میواتی شاعری میں  تصوف

کگّا سب تن کھائیو، میرو چُن چُن کھائیو ماس

دو نینا مت کھائیو، موئے تو پیا مِلن کی آس

     تصوف کسی مذہب کا نام نہیں ہے ، تصوف نام ہے ایک خاص فلسفہ کا، ایک خاص رویے کااور ایک خاص فکر ونظر کا۔ تصوف بعض مقامات پر مذہب سے اختلاف بھی رکھتا ہے اور یہ اختلاف تصورِ خدا سے شروع ہوتا ہے۔اہل مذاہب کے مطابق خدا دنیا و مافیہا سے ماوراء ہے۔ وہ اس دنیا کا مالک بھی ہے اور اس کا خالق بھی ہے مگر وہ اس دنیا سے علیحدہ ہے۔ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ۔ ساری دنیا پر اس کا اختیار اور تصرف ہے لیکن اس کے باجود اس سے اس کائنات کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اذا اراد شیئا ان یکون لہ کن فیکون۔ وہ اپنے ارادے اور مرضی کا خود مالک ہے۔ لیکن صوفیوں کے مطابق خدااس کائنات سے الگ نہیں ہے بلکہ وہ کائنات کے اندر موجود ہے اور اس کی ذات اس کائنات کے ہر ہر ذرے میں  سمائی ہوئی ہے۔

      تصوف کیا ہے اورصوفی کس کو کہتے ہیں  اس کے بارے میں  مختلف اقوال اور آراء ہیں  ۔ ہم مختصرا صرف اتنا کہہ سکتے ہیں  کہ تصوف علم و عمل اور مستقل مجاہدہ نفس کا نام ہے۔اسلام مذہب میں  تصوف تقریبا دوسری صدی عیسوی میں  اس وقت سے موجود ہے جب لوگ عیش و عشرت میں  غرق ہونے لگے تھے اور انہوں نے دین سے روگردانی شروع کی تھی توا س کے رد عمل کے طور پر ایک ایسی جماعت سامنے آئی جو دنیاوی عیش وعشرت اور لذتوں کی زندگی گزارنے سے کوسوں دور تھی۔ ظاہر ہے کہ تصوف کی بنیاد خالص زہد وتقوی پر تھی۔ اس لیے اس میں  شروع میں  فسق و فجور کا کہیں کوئی ذکر نہیں ملتا لیکن چوتھی صدی کے آتے آتے اس میں  غیر اسلامی عوامل بھی داخل ہونے لگے اور یونانی ، ہندومت اور عیسائیت و نصاری کے فلاسفہ نے اُس تصوف کورواج دیا جو آج تک مروّج ہے۔تصوف جن افکار پر مشتمل ہے ان میں  وحدۃ الوجود ، وحد ۃ الشہود اور حلول بنیادی ہیں ۔

     وحدۃ الوجود:

     اس کا مفہوم یہ ہے کہ اس کائنات کی ہر چیز اور ہر ذرے میں  خد ا کی ذات موجو دہے ۔ انسان عبادت و ریاضت کے ذریعے اس مقام تک پہنچ جاتا ہے کہ اس کو ہر چیز میں  خدا نظر آنے لگتاہے۔ اس نظریے کے حاملین ہر چیز کو خدا کی ذات کا حصہ خیا ل کرتے ہیں  اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں  کہ ان تمام چیزوں میں  اللہ کی ذات موجود ہے۔

     وحدۃ الشہود:

     اس کا مطلب ہے کہ خدا کی ہستی الگ ہے اوراس کائنات کی ہر چیز خدا کی ہستی کا پرتو ہے۔ جب انسان اس مرحلے پر آتا ہے تو روحانی ترقی کرتے کرتے اس کی ہستی خدا کی ہستی میں  گم ہو جاتی ہے۔

     حلول:

     تصوف کا تیسرا مقام حلول ہے۔ اس مقام پر آنے کے بعد انسان اپنے آپ کواس طرح متقی اور پرہیزگار کر لیتاہے کہ اس کا دل بالکل صاف ستھرا اور پاک صاف ہوجاتا ہے ۔ جس کے نتیجے میں خدا کی ذات اس کے جسم میں حلول کر جاتی ہے۔

     شمالی ہندوستان میں  واقع علاقہ میوات تاریخی، تہذیبی اور ثقافتی طور پر اپنی ایک انفرادی شناخت رکھتا ہے۔ دہلی کے جوار میں  ہونے کی وجہ سے اس کی اہمیت اوربھی زیادہ رہی ہے کیونکہ دہلی تک پہنچے والے تمام آندھی طوفان پہلے اس علاقے سے ٹکراتے تھے۔ اس علاقے کے لوگ ہمیشہ سے بڑے بہادر،دلیر، جفاکش اور جنگجو رہے ہیں جنہوں نے کسی کی ماتحتی کو کبھی بھی قبول نہیں کیا ۔ مسلم حملہ آورہوں یا اپنے ملک کے غیر مسلم حکمراں ، انہوں نے اپنی آزادی کی خاطر سب سے لوہا لیا ہے تاریخ جس کی شہادت دیتی ہے۔ جس کی وجہ سے یہ علاقہ سب کی نگاہوں کا مرکز رہا اورحکمرانوں کی راہ میں  دیوار بن کر حائل رہا جس کے نتیجے میں  اس کو بارہا عتاب کا نشانہ بنایاگیا۔ میوات بارہا اجڑاہے اور بسا ہے لیکن یہاں کے باشندوں کے عزائم میں کوئی لچک پیدا نہیں ہوئی۔

     یہاں پر اسلام آ چکا تھا لیکن پہلی بار اس علاقے میں  جب خواجہ معین الدین اجمیری ؒ آئے تو یہاں اسلام کی روشنی بڑے پیمانے پر آئی۔ میوات کے زیادہ تر لوگوں نے خواجہ معین الدین اجمیریؒ کے دست مبارک پر اسلام قبول کیا ۔ خواجہ صاحب نے اسلام کی باضابطہ تبلیغ کے لیے علاقہ میوات کا انتخاب کیا ۔ یہاں کے لوگوں کو بھی خواجہ صاحب سے بہت گہری عقیدت تھی جو آج تک برقرار ہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ پہلی بار میوات میں  اسلام کی روشنی ایک صوفی بزرگ نے پھیلائی۔ خواجہ صاحب کے علاوہ اس علاقے میں  بہت سے صوفیاو سنت ہوئے ہیں  جنہوں نے اس علاقے پر اپنے اثرات مرتب کیے اور یہ اثرات اس علاقے کے باشندوں کی روز مرہ کی زندگی پربھی پوری طرح مرتب ہو گئے۔ ان صوفیاو سنتوں میں مسعود سالار غازی، مدار صاحب،حضرت سید میراں بھیک،شیخ موسیٰ، میاں مراد شاہ،شاہ چوکھا، میاں راج شاہ سوندھی، سائیں گلاب شاہ صاحب، مولانا عبداللہ شاہ، غازی الدین حیدر سہنہ، صاحبزادی نوازبی، سنت چرن داس، سنت لال داس،چوہڑ سدھ، سہجو بائی اور دیابائی وغیرہ اہم اہم نام ہیں ۔

     شاعری اور تصوف کا رشتہ بہت پرانا ہے ۔ تقریبا تمام زبانوں میں  یہ سرمایہ کسی نہ کسی حد تک موجود ہے۔تصوف کا یہی رنگ میوات کے شعرا کے یہاں بھی نمایاں طور پردیکھنے کو ملتاہے۔میوات کے شعرا میں  اسلام اور ہندومت دونوں مذاہب کے ماننے والے لوگ تھے اس لیے تصوف اور بھکتی دونوں کی افکار ان کی شاعری میں  ملتی ہیں ۔ میواتی شعراء  وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود دونوں کے ماننے والے ہیں لیکن زیادہ تر شعرا وحدۃ الوجود کے قائل ہیں ۔

     میواتی شعرا کے یہاں تصوف کی تقریبا ہر بحث موجود ہے۔ پیدائش سے لے کرموت تک کے واقعات کا بصیرت افروز بیان موجود ہے۔ ان شعرا کے کلا م کو پڑھنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ مانو یہ کسی شاعرکا نہیں بلکہ بہت بڑے بزرگ اور صوفی کا کلام ہے۔خصوصا بھیک جی کا تو تقریبا تمام کلا م صرف تصوف ہی کا کلام ہے۔ ان تمام شعرا کے کلام میں  اللہ سے قرب، عبادات، ارکان اسلام کی پابندی،دینی احکام کی پیروی، رسول اکرم ﷺ کی اطاعت، موت،قیامت، آخرت، حساب کتاب ، اللہ کا سامنا ہونا،جنت وجہنم کا ذکر بہت نمایاں ہے۔ ایک جگہ دنیا کی بے ثباتی کواس طرح بیان کیا گیا ہے:

ارجن جودھا نہ رہے ، بلّو رہے نہ بھیم

پڑی رہیں گی بھیکؔ جی ، گڑھ کوٹن کی نیم

     (اس دنیا میں ارجُن اور بھیم جیسے بڑے بڑے طاقتور ، بہادر اور جنگجو لوگ باقی نہیں رہے جن کے نام سے پورا زمانہ کانپتا تھا جس کی گواہ مہابھارت کی لڑائی ہے ۔ ان کے چلے جانے کے بعد آج صرف ان کے عمارتوں کے کھنڈرات باقی ہیں  جو لوگوں کے لیے ایک عبرت کا ساماں ہیں ۔)

     اللہ تعالی نے انسان کو دنیا میں  اس لیے بھیجا ہے تاکہ وہ اس کی عبادت کرے اور اس کی احکام کی تعمیل کرے تاکہ اللہ رب العالمین اس کے بدلے میں  اس کو جنت الفردوس عطا فرمائے۔ انسان کی پیدائش کا مقصد ہی اللہ کی عبادت وبندگی ہے جس کی طرف اس آیت کریمہ میں اشارہ ہے ’’ وما خلقت الجن والانس اِلّا لیعبدون‘‘۔ لیکن انسان دنیا میں  آنے کے بعد اپنے رب کو بھی بھول گیا ہے اور اس رب کے احکام کو بھی۔ اس مضمون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے:

پی نے بھیجی بِنج کو ، گئی گیل میں  بھول

کہا لیر ملوں وا پیو سو، موپے بیاج رہو نہ مول

     (روح کف افسوس مل کر کہتی ہے کہ مجھے میرے محبوب یعنی اللہ تعالی نے نیک اعمال کا تحفہ لانے کے لیے بھیجا تھا مگر میں  اس دنیا کی رعنائیوں ، رنگینیوں اور دلفریبیوں میں  ایسی کھوئی کہ اپنی تخلیق کے مقاصد کو ہی بھول گئی۔مجھے واپس محبوب کے پاس جانا ہے اسے کیا لے جا کے دوں گی جبکہ میر پاس نہ اصل زر(تقدیس) اور نہ ہی سود (نیک اعمال) بلکہ میں نے تو اپنی پاکیزگی بھی دنیا میں  مغلّظ کر لی۔ )

     صوفیا حضرات وصال الہی کے شوق میں  بہت زیادہ مجاہدے کرتے ہیں ۔ شب و روز عبادت و ریاضت میں مشغول رہتے ہیں اور خداکی بندگی میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ کم سونا کم کھانا اور کم بولنا ان کی عادت ہوتی ہے۔وہ اپنی نیند کو دور کرنے کے لیے طرح طرح کے مجاہدے کرتے ہیں ۔ مندرجہ ذیل میں اسی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:

کر سولن کو سا نترو کنکر لیا بچھائے

نندر ا بیرن بھیک ؔجی پھربھی آن ستائے

     (میں نے کانٹوں اور کنکروں کا بستر کیا تاکہ مجھے نیند نہ آئے اور زیادہ وقت یاد الٰہی میں  صرف کر سکوں لیکن یہ نیند ہے کہ کم بخت پھر بھی آجاتی ہے اور عبادت میں  خلل ڈال دیتی ہے۔)

     موت ہر ذی روح کو آئے گی۔ اس گتھّی کو سلجھاتے ہوئے بھیک جی نے کتنا خوبصور دوہا کہا ہے ۔ ہم کہہ سکتے ہیں  کہ ان کا یہ دوہا قرآنی آیت ’’ کل نفس ذائقتہ الموت‘‘ کی مکمل تفسیر وتشریح ہے۔ دوہا ملاحظہ ہو:

آیو ہے سو جائے گو ، باقی رہو نہ کوئے

جتنا جنگل روکھ ہاں ، ایندھن سب کو ہوئے۔

     (اس دنیا میں  جس نے بھی جنم لیا ہے اس کو ایک نہ ایک دن ضرور جانا ہے۔ اس دنیا میں  کوئی باقی نہیں  رہے گا۔ انسان وحیوان تو چھوڑیے اس دنیا میں  جتنے بھی جنگل اوردرخت ہیں  ایک دن وہ سب بھی خاکستر ہو جائیں گے۔)

     دنیا ایک عارضی اور فنا ہونے والی شئے ہے ۔ ذیل میں  دنیا کی بے وقعتی کواس طرح بیان کیا گیا ہے کہ اس کی حیثیت حباب سے زیادہ نہیں ہے:

دھولا مندر دھک دھکااینٹ لگی چو پھیر

بنتے بنتے جگ بھیا ، ڈھتے لگی نہ دیر۔

     اسی بات کو بھیک جی نے اس طرح پیش کیا ہے:

بھیک پیت کو چھوڑ دے ، دھر لے رب سے دھیان

مٹی میں  مل جاں  گا یہ سار ا محل مکان۔

(دنیا کا خیال چھوڑ کر اللہ سے دل لگا لو۔ ایک دن ایسا آئے گا جب سارے مکان و محل فنا ہوجائیں گے کیونکہ یہ دنیا ناپائیدار ہے۔)ایک دیگر شعر میں  یہ مضمون اس طرح ہے:

بندہ توبہ سب کرو راکھو پیداگر سو دھیان

ایک دن ایسو آئے گو بھیکؔ جی زمین رہین اسمان

     (اے غا فل انسان گناہوں سے توبہ کراور اپنے خالق سے لو لگا۔ ایک دن ایسا آئے گا جب نہ زمین رہے گی اور نہ آسمان رہے گا۔) اس لیے ضروری ہے کہ جو زندگی ہمیں ملی ہوئی ہے اس کو غنیمت سمجھ کر اللہ کی عبادت میں  اسے صرف کیا جائے کیونکہ اس بات کا کسی کو بھی علم نہیں ہے کہ ہماری سانس جو ابھی چل رہی ہے وہ نہ جانے کب بند ہو جائے۔ اس مضمون کو اس طرح بیان کیا گیا ہے:

سانس سانس پہ رب رٹو ، خالی گیونہ کوئے

نہ جانوں یو سانس بھیک ؔجی پھر کد آنو ہوئے۔

   (ہر سانس میں  خداکی یاد ضروری ہے اور موجودہ صورت میں یہ سانس غنیمت ہے۔ خدا جانے یہ سانس لینا پھر نصیب ہو کہ نہ ہو۔ )

     جب روح جسد خاکی سے پرواز کر جاتی ہے تو پھر یہ جسم مٹی کا صرف ایک ڈھیر بن کے رہ جاتا ہے ۔ اس کو اس طرح بیان کیا ہے:

گھوڑو کھوٹو ٹھان سو ، کِس پہ کروں پکار

دس دروازہ رک گیا جب یاکو نکل گیو اسوار۔

     عیوضؔنامی شاعر نے روح اور جسم کے رشتے کو اس طرح بیان کیا ہے کہ جسم ایک شیشے کی مانند ہے جس میں  ایک بیش قیمتی رقم رکھی ہوئی ہے اور یہ رقم اس کی روح ہے ۔ شیشہ صفائی کی نشانی ہوتی ہے اس لیے روح کے لیے اس کا استعمال کیا۔ دو دوہوں کے اندر سوال وجواب کی شکل میں  اس کا ذکر اس طرح کیا ہے:

عیوضؔ کایا کانچ کی ، جا میں  رقم دھری

کھڑارہا پہرایتی ، ای چوری کسے کری؟

     (عیوضؔ ! کانچ کے جسم میں ایک رقم رکھی ہوئی تھی جس کے چاروں طرف پہرے دار اور محافظ کھڑے ہوئے تھے لیکن پھر بھی وہ رقم کیسے چوری ہو گئی۔)پھر اس کا جوا ب خود ہی دیتے ہیں  کہ اس میں  پریشان ہونے کی کیا بات ہے جس کی رقم تھی یعنی جس کا وہ مال تھا اس کا مالک اس کو لے گیا:

رقم پرائی کیں دھری؟ دیتے چھاٹاں بان

مالک اپنے مال کو لیگو آپ پچھان۔

     جسم اور رو ح کو رشتے کو بیان کرتے ہوئے بھیک جی مثال دیتے ہیں  کہ جسم ایک بندوق کی مانند ہے جو بہت سارے پیچوں سے مل کر بنتی ہے اور روح اس میں  گولی کا درجہ رکھتی ہے ۔ جس طرح گولی چل جانے کے بعد بغیر گولی کے خالی بندوق کی کوئی وقعت و اہمیت نہیں رہ جاتی بالکل اسی طرح روح کے پرواز کر جانے کے بعد انسانی جسم کی کوئی وقعت نہیں رہتی۔ دوہا ملاحظہ ہو:

کایا نقل بندوق ہے پیچن سو جوڑی

 نال پڑی رہ جائے گی جب یاکی نکل جائے گی گولی۔

     موت کے بعد انسان سے ملاقات بالکل محال ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بھیک جی کہتے ہیں :

پتّو ٹوٹو ڈال سو، لے گی پَون اُڑائے

اب کا بِچھٹا کد ملاں بھیکؔ جی دور پڑنگا جائے۔

     (جس طرح ٹوٹے ہوئے پتّے کو ہوا کہیں سے کہیں پہنچا دیتی ہے اسی طرح موت کے بعد نہ جانے انسان کہاں جائیں گے اور ان سے ملنا محال ہوگا۔ دنیا کی موت و حیات کا یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے۔)

     سہجو بائی میواتی زبان کی ایک شاعرہ ہے جو گرو چرن داس کی شاگرد تھی اور اپنی عبادت و ریاضت کی وجہ سے اس مرتبہ کو پہنچی کہ چرن داس کے تقریبا ۵۲ شاگردوں میں  ان کو سب سے اعلیٰ مقام حاصل ہوا اورسنت چرن داس کی موت کے بعد ان کی جانشین بنی ۔ دہلی میں  سہجو بائی کی گدّی آج بھی موجود ہے۔ یہ نرگن واد میں  یقین رکھتی ہیں  ۔ ان کے دوہوں میں  اس کا بھرپور ذکر ہے۔جب سہجو بائی تک بھیک جی کا یہ دوہا پہنچا:

پی پیار ا کا دیس کی بڑی کٹھن ہے گیل

کوئی کوئی سادھو چڑھ گیو بھیک ؔجی سُلجا سُلجا گیل۔

     (محبوب (خدا)کے دیس کی راہ بڑی مشکل ہے۔ وہاں تک پہنچنے میں  بڑی دشواریاں ہیں  لیکن اس کے باوجود کوئی کوئی سادھو وہاں تک پہنچ گیاجس نے ان مشکلات کو برداشت کیا۔)

     تو سہجو نے ان سے پی کے دیس کا راستہ نہیں پوچھابلکہ ان سے دریافت کیا کہ پی تو اس کے سامنے ہے مگر ملاقات کا کوئی طریقہ سمجھ میں  نہیں آ رہا ہے کہ وہ اپنے پیتم سے کیسے ملے۔ انہوں نے بھیک جی کو کہلا بھیجا:

ندی کنارے میں کھڑی اور پانی جھِل مِل ہوئے

میں  میلی پیا اوجلو، سہجو ؔکِس بدھ مِلنو ہوئے۔

     بھیک جی سہجو بائی کا طنز سمجھ گئے کہ وہ یہ کہنا چاہتی ہے کہ تم تو ابھی راستے کی کٹھنائیوں میں  ہی گھرے ہوئے ہومگر میں  تو پی کو سامنے پاکر بھی اپنے اندر ملنے کی ہمت اور جرأت نہیں جُٹا پا رہی ہوں ۔ بھیک جی نے ان کی اس مشکل کو حل کرتے ہوئے جواب بھیجا:

پچ منیا ہوئے پانچ لڑ، تِلڑی تیس کی ہوئے

چوالیسا اے ساد لے، نوں تیرو پی سو مِلنو ہوئے۔

     میواتی شعراکی اکثریت وحدۃ الوجود کی قائل ہے۔ مندرجہ ذیل دوہے میں  دیکھیے کس طرح سے وحدۃ الوجود کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے:

ہم جاناں   رب دور ہے رب ہے دل کے مائیں

ہردے ٹاٹی کپٹ کی بھیکؔ جی جاسو دیکھے نائیں ۔

     (ہم تو رب کو اپنے سے دور سمجھتے ہیں  جبکہ اصلا وہ ہمارے دلوں میں  جا گزیں ہے لیکن ہمارے دل صاف نہیں ہیں  اس لیے ہم اس کو دیکھ نہیں سکتے)۔ اسی مضمون کا ایک اور بہت ہی عمدہ شعردیکھیے:

تن رباب ، من کینگری، رگیں بھئی سب تار

رونگ رونگ سُر دیت ہے، باجت نام تہار

     (بدن رباب، دل کنگ اور رگیں ان (رباب اور کنگ : یہ دو نوں ساز ہیں ) کے تار ہیں ۔ میرے جسم کے رواں رواں سے صرف تمہارے نام کی آواز آ رہی ہے۔ )

     اللہ کی ذات انسان سے اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں  ارشاد فرمایا ہے ’’ نحن اقرب اِلیہ من حبل الورید‘‘ ۔ اسی مضمون کا ایک شعر پیش ہے:

دور کہوں تو دور ہے اور پاس کہوں تو پاس

رونگ رونگ میں رم رہوجوں پھولن میں  باس

     خدا سے محبت کرنے اور اس کواپنے دل میں بسانے کے لیے دل کی پاکیزگی اور صفائی بے حد ضروری ہے ۔ صوفیا کرام اس امر پر بہت زور دیتے ہیں  ۔ وہ کہتے ہیں  کہ خدا تبھی مل سکتا ہے جب معرفت حاصل ہوجائے اور معرفت اسی وقت حاصل ہو سکتی ہے جب آپ کا باطن پاکیزہ ہو :

بھَیک منڈائے کیا ہو ا کر لی گھوٹم گھوٹ

من پاپی گھوٹو نہیں بھیکؔ جی جا میں  سارو کھوٹ

     (سر کے بال کٹاکر صفا چٹ کرلینے سے کچھ نہیں ہوتاہے۔ صفائی اور تزکیہ کرنا ہے تو دل کا کرو جو ساری مصیبتوں اوربرائیوں کی جڑ ہے۔ )

     تصوف میں  ریاکاری پر شدید چوٹ کی جاتی ہے۔ میواتی شاعری میں  بھی ریاکاری پر چوٹ کی گئی ہے:

چند ا دیکھون چالتو کدی بڑھتی دیکھین بیل

سادھو دیکھان سمرتا بھیکؔ جی یہ قدرت کا کھیل

     (چاند جو سرعت رفتار کے ساتھ چلتا رہتا ہے ہمیں دکھائی نہیں دیتا۔ اسی طرح نباتات کی بیلیں جو حقیقت میں  بڑھتی رہتی ہیں  لیکن ہمیں یہ بڑھتی ہوئی بیلیں نظر نہیں آتیں جو ہماری ظاہربین نظروں کی کمی ہے۔اسی طرح درویش بھی اللہ کی خوب عبادت کرتے ہیں  لیکن وہ ہمیں نظر نہیں آتے۔)

من مندر ، تن محل ہے، ہُیو صفا سرائے

جھاڑ پونچھ کر پچ مری بھیکؔ جی پیا بسو نہ آئے ۔

     یعنی تن اورمن دونوں کی صفائی ضروری ہے تبھی معشوق حقیقی آ پ کے دل میں  گھر کر سکتا ہے۔ اگر آپ نے کسی اور کی محبت اپنے دل میں  بسا لی تو پھر یہ محبوب آپ کے دل میں  نہیں سما سکتا ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید کہتے ہیں :

جو پیا کو محل ہے اُو تینے کری سرائے

ہیں  اَوَن گَوَن کائی اور کی جا سو پیا بسو ہے نائے۔

     زندگی اور موت کی کشمکش کو میواتی شاعری میں  عمدہ پیرائے میں  پیش کیا گیا ہے۔ کھکے اور مہتا دونوں ہم عصر شعراء تھے۔ کھکے نے موت کے حوالے سے اور انسان کے داعی اجل کو لبیک کہنے کے بارے میں  ایک دوہا کہا جو بہت مشہور ہے:

کھکےؔ من پکے کرو، مت کرو من بھاری

یائی رستے جائے گی خلق اللہ ساری۔

     (اے کھکے! تم اپنے دل کو مضبوط رکھو اور کسی کی موت کی وجہ سے دل میں  کوئی ملال نہ کرو کیونکہ ساری مخلوق کو اسی راستے سے ہو کر گزرنا ہے یعنی سب کو ایک نہ ایک دن مرنا ہے)

     یہ دوہا جب مہتا نے سنا تو اس نے اس کا جواب اس طرح سے دیا :

وا کھکےؔ بے وقوف سو، نوں کہیو سمجھائے

آگے رستہ دو چھٹاں ، مہتا گیل کونسی جائے۔

     (اس کھکے بے وقوف سے پوچھو کہ آگے ایک راستہ نہیں ہے بلکہ دو راستے ہیں ۔ ان دو راستوں میں  کس کا انتخاب کرنا ہے)۔مہتا کا یہ دوہا جب کھکے تک پہنچا تو اس نے پھر اس کے جواب میں  کہا:

 ہوں سو رستو ایک ہے، ہیں  سو رستہ دوئے

جنت تو واکو ملے، جا کے کرم میں  لکھی ہوئے۔

     (دو راستے یہاں سے ہیں  وہاں سے تو ایک ہی راستہ ہے اور رہی بات جنت کی تو جنت اس کو ملے گی جس کے کرم یعنی اعمال اچھے ہوں گے)

     میواتی شاعری میں  تصوف اور لوازمات تصوف کا ذکر بہت ہی زیادہ ہے۔ میواتی شعرا نے شریعت کو اپنی شاعری کا بنیادی جز بنایا اور عبادات، ریاضات، احکام خداوندی کو شاعری کے پیکر میں  ڈھال کر عوام کے سامنے پیش کر دیا ۔ جس کا خاطر خواہ فائدہ بھی ہوا۔ عوام کو شاعری سے بہت زیادہ دلچسپی تھی جس کی وجہ سے انہوں نے ان نکات میں  بھی غور وفکر کرنا شروع کی اور بہت سے احکام کی پابندی شروع کر دی۔چوپالوں اور بیٹھکوں پر ایک ساتھ بیٹھ کر گفتگو کا رواج میوات میں  زمانہ قدیم سے ہی رہا ہے جو آج بھی جاری ہے۔ یہاں بیٹھ کر جب لوگ آپس میں  بات چیت کرتے ہیں  تو شاعری کا استعمال خوب ہوتا ہے۔ عوام کی ایک بڑی تعداد کو یہ شاعری حفظ ہو گئی ہے۔ یہ لوگ موقع بہ موقع ضرب الامثال کے طورپر اپنی بات میں  دم پیدا کرنے کے لیے اس شاعری کا سہارا لیتے ہیں ۔شاعری کے اس استعمال سے جہاں ایک طرف میواتی زبان کے فروغ میں  اضافہ ہوا وہیں دوسری طرف تصوفانہ خیالات اور صوفیا کی تعلیمات بھی عام ہوتی رہیں ۔ ان تعلیمات نے سماج میں  بہت سے نا پسندیدہ رسوم و رواجات کو ختم کر دیا۔

     میواتی شاعری میں  ایسے بہت سے اشعار ہیں  جن میں  تصوف کی جھلک صاف دیکھی جا سکتی ہے۔ ان سب کا ذکر طوالت کے سبب یہاں نہیں کیا جا سکتا اس لیے ذیل میں  صرف چند اشعار کے ذکر کرنے پر ہی اکتفا کیا جارہا ہے:

رام رام رٹتے رہو جب تک بسے پران

کدی تو دین دیال کے تُلسیؔ بھنک پڑے گی کان

     (رام رام کی رٹ لگاتے رہو جب تک جسم میں  جان باقی ہے۔ رام رام کی مالا جپنے سے کبھی نہ کبھی تو تمہاری بات سنی جائے گی)

پی ڈھونڈن تو میں چلی کر کے بیراگن کو بھیس

چار کونٹ ڈھونڈت پھری میرو پیو نہیں یا دیس

     (میں اپنے محبوب کو ڈھونڈنے کے لیے بیراگن کا بھیس بنا کر چلی اور میں نے چہار جانب اس کو تلاش کیا لیکن مجھے کہیں بھی میرا محبوب نہیں ملا تب میری سمجھ میں  کہ میرا محبوب اس دیس میں  نہیں ہے۔)

چلنو ہے رہنو نہیں ، چلنو پی کے پاس

گذر ہوئے گی ساسرے پیہر تھوڑے دن کو پاس

     (مجھے یہاں نہیں رہنا، مجھے اپنے محبوب کے پاس جانا ہے۔ زندگی کا اصل گزارہ تو سسرال میں  ہوگا ۔ مائیکے میں  کچھ دن ہی ٹھہرا جاتا ہے۔یہ دنیاوی اور اخروی زندگی کی طرف اشارہ ہے۔)

راجوؔ دنیا باؤلی، پتھر پوجن جائے

چاکھی کینا پوجے ، جا سو روز پیس کے کھائے

     (راجو !یہ دنیاوالے پاگل ہیں  جو پتھر کو پوجتے ہیں  ۔ اگر انہیں پتھر ہی پوجنا ہے تو چکّی کو کیوں نہیں پوجتے جس سے یہ روز آٹا پیس کرکھا تے ہیں  اور اس آٹے کے دم پر اپنی زندگی گزارتے ہیں ۔)

پیت پیت تو سب کراں ، پیت جگت میں  دوئے

ایک پیت تو پیو سو، دوجی ہر سو ہوئے۔

     (دنیا میں سب محبت محبت چلاتے ہیں  اور محبت کا دم بھرے پھرتے ہیں  ۔ان کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا میں  محبت صرف دو ہی ہوتی ہیں  ۔ ایک تو خاوند سے اور دوسری خدا سے۔ )

چترائی چولہے پڑی، عقل گئی سب ڈوب

جے بے عقلی سو ہر ملے، او بے عقلی ہے خوب۔

     (ساری چالاکی بیکار ہے اور ساری عقل ڈوبی ہوئی ہے اگر ان سے خدا نہیں ملتا لیکن اگر بے عقلی سے خدا مل جائے تو وہ بے عقلی ہر قسم کی چالاکی اور عقلمندی سے لاکھ درجہ بہترہے۔)

مندر میں  کنجر تپاں ، بن میں تپاں ہاں ڈھور

جا تپنا سو ہر ملے بھیکؔ جی او تپنو ہے اور۔

     (مندروں میں  ریاکارکمینے اور جنگلوں میں ظاہر دار وحشی لوگ عابد بنے بیٹھے ہیں  لیکن ا ے بھیک جی جس عبادت سے خدا ملتا ہے وہ اور ہی طریقہ ہے)

پیہر سو کچھ پیو کو لیتی چل سوغات

کہا جواب دیے گی وا پیو کو تیرا خالی دونوں ہاتھ

     (تم سسرال جا رہی ہو تو یہاں اپنے مائیکے سے اپنے محبوب کے لیے کچھ سوغات لیتی چلو کیونکہ اگر خالی ہاتھ جاؤگی تو اس کو کیا جواب دوگی۔ مراد ہے کہ دنیا ایک مائیکے کی طرح ہے جہاں صرف چند دن ہی رہنا ہے ۔اس میں روح کو خطاب کیا گیا ہے کہ اپنے محبوب یعنی اللہ کے لیے کچھ سوغات (نیک اعمال) لے کرچل کیونکہ اگر خالی ہاتھ چلی جائے گی تو پھر حساب کتاب کے روز اللہ کو کیا جواب دے گی اور وہاں تیری نجات کیسے ہوگی۔ )

     موضوع کے اعتبار سے میواتی شاعری تصوف کے تقریبا تمام پہلؤوں کا احاطہ کرتی ہے۔اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں  کہ میواتی شاعری میں تصوف کا رنگ بہت نمایاں ہے اور اس زببان میں  ایسی شاعری کاایک بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔یہ ایک ایسی شاعری ہے جس کو کسی بھی زبان کے سامنے بڑے فخر سے پیش کیا جاسکتا ہے۔

٭٭٭

عزیز سہسولہ

ریسرچ اسکالر ۔جے این یو نئی دہلی

روم نمبر ۱۰۹ ، پیریار ہاسٹل جے این یو ۔ نئی دہلی ۱۱۰۰۶۷

9868565081

azizsahsola@gmail.com

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.