تاریخ میں عورت کی معاشرتی حیثیت ـ ڈاکٹر مبارک علی کی تحریروں کی روشنی میں

تاریخ میں عورت کی معاشرتی حیثیت

( ڈاکٹر مبارک علی کی تحریروں کی روشنی میں)

Woman’s Social Status in the History

(In the Light of Dr. Mubarak Ali’s Writings)

* ڈاکٹرمحمد خاور نوازش ، اسسٹنٹ پروفیسر ،شعبہ اُردو، بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان

*Dr. Muhammad Khawar Nawazish,

 Assistant Professor, Department of Urdu,

 Bahauddin Zakariya University, Multan (Pakistan)

** مصباح خان ،اسکالر شعبہ اُردو، بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان

**Misbah Khan,

Scholar, Department of Urdu,

Bahauddin Zakariya University Multan (Pakistan)

ABSTRACT:
Social History has raised many new approaches to analyze the oppression and inequalities that woman have been facing for a very long time in the society. Ideology of Feminism was introduced actually to ensure the social, political, economic, religious, educational and professional parity of genders. This ideology has been manifested by many socio-political movements, organizations and institutions working for women rights and interests. Similarly the study of the history of woman’s social status is, in fact, meant to accept the ferocious behavior of men towards women throughout ages. It can be helpful to make a man understand that woman should be given the choice for living her life as she wants. Many renowned feminists especially women writers have written on this subject but in Urdu major portion of the data related to this area is in the form of creative writings or translations from different works of western social scientists, historians and literary figures. Fortunately, we have Dr. Mubarak Ali, an enlightened and progressive male historian and scholar in the circle of Urdu Studies. He has comprehensively written on this subject without any prejudice. This article includes the study of woman’s status in recorded history of the world with special reference to Dr. Mubarik Ali’s writings.

KEY WORDS:

Woman, Society, Social Status, History, Mubarak , Ali, Feminism, Feminist Criticism, Violence, Suppression, Inequality, Disparity, Human Rights, Women Right.

تلخیص:

سماجی تاریخ نے معاشرے میں عورت کے ساتھ عدم مساوات اور جبر کا تجزیہ کرنے کے لیے بہت سے نئے نظریات اور نقاط ہائے نظر دیے ہیں ۔ فیمنزم(تانیثیت)کی آئیڈیالوجی دراصل سماجی، سیاسی، معاشی،مذہبی، تعلیمی اور پیشہ وارانہ سطح پرصنفی مساوات قائم کرنے کے لیے متعارف ہوئی اور اسے عورتوں کی سیاسی و سماجی تحریکوں اور حقوقِ نسواں کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور اداروں نے بھی اپنے منشور کا حصہ بنایا۔ اسی طرح عورت کی معاشرتی حیثیت کی تاریخ کا مطالعہ کرنے کا مقصد اصل میں اُس سخت گیر رویے کو تسلیم کرناہے جو صدیوں سے مرد وں نے عورتوں کے ساتھ روارکھا اور مرد کو اس طرف لانا ہے کہ وہ عورت کو اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کا راستہ دے۔ اس موضوع پر بہت سے نامور فیمنسٹس اور بالخصوص خواتین نے لکھا ہے لیکن ہمارے یہاں اُردو میں اس سے متعلق زیادہ مواد تخلیقات یا مغربی مورخین، ادیبوں اور سماجی سائنس دانوں کی تحریروں کے تراجم پر مشتمل ہے۔ خوش قسمتی سے اُردو دنیا میں ڈاکٹر مبارک علی ایسا روشن خیال اور ترقی پسند مرد اسکالر اور مورخ بھی موجود ہے جس نے عورت کے معاشرتی مقام و مرتبے کے موضوع پربلا تعصب تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔ اس مقالے میں ڈاکٹر مبارک علی کی تحریروں کی روشنی میں تاریخ میں عورت کی معاشرتی حیثیت کا ایک مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔

کلیدی الفاظ:
عورت،معاشرہ، سماج، معاشرتی حیثیت، تاریخ، مورخ، مبارک علی، تانیثیت، تانیثیتی تنقید، غلامی، جبر، تشدد، عدم مساوات، صنفی امتیاز،انسانی حقوق، حقوقِ نسواں

ارتقائے حیات کی کہانی میں مرد اور عورت دونوں کا ذکر ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہے۔ بنی نوع انسان کی بقا کے لیے دونوں کا وجود ہی ناگزیر ہے۔ اس حقیقت سے مرد اور عورت دونوں آگاہ بھی ہیں لیکن اس آگہی کے باوجود مرد کی طرف سے عورت کے وجود کو دبانے اوراُس کا استحصال کرنے کی ایک طویل داستان بھی انسانی تاریخ کا حصہ ہے۔ دنیا کی بڑی تہذیبوں کے مطالعے سے یہ بات معاشرتی حیثیت ہمیشہ سے ہی مرد کے مقابلے میں کم تر نہیں تھی۔ ابتدا میں چونکہ انسانی نسل کو آگے بڑھانے کی ضامن عورت تھی اس لیے مرد کے مقابلے میں اُسے زیادہ اہمیت حاصل تھی۔ اُس وقت مافوق الفطرت قوتوں کا تصور بھی زنانا تھا۔ دیوتاؤں کے مقابلے میں دیویاں زیادہ قابلِ احترام تھیں۔ وادئ سندھ کی تہذیب میں بھی جو نسبتاً ہمارے قریب کے زمانے سے تعلق رکھتی ہے عورت کی معاشرتی حیثیت مرد سے بالاتر ہے۔ سید سبطِ حسن لکھتے ہیں:

’’وادئ سندھ میں اموی نظام قائم تھا۔ یعنی حسب نسب اور وراثت کا سلسلہ ماں کی طرف سے چلتا تھا لہٰذا معاشرے میں عورت کا مرتبہ مرد سے اُونچا تھا۔ عورت کی مورتیوں کی فراوانی اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں کے باشندوں کے نزدیک عورت کی ذات افزائشِ فصل و نسل کی محرک بھی تھی اور علامت بھی۔’’ (۱)

     وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آلاتِ پیداوارکی تبدیلی سے زیادہ پیداوار حاصل ہونے لگی تو نئی زمینوں کے حصول کا لالچ بڑھا اور ملکیت کا تصور مضبوط ہوا۔ اشتراکی معاشرہ جاگیردارانہ سماج میں بدلا تو عورت کی جگہ مرد قبیلے یا خاندان کا سربراہ بن گیا اوریوں تصورِ ملکیت کے زیرِ اثر عورت بھی آزاد اور کھلی فضا سے پابندیوں اور قید خانوں میں دھکیلی جانے لگی۔ عورت کو مرد سے کمزور اور کم عقل سمجھا جانے لگا اور بالآخر یہ سلسلہ اسی کی غلامانہ حیثیت پر منتج ہوا۔ اس غلامانہ حیثیت کو جدید مذاہب نے بھی ختم کرنے کے بجائے یہ درس دیا کہ غلام عورتوں اور لونڈیوں سے اچھا سلوک روا رکھنا چاہیے ۔ جاگیردارانہ سماج نے کہیں سماجی اقدار اور کہیں مذہب کی بیساکھی استعمال کرتے ہوئے ایسے قوانین بنائے جن سے عورت کی وجودی حیثیت کو بھی شدید دھچکا لگا۔ مغرب میں سرمایہ دارانہ نظام کے فروغ نے عورت کے استحصال کو ایک نئی شکل دی۔اس نظام میں معاشی تنگدستی کی وجہ مرد کے ساتھ ساتھ عورت کو بھی گھر کی چاردیواری سے باہر نکل کر کام کرنا پڑا ۔اب اُسے غیر مساوی اجرت اور غیر موافق ماحول کے علاوہ رفیقِ کار مرد اور بالخصوص مالک کی طرف سے ذہنی و جسمانی استحصال کا بھی سامنا تھا۔ گویا انسانی تاریخ میں عورت کوزندگی کرنے کے لیے مرد سے کہیں زیادہ چیلنجز درپیش رہے۔سرمایہ دارانہ عہد میں عورت کو گھر کی قید سے ملنے والی آزادی کاایک بڑا فائدہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر اپنے حقوق کا شعور بیدارہونے کی صورت میں ہوا۔ امریکہ میں سترہویں صدی عیسوی میں جب عورتوں نے ووٹ کے حق کے لیے جدوجہد شروع کی تو وہ عورتوں کی اپنے حقوق کے مطالبے کی اولین تحریک بن گئی۔انیسویں صدی میں عورتوں کے حقوق کی کئی انجمنیں بنیں اور اس موضوع پر باقاعدہ کتب لکھی گئیں۔ امریکہ میں انجلینا ایمیلی گریمیکے (۱۸۰۵ء۔ ۱۸۷۹ء) اور اُس کی بڑی بہن سارہ مورے گریمیکے(۱۷۹۲ء۔۱۸۷۳ء)غلامی کے خاتمے اورعورت کو ووٹ کا حق دلانے کی تحریک میں پیش پیش رہیں۔معروف ناول نگار قرۃ العین حیدر کے نسوانی کرداروں کا جائزہ لینے والے بہار(انڈیا) کے ایک نوجوان محقق اعجاز الرحمن کا خیال ہے کہ یورپ میں بیسویں صدی میں یہی تحریک فیمنزم کی اصطلاح سے موسوم ہوئی(۲)جو آج جدید سماجیات کا نہایت اہم موضوع ہے تاہم اس کے سیاق میں سارتر کے ایگزسٹنشلزم(وجودیت) ایسے فلسفے کا ایک نمایاں تحرک بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

     برصغیر میں عورت کی معاشرتی حیثیت میں بدلاؤانگریزوں کی آمد سے ممکن ہوا۔ ہندو سماج میں عہدِ قدیم سے ہی عورت کے حوالے سے دوہرا نقطۂ نظر ملتا ہے۔ ایک طرف اُسے دیوی اور لکشمی کہہ کر شفقت اور محبت کا منبع سمجھاجاتا رہا اور دوسری طرف مرد سے کم تر بھی۔ ہر سطح پرمختلف قسم کی نحوستوں کو عورت سے جوڑا جاتا رہا ۔ویدک زمانے سے لے کر عہدِ جدید تک ہندو سماج کی عورت کے نصیب میں غلامی اورمرد کے مقابل کم تری ہی رہی ۔ صرف گوتم بدھ اور بھگتی تحریک کے زمانے میں اُسے کسی حد تک اپنے جذبات کے اظہار میں آزادی ملی۔مسلمانوں کی ہندوستان آمد اور یہاں کی معاشرت پر مسلم اثرات سے بھی ہندوستانی عورت کے معاشرتی مقام میں کوئی خاص فرق نہ آیالیکن انگریزوں کے قبضے کے بعد مغربی روایات کا ہندوستانی تمدن پر پڑنے پر گہرا اثر ، اصلاحی تحریکوں بالخصوص راجہ رام موہن رائے اورسوامی ویکانندکے نظریات اور مہاتما گاندھی کا عدم تشدد کے سیاسی فلسفے میں عورت کواپنی برداشت، تحمل اور ضبط کی وجہ سے عملی نمونہ سمجھنا جدید ہندوستانی سماج میں عورت کی معاشرتی حیثیت میں بہتری کی اساس بنا۔ اب جو جس نئی عورت کا وجود ابھرنے لگا وہ تعلیم یافتہ بھی تھی اور اپنے حقوق کا شعور رکھنے والی بھی ۔ اس نئی عورت نے اپنی مسلسل جدوجہد سے ہی برصغیر کی نئی مملکتوں کی دستور ساز اسمبلیوں میں اپنی جگہ بنائی۔یہ سب عورت کی بڑھتی ہوئی بیداری سے ہی ممکن ہوا۔ لیکن اس تصویر کا ایک دوسرا رُخ یہ بھی ہے کہ تمام تر بیداری کے باوجودبرصغیر کی عورت کی معاشرتی حیثیت اورمقام ابھی تک جدید دنیا کی عورت کے مقام سے بہت کم ترہے۔ ہر سال ۸ مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور گذشتہ ایک سو دس سال سے اِس دن خواتین کے مسائل، مصائب اور ہر طرح کی مشکلات پر گفتگو ہوتی ہے ،ہمارے یہاں بیشتر فورمز پرعورتوں کے حقوق کے حوالے سے مرد دانشور بھی لیکچرز دیتے ہیں،یہ دن گزر جاتا ہے لیکن وہ سوچ جو ہمارے سماج کے اجتماعی لاشعور کا حصہ بن چکی ہے تبدیل نہیں ہوتی کہ عورت دراصل مرد کی خدمت کے لیے پیدا کی گئی ہے۔

     عورت کی معاشرتی حیثیت اُردو ادب میں ترقی پسند فکشن کا بڑا موضوع رہا ہے۔ لیکن سماجی دانشوروں اور مورخین میں بہت کم لوگ ہیں جنہوں نے دنیا کے دوسرے معاشروں اور ہمارے معاشرے میں تقابل کے ساتھ عورت کی معاشرتی حیثیت پر روشنی ڈالی ہو۔ ایسے معدودے چند میں سے ایک اہم نام ڈاکٹر مبارک علی ہے۔ اُن کی علمی پہچان کا بڑا حوالہ تاریخ ہے۔وہ ایسے مورخ ہیں جن کا بیانیہ خرد افروز اور روشن خیال ہونے کی وجہ سے ہمارے روایتی مورخین سے بالکل مختلف ہے ۔ مذہب، سیاست، ثقافت، معاشرت،معیشت، علم اور جغرافیے سمیت تاریخ کو تشکیل دینے والے تمام عوامل پر اُن کی گہری نظر ہے۔ ڈاکٹر مبارک علی نے انسانی سماج کے ارتقا پر روشنی ڈالتے ہوئے مرداور عورت دونوں کی زندگیوں کو بھی تاریخی تناظر میں سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے عورت کی تاریخ کسی بھی تعصب سے بالاتر ہو کر لکھی ہے۔اس موضوع پر اُن کی دوبہت اہم کتب ملتی ہیں۔پہلی کتاب تاریخ اور عورت کے عنوان سے ہے جسے تاریخ پبلی کیشنز لاہورکے علاوہ ارتقا مطبوعات کراچی نے بھی شائع کیا۔ اب تک اس کے پانچ ایڈیشنزشائع ہوچکے ہیں اورہر ایڈیشن میں کچھ مضامین کا اضافہ بھی ہوتا رہا ہے۔ ہمارے سامنے ۲۰۱۴ء کا ایڈیشن ہے جسے تاریخ پبلی کیشنز لاہور نے ڈاکٹر سید جعفر احمد کے تحریر کردہ تعارف کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اس کتاب کے دو حصے ہیں ،پہلے حصے میں ڈاکٹر مبارک علی کے اپنے لکھے ہوئے چودہ مضامین شامل ہیں جبکہ دوسرے حصے میں اُن کے پانچ مضامین کے ساتھ ایک مضمون فرانسیسی نژاد امریکی خاتون جون والِک سکاٹ کا ہے جو پرنسٹن یونیورسٹی میں تاریخ کی اُستاد ہیں۔ موضوع سے مطابقت رکھنے کی وجہ سے ڈاکٹر مبارک علی نے اُس مضمون کا اُردو ترجمہ اس کتاب میں شامل کیا ہے۔ دوسری کتاب تاریخ میں عورت کا مقام کے عنوان سے ہے۔ یہ مرتبہ کتاب (جس کا تازہ ایڈیشن ۲۰۱۷ء میں تاریخ پبلی کیشنز لاہور سے شائع ہوا) دراصل ۶؍مارچ ۲۰۱۰ء کوکراچی میں اِسی عنوان سے ڈاکٹر مبارک علی کے سہ ماہی رسالے ’تاریخ ‘اور جناح میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کراچی کے اشتراک سے منعقد ہونے والی کانفرنس میں پڑھے جانے والے مقالات پر مشتمل ہے۔ان مقالات میں ڈاکٹر مبارک علی کے علاوہ ڈاکٹر سید جعفر احمد، حمزہ علوی، ڈاکٹر انصارزاہد خان، ڈاکٹر فاطمہ حسن،انور شاہین اور پروفیسر عرفان حبیب ایسے اسکالرز کے مقالات شامل ہیں۔

ڈاکٹر مبارک علی نے تاریخ میں عورت کی بطور فرد حیثیت پر کئی مضامین میں روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ خواہ دنیا کی بڑی تہذیبوں کے آغاز پر عورت کی حیثیت اپنے معاشرے میں مرد سے کچھ بالاتر تھی لیکن وہ بالادستی فطری بنیادوں پر تھی کہ نسل بڑھانے کا ذریعہ ہونے کی وجہ سے مرد اُس کی طاقت اور اہمیت پر یقین رکھتا تھا ۔اُسے تخلیق کا مرکز و منبع تسلیم کیا جاتا تھا۔ اُس وقت زندگی کا کاروبار عورت سے ہی چلتا تھا۔ فصل اُگانا، اناج پیسنا، روٹی پکانا، برتن بنانا وغیرہ ایسے سب کام کرتی تھی سو اُس کا معاشرتی مرتبہ مرد سے زیادہ تھا۔ عورت کو زرخیزی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ وہ اتنی آزاد تھی کہ ایک ہی وقت میں ایک سے زائد مردوں سے تعلق رکھ سکتی تھی۔ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں:

’’ ابتدائی زراعتی زمانے میں عورتوں کی اس اہمیت کی وجہ سے مادرانہ معاشرہ قائم رہا اور عورتیں قبیلوں کی سربراہ تھیں اور ان ہی کے نام سے نسل چلتی رہی۔ اس کی وارث اس کی لڑکیاں ہوتی تھیں اور چونکہ باپ کے بارے میں پتہ نہیں ہوتا تھا اس لیے ماں کے ذریعے ہی سے خاندانی سلسلہ چلتا تھا۔زمین اور مکان مشترکہ ملکیت ہوتے تھے۔ معاشرے میں بہن بھائی کا رشتہ مضبوط ہوتا تھا، چونکہ شوہر دوسرے قبیلے سے آتاتھا اس لیے وہ اجنبی ہوتا تھا۔ عورتیں کئی کئی شوہر رکھتی تھیں، ایک مرد کے ساتھ رہنے کی روایت نہیں تھی۔ اس لیے اس دور میں جو مذہبی عقائد اور روایات پیدا ہوئیں ان میں بڑا درجہ دیویوں کا ہے۔’’(۳)

     وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب طاقت سے مراد اپنی حدود سے باہر نکل کر دوسروں پر غالب آنا لیا جانے لگا تو مرد کی حاکمیت کا آغاز ہوا۔انسان زیادہ زمین اورمال کے حصول کے لالچ میں آپس میں لڑنے لگے، قبائل میں جنگیں ہونے لگیں تو مرد طاقت کی علامت بنا۔ اس کے بعد سے آج تک عورت کا کام مرد کے تابع رِہ کر زندگی کے عمل کو آگے بڑھانا ہے۔بقول مبارک علی:

’’ تاریخ میں عورت کا جو مجموعی تاثر بنتا ہے وہ یہ ہے کہ اُس کی اپنی علیحدہ ذات نہیں ہے، وہ تاریخ میں محض ایک شے کی مانند ہے کہ جسے مرد نے اپنی خواہشات و مفادات کے تحت استعمال کیا ہے۔’’ (۴)

   ڈاکٹر مبارک علی تاریخ کے عورت کے بارے میں مندرجہ بالا تاثر کوتسلیم نہیں کرتے۔ اُن کا خیال ہے کہ عورت کی علیحدہ ذات دراصل ہمیشہ سے موجود تھی اور رہے گی۔،یہ الگ بات ہے کہ اُسے ہر دورمیں مرد دباتا رہا ہے یا اس کی منفرد حیثیت کو ختم کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’ یہ کہنا صحیح نہیں کہ عورت کی اپنی شخصیت ختم ہو گئی اور اس نے خود کو مرد کی ذات میں ضم کر دیا۔ نہیں اس کی اپنی ذات اور وجود برقرار رہتا ہے ، مگر چھپا ہوا ۔ کئی تہوں کے نیچے وہ مرد کی بنائی ہوئی روایات و اقدار اور اداروں کے درمیان کھوئی ہوئی اور گم شدہ ذات ہے۔’’(۵)

     یہ خالصتاً تانیثیتی فکر کابیانیہ ہے جس میں عورت کے وجود اورالگ تشخص کے انکار کو اُس کے حقوق کی پامالی سے بڑا ظلم سمجھا جاتا ہے۔ دراصل اُس کے حقوق کی پامالی کا آغازہی اس کے وجود کی نفی سے ہوا۔ انسانی تاریخ کے بڑے حصے میں عورت کی بطورآزاد انسانی وجود کوئی حیثیت نظر نہیں آتی ۔کم از کم تحریری تاریخ اور اس کے موجودہ فریم ورک میں تویہی صورتِ حال ہے۔ عورتوں میں اپنے حقوق کا شعور اور جدوجہد کی تحریکیں بھی عہدِ جدید میں ہی ملیں گی عہدِ قدیم کی تاریخ اُس کی طرف سے کوئی مزاحمت یا احتجاج نہیں ملتا۔ڈاکٹر مبارک علی بتاتے ہیں کہ تاریخ میں اُس کا ذکر کسی مثبت سرگرمی میں بھی نظر نہیں آتا بلکہ اُسے ہمیشہ معاشرتی زوال کی وجہ کے طور پر پیش کیا گیا۔ اقتباس ملاحظہ کریں:

’’تاریخ میں جب بھی قوموں کے عروج کا ذکر ہوتا ہے تو اس میں عورتیں شامل نہیں ہوتیں مگر جب قومیں زوال پذیر ہوتی ہیں تو اس وقت ساری ذمہ داری عورت پر آجاتی ہے کیونکہ اس صورت میں حکمران طبقوں پر یہ تنقید کی جاتی ہے کہ انہیں شراب اور عورت نے تباہ کیا۔ عورتوں کی مجلس اور صحبت میں رہنے کی وجہ سے ان کی مردانہ صفات ختم ہو گئیں اور نسوانی عادتیں آ گئیں۔ لہٰذا اس بات پر اکثر مؤرخ متفق ہیں کہ ہر قوم کے زوال میں عورتوں نے حصہ لیا۔ مشہور جرمن مؤرخ تھیوڈور مومزن جسے ۱۹۰۲ء میں ادب کا نوبل ملا اور جس نے رومی تاریخ پر تحقیق کی، وہ رومیوں کے زوال کی وجہ یہ بتاتا ہے کہ جیسے جیسے عورت کا سماجی رتبہ بڑھتا گیا،رومی معاشرہ زوال پذیر ہوتا چلا گیا۔’’ (۶)

     تاریخ اور عورت میں ڈاکٹر مبارک علی نے دُنیا کے مختلف خطوں اورمعاشروں کی تاریخ میں عورت کے مقام کا جائزہ لیا ہے۔ بیشتر معاشروں میں مادری نظام کا خاتمہ جسمانی طاقت کی اہمیت بڑھنے کے بعد نجی ملکیت کا تصور مضبوط ہونے سے ہوا۔ ڈاکٹر مبارک علی نے اینگلز کی کتاب خاندان، نجی ملکیت اور ریاست کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ عورت کی آزادی کو سب سے زیادہ نجی ملکیت کے تصور نے سلب کیا،یک زوجگی کا تصور بھی نجی ملکیت کے تصور کے زیرِ اثر پروان چڑھا اور اسی نے شادی کے ادارے کو بھی مضبوط کیا۔پدرانہ معاشروں کے قیام کے ساتھ عورت کی معاشرتی حیثیت کم ہونے کی تاریخ کو ڈاکٹر مبارک علی دنیا کے تین ابتدائی متمدن معاشروںیونان، روم اور ہندوستان کے تناظر میں سمجھاتے ہیں۔یونانی تاریخ میں عورت کی معاشرتی حیثیت کے ضمن میں لکھتے ہیں:

’’یونانی تاریخ کے ابتدائی دور میں عورت سرگرمِ عمل نظر آتی ہے ، لیکن بعد کے ادوار میں وہ اچانک غائب ہو جاتی ہے۔ مثلاً ہیروڈوٹس کی تاریخ میں عورت ہر جگہ ہے ، مگر تھیوسی ڈائڈ س کی تاریخ میں اس کا کوئی ذکر نہیں۔اس وقت تک عورت گھر کی چار دیواری میں مقید ہو کر اپنی تمام صلاحیتوں کو کھو چکی تھی۔۔۔اس کو اس قسم کے کوئی اختیارات نہیں تھے کہ کسی سے کوئی معاہدہ کرے یا قرض لے۔ مشہور یونانی قانون دان سولن کے قانون کے تحت اگر کوئی عمل عورت کے زیرِ اثر کیا جائے تو اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہو گی۔ جب اس کا شوہر مرتا تھا تو وہ اس کی جائیداد کی وارث نہیں ہو سکتی تھی۔اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جاتا کہ عورت بچے کی تخلیق میں زیادہ کردار ادا کرتی ہے تو اس سے اُس کا سماجی رتبہ بڑھ جاتا ،اس لیے یونان میں مرد کو بچے کی تخلیق کا ذمہ دار سمجھا جاتا تھااور عورت کے بارے میں یہ خیال تھا کہ وہ محض بچے کی پرورش کرتی ہے۔’’(۷)

     یونان کی تاریخ میں توپھر بھی ابتدائی دور میں معاشرتی سطح پر عورت سرگرمِ عمل نظر آتی ہے لیکن رومی عہد کی ابتدا سے ہی اِسے صرف اور صرف بچے پیدا کرنے والے وجود کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ زیادہ سے زیادہ اناج اگانے سے لے کر بڑی سے بڑی فوج بنانے کی خواہش کی تکمیل صرف زیادہ آبادی سے ہی ممکن تھی سو بہت کم عمری میں عورت کی شادی کرکے اسے بچے پیدا کرنے کا کہا جاتا ،غالباً اسی لیے عورت کی اوسط عمر بھی تیس سال سے کم تھی۔ ڈاکٹر مبارک علی بتاتے ہیں کہ رومیوں کو اس بات کا شدید احساس تھا کہ انسانی زندگی موت کے ذریعے ختم نہیں ہونی چاہیے اور اس کا حل انھیں یہی نظر آتا تھا کہ عورت زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرے ، آبادی بڑھے گی تو شہر ویران نہیں ہوں گے اور معاشرہ بھی طاقت ور ہوتا جائے گا۔عورت کے حوالے سے رومیوں کا نظریات کی بابت ڈاکٹر مبارک علی رقم طراز ہیں:

’’رومی طبیب گیلن کے نظریے کے مطابق عورت کے رحم میں مرد کی تشکیل میں زیادہ گرمی اور توانائی درکار ہوتی ہے ، جو اسے طاقت ور اور متناسب اعضا کا حامل بناتی ہے۔ اس کے برعکس عورت کی تشکیل میں گرمی اور توانائی کی کمی ہوتی ہے اس لیے وہ نرم اور نازک ہوتی ہے۔اس لحاظ سے عورت مر دکی بگڑی ہوئی شکل ہوتی ہے۔اس لیے وہ مردوں کو یہ مشورہ دیتا ہے کہ وہ اپنے میں سے عورتوں کی صفات کو ختم کر دیں، کیونکہ یہ صفات ان کے کردار میں نزاکت پیدا کریں گی اور اس سے یہ ظاہر ہوگا کہ ان میں نسوانیت کے کچھ جراثیم باقی رِہ گئے ہیں۔ ’’(۸)

     رومی عہد میں عورت کی معاشرتی حیثیت کا ذکر کرنے کے بعد ڈاکٹر مبارک علی نے یہودیت اور عیسائیت کے ظہور اور بالخصوص یورپ میں چرچ کی حاکمیت کے دور میں عورت کے مقام و مرتبے پر مدلل انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ ڈاکٹر مبارک علی چونکہ خود ایک جید مورخ ہیں اور یورپ کی سیاسی، سماجی ، معاشی ، مذہبی، علمی اورجغرافیائی تاریخ پر نہایت گہری نظر رکھتے ہیں اس لیے یورپی معاشرے کے اس پہلو پربھی ان کی رائے یقیناًمعتبر ہوگی۔ اس ضمن میں انھو ں نے پی براؤن کی کتاب The Body and Societyسے بھی مختلف حوالے دیے ہیں اور بتایا ہے کہ یہودیت کے عروج سے لے کر یورپ کی نشاۃ الثانیہ تک جتنے نئے نظریات اور تحریکیں اٹھیں اُن میں کوئی ایک بھی ایسی نہیں تھی جو عورت کے معاشرتی مقام و مرتبے کو بلند کرنے کی بات کرے۔ مذہب کی اصلاح کی تحریکوں نے عورت کو پہلے سے بھی زیادہ پسماندہ کیا بلکہ عورت کو اپنے زیرِ تسلط رکھنے کے لیے مردوں نے زیادہ تو مذہبی تعلیمات کا ہی مضبوط سہار ا لیا۔ ڈاکٹر مبارک علی بتاتے ہیں کہ یہودیت میں عورت کو گناہ کی طرف راغب کرنے والی اور شہوت و رقابت پیدا کرکے فساد کی طرف لے جانے والی مخلوق سمجھا جاتا تھا، عیسائیت میں مرد کو خدا کی شان کا مظہر اور عورت کو مرد کی شان کا مظہر سمجھا جاتا تھا , مذہبی عقیدے کی رُو سے مرد کی عورت پر فوقیت کی وجہ یہ تھی کہ خدا نے آدم کو پہلے تخلیق کیا اور پھر حوا پیدا ہوئیں اور جب شیطان نے دھوکہ دینا چاہا تو آدم اُس کے دھوکے میں نہیں آئے بلکہ حوا آئیں۔ اس کے بعد چرچ کے اولیاء نے بھی عورت کو برائی کا دروازہ قرار دیا(۹)۔‘چرچ اور عورت’کے عنوان سے ڈاکٹر مبارک علی کا ایک پورا مضمون تاریخ اور عورت میں موجود ہے جس میں انھوں نے چرچ کے ایک بڑے رہنما سینٹ آگسٹائن کے حوالے سے بتایا ہے کہ وہ عورت کے سخت مخالف تھے(۱۰)۔ چرچ کے عہدیداروں نے عورت کو معاشرتی سطح پر کم تر ثابت کرنے کے لیے اُسی روایتی عقیدے کو اپنایا جو یہودیت سے شروع ہوا تھا کہ عورت گناہ کی طرف راغب کرتی ہے۔ قرونِ وسطیٰ میں یورپ میں جادوگرنیوں کی آڑ میں جب عورت کے خلاف مہم جوئی ہوئی توچرچ نے ہی بتایا کہ جادوگرنیاں عورتیں تھیں کیونکہ ان کے جسم میں گناہ موجود رہتا ہے اور شیطان مرد کی نسبت انھیں جلد ورغلا کر اپنا آلۂ کار بناسکتا ہے سو اس آڑ میں عورت ہی سولی پر چڑھی اور زندہ جلائی گئی(۱۱)۔ڈاکٹر مبارک علی نے چرچ کے عروج کے زمانے میں لکھی جانے والی ایک کتاب Hammer of Witches کابھی اس ضمن میں ذکر کیا ہے(۱۲) جس کے مصنف متذکرہ بالا نقطۂ نظر کے حامل ہیں۔ یورپ میں صنعتی دور شروع ہونے سے پہلے تک عورت کے سماجی رتبے کی بات تو دُور اُس کی شخصیت کو بھی ختم کرنے کی حد تک دبادیا گیا اوراگر اپنے حقوق کے شعور کی کوئی لوکہیں باقی بھی ہوگی تو اپنی ہم نفس کو زندہ جلتے دیکھ کر وہ بھی بجھ گئی۔ صنعتی معاشرے میں عورت کو صرف گھر کی قید سے باہر نکلنے کی اجازت ملی۔ وہ گھر سے باہر مردوں کے ساتھ کام کرنے لگی لیکن اس کا استحصال اُسی طرح جاری رہا۔ بورژوا طبقے نے عورت کو کبھی کو بھی مرد کی برابری کا اہل نہ سمجھا۔ اُسے فیکٹریوں میں کام کرنے کی مردوں سے کم تنخواہ ملتی تھی۔پھر آہستہ آہستہ اُسے جسمانی کام سے الگ کرکے فیکٹریوں میں تیار شدہ مال کی فروخت کا آلۂ کار بنایا گیا۔عورت کو اپنی نسوانی خصوصیات بڑھانے اور مرد کے لیے زیادہ سے زیادہ پرکشش بننے کی طرف متوجہ اس لیے کیا گیا کہ اُسے اشیا کی مارکیٹنگ کے لیے استعمال کیا جائے گویا وہ ایک دفعہ پھرچاردیواری سے آزادی کے نام پر معاشرے میں کموڈٹی بنتی چلی گئی ۔ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں:

’’بورژوا طبقے میں عورت کو مزید نمائش کا ایک ٹکڑا بنانے کی غرض سے اسے کام کاج سے دُور رکھا جاتاتھا۔۔۔عورت کو کام سے علیحدہ کرکے کہ جس سے فرد کو معاشرے میں عزت و احترام ملتا ہے ،اسے خود اپنی نظروں میں کم تر کر دیا اور اس کو یہ احساس ہو گیا کہ اس کے وجود کا مقصد صرف مرد کی خواہشات پوری کرنا ہے اور بس۔لہٰذا خالی وقت میں عورت نے جن مشغلوں میں حصہ لیا، ان کا تعلق بھی مردوں کی خوشی اور لطف سے ہے۔ مثلاً گانا گانا، رقص کرنا اور موسیقی کے مختلف سازوں کو بجانا، اس نے عورتوں کو اس شخصیت میں ڈھال دیا کہ جو لوگوں کو محظوظ کرتی ہو اور عورت کا یہی استعمال صنعتی دور میں اشیا کو فروخت کرنے کے لیے ہواکہ اس کی خوب صورتی کو پیداواری چیزوں سے ملا کر لوگوں کے جذبات کو بھڑکاکے انھیں زیادہ سے زیادہ فروخت کیا گیا۔بدقسمتی یہی ہے کہ اس پورے عمل میں عورت بحیثیت عورت کے اپنی پہچان کی تلاش میں ہے۔ ’’(۱۳)

     یورپ کے بعد ڈاکٹر مبارک علی نے ہندوستانی معاشرے میں بھی عہدِ قدیم سے عہدِ حاضر تک کی تاریخ میں عورت کی معاشرتی حیثیت کو موضوع بنایا ہے۔ تاریخ اور عورت میں اس موضوع پر دو مضامین بعنوان ‘عورت: ہندوستانی تہذیب میں’ اور‘ہندو سماج میں عورت’بہت اہم ہیں(۱۴)۔ قدیم یونان کی طرح قدیم ہندوستانی معاشرہ بھی مادرانہ نظام پر استوار تھا۔ اس نظام میں عورت کو دیوی سمجھ کو پوجا جاتا تھا۔وادئ سندھ کی تہذیب جو آریاؤں کی ہندوستان آمد کے قیاسی نظریے سے بہت پہلے کی ہے وہاں اُموی نظام رائج ہونے کے حوالے سے اس مضمون کے آغاز میں سید سبطِ حسن کی کتاب پاکستان میں تہذیب کا ارتقا سے بھی ایک اقتباس درج کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر مبارک علی کا خیال ہے کہ ہندوتہذیب کے قدیم ترین تحریری ماخذرگ وید سے بھی یہی شواہد ملتے ہیں کہ اُس زمانے میں دیویوں کی اہمیت دیوتاؤں سے کہیں زیادہ تھی لیکن اس کی وجہ اُن کی طاقت نہیں بلکہ خوبصورتی تھی اور ظاہر ہے جوں جوں خوبصورتی کی جگہ طاقت کو اہمیت ملی توں توں دیوتاؤں کو زیادہ معتبر سمجھا جانے لگا لیکن اس تبدیلی کی رفتار بہت کم تھی، اسی لیے مہابھارت کے زمانے تک مادرانہ نظام کی قدریں اور روایتیں باقی تھیں(۱۵)۔یہ روایات رامائن کے دور تک آتے آتے بدل گئیں۔ اقتباس دیکھئے:

’’رامائن کے دور میں عورت کی حالت بالکل بدل جاتی ہے اور عورت کا سماجی مرتبہ بالکل ختم ہو جاتا ہے۔ اس کا اندازہ اس قصے کی ہیروئن سیتا سے لگایا جا سکتا ہے جو مکمل طور پر شوہر کے تابع ہے اور اس کے ساتھ جلا وطن بھی ہوجاتی ہے۔مگر جب لنکا کا راجہ راون اسے اغواکرکے لے جاتا ہے اور وہ دوبارہ واپس آتی ہے تو رام اسے ناپاک سمجھ کر قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے اور جب وہ آگ سے گزر کر اپنی پاکی ثابت کردیتی ہے تو اس کے باوجودرام کے دل میں خلش باقی رہتی ہے اور بالآخر وہ اسے جلا وطن کردیتا ہے،اس پر سیتا دعا کرتی ہے کہ زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائے ۔ اس کی یہ دعا قبول ہوتی ہے اور وہ اپنی پاک بازی کو ثابت کرتے ہوئے خود کو قربا ن کر دیتی ہے۔’’(۱۶(

     اُس معاشرے میں عورت کو ہی ہمیشہ اپنی پاک بازی کا ثبوت دینا پڑا۔مندرجہ بالا روایت ہندو سماج کی بہت غیر معمولی روایت ہے جسے دورِ جدید کی عشقیہ کہانیوں میں بھی مثالی سمجھاجاتا رہا۔اس روایت سے یہ احساس مستحکم ہوتا ہے کہ عورت کے لیے ہمیشہ سے نجات کا ممکنہ راستہ صرف دکھ اور تکلیف ہی قرار پایا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دھرم شاستروں نے ہندوستانی عورت کو مکمل طور پر مرد کے زیرِ تسلط کر دیا۔ ستی ایسی رسمیں اسی تسلسل میں پروان چڑھیں کہ پاک باز عورت وہی ہے جو اپنے مرد کے مرنے پر چتا میں اُس کے ساتھ زندہ جل جائے۔ یہ عمل دونوں کے لیے نروان کے حصول کا ذریعہ سمجھا جاتاتھا۔ بقول ڈاکٹر مبارک علی ۷۰۰ ء سے ۱۱۰۰ء تک شمالی ہند اور کشمیر میں یہ رسم اتنی مقبول ہوگئی کہ نہ صرف بیویاں بلکہ کنیزیں بھی چتا میں مرد کے ساتھ جلنے لگیں(۱۷) ۔ کچھ لوگوں کا معصومانہ خیال ہوگا کہ جب مسلمانوں نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو مذہبِ اسلام کے اثرات سے عورت کی اس معاشرتی حیثیت میں بہت تبدیلی آئی ہوگی ۔ایسا بالکل نہیں ہے۔ ظاہر ہے مسلمان فاتح کی حیثیت سے ہندوستان میں داخل ہوئے تھے سو انھوں نے یہاں کی مقامی عورت کے ساتھ وہی سلوک روا رکھا جو کوئی بھی فاتح حکمران رکھتا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ اپنی ریاستیں بچانے کے لیے کچھ مقامی حکمرانوں کو اپنی عورتیں بھی مسلمانوں کو پیش کرنا پڑیں۔ مسلمانوں کا عورتوں کے ساتھ روّیہ،اُن کے لیے زندگی گزارنے کے اطوار، روایات اور قوانین ذرا مختلف ضرور تھے لیکن بحیثیتِ مجموعی مرد کے عورت پر تسلط یا عورت کو مرد کی ملکیت سمجھنے کی روش جوں کی توں قائم رہی۔ مسلمانوں کے دور میں توبادشاہوں کے ساتھ ساتھ امراء کے بھی ذاتی حرم اور زنان خانے ہوتے تھے جن میں موجود عورتوں کی زیادہ سے زیادہ تعدادبھی اُن کے لیے عزت کا ایک معیار تھی(۱۸)۔ ہندوستان کی تاریخ میں عورت کی معاشرتی حیثیت میں واضح تبدیلی انگریز دور میں آنا شروع ہوئی۔ ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں:

’’مسلمان حکمرانوں کے عہد میں بھی عورت کی سماجی حیثیت اس طرح سے رہی۔ بلکہ حکمران طبقوں نے پردے کی رسم مسلمانوں سے لے لی اور اپنے حرم سراؤں کی حفاظت اور سختی سے کی جانے لگی۔ اکبر نے ستی کی رسم کو ختم کرنے کی بہت کوشش کی مگر وہ کامیاب نہیں ہو سکا۔ ہندو معاشرے میں عورت کی آزادی کی جدو جہد انگریزی دور میں شروع ہوئی، جب بنگال میں راجہ رام موہن رائے نے اصلاحِ مذہب کی تاریخ شروع کی تو اس کے نتیجے میں ستی کی رسم پر پابندی لگی اور بالآخر ۱۹۱۹ء میں ساردا قانون کے تحت بچپن کی شادیاں ممنوع ہوئیں۔ اسی دور میں بیواؤں کی شادی کی بھی ترغیب دی گئی اور عورت کے لیے تعلیم کی سہولیتیں مہیا کی گئیں۔’’ (۱۹)

     ڈاکٹر مبارک علی کی تحریروں کے مطالعے سے احساس ہوتا ہے کہ اُن کاقلم زندگی کے کسی بھی پہلو کی روایتی تاریخ نہیں لکھتا ۔ عام طور پر ہندوستان کے مسلمان مورخین کے ہاں مسلمان حکمرانوں سے ایک خاص لگاؤ نظر آتا ہے اور اُن کے دور کو وہ ہندوستان کے ماضی کی نسبت ایک سنہری دورگردانتے ہیں لیکن مبارک علی کے ہاں اس طرح کی جانبداری کا پہلو نہیں ملتا۔اسلم گورداسپوری نے بالکل درست لکھا ہے کہ:

’’ڈاکٹر صاحب کی تاریخ نویسی ۔۔۔ ایک مکالمہ ہے۔ ایک باقاعدہ علم ہے فلسفہ ہے اور خرد افروزی ہے۔۔۔ تاریخ کو جب فاتحین کی تاریخ بنایا جاتا ہے تو تاریخ نویسی ایک ذہنی لذت کوشی بن جاتی ہے۔۔۔ جبکہ انسانی تاریخ ہرگز ایک خوش کن چیز نہیں ہوتی بلکہ تجربات اور حادثات کا مجموعہ ہوتی ہے۔ انسانوں کی غلطیوں کا پلندہ ہوتی ہے۔ بڑی سبق آموز اور عبرت کا مضمون ہوتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب سے پہلے ہم نے تاریخ کو جامد و ساکت انداز میں پایا تھا۔’’ (۲۰)

     مبارک علی نے عورت کی تاریخ بھی اس انداز میں لکھی ہے کہ وہ تمام تجربات اور حادثات جو اس نفس کے ساتھ پیش آتے رہے اُن کا احاطہ کیا جا سکے۔ نہ صرف یہ بلکہ اُن کی روشنی میں آج کا دردِ دل رکھنے والے عام انسان عورت کو بھی انسان سمجھے اور اپنے اور اپنے آباء کے درمیان عورت کی معاشرتی حیثیت کے حوالے سے ذہنی فاصلہ قائم کرے۔ مبارک علی نے ہمارے ہندوستانی ماضی کے بند دریچوں کو کھولنے کی کوشش اس طر ح کی ہے کہ تاریخ کا مرکزکسی سیاسی طاقت کے ماتحت ہونے کے بجائے سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں میں نظر آتا ہے اور ظاہر ہے سماج اور ثقافت عورت کے ذکر کے بغیر نامکمل ہیں۔سیاسی حکمرانوں کے زیرِ اثر لکھی جانے والے تواریخ میں یہ ذکر غالباً اس لیے نہیں ملتا کہ عورتوں کو تاریخی شعور دینے یا تاریخی عمل سمجھانے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی تھی۔ مبارک علی سماج کی بہتر تشکیل کے لیے یہ ضرورت سب سے زیادہ محسوس کرتے ہیں جبھی عورت کی سماجی تاریخ کے ہر پہلو پر انھوں نے لکھا۔ہندو سماج میں عورت کی تاریخ لکھنے کے بعد انھوں نے بڑی جرات مندی کے ساتھ عورت کے حوالے سے اُن مسلم صوفیا کے نظریات جن کے توسط سے ہندوستا ن میں اسلام کی روشنی پھیلی ، اُن مسلم مفکرین اور دانشوروں کے نظریات جنھو ں نے سماجی اصلاح کا بیڑا اُٹھایا اور اُن مسلم حکمرانوں کا رویہ جو مساوی انسانی حقوق کے قائل نظر آتے ہیں بھی واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ڈاکٹر مبارک علی بتاتے ہیں کہ مسلم صوفیاء اپنی عبادت گزاری اور روحانیت میں عورت کو حائل پاتے ہوئے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں اور عموماً اسے نفسانی خواہشات کو بے قابو کرنے کا محرک سمجھتے ہیں۔ اس ضمن میں اُنہوں نے’صوفیا اور عورت‘کے عنوان سے ایک مضمون میں خاص طور پر سید علی ہجویری کی کتاب کشف المحجوب سے مختلف مثالیں دے کربتایا ہے کہ وہ طریقت کی بنیاد مجرد رہنے پررکھتے ہیں اسی لیے نکاح کے مخالف تھے اور ایک عورت کے عشق میں اپنا مبتلا ہونا ایک فتنہ سمجھتے تھے جس سے ایک سال کے عرصے کے بعد اللہ تعالیٰ نے انھیں نجات دلائی(۲۱)۔عورت کو دین کے معاملات میں رکاوٹ سمجھنے اور اپنے مریدوں کو اس بنا پر شادی سے انکار کرنے کی روایت کے ضمن میں ڈاکٹر مبارک علی نے اٹھارویں صدی میں چشتیہ سلسلے کے ایک بزرگ شیخ کلیم اللہ کا بھی ذکر کیا ہے(۲۲)۔ ان بزرگوں کے علاوہ انھوں نے امام غزالیؒ کے عورت کے حوالے سے نظریات پر بھی روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ وہ مرد کی زندگی میں عورت کو اس لیے قبول کرتے ہیں کہ مرد علم و عمل کے لیے فارغ تب ہی ہو سکتا ہے جب گھر کے کام کاج کے لیے عورت موجود ہو، دوسرا یہ کہ اولاد پیدا کی جاسکے اور اولاد میں بھی لڑکے کو لڑکی پر فوقیت دیتے ہیں،اُن کا یہ قول بھی نقل کیا گیا ہے کہ نکاح کا مطلب لونڈی ہو جانا ہے ، لہٰذا بیوی شوہر کی لونڈی ہے اور اس پر مطلق فرمانبرداری واجب ہے (۲۳)۔اس موضوع پر فاضل مورخ نے مولانا اشرف علی تھانوی اور احمد رضا خان بریلوی کے افکارسے بھی بحث کی ہے اور بتایا ہے کہ بیشتر مسلمان علما مرد کے نقطۂ نظر سے ہی عورت کو دیکھتے ہیں اور مذہبی تعلیمات سے موافق مواد بھی اپنے نظریا ت کی توثیق میں پیش کرتے ہیں۔

     ہندوستان میں انگریزو ں کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد عورت کی معاشرتی حیثیت میں نمایاں تبدیلی آنا شروع ہوئی اور اس کی بڑی وجہ مغربی تعلیم کے زیرِ اثر ایک نئے طبقے کا ابھرنا ہے۔ مسلمانوں سے بھی پہلے ہندو تعلیم یافتہ طبقے میں عورت کے سماجی مرتبے کو بلند کرنے کا خیال پیدا ہوا۔ برہمو سماج تحریک نے عورت کی آزادی کے حق میں مضبوط آوازاُٹھائی۔ اس کے برعکس ہندوستا ن کے مسلم سماج میں یہ شعوراجاگر کرنے والی کوئی تحریک نظر نہیں آتی۔ سرسید احمد خان کوجدید ہندوستان میں مسلمانوں کے اولین مصلح کی حیثیت سے ہمیشہ یاد کیا جاتا ہے لیکن انھوں نے بھی صرف مردوں کی تعلیم پر زور دیا ۔ ڈاکٹر مبارک علی نے سرسید کانظریہ واضح کرنے کے لیے اُن کے مضامین سے کئی مثالیں بھی دی ہیں جن میں سے ایک ملاحظہ کریں:

’’جب تک مرد لائق نہ ہوں گے عورتیں بھی لائق نہیں ہو سکتیں۔ یہی سبب ہے کہ ہم کچھ عورتوں کی تعلیم کا خیال نہیں کرتے ہیں۔۔۔میرے رائے میں عورتوں کی تعلیم کا ذریعہ مرد ہی ہوں گے ۔’’(۲۴)

     سرسید کے علاوہ انھوں نے اکبر الہٰ آباد ی کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ وہ بھی عورتوں کی تعلیم اور آزادی کے سخت مخالف تھے ۔بیسویں صدی میں برطانوی حکومت نے کچھ ایسے قوانین بنائے جن سے ہندوستانی عورت نسبتاً بااختیار ہو سکتی تھی لیکن ہمارے جاگیردارانہ سماج اور اس کے نمائندوں نے جن میں مفکرین اور علما دونوں شامل تھے ان قوانین کی مخالفت کی۔ ۱۹۳۷ء کا شریعت ایکٹ ہوجس میں عورت کا وراثت میں باقاعدہ حصہ متعین کیا گیا ،یا ۱۹۳۹ء کا طلاق ایکٹ ہو، ہر سطح پر مقامی رسم و رواج اور مذہب کی آڑ میں ان قوانین کی مخالفت کی گئی اور پدرانہ نظام کو مضبوط رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس سب کے باوجود بیسویں صدی میں ہندوستانی عورت کی معاشرتی حالت میں بہتری آئی اور اس کی بنیادی وجہ تعلیم اور بالخصوص مغربی تعلیم تھی۔ اب عورت نے آہستہ آہستہ سیاسی تحریکوں میں بھی حصہ لینا شروع کیا۔ تحریکِ آزادئ ہند میں ہندوستانی عورتوں کے گراں قدر حصہ سے انکار ممکن نہیں۔سیاست کے علاوہ ادب کی دنیا میں بھی اب بادشاہوں کی بیگمات نہیں بلکہ ایک عام عورت متحرک نظر آنے لگی۔ ڈاکٹر رشید جہاں اور عصمت چغتائی کے بغیر اُردو کی ترقی پسند ادبی تحریک کا ذکر نامکمل رہتا ہے۔ اگرچہ موجودہ زمانہ جمہوری زمانہ ہے اور عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ متحرک ہیں لیکن بیشتر علما ء کا آج بھی یہی خیال ہے کہ عورت سربراہِ مملکت نہیں بن سکتی ، اُسے سیاست نہیں کرنی چاہیے، مردوں کے ساتھ سماجی محفلوں میں شریک نہیں ہونا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ تصور کیجیے کہ یہ روایتی فکر آج سے ستر برس پہلے کتنی مستحکم ہوگی جب ہندوستان انگریز تسلط سے آزاد ہو کر دونئی مملکتوں میں تقسیم ہو رہا تھا۔

     حالات اور معاشرے میں تبدیلی ایک فطر ی عمل ہے۔بیشتر اوقات یہ عمل خود بخود رونما ہوتا ہے لیکن کبھی کبھار معاشرے سے باہر کی طاقتیں بھی اُسے بدل کر رکھ دیتی ہیں۔ ایک وقت تک جب ہندوستانی معاشرے میں تبدیلی برطانوی تسلط کی وجہ سے رُونما ہوئی ، وہ معاشرہ اُس تسلط سے تو آزاد ہو گیا لیکن سامراج کے شکنجوں سے آزاد نہ ہو سکا۔ اُس شکنجے کے مثبت اور منفی اثرات آج تک موجود ہیں۔ پھر تاریخ نے ایک نئی کروٹ لی اور دنیا میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا انقلاب آیا۔ یہ اتنا بڑا انقلاب تھا کہ اس کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوئے۔ تاحال بنی نوع انسان ہر سطح پراس انقلاب سے متاثر ہو رہا ہے۔ عورت کی سماجی زندگی پر یہ انقلاب اس طرح اثر انداز ہوا کہ وہ قید و بند سے بڑی حد تک آزاد ہوتی چلی گئی۔موجودہ زمانے میں عورت کو خاطر خواہ آزادی حاصل ہے۔ ایک تو اُس کو تعلیم کے حصول میں کوئی دِقت نہیں ہے، دوسراوہ خواتین زندگی کے ہر شعبے میں حصہ لے رہی ہے۔ اگرچہ پاکستان میں سماجی نظام واضح طور پر پدر سری ہے۔یہاں ابھی تک خاندان کا ادارہ مضبوط ہے سو خاندانی اقدار اور وایات کی گرفت بھی مضبوط ہے جس کی خلاف ورزی معیوب سمجھی جاتی ہے ۔آج بھی اپنی مرضی سے زندگی کرنے کی خواہاں کچھ خواتین غیرت کے نام پر قتل ہو رہی ہیں لیکن ایسے ظلم کا خاتمہ بہرکیف تعلیم اور سماجی شعور کی بیداری سے ہی ممکن ہے جس کے لیے مختلف ادارے، تنظیمیں، عدلیہ اور میڈیا مثبت کردار ادا کررہے ہیں۔

     انسانی تاریخ میں عورت کی معاشرتی حیثیت کا پورا خاکہ یہ سمجھنے میں معاونت کرتا ہے کہ ماضی بعید سے زمانہ حال تک مرد نے اُس عورت کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جس کے بطن سے ہی اُس نے جنم لیا تھا ۔ دوسرا یہ کہ اپنے حقوق کی پامالی کے باوجود آج تک عورت نے اپنی الگ پہچان برقرار رکھی ۔ اُس نے حالات سے سمجھوتہ ضرور کیا ہوگا لیکن شکست تسلیم نہیں کی۔ بقول ڈاکٹر مبارک علی:

’’تاریخ میں عورت کی جو تصویر ابھر کر آتی ہے ، وہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ ان تمام نشیب و فراز اور مرد کے اقتدار و طاقت کے باوجود عورت نے شکست تسلیم نہیں کی۔ اگرچہ اسے دبایا گیا، کچلا گیا اور اس کی شخصیت کو توڑا گیا ، مگر اس کے باوجود اس نے اپنی بقا کی جنگ لڑی اور تاریخ میں ایک طاقت کی حیثیت سے خود کو برقرار رکھا۔ اس کی مثال ان عورتوں سے دی جا سکتی ہے جنھوں نے بحیثیت سربراہِ مملکت، فوج کی سپہ سالار، ادیبہ و شاعرہ و فن کار کی حیثیت سے خود کو تسلیم کروایاحالانکہ وہ مردوں کی دنیا تھی مگر مردوں کی روایات و ماحول میں رہتے ہوئے انھوں نے خاموشی سے اپنے وجود کو برقرار رکھا اور یہی عورت کی مستقل مزاجی ہے کہ اس نے مردوں سے اپنی ذات کی پہچان کرائی اور آج وہ زندگی کے ہر شعبے میں موجود ہے۔ ’’(۲۵)

گزرتے وقت کے ساتھ عورتوں میں سیاسی اور سماجی شعور بڑھ رہا ہے۔قدیم تہذیبوں میں عورت زیادہ سے زیادہ کھیتی باڑی کا کام کرتی نظر آتی ہے لیکن آج زندگی کے ہر پیشے میں وہ متحرک ہے۔ تعلیم و تدریس،ادب، صحافت، وکالت، طب، تجارت، سیاست، سفارت ،انتظامی امور ، کھیل اور ثقافت سمیت عملی زندگی کے ہر میدان میں عورتیں اپنی قوم اور اپنے علاقے کی عزت بڑھا رہی ہیں۔

     ڈاکٹر مبارک علی نے عورت کی معاشرتی حیثیت کی تاریخ جس روشن خیال اور خرد افروززاویۂ نظر سے لکھی ہے وہ اُردو کے بہت کم دانشوروں کے ہاں ملتا ہے۔ زیادہ تر طالب علموں کا ماخذ خواتین ادیبوں کی تحریریں ہوتی ہیں۔ عہدِ حاضر میں کشور ناہید،فہمیدہ ریاض، زاہدہ حنا، فاطمہ حسن، عائشہ صدیقہ، روبینہ سہگل،عذرا طلعت سید، شہناز شورواور طاہرہ اقبال ایسی کئی دانشور اور ادیب خواتین ہیں جو عورت کی معاشرتی حیثیت کو اپنی تحریروں میں موضوع بناتی ہیں اور نسائی شعور پر کام کرنے والے طالب علموں کی نظر میں یقیناًمعتبر حوالہ ان کا ہی ہوتا ہے۔ لیکن اگر ڈاکٹر مبارک علی، ڈاکٹرسید جعفر احمد،حمزہ علوی،پروفیسر عرفان حبیب، شاہ محمد مری اوروجاہت مسعود ایسے روشن خیال مفکرین کی اُن تحریروں پر ایک نظر ڈالی جائے جومختلف معاشروں میں عورتوں کی سماجی حیثیت، آزادئ نسواں کی تحریکوں ،خواتین کے حقوق کی جدوجہد اوردنیا کی نامور خواتین کے کارناموں کو موضوع بناتی ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ ہمارے اردگرد کچھ ایسے روشن خیال مرد دانشور بھی موجود ہیں جنھوں نے عورتوں کی عصمت دری کرنے والوں اور انھیں ہر میدان میں پیچھے دھکیلنے کے خواہش مندوں کو عورتوں کے کردار کی عظمت اور اُن کے حقوق کی حمایت میں لکھ کر کڑا جواب دیا ہے۔متذکرہ دانشوروں کی تحریریں ہمارے معاشرے کی موجودہ فضا میں اُس متبادل بیانیے کا بھی درجہ رکھتی ہیں جس کی ضرورت ہمارے سماج کے کرتا دھرتا آج کل کسی عورت کے ساتھ پیش آنے والے ہر ناخوشگوار واقعے کے بعد شد و مد سے محسوس کرتے ہیں لیکن فقط اتنی دیر کے لیے جتنی دیر کسی ٹی وی پروگرام میں یا عوامی اجتماع کے سٹیج پر موجود ہوں۔

حوالہ جات/حواشی:

۱۔   سبطِ حسن،پاکستان میں تہذیب کا ارتقا(کراچی:مکتبہ دانیال، ۲۰۰۲ء)،ص۵۹

۲۔   اعجاز الرحمن، تانیثیت اور قرۃ العین حیدر کے نسوانی کردار(دہلی:عرشیہ پبلی کیشنز، ۲۰۱۰ء)، ص۲

۳۔  مبارک علی، تاریخ اور عورت (لاہور، تاریخ پبلی کیشنز، ۲۰۱۴ء)،اضافہ شدہ ایڈیشن، ص۲۳

۴،۵۔   ایضاً، ص۱۸                              ۶۔    ایضاً، ص۱۶

۷۔   ایضاً، ص۲۸                                ۸۔    ایضاً، ص۲۹

۹۔    ایضاً، ص۳۰                  ۱۰۔   ایضاً، ص۴۴

۱۱۔   ایضاً، ص۳۳

۱۲۔   اس کتاب کا لاطینی زبان میں اصل ٹائٹل Malleus Maleficarumہے جبکہHammer of Witchesکے عنوان سے انگریزی میں ترجمہ ہوئی۔ اس کے مصنفین Heinrich Kramer اور Jacob Sprenger ہیں۔ موخر الذکر مصنف کا نام اس کتاب کے ٹائٹل پر پہلی اشاعت کے لگ بھگ ۳۳ برس بعد ۱۵۱۹ء میں نمودار ہوا۔ یہ کتاب ۱۴۸۷ء میں پہلی دفعہ لاطینی زبان میں جرمنی کے شہرسپائر سے شائع ہوئی اور اس میں نہ صرف جادوگرنیوں کو زندہ جلانے کا مذہبی جواز پیش کیا گیا بلکہ یورپی عورت کو ہی جادوگرنی کا رُوپ سمجھا گیا ہے۔ اس کے مصنف نے دنیا کی تمام بڑی سلطنتوں کے زوال کا سبب عورت کو قرار دیا اور یونان کی ایک ریاست ’ٹرائے‘ کی تباہی و بربادی کی داستان کو مثال کے طور پر پیش کیا ہے۔

۱۳۔  مبارک علی، تاریخ اور عورت، ص۸۹۔۹۰

۱۴۔  موخر الذکر مضمون میں ہندوستان میں عورت کی معاشرتی حیثیت کا ارتقائی جائزہ لینے کے لیے ڈاکٹر مبارک علی نے مشہور مورخ ،ماہرِ آثارِ قدیمہ اور بنارس ہندویونیورسٹی کے سابق صدر شعبہ قدیم ہندوستانی تاریخ و تہذیب(A.S. Altekar) آننت سداشیو آلٹیکر [۱۸۹۸ء۔۱۹۶۰ء]کی کتاب The Position of Women in Hindu Civilization, from Prehistoric Times to the Present Dayتجویز کی ہے۔ اس کتاب میں ہندوستان کی تاریخ کے گذشتہ چار ہزار سال میں عورت کی زندگی کی ارتقائی تصویر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس کتاب کا پہلا ایڈیشن ۱۹۳۸ء میں شائع ہوا۔ دوسرا اورنسبتاً مشہور ایڈیشن موتی لال بنارسی داس پبلی کیشنزدہلی سے ۱۹۵۶ء میں شائع ہوا۔ اس کتاب سے پہلے آلٹیکر کی ایک اور کتاب Education in Ancient India ۱۹۳۲ء میں منظرِ عام پر آئی تھی جسے آج بھی مورخین ہندوستان کی ابتدائی تہذیب میں تعلیم کی صورتِ حال سمجھنے کے لیے اہم حوالہ قرار دیتے ہیں۔

۱۵۔   مبارک علی، تاریخ اور عورت، ص۳۶

۱۶۔   ایضاً، ص ۳۸۔۳۹

۱۷۔   ایضاً، ص۱۴۰

۱۸۔ اس موضوع پر ڈاکٹر مبارک علی کا ایک بہت جامع مضمون بعنوان ‘حرم’ تاریخ اور عورت کے صفحہ ۵۳ سے ۵۸پر ملاحظہ کیجیے جس میں انھوں نے بتایا ہے کہ حرم کا تصور دراصل بہت پہلے ایرانی حکمرانوں نے دیا لیکن اس کی روایت عثمانی خلیفو ں کے ہاں زیادہ مضبوط ہے۔ ہندوستان کی تاریخ میں مغل بادشاہوں کے حرم بہت مشہور ہوئے۔ حرم کی عورتوں کے ساتھ کچھ اُن کی کنیزیں اورخواجہ سراحفاظت پر مامور ہوتے۔ ڈاکٹر مبارک علی کا خیال ہے کہ ان حرموں میں عورتوں کو شان و شوکت بھی حاصل ہوتی تھی، تمام تر اُٹھنے بیٹھنے کی سہولتیں اور حرم کے اندر آزادی بھی تھی لیکن اس سب کے باوجود یہ عورت کے لیے ایسا قید خانہ تھا جہاں آ کر باہر کی دنیا سے اُس کا تعلق ٹوٹ جاتا اور بقایازندگی جہالت اور گمنامی کے اندھیرے میں گزارنا پڑتی۔

۱۹۔  مبارک علی، تاریخ اور عورت، ص۴۱۔۴۲

۲۰۔  اسلم گرداسپوری، خرد افروزی کا مورخ، ڈاکٹر مبارک علی، مشمولہ: تاریخ کا سفر (ڈاکٹر مبارک علی کی علمی خدمات کا اعتراف)، ترتیب: ڈاکٹر ریاض احمد شیخ(لاہور، تاریخ پبلی کیشنز، ۲۰۱۳ء)، ص۲۲۔۲۳
۲۱۔  مبارک علی، تاریخ اور عورت، ص۵۰۔۵۱

۲۲۔  اس ضمن میں اُن کا ماخذ محمد عمر کی کتاب Islam in Northern India (During the Eighteenth Century)ہے جسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سنٹر آف ایڈوانسڈ سٹڈی اِن ہسٹری نے منشی رام منوہرلال پبلشرز دہلی سے ۱۹۹۳ء میں شائع کرایا۔

۲۳۔  مبارک علی، تاریخ اور عورت، ص۶۱۔۶۳

۲۴۔  ایضاً، ص۹۳

۲۵۔  ایضاً، ص۱۰۵

********

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.