کلیم عاجز کی ایک غزل:مزاج عشق ہم رنگ

ڈاکٹر محمد مقیم

اے؍۱۰، بٹلا ہاؤس چوک

اوکھلا، نئی دہلی۔۱۱۰۰۲۵

مزاج عشق ہم رنگ مزاج حسن تو کردے

غلام آرزو بن جا نہ ترک آرزو کردے

دل بے تاب تو بھی دھڑکنیں اپنی سنا دینا

نگاہِ شوق جب آغاز رسم گفتگو کردے

سن اے ہمدم میں ایسی خواہش درماں سے بعض آیا

مرے زخموں کو جو منت پذیر چارہ جو کردے

وہ پندار خودی جو بے خودی پہ حرف لاتا ہو

اسے اے دل سپرد آتش جام و سبو کردے

بھلا کیا واسطہ اس کو ہوس کی تلخ کامی سے

جسے تیری نظر لذت شناس آرزو کردے

مرے اشکوں کا ہے اک خاص انداز بیاں لیکن

کہیں برہم نہ تجھ کو یہ طریق گفتگو کردے

مرا یہ حوصلہ تھا تو ہی خنجر آزما ہوتا

تجھے یہ فکر ہے میری چھری میرا گلو کردے

غزل گوئی میں کچھ لطف غزل خوانی رہے عاجز

صداے ساز میں آمیزش سوز گلو کردے

………………………………

یوں تو کلیم عاجز کی شاعری روایت کی پاسداری اور پابندی کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ روایت ہی کے سرچشمے سے اس کی آبیاری ہوتی ہے، لیکن اس کا یہ مطلب بالکل نہیں ہے کہ کلیم عاجز کی روایتی شاعری جامد اور سراسر مقلدانہ ہے۔ روایت کی پاسداری اور اس منبع نور سے روشنی حاصل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایسی شاعری جو مضمون پر مضمون باندھنے کے عمل میں بھی اپنی جدت اور انفرادیت کو انگیز کرتی ہے، معنوی وسعت کی حامل ہوتی ہے یا اس کے امکان ہویدا ہوتے ہیں۔ روایت کی پیروی کرنے والی شاعری سے روایت کم از کم دو سطحوں کا تقاضا کرتی ہے: اول زبان و بیان اور اس کے انسلاکات کی سطح پر اور دوم شعر کا جہانِ معنی۔ میرا خیال ہے کہ مذکورہ دو تقاضوں کو پورا کرنے پر معاصر شاعری اور روایت کے درمیان کوئی بہتر مکالمہ قائم ہوسکتا ہے۔ ایک اچھا شاعر جب روایت کی پیروی کرتے ہوئے اسے معاصرت سے مملو کرتا ہے تو حاصل کلام محل بحث بن جاتا ہے اور یہی اس کی اصل قوت ہوتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ معاصرت کی یہ دخل اندازی دونوں سطحوں پر ہو یعنی زبان و بیان کی سطح پر بھی اور معنوی سطح پر بھی۔ معاصرت سے مراد وہ دورانیہ ہے جس میں زیر بحث شاعر سانس لیتا ہو یا موضوع گفتگو شاعری پنپی ہو۔ کلیم عاجز اور ان کی شاعری ایسی ہی ہے۔ کلیم عاجز نے لکھا تھا:

شاعری جب کبھی کرنے بیٹھتا تو ناسخ یا داغ کا اسلوب ٹپک پڑتا۔ لیکن نثر لکھنے بیٹھتا تو کسی کے اسلوب کا عکس میری تحریر پر نہ اترتا۔ شاید سبب یہ تھا کہ شعر دوسروں کی زبان میں کہتا تھا اور مضمون اپنی زبان میں لکھتا تھا۔ اس لیے کہ شعر کے لیے مضمون مجھے اپنا نہیں ملتا تھا۔ نثر کے لیے اپنی بات اپنا موضوع مل جاتا تھا تا آنکہ انقلاب آگیا اور شعر کے لیے بھی اپنا مضمون مل گیا۔ یا اپنے مضمون کے خزانے کا دروازہ کھل گیا۔ تو پھر شاعری کے لیے بھی اپنی زبان کام آگئی۔ (عاجز، کلیم احمد، ۱۹۸۱، میں نے کیا لکھا ہے، مشمولہ: جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی ۰۰۰۰، عرشی پبلیکیشنز، نئی دہلی، بار اول، ص: و)

درج بالا اقتباس ظاہراً کلیم عاجز کی نثر کی فوقیت کا مدعی ہے۔ اس بات سے قطع نظر بغور دیکھا جائے تو اوپر درج اقتباس بہ حیثیت شاعر کلیم عاجز کی فکری و فنی ارتقا کا غماز ہے۔ یہاں ایک اور بات قابل توجہ ہے کہ ناسخ اور داغ کا اسلوب ٹپک پڑنے کی بات کیوں کہی گئی ہے۔ یہ بات بہت معروف ہے کہ ناسخ ایک خیال بند شاعر ہیں اور داغ کو زبان کی شاعری کے طور پر جانا جاتا ہے بشمول موسیقیت اور معاملہ بندی۔ خیال بند شاعری اپنی فکر کا اظہار کرنے کے لیے نئی لفظیات اور نئی تراکیب وضع کرتی ہے اور بیشتر اوقات ان لفظیات تراکیب سے اجنبیت یا نامانوسیت کا گلہ رہتا ہے۔ لیکن اس سے شاعری اور زبان دونوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا کیوں کہ ڈکشن میں اضافہ لازماً ہوتا ہی ہے جو کہ بڑا ہی منفعت بخش ہے۔ علاوہ ازیں خیال بند شاعری گیسوے غزل کی تزئین میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے نیز اس کی بدولت غزل میں نئے مضامین یا ایسے مضامین کا باندھنا ممکن ہوپاتا ہے جو غزل میں پہلے یا تو نظر نہیں آتے یا ان کی راہ الگ ہوتی ہے۔ زیر نظر غزل کا تجزیہ کرتے وقت مجھے یہ خیال آیا کہ نہ صرف کلیم عاجز کی شاعری بلکہ پیش نظر غزل کے حوالے سے بھی مذکورہ باتیں کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔ مثلاً مطلع ہی ملاحظہ کیجیے ؂

مزاج عشق ہم رنگ مزاج حسن تو کردے

غلام آرزو بن جا نہ ترک آرزو کردے

اردو شاعری کے حوالے سے عشق اور حسن کے مزاج میں جو تضاد ہے اس کی وضاحت ضروری نہیں لیکن اس تضاد کو ختم کرنے اور عشق کو اپنا مزاج حسن سے ہم آہنگ کرنے کا مشورہ ہی اس مطلع کا نمایاں وصف ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ حسن کو اپنا مزاج تبدیل کرنے اور عشق سے ہم آہنگ کرنے کی خواہش کا اظہار نہیں کیا گیا ہے۔ مزاج عشق اور مزاج حسن کی ترکیب نے جہاں پوری روایت کو سمیٹ لیا ہے وہیں ہم رنگ مزاج حسن کی ترکیب نے نئی بات بھی پیدا کی ہے۔ دوسرا مصرع دراصل مزاج حسن کی وضاحت کررہا ہے، اسے ایک لائق تقلید قدر کے طور پر قبول کررہا ہے۔ لیکن مزاج حسن کی جو روایت رہی ہے اس تناظر میں دیکھا جائے تو آرزو کا لفظ حسن کی رعونت، بے پروائی، خود داری، وضع داری اور انا کو چیلنج کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ یوں تو شعر میں جو احساس کارفرما ہے وہ کسی زمانے سے مختص نہیں لیکن اس میں موجود چیلنج اور تھیم معاصرت کے بطن سے ہی جنم لیتے ہیں۔ جس طرح شاہ نصیر کے درج ذیل شعر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر نصیر تخلص نہ ہوتا تو یہ خیال نہ سوجھتا ؂

خیال زلف دوتا میں نصیر پیٹا کر

گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کر

اسی طرح کلیم عاجز کا یہ مطلع اور اس قسم کے دوسرے اشعار عصری حسیت اور تقاضاے ’معاصرت‘ کے بغیر نہیں سوجھتے۔

دل بے تاب تو بھی دھڑکنیں اپنی سنا دینا

نگاہ شوق جب آغاز رسم گفتگو کردے

کلاسکی رچاؤ سے قطع نظر دل بے تاب کو تسلیاں دینے اور قرار رکھنے کے لیے بہلانے کا وہی روایتی اور پرانا مضمون ہے لیکن دوسرے مصرع میں بات کو آگے بھی بڑھایا گیا ہے۔ نگاہ شوق کی گفتگو سے احسن رضوی کا ایک شعر یاد آرہا ہے ؂

آنکھوں آنکھوں میں ہوگئے ہیں ادا

لفظ جو بھی تھے ان کہے اپنے

جب نگاہ شوق گفتگو کا آغاز کردے تو پھر دل بے تاب کیا سنائے گا۔ جب کہ سارے ان کہے لفظ بیان ہوگئے۔ اب تو دل بے تاب کو ٹھہر جانا چاہیے، لیکن یہ بھی تو ہے کہ ع

سب غلط کہتے تھے لطف یار کو وجہ سکوں

بہر حال دل بے تاب ٹھہرے یا طوفان اٹھائے، ایک پیکر تو بنتا ہی ہے، لیکن آغاز رسم گفتگو تو ہو!! ابھی سے تڑپنے سے حاصل؟

سن اے ہمدم میں ایسی خواہش درماں سے باز آیا

مرے زخموں کو جو منت پذیر چارہ جو کردے

یہ شعر مطلع ہی کے خیال کو تقویت دیتا ہے لیکن میں لفظ ’’ایسی‘‘ کی موجودگی سے کسی حد تک درماں کی خواہش کا ہونا اور ایذا طلبی سے لذت اندوز ہونے کا عنصر بھی پوشیدہ ہے۔ لیکن مضمون انا اور خودداری کا ہے۔ استعارے، علائم اور لفظیات روایتی ہونے کے باوجود شعر میں نیا پن ہے۔ ایذا طلبی کی خواہش اور اس لذت حاصل کرنا نئی بات نہیں لیکن اس شعر میں ذرائع دوسرے ہیں۔ یعنی یہ رجحان معشوق کی جفاشعاری، ستم رسانی یا بے التفاتی و منت سماجت کی راہ سے نہیں آیا بلکہ یہ جذبہ کاسۂ فریاد ہوجانے کی روش کو رد کر کے اور چارہ جو کے آگے داد طلب نگاہوں کی نفی کر کے حاصل کیا گیا ہے۔

وہ پندار خودی جو بے خودی پہ حرف لاتا ہو

اسے اے دل سپرد آتش جام و سبو کردے

غزل بڑی عجیب صنف ہے۔ اس کی ریزہ خیالی اور تلون میں وہ قوت ہے جو میرے خیال سے کسی اور صنف شاعری میں نہیں یعنی ایک ہی غزل ذہن کو جس طرح بار بار ڈسٹرب کرتی ہے مختلف حقائق اور گوناگوں جذبات سے روشناس کراتی ہے وہ ملکہ کسی اور صنف شاعری میں نہیں۔ کہاں تو بات خودداری، انا اور ذات کی آگہی کی ہورہی تھی اور یہی عناصر سب سے ارفع فکر اور پندار نظر آرہے تھے اور کہاں پندار خودی کو سپرد آتش جام و سبو کرنے کی بات کہی گئی گویا بے خودی کو خودی (یہاں خودی بمعنی آگہی درج ہوا ہے)پر فوقیت حاصل ہے۔ یہ کربِ آگہی کی شدت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہاں غفلت کا شائبہ تک نہیں بلکہ اس آگہی کی نفی ہے جو انسان کو انسان نہ رہنے دے، ملکوتیت کے گمان میں مبتلا کردے۔

بھلا کیا واسطہ اس کو ہوس کی تلخ کامی سے

جسے تیری نظر لذت شناس آرزو کردے

اس شعر میں ہوس کی تخصیص نہیں کی گئی لیکن تلخ کامی اور نظر کی وجہ سے ذہن کیف و مستی کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔ کیف و مستی کے حصول کے لیے جام و مۓ کی تردید کی گئی ہے اور معشوق کی نظر کے حوالے سے جو تصویر ابھرتی ہے وہ کم و بیش ایسی ہی ہے جیسے سودا نے کہا ؂

کیفیت چشم اس کی مجھے یاد ہے سودا

ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں

علاوہ ازیں لذت آرزو ایک خاصل مقام پر فائز ہے۔

ہوس کی تخصیص نہ ہونے کی وجہ سے ہوس سے مراد خواہش لمس لی جائے تو دو باتوں کا ادعا ہوسکتا ہے ایک تو یہ کہ معشوق کی رعایت سے نظر کے رعب و جلال اور تمکنت کی وجہ سے خواہش کا اس طرف ملتفت ہی نہ ہونا یا پھر اسی جادو اثر نظر کا متمنی ہونا۔ لیکن ’’بھلا کیا واسطہ‘‘ میں یہ لب و لہجہ بھی پوشیدہ ہے کہ لذت آرزو پر اکتفا نہ کیا جائے اور شوق فضول و جرات رندانہ سے کام لیا جائے۔ گویا معشوق کی نظروں کا اسیر ہوجانا عاشق کی کم ہمتی ہے۔

مرے اشکوں کا ہے اک خاص انداز بیاں لیکن

کہیں برہم نہ تجھ کو یہ طریق گفتگو کردے

یہ شعر اگر دوسرے اور تیسرے شعر کو ملحوظ رکھ کر پڑھا جائے تو ایک خاص لطف دیتا ہے ہے ساتھ ہی اثر پذیری کی انفرادیت بھی قائم ہوتی ہے، لیکن برہم کے معنوی انسلاکات پر غور کیا جائے تو شعر کی معنوی جہت میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔

مرا یہ حوصلہ تھا تو ہی خنجر آزما ہوتا

تجھے یہ فکر ہے میری چھری میرا گلو کردے

یہ حوصلہ تو اگلے شعر میں بھی تھے۔ تیغ و کفن باندھے جارہے ہیں کہ کوئی عذر نہ رہ جائے لیکن کہیں معشوق کی نزاکت تو کہیں نرگسیت آڑے آتی تھی یا پھر اس میں التفات کا شائبہ بھی ہوتا تھا۔ زیر نظر شعر کی فکر موجودہ سیاسی و سماجی صورت حال کی غماز ہے جو دوغلے پن کی حامل ہے۔ جہاں تک میرا مطالعہ ہے اس کی روشنی میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ احساس اور اس کا تخاطب سیاسی و سماجی صورت حال صرف مابعد نوآبادیاتی تہذیبوں ہے سے متعلق ہے، اس کے بہت سے اسباب و عوامل ہیں جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں البتہ اشارہ تو ہو ہی گیا ہے۔

غزل گوئی میں کچھ لطف غزل خوانی رہے عاجز

صدائے ساز میں آمیزش سوز گلو کردے

یہ مقطع کلیم عاجز کے شعری رویے اور ان کی فکری کائنات کی طرف اشارہ کرتا ہے اور ذہن ایک بار پھر کلیم عاجز کے قول کی طرف رجوع کرتا ہے کہ ’’شاعری جب بھی کرنے بیٹھتا تو ناسخ یا داغ کا اسلوب ٹپک پڑتا۔‘‘ معلوم ہوتا ہے صداے ساز سے مراد فکری بلندی، لفظیات اور ان کے استعمال سے ہے جسے وہ ناسخ سے منسوب کرتے ہیں اور اسے مترنم بنانے کے لیے داغ کے اسلوب کا سہارا لیتے ہیں۔

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.