انتظار حسین کا تخلیقی انفراد

 عرفان رشید

ریسرچ اسکالر شعبۂ اُردوکشمیریونیورسٹی

Intezaar Husain ka Takhleeqi Inferad
by: Irfan Rasheed

irfanrasheedf@gmail.com,
9622701103

انتظار حسین اُردو افسانے کی ایک اہم اور مضبوط کڑی ہے۔انہوں نے جس زمانے میں اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا وہ شکست و ریخت کا دور تھا ایک طرف تقسیمِ ہند کا المیہ پورے زوروں پر تھا تو دوسرے طرف ترقی پسند تحریک کا شیرازہ بکھر رہا تھا۔لیکن انتظار حسین نے نہ صرف ترقی پسند تحریک کے سکہ بند اصولوں کی زنجیر کو توڑا بلکہ ایک نئے رجحان یعنی جدیدیت کے تحت اپنے افسانے کے پہچ وخم کو سنوارنے کی کوشش کی۔بیسویں صدی کے پانچویں دہائی میں انہوں نے ایک افسانہ’’قیوما کی دکان‘‘ کے ساتھ اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا اور ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’ گلی کوچے‘‘ ۱۹۹۱ء۔۱۹۵۳ کے درمیان باضابطہ طور پر منظر ِ عام پر آگیا۔
انتظار حسین ایک ایسے فنکار ہیں جنہوں نے اپنے منفرد اسلوبِ بیان کے ذریعے اُردو افسانے کو ایک وسعت عطا کی۔ ان کی جہت و افکار کو سمجھنا عام قاری کے لئے بہت ہی دشوار ہو جاتاہے انہوں نے ایک ایسا فنکارانہ اسلوب یا پیرایۂ اظہار اختیا ر کیا جس کی وجہ سے ان کا افسانہ باذوق قاری کی تلقین کرتا ہے۔انہوں نے مغربی ہیئتوں کی وجہ سے اردو فکشن کو نئے رنگوں میں رنگنے کی کوشش کی لیکن ان ہیئتوں کو انہوں نے جوں کا توں استعمال نہیں کیا بلکہ مشرقی سانچوں کے ذریعے اُردو افسانے کو ایک نئی ڈگر پر لاکر کھڑا کر دیا ۔علامتی واستعاراتی،داستانوی،اساطیری ،دیومالایائی اسلوب سے افسانے کو مغرب کے جدید افسانے کے مقابل میں کھڑا کر دیا ان کے اس لاثانی اسلوب کے بارے میں مابعد جدید تھیوری کے ایک نامور ادیب گوپی چند نارنگ یوں رقمطراز ہیں:
’’انتظار حسین اس عہد کے اہم ترین افسانہ نگاروں میں سے ہیں۔اپنے پر تاثیر تمثیلی اسلوب کے ذریعے انہوں نے اردو افسانے کو نئے فنی اور معانیاتی امکانات سے آشنا کرایا ہے اور اُردو افسانے کا رشتہ بیک وقت داستان ،حکایت،مذہبی روایتوں ،قدیم اساطیر اور دیو مالا سے ملا دیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ناول اور افسانے کی مغربی ہیئتوں کی بہ نسبت داستانی انداز ہمارے اجتماعی لاشعور اور مزاج کا کئی زیادہ ساتھ دیتا ہے۔۔۔۔‘‘ ۱؂
اس اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انتظار حسین اپنے ہمعصر افسانہ نگاروں میں ایک ایسے تخلیق کار ہیں جنہوں نے اپنے اسلوب وبیان کی وجہ سے افسانے کارشتہ داستانوں ،اساطیر،جاتک کتھاؤں سے جوڑنے کی کوشش کی ہے انہوں نے حقیقت میں قدیم ہندوستانی حکایات کو نئے طرز اور نئے انداز کے تحت جدید رجحان کے ساتھ ہم آہنگ کیا۔
تحقیق نگار اس بات پر متفق ہیں کہ انتظار حسین کا مطالعہ بہت وسیع تھا انہیں روایت پر خاصی دسترس حاصل تھی قرآن شریف،احادیث مبارک،صوفیائے کرام کے ملفوظات،جاتک کتھا،رامائن،بدھ مت وغیرہ پر انہیں گہری نظر تھی اور ساتھ ہی ساتھ انہیں مغربی مفکرین کا مطالعہ بھی تھا خاص طور پر چیخوف اور کافکا کا اثر ان کے افسانوں میں جھلکتا ہوا نظر آتا ہے انہوں نے کافکا کو اُردو میں ترجمہ کیا۔ان کی ایک مشہور فکشن تحریر (Metamarphosis) جیسا اُردو میں’’کایا کلپ‘‘ کے نام سے اُردو میں لکھا اس حوالے سے ڈاکٹر فوزیہ اسلم یوں گویا ہوئی ہیں:
’’انتظار حسین اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ ان کے فن پرکافکا کا اسلوب نمایا ں ہیں۔لیکن ان کے بعض افسانوں خاص طور پر کایا کلپ کی تفہیم کافکا کے زیرِ اثرہی ہو سکتی ہیں۔‘‘ ۲؂
انتظار حسین کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ تقسیمِ ہند تھا جو بعد میں ان کے افسانوں کا ایک اہم موضوع رہا۔ہندوستان سے پاکستان چلے جانے کے بعد انہیں اس بات کا صدمہ مرتے دم تک رہا ہے کہ ملک کیوں کر تقسیم ہوا انہیں اپنے اسلاف اور جدواجداد کی وراثت سے کٹ جانے کا غم کھائے جا رہا تھا۔پاکستان میں رہ کر بھی ان کی افسانوی فضا میں ہندوستان کے کھیت کھلیان رقص کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ہجرت کا کرب ان کے افسانوں کا بنیادی موضوع رہا ہے اس نوعیت کے افسانوں میں ہندوستان سے ایک خط،نرناری،وہ جو کھوئے گئے،شہرِ افسوس وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔تقسیم نے نہ صرف ہندوستان اور پاکستان کو الگ الگ کیا بلکہ دلوں کے درمیان بھی دوریاں پیدا کر دی،انسان انسانیت کا دشمن بن گیا یعنی ہر طرح کا ظلم و ستم عام تھا اسی نوعیت کا ایک افسانہ ’’ہندوستان سے ایک خط‘‘ میں افسانہ نگار نے ایک ایسے خاندان کا نقشہ کھینچا ہے جو تقسیم کے دوران پاکستان ،ہندوستان،بنگلہ دیش یعنی تین حصوں میں بٹ جاتا ہے یہاں مثال کے طور پر افسانے کے چند سطور پیش ہیں:
’’اب جبکہ بڑوں کا سایہ سر سے اُٹھ چکا ہے اور ہمارا خاندان ہندوستان اور پاکستان اور بنگلہ دیش میں بٹ کر بکھر گیا ہے اور میں لبِ گور بیٹھا ہوں،سوچتا ہوں کہ میرے پاس جو امانت ہے اسے تم تک منتقل کر دوں کہ اب تم ہی اس خاندان کے بڑے ہو ۔‘‘ ۳؂
مذکورہ بالا اقتباس سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ کس طرح سے تقسیم نے ایک خاندان کو تین جگہوں پر منتقل ہونے کے لئے مجبور کر دیا۔
انتظار حسین کی افسانہ نگاری کا ایک اہم پہلو ماضی کی بازیافت بھی ہے۔انہین ماضی سے گہرا لگاؤ تھا۔انہوں نے روایت سے خام مواد جمع کرکے نئے افسانے کو مستحکم بنانے کی کوشش کی ہے ان کے نزدیک انسان حال کو اپنے ماضی کے ذریعے بسر کرتا ہے،انہیں ماضی سے محبت تھی اور اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ دورِ عتیق میں انسان اور اس کا معاشرہ ان پیچیدگیوں کا حامل نہیں تھا جو عصر حاضر کے صنعتی کلچر کی پیدا وار ہیں۔انتظار حسین اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ عصر حاضر کا انسان شخص ایوان کھو چکا ہے اور اس کی شناخت اور بحالی کے لیے اس سے ماضی میں لے جانا ضروری ہے ۔ماضی کی بازگشت کے تعلق سے گوپی چندنارنگ یوں لکھتے ہیں:
’ـ’ انتظار حسین کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنے سارے وجود کو یقینی شعور ،لاشعور ،حافظے وعقیدے اور تجربے و مشاہدے کو تخلیقی نقطے پر مرتکز کرسکتے ہیں۔۔۔وہ ان یادوں اور خوابوں کو واپس لانے کی سعی کرتے ہیں جو ماضی میں انسان کی مسرتوں اور اس کی خوشیوں میں بسے ہوئے تھے ،اور عہد حاضر کی یلغار میں یکایک غائب ہوگئے ۔وہ ان یادوں کو کھیل کے میدانوں سے بھاگے ہوئے بچوں کی طرح پکڑ پکڑ کرلاتے ہیں اور سب جمع ہو کر دھماچوکڑی مچاتے ہیں انتطار حسین کہتے ہیں کہ انسان چونکہ یادیں رکھتا ہے اس لیے ہے ‘‘ ۴؂
اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انتظار حسین کو روایت اور اسلاف سے محبت تھی انہیں سماجی بکھراو،ماضی سے کٹ جانے کا غم،قدروں کی پامالی ،شکست وریخت سے دل بھر گیا ہے اور یہی وجہ تھی وہ روایت میں کھوجانے کی کوشش کرتا ہے انہوں نے خاص طور پر اسلامی روایت کو کھنگالنے کی از حد کوشش کی جس کا اندازہ افسانہ ’’کشتی ‘‘ سے ہوتا ہے ۔اس افسانے میں انہوں نے حضرت نوحؑ اور اس کے قوم کی داستان کو اپنے لب ولہجے کے تحت ایک منفرد انداز میں پیش کیاہے ۔مثال کے طور پر ایک بند ملاحظہ کیجیے :
’’ حضرت نے بیٹے کی بات سن کر کہا کہ اے مرے بیٹے دیکھ یہ قہر کا دن ہے ۔سو انسان حیوان سب ایک کشتی میں سوار ہیں کہ طوفان بے امان ہے اور زندگی کی ضمانت ا س کشتی کے سوا کہیں نہیں ہے ۔‘‘ ۵؂
انتظار حسین باربار اپنے قارئیں کو ماضی کی طرف لے جانے کی کوشش میں لگے رہتے تھے انہیں اس بات کا یقین تھا کہ موجودہ مسائل اور بربادی کا حل ماضی میں چھپا ہوا ہے اس لیے ان کی افسانوں میں ماضی کی بازگشت کا پہلو بھی نمایاں ہیں۔
انتظار حسین کے تخلیقی جہت کو ہم چار ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں یعنی اوّل معاشرتی یادوں کی کہانی،دوم انسان کے اخلاق کی روحانی زوال اور وجودی مسائل کی کہانیاں،سوم سماجی و سیاسی مسائل کی کہانیاں اور چہارم نفسیاتی کہانیاں و دیومالائی کہانیاں۔ان کے یہاں موضوعات کا تنوع دیکھنے کو ملتا ہے ۔ کہیں ان کے یہاں ہجرت کا کرب ، علیحیدگی ، اجنبیت ، افسردگی ، بے گانگی ،کرب و اضطراب ، مشینی اور صنعتی نظام ، قدروں کی پامالی ، سماجی بکھراؤ ، استحصال ، شکست و ریخت ، حالات کا جبر وغیرہ جیسے موضوعات در آئے ہیں ۔
انتظار حسین نے جس معاشرے میں آنکھ کھولی وہ تحریکات و رجحانات کا دور تھا ۔ انھوں نے ترقی پسند تحریک سے مابعد جدید دور تک کا سفر بڑے ہی منفرد انداز میں طے کیا لیکن انھوں نے اپنا ایک الگ اور نیا انداز اپنا کر افسانے کو بہت آگے لے لیا ۔ ان کا ڈکشن ہمارے داستانوں ، جاتک کتھاوؤں ، رام لیلا ، اساطیر سے سفر کرتے ہوئے عصر حاضر کے موضوعات میں ہم آہنگ ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ انہیں اس بات کا اندازہ ہوگیا تھا کہ موجودہ انسان اس صارفیت کے دور میں ایک مشین کا رول نبھا رہا ہے اس سارے میں وہ اپنی میراث سے کوسوں دور بھاگتا ہوا نظر آتا ہے ۔ اس لیے کبھی وہ اسے زرد کتا کا نام دیتا ہے اور کبھی آخری آدمی کہہ کر پکارتا ہے ۔ انہوں نے داستانوی اسلوب سے باصرہ کے ساتھ ساتھ سامع کو پھر سے بیدار کیا اور کہانی کی روایت سنانے جانے والی روایت کا ازسرنو اضافہ کیا ہے ان کے نزدیک فرد کی پہچان تاریخ اور تہذیب کے حوالے کے بغیر ممکن نہیں ہے انہوں نے ٹی ایس ایلیٹ کی طرح تہذیب و ثقافت کو بنیادی چیز قرار دیا ۔ ایلیٹ اپنے ایک مضمون traditional and individual talent میں یوں لکھتے ہیں :
you can not avoid tradition while writting any literature
انہوں نے انسان کے اخلاقی اور روحانی زوال کو اپنے افسانوی انداز میں آخری آدمی اور زرد کتا جیسے افسانوں میں پیش کیا ہے ۔ آخری آدمی کا موضوع انہوں نے قرآن شریف سے اخذ کیا ہے یعنی سورۃ اعراف اور سورۃ البقرہ سے مستعار لیا ہے ۔ مثال کے طور پر سورۃ البقرہ کی یہ آیت ( ترجمہ )
’’ پھر تمہیں قوم کے ان لوگوں کا قصہ تو معلوم ہی ہے جنہوں نے سبت کا قانون توڑا تھا ہم نے انہیں کہہ دیا کہ بندر بن جاؤ اور اس حال میں رہو کہ ہر طرف سے تم پر دھتکار پھٹکار پڑھے ۔۔۔)(آیت نمبر ۶۵ )
آخری آدمی کا خام مواد اسلوب و بیان اور ماحول یقیناانہوں نے آسمانی صحائف سے مستعار لیا ہے۔ افسانہ آخری آدمی میں انہوں نے عصر حاضر کے انسان کو باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ آپ سے پہلے بھی امتیں گزریں ہیں جنہوں نے اپنے رب سے کبھی دھوکا کیا تھا وار تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا ۔ ( جیسے قوم موسیٰ ، قوم عود ، قوم سمود ااور قوم نوح وغیرہ ) اور دوسرا ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ انسان اپنی داخلی جبلتوں سے گناہ کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے اور یہ کہ انسان isolate یعنی اکیلا نہیں رہ سکتا وہ identity crises کا شکار ہو سکتا ہے ان کے لیے معاشرہ لازم و ملزوم ہے ۔ اس افسانے کے حوالے سے ابوالکلام قاسمی لکھتے ہیں :
’’ آخری آدمی میں انتظار حسین کا بنیادی مسئلہ اخراج بشریت ہے ۔ ۔۔۔ ان اسباب و علل کی نفی کرنا اور داخلی حیوانی جبلتوں اور خارج کے منفی محرکات کے خلاف نبرد آزما رہنا ہی آدمی کے لیے اپنی حیثیت کو برقرار رکھنے اور اخلاقی امتیازات کو قائم رکھنے کا سہارا ثابت ہوتا ہے ۔ افسانہ نگار فنکارانہ چابکدستی سے ایک روایتی حقایت کو لمحاتی واقعات سے نکال کر غیر زمانی اور غیر مکانی صداقت کا حصہ بنا دیتا ہے ۔ ۔۔‘‘ ۶؂
اس افسانے کو پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ افسانہ نگار کو کس حد تک فن پر دسترس حاصل ہے اور کس طرح سے انہوں نے عربی لب و لہجہ کو اپنے انداز اور جدید تر تکنیک کے حوالے سے اپنی روایت کو عصر حاضر کے تقاضوں سے ملانے کی کوشش کی ۔
اسی نوعیت کا دوسرا افسانہ زرد کتا ہے جس میں انہوں نے صوفیائی کرام کے ملفوظات اور تعلیمات کے ذریعے انسان کے روحانی زوال کو علامتی انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس کا بنیادی موضوع باطنی زوال ہے ۔ اور اس دور کے روحانی مسائل کو صوفیا کے تعلیمات کے ذریعے دور کرنے کی کوشش کی ۔ اس حوالے سے ایک بند ملاحظہ کیجئے :
’’ یا شیخ قوت پرواز آپ کو کیسے حاصل ہوئی ؟ فرمایا :
عثمان نے طمع دنیا سے منہ موڑ لیا اور پستی سے اوپر اٹھ گیا ۔ عرض کیا : یا شیخ طمع دنیا کیا ہے ؟
فرمایا :طمع دنیا تیرا نفس ہے ۔ عرض کیا : نفس کیا ہے ؟ اس پر آپ نے یہ قصہ سنایا : ۔۔۔یا شیخ زرد کتا کیا ہے ؟ فرمایا :
زرد کتا تیرا نفس ہے ۔ میں نے پوچھا : یا شیخ نفس کیا ہے ؟ـ فرمایا : طمع دنیا ‘‘
مذکورہ بالا اقتباس سے ہمارے جدید معاشرے کا نقشہ اس طرح کھینچ جاتا ہے جس میں برائی وبا کی طرح پھیلی ہوئی ہے اور انسان کتنا بھی متقی اور پرہیز گار کیوں نہ ہو اپنے حالات و اقعات سے متاثر ہو ہی جاتا ہے اور خاص طور پر اس صارفیت نے انسان کو انسانیت سے محروم کردیا اور وہ خود کو ایک race میں دیکھنا چاہتا ہے ۔
انتظار حسین کی انفرادیت اس بات سے بھی ہے کہ انہوں نے ہند اسلامی تہذیب کو اپنے افسانوں میں پرونی کی کوشش کی ۔ ان کا نقطۂ نظر کافی وسیع اور گہرا تھا ۔ وہ انسان کے خارجی زندگی کے ساتھ ساتھ ان کے نہاں خانوں میں بھی سفر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔وہ اس طرح سے کہانی کا تانا بانا بنتے ہیں کہ خارجی سطح پر کوئی عام کہانی معلوم ہوتی ہے لیکن اندرونی سطح پر ایک عظیم ماضی کے تسلسل کے اظہار کی داستان معلوم ہوتی ہے ۔ ان کے تمثیلی اور علامتی انداز کو معنی کی تکثیریت حاصل ہے ۔ ان کی فنی نفرادیت سے متعلق گوپی چند نارنگ یوں رقمطراز ہیں :
’’ انتظار حسین کا فن آج کے کھوئی انسان یقین کی تلاش کا فن اس لیے ہے تاکہ مستقبل کا انسان اپنی آگہی حاصل کر سکے اور اپنی زات کو برقرار رکھ سکے ۔ اس کے لیے انہیں پرانے عہد نامے ، انجیل ، قصص الانبیا ، دیو مالا ، بودھ جاتکا ، پرانوں ، داستانوں اور صوفیا کے ملفوظات سب سے استفادہ کرنا پڑا ہے اور نتیجتاً ایسا انداز اظہار وجود میں آیا جو خاص ان کا اپنا ہے ۔ ‘‘ ۷؂
مذکورہ بالا اقتباسات سے اندازہ ہوجاتاہے کہ انتظار حسین کس طرح سے اپنے ہم عصر افسانہ نگاروں میں ایک علیحدہ جہاں کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
مجموعی طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انتظار حسین اپنے اندر ایک تحریک ہیں ، جس نے اپنے منفرد اسلوب ، ہئیت اور تکنیک کے ذریعے اُردو فکشن کو ایک نئی روش عطا کی اور جدید اور مابعد جدید افسانہ جن تقاضوں کی تلقین کرتا ہے اس سب کو انہوں نے بخوبی نبھانے کی کوشش کی ہے ۔ نئی صورت حال کے پیچیدہ اور غیر رسمی روایتی موضوعات اور مسائل کا اظہار اپنے منفرد لب و لہجہ کے مطابق ڈھال دیا ۔ روایت نے اظہار و بیان کے جوسانچے فراہم کئے تھے وہ انھیں فرسودہ نظر آئے ۔ اس لیے انہوں نے اپنا ایک نیا انداز بیان ایجاد کیا جس کی وجہ سے وہ ادبی دنیا میں ایک انفرادیت حاصل کر گئے ۔

حواشی:
۱؂ گوپی چند نارنگ،پیش لفظ،انتظار حسین اور ان کے افسانے،ص:۵
۲؂ ڈاکٹر فوزیہ اسلم’’اُردو فسانے میں اسلوب اور تکنیک کے تجربات ،ص:۴۰۴،اشاعت ۲۰۰۹
۳؂ افسانہ ’’ہندوستان سے ایک خط‘‘ انتظار حسین اور ان کے افسانے ،مرتب گوپی چند نارنگ،ص:۱۱۰
۴؂ گوپی چند نارنگ،انتظار حسین کا فن مشمولہ انتظار حسین ایک دبستان،ص:۱۵۵ سنہ اشاعت ۱۹۹۶
۵؂ افسانہ ’’کشتی‘‘ ص : ۲۳۲
۶؂ ابوالکلام قاسمی،’’ آخری آدمی،مشمولہ انتظار حسین ایک دبستان ،ص: ۵۲۲
۷؂ افسانہ ’’زرد کتا ‘‘ ص:۱۴۹
۸؂ گوپی چند نارنگ در،انتظار حسین،جدید اُردو افسانوں میں احتجاج کی بازگشت،ص:۷۷،سنہ اشاعت ۲۰۰۳
٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.