مراثیِ دبیر میں رزم نگاری

طاہر نواز

ریسرچ ا سکالر، وفاقی اردو یونیورسٹی، اسلام آباد

Marasi Dabeer men Razm Nigari
by: Tahir Nawaz
nawaztahir87@yahoo.com

رزم نگاری کے متبادل انگریزی اصطلاح ایپک (Epic)استعمال کی جاتی ہے۔ایپک سے مرادجنگ کے بیان پر مشتمل وہ نظم ہے جس میں کسی خاص فرد ،گروہ یا قوم کی شجاعت، بردباری،صبرو استقامت، جرات، جاہ وجلال، رعب و دبدبہ،طنطنہ و طمطراق، شکوہ و جلال کی سلسلہ وار کہانی منظوم صورت میں بیان کی گئی ہو۔ جلجامش کی سرگزشت سے لے کر ہومر کی ایلیڈ اور اوڈیسی ، وید ویاسا کی مہابھارت ،والمیکی کی رامائن، فردوسی کا شاہنانامہ ایران،جان ملٹن کی جنت گم گشتہ سب کا شمار رزمیہ میں ہوتا ہے ۔جنگ کا بیان اسباب ، واقعات اور نتائج کی بنا پر طویل بیانیے کا متقاضی ہوتا ہے اسی لیے ایپک ایک طویل نظم شمار کی جاتی ہے ۔ ایپک کی طوالت کے لیے کوئی خاص معیار تو مقرر نہیں تا ہم موضوع کی وسعت اور واقعات کی زیادتی کی بدولت عموماً ایپک کئی ہزار اشعار پر مشتمل ہوتی ہے ۔ فردوسی کا شاہنامہ ایران ساٹھ ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ مہا بھارت کے اندر ایک لاکھ اشعار ہیں جو بیس ہزار قطعات میں منقسم ہیں جبکہ رامائن میں کم و بیش چوبیس ہزار اشعار ہیں۔ اس سے ایپک کی طوالت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ آکسفورڈ ڈکشنری آف لٹریری ٹرمز میں ایپک کی تعریف یوں بیان کی گئی ہے:
ـEpic, a long narrative poem celebrating the great deeds of one or more legendary heroes, in a grand ceremonious style. The hero, usually protected by or even descended from gods, performs superhuman exploits in battle or in marvellous voyages, often saving or founding a nation.(1)
اردو کے منظوم ادب میں مرثیہ اگرچہ ایپک جتنی طویل نظم تو نہیں لیکن یہ اردو کی وہ منظوم صنف ہے جس میں سب سے زیادہ رزمیہ عناصر ملتے ہیں۔ مرثیہ در اصل ایک بیانیہ نظم ہے جس میں المیہ اور رزمیہ دونوں کو باہم یکجا کر کے پیش کیا گیا ہے۔ کلیم الدین احمد اور احسن فاروقی جیسے اردو کے ناقدین مرثیہ کو ایپک میں شمار نہیں کرتے تاہم مسعود حسن رضوی ادیب ، علی عباس حسینی ، سید سرفراز حسین رضوی اسے اردو کی سب سے گراں قدرمنظوم رزم نگاری قرار دیتے ہیں۔اردو مرثیہ ایک رزم سے منسوب ہو چکا ہے اسی لیے سوال اہم یہ ہے کہ کیا مرثیہ اپنے اندر رزمیہ عناصر کو کامیابی سے سمونے میں کامیاب ہوا ہے کہ نہیں۔؟رزمیہ کہانی عموماً ایک جری فرد کے گرد گھومتی ہے۔ اردو ادب میں مرثیہ واقعاتِ کربلا سے مخصوص ہو چکا ہے ۔ رزمِ کربلا میں ہیرو کی شخصیت حضرت امام حسین ؑاور ان کے رفقاء کی ہے اور امام حسین ؑ کی شخصیت میں وہ تمام اوصاف بدرجہ اتم موجود ہیں جن کا ایک ایپک کے ہیرو کے اندر پایا جانا ضروری ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر مظفر حسن ملک لکھتے ہیں:
مرثیہ اور ایپک میں بعض خصوصیات کا اشتراک موجود ہے جن میں سب سے اہم ہیرو کا کردار ہے۔ حضرت امام حسین ؑ کی ذات والا صفات میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو ایک کامیاب ایپک ہیرو میں پائی جاتی ہیں ۔مقاصد کی بلندی، حیات چند روزہ کے مقابلہ پر اصول کی ترجیح ،قوم کی خاطر جان دینے اور دکھ اٹھانے میں دریغ نہ کرنا ایپک کے ہیرو کی مخصوص صفات اور حضرت امام حسین ؑ کی ذات میں بلا شک و شبہ موجود ہیں۔ ” (۲)
انسان کی معلوم تاریخ کے مطابق آدم کی تخلیق کے ساتھ ہی رزم خیر و شر نے بھی جنم لیا اور جب تک انسان موجود ہے یہ رزم جاری رہے گی۔یہ بات مربوط عقیدے کا حصہ بھی ہے اور زمینی حقائق بھی اس کے شواہد دیتے ہیں۔ خیر و شر کی اس کشمکش میں رزم کے بیانات اگرچہ مختلف ہو سکتے ہیں لیکن ایک بات ان تمام بیانات میں مشترک ہے کہ شر خواہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو آخر اسی کو شکست ہو گی اور خیر کے حامی کتنے ہی ہزیمت خوردہ کیوں نہ معلوم ہوں، جیت آخر انہی کی ہو گی۔ یہی بات واقعہ کربلا سے منسوب مرثیوں کا اصل اصول قرار پائی ہے۔
کربلا ایک ایسی رزم گاہ ہے جہاں معرکہ خیر و شر برپا ہوا۔اس معرکے کے بیان کو اردو منظوم ادب میں مرثیے نے اپنے دامن میں جگہ دی۔ اس تمام معرکے کی تفصیل اور بیان میں شعرائے مرثیہ نے اپنے اپنے کمال دکھائے ہیں اور اس معرکے کے تمام واقعات میں سب سے زیادہ رزمیہ مضامین پر قوتِ فکر و زور ِ قلم صرف کیا ہے۔ جنگ کی تیاری ، فوجوں کی ترتیب، میدانِ جنگ او رسامانِ جنگ کی تفصیل، آمد، رجز، حملہ و حرب، فتح و شکست، شہادت،بین، مظلومیت، ظلم، اسیری و صد ہا حالات و واقعات کو اس قدر تفصیل ، پرجوش اسلوب اور دردناک انداز کے ساتھ کلاسیکی مرثیے میں بیان کیا گیا ہے کہ اس سے بہتر کا امکان نظر نہیں آتا۔ مرزا سلامت علی دبیر بھی کلاسیکی عہد کے نامور مرثیہ گو شاعر ہیں جنہوں نے اردو مرثیے اور بالخصوص اس میں رزم نگاری کو اوجِ کمال تک پہنچایا۔ مرزا دبیر کی رزم نگاری سے متعلق سید عقیل الغروی رقمطراز ہیں:
اردو کی رزمیہ شاعری میں تلوار ، گھوڑے، وغیرہ کی تعریف اور دیگر خارجی رزمیہ عناصر کے علاوہ جنگ آزما بہادروں کی شخصیت کا نہایت پر زور شاعرانہ تعارف یا ان کی صورت اور سیرت کا ہیبت خیز اور اثر انگیز نقشہ کھینچ دینا بھی ایک بڑا اہم جزو مانا جاتا ہے۔ جو سراپا نگاری کہلاتا ہے اور یہ بھی دبیر ہی کا خاصہ ہے۔ تحقیق یہ ہے کہ یہ انہیں کی ایجاد بھی ہے اور تنقیدی محاسبہ یہ بھی بتاتا ہے کہ انہیں نے اسے معراج کمال تک بھی پہنچایا۔ (۳)
اردو مرثیہ کی رزم کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس کے زمان و مکاں حقیقی ہیں ماورائی نہیں۔ یوں سامع اور قاری کو اس کا بیان محض خیالی اور ماورائی محسوس نہیں ہوتا۔ قاری پہلے سے جانتا ہے کہ ایسا کچھ ہوا ہے ۔ ایسا کچھ کیسے ہوا ہے یہ بات اسے مرثیہ گو بتاتا ہے۔ مرثیہ کی رزم نگاری کے بیان میں واقعات کے اتار چڑھاؤ کی زیادہ گنجائش نہیں ہوتی۔ تمام واقعات ایک مخصوص ترتیب کے ساتھ ہیرو کے المیے کی طرف بڑھتے ہیں۔ اس تمام تناظر میں مرثیہ گو کے پاس صرف منظر نگاری اور اسلوب کا مارجن ہوتا ہے جس میں دلچسپی کے تمام عناصر شامل کر کے قاری کو ہم آہنگ کر لیتا ہے۔ مرثیہ گو اپنے ہیرو کے ذریعے اس تمام دورانیے میں اعلیٰ ترین اخلاقی اقدار کی تربیت او رنگہداشت کی تلقین بھی کرتا رہتا ہے لیکن اس تلقین کا رنگ نصیحت گری سا نہیں ہوتا۔ دراصل مرثیہ گوقاری کو ان اعلیٰ ترین اخلاقی اقدار سے روشناس کروانا چاہتا ہے جن کے لیے اس کی رزم کا ہیرو جان کی قربانی دینے پر تیار ہے۔
سانحہ کربلا دراصل معرکہ حق و باطل ہے ۔ ایک طرف چند افراد ہیں جن کے مقابلے پر ہزاروں کا لشکر اترا ہوا ہے۔ دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ ان میں سے ایک گروہ جنگ کے لیے آمادہ پیکار بھی نہیں۔ وہ جو تعداد میں کم ہیں ان کے پاس مکمل سامانِ حرب بھی نہیں۔ ان میں سے اکثریت ایسے افراد کی ہے جن کا اس سے قبل جنگ کا تجربہ ہی نہیں۔ایک طرف لشکری تین دن کی بھوک اور پیاس سے نڈھال ہیں ۔ جبکہ دوسری طرف ایک جری لشکر ہے جن کے پاس آزمودہ کار جنگجو ہیں ۔ پانی پر ان کا قبضہ ہے اور ان کے جنگجو تازہ دم ہیں۔ جو محدود ہیں ان کے پاس عزم و حوصلہ ہے۔ جو کثیر ہیں وہ کثرت، طاقت اور قدرت کے باوجود خوفزدہ ہیں۔ مرثیہ کی رزم نگاری کا کمال یہ ہے کہ مرثیے میں اس طرح کا منظر نامہ پیش کیا جاتا ہے کہ باوجود کثرت، طاقت اور قدرت رکھنے کے دوسرا گروہ عاجز نظر آتا ہے۔ ابتدا میں مرثیے کا ہیرو اپنی بے سرو سامانی کے باوجود تمام رزمیہ مہمات کو سر کرتا چلا جاتا ہے۔ جبکہ مخالفین اپنے تمام تر وسائل کے باوجود دو بدو جنگ کرنے سے کتراتے نظر آتے ہیں ۔ ان کے مقابلے پر فردِ واحد کو پیش کیا جاتا ہے۔حق و باطل کی جنگ میں چونکہ فتح بالآخر حق کی ہوتی ہے اسی لیے مرثیہ کا ہیرو بھی اپنے مقصد میں کامیاب ہوتا ہے لیکن اپنی جان دے کر۔ یوں وہ مقصد ہیرو کی جان سے زیادہ قیمتی بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
اردو مرثیہ کی رزم نگاری کا تعلق ماضی سے ہے۔ یہ رزم نگاری اس ماضی کی ترجمان ہے جو تمام تر اچھائیوں اور برائیوں کے ساتھ ایک مکمل ماضی ہے۔دبیر کا کمال یہ ہے کہ وہ قاری کو موجودہ وقت سے نکال کر رزم کے ہیرو کے وقت میں لے جاتے ہیں۔ یعنی زمان کے اس دورانیے میں جہاں قاری اپنے تخیل کی بدولت خود کو اس رزم کا حصہ سمجھنے لگتا ہے۔مرثیہ گو کا مقصد قاری کی تفریح کی بجائے اس کا کتھارسس ہوتا ہے۔ اسی لیے دبیر کمال مہارت سے قاری کے جذبات کو ہیرو کے ساتھ تتبیق کر دیتے ہیں۔یوں قاری کی اسی جذباتی وابستگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ قاری کو رزم کے ہیرو کے اس المیے تک لے جاتے ہیں جو کہ بطور مرثیہ گو ان کا منتہائے مقصود ہوتا ہے۔
رزم چونکہ ایک واقعہ ہے اور زمان و مکاں سے خصوصی تعلق ہونے کی بنا پر اس کو وقوع پذیر ہونے کے لیے ایک خاص ماحول کی ضرورت ہوتی ہے ۔اردو مرثیہ کی رزم کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے بیان کا حقیقی دنیا پر اثر بھی ہوتا ہے۔رزم میں بیان کردہ واقعات ماضی میں ایک خاص عہد میں وقوع پذیر ہو چکے ہیں جن کا ایک خاص ملک ، قوم اور مذہب سے تعلق ہے۔موضوع کی یکسانیت کی بدولت اردو کے کلاسیکی مرثیہ کی رزم نگاری میں ایک خاص مماثلت پائی جاتی ہے۔ ایسے میں دبیر نے اس رزم کو مزید دلچسپ بنانے کے لیے ڈرامائی تکنیک کا استعمال کیا ہے۔ وہ جنگ کے میدان کا نقشہ اور جنگ کے واقعات کو یوں بیان کرتے ہیں کہ ان کا قاری کے ذہن میں ایک منظر تخلیق کر دیتے ہیں۔ مرزا دبیر کے مرثیوں میں ڈرامائی عناصر سب سے زیادہ ملتے ہیں ـ۔ دبیر کے مرثیوں میں ڈرامائی عناصر سے متعلق ڈاکٹر ظہیر فتح پوری لکھتے ہیں:
جنگ کے مراحل بڑی ڈرامائیت رکھتے ہیں اور وہاں واقعات کی روانی بہت تیز ہوتی ہے۔ چنانچہ ان کی موثر پیش کش ہنسی کھیل نہیں ہوا کرتی۔ پھر کربلا کی جنگ تو زمان و مکاں کے لحاظ سے یادگار تھی کہ اتنے کم وقت میں خیر و شر کا اتنا واضح تصادم تعداد کی اس قدر عدم مطابقت کے ساتھ کبھی نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ مرثیوں میں ذکرِ جنگ کو بڑی اہمیت حاصل ہو گئی ۔ اس ضمن میں دبیر نے جس روش کو رواج دیا وہ (رفتارِ جنگ میں تیزی کی مناسبت سے) یہ ہے کہ نگاہوں کے سامنے سے متحرک تصاویر کو تیز روی سے گزارا جائے اور میدانِ جنگ کے مخصوص ماحول کے پیشِ نظر باصرہ و سامعہ کو زیادہ اہمیت دی جائے، نیز ڈرامائیت کی شدت کو ابھارنے کے لیے بیان کی جگہ مکالمے سے زیادہ کام لیا جائے۔ (۴)
مرثیہ گو کی کوشش قصے کی طوالت ہوتی ہے اور رزم کا بیان اسے قصے کو طول دینے کی تمام سہولت فراہم کرتا ہے۔ وگرنہ مرثیہ کا مرکزی خیال تو اتنا ہی ہوتا ہے کہ اس نے جنگ کی اور وہ مارا گیا۔ مرثیہ گو اس پلاٹ کو رخصت، آمد، رجز، جنگ، شہادت کے واقعات میں تقسیم کر دیتا ہے۔ وہ فریقین کے لشکروں کی منظر کشی، لشکریوں میں خوف و ہراس کی صورتحال، سامانِ جنگ کی تفصیل، مخالف یعنی شر(ولن) کی طاقت و قوت اور اس کے ظلم و جبر کا بیان، مبارزت، ہیرو کی جنگ، مخالف کا قتل، عام جنگ جیسے واقعات سے نہ صرف قصے کو طول دیتا ہے بلکہ سننے اور پڑھنے والوں پر اپنی معلومات اور علم کی دھاک بٹھاتا ہے اور مکمل طور پر سامع اور قاری کو مرعوب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مولانا شبلی نعمانی نے” موازنہ انیس و دبیر” میں رزمیہ شاعری کے کمال کے لیے ترتیب وار کچھ اصول وضع کیے ہیں ان ہی اصولوں کی روشنی میں دبیر کی رزم نگاری کو پرکھنے کی کوشش کی جائے گی ۔ مولانا شبلی نعمانی لکھتے ہیں:
رزمیہ شاعری کا کمال امورِ ذیل پر موقوف ہے۔ سب سے پہلے لڑائی کی تیاری، معرکہ کا زور و شور، تلاطم، ہنگامہ خیزی، ہل چل، شور و غل ، نقاروں کی گونج، ٹاپوں کی آواز، ہتھیاروں کی جھنکار، تلواروں کی چمک دمک، نیزوں کی لچک، کمانوں کی کڑک، نقیبوں کا گرجنا، ان چیزوں کا اس طرح بیان کیا جائے کہ آنکھوں کے آگے معرکہ جنگ کا سماں چھا جائے ۔ پھر بہادروں کا میدان میں آنا، مبارز طلب کرنا، باہم معرکہ آرائی کرنا، لڑائی کے داؤں پیچ دکھانا، ان سب کا بیان کیا جائے اس کے ساتھ اسلحہ جنگ اور دیگر سامان جنگ کی الگ الگ تصویر کھینچی جائے پھر فتح و شکست کا بیان کیا جائے اس طرح کہ دل دہل جائیں یا طبیعتوں پر اداسی کا عالم چھا جائے۔ ” (۵)
بنیادی طور پر ایک روایتی (کلاسیکی )مرثیہ اپنی ترکیب میں چہرہ، سراپا، رخصت، آمد، رجز، جنگ، شہادت، بین، دعا جیسے اجزاء کا حامل ہوتا ہے۔یہ تمام اجزاء اگرچہ رزم سے متعلق ہی ہیں لیکن آمد، رجز، جنگ اور شہادت خاص طور پر رزمیہ موضوع ہیں اورمرزا دبیر نے اپنا زورِ قلم بھی زیادہ تر ان ہی موضوعات سے متعلق واقعات پر صرف کیا ہے۔مرزا دبیر کے مرثیوں میں جنگجو(ہیرو)، اس کی سواری(گھوڑا) اور ہتھیار(تلوار) کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔
جنگجو مرثیے میں ہیرو کی حیثیت رکھتا ہے جس کی شخصیت کے گرد تمام واقعات کا تانا بانا بنا جاتا ہے۔ ہیرو کے سراپے کے بیان میں دبیر کے ہاں دوسرے تمام مرثیہ گویوں سے زیادہ وسعت اور تنوع پایا جاتا ہے۔ دبیر کے مرثیوں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ ہیرو کا تعارف محض چند لفظوں میں نہیں کرواتے۔ وہ نہ صرف مختلف اشخاص میں فرق پیدا کرتے ہیں بلکہ ان کی باطنی خصوصیات کو کرداری کارناموں کے پسِ منظر میں پیش کرتے ہیں ۔ ان کا ایک ایک لفظ ممدوح کی زندگی کے مختلف تاریخی اوصاف اور کارناموں پر اشارے کرتا چلا جاتا ہے۔ دبیر سراپا نگاری میں ہیرو کے چہرے، خدوخال، لب و دنداں، چشم و ابرو وغیرہ کے بیان سے ہیرو کے حسن و جمال کا نقشہ کھینچ دیتے ہیں۔ ہیرو کے حسب و نسب کے ساتھ ساتھ دبیر اس کی شجاعت اور دلیری کا بیان بھی کرتے جاتے ہیں۔ دبیر کے ہاں مرثیے کی ابتداء میں جہاں ہیرو کا سراپا پیش کیا جاتا ہے وہاں بیانی پیرایہ اختیار کیا گیا ہے مگر رزم کے بیان میں فخریہ اور رجزیہ پیرائے میں بدل جاتا ہے۔دبیر کے مرثیوں میں ہیرو کے ذاتی اوصاف پر روشنی ڈالتے وقت ہیرو کی داد و ہش اور سخاوت و کرم سے زیادہ شجاعت و صلابت پر زور دیا گیا ہے۔ سخاوت و کرم سے زیادہ ہیرو کی فنونِ حرب میں مہارت دبیر کے ہاں زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ حضرت امام حسین ؑ کے سراپے کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:
آنکھوں سے عین رعبِ علی ؑ آشکار ہے
سایہ پلک کا سرمۂ دنبالہ دار ہے
گلگونہ کربلا کی زمین کا غبار ہے
چہرہ دمِ اخیر گل ِ نو بہار ہے
یوں خوش چلے ہیں باغِ شہادت کی دید کو
جیسے نبیﷺ کے سامنے آتے تھے عید کو
کس کی زبان سے پیاس نے پائی ہے آبرو
ہیرو کی سراپا نگاری میں دبیر کی خوبی یہ ہے کہ وہ ہیرو کی تمام خصوصیات خود سے ہی نہیں بتاتے بلکہ اس کی شجاعت، بہادری اور دلیری سے مخالفین کو بھی متاثر دکھاتے ہیں ۔بہترین جنگجو وہی ہوتا ہے جس کی بہادری اور دلیری سے مخالف گروہ کے افراد بھی نہ صرف متاثر ہوں بلکہ اس سے خوفزدہ بھی ہوں۔مخالف گروہ جس قدر خوفزدہ ہو گا ہیرو کا رعب و دبدبہ اتنا ہی بڑھتا جائے گا۔ہیرو کی شجاعت اوربہادری کے لیے وہ مخالفین کی زبانی بھی ہیرو کی خصوصیات بیان کرواتے ہیں۔ مخالف کی زبانی حضرت عباس ؑ کا تعارف ملاحظہ ہو:
بڑھ کر کہا عمر نے وحید ِ زماں یہ ہے
ہم نام ِ ذوالجلال کا نام و نشاں یہ ہے
ہاں لشکر خدا کا نمودی جواں یہ ہے
جعفر شکوہ، حمزہ صاحب قراں یہ ہے
سیفِ خدا خطاب ہے، عباسؑ نام ہے
یہ بازوئے حسین علیہ السلام ہے
(کس کا علم حسین ؑکے منبر کی زیب ہے)
دبیر لفاظی میں طبیعت کے فراخ واقع ہوئے ہیں ۔ ان کے پاس الفاظ کی کمی نہیں اسی لیے انہوں نے صرف ہیرو کو ہی خوش خصال بنا کر پیش نہیں کیا بلکہ اس کی سواری کو بھی کسی حو ر و پری کی طرح مجموعہ حسن بنا دیا ہے۔ ہیرو کی سواری اگرچہ اجزائے مرثیہ میں شامل نہیں لیکن دبیر نے اسے ایک مستقل موضوع کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ چنانچہ ان کے مرثیوں میں جہاں دیگر اجزائے مرثیہ کا التزام کیا گیا ہے وہاں گھوڑے کی تعریف کو بھی ایک مستقل موضوع کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ دبیر کے ہاں گھوڑا محض ایک بار بردار جانور نہیں بلکہ ان کے ہاں گھوڑے کی تعریف میں مبالغے کا انداز عام ہے۔ ان کے مرثیوں میں گھوڑے کی تعریف عام طور پر اس وقت ہوتی ہے جب ہیرو میدانِ جنگ میں وارد ہوتا ہے۔ یہاں گھوڑے کے خدو خال، حسن، اس کی قوت ، چلت پھرت، شوخی، چستی، تیزی اور سوار کے اشاروں کو سمجھنا ایسے خصائص ہیں جن کا ذکر ایک خاص تناظر میں کیا گیا ہے۔حضرت امام حسینؑ کی سواری کا بیان ملاحظہ ہو:
اک حسن کی تصویر تھا نک سکھ میں وہ توسن
دہرا بدن ، آہو کی نگہ، شیر کی چتون
شہباز کا سینہ تھا تو طاؤس کی گردن
دُم رشک دہ سنبلہ، سُم بدر سے روشن
جادو تھا کہ اعجاز و کرامات تھا گھوڑا
چھل بل تھا، چھلاوا تھا، طلسمات تھا گھوڑا
(گلگونہ رخسار فلک گرد ہے رن کی )
گھوڑے کی تعریف ان کی کسی ایک خاص سواری سے متعلق نہیں بلکہ ہر مرثیے کے ہیرو کی سواری کو انہوں نے اسی مخصوص انداز میں پیش کیا ہے تا ہم ان کے مرثیوں میں اس سواری کی ان کے ہیرو کی طبیعت اور اس کی شجاعت کے ساتھ خاص مناسبت بھی سامنے آتی ہے۔ حضرت علی اکبر ؑ کی سواری کا بیان ملاحظہ ہو:
وہ رخش تھا یا ابلقِ ایام کا اقبال
نکھ سکھ سے درست اور جواں بخت و جواں سال
جادو کی بھری آنکھ، فقط معجزوں کی چال
خورشید کے سم، برق کی دم، سنبلہ کے یال
قوت کی طبیعت تھی ، دلیری کا جگر تھا
سرعت کا بدن ، فہم کا دل، عقل کا سر تھا
( ماتم کا مرقع ہے کہ خاموش ہے مجلس)
مراثی ِ دبیر میں جہاں ہیرو کا گھوڑا براق کی مانند دشمنوں میں گھس جاتا ہے وہیں اس کی تلوار بھی برق کی مانند دشمن پر پڑتی ہے۔مراثیِ دبیر میں تلوار دبیر کا خاص موضوع نظر آتی ہے۔ حضر ت امام حسینؑ کی تلوار کی تعریف ملاحظہ ہو:
کیا تیغ آبدار تھی جوہر سے خوش جمال
منجدھار میں کھڑی تھی پری کھولے سر کے بال
جوہر تھے یا کہ سنبلہ کے بیچ میں ہلال
یا صاف آئینہ تھی وہ شمشیر بے مثال
جوہر کے جن خطوں پہ سراپا گمان تھے
اہلِ نگہ کے تار نظر کے نشان تھے
(کس کی ز بان سے پیاس نے پائی ہے آ برو)
تلوار کی اس تعریف میں صرف اس کی خوش نمائی ہی شامل نہیں بلکہ اس تلوار کی کاٹ بھی خاص معنویت رکھتی ہے۔ دبیر کے ہاں تلوار کی کاٹ مبالغے کی انتہا پر نظر آتی ہے۔ اس ضمن میں حضرت عباس ؑ کی تلوار کی کاٹ کا بیان دیکھیئے:
خنجر کو جو کاٹا تو نہ ٹھہری وہ سپر پر
ٹھہری نہ سپر پر تو وہ سیدھی گئی سر پر
سیدھی گئی سر پر تو وہ تھی قلب و جگر پر
تھی قلب و جگر پر تو وہ تھی صدر و کمر پر
تھی صدر و کمر پر تو وہ تھی دامنِ زین پر
تھی دامنِ زیں پر تو نہ گھوڑا تھا زمین پر
(کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے)
رزم کا میدان وہ مکاں ہے جہاں رزم کے واقعات نے پیش آنا ہوتا ہے اور یہ میدان زمینی جغرافیے کے اعتبار سے کسی صورت کم نہیں ہوتا۔ در اصل رزم کا میدان ڈرامے کے اسٹیج کی طرح ہوتا ہے جہاں تمام کرداروں نے اپنا اپنا ایکٹ کرنا ہوتا ہے۔ رزم کی اسٹیج پر کرداروں کی تعداد سینکڑوں کی بجائے ہزاروں اور لاکھوں میں ہوتی ہے اور یہ صرف ان لشکری کرداروں تک ہی محدود نہیں ہوتی بلکہ گھوڑے، اونٹ، خچر اور دشمن کی دیگر سواریاں بیان کے لیے ایک وسیع میدان کا تقاضا کرتی ہیں۔ مرثیے کی رزم کا میدان کوئی خیالی یا ماورائی نہیں بلکہ زمینی جغرافیے کے اعتبار سے ایک صحرا ہے ۔ لیکن دبیر کے مرثیوں میں یہ میدان صرف صحرا نظر نہیں آتا۔ دبیر اپنی قادر الکلامی کی بدولت اس صحرا کودیگر قطعہ ارضی کے ساتھ موازنے کے وقت رشکِ ارم بنا دیتے ہیں اور مصائب و آلام کے وقت کربلا کو صحیح معنوں میں کرب و بلا بنا دینے میں بھی ثانی نہیں رکھتے۔ دبیر کے مرثیوں میں ہیرو کے ایکٹ کے ساتھ ساتھ بیک گراؤنڈ میں رزم کا میدان بھی بدلتا رہتا ہے ۔ حضرت امام حسینؑ کی شہادت کے وقت جنگ کے میدان کا ایک منظر ملاحظہ ہو:
وہ لُو، وہ بھاپ ریت کی، وہ جسم نازنیں
وہ حربے گرم دھوپ کے، وہ سینہ وہ جبیں
پیچھے فلک پہ شمس تھا اور رخ سوئے زمیں
سایہ جو پوچھو تیغ و سناں کے سوا نہیں
پھل برچھیوں کے پھول سے سینے پہ لیتے تھے
جو آج رو رہے ہیں دعا ان کو دیتے تھے
(جب شامیوں میں صبح کی نوبت کا غل ہوا)
روزِ عاشور جنگ سے قبل میدانِ کربلا اور جنگ کی تیاریوں کا منظر بھی ملاحظہ ہو:
جاروب کش نے آئینہ رن کو بنا دیا
سقوں نے حرب گاہ میں دریا بہا دیا
پیغامِ صور شورِ دُہل نے سنا دیا
بانگِ نقیب نے دلِ اعدا بڑھا دیا
غل تھا کہ کوئی دم میں شہ دوسرا نہیں
زینب ؑ کا اب جہاں میں کوئی دوسرا نہیں
(جب سرنگوں ہوا علم کہکشانِ شب)
مرثیے میں آمد وہ مقام ہے جہاں سے میدانِ جنگ کا نقشہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس تعلق سے موضوع کا تقاضا یہ ہے کہ ہیرو کی آن بان، اس کی شجاعت و بہادری ، اس کی آمد کا میدانِ جنگ پر اثر، دشمنوں پر خوف و ہراس یا ان کے کسی اور ردِ عمل کا اظہار ہو تا کہ ان مضامین کی مدد سے ہیرو کی میدانِ جنگ میں آمد سے جنگی فضا کو برقرار رکھا جا سکے ۔دبیر اس بات سے بخوبی آگاہ تھے اسی لیے وہ ہیرو کی میدانِ جنگ میں آمد کے وقت ایک خاص طرح کا ماحول قائم کرتے ہیں اور اپنے ہیرو کی تعریف میں ہر ممکن مبالغے سے کام لیتے ہیں تا کہ دشمنوں پر اس کی برتری قائم رکھتے ہوئے ہیرو کو رزم کی طرف لے جایا جائے۔ میدانِ جنگ میں حضرت عباسؑ کی آمد کا ایک منظرملاحظہ ہو:
کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے
رن ایک طرفِ چرخِ کہن کانپ رہا ہے
رستم کا بدن زیرِ کفن کانپ رہا ہے
ہر قصرِ سلاطینِ زمن کانپ رہا ہے
شمشیر بکف دیکھ کے حیدر کے پسر کو
جبرئیل لرزتے ہیں سمیٹے ہوئے پر کو
(کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے)
رجز اردو مرثیے کا ایک اہم جزو ہے۔ یہ صرف اردو مرثیہ نگاروں کی پیداوار نہیں بلکہ عرب و عجم میں رزم آرائی کا ایک خاص دستور رہا ہے کہ جب دو حریف مقابلے پر آتے تھے تو ایک دوسرے پر اپنے شجاعانہ تفوق کا اظہار کرتے تھے ۔ دبیر کے مرثیوں میں رجز کو خاص اہمیت حاصل ہے اسی لیے وہ رجز میں متواتر کئی کئی بند درج کر دیتے ہیں۔ دبیر کے مرثیوں میں رجز سے متعلق ڈاکٹر ظہیر فتح پوری لکھتے ہیں:
رجز کو دبیر نے نئی وسعتیں دیں۔ ایسی وسعتیں جن سے مرثیہ ہی نہیں ، تمام اردو شاعری نا آشنا تھی۔۔۔دبیر نے رجز میں مادی و روحانی قدروں کو یک جا کیا ہے اور ایسا طرزِ بیان اختیار کیا ہے جو موقع محل کی مناسبت کے علاوہ آہنگ کی موزونیت بھی رکھتا ہے۔ ” (۶)
دبیر کے ہاں رجز دو طرفہ بیان کیا جاتا ہے۔ رجز میں پہل مخالف کو دی جاتی ہے اسی لیے دبیر کے مرثیوں میں رجز پہلے یزیدی لشکر کا کوئی جنگجو پڑھتا ہے ۔ رجز صرف اس مردِ جری کی شجاعت و بہادری کا ہی بیان نہیں ہوتا بلکہ اس کے حسب و نسب کو بیان کرتا ہے۔ یوں قاری دونوں طرف کے کرداروں کے احوال سے آگاہ ہو جاتا ہے۔ مرحب بن عبدالقمر جب حضرت عباسؑ کے مقابلے میں آتا ہے تو یوں رجز پڑھتا ہے:
نیزے کو ہلایا کبھی ترچھا کبھی آڑا
پڑھ پڑھ کے رجز باغِ فصاحت کو اجاڑا
ظالم نے کئی پشت کے مردوں کو اکھاڑا
بولا مری ہمت نے جگر شیروں کا پھاڑا
ہم پنجہ نہ رستم ہے نہ سہراب ہے میرا
مرحب بنِ عبدالقمر القاب ہے میرا
(کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے)
اس کے مقابلے میں حضرت عباسؑ کا رجز بھی ملاحظہ ہو جس میں دونوں کرداروں کی تفریق واضح ہو جاتی ہے:
عبدالقمر نحس کا تو داغِ جگر ہے
میں چاند علی کا ہوں، تجھے کچھ بھی خبر ہے
تو کفر ہے میں دین ہوں، میں خیر تو شر ہے
میں مالکِ فردوس ہوں، تو اہلِ سقر ہے
تو غول بیاباں، میں سلیمانِ علی ؑ ہوں
تو روبہ ہے، میں شیرِ نیستانِ علی ؑ ہوں
(کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے)
دبیر کے مرثیوں میں جنگ کا آغاز باقاعدہ مبارزت اور رجز کے بعد ہوتا ہے۔ ایسے میں لشکروں کی آراستگی اور مخالفین کی کردارنگاری کرنا ان کے لیے قطعاً مشکل نہیں ہوتا۔ دراصل دبیر لکھنوی تہذیب کے پروردہ تھے جس تہذیب کے اہم عناصر میں فنون اور مذہب بھی شامل تھے۔ ادب میں مذہب اور عملی فنون(سپہ گری ، شمشیر زنی وغیرہ) کا مظہر مرثیہ سے بہتر کوئی صنف نہیں ہو سکتی تھی۔ دبیر کے مرثیوں میں رزم نگاری کے اعتبار سے واقعات کے بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دبیر جنگ اور اس کے متعلقہ لوازمات سے مکمل طور پر آگاہ تھے۔ دبیر سامانِ حرب اور واقعاتِ حرب کا بیان اس قدر تفصیل اور جزیات سے کرتے ہیں کہ ان پر مشاہدے کا گمان ہوتا ہے۔ پروفیسر ابنِ کنول مرزا دبیر کے عہد کے مرثیہ نگاروں سے متعلق لکھتے ہیں جن مرثیہ نگاروں میں بلاشبہ مرزا دبیر بھی شامل ہیں:
انیسویں صدی کے آخر تک کے مرثیہ نگار ان آلات ِ حرب سے اچھی طرح واقفیت رکھتے تھے جو میدانِ کربلا کی جنگ کے وقت استعمال ہوئے ہوں گے، اسی لیے گزشتہ صدیوں کے مرثیہ نگاروں کے بیانِ رزم میں مشاہدہ کی صداقت نظر آتی ہے۔ “(۷)
امام حسین ؑ کی جنگ کا ایک منظر جہاں پر مشاہدے کی صداقت کا گماں ہوتا ہے:
خیبر کشا کا زور کیا شہ نے آشکار
لائے جھکا کے تیغ ہوئے تنگ راہوار
رکھ کر شکم فرس کا سرِ نوکِ ذوالفقار
اونچی جو تیغ کی تو اٹھ آیا معِ ذوالفقار
پھر خود مثلِ رنگ پریدہ ہوائی تھا
خود اک طرف، ذرہ کا بھی دیدہ ہوائی تھا
(جب شامیوں میں صبح کی نوبت کا غل ہوا)
مرثیہ گو کا مقصد ہیرو کی بہادری کو ثابت کرنا ہوتا ہے۔ مرثیے میں پیش کردہ المیہ تب ہی موثر ہو گا جب اس میں ہیرو کی بہادری کمال پر ہو گی۔اور یہ بہادری اس وقت تک درجہ کمال تک نہیں پہنچتی جب تک ہیرو یکتا و تنہا مردِ میدان قرار نہ پائے۔ ہیرو کے مدِ مقابل چاہے ایک دیو قامت دشمن ہو یا کہ لاکھوں لشکری ان سب کے لیے ہیرو اکیلا ہی کافی ہونا چاہیے۔ رزم نگاری کے اس حصے میں مرثیہ نگار ہر طرح سے ہیرو کی دشمن پر فوقیت ثابت کرتا ہے۔ ہیرو جب میدانِ جنگ میں آتا ہے تو مخالفین کو ابتداء میں روند ڈالتا ہے۔ مخالفین کے ہزاروں سپاہیوں پر وہ اکیلا ہی کافی ثابت ہوتا ہے۔ اسی تکنیک کو دبیر اپنے مرثیوں میں استعمال کرتے ہیں۔حضرت علی اکبر ؑ کی جنگ کا منظر:
چھائی جو سرِ دست یہ صمصام کی بدلی
رت پھر گئی، رنگت سپہِ شام کی بدلی
بدلی نے ہوا گردشِ ایام کی بدلی
غل تھا کہ نگہ کفر سے اسلام کی بدلی
گرنے میں جھڑی لگ گئی بیداد گروں کی
پڑنے لگی بوچھار جہنم میں سروں کی
(ماتم کا مرقع ہے کہ خاموش ہے مجلس)
دبیر کے مرثیوں میں شر کا نمائندہ(ولن) بھی ہیرو کی جسامت سے کسی صورت کم تر نہیں ہوتا۔ دبیر نے اس بات کی شعوری کوشش کی ہے کہ وہ نمائندہ ِ شر کو بڑھا چڑھا کر بیان کریں جس سے ایک طرف تو وہ سامعین اور قاری کے دلوں میں اس کا خوف پیدا کرتے ہیں اور دوسری طرف ہیرو کی شجاعت کی دھاک بٹھانے میں بھی کامیاب ہوتے ہیں۔ دبیر نے نمائندہِ شر کو صرف دیو قامت صورت میں ہی پیش نہیں کیا بلکہ اس کی کردار نگاری میں دنیا کی تمام بدصورتی اوربد کماشی بھی شامل کر دی ہے۔ اس کی مثال ملاحظہ ہو:
ناگاہ رستمانہ بڑھا ایک پہلواں
پہلو نشین زال و پشن پہلوے جواں
پشت و پناہ فارسیانِ قالب تواں
آمد سے اس کی ڈر کے ہوا رن رواں دواں
پہلے بیان نام و نسب اپنا کیا
دریافت پھر حسینؑ سے نام و نسب کیا
(جب شامیوں میں صبح کی نوبت کاغل ہوا)
دبیر کسی ایک واقعے کو بیان کر کے آگے نہیں بڑھ جاتے۔ انہیں مرثیے کو منطقی انجام تک پہنچانے کی بالکل بھی جلدی نہیں ہوتی بلکہ وہ ایسے واقعات کو طول دیتے ہیں جن کے بیان سے وہ تجسس اور دلچسپی کو ایک ساتھ برقرار رکھ سکتے ہیں۔ آگے کیا ہوگا ، کیسے ہو گا یہ وہ باتیں ہیں جودبیر کے مرثیے کے سامع اور قاری کو بے قرار رکھتی ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ مرثیے کا انجام المناک ہوتا ہے دبیر قاری اور سامع کو تخیل اور جذباتی اعتبار سے اس مقام پر لے جاتے ہیں جہاں وہ سامع یا قاری ہیرو کو مرتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتا۔ لیکن اس تمام تر دادِ شجاعت کے باوجود ہیرو کا زندہ بچ جانا ممکن نہیں ہوتا ۔ اتنی شجاعت کے بعد ہیرو مر جائے گا اگر اس کو ایسے ہی بیان کر دیا جائے تو یہ بات قاری کے لیے باعث اطمینان نہیں بن سکتی اسی لیے دبیر ہیرو کو جنگ میں دادِ شجاعت دینے کے بعد جب شہادت کی طرف لے کر جاتے ہیں تو اس مقام پر وہ مرثیے کو ایک نیا موڑ (گریز)دیتے ہیں ۔ یہ نیا موڑ اور اس کے نتیجے میں پیدا شدہ صورتحال قاری کے لیے قابلِ قبول ہوتی ہے۔ حضرت امام حسین ؑ کی میدانِ کربلا میں جنگ کے بعد جب دبیر ان کی شہادت کے بیان کی طرف بڑھتے ہیں تو یہ انداز اختیار کرتے ہیں:
ناگہ ندا سنی کہ عبادت کا وقت ہے
خنجر تلے قضا کی فضیلت کا وقت ہے
شبیرؑ بس نمازِ شہادت کا وقت ہے
مانگو دعا یہ بخششِ امت کا وقت ہے
اب تم ہو اور حضوریِ معبود ہے حسینؑ
یہ سر جھکا کے بولے کہ موجود ہے حسینؑ
کس کی ز بان سے پیاس نے پائی ہے آ برو
مرثیے میں ہیرو کی شہادت وہ کلائمکس ہے جہاں پر قاری کو لانا مرثیہ گو کا منہتائے مقصود ہوتا ہے۔ ابتدائے مرثیہ میں مرثیہ گو تمام تر کوشش اسی لیے کرتا ہے کہ وہ مرثیہ کے ہیرو سے قاری کو زیادہ سے زیادہ متاثر کر سکے کیونکہ اسی صورت میں اس ہیرو کی موت قاری اور سامع کے لیے المیہ ثابت ہو سکتی ہے۔ در اصل مرثیے کا سب سے اہم رکن ہیرو کی شہادت ہے کیونکہ مرثیے کا مقصد ہیرو کی شہادت کا بیان ہی ہوتا ہے۔ دبیر کے ہاں ہیرو کی شہادت کا بیان ان کے پہلے بیانیے سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔ ہیرو کی شہادت کے بیان میں وہ خطیبانہ انداز اختیار کر لیتے ہیں اور اپنے قاری کو براہ راست مخاطب کرتے ہیں یوں ہیرو کی شہادت کا بیان اور زیادہ پر تاثیر ہو جاتا ہے ۔حضرت امام حسین ؑ کی شہادت کا بیان ملاحظہ ہو:
لو مومنو لرزتا ہے اب دشتِ کربلا
لو غش ہوا بتول کی آغوش کا پلا
لو شمر ذبح کرنے کو مظلوم کے چلا
لو اب چھری ہے اور نبیؐ زاد کا گلا
بیٹے موئے نہ نکلی مگر اب نکل پڑی
منہ ڈھانپو اے حسینیو! زینبؑ نکل پڑی
(جب شامیوں میں صبح کی نوبت کا غل ہوا)
دبیر کے ہاں رزم نگاری کے بیان میں دیگر تمام مرثیہ گویوں سے زیادہ وسعت اور تنوع پایا جاتا ہے۔ اردو مرثیہ میں دبیر بلاشبہ سب سے بڑے رزمیہ نگار شاعر ہیں کیونکہ رزمیہ کی شاعرانہ فضا بنانے میں دبیر لاثانی حیثیت رکھتے ہیں۔اس فضا کو برقرار رکھنے کے لیے وہ رزم سے متعلق مخصوص الفاظ مثلاً؛ پگڑی، خود، عمامہ، ابلق، اسوار، براق، باگ، توسن، ٹاپ، چار جامہ، رکاب، زین، فتراک، قاش زین، برچھا، بھالا، پیکان، ترکش، تلوار، ذوالفقار، تیر، تیغ، کمان، خدنگ، خنجر، سپر، سروہی، سوفار، نیزہ، گرز، پرچم، پھریرا، جھنڈا، طبل وغیرہ کا برموقع و محل استعمال کرتے ہیں۔ رزم نگاری سے متعلق مرزا دبیر کے اسی کمال سے متعلق ڈاکٹر شجاعت علی سندیلوی لکھتے ہیں:
زبان پرشکوہ اور اندازِ بیان باوقارہے ۔ مرزا دبیر ایسے موضوع بیان کرنے میں انیس سے بازی لے گئے ہیں جن میں خیالات پر زور ہوتے ہیں مثلاً معرکہ جنگ، رزم، رجز، فخر و مباہات ، تلوار کی تعریف وغیرہ۔ ” (۸)
دبیر کے مرثیو ں میں رزم نگاری جس قدر دلچسپی کی حامل ہے اسی قدر اس کا بیان دردناک بھی ہے۔ جنگ سے متعلق تمام لوازمات اور واقعات کو اس قدر تفصیل سے بیان کرنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ دبیر کو رزم اور اس سے متعلق لوازمات سے مکمل آگاہی تھی۔ رزمِ کربلا ایسی جنگ تھی جو ایک خاص مقصد کے حصول کے لیے لڑی گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مرثیہ میں کامیاب رزم نگاری کے بیان کے ساتھ ساتھ ان مقاصد کو قاری اور سامع تک پہنچانا بھی ضروری تھا۔ مرزا دبیر کے مرثیوں میں یہ دونوں عناصر برابر نظر آتے ہیں۔ ان کے مرثیوں میں منظر کشی، واقعہ نگاری، جنگجو، گھوڑا، تلوار، رخصت، آمد، جنگ، شہادت، اور بین کے علاوہ صبر و تحمل، جرات و ہمت، سرفروشی، حق و صداقت کی راہ میں سب کچھ نثار کر دینے کا ولولہ ، مقصد کی صداقت کا اٹل یقین، باطل کے سامنے سر نہ جھکانا، مصیبتوں اور پریشانیوں میں گھِر کر بھی مقصد کو سامنے رکھنا ، غرض وہ سب کچھ ملتا ہے جو آدمی کو انسان بننے میں مدد دے سکتا ہے۔محض تاریخی منظرنامے کی بنا پر دبیر نے اپنے لفظوں سے ایسی رزم تیار کی ہے اور اس سے متعلق معلومات اور اندازِ بیان سے اس میں ایسا رنگ بھر دیا ہے کہ نہ صرف اس رزم پر مشاہدے کا گمان ہوتا ہے بلکہ اس صلاحیت میں ان کا ثانی تلاش کرنا نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔

حوالہ جات:

۱۔Chris Baldick, A concise oxford dictionary of literary terms, oxford university press, 2001, P 81
۲۔مظفر حسن ملک، ڈاکٹر، اردو مرثیے میں مرزا دبیر کا مقام، مقبول اکیڈمی، لاہور، ۱۹۷۶ء ص ۱۸۱
۳۔عقیل الغروی، سید، انیس و دبیر کی رزمیہ نگاری، مشمولہ انیس و دبیر حیات و خدمات، مرتبہ پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی ، غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی، ۲۰۰۷ء،ص ۱۰۳
۴۔ظہیر فتح پوری، ڈاکٹر، مقدمہ، منتخب مراثی دبیر، مجلس ترقی ادب، لاہور، ۲۰۰۶ء،ص ۴۶
۵۔شبلی نعمانی، مولانا، موازنہ انیس و دبیر،لالہ رام نرائن لعل بک سیلر، الہ آباد، ۱۹۳۶، ص ۲۳۲
۶۔ظہیر فتح پوری، ڈاکٹر، مقدمہ، منتخب مراثی دبیر، مجلس ترقی ادب، لاہور، ۲۰۰۶ء،ص ۲۹۔۲۸
۷۔ابنِ کنول، پروفیسر، اردو مرثیہ میں رزم نگاری، مشمولہ، اردو ریسرچ جرنل، شمارہ دوئم، جنوری تا مارچ ۲۰۱۵ء، ص ۱۱
۸۔شجاعت علی سندیلوی، ڈاکٹر، تعارف مرثیہ، ادارہ انیس اردو ، الہ آباد، ۱۹۵۹ء،ص ۵۴
٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.