بہادر شاہ ظفر کی شاعری: ایک مطالعہ

انیسویں صدی سیاسی اور معاشرتی سطح پر انتشار اور ابتری کی صدی تھی مگر تخلیقی اعتبار سے یہ زمانہ خاصا تابناک رہا ہے۔ غالب ہند اسلامی تخلیقی روایت کی عظمت کے سب سے بڑے ترجمان تھے۔ اسی لیے اس عہد کو عہد غالب سے موسوم کیا جاتا ہے۔ بہ قول صلاح الدین محمود ’’اردو کی بہترین نثر اور بہترین نظم دونوں کی تخلیق کا اعزاز غالب ہی کے حصے میں آیا۔‘‘ غالب کے معاصرین میں حکیم مومن خاں مومن، شیخ ابراہیم ذوق، شیفتہ اور بہادر شاہ ظفر کی تخلیقی استعداد بھی غیرمعمولی تھی اور خود غالب بھی ان کے ادبی کمالات کے معترف تھے۔ تاہم ان میں سے کسی کو بھی ہم غالب کا ہمسر نہیں کہہ سکتے۔

بہادر شاہ ظفر کی شاعری اپنا ایک مخصوص جمالیاتی ذائقہ اور اپنی الگ شناخت رکھتی ہے۔ اُس عہد کے تناظر میں ان کی شاعری نسبتاً زیادہ توجہ طلب کہی جاسکتی ہے۔ ظفر کی شاعری چونکہ اس عہد کے دیگر شعراء کے مقابلے میں اپنے عہد کے مسائل سے زیادہ قریب تھی۔ اس لیے ظفر کی شاعری پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیں ان عوامل کو بھی نظر میں رکھنا ہوگا جن سے وہ پورا عہد اور خود بہادر شاہ ظفر کی زندگی متاثر ہوئی۔ ظفر جس سیاسی انحطاط اور باطنی آشوب سے دوچارہ تھے، اس کی تصویر ان کی شاعری میں بہت نمایاں ہے،مغلیہ سلطنت کا زوال انگریزوں کا روز افزوں اقتدار، شاہی خاندان کی بے بسی ظفر کے لیے بہت بڑا المیہ تھی۔ ظفر کے یہاں اپنے عہد کے سیاسی خلفشار اور سماجی صورتِ حال کا بیان معروضی یا سپاٹ اندازمیں نہیں ملتا۔ ان ووقعات کی جڑیں ان کی روح میں پیوست تھیں۔ ایک طرف اجتماعی اور انفرادی مسائل کا بوجھ تھا دوسری طرف ان کی طبیعت کے خاص میلان نے ان کی شاعری میں مایوسی اور حزن کی ایک خاص کیفیت پیدا کردی تھی۔ ظفرکی شاعری ان کی زندگی کی دستاویز بھی ہے۔ افسردگی کے اسباب ان کے خارجی حالات میں تلاش کیے جاسکتے ہیں۔ ان کی شاعری سے ایک ایسا کردار ابھرتا ہے جس کی ہر سانس  میں درد و غم کی لہریں چھپی ہوئی ہیں۔ ظفر کی شاعری کا یہ کردار ان کی ابتدائی شاعری میں بھی اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔یہ کردار حسرت و ناکامی کا علامیہ ہے۔ اس کے حوالے سے ظفر اپنی روداد بیان کرتے ہیں۔ غدر کے واقعات تو دل دوز تھے ہی لیکن ظفر کی شاعری میں اس دردانگیز قصے کی شروعات شاعری کے آغاز میں ہی ہوچلی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے ظفر ان حالات کے پیدا ہونے سے پہلے اس ذہنی ماحول میں گھر چکے تھے جو 1857 کے ساتھ مرتب ہوا۔ بقول خلیل الرحمن اعظمی:

’’کہنے کو تو ظفر نے اپنی زندگی کے آخری ایام رنگون کے بلاخانے میں گزارے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کی پوری زندگی ایک طرح کی روحانی کشمکش اور ذہنی جلاوطنی میں گزری ایک مسلسل کچوکے دینے والا عذاب اور ہڈیوں کو پگھلا دینے والا غم اس کی شاعری کا صل محرک ہے۔‘‘ (نوائے ظفر، ص 19)

مثال کے طور پر دیوانِ اول میں ایسے اشعار بہ کثرت موجود ہیں جن میں انھوں نے اپنے آشوب اور اذیت کا اظہار کیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ شعر نہیں ظفر کے باطنی منظرنامے کے اوراق ہیں جن پر اداسی کے تمام رنگ بکھرے ہوئے ہیں۔ چند اشعار ملاحظ کیجیے:

شمع جلتی ہے پر اس طرح کہاں جلتی ہے

ہڈی ہڈی مری اے سوزِ نہاں جلتی ہے

اڑ کے جاسکتا نہیں تا سر دیوار چمن

دام صیاد سے چھوٹا بھی تو میں کیا چھوٹا

گئی نہ مر کے بھی میرے نصیب کی گردش

کہ سنگ قبر مرا سنگ آسیا ٹھہرا

پھرے ہے پارۂ دل دیدۂ پرآب میں یوں

جلا کے چھوڑ دے جیسے کوئی بھنور میں چراغ

سوزشِ دل کو ہیں کیا خاک بجھاتے میری

مجھ کو رسوائے جہاں دیدۂ تر کرتے رہے

یہ اشعار ظفر کی ولی عہدی کے زمانے کے ہیں۔ ان کی اس کیفیت کے خارجی اسباب بھی تھے۔ بادشاہت کا زمانہ تو مختلف مسائل سے بھرا ہوا تھا ہی ولی عہدی کا زمانہ بھی شدید ذہنی اور روحانی کشمکش میں گزرا۔ ظفر ولی عہد تھے مگر انھیں اس سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ اکبر شاہ ثانی ظفر کو اپنا جانشین بنانے پر رضامند نہ تھے۔ ان حالات کا جائزہ لیتے ہوئے نیاز فتحپوری نے لکھا ہے:

’’ولی عہدی کا زمانہ بھی ظفر کا خلش و بے چینی میں بسر ہوا کیونکہ اکبر شاہ ممتاز محل کے بیٹے مرزا جہانگیر کو ولی عہد بنانا چاہتے تھے اور ان سے ناخوش رہتے تھے۔ ہر چندبعد کوحکومت برطانیہ نے قطعی فیصلہ بہادر شاہ ظفر کے حق میں کردیا لیکن باپ کے جیتے جی ان کو کوئی آرام و سکون نصیب نہ ہوا۔‘‘                                                  (نگار، ص 4، جنوری 1930)

اور پھر جب تختِ شاہی پر جلوہ افروز ہونے کی سعادت نصیب ہوئی تو بقول نیاز فتح پوری ’’جی کھول کر گناہ کرنا کیسا طاعت و بندگی کے اسباب بھی فراہم نہ ہوسکے۔‘ (نگار، ص 4، جنوری 1930) ایک بادشاہ کی مجبوری اور بے بسی کایہ عالم تھاکہ مرزا غالب کی گرفتاری کا واقعہ پیش آنے پر ان کی رہائی کے لیے سفارش بھی ٹھکرا دی گئی۔ سنجیدگی سے دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ اس انقلاب کا سب سے زیادہ شکار بہادر شاہ ظفر ہوئے۔ ظفر کی شاعری میں صیاد و قفس، زنجیر و زنداں، بلبلِ تصویر وغیرہ کاا ستعمال انھیں حالات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ زنجیر و زنداں اور طوق و سلاسل کا تذکرہ سرسری نہیں ہے اس حوالے سے ہم ظفر کی ذہنی اور جذباتی کشمکش کے اسباب کا سراغ لگا سکتے ہیں۔ ظفر نے ان استعاروں کو نئی تخلیقی قوت اور معنوی گہرائی عطا کی ہے۔ یہ استعارے ظفر کے ذہنی کرب اوراضطراب کے اظہار کا بہترین ذریعہ بنے ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ کیجیے:

پائے کوباں کوئی زنداں میں نیا ہے مجنوں

آتی آوازِ سلاسل کبھی ایسی تو نہ تھی

میں وہ مجنوں ہوں کہ زنداں میں نگہبانوں کو

میری زنجیر کی جھنکار نے سونے نہ دیا

برپا نہ کیوں ہو خانۂ زنداں میں زور غل

میرے جنوں سے اب تو سلاسل پہ بن گئی

ظفر کس طرح کوئے یار میں جاؤں کہ پاؤں میں

مرے ہر ایک موج اشک نے زنجیر ڈالی ہے

ظفر کی بے بسی اور افسردگی کا خوبصورت اظہار بلبلِ تصویر کے اس استعارے سے ہوتا ہے جسے انھوں نے اپنے ایک معروف شعر میں استعمال کیا ہے۔ شعر یہ ہے:

اے صبا ہوں بلبلِ تصویر مجھ کو کیا غرض

کب بہار آئے ہے گلشن میں خزاں کب جائے ہے

جیسا کہ پہلے عرض کیاجاچکا ہے ظفر کی شاعری میں ذاتی غم بہت نمایاں ہے۔ وہ جس غم میں مبتلا تھے اس کی نوعیت اس عہد کے اجتماعی غم سے مختلف تھی چنانچہ ظفر کے تجربات میںا نفرادیت کا در آنا فطری تھا۔ ظفر کے تجربات اپنے شخصی آہنگ اور اپنی شدت تاثیر کے باوجود اجتماعی انسانی صورتِ حال کا احاطہ بہت کم کرتے ہیں۔ ظفر اپنی ذات کے حصار سے باہر نہ نکل سکے۔ وہ اپنے احساسات ا ور جذبات کے اظہار پر پوری قدرت تو رکھتے تھے لیکن وہ اپنے آپ سے فاصلہ نہیں پیدا کرسکے خود اپنا تماشائی نہیں بن سکے۔ اپنی فکر کو ویسی وسعت اور ہمہ گیری عطا نہ کرسکے جو غالب یا میر کے یہاں نظرآتی ہے۔

ظفر کی شاعری کا دوسرا اہم حصہ حسن و عشق کے موضوعات پر مبنی ہے۔ ظفر نے غزل کی مستحکم روایت کو نہایت سلیقے اور فنکاری کے ساتھ برتا ہے۔ ان کی عشقیہ شاعری میں تغزل کی چاشنی موجود ہے۔ غزلیہ شاعری کے جملہ اوصاف اور عناصر ان کی شاعری میںنمایاں ہیں۔ ان کی شاعری میں محبوب کے پیکر اورعشق کی مختلف کیفیات کا اظہار بڑی مہارت کے ساتھ کیا گیا ہے۔ ہجر کی تڑپ اور وصال کی لذت اور محبوب کے عشوۂ ناز کا بیان بہت دلکش ہے۔ ظفر اپنے شعروں میں جو تجربات بیان کرتے ہیں اسے پہلے اپنے جذبہ و احساس میں تحلیل کرتے ہیں اس لیے ہر تجربہ ان کا ذاتی تجربہ بن کر ہمارے سامنے آتا ہے۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ شاعر خیال آرائی نہیں کررہا ہے بلکہ اپنے تجربات قلم بند کررہا ہے۔ چند اشعار دیکھیے:

اٹھ گیا میری زباں پر سے جہاں کی لذت

جو مزہ عشق میں پایا مرا جی جانتا ہے

یوں تو پروانہ بھی جل جائے ہے پر مشکل ہے

عشق میں میری طرح سوختہ جاں ہوجانا

کہیںا یسا نہ ہو کھل جائے دل کا راز محفل میں

ہماری آنکھ پھر اس رونقِ محفل سے ملتی ہے

لے گیا چھین کے کون آج ترا صبر و قرار

بے قراری تجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی

کردیا اک نگاہ میں جادو

چشم کافر ہے کیا خدا جانے

ان اشعار کے حوالے سے حسن و عشق کی مختلف کیفیات کے بیان میں ظفر کی قدرت بیان کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ ساتھ ہی ان اشعار سے ان کی عشقیہ شاعری کے مجموعی مزاج کا بھی پتہ چلتا ہے۔ یوں توظفر کے کلام میں مختلف رنگ کے موضوعات شامل ہیں۔ مثلاً حسن و عشق، تصوف، اخلاقی قدریں، سیاسی معاملات اور قصے لیکن ان کا بنیادی سروکار اپنی غم آلود زندگی سے ہے۔ اس نوع کے کلام میں تاثیریت بہت ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کے کلام کے اسی رنگ پر ان کی انفرادیت کا انحصار ہے۔

ظفر نے مشکل زمینوں میں بھی شاعری کی اور مرصع سازی کا کام بھی انجام دیا جواس عہد میں شاعر کے قادرالکلام ہونے کا عام پیمانہ تھا مگر ظفر کی انفرادیت مشکل زمینوں کی شاعری میںنہیں بلکہ واردات قلب کو آسان اور سیدھے سادے طور پر پیش کردینے میں ہے۔ ان کی شاعری کا سچا رنگ اسی وقت کھلتا ہے جب وہ اپنی ذہنی اور جذباتی کیفیت کو سادگی کے ساتھ شعری پیکر عطا کرتے ہیں۔

ظفر غزل کے علاوہ اگرچہ مخمس، مسدس، قصائد، سہرا، دوہے، ٹھمری، گیت، قطعات وغیرہ کو بھی اپنا وسیلہ اظہار بنایا لیکن ان کی اصل شناخت غزل گو کی ہے۔ البتہ ظفر کی شاعری کے مجموعی مزاج کو سمجھتے وقت ان کی دوسری تخلیقات کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔ تخلیقات کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ظفر کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اس سے ایک طرف انھیں مختلف النوع موضوعات کی پیش کش کے لیے وسیع میدان میسر آیاتو دوسری طرف ان کے حوالے سے ظفر کو اپنی تہذیب اور معاشرت اور ہندوستانی مزاج کی عکاسی کرنے کا موقع بھی ملا۔ ظفر نے عوامی  زبان کی شاعری میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہے۔ زبان و بیان کے اعتبار سے ظفر کو اس میدان میں بھی کامیاب کہا جاسکتا ہے۔ مرزا غالب بلاشبہ اس عہد کے سب سے بڑے شاعر تھے ان کے مرتبے کو ان کے معاصرین کیا بعدمیں بھی کوئی نہ پہنچ سکا لیکن اس حقیقت کے باوجود اس عہد میں معاصرین غالب کا ادبی مرتبہ ایسا نہیں جسے نظراندازکیا جاسکے۔ خاص طور پر ذوق، مومن، ظفر ہماری روایت کے اہم معمار کہے جاسکتے ہیں اور ان تمام شعراء میں ظفر کی شاعری کا رنگ، اسلوب اور زبان و بیان کے لحاظ سے جداگانہ ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ظفر جو ایک بادشاہ بھی تھے مگر ان کی شاعری میں اپنے تمام ہم عصرشعراء سے زیادہ المناکیاں موجود ہیں۔ انسانی شعور میں غم و الم کارفرمائی سے شعری اپج بڑھ جاتی ہے اور ایسی شاعری اپنی پہچان بھی الگ بنا لیتی ہے ظفر اس حقیقت سے اچھی طرح باخبر تھے۔

………….

Leave a Reply

2 Comments on "بہادر شاہ ظفر کی شاعری: ایک مطالعہ"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] بہادر شاہ ظفر کی شاعری: ایک مطالعہ […]

trackback

[…] بہادر شاہ ظفر کی شاعری: ایک مطالعہ […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.