فیض احمدفیضؔ کی سیاسی شاعری

                فیضؔ بنیادی طوررپر رومان پسند ہیں  لیکن ان کی رومانیت صرف عشقیہ موضوعات تک محدود نہیں  ہے، اس کے جوہر مختلف سمتوں  میں  بھی آشکار ہوئے ہیں ۔ ایسی ایک سمت انقلابی یا سیاسی نوعیت کی ہے یہ سمت بڑی پہلودارہے۔ فیض کی ابتدائی شاعری بے نام منزلوں  کی طرف رواں  تھی لیکن جلد ہی انھوں نے اپنے راستے اور منزل کا تعین کرلیا۔ دراصل فیض کے نزدیک ’’راستے اور منزل کے تعین کے بغیر شاعروں  کا کوئی مستقبل نہیں  ہے۔ شاعری، ادیب اور دانش ور کو بنیادی طورپر آگاہ ہونا چاہیے کہ سچ کیاہے، جھوٹ کیاہے۔ تصنع کیاہے، حقیقت کیاہے۔‘‘

                فیضؔ ان حقائق سے آگاہ تھے انھوں نے نہایت دانش مندی کے ساتھ اپنی شاعری کے راستے اور منزل کا تعین کرلیاتھا۔ راستے اور منزل کا تعین بڑی حدتک ترقی پسند تحریک کی مرہونِ منت ہے۔ اس تحریک نے فیض کو ترقی پسند بھی بنا دیا اور ایک بڑا شاعر بھی بنادیا۔ ایک ترقی پسند شاعر اور ادیب کا مقصد اور منصب اس کے سوا کچھ اور نہیں  کہ وہ زندگی کے مختلف شعبوں  میں  ایک خاص وقت یا زمانے میں  جو مختلف اور مخالف رجحانات نمایاں  ہوں ۔ انھیں  معلوم کرے اور اپنی پوری مادی اور رومانی قوت کو اپنے طبقوں ، گروہوں  اور نظریوں  اور اخلاق کے اُبھارنے اور پھیلانے میں  صَرف کرے۔ میں  نے ان مخالف اور متضاد رجحانات کو پہچانا اور پھر اپنا نقطۂ نظر پیدا کیا۔ یہ نقطۂ نظر خالصتاً ترقی پسند تھا۔ اب ان کی نگاہوں  نے صرف عکس رُخِ یار دیکھنے کے بجائے اندھیروں  کی فصیلوں  کے ادھر بھی دیکھنا شروع کردیا تھا جہاں  سسکتی ہوئی اور دم تورٹی ہوئی انسانیت نوحہ کناں  تھی، جہاں  بازاروں  میں  انسانوں  کا گوشت بکتا تھا، جہاں  انسانی خون سے ہولی کھیلی جاتی تھی۔ اس ظلم و بربریت اور لوٹ کھسوٹ پر فیض کی آنکھوں  سے خون کے آنسو ٹپکے۔ انھوں نے اس نظامِ جبر اور فرسودہ طریقۂ زندگی کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا اب ان کی شاعری کا مقصد قوم میں  انسانیت اور آزادی کا جذبہ پیدا کرنا تھا۔ فیض جو ایک حساس اور روشن دماغ کے مالک تھے بھلا کب تک اپنے عہد، اس کی ضرورتوں  اور اس کے مسائل سے بیگانہ رہتے۔ فیض اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ:

’’شاعر بھی ہم سب کی طرح معاشرے کا ایک فرد ہوتاہے اور اس کی شاعری انھیں  حالات کی پیداوار ہوتی ہے جن کے ماتحت وہ زندگی کے دن پورے کرتاہے۔ جب یہ حالات بدلتے ہیں  تو شاعری کا رُخ بھی تبدیل ہوجاتاہے۔ سماج کے دل و دماغ میں  نئے نئے خیالات و جذبات پیدا ہونے لگتے ہیں  اور انھیں  بیان کرنے کے لیے شاعری نئے طریقے اور نئی صورتیں  اختیار کرلیتی ہے۔‘‘

                رومان سے حقیقت کی طرح بڑھنے کی یہ کش مکش فیض کی بیش تر سیاسی اور انقلابی نظموں  میں  پائی جاتی ہے۔ مثال کے لیے فیض کی ایک مشہور نظم ’’موضوعِ سخن‘‘ ہی کو لیجیے جس کی ابتدا کچھ یوں  ہوتی ہے:

گل بوئی جاتی ہے افسردہ سلگتی ہوئی شام

دُھل کے نکلے گی ابھی چشمۂ مہتاب سے رات

اور مشتاق نگاہوں  سے سنی جائے گی

اور ان ہاتھوں  سے مَس ہوں گے یہ ترسے ہوئے ہاتھ

ان کا آنچل ہے کہ رخسار کہ پیراہن سے

کچھ تو ہے جس سے ہوئی جاتی ہے چلمن رنگیں

جانے اس زلف کی موہوم گھنی چھاؤں   میں

ٹمٹماتا ہے وہ آویزہ ابھی تک کہ نہیں

آج پھر حسن دلآرا کی وہی دھج ہوگی

وہی خوابیدہ سی آنکھیں ، وہی کاجل کی لکیر

رنگ رخسار پہ ہلکا سا وہ غازے کا غبار

صندلی ہاتھ پہ دھندلی سی حنا کی تحریر

اپنے افکار کی، اشعار کی دنیا ہے یہی

جان مضمون ہے یہی، شاہد معنی ہے یہی

                لیکن تخیل کی دنیا میں  مسلسل کھوئے رہنے کی یہ کیفیت اور خیالات کا یہ تسلسل زیادہ عرصہ تک قائم نہیں  رہ پاتا۔ خواب کا یہ سلسلہ اچانک ٹوٹ جاتاہے اور پھر شاعر رومان سے حقیقت کی دنیا میں  قدم رکھتاہے۔ نظم کا دوسرا حصہ بغیر کسی غیرضروری تمہید کے یوں  شروع ہوتاہے:

آج تک سرخ و سیہ صدیوں  کے سایے کے تلے

آدم و حوا کی اولاد پہ کیا گزری ہے؟

موت اور زیست کی روزانہ صف آرائی میں

ہم پہ کیا گزرے گی، اجداد پہ کیا گزری ہے؟

ان دمکتے ہوئے شہروں  کی فراواں  مخلوق

کیوں  فقط مرنے کی حسرت میں  جیا کرتی ہے؟

یہ حسیں  کھیت پھٹا پڑتا ہے جوبن جن کا

کس لیے ان میں  فقط بھوک اُگا کرتی ہے؟

یہ ہراک سمت پر اسرار کڑی دیواریں

جل بجھے جن میں  ہزاروں  کی جوانی کے چراغ

یہ ہراک گام پر ان خوابوں  کی مقتل گاہیں

جن کے پرتو سے چراغاں  ہیں  ہزاروں  کے دماغ

                یہاں  تک تو صاف پتہ چلتا ہے کہ فیض رومان سے حقیقت کی طرف بڑھتے گئے ہیں  لیکن اس نظم کے آخری حصے میں  وہ ایک دفعہ پھر رومان کی طرف لوٹتے دکھائی دیتے ہیں :

لیکن اس شوخ کے آہستہ سے کھلتے ہوئے ہونٹ

ہائے اس جسم کے کم بخت دلآویز خطوط

آپ ہی کہیے، کہیں  ایسے بھی افسوں  ہوں گے

اپنا موضوع سخن ان کے سوا اور نہیں

طبع شاعر کا وطن ان کے سوا اور نہیں

                                                                                (موضوع سخن)

                رومان اور حقیقت کا یہ حسیں  اور دل کش سنگم فیض کی نظموں  کا ایک امتیازی وصف ہے۔ فیض کی سیاسی نظمیں  ادبی رنگ و آہنگ کے لحاظ سے ادبی زیادہ اور سیاسی کم ہیں ۔ نعرے بازی، جوش، غصہ، انکار اور چیخ و پکار کہیں  سنائی نہیں  دیتی ۔ فیض کی سیاسی نظموں  میں  شعریت اور ادبی حسن کا ایک سیل رواں  نظر آتاہے۔ یہ شعریت ہی دراصل اعلا شاعری کی جان ہوتی ہے۔ ان میں  ایک واضح اور سلجھے ہوئے سیاسی اور انقلابی شعور کا پتہ چلتاہے۔ جب فیض یہ کہتے ہیں :

جگر کی آگ، نظر کی امنگ، دل کی جلن

کسی پہ چارۂ ہجراں  کا کچھ اثر ہی نہیں

کہاں  سے آئی نگار صبا، کدھر کو گئی

ابھی چراغ سرراہ کو کچھ خبر ہی نہیں

نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں  آئی

چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں  آئی

                                                                                (صبح آزادی)

                اردو شاعری میں  یوں  تو بہت سے انقلابی شاعر ہوئے ہیں  لیکن فیض ان میں  اس لیے منفرد ہیں کہ ان کے یہاں  انقلاب اور شعریت کا حسین و جمیل امتزاج نظر آتاہے۔ وہ انقلاب کے لیے نعرہ نہیں  لگاتے بلکہ ایک ایسی فضا پیدا کردیتے ہیں  جو انقلابی عمل کے لیے سازگار ہوتی ہے، یہ فضا ان کے انقلابی اور سیاسی شاعری کی جان ہے۔ فیض نے انقلاب کے نعرے کو نغمگی عطا کی ہے۔ اس طرح اردو کی انقلابی شاعری کو عظمت سے روشناس کرایا ہے۔ ان کے یہاں  حسن و انقلاب کا ایسا حسین و جمیل امتزاج ملتاہے کہ آنکھیں  حیران رہ جاتی ہیں ۔

                حسن میں  انقلاب اور انقلاب میں  حسن کا پہلو ان کی انقلابی شاعری کا مضبوط ترین پہلو ہے۔ یہ پہلو مضبوط بھی ہے اور خوش گوار بھی ہے۔ ان کی ایک نظم ’’مرے ہمدم، مرے دوست‘‘ دیکھیے جس میں  یہ دونوں  چیزیں  نمایاں  ہیں :

گر مجھے اس کا یقیں  ہو مرے ہمدم، مرے دوست

گر مجھے اس کا یقیں  ہوکہ ترے دل کی تھکن

تیری آنکھوں  کی اداسی، تیرے سینے کی جلن

میری دلجوئی، مرے پیار سے مٹ جائے گی

گر مرا حرف تسلی وہ دوا ہو جس سے

جی اٹھے پھر ترا اُجڑا ہواہے نور دماغ

تیری پیشانی سے دُھل جائیں  یہ تذلیل کے داغ

تیری بیمار جوانی کو شفا ہوجائے

گر مجھے اس کا یقیں  ہو مرے ہمدم، مرے دوست

نغمہ جراح نہیں ، مونس و غم و خوار سہی

آیت نشتر تو نہیں ، مرہم آزار سہی

تیرے آزار کا چارہ نہیں ، نشتر کے سوا

اور یہ سفاک مسیحا مرے قبضے میں  نہیں

اس جہاں  کے کسی ذی روح کے قبضے میں  نہیں

ہاں  مگر تیرے سوا تیرے سوا تیرے سوا

                                (مرے ہمدم، مرے دوست)

                فیض کی شاعری میں  ان کی سیاسی اور انقلابی نظموں  کا پہلو سب سے زیادہ اہمیت رکھتاہے کہ اگر فیض سے ان کا سیاسی اور انقلابی آہنگ چھین لیا جائے تو ان کی شاعری اپنی تمام دل کشیوں  اور رعنائیوں  کے باوجود بے رنگ نظر آئے گی۔ کچھ لوگوں  کی نظر میں  فیض کی شاعری کا یہی پہلو سب سے کمزور ہے یا محدود ہے اور اس کا جواز یہ پیش کیا جاتاہے کہ ’’اس دنیا میں  صرف قیدخانے، بھوک اور بغاوت ہی نہیں  ہے۔ نہ انسانی تصور، ماتم، آزادی اور شکوہ سے بہت حدتک محدود ہے۔ فیض کا یہ پہلو بہت کمزور ہے ان کی ساری صلاحیتیں  صرف ایک محدود اور فناآمادہ جدوجہد کے بیان میں  صَرف ہوئی ہیں ۔‘‘ فیض کا سیاسی نقطۂ نظر ایک اخلاقی قدر بن کر ان کی پوری شاعری کو اپنے دامن میں  سمیٹے ہوئے ہے۔ ہم فیض کے سیاسی نقطۂ نظر سے اختلاف کرسکتے ہیں  لیکن ان کی سیاسی شاعری کی عظمت کو بہ آسانی چیلنج نہیں  کرسکتے۔ اس میں  ایک سچے فن کار کی دنیائے بیکراں  آباد ہے، اس میں  خلوص ہے، جذبہ کا والہانہ پن اور سب سے بڑی چیز کہ اس میں  فن کا اعلا ترین عنصر جلوہ گر ہے:

’’کل تک جو سیاست امور جہاں  بانی کی چالوں  تک محدود تھی آج وہ ایک اخلاقی قدر ہے اور غالباً زندگی کی سب سے اہم اخلاقی قدر ہے۔ یہ جو تبدیلیِ زندگی کے اخلاقی حدود میں  پیدا ہوئی ہے اس نے زندگی اور حقائق عالم کی طرف نئے انداز نظر پیدا کیے ہیں ۔ زندہ رہنے کی آرزو، آرزوئے مرگ پر غالب آگئی ہے۔ عمل عزلت نشینی پر غالب آگیاہے۔‘‘

                اس نظم کا پس منظر یقینا سیاسی ہے لیکن اس کے شعری حسن سے اور ادبی مرتبہ سے انکار نہیں  کیا جاسکتا ہے۔ اس میں  شعروسیاست کا حسین امتزاج ہے۔

                فیض کو احساس ہے کہ زندگی کی رعنائیاں  محدود نہیں  ہیں ۔ زندگی کے لامحدود تقاضوں  اور ان کے امکانات کا بھی علم ہے۔ ان کو فطرت کی بکھری ہوئی بے پناہ حسن کی دولت کا بھی شعور ہے لیکن زندگی کی تلخیاں  اور مصائب بھی تو آخر اہمیت رکھتے ہیں ۔ فیض ان کی طرف کیسے نہ متوجہ ہوتے۔ فیض نے بہت سوچ سمجھ کر سیاست اور انقلاب کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔

                فیض نے ترقی پسند غزل گو شاعر کی حیثیت سے اپنے منصب کو بڑی اچھی طرح پہچاناہے۔ انھوں نے غزل کے عشقیہ اشعار میں  سیاسی اور سماجی حالات کی ترجمانی بڑی خوب صورتی کے ساتھ کی ہے۔ یہ چیز جدید دور کے تقاضوں  سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ ان کی غزلوں  کے بیش تر اشعار میں  سیاسی اور سماجی حالات کی پرچھائیاں  پڑی ہوئی نظر آتی ہیں ۔ اس زندگی آمیز روایت نے ان کے یہاں  اس لیے جنم لیاہے کہ:

مقامِ فیضؔ کوئی راہ میں  جچا ہی نہیں

جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دارچلے

ستم کی رسمیں  بہت تھیں  لیکن نہ تھی تری انجمن سے پہلے

سزا خطائے نظر سے پہلے، عتاب جرم سخن سے پہلے

                یہ اشعار اپنے اندر ایک خاص مفہوم رکھتے ہیں ، لیکن ان کو صرف سیاسی اشعار کہہ کر رد نہیں  کیا جاسکتا کیوں کہ اس میں  غزل کی روایات کا احترام پایا جاتاہے۔ سیاسی اور سماجی حالات کی ترجمانی ان کے دور کے بیش تر شعرا کے یہاں  ملتاہے۔ لیکن جو تازگی فیض کی غزلوں  میں  نظر آتی ہے دوسرے شعرا کے یہاں  کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس کی ایک خاص وجہ یہ بھی ہے کہ فیض اپنے سیاسی نظریات دوسروں  پر زبردستی تھوپنے کی کوشش نہیں  کرتے بلکہ بڑے ہی نرم و نازک انداز میں  اپیل کرتے ہیں :

چشم نم، جہاں  شوریدہ کافی نہیں

تہمت عشقِ پوشیدہ کافی نہیں

آج بازار میں  پابجولاں  چلو

دست افشاں  چلو، مست و رقصاں  چلو

خاک برسرچلو، خوں  بہ داماں  چلو

راہ تکتا ہے سب شہر جاناں  چلو

حاکم شہر بھی، مجمع عام بھی

تیرالزام بھی، سنگ دشنام بھی

صبح ناشاد بھی، روز ناکام بھی

                اس نظم کا پس منظر یقینا سیاسی ہے لیکن اس کے شعری حسن سے اور ادبی مرتبے سے انکار ممکن نہیں ۔ اس میں  شعروسیاست کا حسین امتزاج نظر آتاہے۔ فیض کی بیش تر نظموں  میں  سیاست اور شعریت کا توازن نظر آتاہے۔ ان کی سیاسی نظموں  میں  کوئی پولٹیکل تھیوری بظاہر نظر نہیں  آتی حالاں کہ ان نظموں  کی بنیاد اسی پر ہوتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے سیاسی خیالات کو تہہ در تہہ استعاروں  اور حسین و جمیل ترکیبوں  میں  اس طرح پیش کرتے ہیں کہ ہم اس نظم میں  کوئی سیاسی واقعہ یا اس کا سیاسی پس منظر معلوم کرنے کے بجائے اس کے شعری حسن کے گرویدہ ہوکر رہ جاتے ہیں ۔ یہ چیز اس وقت تک پیدا نہیں  ہوسکتی جب تک کہ شاعر کے تجربات سچے اور خلوص پر مبنی نہ ہوں  اور فیض کے یہاں  تو اس کی بہتات ہے۔ اس کے علاوہ ان آمرانہ اور ناسازگار حالات کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے جن میں  فیض نے اظہارخیال کیا ہے اور جن کی طرف انھوں نے کبھی کبھی لطیف اشارے بھی کیے ہیں :

در قفس پہ اندھیروں  کی مہر لگتی ہے

توفیضؔ دل میں  ستارے اُترنے لگتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پروفیسر سید شفیق احمد اشرفی

خواجہ معین الدین چشتی اردو عر بی فارسی یونی ورسٹی، لکھنؤ

Leave a Reply

3 Comments on "فیض احمدفیضؔ کی سیاسی شاعری"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] فیض احمدفیضؔ کی سیاسی شاعری […]

trackback

[…] 34.  فیض احمدفیضؔ کی سیاسی شاعری […]

Hafeez Kumbhar
Guest
بہت خوبصورت آرٹیکل ھے اور بہت دنوں بعد فیض صاحب کی شاعری کے حوالے سے کوئی اچھی چیز پڑھنے کو ملی ھے
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.