سر سید کے تعلیمی تصورات اور تعلیم نسواں

حدیثہ افضل
ریسرچ اسکالر ، شعبۂ اردودہلی یونیورسٹی۔۱۱۰۰۰۷

Sir Sayed ke Taleemi Tasuwuraat…
by: Hadisa Afzal

سر سید جیسی معتبر اور قدآور شخصیت محتاج تعارف نہیں۔ وہ انیسویں صدی کے ایک عظیم مفکر، محقق، دانشور اور ان سب سے بڑھ کر مصلح قوم تھے۔ سر سید نے ۱۸۵۷ء کے المناک حادثات کے بعد مسلمانان ہند کو زبوں حالی کا شکار ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔قوم کے اس ہمدرد نے مسلم قوم کو اس پستی سے نکالنے کے لئے اپنا تن، من، دھن سب کچھ لٹا دیا۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ سر سید نے زندگی کے بیشتر شعبوں کا انتہائی گہرائی سے مطالعہ کیا تھا۔ اس مطالعہ کی روشنی میں انہوں نے پایا کہ کامیاب زندگی بسر کرنے کے لیے تعلیم کا حا صل کرنا ضروری ہے۔ اسی لئے انہوں نے مسلمانوں کو عصری علوم حاصل کرنے کی ترغیب دی، کیونکہ تعلیم کی کمی کی وجہ سے بہت سی خرابیاں اس قوم کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی تھیں۔ ان سب کے علاوہ سرسید نے اس بات پر زور دیا کہ اس وقت مسلمان خود کو سیاست میں ڈھکیلنے کے بجائے اپنی تمام تر توجہ تعلیم کی طرف مرکوز کریں اور دوسری ترقی یافتہ اور مہذب قوموں کی طرح خود کو کامیابی سے ہم کنار کریں۔ یہی نہیں بلکہ انھوں نے مسلمانوں میں پائی جانے والی غلط رسومات اور مذہبی اوہام کے خلاف بھی اپنی آواز بلند کی اور اصلاح کا بیڑہ اٹھایا ، تاکہ قوم کو احساسِ کمتری کا شکار نہ ہونے دیا جائے۔
سر سید نے جب جدید تعلیمی تحریک شروع کی اور اپنی اسلامی اقدار اور مشرقی روایات کو برقراررکھتے ہوئے مسلم قوم کو جدید علوم سیکھنے کی طرف راغب کیا تو انھیں بہت سی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کو نیچری، انگریزوں کا پٹھو اور کافر وغیرہ القاب سے نوازا گیا ۔دراصل اس عہد میں مسلمانوں کو اس بات کا خدشہ تھا کہ انگریزی تعلیم حاصل کرنے سے ہم اپنے مذہبی عقائد سے دور ہوجائیں گے۔ جبکہ ایسا بالکل نہیں تھا بلکہ سرسید جدید تعلیمی نظام کے تحت خوابیدہ ذہنوں کو بیدار کرنا چاہتے تھے اور مسلمانان ہند کو پستی سے نکال کر باوقار و بلند مرتبہ دلانا چاہتے تھے ۔ اس حوالے سے محمد قمرالدین نانپوری اپنے مضمون’’ تعلیم نسواں سر سید کے حوالے سے ‘‘ میں یوں رقمطراز ہیں:
’’ سرسید احمد خاں تعلیم و تربیت کے میدان میں بہت ہی وسیع و جامع تصور رکھتے تھے اور اسے کسی دائرے میں محدود کرنے کے قائل نہ تھے، ان کی نظر میں تعلیم کا خاص مقصد انفرادی و قومی زندگی کی تعمیر اور معاشرتی و ثقافتی ترقی کا حصول تھا۔۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے مختلف مواقع پر بہت ہی صاف لفظوں میں اس حقیقت کو واشگاف کیا کہ کسی بھی قوم کا تنزل دور کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ اس قوم میں تعلیم کو فروغ دیا جائے اور اہل قوم کو اس سے مزین کیا جائے۔‘‘ ۱؂
یوں دیکھا جائے تو سارا ملک ہی جہالت کی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا لیکن مسلمان قوم میں تعلیم سے دوری کا احساس کچھ زیادہ ہی تھا کیونکہ جب سر سید نے اپنے تعلیمی مشن کا آغاز کیا تو اس سے تقریباً پچاس برس قبل راجہ رام موہن رائے ہندوؤں میں تعلیمی تحریک اور ان میں سماجی و معاشرتی بیداری لانے کے لئے قابل قدر کوشش کرچکے تھے۔ اپنے اس اصلاحی مشن کو برقرار رکھتے ہوئے انھوں نے ناقابل فراموش کارنامے انجام دیے۔ یوں تو اس مشن کے آغاز میں موہن رائے کو بھی ہندوؤں کے اعلیٰ طبقہ کی طرف سے بہت سی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن بہت جلد ایک بڑی تعداد نے ان کے خیالات اور اثر و رسوخ کو قبول کرنا شروع کردیا اور تعلیم کے لئے راہیں ہموار ہوتی گئیں۔لیکن مسلمان قوم اب بھی تعلیم کے سلسلے میں علاحدگی اختیار کیے ہوئی تھی اور دن بہ دن یہ خلیج بڑھتی ہی جا رہی تھی لیکن سر سید جیسی جامع شخصیت نے قوم کی اس بدحالی کو دور کرنے کے لئے کئی تعلیمی ادارے اور انجمنیں قائم کیں اور ان کے ذریعے اپنی کوششوں کو عملی جامہ پہنایا نیز اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے ان کے خوابیدہ ذہنوں کو جھنجھوڑنے کا کام کیا اور قوم کی ترقی کے لئے ذہنی آزادی کو بھی لازمی عنصر قرار دیا۔
سرسید پرعام طور سے یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ جس طرح سے مردوں یا نونہالانِ قوم کی تعلیم کے لئے فکر مند تھے ویسی کوشش اور فکر عورتوں کے تئیں ان کی نہیں تھی ۔یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے، لیکن یکسر اس کے منحرف تھے، غلط بلکہ بہتان تراشی سے عبارت ہے۔ وہ اس لیے کہ سرسید قوم کے عظیم رہنما تھے اور قوم کی ترقی کے لئے انھوں نے مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کے حقوق اور تعلیم کے لئے بھی آواز بلند کی ۔جہاں انھوں نے مسلمان قوم کی فلاح و بہبودی کے لئے عملی کوششیں کیں، وہیں دوسری طرف انھوں نے خواتین کی معاشرتی زندگی کی خرابیوں کو دور کرنے کے لئے جدو جہد کی اور حقوقِ اسلام کی روشنی میں اس بات پر زور دیا کہ مرد عورتوں کے تئیں سنجیدگی اختیار کریں اور ان کے حقوق کی پاسبانی کریں۔ْ سرسید کی یہ دلچسپی صرف مسلم معاشرے کی عورتوں تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ انھوں نے غیر مسلم خواتین کی گھریلو و معاشرتی زندگی کا بھی جائزہ لیا اور خواتین کے تئیں سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں کو دور کرنے لئے اپنی عملی سرگرمیوں کے ذریعہ اہل ہند کو متوجہ کیا۔
سر سید نے عورتوں کے سماجی و معاشرتی حقوق اور بے جا رسومات کے خلاف آواز بلند کی ،جس کی وجہ سے سماج میں خواتین کی زندگی اجیرن بنی ہوئی تھی۔سر سید نے خواتین کی فلاح و بہبودی کے مسائل کو حل کرنے کی بھرپور سعی کی۔ اپنے متعدد مضامین اور تقریروں کے ذریعے ان کے مسائل پر اظہار خیال کیا۔ انھوں نے بیوہ عورتوں کے نکاح ثانی کی حمایت کی ،حالانکہ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں میں بیواؤں کی دوبارہ شادی کرنے کو معیوب سمجھا جاتا تھا لیکن مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ بھی اس سے متاثر ہوا ۔ اس سلسلے میں سرسید نے باقاعدہ ایک مضمون ’’ بیوہ عورتوں کا نکاح نہ کرنے کا نتیجہ ‘‘ کے عنوان سے تحریر کیا اور اسلامی قوانین کی روشنی میں یہ حقیقت واضح کی کہ مذہب اسلام نکاحِ بیوگان کی نہ صرف اجازت دیتا ہے بلکہ بیواؤں کے تئیں حسنِ سلوک کا بھی درس دیتا ہے۔
جیسا کہ میں نے ذکر کیا کہ سرسید کو جدید تعلیم کی ترغیب کی وجہ سے مسلمانوں کے ایک بڑے طبقہ کی جانب سے مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑاتھا۔ یہاں تک کہ مولویوں نے فتویٰ جاری کیا کہ انگریزی تعلیم حاصل کرنا کفر ہے ۔اب ایسے وقت میں جبکہ لڑکوں کے تعلیم حاصل کرنے کے ہی لالے پڑے ہوئے تھے، تو سرسید لڑکیوں کی تعلیم کا معاملہ اٹھاکر اپنے تعلیمی مشن کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔ وہ تعلیم کا بہت ہی وسیع تصور رکھتے تھے اور لڑکیوں کی تعلیم کے دل سے خواہاں تھے نیز تعلیم نسواں کو قوم کی ترقی کے لئے ضروری خیال کرتے تھے۔ تعلیم نسواں سے متعلق سرسید اپنے خیالات کی ترجمانی اور لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف الزامات کا جواب دیتے ہوئے ایک تقریر میں فرماتے ہیں:
’’ یہ الزام کہ میں عورتوں کی تعلیم سے کنارہ کش ہوں محض غلط ہے ۔وہ یہ نہیں سمجھتے کہ میری رائے میں عورتوں کی تعلیم کا ذریعہ مرد ہوں گے ۔اگر مردوں کی تعلیم نہ ہو تو نہ استانیاں ہونگی نہ کوئی سامان عورتوں کی تعلیم کا ہوگا۔جب مرد لائق ہو جائیں گے سب ذریعہ پیدا کرلیں گے۔ گھر کی عورتیں بھی لائق ہو جاویں گی اور استانیاں بھی پیدا ہو جاویں گی۔‘‘ ۲؂
سر سید کے تعلیم نسواں سے متعلق تصورات اور سرگرمیوں کی وضاحت کے لئے درج ذیل نکات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔
۱۔’’ مذہبی ماحول میں پرورش وپرداخت اور وقت کے اکابر علماء کی حاشیہ نشینی کی بدولت انھیں ایمان و اسلام سے گہری وابستگی تھی۔ وہ محض پردے کے قائل ہی نہیں بلکہ مداح و نقیب بھی تھے۔
۲۔ مرد اور عورت دونوں ہی تعمیر معاشرہ کے ذمہ دار ہیں۔ اس لیے مطلوبہ صلاحیتوں کو جلا دینے کے لئے دونوں ہی مکلّف ہیں۔ ہاں مردوں کی تعلیم و تربیت کو اس لحاظ سے فوقیت حاصل ہے کہ اگر یہ لوگ زیور ِتعلیم سے آراستہ ہوجائیں تو عورتوں کو اس مقدس مشن میں بآسانی مصروف عمل رکھا جا سکتا ہے۔
۳ ۔ عورت کی مخصوص فطرت، اس کی حیثیت اور اس کے تقاضوں کے مطابق تعلیم اشد ترین ضرورت ہے، لیکن روحانیت وہ مرکزی جوہر ہے جس کے بغیر وہ اپنی مخصوص ذمہ داریوں سے عہدہ بر نہیں ہو سکتی اس طرح وہ کامیابی کی شاہراہ سے دور ہوجاتی ہے اور معراج انسانیت سے ہمکنار نہیں ہو پاتی۔‘‘ ۳؂
سر سید نے جب مختلف تجربات پر غور و فکر کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ قوم کو ذلت و پستی سے نکلنے کے لئے جدید تعلیم حاصل کرنا اشد ضروری ہے تو انھوں نے اس دور کے تعلیمی نظام کا بھی بغور مطالعہ کیا اور اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے جی جان سے جٹ گئے۔ انگلستان کے سفر کے دوران انھوں نے جہاں زندگی کے دیگر مظاہر کو دیکھا ،وہیں یوروپین خواتین کی حالت کو دیکھکر بیحد متاثر ہوئے کہ کس طرح یہ خواتین مردوں کے دوش بدوش زندگی کے کاروبار میں ان کا ہاتھ بٹا رہی ہیں۔
سفر لندن کے دوران سرسید بالخصوص اپنے ملک و قوم کی خواتین کی پسماندہ حالت کو لے کر زیادہ فکر مند ہوئے کیونکہ مردوں سے بھی زیادہ عورتیں ابتری کا شکار تھیں۔ایسے میں انھیں اپنے ملک کی عورتوں کی حالتِ زار کے بارے میں سوچ کر انتہائی دکھ ہوتاتھا۔ لکھتے ہیں:
’’ اگر ہندوستان میں کوئی عورت بالکل برہنہ بازار میں پھرنے لگے تو ہمارے ہم وطنوں کو کیسا تعجب اور کس قدر حیرت ہوگی بلا مبالغہ یہ مثال ہے کہ جب یہاں کی عورتیں یہ سنتی ہیں کہ ہندوستان کی عورتیں پڑھنا لکھنا نہیں جانتیں اور حلیہ تربیت اور زیور تعلیم سے بالکل برہنہ ہیں تو ان کو ایسا ہی تعجب ہوتا ہے اور کمال نفرت اور کمال حقارت ان کے خیال میں گذرتی ہے۔‘‘ ۴؂
سفر انگلستان کے دوران بڑودہ دخانی جہاز میں سر سید کی ملاقات مس میری کارپینٹر سے ہوئی ،جو برسٹل کی رہنے والی تھیں۔ مس کار پنیٹرنے تعلیم نسواں کے فروغ کے سلسلے میں مختلف اوقات میں ہندوستان کا دورہ کیا تھا۔ انہوں نے کلکتہ و بمبئی میں لڑکیوں کے لئے نارمل اسکول بھی قائم کیے تھے۔ سر سید مس کارپینٹر سے مل کر ان کی شخصیت اور کام سے بہت خوش ہوئے ۔خواتین کی تعلیم کے سلسلے میں مس کار پینٹر کی سرگرمیوں کو سراہتے ہوئے سر سید نے ان کی نوٹ بک میں اپنے تاثرات کا اظہار ان الفاظ میں کیا:
’’ان (مس کارپینٹر) کی عالیٰ ہمتی اور بلند نظری اور تہذیب، اخلاق اور نیک نیتی کا مثبت خود وہی مضمون ہے جو انھوں نے اختیار کیا ہے یعنی اس گروہ کی تعلیم میں جس کوخدائے تعالیٰ نے مرد کے لئے بطور دوسرے ہاتھ کے بنایا ہے۔۔۔ بہر حال میں خدا سے چاہتا ہوں کہ مس کارپینٹر صاحبہ کی کوشش کامیاب ہو اور ہندوستان میں کیا مرد کیا عورت سچائی اور علم کی روشنی سے جو دونوں اصل میں ایک ہیں روشن ضمیری حاصل کریں۔‘‘ ۵؂
سر سید نے جب انگلستان کا دورہ کیا تو ایسی خواتین کو دیکھکر بیحد متاثرہوئے جو حسنِ اخلاق، بہترین طرز ِمعاشرت اور اعلیٰ قسم کے زیورِ تعلیم سے آراستہ تھیں اور زندگی کے تقریباً تمام شعبوں میں مردوں کے شانہ بشانہ سرگرمِِ عمل دکھائی دیں۔ انگلستان کے سفر کے دوران ایک مسلم آیاکی طرزِ زندگی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ اس کا نام نصیباً تھا جو کانپور کی رہنے والی پٹھان تھی۔ اس کا بیان ہے کہ وہ اکیسویں مرتبہ یوروپ آئی ہے۔ ہمیشہ انگریزوں اور ان کے بچوں کو ٹھیکہ پر ولایت پہنچانے آتی ہے اور پہنچاکر چلی جاتی ہے۔ انگریزی بخوبی بولتی ہے۔ انگلینڈ،آئرلینڈ، فرانس، پرتگال اور دیگر مقامات اس نے دیکھے ہیں۔ سرسید نے اس کو دیکھکر کہا کہ’’ وہ بھی سوئز نہر سے کچھ کم عجیب نہیں‘‘ اور دل ہی دل میں کہا کہ ’’ شاباش تو تو مردوں سے بھی اچھی ہے۔‘‘ ۶؂
لندن میں اپنے سترہ (۱۷) ماہ کے قیام کے دوران سرسید جہاں انگریزخواتین کی تعلیم و تربیت کے دلدادہ نظر آئے ،وہیں مصر اور ترکی کی مسلم خواتین کی تہذیب و شائستگی پر باغ باغ ہو جاتے ہیں۔ مصر کی ایک مسلمان لڑکی کے بارے میں تحریر کرتے ہیں:
’’ روم اور مصر دونوں میں روز بروز تعلیم کی ترقی ہے، عورتیں بھی روز بروز بہت زیادہ پڑھی لکھی ہوتی جاتی ہیں ۔ مصر کی ایک مسلمان لڑکی کا میں نے حال سنا ہے کہ سوائے عربی زبان کے جو اس کی اصل زبان ہے اور جس میں وہ نہایت فصاحت سے لکھتی پڑھتی ہے۔ فرنچ زبان بھی نہایت خوب بولتی ہے اورلیٹن اس قدر جانتی ہے کہ جو مضمون یا شعر اس کے سامنے رکھا جائے اس کو پڑھ لیتی ہے اور مضمون سمجھ لیتی ہے۔‘‘۷؂
سر سید جب تک لندن میں رہے وہ قوم کی ترقی کے منصوبے بناتے رہے۔ انھوں نے لندن میں اسپیکٹیٹر اور ٹیٹلر کا مطالعہ بھی کیا۔ انھیں دو رسالوں سے متاثر ہوکر انھوں نے ۱۸۷۰ء میں تہذیب الاخلاق شائع کیا۔ SpectatorاورTatlorوہ جریدے تھے جن کی اشاعت نے لندن کے جامدِنظامِِ حیات میں ہلچل مچادی اور اخلاقی، تعلیمی اور سماجی حیثیت سے اصلاح کا کام کیا۔ اٹھارہویں صدی تک انگلینڈ ذہنی اور تعلیمی حیثیت سے بہت پسماندہ تھا۔ اس زمانے میں عورتوں کی تعلیم مذموم سمجھی جاتی تھی۔ان پرچوں نے تعلیم نسواں کی حمایت کی اور تمام سماجی برائیوں کا خاتمہ کرنے کی سعی بھی کی۔ خود سرسید تہذیب الاخلاق میں لکھتے ہیں کہ:
’’ اان پرچوں کے جاری ہونے سے انگریزوں کے اخلاق و عادات اور دین داری کو نہایت فائدہ پہنچا۔۔۔ اسی مضمون میں سر سید آگے لکھتے ہیں کہ : عورت کا پڑھا لکھا ہونا اس کی بدنامی کا باعث ہوتا تھا۔ اشرافوں کے جلسوں میں امورات سلطنت کی باتیں ہوتیں تھیں اور عورتیں آپس میں ایک دوسرے کی بدگوئی کیا کرتی تھیں۔ قسموں پر قسمیں کھانا اور خلاف تہذیب باتیں کرناگویا ایک بڑی وضع داری گنی جاتی تھی۔ قمار بازی اور شراب خوری کی کچھ حد نہ تھی۔‘‘ ۸؂
۱۸۸۸ء لاہور میں مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے تیسرے سالانہ جلسہ کا انعقاد کیاگیاا۔ اس موقع پر سرسید تعلیم ِنسواں کے حوالے سے فرماتے ہیں:
’’ میں نے لندن میں اپنے دوستوں کی مہربانی سے ایسے زنانہ مدرسوں کو جہاں اشرافیاں لڑکیاں پڑھتی اور رہتی ہیں دیکھا ہے۔ آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جو حالت عمدگی، طمانیت اور تعلیم و تربیت ان مدرسوں میں ہے ہندوستان کو وہاں تک پہنچنے کے لیے ابھی سینکڑوں برس درکار ہیں۔‘‘ ۹؂
سفر پنجاب کے دوران خاتونان ِپنجاب کے ذریعے سرسید کو جو ایڈریس پیش کیاگیا اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ اے میری بہنو!میں اپنی قوم کی مستورات کی بہت زیادہ قدر کرتا ہوں۔ ہماری قوم کے مردوں نے اپنے باب دادا کی بزرگی کو خاک میں ملا دیا ہے مگر خدا کے فضل سے تم میں ہمارے باپ دادا کے بزرگ نشان بدستور موجود ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ہم مردوں میں شبلی اور جنید موجود نہیں مگر خدا کا شکر ہے کہ تم میں ہزاروں لاکھوں رابعہ بصری موجود ہیں۔‘‘ ۱۰؂
محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے تیسرے سالانہ اجلاس میں تعلیمِ نسواں سے متعلق اپنے مقصد کو ان الفاظ میں واضح کرتے ہیں:
’’ اس وقت میں اس باب میں طویل گفتگو نہیں کرناچاہتا۔ صرف یہ بات کہتا ہوں کہ ریزولیوشن میں زنانہ مدارس جاری کرنے کا ذکر نہیں ہے ۔بلکہ زنانہ مکتب کا ذکر ہے اور اس کے ساتھ یہ قید بھی ہیکہ جو مذہب اسلام اور طریقہء شرفائے اہل اسلام کے مطابق اور اس کے مناسب ہو۔ پس جب یہ قیدیں ریزولیوشن میں موجود ہیں تو اس کے منظور کرنے میں کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔‘‘ ۱۱؂
تعلیم و تربیت اور حسن اخلاق وغیرہ سے متعلق سرسید کے افکار و نظریات کی عکاسی توقیر عالم فلاحی اپنے مضمون ’’ تعلیم نسواں سے متعلق سرسیدکا نقطہء نظر میں ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’ تربیت اخلاق تعلیم کی اصل روح ہے۔ سرسید کی تعلیمی تحریک کے جائزے میں یہ امر پیش نظر رکھنا چاہئے کہ ان کے نزدیک وہ تعلیم مردہ جسم کی طرح ہے جو تربیت سے خالی اور اخلاق سے عاری ہو ۔یہی وجہ ہے کہ وہ لڑکو ں کے لئے ایک ہاتھ میں فلسفہ دوسرے ہاتھ میں نیچرل سائنس اور سر پر لاالہ الاﷲ کے تاج کو شانِ امتیاز قرار دیتے ہیں اور لڑکیوں کے لئے ان کی مخصوص فطرت اور اس کے مطابق ذمہ داریوں کی انجام دہی کے پیش نظر خدا ترسی، وفا شعاری، شوہروں کی اطاعت و فرمانبرداری اور تربیت اولاد جیسی خصوصیات کو زیور ِنسوانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔‘‘ ۱۲؂
مندرجہ بالا اقتباسات اورسطور کے درون میں جھانک کر دیکھا جائے جائے تو وہ جہاں مردوں کی تعلیم کے قائل نظر آتے ہیں وہاں عورتوں کے حوالے سے ان کا یہ نظریہ ہے کہ وہ جدیدتعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دیں اور شوہر کے تئیں وفاداری اور تربیت ِاطفال کو اپنا فریضہ سمجھیں۔ْ وہ اس لئے کہ ’’ وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ سرسید خواتین کے لئے ایسی تعلیم کے خواہاں تھے، جس میں خواتین پردہ کی پابندی کے ساتھ اپنی تعلیم پر خصوصی دھیان دیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ سلسلہ سر سید اور عہد سرسید سے شروع ہوتا ہے۔ دیکھا جائے یعنی ماضی پر نگاہ ڈالی جائے تو اس کا سلسلہ پنچ تنتر اور ہتوپدیش تک پہنچتا ہے۔
مصادر:
۱:محمد قمرالدین نانپوری: تعلیم نسواں سرسید کے حوالے سے، تہذیب الاخلاق
اکتوبر ۲۰۰۵ جلد ۲۴ شمارہ ۱۰
۲۔توقیر عالم فلاحی۔ بحوالہ سرسید کا اصلاحی مشن، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علیگڑھ ص ۱۳۱
۳۔توقیر عالم فلاحی: تعلیم نسواں سے متعلق سرسید کا نقطہء نظر، تہذیب الاخلاق ۱۹۹۹ء
جلد ۱۸ شمارہ ۱۰ ص ۶۷
۴۔راحت ابرار: بحوالہ تعلیم نسواں کے سو سال، ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس، دہلی ۶
۲۰۱۱ء ص ۲۶
۵۔ظفرالاسلام اصلاحی: سرسید اور عورتوں کی فلاح و بہبود کے مسائل، تہذیب الاخلاق
۲۰۰۸ء ، جلد ۲۷ شمارہ ۱۰ ص ۲۹
۶۔راحت ابرا: بحوالہ مسلم تعلیم نسواں کے سو سال۔ ص ۲۴
۷۔ایضاً
۸۔ایضاً
۹۔ایضاً
۱۰۔سید اقبال علی، سرسید کا سفر نامہ پنجاب، مرتبہ شیخ محمد اسمعیل پانی پتی، ایجوکیشنل
پبلیشنگ ہاؤس، دہلی ۔ ۶ ص۱۴۲
۱۱۔توقیر عالم فلاحی: بحوالہ سرسید کا اصلاحی مشن۔ ایجوکیشنل بک ہاؤس ، علیگڑھ
ص ۱۳۲
۱۲۔توقیر عالم فلاحی: تعلیم نسواں سے متعلق سر سید کا نقطہء نظر، تہذیب الاخلاق،
اکتوبر ۱۹۹۹ء جلد ۱۱ شمارہ ۱۰ ص ۷۱
٭٭٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.