۰۔انورجمال: آدھی صدی کے بعد (تجزیہ) مشمولہ ’’مطلع‘‘ نومبر، دسمبر ۱۹۸۳ئ،ص ۶۱

۴۱۔ڈاکٹروزیرآغا: آدھی صدی کے بعد سرگودھا:مکتبۂ نردبان،جنوری ۱۹۸۱، ص۵۸

۴۲۔اختر احسن (تجزیہ) مشمولہ : شام کا سورج مرتب; ڈاکٹر انور سدید، لاہور: مکتبۂ فکر و خیال، ۱۹۸۹ء، ص ۳۸۹

۴۳۔ڈاکٹروزیرآغا آدھی صدی کے بعد سرگودھا:مکتبۂ نردبان، ۱۹۸۱ئ،ص ۱۰۱

۴۴۔فضیل جعفری ’’وزیرآغاکی شاعری‘‘ مشمولہ شام کا سورج مرتب; ڈاکٹر انور سدید، لاہور: مکتبۂ فکر و خیال، ۱۹۸۹ء،

ص ۴۱۱۔۴۱۲

۴۵۔وزیرآغا:آدھی صدی کے بعد پیش لفظ،لاہور،مکتبۂ فکر وخیال،طبع چہارم، ۱۹۸۹ء،ص۶

٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.