اکیسویں صدی کی اہم خواتین افسانہ نگاروں کے موضوعات

محمد سرور لون

ریسرچ اسکالر، شعبۂ اردو ،سینٹرل یونی ورسٹی آف حیدرآباد
7006880370
lonesarwar1@gmail.com

اردو زبان و ادب کی خدمات میں خواتین کی خدمات سے چشم پوشی زیادتی ہوگی جو ان کی سیاسی اور سماجی بصیرت، علمی شغفت اور شعور کی پختگی کا بین ثبوت ہے۔خواتین افسانہ نگاروں نے عورت کے جذبات، احساسات اور جذبٔہ ایثار کو ہمیشہ بڑی چابکدستی اور فن کاری سے پیش کیا ہے۔ ان کا مقصد محض اپنی نمائندگی نہیں بلکہ عصری تقاضوں کے تحت سماج کو سجانے ، سنوارنے اور نابرابری کے خاتمے کا جذبہ بھی کارفرماں رہا ہے۔
افسانے کے ابتدائی نقوش سے ہی خواتین ادیبائیں اردو ادب کے افق پر نظر آتی ہیں لیکن مخصوص سماجی و ثقافتی صورت ِ حال کے پیش نظر ان کی تخلیقات فرضی ناموں سے شائع ہوتی تھیں ۔ انیسوی صدی کے آخری آیام میں جن خواتین ناول نگاروں نے ناول تخلیق کیے ان میں سے اکثروں کی تعداد ایسی تھی جو نظیر احمد کی شخصیت اور ان کی تحریوں سے متاثر تھیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ نذیر احمد نے عورتوں کی تعلیم و تربیت ، خانگی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات اور اسی طرح کے عورتوں کے دوسرے مسائل کو اپنا موضوع بنایا تھا۔ یہ باتیں ان ادیباؤں کو بھلی معلوم ہوئی لہٰذا انھوں نے اپنے مسائل کو کہانیوں کی شکل میں بیان کرناشروع کر دیا۔ ’’اصلاح النساں‘‘، ’’مشیر نسواں‘‘، اور ’’آہ مظلوماں‘‘وغیرہ ایسی ہی کہانیاں ہیں جو عنوان سے ہی موضوع کا پتہ دیتی ہیں۔ مطلب یہ کہ ان ادیباؤں نے بھی تعلیم نسواں، لڑکیوں کی کم سنی میں شادی کے مضر اثرات، مشرقی عورتوں کی روایتی پاس داری اور گھریلو مسائل کو اپنا موضوع خاص بنایا۔
افسانے کا ذکر کریں توخواتین افسانہ نگاروں کی ایک طویل فہرست ہے۔حجاب امتیاز علی، نذر سجاد حیدر، رشید جہاں، چغتائی، صالحہ عابد حسین اور وہ افسانہ نویس خواتین جو ترقی پسند تحریک کے زمانے میں منظر عام پر آئیں، انھوں نے بھی عورتوں کے مخصوص مسائل پر بحث کیں۔ پہلی بار مکمل طور پر افسانے کے اجزائے ترکیبی رشید جہاں کے افسانوں میں دکھائی دیتی ہیں۔ یہ وہ افسانہ نگار خاتون ہے جنھوں نے ’انگارے‘ میں لکھااور اس وقت لکھا جب عورت کو آج کی طرح اظہار خیال کی آزادی حاصل نہیں تھی گویا رشید جہاں نے عورتوں کو سماج سے آنکھ ملا کر باتیں کرنے پر آمادہ کیا۔ رشید جہاں کا اثر چغتائی پر نمایاں دکھائی دیتا ہے۔
نصف صدی پہلے جس انگارہ کو رشید جہاں نے روشن کیا اسے شعلہ میں تبدیل کرنے میں چغتائی ، قرۃالعین حیدر، رضیہ سجادظہر، ممتاز شیریں نے اہم کارنامہ انجام دیا۔ ان ادیباؤں کی تخلیقات کا وافر حصہ انہی مسائل سے مملو ہیں۔ اس معاملے میں قرۃالعین حیدر اور خالدہ حسین کے افسانے اہمیت کے حامل ہیں اس لیے کہ انھوں نے بین الاقوامی مسائل کو بھی پیش نظرر کھ کر اپنی تحریروں میں ہیئت و تکنیک کی سطح پر نئے نئے تجربے بھی کیے۔
۱۹۸۰ء کے بعد جو خواتین افسانہ نگار منظرعام پر آئیں وہ زیادہ حساس واقع ہوئیں۔ ان میں ترنم ریاض، غزال ضیغم ، ذکیہ مشہدی، فریدہ زین، قمر جمالی، کہکشاں پروین،شائستہ فاخری وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ اکیسویں صدی میں دو طرح کے افسانہ نگار ہیں۔ ایک تو وہ جنھوں نے اکیسویں صدی میں لکھنا شروع کیا ، دوسرے وہ افسانہ نگار جو بیسویں صدی کی آخری دہائیوں سے ہی لکھتے آ رہے ہیں اور انھوں نے اکیسویں صدی میں بھی تحریری سفر جاری رکھا ہوا ہے۔ ان میں خواتین افسانہ نگار بھی شامل ہیں۔ان خواتین افسانہ نگاروں میں ترنم ریاض، غزال ضغیم، تبسم فاطمہ، وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح اکیسویں صدی سے اپنا افسانوی سفر شروع کرنے والوں میں ثروت خان، شائستہ فاخری، تسنیم فاطمہ،نصرت شمسی، شبانہ رضوی ، زیب النسا وغیرہ کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔
ابتدائی دور کی خواتین تحریروں میں اپنا نام ظاہر کرنا مناسب نہیں سمجھتی تھیں اور وہ اپنے نام کی جگہ کوئی فرضی یا بنت فلاں لکھتی تھیں۔ لیکن جب خاتوں قلم کار بے باک ہوئیں تو اس درجہ کہ رشید جہاں اور چغتائی کی صورتوں میں ہمارے سامنے آئیں، جن کے افسانوں کو پڑھنا کبھی معیوب، کبھی اخلاق کے خلاف سمجھا گیااور کبھی کفر کا فتویٰ صادر کر دیا گیا۔ آج کی خاتون افسانہ نگار نہ تو خفیہ طور پر لکھ رہی ہے بلکہ وہ فخریہ لکھتی ہیں اور اب ان کا لکھنا باعث عزت سمجھا جاتا ہے۔پہلے صرف اچھے یا بڑے گھرانوں کی عورتیں لکھا کرتیں تھی لیکن آج تعلیم کے عام ہونے کی وجہ سے ہر طبقہ اور سماج سے خاتون قلم کار سامنے آرہی ہیں ۔یہ سماجی اعتبار سے ایک بڑی تبدیلی ہے۔
گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ خواتین افسانہ نگاروں کے موضوعات میں تنوع اور رنگا رنگی بھی پیدا ہو رہی ہے۔ ابتدا میں خواتین ، اکثر خواتین ہی کے موضوعات تک محدود رہتی تھیں رفتہ رفتہ ان کے موضوعات میں وسعت اور تنوع پیدا ہونے لگا۔آج کا مصنف آزاد ہے وہ کسی بھی نظریے ، تحریک میں قید نہیں ہے۔ اسے فکری آزادی ہے۔ دنیا کے عالمی گاؤں میں تبدیل ہو جانے کے سبب اور انفارمیشن ٹکنالوجی کی برکتوں کے باعث تمام دنیا کے موضوعات کو اپنی کہانیوں میں سمیٹتا ہے۔ آج خواتین افسانہ نگاروں کے یہاں بھی سماجی حیثیت پائی جاتی ہے اور معاصر معاشرہ ان کے افسانوں میں زندہ اور متحرک نظر آتا ہے۔
اس ضمن میں پہلا اور اہم نام ذکیہ مشہدی (۱۹۴۵) کا ہے۔ا ن کے ابھی تک پانچ افسانوی مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ جن کے نام’’پرائے چہرے‘‘ (۱۹۸۴ء)، ’’تاریک راہوں کے مسافر‘‘ (۱۹۹۳ء)، ’’صدائے بازگشت‘‘(۲۰۰۳)، ’’نقش ناتمام‘‘ (۲۰۰۸ء)، اور ’’یہ جہاں رنگ و بود‘‘ (۲۰۱۳ء) ہیں۔یوں تو ان کے موضوعات میں تنوع بہ آسانی تلاش کیا جاسکتا ہے ۔مٹتی ہوئی تہذیبی قدریں، آگے بڑھتی ہوئی زندگی اور اس کی دھول میں گم ہوتے رشتے، فرقہ واریت، فسادات، اپنوں کی بے اعتنائی کی شکار اردوزبان کی زبوں حالی اور سماجی تفریق وغیرہ ان کے خاص موضوعات ہیں۔انھوں نے سماجی موضوعات پر دل کھول کر لکھا ہے۔ افسانہ ’’افعی‘‘ اس کی تازہ مثال ہے۔اس افسانہ میں یوں تو انھوں نے کالج کی زندگی اور نئے طلبہ کی ریگنگ کا ذکر کیا ہے لیکن اس کی تہہ تک پہنچنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اقلیتی کردار کے حوالے سے یہ کہانی لکھی گئی ہے۔ کالج کی زندگی میں ایک مسلم طالب علم کو کیا کچھ جھیلنا پڑتا ہے، سبھی کچھ اس میں اشاروں میں بیان ہوا ہے۔ اس کے علاوہ بابری مسجد کے انہدام کے المیے کا ذکر بھی اس میں ہے۔ ذکیہ مشہدی کے ان افسانوں کے علاوہ کئی اور افسانے ہیں جن میں انھوں نے بین الاقوامی مسائل کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ نئے اور پرانے تہذیبوں کے تصادم پر بھی ان کی گرفت مضبوط ہے۔ ’’اجن ماموں کا بیٹھکہ‘‘ میں جس طرح سے پرانے زمانے کے پر سکون اور نئی نسل کے اتھل پتھل اور جذبات کو بیان کیا ہے وہ قابلِ دید ہے۔ اس افسانے میں گھر کے ذریعے باہر کی بات کی گئی ہے۔ پھیلے ہوئے دائرے کو مصنفہ نے بڑی ذمہ داری اور فن کاری سے سمیٹ لیا ہے۔ ’اجن ماموں‘ ایک زمیندار گھرانے کے فرد تھے یہی وجہ تھی کہ زمینداروں کی طرح ان کے یہاں بھی لوگوں کی بیٹھکیں ہوتی رہتی تھیں:
’’اجن ماموں کے بیٹھکے میں احباب کا جمگھٹ ہر چھٹی کا معمول تھالیکن آج کسی نے پنڈت نہرو کی حالیہ تقریر پر گفتگو کی ، نہ سیاست اور قومی آواز کے ایڈیٹوریل زیر بحث آئے۔۔۔۔۔۔اجن ماموں کی بیٹھک میں کوئی قہقہ بھی نہیں گونجا۔‘‘
(صدائے باز گشت، ص ۱۳)
اس اقتباس سے تقسیم ہند کے قبل کا خاندا نی ماحول سامنے آجاتا ہے۔زمینداری کے زمانے میں بیٹھکے کا نقشہ مختلف ہوا کرتا تھالیکن جیسے ہی ملک کے حالات بدلے سب کچھ بدل گیا۔ اٖفراد خاندان کے کردار، افعال، تہذیب اور بھی بہت سی چیزیں یعنی سیاسی اور سماجی محرکات و عوامل بھی بدل گئے۔ یہ ساری باتیں اجن ماموں کے لیے حیران کن تھیں۔
ترنم ریاض اکیسویں صدی کی خواتین افسانہ نگاروں میں ایک منفرد مقام رکھتی ہیں ۔ ان کے ابھی تک چار افسانوی مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ ترنم ریاض کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’یہ تنگ زمین‘‘ ۱۹۹۸ء ، دوسرا’’ ابابیلیں لوٹ آئیں گی‘‘ ۲۰۰۰ء، تیسرا’’یمبرزل ‘‘ ۲۰۰۴ء، میں اور چوتھامجموعہ ’’میرارختِ سفر‘‘ ۲۰۰۸ء میں شائع ہوا۔ ترنم ریاض کے افسانوں میں عورت کے جذبات و احساسات، ان پر ہوئے مظالم، محرومیاں، آنسوں اور کرب کا ذکربار بار آتا ہے۔ افسانہ ’’نا خدا ‘‘اس کی مثال ہے۔ان کے موضوعات کا کینوس بڑا وسیع ہے۔رنگ و نسل، حسب نسب، طاقت، جہالت، سیاست، ملکی و عالمی مسائل، ازدواجی زندگی کے نشیب و فراز ان کے افسانوں کے خاص موضوعات ہیں۔ اس کے علاوہ کشمیری زندگی، وہاں کے عوام کا درد، کرب و مسائل کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں خاندانی زندگی کے مختلف Shades کو بڑی کامیابی کے ساتھ اجا گر کیا ہے۔ اس کی مثال ان کے افسانے’پورٹریٹ‘ ، ’حور‘ او ’ر گلچیں‘ میں بخوبی ملتی ہے۔افسانہ ’’پورٹریٹ‘‘ایک ایساافسانہ ہے جس میں ساس بہو کے رشتے دوسرے عزیزوں کے ذریعے اثر انداز ہوتے ہیں ۔ ساس کی حد سے زیادہ سختی کی وجہ سے بہو اور بیٹے کی ازدواجی زندگی خوف ناک حد تک اذیت ناک بن جاتی ہے لیکن بہو سب کچھ برداشت کر تی ہے ، صبر و تحمل سے کام لیتی ہے اور گھر کے ماحول کو خراب ہونے نہیں دیتی۔افسانہ ’’حور ‘‘ میں ایک کشمیری خاندان کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس خاندان میں شریفہ اور حور دو بہنیں ہیں۔ دوسرا خاندان ایک لکڑی کے کاری گر کا ہے جہاں غریبی اور مفلسی سے حالات بدتر ہیں۔ بڑی لڑکی کی شادی ایک غریب گھرانے کے لڑکے سے ہو جاتی ہے ۔ جب کہ’ حور‘کی شادی ایک گونگے شخص سے ہو جاتی ہے جو اس کے والد کی دوکان پر کام کرتا ہے۔ افسانہ نگار نے گھر کے شادی کے ماحول کو کشمیری رسم و رواج کے حوالے سے پیش کیا ہے:
’’وقفہ وقفہ کے بعد کوئی خاتون آتی اور دلہن کے سامنے رکھی ہوئی کانگڑی میں اسپند کے دانے ڈال جاتی ایسے میں کانگڑی کے ساتھ بندھی’’ژالن‘‘ سے آگ کو ہلاتی اور دانے آگ سے چھوتے ہی چٹخ چٹخ کر فضا میں خوشبو بکھیر دیتے۔‘‘
(مجموعہ یہ تنگ زمین، ص:۶۱)
افسانہ ’’گلچیں‘‘ بھی ایک گھریلو سطح کا افسانہ ہے۔ بظاہر یہ دو چھوٹے بچوں کی نفسیات پر مبنی ہے لیکن خاتون خانہ کے صبر و ایثار کو بڑی باریکی سے دکھایا گیا ہے۔ اس کو گھر میں ہر طرح سے ستایاجاتا ہے۔ نتیجتاً وہ اپنے دونوں بچوں کو چھوڑ کر مائکے چلی جاتی ہے۔ بڑے بچے کی پروش توجہ کے ساتھ کی جاتی ہے جب کہ دوسرا بچہ افرادِ خاندان کی شفقت و محبت سے محروم رہتا ہے۔ اس کا خیال گھر میں کوئی نہیں رکھتا۔ جس کی وجہ سے اس میں ضد و بغاوت کا جذبہ پنپنے لگتا ہے۔ ترنم ریاض نے بڑے فنکارانہ طریقے سے اس پہلو کی طرف اشارہ کیا ہے کہ بچوں کے تئیں ماں باپ اور دیگر افرادِ خاندان کا خراب رویہ ان کی زندگی کو متاثر کرتا ہے اور اس میں نفسیاتی کج روی پیدا ہو جاتی ہے۔ ان کے دوسرے افسانوں میں بھی یہی صورتحال دکھائی دیتی ہیں محدود صفحات میں یہاں ان کا احاطہ ممکن نہیں۔ ان کا امتیاز یہ ہے کہ موضوعات ہزار گھریلو انداز کے ہوں ، رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ ہو، زن و شو ہرکے درمیان کی کشمکش ہو یا پھر کشمیر کا مسئلہ ہو وہ بڑی آسانی سے اسے ایک انسانی مسئلے کی شکل دے دیتی ہیں۔
ترنم ریاض کے افسانوں کی خاصیت یہ ہے کہ ان کے افسانوں کا ابتدائیہ اور خاتمہ چونکا دینےوالا ہوتا ہے ۔ طارق چھتاری ان کی افسانہ نویسی کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں:
’’ترنم ریاض کی انفرادیت یہ ہے کہ ان کے افسانوں کے بیشتر کردار، واقعات اور مناظرسب سے پہلے قاری کے دل پر اثر انداز ہوتے ہیں پھر فہم و دانش سے لبریز ہو جانے والے دل سے پھوٹتی شعائیں اس کے ذہن کو بھی منور کر دیتی ہیں اور خود کو افسانے کا ایک کردار سمجھ کر افسانہ نگار کے تخلیقی عمل میں شریک ہو جاتا ہے۔ یہ فن کی معراج ہے، اس کی کسوٹی پر ترنم ریاض کے افسانے پورے اترتے ہیں۔‘‘
(شعر و حکمت‘‘ دسمبر ۲۰۰۶، ص۳۵۶)
غزال ضیغم کا نام اس ضمن میں کافی اہمیت کا حامل ہے۲۰۰۰ء میں افسانوں کا اکلوتا مجموعہ ’’ایک ٹکڑا دھوپ کا‘‘ شائع ہوا۔۔اس مجموعے کے ’’سوریہ ونشی چندر ونشی‘‘ ، ’’مدھو بن میں رادھیکا‘‘ اور ’’ایک ٹکڑا دھوپ کا‘‘ جیسے ا فسانے قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ ان کے افسانوں کا کینوس کافی وسیع ہے۔ وہ نئے موضوعات کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہیں۔ افسانہ’’ مدھوبن میں رادھیکا‘‘ موضوع کے تنوع کے ضمن میں اہم ہے۔ اس افسانے میں نجمہ باجی کا کردار ماڈرن عورت کا استعارہ ہے جن کی شخصیت میں سگریٹ پینا، مردوں کے ساتھ اختلاط، شوہر کے ہوتے ہوئے تنہائی کی سی زندگی گذارنااور اس طرح کی دوسرے خصائص شامل ہیں۔ جب کہ ان کو مردوں سے شدید نفرت ہے اور اس بات کا اندازہ ان کی تحریروں سے بہ آسانی لگایا جا سکتا ہے۔ ساجد جیسے شریف النفس آدمی کے ساتھ غلط کرنااس کی زندگی کا خاصہ بھی ہے۔ عورت، غزال ضیغم کے افسانوں کا محبوب استعارہ ہے ۔ ان کے افسانوں میں عورت کا روپ ہر طور نظر آتا ہے۔ افسانہ ’’خوشبو ‘‘ میں ایک بہن ، ماں کے روپ میں ہے اور وہ اپنی والدہ کی وفات کے بعد بھائی کی ہر بات کا خیال رکھتی ہے تو افسانہ ’’بے دروازے کا گھر‘‘ میں ایک عورت خود کفیل ہے اور اپنی آنکھوں سے دنیا دیکھنا چاہتی ہے وجہ صرف یہ ہے کہ لوگ اسے حقیر و کمتر سمجھتے ہیں لیکن حقیقتاًایسا نہیں ہے۔
افسانہ ’’زندہ آنکھیں مردہ آنکھیں ‘‘ میں غزال ضیغم نے عورت کی ہمت و جرأت کو کہانی کا موضوع بنایا ہے ۔غزال ضیغم نے اس افسانہ میں بڑی عمدگی کے ساتھ معاشرتی نظام کی تصویر کشی کی ہے۔ خاندانی روایتیں، عداوتیں، رنجشیں کیسے خاندان کے خاندان تباہ کر دیتی ہیں؟ فرح کے سامنے جب اس کے بھائی کا گولیوں سے چھلنی جسم آتا ہے تو جہاں وہ فطری طور پر ٹوٹتی ہیں، غم میں ڈوب جاتی ہیں، وہیں اس کے اندر ہمت و حوصلے کی ایک مضبوط لہر اٹھتی ہے۔ اپنے بھائی کے دونوں بچوں کے سر پر ہاتھ پھیرتی ہوئی وہ ایک نیا قدم اٹھاتی ہے:
’’دونوں بچے سہم کر پھوپھی سے لپٹ گئے۔ اس نے ان کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا۔ پھر بھیڑ کی طرف منہ کر کے سرخ آنکھوں سے مخاطب ہوئی۔’’اب میں مقدمہ لڑوں گی ۔ دنیا کی اس عدالت سے اس عدالت تک۔‘‘ اس کے چہرے پر گہرے عزم کی چھاپ اور آواز میں چھپی تاثیر دیکھ کر خاندان کے سارے زندہ لوگوں کی آنکھیں مردہ ہو گئیں۔‘‘
(افسانہ ’زندہ آنکھیں مردہ آنکھیں‘‘ ایک ٹکڑا دھوپ کا، غزال ضیغم، ص:۸۳)
غزال ضیغم کا افسانہ’’سوریہ وشی، چندر ونشی‘‘ موضوع کے لحاظ سے اہم افسانہ ہے۔ اس میں تانیثی فکر بھی موجود ہے۔ اس کا مرکزی کردار روحی خان ہے۔ جوایک کنورٹڈ مسلم(شیعہ) خاندان کی چشم و چراغ ہے۔ اچھا خاصازمیندار گھرانہ تھا جس میں لڑکیوں کا نام خاندانی شجرے میں شامل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ وہ خاندان کی پہلی ایسی لڑکی ہے۔ جو کالج میں تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ وہ رعایا پر ظلم و ستم دیکھ کر کانپ اٹھتی ہے۔ وہ اپنے بھائی کے اس طرح کے رویے کے خلاف احتجاج کرتی ہے۔ دیہات کے ایک دوسرے غریب گھرانے سے اس خاندان کو جوڑا گیا ہے۔ سریتا، روحی خان کی روم میٹ ہے وہ اس کی مالی امداد بھی کرتی ہے۔ ہاسٹل سے گھر پہنچے پر روحی شادی کا ماحول دیکھ کر دنگ رہ جاتی ہے۔ وہ کہتی ہے:
’’جی نہیں شادی مجھے کرنی ہے۔ فیصلہ میں خود کروں گی ۔۔۔ میں ہر گز شادی نہیں کروں گی، زہر کھالوں گی۔۔۔۔میں آپ کی زمین کا خطہ نہیں ہوں کہ جس کو چاہیے آپ دے دیجیے ۔ اکیس سال کی لڑکی ہوں قانونی حق ہے میرے پاس بالغ ہونے کا۔‘‘
(ایک ٹکڑا دھوپ کا، ص۲۳)
یہ ایک آزاد اور خود مختار عورت کی آواز ہے جو پورے سماجی نظام کو بدلنے میں کوشاں نظر آتی ہے ۔ یہ ایک عمدہ کہانی ہے جو اپنے مقصد ، موضوع، زبان اور تاثر کی بنیاد پر آج کی کامیاب کہانیوں میں شمار کی جائے گی۔’’مشت خاک‘‘ایک سیاسی افسانہ ہے لیکن اس میں خاندانی زندگی کی بھی جھلکیاں ہیں۔ دیہات کا ایک ایسا زمیندار گھرانہ جہاں زمینداری کے خاتمے کے بعد گاؤں کی فضا بدلنےلگی۔ دیہات کے ادنیٰ طبقہ کے لوگ بڑے شہروں میں جا کر بس گئے۔ مالی حالت بہتر ہوئی تو یہ لوگ بڑے بڑے خواب دیکھنے لگے اس لیے اطہر میاں کی وہ عزت و توقیر اپنے گاؤں میں نہ رہی جو زمینداری کے وقتوں میں تھی۔ یہ اقتباس دیکھیے:
’’اس بار رام لال کا لونڈا گرمی کے موسم میں جو پلٹا تو اس کا نقشہ ہی بدل چکا تھا۔ گرم نیا خون جوش مار رہا تھا۔ الیکشن آتے ہی جھٹ پرچہ نامزدگی داخل کر دیااور کھڑا ہو گیا اطہر میاں کے مقابلے۔‘‘
(ایک ٹکڑا دھوپ کا،ص۱۰۶۔۱۰۵)
حالات کے دباؤ نے اطہر میاں کے گاؤں کے مڈل اسکول میں نوکری کرنے پر مجبور کر دیا اور ایک ایسا خاندان جس کا ماضی میں رعب و دبدبہ تھا وقت کے ہاتھوں میں بے وقعت ہو گیا۔
ثروت خان نے ۲۰۰۰ء کے آس پاس سے افسانہ لکھنا شروع کیا۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’ذروں کی حرارت‘‘ ۲۰۰۴ء میں منظر عام پر آیا۔ ترنم ریاض کے بعد وہ دوسری افسانہ نگار ہیں جنھوں نے علاقائیت کو اپنے افسانوں میں فروغ دیا۔ اردو ادب میں راجستھان اور وہاں کی تہذیب و ثقافت کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں ملتا۔ ثروت خان نے ان امور پر توجہ دی اور اپنے افسانوں کا محور قرار دیا۔ ان کے یہاں براہ راست خاندانی زندگی کا بیان بہت کم ہے جو کچھ بھی ہے وہ راجستھانی کلچر کی پیش کش کے تئیں ہے۔
ثروت خان کا افسانہ’’میں مرد مار بھلی‘‘ بنیادی طور پر عورتوں کی نفسیات اور ازدواجی زندگی میں ان کے استحصال سے عبارت ہے۔ انھوں نے کیرتی اور سنبل دو کرداروں کے ذریعے کہانی کو آگے بڑھایا ہے۔ سنبل کو اس کا شوہر شراب کے نشے میں زدوکوب کرتا ہے، جب کیرتی اسے پولیس اسٹیشن لے جانا چاہتی ہے تو سنبل بیچ میں آکر کہتی ہے:
’’نہیں کیرتی نہیں! یہ میرا مجازی خدا ہے۔ تم بیچ میں نہ آؤ۔‘‘(ذروں کی حرارت، ص: ۱۳)
کیرتی سنبل کی بات سن کر جواب دیتی ہے:
’’سنبل پتی پرمیشور ہمارے یہاں بھی ہوتا ہے لیکن یہ سب القاب ان مردوں نے ہم عورتوں پر ظلم کرنے کے لیے گڑھے ہیں۔ خود مختاری میں خدا اور پر میشور بن بیٹھے اور ہمیں ابلا اور صنف نازک قرار دیا۔ یہ سب ڈھونگی ہیں۔ پکے ڈھونگی۔‘‘
(ذروں کی حرارت ، ص۱۴)
یہ افسانہ عورتوں کے گھریلو مسائل اور ازدواجی زندگی کی دشواریوں کا غماز ہے۔ اس میں وہ آزادیِ نسواں کی طرف بھی قدم بڑھاتی ہوئی نظر آتی ہے۔ یہ کہانی ہندوستانی سماج میں عورتوں کے دومتضاد رویوں کو پیش کرتی ہے لیکن دونوں ہی رویے طے شدہ ذہنیت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کے دیگر افسانوں میں بھی خاندانی زندگی کی ایسی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔
اس کے علاوہ کہکشاں پروین بھی ایک اہم افسانہ نگار ہیں۔ کہکشاں پروین کسی رجحان سے متاثر نہیں ہیں بلکہ آزادانہ طور پر افسانے کی دنیاآباد کر رہی ہیں۔ اردو ادب کے زوال پر وہ گہری سنجیدگی کا اظہار کرتی ہیں۔ ’’قاعدہ‘‘ اس پس منظر میں لکھا گیا اچھا افسانہ ہے۔
شائستہ فاخری کا نام افسانوی دنیا میں نیا نہیں ہے البتہ یہ بات ضرور ہے کہ وہ ایک طویل مدت کے بعد دوبارہ افسانوی منظر کے افق پر نمودار ہوئی ہیں۔ ان کے افسانوں کاپہلا مجموعہ’’ہرے زخم کی پہچان‘‘ ۱۹۹۰ء میں منظر عام پر آیا تھا۔ بیس سال کی طویل خاموشی کے بعد دوسرا مجموعہ ’’اداس لمحوں کی خود کلامی‘‘ ۲۰۱۱ء میں شائع ہوا۔شائستہ فاخری کے ابتدائی افسانے خوف و ہراس میں لپٹے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔ یہ خوف و ہراس ان کی ذاتی زندگی کا حصہ بھی ہیں اور سماجی مسائل کا عکاس بھی۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں ہندوستانی سماج میں عورتوں کے مسائل اور پدرسری معاشرے میں ان کی زندگی پر مرتب ہونے والے اثرات کو موضوع بنایا۔ افسانہ ’’ سنو! رضّو باجی ‘‘ اس کی واضح مثال ہے۔ شائستہ فاخری نے عورتوں کے مسائل کے علاوہ دوسرے معاشی ومعاشرتی مسائل کو بھی موضوع خاص بنایا ہے۔ ہندوستان میں ہونے والی دہشت گردی پر بھی انھوں نے متعدد افسانے لکھے ہیں ۔ ان افسانوں میں ’’آفندی کا بیٹا‘‘، ’’کلر بلائنڈ‘‘، ’’آزاد قیدی‘‘ وغیرہ ایسے عمدہ ا فسانے ہیں جن میں کئی معنویتوں کا ایک نظام پوشیدہ ہے ۔ انھوں نے ان موضوعات کے علاوہ جنسیات کی دنیا کی بھی سیر کی ۔ ’’اداس لمحوں کی خود کلامی‘‘ ہم جنسیت پر لکھا ہوا اچھا افسانہ ہے ۔ ’’کنور فتح علی‘‘ اور ’’ریچھ ‘‘ میں بھی جنسیات کی کار فرمائی نظر آتی ہے۔
تبسم فاطمہ عرصے سے افسانے لکھ رہی ہیں۔ اب تک ان کے دو افسانوی مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں۔ ان کا حالیہ مجموعہ ’’تاروں کی آخری منزل‘‘ ۲۰۱۲ء میں منظر عام پر آیا جس میں کل سترہ افسانے شامل ہیں۔ ان سبھی افسانوں میں تانیثی فکر بہت نمایاں ہے جس کو خاندانی زندگی کے توسط سے اجا گر کیا گیا ہے۔ افسانہ’’حجاب ‘‘ میں ایک مسلم متوسط طبقے کے خاندانی ماحول کا بیان ہے جس میں مذہب کا سخت پہرا ہے۔ دنیا میں کیا کچھ ہو رہا ہے ، ایک شریف اور سو گھڑ عورت کو اس سے غرض نہیں ہونی چاہیے ۔ جس گھرانے میں لڑکیوں کے اسکول میں پڑھنے کو بدعت و کفر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ افسانے کا اقتباس ملاحظہ کیجیے:
’’ مسلم لڑکیاں بس پیدا ہوتے ہی ایک تنگ دربے میں بند کر دی جاتی ہیں۔ ایسا ہی ایک بڑا دربہ کبھی بڑے ابا کے گھر دیکھا تھا اس میں مرغیاں ٹھنسی رہتی تھیں اسی گھر میں رہتی تھیں نجمہ باجی۔ بڑے ابا کی اکیلی لڑکی۔ لیکن بے نور چہرہ جیسے سہمی ہوئی گائیں ہوتی ہیں۔ بڑے ابا ٹھہرے نمازی پر ہیز گار ۔ گھر میں اکثر ایک لفظ سننے میں آتا تھا۔۔۔تبلیغی جماعت ۔ تو بڑے ابا تبلیغی جماعت کے تھے گھر میں بس انھیں کی چلتی تھی۔‘‘
(تاروں کی آخری منزل، ص ۲۲۔۲۱)
زرینہ کے اوپر جب حجاب پہننے کا برابر دباؤ بنایا جاتا ہے تب وہ سوچتی ہے:
’’مجھے نہیں پہنناحجاب وجاب۔ پہننا تو پڑے گا۔ میں پہنوں گی ہی نہیں پھر۔۔۔۔پھر کیا۔۔۔؟ بغاوت کروگی۔؟
(تاروں کی آخری منزل، ص۲۵)
افسانے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آج کی عورت خاندانی زندگی کی جکڑ بندیاں ، مردوں کی انانیت اور بے جا دباؤ کو توڑ دینا چاہتی ہے۔ تبسم فاطمہ کے دوسرے افسانوں میں عورت کے برتاؤ میں تندی، سرکشی اور مرد اساس سماج میں غلامی کی زنجیر توڑ دو والا ہیجان نظر آتا ہے۔ جس کے نتیجے میں بدلتی ہوئی خاندانی صورتوں کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ تبسم کے برعکس اشرف جہاں کے یہاں عورتوں کے روایتی یا بنیادی مسائل زیادہ تر موضوع بنتے ہیں۔ ’’اکیسویں صدی کی نرملا‘‘ کے نام سے شائع ان کے افسانوی مجموعے میں ہجرت اور طلاق جیسے حادثات کا کرب ہے اور عورت کی ازلی فطرت، محبت اور ایثار و قربانی کا جذبہ بھی۔ احتساب، بدر کا مل، شکنتلا اور اکیسویں صدی کی نرملا میں عورت کی تنہائی، بے بسی اور مرد کی بے اعتنائی کا اظہار تو ہوتا ہی ہے اپنی بقا، تشخص اور آزادی کے لیے احتجاج کا رویہ بھی ملتا ہے۔
جدید خواتین افسانہ نگاروں کے افسانوں میں یورپ کی تانیثی تحریک کی طرح مردوں کے خلاف جارحانہ انداز تو نظر نہیں آتالیکن وہ اپنی باتوں کو بڑے سلجھے ہوئے انداز میں لے کر چلتی ہیں کہ عورتوں پر حالات کا جبر ، مردوں کی زیادتیاں ، جہل کے اثرات سب بے نقاب ہو جائیں اور یہ بھی کہ مرد کی مکاری و خود غرضی بہوؤں پر ساس کے ظلم وغیرہ سب صورتیں واضح ہوجائیں۔ نئے افسانوں میں خاندانی زندگی کے توسط سے جنسی میلانات، نفسیاتی پیچیدگیاں اور ذہنی الجھنوں کی بھی تصویر کشی کی گئی ہے۔
مندرجہ ذیل بالا خواتین افسانہ نگاروں کے علاوہ ایک لمبی فہرست ہے جن میں کہکشاں انجم، شمیم نگہت، قمر جہاں، ذکیہ ظفر،
بانو سرتاج، حاجرہ شکور، افشاں ملک، وغیرہ کو کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔ا س طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ان خواتین افسانہ نگاروں نے موجودہ دور کے تمام موضوعات کو اپنے افسانوں میں سمیٹ لیا ہے۔بہ اعتبار مقدار اور بہ اعتبار معیار ، دونوں ہی سطح پر خواتین افسانہ نگاروں کی خدمات قابل قدر اور قابل تحسین ہیں۔ وہ موضوعاتی اور فنی و تکنیکی ہر طرح سے افسانہ نگاری کی روایت کو آگے بڑھانے میں مصروف ہیں۔
٭٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.