ڈراما نظام سقہ اور ممتاز مفتی…ایک مطالعہ

     دنیاکی تمام زبانوں میں ڈرامے کا ذخیرہ پایا جاتا ہے۔ہر زمانے میں اس کا تعلق کسی نہ کسی علاقے سے ضرور رہا ہے بلکہ زمانہ قدیم سے ہی اس کا سروکار انسانی زندگی کے ساتھ ساتھ چلتا آرہا ہے۔قدیم زمانے میں انسان کے پاس صرف دو زرائع ایسے تھے جن کے ذریعے وہ اپنے خیالات کو دوسروں تک پہنچا سکتا تھا ایک آواز اور دوسرا حرکات وسکنات۔اور یہی حرکات وسکنات ڈرامے کی بنیاد قرار دیے گئے ۔ انسان کی ترقی کے ساتھ ساتھ ڈرامے میں بھی چند تبدیلیاں منظر عام پر آئیں ۔انسائیکلو پیڈیا آف برٹینکا میں لفظ ’’ڈرامہ‘‘کے متعلق لکھا ہے کہ یہ یونانی لفظ سے لیا گیا ہے جس کے معنی’’کرکے دکھائی ہوئی چیز ‘‘کے ہیں جس کے ذریعے تہذیب کی دنیا سے دور، حرف ولفظ سے نا آشنا انسان نے اپنے کسی جذبے، احساس ، مشاہدے یا خود پر بیتنے والے کسی تجربے کا اظہار ڈرامے کی ابتدائی شکل میں کیا ہوگاجس کو آج ہم ’’ڈرامہ‘‘کہتے ہیں۔اے۔بی ۔اشرف اپنی کتاب میں ڈرامے کے متعلق یوں رقمطراز ہیں:

’’گفتار اور حرکات وسکنات کی مدد سے اپنی بات دوسروں تک پہنچانا،اسی کا نام ڈرامہ ہے۔‘‘     ۱؎

     صنف ’’ڈراما‘‘میں تفریح وطبع کا سامان بھی پایا جاتا ہے اور انسانی زندگی کے جذبات ، محبت، ہمدردی،ایثار وقربانی،غم وغصہ،حیرت ونفرت وغیرہ جیسے پہلوؤں کی بھر پور عکاسی شامل کی جاتی ہے اسی وجہ سے لوگ شاعری کے بعد اس صنف کو زیادہ پسند کرتے ہیں جس کا اندازہ ہمیں دنیا کی ہر زبان میں لکھے گئے ڈراموں سے ہوتا ہے۔کیونکہ ڈرامے کی ابتداء انسانی زندگی کی نقالی سے ہوئی اسی وجہ سے ہر انسان کی فطرت میں یہ بات شامل ہے کہ وہ نقل یا رنگ وروپ بدلنے میں زیادہ ماہر ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ڈراما کی صنف وجود میں آئی۔یورپ کے ڈرامہ نگاروں میں شیکسپئر،گولڈ سمتھ ، گوئٹے، شیریڈن ، وکٹر ہیگو اور کئی دیگر ادیب اس صنف میں عالم گیر شہرت کے مالک رہے ہیں۔

     ڈراما یونانی لفظ’’ڈراؤ‘‘سے مشتق ہے جس کے معنی’’کرکے دکھانا ‘‘کے ہیں جبکہ سنسکرت میں اسے’’درشیئے‘‘(یعنی دیدنی) اور دوسرا شروے (یعنی شنیدنی)کہا جاتا ہے جبکہ ڈرامے کا تعلق ’’درشئیے ‘‘ سے ہے یعنی ایسی نظم جسے عملی صورت میں’’دیکھا، یا دکھایا جاسکے‘‘کے معنی میں لیا جاتا ہے بحر حال اس کے لفظ کے کچھ بھی معنی ہوں لیکن اصل میں ڈراما ایسا فن ہے جس کا دائرہ کار الفاظ کے ساتھ ساتھ آواز،حرکات اور عمل پر مبنی ہوتا ہے۔یونان میں ڈرامے کی ابتدا ’’Dionysus‘‘ کے آگے نذرانۂ عقیدت کے طور پر ہوتی ہے اس کے بعد کچھ نقوش ارسطو کی ’’بوطیقا‘‘میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں ادھر ہندوستان میں بھرت منی کی’’ناٹیہ شاستر‘‘میں بھی اس کے اثرات دیکھنے کو ملتے ہیں۔جبکہ اردو اسٹیج ڈراموں کی ابتداء شاہ جہاں کے عہد ۱۶۳۳ئ؁ میں ہوئی بعد میں شاہی محلوں کے سٹیج پروان چڑھتا ہوا واجد علی شاہ کا ڈراما’’رادھا کنہیا‘‘۱۸۴۲ئ؁ میں سامنے آیاجسے طویل عرصے سے اردو ڈرامے کا نقش اول تصور کیا جاتا رہا ہے ۔اس کے بعد اردو کا دوسرا اہم ڈراما امانت لکھنوی کا’’اندر سبھا‘‘کو مانا گیا جو ۱۸۴۲ئ؁ میں لکھا گیا اور ۱۸۵۴ئ؁ میں پہلی بار اس کی اشاعت عمل میں آئی۔اس ڈرامے میں لکھنوی عہد کی بھر پور عکاسی کی گئی تھی۔بر صغیر میں انگریزوں کی آمد کے بعد یہاں مختلف ڈرامہ کمپنیوں کا قیام عمل میں آیا۔اس کے بعد جن ڈرامہ نگاروں نے اس صنف کو بام عروج تک پہنچایا اُن میں محمود میاں رونق،حسینی میاں ظریف،طالب بنارسی،احسن لکھنوی ،بیتاب بنارسی،آغا حشر کاشمیری،محمد حسین آزاد،عبدالماجد دریا آبادی،رسوااورپریم چندوغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ان ڈراما نگاروں کے بعد ایک اہم نام سید امتیاز علی تاج کا ہے جن کا ڈراما’’انار کلی‘‘ایک تاریخی ڈراما مانا گیا ہے ۔یہ ڈراما۱۹۲۲ئ؁ میں لکھا گیا اور ۱۹۳۲ئ؁ میں پہلی بار اسٹیج ہوا۔امتیاز علی تاج کے بعد عابد حسین اورپروفیسر محمد مجیب کے نام اہمیت کا حامل ہیں۔

     بیسویں صدی کی تیسری اور چوتھی دہائی تک آتے آتے ڈرامے نے اپنے تکنیکی وسائل میں کافی حد تک ترقی کر لی تھی۔اس کے بعد ریڈیو کا چلن عام ہوا جس نے ریڈیائی ڈرامے کو جنم دیا جس کے تحت مختلف ڈراما کمپنیاں قائم کی گئیں۔ترقی پسند تحریک کے آغاز کے ساتھ ہی’’اپٹا‘‘تھیٹر گروپ کا قیام عمل میں آیا جس کے تحت ڈرامے لکھے گئے۔خواجہ احمد عباس،کرشن چندر،بیدی،عصمت چغتائی،علی سردار جعفری اور قدسیہ بیگم کے نام اہم ہیں۔ان ہی ڈراما نگاروں میں ایک نام ممتاز مفتی کا بھی ہے جنھوں نے ریڈیائی ڈراموں کے ساتھ ساتھ اسٹیج ڈرامہ ’’نظام سقہ‘‘ بھی تحریر کیا بعد میں اس ڈرامے کو ممتاز مفتی نے کتابی شکل میں شائع کیا جس کا انتساب ممتاز مفتی نے یوں لکھا ہے:

                             عظیم اداکارمحمد حسین کے نام

                                          جس نے مجھے ڈرامے کا شعور عطا کیا

      ڈراما ’نظام سقہ‘ممتاز مفتی کا پہلا اسٹیج ڈراما ہے جو ۱۹۵۲ئ؁ میں لکھا اور پہلی بار ۱۹۵۳ئ؁ میں مکتبۂ اردو لاہور نے کتابی صورت میں شائع کیا ۔یہ ڈراما کئی بار اسٹیج ہونے کے ساتھ پاکستان ٹیلی ویثرن سے بھی پیش کیا گیا جو ایک کرداری ڈرامہ ہے۔اس ڈرامے کا محرک اور پس منظر ایک ایسا کردار ہے جس سے ممتاز مفتی کی ملاقات ریڈیو پاکستان راولپنڈی میں ہوئی تھی۔دونوں میں اس قدر گہری دوستی ہوئی جس نے ممتاز مفتی کی شخصیت کو متاثر کردیا۔اس دوستی کا نقصان محمد حسین کو یہ ہوا کہ وہ ممتاز مفتی کے ایک نفسیاتی مشورے پر عمل کر بیٹھے جس کی وجہ سے انھیں سٹاف آرٹسٹ کی ملازمت سے معطل کردیا گیا۔چناچہ اس غلطی کو سدھارنے کے لیے ممتاز مفتی نے محمد حسین کو فلم سکرین کی بلندیوں پر پہنچانے کے لیے ڈراما’’نظام سقہ‘‘کو پہلی سیڑھی کے طور پر استعمال کیا۔تاکہ محمد حسین کی شخصیت اس سے ابھر کر ادب کی دنیا میں اہمیت کی حامل بن سکے۔جس کا اثر ہمیں اس کی اشاعت کے بعد دیکھنے کوملتا ہے۔

     تاریخی اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو ڈراما’’نظام سقہ‘‘سید امتیاز علی تاج کا ڈراما’’انار کلی‘‘کی طرح مغلیہ دور کی کچھ حد تک عکاسی کرتا ہے ۔کہا جاتا ہے کہ مغل شہنشاہ نصیرالدین ہمایوں نے شیر شاہ سوری کے ہاتھوں شکست کھا کر غزنی کی طرف بھاگا جب وہ خار کے مقام پر دریا پار کرنے لگا ۔دریا کے پانی کی تیز روانی کی وجہ سے جب وہ ڈوبنے لگا تو اچانک ایک شخص نے اُس کی جان بچالی تھی۔جس کانام’’نظام سقہ‘‘تھا بعد میں جب نصیر الدین ہمایوں دوبارہ تخت پر بیٹھا تو اُس نے اپنی جان بچانے کے صلہ میں ’’نظام سقہ‘‘کو اڑھائی پہر کی بادشاہت کا تاج پہنا دیا۔جس سے ایک معمولی شخص اڑھائی پہر کی زمین کا مالک بن گیا۔موضوع کے اعتبار سے یہ ڈراما آج بھی پوری سچائی اور شادابی سمیت زندہ ہے۔’’نظام سقہ‘‘اپنی شخصیت اور ذہانت کے بل بوتے پر نہ صرف اپنی اوقات کو یاد رکھتا ہے بلکہ وہی نظام دولت اور سروت ملنے کے بعد بھی نظر آتا ہے۔ایک انصاف پسند،بے ریااور اپنی اصل کو نہ بھولنے والا با اختیار واقتدار کا حامل شخص ان عارضی حکمرانوں کے سامنے ایک ایسا المیہ پیش کرتاہے جو اپنے آپ کو دنیا کا سب سے عظیم ترین شخص سمجھنے لگتاہے ان لوگوں کے بارے میںنظام ڈرامے میں کہتا ہے:۔

’’نظام۔اماں وجیری جی تم تو بالکل بے وقوف ہو۔اگر جو ڈھائی پہر کی بادشاہت مل گئی ہے ہمیں۔

 تو کیا ہم اپنی اصلیت کو بھول جائیں اور یہ بادساہی تو صرف ڈھائی پہر کی ہے ۔کہو پیارے ہے نا یہ بات۔

اور پھر ہمارے رستہ داروں کو برادری والوں کو کیے مالم ہوگا کہ اپنانجام سقہ بادسا بنا ہے۔اس سے تو جاہر ہوتا ہے کہ نجام نے اتنی ترقی کی ہے کہ سقہ سے بادساہ بن گیا۔‘‘    ۲؎

     ممتاز مفتی کا یہ ڈراما تین ایکٹ اور دومناظر پر مشتمل ہے۔پلاٹ کے لحاظ سے نہایت ،سادہ اور دلچسپ ڈراما ہے اس میں واقعات کی بھر مار نہیں بلکہ ایک ہی واقعہ کو مرکز بنا کر ڈرامے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے۔اسی واقعہ کے اندر چند چھوٹے چھوٹے واقعات بھی پیش کیے گئے ہیں جو اس ڈرامے کا لازمی جز بھی ہیں ۔ڈرامے میں’’نظام‘‘اور’’ہمایوں‘‘کے علاوہ چند نمایاں کردار بھی ہیں جن میں نصیبن،شمو،عشرت،دلاورخان اور خان چغتائی ہیں جبکہ ضمنی کرداروں میں زبیدہ،جانی بابا اور چودھری کے کردار اہم ہیںنظام اور خان چغتائی کی گفتگو ملا حظہ ہو:۔

نظام:۔کیا اس ملخ کے قانون میں منہ پر جھوٹ بولنے کی کوئی سزا نہیں۔

خان چغتائی:۔عالم پناہ حضور مالک ہیں جو سزا حضور چاہیں دین۔تعمیل کی جائے گی۔

نظام:۔اماں وجیر جی،کیا سارے وجیر ایک ہی سانچے میں ڈھلے ہوتے ہیں پیارے ہم پوچھ رہے ہیں قنون میں کیا لکھا ہے۔تم کہہ رئے ہو تم بادساہ ہو جو جی چاہے کرو۔اگر ہم کہیں اس کا سر کاٹ دیا جائے تو…

خان چغتائی:۔آپ شاہ عالم ہیں آپ کے فرمان کی تعمیل کرنا غلام کا فرض ہے۔

نظام:۔بس یہی کام ہے تمہارا جو بادساہ کہے وہی کرو۔بادساہ کہے سرکاٹ دو تو تم سرکاٹ دو گے۔ارے وجیری جی کچھ خدا کا کھوف کرو۔اماں ہماری پنچایت میں تو کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ جو چوہدری کہے وہ مان لیا جائے۔ارے میاں بندہ بسر ہوتا ہے دس بار سچ بولتا ہے تو ایک بار جھوٹ بھی بولنا پڑتا ہے آخر چمڑی کی زبان ہے لوہے کی نہیں۔

خان چغتائی:۔بجا ارشاد فرمایا ۔شاہ عالم ۔‘‘  ۳؎

     نظام کا بادشاہ بننااور انصاف کرنا جیسے واقعات اکثر اس ڈرامے میںدیکھنے کو ملتے ہیں ۔اس سے ایک بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ قانون چاہے کتنا بھی غلط کیوں نہ ہو لیکن اُس کے چلانے والے اگر صحیح سوچ رکھنے والے ہوں گے تو اُس کا رد عمل بھی صحیح نظر آئے گا اور اگر قانون کتنا بھی صحیح کیوں نہ ہو لیکن اُسے  اقتدار میں لانے والے منفی سوچ کے حامل ہوں گے تو وہ کبھی بھی صحیح نہیں ہوسکتا۔یہی بات ممتا زمفتی اس ڈرامے کے ذریعے سماج اور اس کے اندر رہنے والی عوام کو سمجھانا چاہتے ہیں۔ اس ڈرامے کا بڑا حسن اس کا اختصار ہے۔شمو اور عشرت کا جذباتی لگاؤ جو اس کے پلاٹ میں ایک طرح کا رومانوی عنصر کو شامل کرتا ہے۔ڈراما’’نظام سقہ‘‘میں جو دلچسپی کا عنصر پایا جاتا ہے وہ دراصل اس کے پلاٹ کا لازمی جز ہے۔اس کا کرادر’’ نظام‘‘جس کی زندگی میں صرف سوکھی روٹی،گھاس کا بستر،جھونپڑا نما مکان تھا اُسے اچانک بادشاہت جیسا عہدہ،ملکیت،اڑھائی پہر کی زمین،تخت شاہی جیسا رتبہ ملنا کچھ پل کے لیے ڈرامے میں مزاح پیدا کردیتا ہے۔اس ڈرامے میں پیش کے گئے مکالمے ممتاز مفتی کے فکری زاویوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ڈراما’’نظام سقہ‘‘کے مکالماتی ٹکڑے مصنف کے مخصوص انداز فکر کو نمایاں کرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔اگر چہ یہ جملے ان کے فکری ارتقاء کی اہم کڑی نہیں سمجھے جاتے تاہم اس کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے ضرور ذمہ دار قرار دیے جاسکتے ہیں۔ممتاز مفتی کی دیگر تحریروں میں بھی اسی طرح کا انداز دیکھنے کو ملتا ہے۔تکنیکی اعتبار سے ہم اسے ایک کرداری ڈراما بھی کہہ سکتے ہیں۔

     ڈراما’’نظام سقہ‘‘فضا اور ماحول کے اعتبار سے ایک تخلیقی نوعیت کے ڈراما کی حیثیت رکھتا ہے جس سے نظام کی شخصیت پر مختلف زاویوں سے روشنی پڑتی ہے حالانکہ ہمایوں کا کردار ڈرامے میں اہمیت کا حامل ہے اس کے باوجود نظام اس ڈرامے میں ایک منفرد کردار کی حیثیت سے سامنے آتا ہے۔اگرچہ ہمایوں کی شاہانہ تمکنت،وقار اور فہم وادراک ڈرامے میں کہیں بھی ماند پڑتادکھائی نہیں دیتا اس کے باوجود نظام کی شخصیت اس ڈرامے میں ایک اہم کردار کے روپ میں منظر عام پر آتی ہے۔’’نظام‘‘ایک پُر وقار،صاف گو اور مست قسم کا انسان ہے اُس کے دل میں احساس ،ہمدردی کا جذبہ اس قدر پنہاں ہے کہ وہ کسی پر بھی بے جا ظلم نہیں کرتا ۔اس نے قناعت کے مفہوم کو پالیا ہے جس کی وجہ سے خدا کے سوا اس کے اندر کسی کا بھی خوف نہیں اگرچہ اُس نے بادشاہت کا تاج اپنے سر پر سجا لیا ہے ۔ڈراما’’نظام سقہ‘‘میں ایک جگہ نصیبن اور نظام کی گفتگو کے چندجملے اس طرح بیان ہوئے ہیں جس میں نصیبن گاؤں کے مکھیہ سے پیسے وصولی کی بات کرتی ہے ملا حظہ ہو:۔

نصیبن:۔وہ گاؤں کا مکھیہ جو ہے اس نے کتنے مہنیوں سے پیسے نہیں دیے تو اس سے کہتا کیوں نہیں کہ پیسے دے۔

نظام:۔اری وہ تو آج ہی دے دے سارے پیسے۔

نصیبن:۔تو پھر کیا سوچ رہا ہے تو۔(نظام پھر درخت کی طرف آتا ہے)

نظام:۔ابے کیا سوچتا ہے میں نے مانگے ہی نہیں سوچتا ہوں کیا کہوں۔سرم آتی ہے۔نہیں تو قسم ایمان کی آج مانگوں تو آج ہی مل جائیں۔پر ضررت بھی ہوکوئی۔‘‘  ۴؎

     نظام کی سب سے بڑی خوبی اُس کی بے باکی اور دلیرانہ ہمت ہے جو اُس کو باقی کرداروں میں اہمیت کا حامل بناتی ہے۔نصیبن اگرچہ ایک جاندار کردار ہے لیکن زندگی کے متعلق اس کی سوچ اور فکر کے سبب نظام کی مرہون منت نہیں بلکہ وہ تو اپنی سوچ کی وجہ سے خود مختار ہے۔اگر وہ اپنی زبان کے زور پر نظام پر حاوی ہونے کی کوشش کرتی ہے تو نظام کی بے باکی،ہمت،جوش اور شخصیت کے آگے تاب نہیں لاسکتی۔اس میں ایک عورت نظر آتی ہے جو گھر اور پریوار کی دیکھ ریکھ میں ہی زندگی بسر کرنے کو اپنامقصدبنا لیتی ہے جو اپنی محبت ،لگاؤ صرف شوہر اور اولادکے لیے ہی مخصوص کر کے رکھ لیتی ہے۔

     گاؤں کی سادہ زندگی میں نظام کی شخصیت اور بھی نکھر کر سامنے آتی ہے ۔وہ اپنے ماحول سے اس قدر متاثر تھا کہ اڑھائی پہر کا علاقہ ملنے کے باوجود ایک عام سی زندگی بسر کرنے میں ہی اکتفا کرتا ہے ۔نہ اُسے اپنے عہدے کی فکر تھی اور نہ ہی اپنی پہچان اور مرتبے کی۔وہیں نصیبن کا کردار بھی اہمیت کا حامل ہے جبکہ شمسو کا کردارابتداء میں ہی انفرادیت کی ایک دو جھلکیاں دکھا کر ڈوب جاتا ہے ۔اس کے لہجے میں زندگی کی قربت کی خوشبو ہے۔دلاور خان اور خان چغتائی کی واحد اور نمایاں خوبی ان کی غیر مشروط وفاداری ہے جبکہ شاہی دربار میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ نظام کے دربار میں سب کو ایک ہی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔وہیں ان کرداروں کے مکالمے بھی اہمیت کے حامل ہیں۔دلاورخان اور خان چغتائی کے پر تکلف مکالمے ان کی حیثیت اور نفسیات کے غماز ہیںجبکہ نظام اور اس کے گرد وپیش کے لوگوں کے مکالمے ان کے سماجی پس منظر اور نفسیاتی پہلوؤں کا اظہار کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔نظام اور نصیبن کے مکالمے جن میں آنے والے واقعات کا اشارہ بھی بخوبی نظر آتا ہے یہ مکالمے ملاحظہ ہوں:۔

نصیبن:۔تو کیا کہا جو تسی نے؟

نظام:۔بس اس نے جد ہمارا ہاتھ دیکھا تو قسم قرآن کی پانچوں انگلیاں میں منہ لے کے رہ گیا۔یوں خاموس ہوگیا جیسے جبان نہ ہومنہ میں۔

نصیبن:۔پر کہتا کیا تھا یہ بھی تو پھوٹ؟

نظام:۔(ہاتھ دیکھتے ہوئے)کہتا تھا اللہ کی قسم ہاتھ میں بادساہی کا ستارہ ہے۔

نصیبن:۔چل اب بڑی ہولی بادساہی۔اب کھول لے آنکھیں اور اٹھا اپنی مسک۔‘‘ ۵؎

اب نظام،شمو اور نصیبن کے مکالمے ملاحظہ ہوں:۔

نظام:۔اے میں نے کہا۔عالم ہوتا ہے تجھے ہوا لگ رئی ہے جمانے کی۔

شمسو:۔ہوا تو آج چل ری نہیں رئی ابا۔کیے لگے گی؟

نظام:۔ابے یہ ہوا نہیں منڈوں کی وہ ہوا جس میں تو اڑنے کی کوسس کرریا ہے۔

شمسو:۔مجھے تو مالوم نہیں ابا۔کون سی ہوائی بات کررتے ہو۔

نظام:۔اے کیوں متا بڑے ہانک ریا ہے ۔سن تو۔سنا ہے تونے اپنے سینگ نکال لیے ہیں آج کل گر ہو ریا ہے وس لونڈیا پر کیا نام ہے وس کا؟

نصیبن:۔اے وہی چودھری کی لمڈیا۔عسرت۔

نظام:۔کیوں بے ابھی سے پڑگیا عسرت میں۔

شمسو:۔عسرت نہ جی،گریب آدمی کو عسرت سے کیا کام ۔میں تو مجدور ہوں۔سارا دن گڑیاں بناتا ہوں۔مجھ گریب کو عسرت سے کیا واسطہ۔‘‘ ۶؎

     اس ڈرامے کے مکالمے نہ صرف کرداروں کی شخصیات اور اُن کی نفسیات کو اُجاگر کرتے ہیں بلکہ اُن کے عہد کی سیاسی وسماجی حالات پر بھی نظر ثانی کرتے ہیں۔شیر شاہ سوری اور ہمایوں کے درمیان ہونے والی جنگ سے نہ صرف عوام کی زندگیوں پر اثر پڑا بلکہ برصغیر کی ہر چیز متاثر ہوئی ۔اس جنگ سے یہاں کی سیاسی،سماجی،اقتصادی اور معاشرتی حالات پر بھی اثرات نمودار ہوئے۔جنگ کے دوران ہمایوں اور اُس کے درباریوں کے درمیان ہونے والی گفتگو کے چند مکالمے ملا حظہ ہوں جو خان چغتائی،دلاور خان اور ہمایوں کے درمیان ہوئے:۔

ہمایوں:خان چغتائی ہمیں یہاں لانے سے تمہارا مقصد کیا ہے؟

خان چغتائی:خداوند نعمت(سرجھکا لیتا ہے)

ہمایوں:کیا تم بھی ہمیں دھوکہ دینا چاہتے ہو۔خان چغتائی؟

خان چغتائی:ظلِ الہٰی۔

ہمایوں:کیا دنیا کی تمام طاقتیں ہمارے خلاف اٹھ کھڑی ہونے پر تُل گئی ہیں ۔دلی اور آگرہ میں ہماری غیر حاضری کا ناجائز فائدہ اٹھا کر کامران اورہذال نے علم بغاوت بلند کررکھا ہے۔شیر شاہ سوری کی تازہ فوجوں نے ہماری تھکی ہاری فوج کو زچ کررکھا ہے کمک ملنے کی اُمید باقی نہیں رہی۔سواری اور باربرداری کے جانور مرچکے ہیں۔سپاہیوں میں وبا پھیل چکی ہے۔

دلاور خان:لیکن ظلِ الہٰی اب تو شیر شاہ سوری نے صلح کی پیش کش کو منظو کرلیا ہے۔اب تو اللہ کے فجل وکرم سے ہماری مشکلات ختم ہوجائیں گی۔

ہمایوں:اس صلح کی بات نہ کر دلاور خان۔یہ صلح نہیں بلکہ پیشانی پر ایک بد نما دھبہ ہوگا ۔اس صلح سے مغلیہ وقار کو صدمہ پہنچے گا۔

خان چغتائی:ظلِ الہٰی۔ان نا مساعد حالات میں صلح کی بات چیت کرنے کے سوا چارہ نہ تھا۔

ہمایوں:حالات۔کیا ہم ہمیشہ ہی حالات کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے رہیں گے۔

دلاور خان:ظلِ الہٰی۔حالات کبھی ایک سے نہیں رہتے۔انشاء اللہ وہ دن دور نہیں جب حضور دلی کے تخت پر جلوہ افروز ہوں گے۔

خان چغتائی:خدا وند۔اللہ کے فض وکرم سے مایوس ہونا مغلوں کا شیوہ نہیں۔‘‘۷؎

ڈراما’’نظام سقہ‘‘کی کردار نگاری کے متعلق مسعود قریشی لکھتے ہیں:۔

     ’’نظام سقہ کردار نگاری کا شاہکار ہے اس کے کردار میں حقیقی زندگی سے قریب انسان کی اچھائی ہے بے باکی ہے اور Directness ہے۔گاؤں میں اور دربار میں اس کاانداز ایک ہی ہے ۔اس کا کردار گاؤں میں وہاں کے کرداروں سے ہم آہنگ ہے ۔دربار میں اس کا کردار چاپلوس درباریوں سے متضاد اور ان سے متصادم ہے۔اس پس منظر میں وہ زیادہ ابھرتا ہے۔درباری تکلفات اور مصنوعی ادب اورآداب پر اس کے طنز میں زبردست کاٹ ہے۔دربار میں تصنع کے ماحول میں’’نظام سقہ‘‘سچی سادہ انسانیت کی علامت بن جاتا ہے۔‘‘     ۸؎

     اس ڈرامے کی ایک اور خوبی اس کا حقیقت پسند انہ ماحول ہے۔اس حقیقت پسندانہ ماحول سے  ممتا زمفتی اس قدر محو نظر آتے ہیںکہ ڈرامے کے سکرپٹ سے پہلے ہدایات کے عنوان سے ایک الگ باب رقم کیا ہے جس میں مناظر،روشنی،ایکشن،آمدورفت،اسٹیج کے سین اور گیت وغیرہ کے الگ الگ عنوانات قائم کرکے ان تفصیلات کو ایک ہی جگہ یکجا کیا گیا ہے۔جس سے ڈرامائی تقاضوں کی پوری تفصیل ہمارے ذہن میں ایک دم نقش ہوجاتی ہے۔اگرچہ ڈرامے میں گیت اور رقص بھی شامل کیے گئے ہیں لیکن گیت اور ناچ کھیل ڈرامے کے بنیادی جز نہیںہوتے ۔اس لیے انھوں نے گیتوں کا استعمال بہت کم کیا ہے۔اس طرح یہ ڈراما ممتاز مفتی کی زندگی اور اُن کی شخصیت کو زندہ رکھنے کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔

                                            ٭٭٭٭٭٭

حواشی:

(۱)            اے۔بی اشرف  آغا حشر اور ان کا فن  ۱۹۶۸ئ؁   ص۱۶

(۲)           ممتازمفتی    نظام سقہ  ۲۰۱۲ئ؁   ص۸۵

(۳)           ممتاز مفتی    نظام سقہ  ۲۰۱۲ئ؁   ص۸۶۔۸۷

(۴)           ممتاز مفتی   نظام سقہ  ۲۰۱۲ئ؁  ص۳۲

(۵)           ممتاز مفتی نظام سقہ  ۲۰۱۲ئ؁  ص۳۳

(۶)           ممتاز مفتی نظام سقہ  ۲۰۱۲ئ؁  ص۳۵۔۳۶

(۷)           ممتاز مفتی نظام سقہ  ۲۰۱۲ئ؁  ص۵۸۔۵۹

(۸)     مسعود قریشی  کچھ نظام سقہ کے بارے میں       ۲۰۱۲ئ؁ ص۹

                                            ٭٭٭٭٭٭٭

                                                     Email:mukhtar.poonch80@gmail.com

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.