“انیسویں  صدی کی مشترکہ تہذیب اور مثنوی “لخت جگر

خان محمد رضوان

ریسرچ اسکالر، شعبۂ اردو، دہلی یونی ورسٹی، دہلی

مثنوی اصنافِ سخن میں  بہت مقبول اور کار آمد تسلیم کی جاتی ہے۔ اس کے  موضوعات، زبان اور طرِز بیان سب سے  جدا ہیں۔  اردوادب کی تاریخ کا مطالعہ کرنے  کے  بعد اندازہ ہوتا ہے  کہ ہر دور کے  شعرا نے  اس صنف میں  طبع آزمائی کی ہے  بلکہ دکن کے  زیادہ تر شعرا کی امتیازی شناخت تو ان کی مثنویوں  کی وجہ سے  ہی ہے۔ ان میں  نظامی بیدری کی ’’کدم راؤ پدم راؤ‘‘ اور سراج اور رنگ آبادی کی ’’بوستان ِخیال‘‘ ملا وجہی کی’’قطب مشتری‘‘ غواصی کی ’’طوطی نامہ،  سیف الملوک وبدیع الجمال‘‘ مقیمی کی ’’چندر بدن اور مہیار‘‘ نصرتی کی ’’علی نامہ‘‘ نشاطی کی ’’پھول بن اور ہاشمی کی ’’یوسف زلیخا‘‘ ایسی مثنویاں  ہیں  جن کی وجہ سے  ان مثنوی نگاروں  کے  نام اردو تاریخ میں  زریں  حروف سے  لکھے  جاتے  ہیں۔  اسی طرح شمالی ہند میں  افضل کی ’’بکٹ کہانی‘‘ ایسی مثنوی ہے  جس کے  ذریعے  شمال میں  مثنوی کی تاریخ کی ابتدا ہوتی ہے۔ پھر فائز،  حاتم اور آبرو اس کے  بعد سودا،  میر اور میر حسن نے  مثنوی کی تاریخ کو نئی جہت عطا کی۔ اس کے  بعد اٹھارہویں  اور انیسویں  صدی میں  مصحفی،  انشاء،  جرأت،  اثر،  رنگین،  مومن،  رسوا،  مرزا شوق،  داغ،  شبلی نعمانی،  حالی،  محمد حسین آزاد،  دیا شنکر نسیم،  واجد علی شاہ،  غالب،  مومن،  بے  صبر،  ذوق اور امیر مینائی وغیرہ کے  نام قابل ذکر ہیں۔  مذکورہ شعرا نے  صنف ِمثنوی کو مشق سخن کا حصہ بنا کر نہ صرف اس فن کو فروغ دیا بلکہ اس کو زندہ رکھنے  میں  بھی اہم کردار ادا کیا۔ مثنوی ایک ایسی صنف ہے  جس میں  کسی تاریخی واقعے  یا قصے  کو موثر یا پر کشش طرز ِ بیان میں  تخلیق کیا جاتا ہے۔ دوسری اصناف کے  مقابلے  مثنوی میں  اظہار کی بہت وسعت اور گنجائش ہوتی ہے۔ مثنویوں  کے  ذریعہ ہم اپنے  عہد کی سیاسی،  سماجی،  معاشی اور تمدنی تاریخ تیار کرسکتے  ہیں۔  ہم قدما کی مثنویوں  میں  عہد ِرفتہ کی سچی اور روشن تہذیب کا عکس دیکھ سکتے  ہیں۔  شمالی ہند کی مثنویاں  اٹھارہویں  اور انیسویں  صدی کی لکھنوی اور دہلوی تہذیب کا آئینہ ہیں۔  اور ان میں  ایک عہد کی حقیقی تاریخ درج ہے۔ اس طور پر ہماری مثنویاں  تاریخی شواہد اور حقائق کی باز یافت میں  حد درجہ معاون رہی ہیں۔  اگر ہم یہ کہیں  کہ صنف ِ مثنوی میں  ہر عہد کا فیکٹ فائنڈنگ ہے  تو بے  جا نہ ہوگا۔ یہ ایک طرح سے  داستانی یا منظوم تہذیبی تاریخ ہے۔ اس کا یہ امتیاز ہے  کہ وہ تمام صنف ِ سخن میں  سب سے  دلچسپ اور مفید صنف ہے۔ کیوں  کہ مثنوی کا حقیقی یا غیر حقیقی بیان اس عہد کی تہذیبی تاریخ کی جھلکیاں  پیش کرتا ہے۔ مثنوی کی مختلف النوع خصوصیات نیز اس کی ہمہ گیریت کے  پیش ِنظر علامہ شبلی نعمانیؒ لکھتے  ہیں :

’’ انواع شاعری میں  یہ صنف تمام انواع شاعری کی بہ نسبت زیادہ وسیع،  زیادہ ہمہ گیر ہے۔ شاعری کے  جس قدر انواع ہیں  سب اس میں  نہایت خوبی سے  ادا ہوسکتے  ہیں۔  جذبات انسانی،  مناظر قدرت،  واقعہ نگاری،  تخیل ان تمام چیزوں  کے  لیے  مثنوی سے  زیادہ کوئی میدان ہاتھ نہیں  آسکتا۔ مثنوی میں  اکثر کوئی تاریخی واقعہ یا جس قدر پہلو ہیں  سب اس میں  آجاتے  ہیں۔ ‘‘

یہ درست ہے  کہ جب شاعر کسی بھی عہد کی معاشرتی،  سیاسی،  سماجی اور معاشی صورتِ حال کو یا کسی بھی قصے،  کہانی اور واقعہ کو نظم کر کے  پیش کرے  اور کردار کی رنگارنگی،  زبان دانی،  نفاست ِزبان و بیان،  فنی خصوصیات اور صنفی معیار کا خیال رکھتے  ہوئے  اس نظم کو اپنے  عہد کا آئینہ بنا دے  تو اسے  کام یاب ترین مثنوی نگاروں  میں  شمار کیا جائے  گا۔  مگر کیا کسی بھی مثنوی کے  لیے  ان تمام مذکورہ صفات سے  متصف ہوناضروری ہے ؟ اگر ان میں  سے  کچھ صفات نہ ہوں  تو کیا وہ مثنوی نہیں  ہوگی؟ جہاں  تک اعلیٰ اور ادنیٰ کی بات ہے  تو فی زمانہ ایک خاص عینک سے  دیکھ کر ہم کسی بھی تخلیق پر اعلیٰ اور ادنیٰ کی مہر لگا دیتے  ہیں  جو کہ سراسر نا انصافی ہے۔ میں  سمجھتا ہوں  کہ اردو میں  بڑی تعداد ایسی مثنویوں  کی ہے  جو صفات کلیہ سے  متصف نہیں  ہیں  باوجود اس کے  وہ کسی نہ کسی اعتبار سے  ہمارے  اردو سرمائے  میں  گراں  قدر اضافہ ہیں  اور اعتبار کا درجہ رکھتی ہیں۔  جیسے  مرزا شوق لکھنوی کی مثنویاں  دبستان لکھنؤ کے  ادبی ذخیرے  کا قابل قدر حصہ ہیں۔  جب کہ کہانی کے  اعتبار سے  ان کی مثنویاں  (فریب عشق،  بہار عشق،  زہر عشق) تقریباًایک ہی طرح کے  احوال پرمبنی ہیں۔  لیکن موضوع کی یکسانیت کے  باوجود زبان بے  حد نفیس اور لطیف ہے۔ ساتھ ہی ان میں  لکھنؤی تہذیب کی خوبصورت عکاسی بھی کی گئی ہے۔

اس طور پر ان مثنویوں  کی زمانی اہمیت اور قدروقیمت سے  انکار نہیں  کیاجاسکتاہے۔یہاں  نطورِمثال بال مکند بے  صبر کو پیش کیا جاسکتا ہے۔ وہ قادرالکلام اورپرگو مثنوی نگارتھے۔ ان کے  یہاں  وسعت ِ بیان بھی ہے  اور قدرت زبان بھی،  مگر کمیوں  کے  تعلق سے  یہ کہا جاتا ہے  کہ وہ غالب کے  شاگرد تو ضرور تھے  مگر ان کے  یہاں  بلند خیالی کی کمی ہے۔ قصہ بیان کرنے  کے  دوران جس رواں  دواں  اسلوب کی ضرورت ہوتی ہے  وہ بھی کم سے  کم ہے۔سلاست ِزبان اور پرکشش زباکی بھی کمی محسوس ہوتی ہے۔ اس ضمن میں  عبدالماجد دریابادی کا یہ اقتباس بہت ہی اہمیت کا حامل ہے  :

’’محاورات پر یہ عبور،  روز مرہ پر یہ قدرت،  بیان کی یہ سلاست کیا ہر شاعر کے  نصیب میں  ہوتی ہے ؟‘‘

درجہ بالا اقتباس سے  یہ واضح ہوتا ہے  کہ اگر کسی تخلیق میں  تمام خامیوں  کے  باوجود خوبیاں  کم بھی ہیں  جس کی بنیاد پر وہ تخلیق،  تخلیق کے  زمرے  میں  آرہی ہو تو اسے  لائق اعتنا اور قابل قبول تصور کر لینا چاہیے۔

اسی طرح بے  صبر کی ’’مثنوی لخت ِ جگر ‘‘ بعض خامیوں  کے  باوجوداپنی اہمیت رکھتی ہے۔یہی وجہ ہے  کہ اکثر شعرا اور ناقدین نے  بھی اس کی اہمیت کو مانا ہے۔ اور اس کی زمانی اہمیت کوبھی تسلیم کیا ہے۔ میں  سمجھتا ہوں  کہ اس مثنوی کے  زندہ رہنے  اور اسے  یاد رکھنے  کے  لیے  اتنا ہی کافی ہے۔

’’مثنوی لخت ِ جگر‘‘ بے  صبرؔ کی واحداور یادگار تخلیق ہے۔ وہ ۱۸۱۰ء میں  پیدا ہوئے  اور ۱۸۸۵ء میں  ان کی وفات ہو ئی۔ وہ بدیع البدائع،  نام سے  رسالہ نکالتے  تھے۔ ان کے  بیٹے  برہماؔ سروپ نے  اس رسالہ کے  آغاز میں  سوانح عمری مصنف کے  عنوان سے  ان کی ولادت،  وفات اور تعلیم وغیرہ کے  متعلق یہ عبارت لکھی ہے۔

’’جناب منشی بال مکند صاحب بے  صبرؔ،  ساکن سکندر آباد ضلع بلند شہر،  ۱۸۱۰ء میں  بمقام سکندرآباد پیدا ہوئے  اور پچہتر برس کی عمر میں ۱۳؍ فروری ۱۸۸۵ء شیوراتری کو بمقام میرٹھ رحلت فرمائی۔ سولہ برس کی عمر میں  فارسی،  عربی میں  لیاقت کامل حاصل کی اور علوم ریاضی ونجوم وہیئت،  منطق اور ویدانت،  صوفیہ مت میں  بھی دستکاہ بہم پہنچائی۔ بوجہ موزونیت طبیعت خداداد اور بہ صحبت مرزا منشی ہر گوپال تفتہ،  کہ ماموں  بہ جناب موصوف کے  تھے۔ شوق شعر و سخن دامن گیر ہوا۔ آخر کو زانوے  ادب بہ خدمت نواب اسداﷲ خاں  صاحب مرزا نوشہ غالبؔ دہلوی کے  تہ کیا۔‘‘

لیکن خود بے  صبرؔ جو ’بدیع البدائع‘ میں  اپنا سال ولادت لکھا ہے  وہ برہما سوروپ کے  لکھے  ہوئے  سال ولادت سے  مختلف ہے۔

مرا سالِ ولادت ہندوی میں

جو کوئی صورت و معنی میں  پاوے

تو کردے  قافیے  کو دور،  تا ہاتھ

ہزا ر ہشت صد شست ونہ آوے

جب کہ مالک رام نے ’’ تلامذۂ غالب‘‘ میں  اور کالی داس گپتا رضاؔ نے  ’’غالب کا ایک مشاق شاگرد: بالمکند بے  صبرؔ میں  ۱۸۶۹ء بکرمی کو ۱۳۔۱۸۱۲ء کے  مطابق لکھا ہے،  اور تقویم کے  مطابق یہ درست بھی ہے۔ اب یہ سوال اٹھتاہے  کہ آیا برہماؔ سے  لکھنے  میں  چوک ہوئی یا کاتب سے  سہو ہوا۔ ویسے  بے  صبرؔ کی تاریخ ولادت اور وفات کو مختلف محققین نے  اپنے  اپنے  طور پر درج کیا ہے۔

یہ مثنوی ۱۸۳۷ء میں  لکھی گئی تھی۔ اس کا پہلاایڈیشن ۱۸۷۱ء میں  سہارنپور کے  مطبع خورشید جہاں  تاب نے  شائع کیا تھا،  اس کے  بعد سے  یہ مثنوی نایاب ہے۔ بے  صبرؔ کا تعلق کائستھ برادری سے  تھا۔ وہ یوپی کے  ضلع بلندشہر کی تحصیل سکندرآباد میں  پیدا ہوئے  جوایک زمانہ میں  علم و ادب کا گہوارا تھا۔کہا جاتا ہے  کہ اس تحصیل کو ۱۴۹۸ء میں  سکندرلودھی نے  آباد کیا تھااور اس کا ذکر ’’اجے  چند نامہ‘‘اجے  چند بھٹناگر (۱۵۵۲ء) نے  میں  ہوا ہے۔اور وہ خود ساکن سکندرآباد تھا۔

خود بال مکند بے  صبرؔنے  مثنوی میں  کئی جگہوں  پر صراحت کے  ساتھ اس کتاب کی تصنیف،  سال اشاعت،  سال ولادت،  اپنا نام،  تخلص اور دیگر چیزوں  کے  متعلق بتایا ہے۔ یہ احوال ان کی مثنوی کے  آغاز کے  طورب پر شامل کتاب ہے۔

(۱۲۵۳ھ)

’’لخت جگر‘‘ اس نے  نام پایا

نام وسنہ اختتام پایا

فکر سنہ عیسوی جو آیا

’’بالغ خرد‘‘ اسکا سال پایا

(۱۸۳۷ء)

کہا جاتا ہے  کہ بے  صبرؔ نے  اصلاح کی غرض سے  جب اسے  مرزا غالب کے  پاس پیش کیا تو غالب نے  اس پر نظر ِثانی کی اور تمام کمیاں  اورخامیوں  سے  اسے  پاک کیا۔ بے  صبرؔ نے  غالب کی اس اصلاح کا بھی ذکر کیا ہے۔

غالب کی نگاہ سے  گزر کر

بے  عیب یہ ہوگئی سراسر

تصنیف کا سال تھا ’’جگرلخت‘‘

ترمیم کا سنہ ’’زہے  میرا بخت‘‘

اسی طرح بے  صبرؔ نے  مثنوی میں  اپنے  نام،  تخلص،  اپنی برادری اور اپنے  وطن کے  بارے  میں  ’’بیانِ حال دل بے  تاب و سبب تصنیف کتاب‘‘ کے  عنوان سے  بھی کئی اشعار کہے  ہیں  وہ لکھتے  ہیں

ہے  بال مکندنام رنجور

بے  صبرؔ تخلص اپنا مشہور

کایتھ ہوں  قوم کا میں  ناشاد

ہے  میرا وطن سکندرآباد

بے  صبر اپنے  ماموں  ہرگوپال تفتہ کے  توسط سے  مرزا غالب کے  شاگردہوئے  تھے  ن۔ انھیں  نی صرف غالب کی شاگردی پر فخر بلکہ یہ غرور بھی تھا کہ وہ غالب کے  بلاواسطہ نہیں  بلکہ بل واسطہ ہرگوپال تفتہ کے  معرفت سے  شاگر دہیں  جس کا انھوں  نے  اپنی شاعری میں  اعتراف بھی کیا ہے۔ اور رسالہ ’’بدیع البدائع‘‘ میں  غالب کے  تلمذ کا ذکر کیا ہے، اقتباس ملاحظ کریں۔

’’ بندۂ نیاز مند بال مکند،  المتخلص بہ بے  صبرؔ،  قوم کا یستھ،  رہنے  والا قصبہ سکندرآباد علاقہ ضلع بلندشہر کا عرض کرتا ہے  کہ بعد تحصیل علم درسی ورسمی کے  مجھ کو شوق،  انشا پردازی اور سخن طرازی کا دامن گیر ہوا اور زانوے  تلمذ خدمت حضرت استاذی مولانا مرزا اسد اﷲ خاں  صاحب غالب دہلوی تہہ کر کے  مدتوں  خون جگر کھایا۔‘‘

بے  صبرؔ نے  ’’درشان مجمع کمالات صوری ومعنوی حضرت استاذی جناب مولانا اسد اﷲ خاں  صاحب غالب دہلوی ‘‘ کے  عنوان سے  نوشہ غالب کی تعریف میں  چند اشعار نقل کیے  ہیں۔  اس میں  بھی بے  صبر نے  غالب سے  شاگردی کا تذکرہ کیا ہے۔ ساتھ ہی اس بات کا بھی اعتراف ہے  کہ میں  تفتہ کے  سبب سے  صاحب رتبہ ہوا ہوں۔  وہ لکھتے  ہیں :

میں  بھی ہوں  فن شعر ے  گرد

شاگردوں  کا اس کے  ہوں  میں  شاگرد

آپ اس نے  ہی،  ہوں  میں  جس کا مداح

دیوان کو میرے  دی ہے  اصلاح

تفتہؔ کے  سبب بہ خواہش دل

رتبہ یہ ہوا ہے  مجھ کو حاصل

غالبؔ کا ہی وہ بھی خوشہ چیں  ہے

میں  ہوں ،  کہیں  اور وہ یہیں  ہے

اس طرح ہم دیکھیں  تو بے  صبر کی مثنوی میں  خود ان کی مثنوی نگاری کے  تعلق سے  کافی اور شافی احوال موجود ہیں۔  اس کے  مطالعہ کے  بعد اندازہ ہوتاہے  کہ وہ قادرالکلام اورپر گو شاعر تھے۔  انھوں  نے  اپنی مثنوی لخت ِجگر میں  طبع زاد قصبے  کو داستانی شکل دی ہے۔ کمال یہ ہے  کہ بے  صبرؔ نے  مستعار اجزا اور قصوں  کو اس طور پر خوبصورتی سے  بیان کیا ہے  کہ بیانیہ کا ایک نیا انداز معرض وجود میں  آیا نیز یہ کہ۔ اور قصے  کا پرانا پن ظاہر نہیں  ہوتا۔ اس طرح ہم کہہ سکتے  ہیں  کہ پورا قصہ ہندوستانی قصوں  اورکہانیوں  کی روایت میں  ایک اہم اضافہ یا ایک اہم کڑی کے  طور پر سامنے  آیا ہے۔  اس مثنوی کی ا ہمیت اس لیے  بھی بڑھ جاتی ہے  کہ غالب نے  اس پر اصلاح دی ہے، اور مثنوی غالب کی غالب کی نظر سے  گزر جائے  اسے  اہم تسلیم کیا جانا چاہیے۔

 بے  صبرؔ کاپس منظر ہندی اور سنسکرت ہے  لیکن غالب کی شاگردی اور تفتہ کی صحبت میں  ان کی زبان مفرس ہوگئی ہے۔واضح ہوکہ بے  صبر کا تعلق اس معاشرے  سے  تھا جو تہذیبی قدروں  کا امین تھا۔ ان کے  خاندان اور خاندان کے  بیشتر لوگ اسی تہذیبی اقدار کے  پیروکار تھے۔ سچ یہ ہے  کہ ہمارا ملک خواہ شمال ہوکہ جنوب،  مشرق ہوکہ مغرب ہر طرف مختلف مذاہب اور مختلف زبان کے  بولنے  والے  موجود ہیں۔  اور انھیں  اس بات سے  قطعی غرض نہیں  کہ وہ کس خطے  اور کس زبان سے  تعلق رکھتے  ہیں۔ انھیں  تو اس بات سے  صرف مطلب تھا تھا کہ وہ ہندوستانی ہیں، ہمارا ملک زمانہ قدیم سے  گنگا جمنی تہذیب کا ماننے  والا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ لوگ آپس میں  ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کی بناپرآپس میں  شیر وشکرہوکر رہتے  تھے۔اس تہذیبی اقدارکی پاسداری تھی کہ غیر مسلم شعرانے  نہ صرف مثنوی اور غزلیں  کہی ہیں  بلکہ نعتیہ، حمدیہ اور منقبتی اشعار بھی کہے  اس ضمن میں  اگر غیر مسلم شعراکے  نام گنائے  جائیں  توتعداد سینکڑوں  سے  آگے  پہنچ جائے  گی۔ ان شعرا میں  دیا شنکر کول،  برج نارائن چکبست،  لالہ نانک چند کھتری،  چودھری دتورام،  تلوک چند محروم،  عرش ملسیانی،  جگن ناتھ آزاد اور رگھبیر سرن دواکر راہی وغیرہ کے  ساتھ بہت سے  دوسرے  نام بھی لیے  جاسکتے  ہیں۔  یہ وہ شعرا ہیں  جو ہندو تھے  ان کی زباناور معاشرت بھی مسلمانوں  سے  الگ تھی مگرانھوں  نے  اردوشعروادب کو اپناشیوہ بنایا۔ یہ صرف ان کے  ذوق کی بات نہیں  تھی بلکہ یہ مشترکہ تہذیب وکلچر کا اثر تھا۔ یہ لوگ اسی تہذیب کی ایک سنہری کڑی تھے  جسے  وقت اور حالات کے  جبر نے  توڑ نے  کی احمقانہ کوشش کی لیکن یہ مالک ارض و سما کی جانب سے  اٹل فیصلہ ہے  کہ اسے  مٹایا نہیں  جاسکتا ہماری قدیم تہذیبی قدروں  کو کمزور ضرور کیاجاسکتا ہے۔بے  صبر نے  اپنے  مذہب پر قائم رہتے  ہوئے  علم وفن سیکھنے  کی غرض سے  غالب اور دوسرے  اساتذہ کو چنا نتیجہ کے  طور پر انھیں  مشترک ہندوستانی تہذیب کی خصوصیات میسر آئیں  اورانھوں  نے  بہت اہتمام کے  ساتھ اﷲ اور بھگوان کی دوئی کو مٹا کر وحدہ لاشریک پر یقین جتایا۔  دراصل یہ سوچ ہماری مشترکہ تہذیبی روایات اور اقدار کا نتیجہ تھی۔ حدیث میں  ہے  کہ۔’’کل مولود یولد علی الفطرۃ‘‘ کہ تمام انسان فطرت پر پیدا ہوتے  ہیں۔  بے  صبر بھی مذہبی انسان تھے  مگر یہ معلوم کرنا بے  حد مشکل ہے  کہ وہ کس حد تک ہندو مذہب کو مانتے  تھے  اور کس حد تک مذہب اسلام کو پسند کرتے  تھے۔خاص بات تویہ ہے  کہ وہ شیومنتر کا جاب تو کرتے  ہی تھے  ساتھ ہی حمد و ثنامیں  بھی رطب اللسان رہتے  تھے۔ ان کی حمد کو پڑھ کر صرف ان کے  علمی اورتہذیبی پس منظرر کا ہی پتہ نہیں  چلتا بلکہ ایسا محسوس ہوتا کہ کسی متقی،  پرہیز گاراور سچے  پکے  مسلمان نے  خداتعالیٰ کے  حضور حمد و ثنا پیش کی ہے۔ حمد کے  چند اشعار ملاحظہ کریں :

اے  واحد لاشریک برحق

اطلاق یکے  ہے  تجھ پہ مطلق

واحد ہے ،  احد ہے  اوریکتا

جز تیرے  تیرے ،  نہیں  ہے  کوئی تجھ سا

کیا کہہ سکے  کوئی بات تیری

ہے  محض وجود ذات تیری

قائم بالذات ہے  تیری ذات

خود عین صفات ہے  تیری ذات

لم یولد اورلم یلد ہے

نے  جنس ہے  تیری اور نہ ضد ہے

ہے  وحدہ لاشریک خود تو

پیش از ازل وپس از بد تو

پایندہ،  قدیم اورقائم

برحق،  بے  باک،  پاک،  دائم

تجھ سے  تسبیح،  تجھ سے  زنار

پرتو تیرا ہے  نور اور نار

 مندرجہ بالا اشعار سے  ہمیں  بے  صبرؔ کی خدا شناسی اور تصور خدا کے  تعلق سے  اندازہ ہوتا ہے  کہ خدا کے  تعلق سے  ان کا یہ نظریہ تھا۔  ساتھ ہی ان کا وہ کردار بھی ہمارے  سامنے  آتا ہے،  جس میں  سب کچھ جاننے  اور علم رکھنے  کے  باوجود خدا کی ذات اور اس کی ہستی کو تسلیم کرنے  کے  بعد بھی عقیدے  کی اصلاح نہ ہونا عام ہندؤں  کا وطیرہ ہے  ان کے  مطابق کہ تمام ہی راستے  خدا کی جانب جاتے  ہیں۔  یہ ایک ایسا عقیدہ ہے  جس نے  ہر مذہب کے  اچھے  خاصے  لوگوں  کو گم راہ کیا ہے۔ یہ بات بہت واضح ہے  کہ خدا کا راستہ سیدھا اورپاکیزہ ہے  اس کے  راستے  میں  کہیں  کجی نہیں  ہے،  مگر کیا کوئی شخص گندے  اور ٹیڑھے  میڑھے  راستے  پر چل کر اپنی منزل پالے  گا۔  آپ کا جواب ’’ہرگز نہیں ‘‘ ہوگا۔ ٹیڑھے  راستے  پر چل کر انسان بھٹک جائے  گا۔ گم راہ ہوجائے  گا،  اسی طرح گندے  راستے  پر چل کر وہ اپنے  آپ کو آلودہ اور ناپاک کر لے  گا۔ لہٰذا یہ تصور سرے  سے  باطل ہے  کہ تمام راستے  ایک ہی ہیں۔  یہ بات تو درست ہے  کہ پوری کائنات کا مالک ایک خدا ہے۔ مگر یہ بات ہر گز درست نہیں  کہ دنیا کے  خود ساختہ مذاہب اور آستھا ئیں  ایک ہی بنیاد پر قائم ہیں۔  بے  صبرؔ کی یہ فکر ہمیں  عہدِ قدیم کی مشترکہ تہذیبی، تمدن اور روایتات کو سمجھنے  میں  خاص طور پر مدد کرتی ہے،  اوریہی وہ فکر تھی جس نے  ہمارے  ملک کی تہذیبی،  ثقافتی اور تمدنی اقدار کو بڑھایا اور اس کی جڑوں  کو مضبوط کیا۔ جس کی بنیاد پر رواداری اور بھائی چارگی کی فضاساز گار ہوئی۔  بے  صبرؔ نے  اپنے  فکری رویے  کو کچھ اس طرح پیش کیاہے۔

رازق ہے  تو برکشیدہ خواں  ایک

مہماں  ترے  سب تو میزباں  ایک

عاجز ترے  کفر و دیں  ہیں  دونوں

وہاں  ایک تو،  یہ یہیں  ہیں  دونوں

طالب ترے  وصل کا ہے  آفاق

جلوے  کا ترے  زمانہ مشتاق

اے  ساقی بزم گاہِ وحدت

دے  مجھے  کو شرابِ صاف رحمت

ہمارے  ملک کی اصل پہچان ہمارا کلچر اور تمدن ہے۔ ہمارا آپسی میل جول،  اٹھنا بیٹھنا،  گہرے  سماجی ثقافتی،  سیاسی اور معاشرتی تعلقات ہیں۔  ہمارا قدیم ہندوستان جس کی جڑیں  تہذیبی روایات سے  پیوست تھی،  وہ ہمارے  ملک کا معاشرتی کلچر ہی تھا کہ ہم مل جل کر ایک ساتھ بیٹھتے ،  دائیں  مسجد کی مینار تو بائیں  جانب مندر کا سنہرا گنبد نظرآتا۔ ایک کان میں  اﷲ اکبر کی آواز سنائی دیتی تو دوسرے  کان کو ہرے  راما ہرے  کرشنا کی گونج سنائی دیتی،  مگر دونوں  میں  سے  کسی کو بھی کوئی آواز ناگوارنہیں  گزرتی یہی تھا ہماراقدیم اور اصلی ہندوستان ہے۔جس نے  ہمیں  نفرت اور کدورت سے  الگ آپسی اخوت اور ہم آہنگی کا درس دیا۔اگر یہ بات نہ ہوتی تو ہمارے  ملک میں  مذہبی رواداری اور میل جول کی فضا ہر گز ہوار نہ ہوتی۔

اصل میں  ہر ملک کی کچھ اہم خصوصیت اور شناخت ہوتی ہیں۔  ہمارے  ملک کی بھی کچھ نمایاں  خصوصیات ہیں۔ اور ان خصوصیات میں  ایکتا میں  انیکتاہے ،  اسی کو ہم گنگا جمنی تہذیب بھی کہتے  ہیں۔  ہندستان کثیر المذاہب ملک ہے  یہ ملک تہذیب اورثقافت کے  لحاظ سے  بہت ہم آہنگ ہے۔ملک کا اکثرییتی طبقہ ہو یا اقلیتی طبقہ زمانہ قدیم سے  ایک دوسرے  کے  معاون اور غم خوار رہے  ہیں۔  ہمارے  مذہب میں  بھی بلاتفریق مذہب وملت ایک دوسرے  سے  محبت کرنا سکھایا ہے  اور کسی کی دل آزاری و تحقیر سے  منع کیا ہے۔یہ وہ مذہبی اور اخلاقی قدریں  ہیں  جو ہندوستان کو دنیا میں  نمایاں  اور منفرد مقام پر فائز کرتے  ہیں۔  وہیں  دوسرے  مذاہب کے  اثرات بھی گہرے  نظر آتے  ہیں۔

بے  صبرؔ نے  غیر مسلم ہوتے  ہوئے  بھی ان تعلیمات، تہذیبی اور اخلاقی اقدروں  کو بے  حد خوبصورتی سے  برتا ہے۔ مثنوی’ دربیانِ حالِ دلِ بے  تاب و سبب تصنیف کتاب،  میں  اس موضوع پر مندرجہ ذیل اشعار بہت اہم ہیں۔  چند اشعار دیکھیں :

اول تو کریں  نہ عیب جوئی

دریائیں  خطا صریح کوئی

اصلاح کریں  بہ عیب پوشی

اغماض سے  یا کریں  خموش

ہمارے  ملک کی دوسری بڑی اور اہم خصوصیت یہ ہے  کہ یہاں  کے  تقریباًہر مذہب کے  پیرو کاروحدۃ الوجود کے  قائل ہیں۔  مذہب اسلام کے  علاوہ دیگر مذاہب میں  بھی انسانی اور اخلاقی قدروں  کی تعلیم دی گئی ہے۔یہ اور بات ہے  کہ ایک خدا کے  تصور کے  رہتے  ہوئے  شرک نے  اس میں  بگاڑ پیدا کردیا ہے  اور یہ بگاڑتقریباًہر جگہ دیکھنے  کو مل جاتا ہے۔اس نگاڑکے  باوجود ایک خدا کا تصور،  انسانوں  سے  ہم دردی اور اخوت و محبت کی تعلیم ا ٓج بھی ہندوستانی تہذیب و تمدن پر غالب ہے۔ بے  شک یہی ہمارے  ملک کی پہچان بھی ہے۔ اور طرۂ امتیاز بھی۔اس بابت بھی بے  صبر کے  چنداشعار ملاحظہ کریں۔

لے  پیل سے  تابہ مورِ بے  بود

ہر ایک وجود میں  ہے  موجود

انساں  سے  ولے  یہ نسبتِ خاص

رکھتا ہے  بہ اختصاص واخلاص

ہندوستان اپنی تہذیب و ثقافت کے  علاوہ تاریخی عمارات اورقدیم ثقافتی شہروں  کی وجہ سے  بھی دنیا بھر میں  جاناجاتا ہے۔ مغلیہ دور کی تعمیر کی گئی عمارتیں  آج بھی عہد مغلیہ کی تہذیبی داستان بیان کرتی ہیں۔  اسی طرح شہنشاہوں  اور سلاطین کے  عہد میں  جو شہر آباد ہوئے  وہ ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی مثال ہیں  اور آج بھی ان شہروں  کے  نام ان کا کلچر اور ان کی تہذیبی قدریں  اپنے  عہد کی تہذیب کی یاد تازہ کرتی ہیں۔  ساتھ ہی ہندوستان میں  اساطیری روایات کا بھی چلن رہا ہے۔ اور وہ فی زمانہ، نہ صرف اہمیت کا حامل رہا ہے  بلکہ ہمارے  قدیم ہندوستانی کلچرکاآئینہ بھی ہے۔مذکورہ اساطیر اپنے  نام اور اپنی روایات کی وجہ سے  جانے  اور پہچانے  جاتے  ہیں،  جیسے  دیوی دیوتا،  دیو کے  قصے  اور پریوں  کی داستانیں  وغیرہ۔ بے  صبرؔ نے  بھی اپنی مثنوی میں  ہندوستانی تہذیب کی عکاسی کی ہے۔ شہروں  اور ان کے  تہذیبی احوال کو نظم کیا ہے،  جو یقینا پڑھنے  سے  تعلق رکھتے  ہیں۔  چند اشعار ہندوستانی کلچر اور احوال سے  متعلق دیکھیں۔  مذکورہ خصوصیات کو کچھ اس طرح نظم کیا ہے۔

ہوں  دیو میں  نام ہے  مرا جام

جز عیش نہ مجھ کو اور تھا کام

جاتا تھا اڑا میں  ایک شب آہ

کرتا ہوا سیر عالم ماہ

ایک شہر دکن میں  ہے  طرح دار

مشہور بہ نام شہرِ گلزار

والی جو وہاں  کا ہے  ظفر شاہ

رکھتا ہے  وہ دخت غیرت ماہ

یہاں  بے  صبرؔنے  مثنوی ’ہونا شاہ بختیار کا بیچ غم بیٹے  کے  سو گوار اور بھیجنا تصویروں  کا بہر کشور و دیار،  میں  بھی تہذیبی عکس پیش کیا ہے  اس تعلق سے  بھی چند اشعار دیکھیں۔

ناداں  یہ سمجھ کہ شاہِ قنوج

تھا مالکِ ملک و صاحب فوج

عشرت کے  سوا نہ تھا اسے  کام

کام اسکو نہ جز صراحی و جام

دن رات پری وشوں  سے  صحبت

مصروف نشاط وعیش وعشرت

جب نامہ برانِ شاہ قنوج

رخصت ہوئے  وہاں  سے  فوج درفوج

 تاریخ پر نظر ڈالیں  تو معلوم ہوگا کہ شہر دلّی کئی دفعہ لٹی اور بنی۔  دلی کا بار بار اجڑنا اور آباد ہونا یہ بہت غم انگیزاور دردناک داستان بھی ہے۔ باوجود مسلسل شکست وریخت کے  یہ اپنی قدیم خصوصیات پر ہمیشہ قائم رہا۔ اسی طرح پنجاب کی تاریخ بھی تہذیب و ثقافت کاآئینہ دار رہی ہے۔ اس کے  علاوہ ہندوستان کے  دوسرے  علاقوں  میں۔ مثلاً کشمیر،  گجرات اور بنگال کو ہماری ہندوستانی تہذیب میں  زبان و بیان اور کلچر کے  اعتبار سے  بہت اہمیت حاصل ہے۔

 مذکورہ شہروں  کی تاریخ نہ صرف جغرافیائی سیاسی،  سماجی،  معاشی،  معاشرتی اور ثقافتی اعتبار سے  بھی منفرد مقام ہے۔ بے  صبرؔ نے  اپنی مثنوی میں  ان شہروں  کا ذکر کرکے  ان تمام صورتوں  کو اجاگر کیا ہے  جن سے  ان شہروں  کی شناخت قائم ہے۔ نمونے  کے  طور پرچند اشعار دیکھیں  جن میں  ہندوستانی شہروں  کے  احوال کو کمال خوبی کے  ساتھ پیش کی

کرنے  کی سعی کی گئی ہے۔

پر ہند جو ہے  وسیع کشور

وہاں  کو ہونے  چند کس مقرر

ان سب میں  سے  پہلے  لیک خردور

دلی کو ہوا روانہ جھٹ کر

بعد اسکے  ہوا بہ سوے  پنجاب

ایک شخص رواں  بہ رنگ سیلاب

کوئی سوے  تبت اور کشمیر

بنگالے  کو بھاگا کوئی دل گیر

سوے  دکن و بہ سوے  گجرات

قاصد ہوئے  رہ نورد دن رات

 ہمارا ملک جغرافیائی اعتبار سے  بے  حد وسیع وعریض ہے۔ اس کا کچھ حصہ شہروں  پر مشتمل ہے  کچھ جنگلی،  کچھ بحری اور باقی زیادہ تر حصہ دیہات کی صورت میں  آباد ہے۔ یہاں  کے  لوگوں  کی قدوقامت،  شکل و صورت اور بول چال جدا گانہ ہیں۔  کہا جاتا ہے  کہ ہر دس سے  بارہ کلو میٹر کے  فاصلے  پر تہذیبی،  سماجی اور لسانی تفاوت نظر آنے  لگتاہے۔ بول چال کے  علاوہ کھان پان،  لباس اور رہن سہن کا ڈھنگ بدل جاتا ہے۔ کہیں  کھڑی بولی تو کہیں  ماگدھی،  کہیں  اودھی،  کہیں  میتھلی،  کہیں  بندیلی،  کہیں  کنڑ،  کہیں  مراٹھی تو کہیں  گجراتی و غیرہ بولی جاتی ہے۔ ان تمام بولیوں  کا لسانی اور تہذیبی مرکز ہندوستان کا کلچر ہے۔ شاعر نے  ہندوستانی کلچر کا خوبصورت عکس اس طرح ابھار ہے۔

چند اشعار بطور مثال پیش ہیں :

کہنے  لگی بس بس اے  بوابس

ظاہر ترا حوصلہ ہوا بس

کر کے  ادب حیاڈری بیٹھ

ہے  کون موا عزیز، اری بیٹھ

کچھ بات نہ چیت کھڑی ہو

کھاپی،  ہنس بول، ہاتھ منہ دھو

دیکھ اپنی بہارِ زندگانی

جی تیرا کدھر ہے  اے  فلانی

ہندوستانی تہذیب میں  قدیم تعمیرات، قدیم شہروں  اور وہاں  کے  لوگوں  کا رکھ رکھاؤ رسم ورواج اور کھان پان کی بھی اپنی اہمیت مسلم ہے۔ بادشاہوں  کے  زمانے  میں  پان کااستعمال اد باء شعراکے  علاوہ کوٹھے  کی تہذیب میں  بھی شامل رہا ہے۔  یہ ہماری قدیم ہندوستانی تہذیب کاایک جز ہے  جسے  شعرا نے  اکثر مقامات پر برتا ہے۔قدیم زمانے  میں  پان کھانے  کارواج جو ہندوستانی تہذیب میں  شرفا کے  ذریعہ سے  عام ہواتھا۔یہ تہذیب پورے  ہندوستان کے  ایک طبقہ میں  رائج ہوئی، بے  صبرؔ نے  اس بات کا ذکر کر کے  قدیم تہذیب کی نہ صرف یاد دلائی ہے  بلکہ پان اور اس سے  پیدا ہونے  والے  حسن کاذکرکر کے  ایک نیا نکتہ پیدا کرنے  کی کوشش کی ہے۔ چوں  کہ پان کی لالی حسن کی علامت ہے  اور محبوب جس کے  ہونٹ پتلے  اور سرخ ہوں  اور اس پر سے  پان کی لائی جوقہر بر پا کرے  تو یہ حد درجہ پر کشش ہوجاتی ہے۔نمونے  کے  دوشعر دیکھیے  :

گردن غضب اور گلاوہ کافر

تھا پان کارنگ جس سے  ظاہر

وہ بازو وسا عداور کلائی

وہ ہاتھ، وہ انگلیاں  حنائی

ہماری تہذیبی روایات اور اقدار کی اس سے  بڑی بات اور کیا ہوگی کہ ایک ہندو اردو شعر و ادب کا نہ صرف ذوق رکھے  بلکہ باضابطہ اردو پڑھے  اور نظموں  اور غزلوں  کے  علاوہ مثنوی،  مرثیہ اور قصیدہ جیسی ا صناف سخن میں  اپنی قابلیت کے  جوہر دکھائے  مرثیہ خالص واقعاتی کربلاپر مبنی صنف ہے  اس لیے  کسی غیر مسلم کو اس صنف سے  کیا مطلب؟ اسی طرح مثنوی اور قصیدہ سے  بھی ایک غیر مسلم کو کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔ کیوں  کہ اس کا تعلق نہ ہی ہندو مذہب،  سماج اور ہندوکلچر سے  ہے  اور نہ ہی ہندی زبان سے ،  باوجود اس کے  اگر ایک غیر مسلم ان اصناف سے  شغف رکھے  اور طبع آزمائی کرے  تو یہ بات ثابت ہوتی ہے  کہ یہ صرف اور صرف ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی آپسی لین دین ہے  جس کی روایت گہرائی تک ہندوستانی کلچر اور ہندوستانی تہذیب میں  پیوستہ ہے۔ ہم یہ بتاتے  چلیں  کہ بال مکند بے  صبرؔ اسی ہندوستانی تہذیب و کلچر کے  پروردہ تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اردو اور فارسی کے  رموز سے  واقف تھے۔ ان کی زبان رواں  اور شستہ تھی، اس کی یہی وجہ ہے  کہ ان کی مثنوی رواں  اور ان کا بیانیہ انداز خوبصورت تھا۔ بے  صبرؔ کی مثنوی میں  ہماری قدیم مثنویوں  کی طرح عشق و محبت کی داستان کو منظوم کیا گیا ہے۔ جیسے  میر حسن کی سحر البیان اور دیا شنکر نسیم کی مثنوی گلزار ِنسیم میں  برتا گیا ہے۔ ان مثنویوں  کی ہی طرح ہی احوال عشق کے  ساتھ قدیم ہندوستانی کلچر کی جھلک ہمیں  ’’مثنوی لخت جگر‘‘ میں  بدرجہ اتم دیکھنے  کو مل جاتی ہے۔

اہم بات یہ ہے  کہ کسی بھی واقعے  یا حال کا ذکر کرتے  وقت اپنے  ملک کی تہذیبی اور ثقافتی رنگ کو اس طرح بیانیہ کا حصہ بنا دیا جائے  کہ وہ ہماری تہذیبی تاریخ کا حصہ بن جائیں  اور یہ اہم کام قدیم مثنوی نگاروں  نے  بحسن و خوبی کیا ہے۔ بے  صبر کی اس مثنوی میں  بھی مذکورہ تمام خصوصیات مو جود ہیں۔  اسی طرح لفظوں  کے  استعمال کے  ذریعے  اپنی تہذیب کا عکس پیش کرنا ہے  یعنی ہندی،  اردو،  سنسکرت اوردوسری علاقائی بولیوں  کے  الفاظ کا استعمال کرنا ہمیں  اپنے  کلچر کے  قریب لے  جاتا ہے۔

بہر کیف بے  صبرؔ کی مثنوی ۱۹ویں  صدی کی مثنویوں  میں  ایک اہم مثنوی کا درجہ رکھتی ہے  جس میں  داستانِ عشق کو بے  حد خوبصورت اور پر کشش اندازِ اسلوب میں  بیان کیا گیا ہے۔

مآخذ:

۱۔         ’’مثنوی لخت جگر‘‘ مرتب: ارجمند آرا،  طباعت،  انجمن ترقی اردو ہند۔سن اشاعت: ۱۹۹۹ء

۲۔         تلامذہ غالب: مالک رام،  طبع دوم،  مکتبہ جامعہ دہلی،  ۱۹۸۴ء

۳۔        ہندوستانی قصوں  سے  ماخوذ،  اردو مثنویاں،  گوپی چند نارنگ،  قومی کونسل برائے  فروغ اردو زبان،  نئی دہلی،  دسمبر ۲۰۰۱ء۔

۴۔         مثنویات شوق،  مرتب رشید حسن خان،  طباعت،  انجمن ترقی اردو ہند،  سن اشاعت:۱۹۹۸ء

۵۔        اردومرثیہ نگار،  ام ہانی اشرف،  طباعت،  ایجوکیشنل بک ہاؤس،  علی گڑھ،  سنہ ۲۰۱۲ء

۶۔         لکھنؤ کے  شعر وادب کا معاشرتی وثقافتی پس منظر۔ سید عبدالباری،  طباعت،  قومی کونسل برائے  فروغ اردو زبان،  نئی دہلی،  سنہ ۲۰۱۵ء۔

۷۔         اردو شاعری کا سیاسی اور سماجی پس منظر،  ڈاکٹرغلام حسین ذوالفقار،  طباعت،  سنگ میل پبلی کیشنز،  لاہور،  سنہ ۱۹۹۸ء

۸۔        اردواور مشترکہ ہندوستانی تہذیب،  مرتبہ،  ڈاکٹرکامل قریشی،  طباعت،  اردو اکادمی،  دہلی۔سنہ ۲۰۱۴ء۔

۹۔        مثنوی کا فن اور بہار کی معروف مثنویاں،  ڈاکٹر احمدحسن دانش طباعت،  مصنف،  سنہ ۲۰۱۵ء

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خان محمد رضوان

ریسرچ اسکالر، شعبۂ اردو، دپلی یونی ورسٹی، دہلی

Leave a Reply

1 Comment on "“انیسویں  صدی کی مشترکہ تہذیب اور مثنوی “لخت جگر"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] 102.انیسویں  صدی کی مشترکہ تہذیب اور مثنوی لخت جگر […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.