سوشل ورک کی پیشہ ورانہ اور اکیڈمک شناخت

Abstract

This research article discusses about the historical development and evolution of social work as a profession in UK, USA and India. The debate on the quest of professional status of social work has also been discussed in detail. Secondly, it explains the status and curriculum of social work in Indian education system right from the beginning of social work courses in different institutions. In this backdrop, three UGC committee recommendations have been discussed. The philosophical base and changing priorities with the passage of time in the field of social work has also been discussed. The article concludes that, in present time, social work has been recognized as an established profession as well as an academic discipline.

تعارف

سوشل ورک ایک پیشہ ورانہ مضمون اور ایسا مطالعاتی میدان ہے جو سماجی علوم سے گہری وابستگی کے ساتھ ساتھ دیگر علوم سے بھی جداگانہ انداز میں مواد اخذ کرتا ہے۔ یہ امر بھی یہاں واضح رہے کہ سوشل ورک کی اپنی مخصوص اقدار،علمی بنیاد، اصول، علم اور مہارتیں ہیں جن کی بنیاد پر یہ ایک پیشہ کہلانے کا مستحق ہے۔ کیوں کہ کسی بھی پروفیشن کی تعلیم کے لیے ضروری ہے کہ اس پروفیشن کی بنیادی تفہیم میں انسانی ضروریات، سماجی مسائل، سماجی خدمات کی جوابدہی، سماجی خدمات کا فائدہ اٹھانے والے اور پیشہ ورانہ مداخلت کے مباحث شامل رہیں ۔

بیسویں صدی کی ابتدا میں سوشل ورک کی پیشہ ورانہ شناخت پر ایک بحث شروع ہوئی اورموجودہ علمی پس منظر میں یہ پروفیشن سماجی بہبود کے نظریہ سے لیس زندگی کوآسودہ اور پائیدار بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ گویا سوشل ورک ایسی سرگرمیوں میں مصروف ہے جس کا مقصد انسانی اور سماجی حالات کی اصلاح اور سماجی مسائل کا حل ہے۔ سماجی کارکنان بطور فکر مند پیشہ وران افراد کی صلاحیتوں میں اضافہ، سماجی تعاون اور وسائل تک رسائی، آسان اور موثر سماجی خدمات کے مواقع کی فراہمی کو یقینی بناتے ہیں اور ایسی سماجی ساخت کی توسیع میں مصروف عمل ہیں جس سے تمام شہریوں کے لیے یکساں مواقع دریافت ہوسکیں ۔

سوشل ورک تعلیم کے نصاب میں انسانی برتاؤ، سماجی ماحول، سماجی بہبود سے متعلق پالیسیاں اور خدمات، سوشل ورک پریکٹس اور تحقیق شامل ہیں ۔سماجی کارکنان کو عوام اور سماج کی بابت بنیادی تفہیم، ثقافتی تنوع کی اہمیت، اور خوبصورتی کی تحسین اور مخصوص لوگوں کی منفرد ضرورتوں کی تفہیم لازمی ہے۔

مضمون کے مقاصد

  • سوشل ورک کی ابتدا اور اس کے تاریخی ترقی کے پہلوؤں کو اجاگر کرنا
  • سوشل ورک کی پیشہ ورانہ اور اکیڈمک شناخت پر تفہیم پیدا کرنا

تحقیقی طریق کار

موجودہ تحقیقی مضمون کےبیشتر مواد ثانوی ذرائع سے حاصل کیے گئے ہیں ، جن میں سوشل ورک کی کتابیں ، رسالے اور مختلف ویب سائٹس شامل ہیں ۔

.1انگلینڈ اور امریکہ میں سوشل ورک کا بطور پروفیشن ارتقا

سوشل ورک ایک پیشہ ورانہ سرگرمی کی شکل میں انیسویں صدی کے اواخر میں رونما ہوا۔ جس کی جڑیں ابتدائی سماجی فلاحی سرگرمیوں سے ملتی ہیں جو خاص طور پرچیریٹی آرگنائزیشن سوسائٹی اور سیٹلمنٹ ہاؤس موو منٹ سے متعلق ہیں ۔ انیسویں صدی میں سماجی معاملات سے متعلق فکرمندیوں کو نشان زد کرنے کے لیے مختلف تنظیمیں وجود میں آئیں ۔ 1874میں کانفرنس آف چیریٹیز قائم کی گئی جو1879میں نیشنل کانفرنس آن چیریٹیز اینڈ کریکشن میں تبدیل ہوگئی۔ اس کانفرنس کا قیام سماجی مسائل جیسے غربت، جرائم، انحصاری کو مخاطب کرنے کے لیے ہوا تھا۔ یہ انجمن تقریبا تین دہائیوں تک سوشل ورک کو ایک پیشہ ورانہ فیلڈ کے طور پر ثابت کرتی رہی۔ غرباء، معذورین، دماغی طور پر معذور، یتیموں اورپاگل خانوں کا خیال کرنا اس انجمن کے بنیادی مقاصد تھے۔ امریکی غریبوں کی مدد کے لیے اس ادارے میں غریب خانوں میں ” خبطی، مفلس، بودے، گمشدہ، اور منحصر بچے، طوائف اور غیر شادی شدہ مائیں یا مفلوک الحال افراد کو جگہ دی گئی تھی۔” (وین واٹرز، 1931)

1.1چیریٹی آرگنائزیشن سوسائٹی (سی او ایس)

لندن میں 1869میں چیریٹی آرگنائزیشن سوسائٹی کاقیام در اصل شہریت کاری کی بدولت پیدا ہونے والے کمیونٹی کے مسائل سے نمٹنے کے لیے ہوا۔ جن میں بیماریاں ، غربت، بے روزگاری، خاندان میں در پیش مسائل کو منظم طریقے سے حل کرنے کے لیے یہ تنظیمیں بہت تیزی سے انگلینڈ میں پھیل گئیں ۔ لندن چیریٹی آرگنائزیشن سوسائٹی کے مقاصد میں مختلف طرز پر کام کرنے والی فلاحی اور خیراتی تنظیموں کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر مداخلت کو منظم انداز میں پیش کرنا تاکہ کمیونٹی کے بڑھتے ہوئے مسائل پر قابو پایا جا سکے۔ مزید برآں عرضی کنندگان کی عرضیوں کو منظم طریقے سے جانچ پڑتال کرنا تاکہ مستحق افراد کی مدد کی جا سکے۔

اس تحریک کے مقاصد کافی ترقی پسندانہ تھے جس کا یقین تھا کہ “اس تنظیم کے ذریعہ یہ امید کی جاتی ہے کہ لوگوں کی مدد کے سلسلے میں ہر طرح کا خیال رکھا جائے گا، پریشانیوں کے لیے کسی قسم کی گنجائش نہیں ہوگی، بیماریاں اور بد عنوانی ختم ہو جائیں گی، ہر طرح کے سماجی مسائل پر قابو پا لیا جائے گا، غریب اور امیر کے درمیان کسی بھی طرح کی خود غرضی پر مبنی دوری نہیں رہ جائے گی اور انسانیت کے مشترکہ مشن کو پانے کے لیےہر کسی کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے گا۔”(ہنسان، 2013)

1880 میں اس تحریک کے متعلق میک کلوک نے مندرجہ ذیل نکات کی طرف اشارہ کیا:

  • ہر طرح کی سیاست و قومیت اور رفاہی و خیراتی کاموں کے درمیان ایک فرق قائم رہے۔
  • غریبوں کی سماجی اور اخلاقی بلندی پر توجہ دی جائے۔
  • گھر گھر جا کر غریبوں اور امیروں کے درمیان اچھے اور پائیدار رشتے بنائے جائیں ۔
  • غریبوں کے حالات میں بہتری کے لیے اچھی اسکیموں کا قیام۔
  • خانہ بدوشیت اور گدا گری میں کمی لانا۔
  • شہر میں موجود ضرورت مندوں کی مناسب مدد۔

انگلینڈ کی چیریٹی آرگنائزیشن سوسائٹی (سی ایس او) سے متاثر ہو کر امریکہ میں بھی اس تحریک کو تیزی سے مہمیز ملی۔ میری رچمنڈ (1861-1928) سی او ایسکی ایک با رعب لیڈر تھیں جو بالٹی مور سی او ایسمیں بطور اسٹاف ممبر شامل ہوئیں ۔ پھر سن 1900 میں فلا ڈلفیا سی او ایسکی جنرل سکریٹری منتخب ہوئیں ۔ اپنے پیشہ ورانہ کیرئیر میں آگے چل کر وہ رسل سیج فاؤنڈیشن سے منسلک ہوگئیں ۔چیریٹی آرگنائزیشن کی سرگرمیوں میں دبدبہ رکھنے والی میری رچمنڈ سوشل ورک پروفیشن کو ایک با قاعدہ شکل دینے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ 1917میں ان کی کتاب’ سوشل ڈائگنوسس’نے اندازہ قدر کی تکنیکوں کو واضح کیا اور 1922میں ان کی ایک دوسری کتاب ‘وہاٹ از سوشل کیس ورک’ نے کیس ورک کے طریقوں کی تعریف کی۔ (بری لینڈ، 1955)

اس تحریک کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں موجود سہولیات اور خدمات صرف سفید فام خاندانوں کے لیے ہی تھیں ، ” اسٹاف ممبران کا خیال تھا کہ سفید فام لوگوں کی غربت کے مسئلہ پر دھیان دیا جائے جب کہ کلرڈ لوگوں کے مسائل پر بعد میں توجہ دی جائے گی۔”(سولومن، 1976)

حالانکہ میم فس نے سیاہ فاموں کے ذریعہ مکمل آزادانہ طور پر کام کرنا شروع کیا۔ اس تحریک کے تحت کمیونٹی آرگنائزیشن کی سرگرمیاں بھی شروع کی گئیں (ڈنہم، 1970)۔ مثلا، غریبوں کے مسائل سے نمٹنے کے لیے تعاون کے نیٹ ورک بنائے گئے۔ ٹی بی کا انسداد،خاندانی مسائل کے حل، اور بچہ مزدوری کو روکنے کے لیے کئی ساری سی او ایسنے منظم اقدامات کیے۔ نیو یارک کی خیراتی تنظیم نے اپنا اشاعتی ادارہ قائم کیا اور پہلا اسکول آف سوشل ورک شروع کیا(جو اب کولمبیا یونیورسٹی اسکول آف سوشل ورک کے نا م سے موسوم ہے ) اور فیلڈ ریسرچ کی شروعات کی۔(ڈنہم، 1970)

مختلف لوگوں نے سی او ایسکی انفرادی ضرورتوں کو اہمیت دینے کی وجہ سے سوشل کیس ورک کو بنیادتسلیم کیا ہے۔ خاندانی رشتوں کی فہم، عمومی مدد کے نیٹ ورک کا استعمال،انفرادی ذمہ داری پر توجہ اورخدمات کی فراہمی میں ذمہ داری لینےکے لیے فکرمندرہنا، سوشل ورک پروفیشن کی اہم خدمات ہیں ۔

1.2سیٹلمنٹ ہاؤس موو منٹ (ایس ایچ ایم)

اس تحریک کی ابتدا انگلینڈ میں انیسویں صدی کے اواخر میں ہوئی جب سیموئل برنیٹ نے ٹوائن بی ہال قائم کیا۔انہوں نے یونیورسٹی کے طلبہ کو سینٹر پر قیام پزیر ہو کر کام کرنے کے لیے منتخب کیا تاکہ وہ پڑوس کے خاندان میں جا کر کام کریں ۔ٹوائن بی ہال میں تجربہ کرلینے کے بعد اسٹینٹن کوائٹ نے امریکہ میں سیٹلمنٹ ہاؤس قائم کیا جس کا نام نیبرہڈ گلڈ آف نیو یارک سٹی تھا۔ کوائٹ نے اس کے قیام کا مقصد کچھ اس انداز میں بیان کیا “گلڈکا بنیادی مقصد یہ تھا کہ بلا تفریق مذہب و ملت تمام افراد کو، گلی کے مرد، عورتوں اور بچوں کو، ضلع کی سڑکوں پر ہرمزدور طبقے کو منظم کیا جائے گا۔ جو بذات خود یادوسرے پڑوسیوں کی مد دسے کار اصلاح انجام دیں گے۔خاندانی، صنعتی، تعلیمی یا کسی بھی سماجی آئیڈیل کی مانگ پر کام کریں گے۔”(ٹریٹنر، 1999)

امریکہ کے مختلف شہروں میں کئی سارے سیٹلمنٹ ہاؤسزقائم کیے گئے۔ جن میں جین ایڈمس اور ایلن گیٹس اسٹار کے ذریعہ 1898 میں شکاگو میں شروع کیا گیا ہل ہاؤس شامل ہے۔ 1896میں گراہم ٹیلر نےشکاگو کامنس شروع کیا۔ 1891 میں رابرٹ ووڈ نے بوسٹن میں  Andover House کی بنیاد ڈالی۔ اسی طرز پر 1893میں لیلین والڈ نے نیو یارک میں ہینری اسٹریٹ سیٹلمنٹ قائم کیا۔ ایس ایچ ایم کا بنیادی مقصد سماجی وکالت اور سماجی خدمات کی فراہمی تھی تاکہ تیز رفتار صنعتی کامو ں اور شہریت کاری کے ساتھ صدی کے اختتام پر ہجرت کے ذریعہ پیدا ہوئی سماجی غیر انتظامی پر قابو پایا جا سکے۔ افراد اور لوگو ں کی سماجی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس تحریک کے کارکنان کافی فکر مند تھے۔(فرینکلن، 1986)

گرو پ ورک اور پڑوسی انتظامی طریقوں سے سیٹلمنٹ ہاؤسزکے کارکنان نے پڑوسی مراکز کھولے جن میں مختلف خدمات فراہم کی جاتی تھیں جیسے شہریت کی تربیت، تعلیم بالغاں ، کونسلنگ، ایکسپریشن، انٹر کلچرل تبادلے اور ڈے کیئر وغیرہ۔ تحقیق اور سیاسی وکالت کے ذریعہ کارکنان نے بہبودی اطفال، مقبوضہ گھروں ، لیبر قانون اور صحت عامہ و صفائی سے متعلق قانونی اصلاحات کی طرفداری کی۔

عام طور پر یہ کارکنان کالجوں سےفارغ ا لتحصیل امیر گھرانوں اور نفیس ذہنوں کے حامل افراد تھے جو زیادہ تر رضاکار ان اور کمیونٹی لیڈران کے طور پر مصروف تھےمگر ان میں سے کوئی بھی سوشل ورک پیشہ ور بطور ملازم نہیں تھا۔ خیر خواہی کے جذبے سے معمور یہ رضاکاران غریبوں کے درمیان بطور ساکن (Settler) رہتے تھے اور خود کو ایک ایسا پڑوسی سمجھتے تھے جن کا کام بہتر رشتے استوار کرنا، نئے ماحول میں ڈھلنے کے لیے مہاجروں کے لیے مواقع پیدا کرنا، غریبوں اور مزدور طبقہ کی معیار زندگی کو بڑھانے کے لیے کوشاں رہنا شامل تھا۔(جرمین اینڈ گٹر مین، 1980)

ان میں سفید فام خواتین بڑے پیمانے پر شریک کار رہیں جن میں میری فولیٹ، لیلین والڈ اور جین ایڈمس وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں ۔ سماجی موضوعات کو فروغ دینے اور انسانیت پر مبنی قانون کی پر زور وکالت کرنے کی وجہ سے ان خواتین کو قومی پیمانے پر اہمیت حاصل ہوئی۔

ایس ایچ ایم میں جین ایڈمس (1860-1935) سیٹلمنٹ موومنٹ میں اپنی سماجی خدمات اور سماجی اصلاح کے سبب کافی مقبول ہوئیں ۔ انہوں نے ایلن اسٹار کے ساتھ مل کر شکاگو کی جنوبی ہل اسٹیڈ اسٹریٹ میں ایک پرانے مکان میں ہل ہاؤس کی بنیاد ڈالی۔ ایڈمس کی شاندار کارکردی کی بنا پر انہیں امن کے نوبل انعام سے بھی سرفراز کیا گیا۔

.2سوشل ورک کا پیشہ ورانہ ارتقا (1915-1950)

کسی بھی پروفیشن کی اہمیت کو تسلیم کرنے کےپس پشت در اصل اس بات کی منظوری ہے کہ وہ پروفیشن ایسی بنیادی خدمات کو انجام دے سکے جو انسانی بقا اور معیاری زندگی کے فروغ میں مددگار ثابت ہوں ۔ چونکہ سوشل ورک ایک پیشہ ورانہ اہمیت کا حامل ہےاس لیے ہمیں پیشے کی خصوصیات سمجھنا ضروری ہے۔

چونکہ سوشل ورک ایک ایسا پیشہ ہے جو مکمل طور پر انسانوں کے مجموعی مسائل کی شناخت اور حل کرنےمیں یقین رکھتا ہے اس لیے اس کو ایک ایسے مدگار پروفیشن کے طور پر دیکھا گیا ہے جو انسانی ضرورتوں کو اپنے دائرۂ کار میں لاتا ہے۔

 بطور اوکیو پیشن مضبوطی ملنے کے بعدسوشل ورک کو بطور پیشہ تسلیم کرنے کے سلسلے میں کافی علمی بحث و مباحثے ہوئے ہیں ۔ روز مرہ کی سرگرمیوں پر زور دینے کے رجحان کی مخالفت کرتے ہوئے اس پیشہ کے لیڈران نے ایک متحدہ پیشہ ورانہ تنظیم کی بنیاد ڈالنے پر زور دیا۔ نیشنل کانفرنس آن چیریٹیز اینڈ کریکشن کی میٹنگ میں ابراہم فلیکسنر نے ‘ کیا سوشل ورک ایک پروفیشن ہے؟’ کے نام سے لکچر دیا جو بذات خود گریجویٹ تعلیم پر ایک سند تھے اور ان کی شاندار اسٹڈی کی بدولت میڈیکل تعلیم میں کافی تبدیلیاں آئی تھیں ۔ اس کانفرنس کے ذمہ داروں کو یہ امید تھی ڈاکٹر فلیکسنر اب سوشل ورک کو ایک پروفیشن کا درجہ دے دیں گے لیکن ایسا ہوا نہیں کیونکہ انہوں نے پروفیشن کی اجزائے ترکیبی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی او کیو پیشن کو پروفیشن کا درجہ حاصل کرنے کے لیے ایک پیشہ کے لیے ضروری ہے کہ:

(a) انفرادی ذمہ داری کے ساتھ بنیادی طور پر علمی سرگرمیاں انجام دیتا ہے،

(b) سائنس اور آموزش سے اپنا علمی مواد اکٹھا کرتا ہے،

(c) وہ مواد ایک خالص علمی اور صاف اختتام پر مبنی ہوتا ہے،

(d) تعلیمی قابل ترسیل ٹکنیک کے حامل ہوتا ہے،

(e) وہ خود انتظامی کی طرف مائل ہوتا ہے،

(f) اور اپنی ترغیب میں ہمیشہ متحرک ہوتا ہے۔

 سوشل ورک کی تعلیمی کوششیں تو واضح تھیں مگر سوشل ورک کے نصب ا لعین مکمل طور پر واضح نہیں تھا مزید اس میں خصوصی تعلیمی ڈسپلن کی کمی بھی تھی۔ فلیکسنر نے محسوس کیا کہ اگر چہ سوشل ورک اپنے علم، حقائق اور خیالات کو فیلڈ اور سیمیناروں سے حاصل کرتا ہے مگر اس کی بنیاد واضح تعلیمی ڈسپلن پر مبنی نہیں ہے۔ مندرجہ بالا کسوٹیوں پر جانچنے کے بعد ڈاکٹر فلیکسنر اس نتیجے پر پہنچے کہ سوشل ورک ابھی پورے طور پر پروفیشن کہلانے کا اہل نہیں ہے لہٰذا انہوں نے مشورہ دیا کہ سوشل ورک کو اپنی شناخت کے لیے ایک طویل علمی اور عملی سفر طے کرنا ہوگا۔ اس طرح مستقبل کے کئی برس سوشل ورکرز نے فلیکسنر کے مشورے کی نہج پر اپنی علمی اور عملی سرگرمیوں پر توجہ دی۔

1917 میں نیشنل سوشل ورکرز ایکسچنج کا قیام عمل میں آیا جس کا مقصد پیشہ ورانہ کونسلنگ اور پلیسمنٹ کی فراہمی تھی جو آگے چل کرپیشہ کی شناخت اور پیشہ ورانہ تعریفوں کی تجدید کاری کے لیےمستعدی سے کام کرنے لگی۔1921 میں یہ تنظیم امریکن اسو سی ایشن فار سوشل ورکرز میں ضم ہوگئی۔ اس تنظیم نے جامع پیشہ ورانہ انجمن بنانے کی سمت کافی کام کیا- مگر اگلے کچھ سالو ں میں اس کوشش کو خصوصی تنظیموں کے پے در پے قیام نے کمزور کر دیا۔ 1921 میں میری رچمنڈ نے کوڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اخلاقیات کا ایک با قاعدہ نظام نہ ہونے کی صورت میں اس پیشے کی سماجی پہچان کم ہو جائے گی۔ 1923 میں نیشنل کانفرنس آن سوشل ویلفیئرکے موقع پر اس نکتہ پر بحث کی گئی مگر اس خاکہ کو کبھی عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا۔

(1950-1970)

1952 میں کونسل آن سوشل ورک ایجوکیشن کے قیام نے اس پیشہ کو بہت تقویت بخشی- 1955میں نیشنل اسوسی ایشن آف سوشل ورکرز کی بنیاد پڑی جس کے مقاصد درج ذیل تھے:

  • سوشل ورک کی خدمات کے انتظام کو بہتر کرنا
  • سوشل ورک میں تحقیق کو تقویت بخشنا
  • سوشل ورک پریکٹس کو بہتر کرنا
  • سوشل ورک تعلیم کو بہترکرنا
  • سماجی حالات کو بہتر کرنا
  • سوشل ورک کی عوامی تفہیم کو حاصل کرنا
  • کام کی صورت حال اور تنخواہوں کو بہتر کرنا
  • اخلاقیات کا کوڈ تیار کرنا، فروغ دینا اور اسے نافذ کرنا
  • سوشل ورکرز کی مہارتوں کی تصدیق کرنا
  • دیگر ممالک میں بھی اس پروفیشن کو فروغ دینا

1950کے آخر تک پیشہ ورانہ جرنل ‘سوشل ورک’ میں سوشل ورک کی پیشہ ورانہ نوعیت پر کافی بحث ہوئی اور یہ جرنل ‘سوشل ورک کی نوعیت’، ‘سوشل، کیسے سوشل ورک ہے؟’ اور ‘بدلتی دنیا میں بدلتا ہوا ایک پروفیشن’جیسے مضامین سے بھر گیا- مگر ارنیسٹ گرین ووڈ کا اہم ترین کام ‘ پروفیشن کی خصوصیات ‘ کے نام سے1957 میں شائع ہوا – گرین ووڈ نے ریلیٹیو اپروچ کا استعمال کرتے ہوئے پروفیشن کی پانچ اہم خصوصیات کی شناخت کی جو مندرجہ ذیل ہیں :

(a) اصولوں کا ایک منظم نظام/ باڈی؛کوئی بھی پروفیشن اپنی علمی بنیاد کے ساتھ اصولوں کی ایک منظم باڈی منتخب کرتا ہے جو پریکٹس کی مہارتوں کی طرف رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ علمی اور پریکٹیکل دونو ں ہی سطح پر تعلیمی تیاری کا ہونا انتہائی لازمی ہے۔

(b) پیشہ ورانہ اتھارٹی ؛ کلائنٹ-پیشہ ورانہ رشتوں میں پیشہ ورانہ اتھارٹی اور اعتماد یت ہو جو کہ پیشہ ورانہ فیصلے اور قابلیت کے استعمال پر مبنی ہوتی ہے۔

(c) کمیونٹی کی منظوری ؛ اپنی ممبرشپ، پیشہ ورانہ پریکٹس، تعلیم، اور کارکردگی کے پیمانوں پر ایک پروفیشن کو کنٹرول اور چلانے کا اختیار ہے۔ اس ضمن میں کمیونٹی اصول و ضوابط کے اختیارات اور پیشہ ورانہ سہولیات پر رضامندی ظاہر کرتی ہے۔

(d) اخلاقیات کا کوڈ ؛ ایک پروفیشن اخلاقیات کا مفصل اور منظم کوڈ سے آراستہ ہوتا ہے جو ممبران پر اخلاقی برتاؤ کے لیے ضروری ہوتے ہیں ۔

(e) پیشہ ورانہ کلچر؛ رسمی اور غیر رسمی تنظیمی نیٹ ورک کے دائرے میں رہتے ہوئےکوئی بھی پروفیشن اقدار، قاعدے قوانین اور علامتوں سے رہنمائی حاصل کرتا ہے۔

انہوں نے سوشل ورک میں ان پانچو ں خصوصیات کی موجودگی کو ثابت کرتے ہوئے یہ نتیجہ نکالا کہ سوشل ورک ایک پروفیشن ہے۔ ووڈ نے کہا کہ’ “جب ہم پیشوں کے موجودہ ماڈل کے تحت سوشل ورک کو دیکھتے ہیں تو ہمیں زیادہ وقت یہ صرف کرنے میں نہیں لگتا کہ ہم اسے پیشہ ور یا غیر پیشہ ور اوکیو پیشن میں رکھیں ۔ کیوں کہ سوشل ورک پہلے سے ہی ایک پروفیشن ہے اور اس کے پاس کئی ایسے نکا ت ہیں جن کی بنا پر ہم اس پروفیشن کو موجودہ تناظر میں سمجھ سکتے ہیں ۔

اس طرح ڈاکٹر فلیکسنر کے رد کیےہوئے نظریے کی گرین ووڈ نے بر جستہ تردید کر دی۔ پیشہ ورانہ یونٹی کی تلاش میں 1955 میں کئی ساری تنظیمیں نیشنل اسوسی ایشن آف سوشل ورک میں ضم ہوگئیں ۔ لاکھوں ممبرشپ کے ساتھ فی الوقت یہ ایک بڑی تنظیم ہے جس کے ممبران صرف سوشل ورک کے طالب علم ہی ہو سکتے ہیں ۔1958میں این اے ایس ڈبلیونے سوشل ورک پریکٹس کی ایک تعریف شائع کی جس پر گورڈن نے زبردست تنقید کی چنانچہ اسی کے زیر اثر سوشل ورک کے علم، اقدار اور پریکٹس کے طریقہ کار میں تبدیلیاں واقع ہوئیں ۔ 1960میں این اے ایس ڈبلیونے اخلاقیات کا کوڈ اپنایا تاکہ پیشہ ورانوں کے لیے ایک رہنمائی کاسبب بن سکے- مندرجہ بالا بحث کو مد نظر رکھتے ہوئے موریلس اور شیفر نے سوشل ورک پیشہ کی ایک جامع تعریف پیش کی ہے جو ذیل میں دی جارہی ہے:

(a) پیشہ وران کلائنٹ کےساتھ بخوبی کام کرنے کے امکانات اور صلاحیتوں کو محدود کرنے والے عوامل سے آزاد ہوتےہیں ۔ پیشوں کی یہ پیشہ ورانہ آزادی سب سے زیادہ کامیاب رہی ہے جو بلا واسطہ اپنے موکلین کو کاروباری یا پرائیویٹ پریکٹس کی بنیاد پر خدمات فراہم کرتے ہیں ۔

(b) پیشے اپنے متعلقہ میدان میں اپنی اجارہ داری برقرار رکھتے ہیں کیونکہ سماج ایسے افراد کو پیشہ ورانہ اختیار/ خود مختاری دے دیتا ہے جو اپنے پیشے کی علم، مہارت اور اقدار کو حاصل کرنے کے ساتھ ہی ساتھ انسان کی پیچیدہ ضرورتوں کے تانے بانے کو بہتر انداز سے سمجھ پاتے ہیں ۔

اپنے میدان میں کام کی ابتدا سے قبل پیشہ ورانوں کو اپنے پیشے کی بنیادی مہارتوں کو حاصل کرنا ضروری ہے۔ کسی بھی سرٹیفکیٹ میں تعلیمی پروگرام اور امتحانات کے مواد کے ساتھ تکنیکی معلومات اور مہارت و ہنرمندی کی بھی تصدیق کی جاتی ہے۔ چونکہ سماجی مسائل کا مکمل حل کسی بھی پروفیشن کی دسترس سے باہر ہے اس لیے موثرانہ طور پر کام کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پیشہ وران تکنیکی اور علمی مہارتوں کی تربیت لیں اور بیک وقت سماجی علوم کی دوسری شاخوں سے معلومات کے ذخیرے سے استفادہ کریں – مختصرا پیشہ ورانوں کو تکنیکی اور تعلیم یافتہ ہونا لازمی ہے۔

(c) اب جب کہ سماج کے ذریعہ پیشہ ورانوں کو مسائل میں مبتلا لوگوں کے ساتھ کام کرنے کی اجازت مل جاتی ہے تو عام لوگ یہی امید کرتےہیں کہ پیشہ وران انہیں استحصال ہونے یا مزید پریشانیوں سے بچائیں ۔ پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو قائم کرنے اور برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ پیشوں کے ایسے اخلاقیاتی قانون کی شناخت کی جائے جو مناسب اخلاقی برتاؤ کومستعدی سے نافذ کرے۔ خلاصہ بحث یہ ہے کہ ایک پیشے اور سماج کے مابین ایک عہد یا پیمان ہوتا ہے۔ زندگی کے حساس میدانو ں میں اپنی ذمہ داریوں اور خدمات انجام دینے کےعوض میں پیشوں کو یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ خدمات انجام دینے کے لیے اپنی پیشہ ورانہ اجارہ داری کو برقرار رکھیں ۔

اس طرح ان مختلف اور مشکل مراحل سے سوشل ورک اب ایک باقاعدہ اور تسلیم شدہ پروفیشن بن گیا ہے۔

.3ہندوستان میں سوشل ورک کا پیشہ ورانہ ارتقا

بطور پروفیشن سوشل ورک کی ابتدا 1899میں ایمسٹرڈم میں ہوئی اور یورپ اورامریکہ میں بہت تیزی سے اس پروفیشن کے پھیلنے کے شواہد ملتے ہیں ۔ آگے چل کر 1920 کی دہائی میں یہ پروفیشن جنوبی ایشیا، کیریبیائی ممالک، ہندوستان اور جنوبی افریقہ میں بھی پہونچ گیا(کینڈل، 2000 )۔ دراصل، جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا جا چکا ہے، سوشل ورک انیسویں صدی میں مغربی ریاستوں میں صنعت اور جدید مشینی فیکٹریوں کے زیر اثر سوشل ورک وجود پذیر ہوا۔ ہندوستان میں سوشل ورک کی تعلیم کی با قاعدہ شروعات 1936 میں کلفورڈ منشارڈت کی قیادت میں دوراب جی ٹاٹا گریجویٹ اسکول آف سوشل ورک (بمبئی ) سے ہوئی جو بعد میں ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسزکے نام سے مشہور ہوا۔ یہ ادارہ صرف ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ ایشیائی ممالک میں بھی سوشل ورک تعلیم کے میدان میں ایک سند کی حیثیت رکھتا ہے۔ہندوستان میں پیشہ ورانہ سوشل ورک کی بنیاد ممبئی میں سوشل سروس لیگ (1905)نے ایک کم مدتی ٹریننگ کورس سے کی جس کا مقصد سماجی خدمات کے لیے خواہش مند مردوں اور عورتوں کو ٹریننگ فراہم کرنا تھا۔ تاہم سوشل ورک بطور پروفیشن اور سوشل ورکرز بطور پیشہ وران کا اعتراف اس دوران شروع ہوا جب سرکاری اور غیر سرکاری تنظیمیں سوشل ورکرز کو ملازمتیں دینے لگیں ۔(بھٹ، 2016)

ہندوستان میں سوشل ورک تعلیم اپنی ابتدا سے ہی کافی دلچسپ رہی ہے۔ ابتدائی سوشل ورک میں والنٹری سوشل ورک کی روایت تھی جس میں لوگ لگن اور نیک جذبے کے تحت اپنی سماجی خدمات کو انجام دیتے تھے۔ ہندوستان کے مختلف شہروں جیسے دہلی، راج گری، ادے پور، ممبئی، مدراس اور اندور میں عیسائی مشنریوں کی جانب سے سوشل ورک اسکولوں کی بنیادیں رکھی گئیں ۔ دوسری طرف گاندھیانہ فلسفہ سے متاثر ہو کر وارنسی اور احمدآباد میں بھی سوشل ورک کے ادارےشروع کیے گئے۔

ہندوستان میں سوشل ورک اسکولوں اور سوشل ورک تعلیم کی بتدریج ترقی کو پانچ ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے۔

1- ابتدائی دور (1936-1946)

2-تجرباتی دور (1947-1956)

3-توسیعی دور (1957-1976)

4- درمیانی دور (1977-1986)

5-تیز توسیعی دور (1987 سے تا حال)

1986میں 72 سوشل ورک اسکولوں کی فہرست، 2005 میں 172 کی تعداد تک پہونچ گئی- موجودہ اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان بھر میں تقریبا 500 سے زائد اداروں میں سوشل ورک کے کورسز فراہم ہیں جن میں مرکزی حکومت کے زیر انتظام چلنے والے ادارے، صوبائی ادارے، یونیورسٹیوں سے منسلک ادارے،پرائیویٹ ادارےاور پرائیویٹ کالجوں اور اداروں میں سوشل ورک تعلیم کے کورسز فراہم کیے جارہے ہیں ۔

ہندوستان میں سوشل ورک پیشہ ورانوں اور معلمین میں یہ بحث کافی رہی ہے کہ ایک نیشنل کونسل آف پیشہ ورانہ سوشل ورک کو قائم کیا جائے، جس کا مقصد بھی مغربی کونسلوں کے طرز پر اس پیشہ کے قانون و ضوابط پر غور و فکر کرے۔ اس نوعیت کی کونسل کے قیام کے لیے ملک کے تمام سوشل ورک پیشہ وران،معلمین، پالیسی ساز، متحدہ پیشہ ورانوں کی مدد درکار ہوگی مگر اس سمت میں اب تک کوئی خواطر خواہ قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔

.4 ہندوستان میں سوشل ورک کی اکیڈمک شناخت

 سوشل ورک ایک سماجی خدمت اور انسانی ترقی کے لیے کوشاں رہنے والا ایک اکیڈمک ڈسپلن ہے جواصولی، تصوراتی علم اور زمینی حقائق کی تفہیم سے مرکب ہے۔ اپنی نوعیت کے لحاظ سے سوشل ورک ایک انٹر ڈسپلنری مضمون ہے جس نےاپنے ذاتی تصورات اور علوم کے ساتھ ساتھ ضرورت کے مطابق مختلف علوم سے اپنی ضرورت کے مطابق مواد لیے ہیں ۔ اس ڈسپلن نے سماجیات، معاشیات، نفسیات اور سیاسی مطالعات کے اصولوں کو اپنی ضرورت کے مطابق مطابقت کی ہے۔ اس لیے علم کی بنیاد کو مستقل جانچنے، پرکھنے اور تجدید کاری میں یہ ڈسپلن پیش پیش ہے۔ اس طرح سوشل ورک،متعلمین اور فیلڈ کے پیشہ ورانوں کے درمیان ایک منفرد رشتہ قائم کرتاہے جو سوشل ورک تعلیم کی تدریس کے لیے نا گزیرہے۔

جیسا کہ پہلے ہی عرض کیا جا چکا ہےکہ سوشل ورک ایک مددگار پیشہ ہے جو انسانی مسائل سے منسلک ہے اس لیے انسانی مسائل کی تفہیم اور ان کے حل کے لیے تربیت حاصل کرنا اس پیشے کا جزو لا ینفک ہے۔لہذا سوشل ورک کے نصاب میں جہاں درجے میں درس و تدریسی عمل کی اہمیت ہے وہیں عملی طور پر مسائل میں مبتلا افراد کے ساتھ کام کرنا بھی ضروری ہے۔ چنانچہ طلبہ اصول و عمل کے اس امتزاج کی تفہیم کے بعد ہی پیشہ وران کہلانے کے مستحق ہوتے ہیں ۔ ذیل کی بحث سے ہم یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ سوشل ورک عمل پر مبنی ایک پیشہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک باقاعدہ اکیڈمک ڈسپلن بھی ہے جو ملک کےتعلیمی نظام میں ایک اہم درجہ رکھتا ہے۔ ہندوستان میں سوشل ورک کے پورے نصابی عمل کی شکل و نوعیت کے متعلق بحث و مباحثے ہوتے رہے ہیں ۔ہندوستانی تعلیمی نظام میں اعلی تعلیم سے متعلق ہر طرح کے اصول و ضوابط اور پالیسی نفاذ کے لیے یو جی سی ایک خود مختار تنظیم ہے۔اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم مختصرا یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) کی مختلف کمیٹیوں کی سفارشات کے ذریعہ سوشل ورک کی ڈسپلنری شناخت پر ایک نظر ڈالیں گے۔

1965 4.1 کی یو جی سی کمیٹی

اس کمیٹی نے یہ غور کیا کہسوشل ورک میں لیبر ہی ایک ایسا حصہ ہے جس میں تربیت فراہم کی جاتی ہے اس لیے اس فیلڈ کے دوسرے حصوں پر مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی منظوری ضروری ہے خصوصا ایسے عہدوں کے لیے جو ویلفئیر سے متعلق ہیں – تعلیمی نصاب کے حوالے سے کمیٹی نے یہ مشورہ دیا کہ سماجی اور نفسیاتی سائنسوں کے درمیان ایک ربط بنایا جائے جس میں دو بڑے پہلوؤں پر زور دیا گیا؛ انسان و سماج اور انسانی برتاؤ کی حرکیات، جس کو پڑھانے کے لیے ایکاستاد کو مذکورہ کسی ایک شعبہ میں پوسٹ گریجویشن کرنا ضروری ہے۔کورس کے طریقہ کاروں کے سلسلے میں کمیٹی نے بڑی شدت سے یہ کہا کہ ہندوستان میں سوشل ورک زیادہ تر خارجی ذرائع علم پر بھروسہ کرتا رہا ہے اورجس کے اساتذہ ابھی تک فیلڈ سے متعلق کوئی پختہ تیاری نہیں کر سکے ہیں اسی لیے طلبہ فیلڈ میں تصورات کا اطلاق صحیح طریقے سے نہیں کر پاتے ہیں اورعلم و عمل کے مابین ایک خلا ہے۔

اس کمیٹی نے فیلڈ ورک کو سوشل ورک کا ایک لازمی حصہ قرار دیا ہے۔ جس میں تنظیموں کا انتخاب، کام کے خاکے کی تیاری، نگرانی کی تیاری اور کارکردگی کے محتاط تعین قدر پر توجہ دی گئی۔ کمیٹی کے مطابق سماجی علوم کے دیگر مضامین میں بھی فیلڈ ورک کیا جاتا ہے مگر سوشل ورک میں فیلڈ ورک کی ایک الگ اہمیت اور نوعیت ہے جس کا مقصد محض اعداد و شمار اکٹھا کرنانہیں ہے بلکہ لوگوں کے ساتھ کام کرنے کا اصلی تجربہ اہم ہے۔ اس سلسلے میں اساتذہ کی فیلڈ نگرانی بہت اہمیت کی حامل ہےجس سے طلبا کو مستقل اپنے نگران کے گراں قدر مشورے اور علمی مواد ملتے رہیں ۔ اس ضمن میں کمیٹی نے یہ بھی فیصلہ لیا کہ طلبہ کو فیلڈ ورک میں الگ سے پاس ہونا لازمی ہے۔ طلبہ کا تعین قدر فیلڈ ورک کی منظم کارکردگی اور مفصل رپورٹوں سے کیا جائے گا۔ اس کمیٹی کی سفارشات میں اسٹڈی ٹور کی بھی حوصلہ افزائی کی گئی- اس ضمن میں نیشنل کونسل آف سوشل ورک کے قیام کی وکالت کی گئی جس کا مقصد سوشل ورک اداروں میں تربیتی پروگراموں کو کو آرڈینیٹ کرنا ہوگا۔

1975 4.2 یو جی سی ریویو کمیٹی

 اس کمیٹی کے قیام کے پیچھے سوشل ورک اداروں میں تربیتی پروگراموں کا تیزی سے قیام تھا۔ یہ دو طریقوں سے رائج ہوا؛ پہلی صورت میں سوشل ورک ایک علیحدہ شعبہ کی حیثیت سے قائم کیا گیا یا پھر سماجیات کے شعبہ کے ساتھ منسلک کیا گیا۔

اس کمیٹی کی اہم سفارشات مندرجہ ذیل ہیں ۔

  1. a) بارہویں ، گریجویشن، پوسٹ گریجویشن، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطحوں پر تربیتی پروگراموں کو نافذ کرنا تاکہ روزگار کے مواقع بڑھ سکیں ۔
  2. b) شمال بعید اور شمال مشرق علاقوں میں اداروں کا قیام عمل میں لایا جائے۔
  3. c) کمیٹی نے یہ بھی مشورہ دیا کہ سوشل ورک کے شعبہ کو با قاعدہ طور پر منظم اور با اختیار بنا یا جائے اور بورڈ آف اسٹڈیز کو مزید اہمیت دی جائے۔
  4. d) کمیونٹی، سوشل ورک تعلیم، تحقیق، جرائم، اطفال وغیرہ کے دائرۂ کار کو مزید وسیع کیا جائے- مگر نئے ادارے شروع کرنےکے بجائے پہلے سے موجود اداروں کی بنیاد ی سہولیات کو مستحکم کیا جائے۔
  5. e) گریجویشن کی سطح پر تربیت کو تقویت دی جائے- سوشل ورک ایجوکیشن میں نئے پروگرام شروع کیے جائیں ۔اس کمیٹی نے جامع طریقے سے سوشل ورک ایجوکیشن اور اس کے انتظامی پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام عناصر پر زور دیا اور بہت ہی واضح ہدایت فراہم کیں ۔ جیسے اساتذہ، لائبریری اسٹاف، انتظامی اسٹاف، تحقیق، اخراجات کی پالیسی، انجمنوں کا رول اور کردار، آزادانہ ریویو کمیٹی، سوشل ورک نصاب کی تیاری وغیرہ۔

اس کمیٹی نے سوشل ورک تعلیم کو ایک تصوراتی فریم ورک بھی مہیا کیا جس میں تمام طرح کے مرکزی کورسز کے ساتھ ساتھ نیم پیشہ ورانہ کورسز کی نوعیت و ساخت کو تفصیلی انداز میں پیش کیا اور نصاب کےتمام پہلوؤں کو بھی اجاگر کیا۔

4.3 یوجی سی ماڈل کریکلم 2001 – کریکلم ریفریم ایکسرسائز (سی آر ای)

سوشل ورک تعلیم کے نصاب سے متعلق یہ ایک جامع رپورٹ ہےجس میں ڈسپلن پر کافی گہرائی سے بحث کی گئی اور یہ کمیٹی پروفیسر این اے گوکرن کی رہنمائی میں عمل میں آئی جس کا مقصد مندرجہ ذیل تین عناصر پر غور و فکر کرنا تھا:

  1. a) پروفیشن کی اقدار
  2. b) پیشہ ورانہ کاموں کے لیے مہارتوں اور طریق کارو ں پر غورو فکر
  3. c) اہم اصولوں اور تصورات پر نظر ڈالنا

 اس کمیٹی کی رپورٹ میں چار طرح کے علمی میدانوں  پر کافی بحث کی گئی ہے جو ذیل میں دیے جا رہے ہیں :

  • کور ڈومین جو فلسفہ، نظریہ، پریکٹس، اقدار، اخلاقیات، اصول اور تصورات پر مبنی ہے-
  • سپورٹیو ڈومین میں ایسی مہارتیں اور علم شامل ہیں جو کور ڈومین میں مددگار ثابت ہوتے ہیں –
  • انٹر ڈسپلنری ڈومین میں دوسرے علوم سے تصورات اورعلمی مواد اخذ کرنا جو سماجی مظاہر کو سمجھنے اور مسائل کے حل میں مددگار ثابت ہوں ۔
  • ایلکٹیو ڈومین کے مواد مقامی، قومی اور بین ا لاقوامی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے تیار کیے جائیں جن میں انسانی مسائل اور ان کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے خصوصی توجہ دی جائے۔

سی آر ای نے سوشل ورک کو بحیثیت پروفیشن تسلیم کیاہے اوردرس و تدریس سے متعلق معلومات افزا بحث فراہم کی ہے۔ طبیعی سہولیات سے لے کر معیاری تعلیم و تربیت کے تمام پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہےتاکہ یہ پروفیشن اپنے مقاصد کی تکمیل بخوبی کرسکے۔

خلاصہ

مندرجہ بالا بحث سے ہمیں یہ بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ سوشل ورک باقاعدہ طور پر سب سے پہلے انگلینڈ میں شروع ہوا اور امریکہ میں بھی اسی کے زیر اثر سوشل ورک کی مختلف تنظیموں اور تحریکوں کا ارتقا ہوا۔ ہندوستان میں بھی پیشہ ورانہ سوشل ورک کا بتدریج ارتقا ہوا۔ سوشل ورک کو پیشے کا درجہ دلانے میں معلمین اور سماجی کارکنان نے کافی اہم رول ادا کیا ہے جس کے تحت پسماندہ اور غریبوں اور مخصوص افراد کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے مختلف انجمنوں کا قیام عمل میں آیا۔ با قاعدہ تیاری اور منظم کام کے طریقوں کے ساتھاس پیشے نے پختگی کے مراحل طے کیے ہیں ۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ موجودہ تعلیمی نظام میں سوشل ورک ایک پیشہ ورانہ کورس اور ایک اہم اکیڈمک ڈسپلن کی حیثیت سےشامل ہے۔ہندوستان میں آزادی کے بعد سوشل ورک کورسزکے کافی تیزی سے پھیلنے کے شواہد ملتے ہیں ۔ موجودہ سماجی و تعلیمی پس منظر میں سوشل ورک نے اپنے نصاب میں وقت اور لوگوں کی ضرورت کے مطابق تبدیلیاں کی ہیں جس کے نتیجے میں آج یہ پیشہ ملک کے معاشی اور تعلیمی نظام میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

حوالہ جات

  1. Bhatt, Sanjai.,&Phukan, Digvijoy. (2016). Social work resource book. New Delhi: AlterNotes Press.
  2. Brieland, D. (1955). Social work practice: History and evolution. Washington, DC: NASW Press.
  3. Brill, N. I. (1998). Working with people: The helping process (6th Ed.). New York: Longman.
  4. Dubois, Brenda. & M. K. Karla. (2002). Social Work: An empowering profession (4th Ed.). Boston: Allyn and Bacon.
  5. Dunham, A. (1970). The new community organization. New York: Thomas Y Crowell.
  6. Franklin, D. L. (1986). Mary Richmond and Jane Adams: From moral certainty to rational inquiry in social work practice. Social Service Review, 60. 504-523
  7. Germain, C. B., &Gitterman, A. (1980). The life model of social work practice. New York: Columbia University Press.
  8. Hansan, J.E. (2013). Charity Organization Societies (1877 – 1893). Social Welfare History Project. Retrieved from http://socialwelfare.library.vcu.edu/eras/civil-war-reconstruction/charity-organization-societies-1877-1893/
  9. Solomon, B.B. (1976). Black empowerment: Social work in oppressed communities. New York: Columbia University Press.
  10. Trattner, W. I. (1999). From poor law to welfare state: A history of social welfare in America (6th Ed.). New York: The Free Press.
  11. Van Waters, M. (1931). Philosophical trends in modern social work. Chicago: The University of Chicago Press.

Dr. Md. Shahid Raza

Associate Professor & Head

Department of Social Work,

Maulana Azad National Urdu University,

Hyderabad- 500032

Email Address: mdshahidraza@gmail.com

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.