سید وقار عظیم  : شعریات افسانہ کا تشکیلی تفاعل

ڈاکٹر نسیم عباس احمر

شعبہ اردو،سرگودھا یونیورسٹی(پاکستان)

 سید وقار عظیم اردو تنقید کی آبرو ہیں۔فکشن کے حوالے سے ان کی تنقید افسانے کے گرد گھومتی ہے۔ ان کی چار کتب: ’’فنِ افسانہ نگاری‘‘، ’’داستان سے افسانے تک‘‘، ’’نیا افسانہ‘‘ اور ’’ہمارے افسانے‘‘،افسانے کے نظری اور عملی مباحث کے حوالے سے اہمیت کی حامل ہیں۔ سید وقار عظیم پہلے نقاد ہیں جنھوں نے افسانے کی مبادیات اورتشکیلی عناصر پر سیرحاصل بحث کی ہے۔ ان کی کتاب ’’فنِ افسانہ نگاری‘‘ خالصتاً افسانے کی شعریات سے متعلق ہے۔ یہ کتاب ان کی زندگی میں تین مرتبہ اضافوں کے ساتھ شایع ہوئی۔ سید وقار عظیم نے اس کتاب کے تیسرے ایڈیشن ۱۹۶۱ء میں پہلے دو ایڈیشن اور اُن کے نام بھی درج کیے ہیں۔ پہلا ایڈیشن ’’افسانہ نگاری‘‘ کے عنوان سے ۱۹۴۵ء میں سامنے آیا اور دوسرا ایڈیشن ’’فنِ افسانہ نگاری‘‘ ۱۹۴۹ء میں منظرِعام پر آیا۔ اس کتاب میں افسانے کا موضوع، پلاٹ، سرخی، فضابندی، تمہید اور خاتمہ، سیرت کشی، رومان، حقیقت، مقامی رنگ، اسالیب، نقطۂ نظر، منظرنگاری، مختلف تکنیکیں اور دیگر خصوصیات پر تفصیل سے بحث ہوئی ہے۔

  سید وقار عظیم نے اپنی کتاب ’’فنِ افسانہ نگاری‘‘ کے لیے باب بہ عنوان ’’افسانے کی حقیقت‘‘ میں افسانہ کی اصطلاح کے مختلف مفاہیم کو بیان کر کے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ افسانہ کی حتمی تعریف اس لیے ممکن نہیں جس طرح زندگی آگے بڑھتی جاتی ہے، تبدیلیاں آتی جاتی ہیں اُسی طرح مختصر افسانہ سے تقاضے بھی بڑھتے جاتے ہیں اور اس کے مفہوم میں وسعت آتی جاتی ہے۔ انھوں نے مختلف مغربی ناقدین کی تعریفیں بیان کرنے کے بعد اُنھیں مختصراً شق وار بھی ترتیب دیا ہے۔ مغربی ناقدین میں Edgar Allan Poe، Brander Mathews، A.J.J.Ratcliff ، H.G.Wells، E.I.O.Brien، W.B.Pitkin، I.B.Esenwein اور Clayton Hamilton کی تعریفیں درج کی ہیں۔ اِن تعریفوں سے اُن کے اخذشدہ نتائج یہ ہیں کہ مختصر افسانہ واحد ڈرامائی واقعے کو اُبھارتا ہے، ایک کردار یا کرداروں کے گروہ کے نقوش اُبھارے جاتے ہیں۔ واقعات کی تفصیل اختصار اور ایجاز کے ساتھ بیان کی جاتی ہے۔ مختصر افسانہ ایسا ہو جسے آدھ گھنٹے میں پڑھا جا سکے اور کوئی واضح آغاز اور انجام نہ ہو۔ سید وقار عظیم کے خیال میں مختصر افسانہ وہ ہے جسے ایک نشست میں پڑھا جا سکے اور اُس میں وحدتِ تاثر بھی ہو اور وحدتِ تاثر اُس وقت ہی جنم لے سکتا ہے جب اُسے ایک نشست میں ہی پڑھا جائے۔

سید وقار عظیم، افسانے کی تعریف کچھ یوں کرتے ہیں:

’’حقیقت میں ’’مختصر افسانہ‘‘ ایک ایسی منفرد، فکری داستان ہے جس میں کسی ایک خاص واقعہ، کسی ایک خاص کردار پر روشنی ڈالی گئی ہو۔ اس میں پلاٹ ہو اور اس پلاٹ کے واقعات کی تفصیلیں اس طرح گٹھی ہوئی اور اس کا بیان اسی قدر منظم ہو کہ وہ ایک واحد تاثر پیدا کر سکے۔‘‘  [۱]

اُنھوں نے اس تعریف میں پلاٹ، کردار، اختصار اور وحدتِ تاثر کو افسانے کی شرائط قرار دیا ہے اور اس باب میں اِنھی شرائط پر بحث کی ہے لیکن وہ ان شرائط کو حتمی نہیں سمجھتے۔سید وقار عظیم نے اپنی کتاب ’’فنِ افسانہ نگاری‘‘ میں طویل مختصر افسانے کے حوالے سے تفصیلی انداز میں لکھا ہے۔ اس مضمون میں انھوں نے طویل مختصر افسانے کی وجہ جواز، خصوصیات، طویل مختصر افسانے اور ناولٹ میں فرق کو بیان کیا ہے۔ طویل مختصر افسانے کے اردو افسانوی ادب میں ورود کے جواز کے ضمن میں کہتے ہیں کہ ناول اور افسانے کے موضوع ایک دوسرے سے نہیں ملتے اور مختصر افسانہ کسی ایک موقع محل، فضا اور ذہنی کیفیت، کی ترجمانی کرتا ہے لیکن بعض اوقات اس ایک موقع محل، فضا اور ذہنی کیفیت کی ترجمانی میں اتنی پیچیدگیاں ہوتی ہیں جنہیں چھوٹے سے افسانے میں نہیں سمویا جا سکتا اور اس کمی کو پورا کرنے کے لیے طویل مختصر افسانوں کی ابتدا ہوئی۔ طویل مختصر افسانہ، افسانے اور ناول کے بیچ کی ایک چیز ہے جس میں ناول کی پس منظری کیفیت بھی ہوتی ہے اور مختصر افسانے کی وحدتِ تاثر بھی، مناظر زیادہ تفصیل سے سامنے آتے ہیں اور کردار بھی زیادہ واضح انداز میں پیش کیے جاتے ہیں لیکن اُن کے نزدیک اس میں تفصیل کے باوجود افسانے کی وحدتِ تاثر قائم رہتی ہے۔ اُنھوں نے طویل مختصر افسانے اور ناولٹ کے مابین فرق کو واضح کیا ہے۔ اُن کے نزدیک طویل مختصر افسانے اور ناولٹ میں پہلا بنیادی فرق یہ ہے کہ طویل مختصر افسانے میں موضوع کی وحدت ضروری ہے جو کہ ناول یا ناولٹ میں نہیں پائی جاتی اور دوسرا بنیادی فرق اِن دونوں اصناف کی فنی ترتیب کا ہے۔ طویل مختصر افسانے کی فنی بنت سیدھی سادی اور ہموار ہوتی ہے جب کہ ناولٹ میں پیچیدگی، پھیلائو اور گہرائی لازمی امور ہیں۔ اردو طویل مختصر افسانوں میں نیاز فتح پوری کے کیوپڈ اور سائیکی کی مثال پیش کی ہے۔ دیگر طویل مختصر افسانہ نگاروں میں مجنوں گورکھ پوری، کرشن چندر، حیات اللہ انصاری، احمد ندیم قاسمی اور اختر اورینوی کے نام شامل ہیں۔ سید وقار عظیم کی ایک کتاب کا عنوان ’’نیا افسانہ‘‘ ہے۔ اس کتاب میں اِسی عنوان سے ایک مضمون بھی شامل ہے۔ سید وقار عظیم نے اس مضمون میں نئے افسانے کے مغربی پس منظر، اور نئے افسانے کے مختلف گروہوں کا تذکرہ کیا ہے۔ اُنھوں نے ایک اور نکتہ بھی بیان کیا ہے کہ نئے افسانے کو اگر ’’ترقی پسندی‘‘ کی اصطلاح سمجھا جائے تو مناسب ہو گا اور اُنھوں نے اپنے اس مضمون کی بنیاد اسی نکتے کی وضاحت پر رکھی ہے۔ اُن کے نزدیک جوائس اور مارسل پروست کا شعور کی رو کا نظریہ، لارنس کے افسانوں کے جنسی جذبہ کی تسکین، فرائڈ کی نفسیات، مارکس کا معاشی نظریہ، نئے افسانے کا مغربی پس منظر ہے اور اسے اُردو میں تشکیل دینے والوں نے مشرقی مزاج سے ہم آہنگ کر کے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

اُنھوں نے نئے افسانہ نگاروں کو چار گروہوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک گروہ وہ ہے جو مغرب کے لیے عازمِ سفر ہوا اور وہاں رہ کر مغرب کا اثر قبول کیا، دوسرا گروہ وہ ہے جنہوں نے انگریزی لکھنے والوں کو پڑھ کر ان سے قرب حاصل کیا، تیسرا گروہ اُن افسانہ نگاروں کا ہے جو نہ تو اُن مغرب کے لکھنے والوں میں گھل مل کر بیٹھے اور نہ ہی اُن کے ادبی کارناموں کا مطالعہ کیا بلکہ ان کی تحریروں پر لکھی جانے والی آرا اور مضامین کا مطالعہ کر کے، لکھنے لگے اور چوتھا گروہ اُن لکھنے والوں کا ہے جو فنی بحثیں سن کر اور اپنی زبان کے نئے لکھنے والوں کو دیکھ کر اس میدان میں آن پڑے۔ اس کے علاوہ نئے لکھنے والوں میں بھی مختلف مزاج کے حامل افسانہ نگار نظر آتے ہیں۔ مثلاً کچھ کے ہاں نفسیات زیادہ ہے تو کچھ نے مغرب اور مشرق کو ملا کر ایک نیا رنگ نکالا ہے۔ سید وقار عظیم کے ’’نیا‘‘ کے سابقہ کو بھی لغوی کی بجائے اصطلاحی مفہوم میں استعمال کرنے سے غلط فہمیوں نے جنم لیا۔ نئے افسانے کو اُنھوں نے جن معنوں میں استعمال کیا ہے اس کی وضاحت دیکھیے:

’’جب کوئی کہتا ہے، نیا افسانہ، تو سننے والے کا ذہن فوراً ایک دوسرے لفظ کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ ’’ترقی پسندی‘‘۔۔۔ نئے افسانے کے پس منظر میں یہ دو چیزیں سب سے زیادہ قیمتی اور اپنی کشش میں سب سے زیادہ جاذب ثابت ہوئیں۔ مغرب کے افسانوں کا فن اور ترقی پسندی کی تحریک۔ لیکن ایک چیز اور بھی تھی جس نے افسانے کو فن کی یہ منازل اس قدر جلد طے کر لینے میں مدد دی۔ پرانے لکھنے والوں کی چھوڑی ہوئی روایتوں کا گہرا اثر۔‘‘  [۲]

اُنھوں نے نئے افسانے کو ایک امتزاجی کیفیت مراد لیا ہے جس میں مغرب کے لکھنے والے، ترقی پسندی اور مشرقی روایت کا امتزاج شامل ہے۔ اس مضمون میں اُن کا سارا زور نئے افسانے میں ترقی پسند رُجحانات کی وضاحت میں صرف ہوا ہے۔ ترقی پسندی کے مختلف رجحانات، کسان اور مزدور کی زندگی، دیہاتی اور شہری زندگی، نفسیات اور جنس کی نفسیات، رجعت پسندی کی مخالفت اور زبان کے معاملے میں قلم کی آزادی شامل ہیں۔ سید وقار عظیم کے نزدیک نیا افسانہ، ترقی پسندی کے انھی رجحانات کا ترجمان نظر آتا ہے۔ یہ مضمون نیا افسانہ کے پس منظر کی وضاحت کے بعد ترقی پسندی کی وضاحت پر مرکوز نظر آتا ہے۔سید وقار عظیم نے اپنی کتاب ’’نیا افسانہ‘‘ میں نفسیات کے اردو افسانے میں رو بہ عمل ہونے پر کچھ معروضات بیان کی ہیں مثلاً اُن کے خیال میں نفسیات کے جدید ترقی سے متاثر ہو کر لکھنے والوں نے خود کو ایک فرد کی ذات تک محدود کر لیا ہے اور کہانی کی باقی قدروں کی بنیاد بھی اُس ایک فرد کے ذہن کی شعوری کیفیات پر رکھ دی ہے۔ اس کے علاوہ اُنھوں نے نفسیات کے افسانہ کی کردار نگاری میں تبدیلی پر مرتّب اثرات کو بھی واضح کیا ہے۔ نفسیات کے اثر سے پہلے کردار کو پیش آئے واقعات اور وقت ایک زنجیر کی شکل میں ہوتے تھے اور اب کردار کے ظاہری عمل(واقعہ) سے زیادہ اُس کے شعور کے اُن پہلوئوں کو پیش کیا جاتا ہے جو وقت کے ساتھ سلسلہ وار نہ چلتے ہوں۔ اس کی مثال ’’شعور کی رو‘‘ کی تکنیک سے دی ہے۔ اس طرح گزرے ہوئے واقعات کی یاد ایک نئے واقعے پر عجیب و غریب رنگ چڑھاتی ہے۔ سید وقار عظیم کے یہ خیالات افسانے کے روایتی تصورات اور مبادیات کی تائید کرتے نظر آتے ہیں۔ جس میں نئے تجربات کا مکمل اظہاریہ، ادھورا محسوس ہوتا ہے۔ سید وقار عظیم نے ’’فنِ افسانہ نگاری‘‘ میں افسانہ اور ناول کے فرق کو واضح کیا ہے۔ اُنھوں نے اِس غلط فہمی کو دُور کیا ہے کہ افسانہ، ناول کی مختصر شکل ہے چوں کہ افسانے کی ابتدا ناول سے نہیں بلکہ اس سے ملتی جلتی مختصر چیزوں سے ہوئی۔ اُن کے نزدیک پہلا بنیادی فرق ناول کی طوالت اور افسانے کا اختصار ہے۔ دوسرا بنیادی فرق وحدتِ تاثر کا ہے جو افسانے کی خصوصیت ہے جسے ایک ہی نشست میں پڑھ کر تاثر قائم ہو جاتا ہے اور ناول سے ایک ہی نشست میں پڑھنا ممکن نہیں لہٰذا وحدتِ تاثر کی اُمید رکھنا کارِ سود ہے۔ اسی طرح افسانہ، ناول کی طرح زندگی کی زنجیر نہیں بلکہ ایک کڑی ہے۔ اس میں ایک واقعہ، ایک خیال، ایک تجربہ اور ایک احساس بیان ہوتا ہے اور ایک ہی چیز ایک ہی وقت میں افسانے کا موضوع بنتی ہے۔ انھوں نے موضوع، وحدتِ تاثر کے بعد کرداروں کے فرق کے حوالے سے امتیازات کو یوں بیان کیا ہے کہ ناول میں کرداروں کی مختلف شکلیں اور حالتیں نظر آتی ہیں اور افسانے میں کردار کی سب حالتیں ایک ساتھ دکھائی نہیں دیتی۔ کردار کو ہمیشہ کسی نہ کسی اضطراب کی حالت میں پیش کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ناول کی نسبت افسانے میں انجام، تحریک کے عمل اور اُس کے مقصد کو زیادہ پابندی سے برتا جاتا ہے جو کبھی رومانی، شاعرانہ، فلسفیانہ اور کبھی نفسیاتی نقطۂ نظر سے پیش ہوتا ہے۔  سید وقار عظیم کے نزدیک مختصر افسانہ ناول کی نسبت ڈرامے سے زیادہ قریب ہے۔ ان کے اشتراکات میں وحدتِ تاثر، لکھنے والے کے لیے حدود، اختصار و ایجاز، قاری کو سوچنے پر مجبور کرنا، مرکزی خیال کی بنیادی اہمیت اور وقت اور مقام میں مقید ہونا شامل ہیں۔ ان کے نزدیک قصہ گوئی کی کسی صنف نے ڈرامے کی فنی خصوصیات کو اتنا نہیں اپنایا جتنا افسانے نے برتا ہے اور یہ دونوں اصناف ایک دوسرے سے بہت زیادہ قریب ہیں۔افسانہ اور فلم کی مماثلتیں، سید وقار عظیم نے تلاش کی ہیں۔ اُنھوں نے ’’فنِ افسانہ نگاری‘‘ میں فلم کو اخلاقی قوت کا مظہر کہا ہے اور اس کی معاشرتی اور تمدنی اہمیت تسلیم کرتے ہوئے افسانے اور فلم کے اشتراکات کو بیان کیا ہے۔ اُن کے نزدیک فلمی کہانیاں، ناول اور ڈرامے کی نسبت مختصر افسانے کے زیادہ قریب ہیں۔ دونوں نئے عہد کی پیداوار ہیں۔ دونوں بہت سی چیزوں کی پابندی کے باوجود آزاد ہیں۔ دونوں میں نئے عہد کے انتشار کی مصوری کی جاتی ہے۔ دونوں میں ناول اور ڈرامے کی فنّی روایتوں کا عکس موجود ہے۔سید وقار عظیم نے ’’فنِ افسانہ نگاری‘‘ میں مختصر افسانے میں فنونِ لطیفہ کی خصوصیات کو تلاش کیا ہے۔ اُن کے نزدیک فنونِ لطیفہ خیال افزا ہوتے ہیں اور مختصر افسانے میں بھی ایسے نکات پیش کیے جاتے ہیں جو قاری کے دماغ کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں، دماغی اور روحانی لذت بھی عطا کرتے ہیں اور یہ خصوصیت حسن کا لازمی جزو ہے۔ اس کے علاوہ افسانے میں حقیقت بیانی کے ساتھ جذبات پر حکمرانی کو بھی مدِّنظر رکھا جاتا ہے۔ واقعات کے انتخاب میں افسانہ نگار کو بڑی مہارت سے کام لینا پڑتا ہے تاکہ واقعات اور کردار نگاری سے وجدانی کیفیت پیدا کی جا سکے۔ جذبات نگاری افسانہ نگار سے قوتِ انتخاب کا تقاضا کرتی ہے چوں کہ اُس کی کائنات محدود اور عمل کا جذبہ وسیع ہوتا ہے، وہ مصور، بت تراش، شاعر اور موسیقار کی طرح اُنہیں جذبات کو اُبھارتا ہے جس قدر وہ اس عمل میں آزاد ہوتا ہے۔وہ پلاٹ کی تعریف دو مختلف جگہوں پر، دو مختلف پہلوئوں سے کرتے ہیں۔ ایک طرف وہ واقعات کی ابتدا، منتہا اور انجام کیترتیب و تنظیم کو پلاٹ کہتے ہیں۔ موزوں اور جامع تعریف دوسرے مقام پر کچھ یوں کرتے ہیں:

’’جو واقعہ، تجربہ، خیال یا حِس، افسانے کی بنیاد بنتا ہے، پلاٹ اِس واقعے، تجربے، خیال یا حِس کو ایک فنی ترتیب دیتا ہے۔ کہانی کی ترتیب میں مناظر، کردار، اِن کرداروں کے عمل اور ان کے مکالموں سے اور افسانہ نگار کے نقطۂ نظر سے رنگ بھرا جاتا ہے۔ کہانی کا یہ ڈھانچا اس کا پلاٹ کہلاتا ہے۔‘‘  [۳]

سیدوقار عظیم نے پلاٹ کی تشکیل میں مستعمل مختلف طریقوں کواسٹیونسن سے اخذکیا ہے اور پلاٹ کی ترتیب کے اِن طریقوں کو ’پلاٹ کے سوت‘ کہا ہے۔ پلاٹ کے اجزا یا شرائط کے حوالے سے سید وقار عظیم نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ سید وقار عظیم پلاٹ میں ایک رکاوٹ جسے وہ کش مکش کہتے ہیں کو ضروری شرط قرار دیتے ہیں۔انھوںنے پلاٹ کی خصوصیات کا تعین بھی کیا ہے۔پلاٹ کی اہم خصوصیات سادگی، جدت اور دل چسپی ہیں۔ اُنھوں نے جدت پیدا کرنے کے دو طریقے بھی بتائے ہیں۔ اوّل پرانے موضوع کی نئی فنی ترتیب سے پلاٹ میں جدت پیدا کی جا سکتی ہے اور دوّم پرانی بات کو نئے انداز سے کیا جائے یعنی بات کا یہ انداز نئے نقطۂ نظر سے پیدا ہو سکتاہے۔پلاٹ کے وجود میں آنے کی وجہ یا مقصد کو تحریک(MOTIVE) کہا گیا ہے۔ یہ اصطلاح سید وقار عظیم نے سب سے پہلے استعمال کی۔ اُن کے نزدیک پلاٹ کی دل کشی اور جدت کا انحصار تحریک کی جدت اور ندرت پر ہے۔ ایک جیسے واقعات میں تحریک کا فرق ہی ندرت پیدا کرتا ہے۔ اردو افسانے کی تنقید میں پلاٹ کے مباحث کی بنیاد ارسطو کے تصور پلاٹ پر ہی رکھی گئی ہے۔ اسی لیے اس کے بنیادی خدوخال، اُسی تصور سے ماخوذ ہیں۔ ارسطو کے تصور پلاٹ میں آغاز، وسط اور انجام کا بھی تفصیلی حوالہ ملتا ہے۔ سید وقار عظیم نے ’’فن افسانہ نگاری‘‘ میں افسانے کے ابتدائی جملے کے لیے فرحت و انبساط کے سامان سے لیس ہونا ضروری قرار دیا ہے۔ وہ تمہید میں اختصار، دل کشی، تاثیر اور جدت پر زور دیتے ہیں اور اگر افسانہ نگار پلاٹ کو کسی خاص منظر کے تحت پیش کرنا چاہتا ہے تو اُسے رفتہ رفتہ پیش کیا جائے۔ تمہید میں بیک وقت کئی چیزیں، کئی کیفیتیں اور کئی تاثرات شامل ہو سکتے ہیں۔ کامیاب تمہید جو خدمات انجام دیتی ہیں اُن میں فضا پیدا کرنا، قاری کو آنے والی کیفیت کے لیے تیار کرنا اور ایک یا ایک سے زیادہ کرداروں کا تعارف کرانا شامل ہے۔ وہ تمہید کے لیے رائج مختلف طریقوں بیانیہ، منظریہ، فلسفیانہ بحث، درمیانی کڑی کا بیان اور مکالماتی انداز کو پیش کرتے ہیں۔ افسانے کا ماحول اور ترتیب کی دل کشی، بیانیہ تمہید کا خاصا ہیں۔ ڈرامائی اثرات پیدا کرنے کے لیے مکالماتی تمہید استعمال ہوتی رہی ہے۔ وہ بیانیہ تمہید کو زیادہ موزوں سمجھتے ہیں چوں کہ اس سے پلاٹ میں دل کشی پیدا ہوتی ہے۔ منتہا کی اصطلاح سید وقار عظیم  نے استعمال کی ہے۔ اس موضوع پر سید وقار عظیم نے واضح اور موزوں انداز سے بحث کی ہے۔ وہ اسے پلاٹ کی ایک اہم شرط قرار دیتے ہیں۔ وہ اس کی تعریف یہ کرتے ہیں کہ ایسا مقام جہاں پہنچ کر قاری افسانے میں اس درجہ ڈوب جائے کہ دنیا و مافیہا کو فراموش کر دے۔ انھوں نے نقطۂ عروج کی مختلف خوبیاں بھی بیان کی ہیں۔ اوّل اس تک پہنچنے کے لیے قاری کو کوئی کاوش نہ کرنی پڑے۔ دوّم اس میں بناوٹ اور تصنع نہ ہو، سوم غیرمتوقع ہو، چہارم قاری کے ذہن کو انجام کے لیے تیار کرے تاکہ اس کا خاتمہ غیرفطری معلوم نہ ہو۔ وہ منتہا کے حوالے سے ایک مروج تصور کہ منتہا میں حیرت اور استعجاب کا ہونا لازمی ہے، کو قطعی غلط سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں منتہا کے لیے حیرت و استعجاب کے بجائے واقعات کے ارتقا اور ان کی رَو کا فطری نتیجہ ہونا لازمی ہے۔افسانے کے اختتامیہ یا انجام کے حوالے سے سے بھی انھوں نے بحث کی ہے۔ سید وقار عظیم کے خیالات مابعد ناقدین کے لیے بنیاد بنے۔ ان کے نزدیک افسانہ کے خاتمہ اور منتہا کو قریب ہونا چاہیے، انجام لوگوں کے خیال کے مطابق ہو لیکن اس میں فرسودگی نہ ہو۔ خاتمہ تصور آفریں اور فکر و تخیل کے لیے مہمیز بنے اور انجام، واقعات کا فطری نتیجہ ہو۔ انجام کے حوالے سے ایک اور خصوصیت یوں بیان کرتے ہیں:

’’افسانے کا خاتمہ کبھی بیانی نہیں ہونا چاہیے۔ اگر افسانے میں کوئی ایسی بات رہ گئی ہے جسے بغیر خاتمے میں بیان کیے ہوئے پلاٹ کی رفتار اور ترتیب مکمل نہیں ہوتی تو مصنف ایک تیسرے آدمی کی طرح ایک ایسے شخص کی طرح جو واقعات کو گزرتے ہوئے دیکھ رہا تھا، اُسے اپنے لفظوں میں بیان کر دے۔ خاتمے کے وقت اکثر اپنے خیالات و جذبات یا دوسروں کی کیفیات و اضطرابات کی مصوری کرنا ضروری ہوتی ہے۔‘‘  [۴]

 سید وقار عظیم افسانے کے انجام کے مختصر اور سادہ ہونے کے قائل ہیںسید وقار عظیم پلاٹ کی افسانے میں اہمیت کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’زیادہ افسانہ نگاروں کو اب بھی پلاٹ کے روایتی طریقے کو اپنانا پڑے گا اور اُسے اپنانے کے لیے افسانے اور پلاٹ کے صحیح تعلق اور رشتے کو توڑنا ناممکن سی بات ہے۔ اس دائمی رشتے میں افسانہ لکھنے والوں کے لیے آسانی ہے اور پڑھنے والوں کے لیے دل چسپی۔ یہ بات ماننے میں کسی کو بھی پس و پیش نہیں ہو گا کہ افسانے میں دل چسپی نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ پھر وہ چیز جس پر اس کی دل چسپی کا دارومدار ہے کیسے ختم ہو سکتی ہے؟ جب تک افسانہ ہے پلاٹ ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔‘‘  [۵]

مذکورہ بیان، افسانے میں پلاٹ کے غائب ہونے یا کرنے کے داعی ناقدین کے لیے ایک سوالیہ نشان بن کر اُبھرتا ہے۔ پلاٹ، افسانے کا بنیادی رکن ہے اور پلاٹ کی مبادیات کے تمام اُمور کی مکمل تفصیل، اس کے اہم جزو کی حیثیت کا تعین کرتی ہے۔

 کردار نگاری میں کرداروں کو نام دینا، کرداروں کی ظاہری بناوٹ اور ملبوسات کا تعین، کردار کی گفتگو، کردار نگاری کے طریقے، کردار کی اقسام، کردار نگاری کی خصوصیات اور شرائط، کرداروں کا نفسیاتی مطالعہ اور جدید افسانے میں کردار کا عمل دخل ایسے ذیلی مباحث کو موضوع بنایا گیا ہے۔ سید وقار عظیم، کرداروں کے ناموں میں تصور زائی کی خصوصیت ڈھونڈتے ہیں اور جس قسم کے واقعات، جذبات اور افعال سے کرداروں کو مخصوص کیا جائے اس کا اندازہ ان کے ناموں سے بھی ہونا چاہیے۔ انھی جذبات و افعال کے حوالے سے انھوں نے کچھناموں کی مثالیں بھی دی ہیں مثلاً اُن کے نزدیک ثریا، ریحانہ، بلقیس، نجمہ، شاہدہ، شانتی، محبت اور رومان والے افسانوں کے لیے موزوں ہے اور شاہد، نسیم، کنور، سنہا عشقیہ افسانے کے ہیرو ہو سکتے ہیں۔ سید وقار عظیم کردار کی شکل و صورت اور لباس اور پہناوے سے متعلق کم سے کم تفصیلات دکھانے کے قائل ہیں۔سید وقار عظیم کردار کی گفتگو کو اس کی فطرت کے مطابق دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں افسانہ نگار کی ناکامی کی وجہ، کرداروں کی گفتگو کو زیادہ فصیح بنانے کی خواہش ہے اور کردار کی گفتگو، اس گروہ یا جماعت کے مطابق ہونی چاہیے جس گروہ یا جماعت سے کردار کا تعلق ہے۔ وہ کرداروں کی گفتگو میں انفرادی شان پر زور دیتے ہیں۔سید وقار عظیم کردار میں ارتقا کے بارے میں کہتے ہیں کہ کردار کا ارتقا اس وقت تک نہیں دکھایا جا سکتا جب تک افسانے میں ایک ہی قسم کے مختلف واقعات کے درمیان کردار زندگی بسر کرے اور ان کا اثر لیتے نہ دکھایا جائے۔ سید وقار عظیم کردار نگاری کے تین طریقے پیش کرتے ہیں۔ پہلا طریقہ کہانی کے واقعات کی رفتار کے ساتھ ساتھ کردار کی سیرت اور شخصیت کا نقشہ، دوسرا طریقہ ابتدائی حصے میں ہی کردار کا تعارف، تیسرا طریقہ ان دو طریقوں کا امتزاج ہے یعنی کردار کے متعلق چند باتیں شروع میں بتا دی جائیں اور پھر واقعات شروع ہوں اور واقعات کے ساتھ ہی کرداروں کی شخصیت ابھرتی چلی جائے۔مکالمے کے ذیلی موضوعات میں مکالمے میں حقیقت نگاری، خصوصیات، دل چسپی اور اس کی اہمیت شامل ہیں۔ حقیقت نگاری ایک ایسی حقیقت ہے جس کا مطالبہ پلاٹ اور کردار میں بھی کیا گیا ہے اور یہی شرط مکالمے پر بھی عائد کی گئی ہے۔ سید وقار عظیم کے نزدیک مکالمہ فطری نہیں ہو گا تو اس میں انفرادی شان پیدا نہیں ہو گی اور مکالمے میں حقیقت نگاری کی ضرورت اس لیے ہے کہ اس کے ذریعے کرداروں کی ذہنی کیفیات، جذبات کی بلندی و پستی اور ان کے ہیجانات و اضطرابات کا پتہ چلتا ہے۔سید وقار عظیم مکالمے میں انفرادیت، حقیقت، اصلیت، اختصار، دل کشی، شاعرانہ لطافت، نفسیات ایسی خصوصیات کے قائل ہیں۔

سید وقار عظیم نے ’’فنِ افسانہ نگاری‘‘ میں بیانیہ کے مختلف طریقوں واحد غائب، واحد متکلم کی خصوصیات کے ذیل میں اسلوب کے اجزا کو بیان کیا ہے۔ سید وقار عظیم قاری کو جذباتی شدت سے کہانی کے ماحول میں شریک کرنے کو منظرنگاری کا اہم مقصد قرار دیتے ہیں اور قاری کے لیے اس نئے ماحول کی تعمیر کو وہ فضا کی ترتیب کا نام دیتے ہیں اور تصویرکشی سے فضا قائم کرنے کو بھی اہمیت دیتے ہیں لیکن افسانے کے لیے منظرنگاری کو ہی اوّل مقصد بنا لینے کے قائل نہیں۔منظرنگاری کے لوازم کی وضاحت کے حوالے سے سید وقار عظیم نے چند اہم امور پر روشنی ڈالی ہے۔ اوّل یہ کہ افسانہ نگار اپنے مشاہدے اور مطالعے سے موضوع اور اس سے متعلقہ ماحول کی زیادہ سے زیادہ تفصیلات فراہم کرے۔ دوم منظرکشی، واقعات، کردارنگاری، مصنف اور قاری کے باہمی اشتراک کے نقطۂ نظر سے مطابقت رکھتی ہو۔ سوم تفصیلات اور جزئیات کے انتخاب میں اُن کے صحیح علم، اخذ و ترک کے فنی عمل اور متوازن، ترتیب کو ملحوظ رکھا گیا ہو۔ سید وقار عظیم اشیا اور مناظر کو کبھی دُور سے اور کبھی نزدیک سے دکھانے کو منظرنگاری کے طریقے گردانتے ہیں۔سید وقار عظیم نے افسانوں میں مقامی رنگ کے حوالے سے بعض ناقدین کے اس اعتراض کہ یہ صرف محدود جماعت کی دل چسپی کا باعث ہی ہوتے ہیں، کو درست گردانتے ہیں لیکن اُن کے نزدیک اس کا اطلاق صرف ایسے افسانوں پر ہوتا ہے جن کے مصنفین نے اپنے نقطۂ نظر کو محدود کیا ہے یا مشاہدے سے کام نہیں لیا اور وہ مقامی رنگ کو افسانے کے بلند مقاصد کا پس منظر بنانے کے لیے اہم خصوصیت قرار دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ وہ مختلف قسم کے افسانوں میں مقامی مناظرِ فطرت کو بیانیہ طرز اور ترتیب کے بدلائو کے ساتھ پیش کرنے پر زور دیتے ہیں۔ سید وقار عظیم کی کتاب ’’فنِ افسانہ نگاری‘‘ کے پانچویں باب کا عنوان ’’افسانے کی سُرخی‘‘ ہے۔ اس باب میں وہ افسانے کو سُرخی یا عنوان دینے کے چند اصولی طریقے اور اس کی خصوصیات کو سامنے لائے ہیں۔ اُن کے نزدیک افسانے کی سُرخی ایسی ہو جو افسانے کی روح اور اس کے مرکزی خیال پر نظر ڈال سکے اور مجموعی اثر کی غماز بھی ہو۔ اس کے علاوہ وہ افسانے کے عنوان کی دو خصوصیات کو بھی بیان کرتے ہیں۔ وہ افسانے کے عنوان میں تصورزائی اور قاری کے لیے فکرانگیزی ایسی خصوصیات کے حامل ہونے پر زور دیتے ہیں اور اُن کے نزدیک افسانہ ختم کر لینے کے بعد سرخی دی جانی چاہیے نہ کہ شروع میں ہی سرخی جما دی جائے۔ سرخی یا عنوان کا بیانی، فلسفیانہ، طویل اورغیرشاعرانہ ہونا بھی غیرمستحسن ہے۔ وہ افسانے کے عنوان کے پرکشش، مختصر، موقع و محل کے مطابق، ادبیت، تازگی اور تصور آفرینی کا نمونہ ہونے کے بھی قائل ہیں۔ اُنھوں نے اُردو افسانے کے عنوانات کے تعین کے مختلف طریقوں پر روشنی ڈالی ہے مثلاً بعض اوقات مخصوص کردار کا نام، عنوان بنتا ہے تو کبھی کردار کے ساتھ اس کی غالب صفت بھی لگا دی جاتی ہے۔ بعض سرخیاں افسانے کے مخصوص واقعے کی شاہد ہوتی ہیں۔ بعض اوقات سرخی کی بنیاد، افسانے کے انجام پر رکھی جاتی ہے۔ سید وقار عظیم کے یہ مذکورہ خیالات ہی ایسی بنیاد ہیں، جن پر مابعد ناقدین نے اپنے خیالات کو پیش کیا ہے۔

تکنیک و ہئیت کے حوالے سے سید وقار عظیم نے بھی جزواً نظری بحث کی ہے۔ سید وقار عظیم صیغہ واحد غائب کے حوالے سے بیان کرتے ہیںکہ اس سے مراد وہ راوی ہے جو افسانہ نگار کہانی کے کرداروں میں سے کسی ایک کو چُن لیتا ہے لیکن اس میں ایک احتیاط ضرور ہوتی ہے کہ جس کردار کا بطور واحد غائب راوی انتخاب کیا جائے اُس کے منہ سے نکلنے والی باتیں، اُس کی سیرت کے مطابق ہوں۔ افسانے میں واحد غائب راوی کے استعمال سے جو فوائد حاصل ہوتے ہیں اُس کے حوالے سے سید وقار عظیم بیان کرتے ہیں کہ اس کی موجودگی، وقت کو بچاتی ہے اور اختصار میں مدد دیتی ہے اور اس طرح غیرضروری مناظر کی تفصیل سے بچا جا سکتا ہے۔ یہ اصلاحی مقصد کو نمایاں کرنے کے لیے بھی سودمند طریقہ ہے اور کرداری افسانوں کے لیے بھی مناسب انداز ہے۔ افسانے میں دل چسپی اور خاص نفسیاتی اثر کا حامل طریقہ بھی ہے۔ افسانے کے بیان کا دوسرا طریقہ واحد متکلم کا استعمال ہے۔ سید وقار عظیم نے ’’میں‘‘ کے استعمال کے پانچ طریقوں پر روشنی ڈالی ہے۔ پہلا طریقہ کہانی کا خاص کردار اپنی زبان سے بیان کرتا ہے۔ دوسرا طریقہ افسانے کا کوئی فروعی کردار، اصل کردار کی کہانی اپنی زبان سے بیان کرے۔ تیسرا طریقہ فروعی کردار، دشمن یا حریف کے حالات اپنی زبان سے بیان کرتا ہے۔ چوتھا طریقہمصنف خود کوئی واقعہ بیان کرتا ہے۔ یہ طریقہ افسانے میں گہرائی اور تاثر پیدا کرتا ہے۔ یہ طریقہ پسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔ پانچویں طریقہ میں خاص کردار اپنی کہانی اپنی زبانی سننے والوں کو سناتے ہیں۔ اُن کے نزدیک اگر اس طریقہ میں طرزِ تخاطب میں بے تکلفی نہ پیدا ہو جائے تو اس میں بھی دل چسپی پیدا کرنا نسبتاً زیادہ آسان ہے۔ وہ واحد متکلم صیغے کی خصوصیات کچھ یوں بیان کرتے ہیں:

’’میں‘‘ کے استعمال سے کہانی میں بالکل شروع ہی ایک انفرادی لہجہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اس کی ہر بات میں ایک خاص زاویۂ نظر کی جھلک دکھائی دیتی ہے اور باتوں کے انداز میں ہر جگہ یقین اور سچائی نظر آتی ہے۔ مصنف کو بالکل شروع سے افسانے کی فنی ترتیب میں ایک طرح کا اطمینان اور سکون حاصل ہو جاتا ہے۔ کہانی جیسے خود بخود اپنی ترتیب پیدا کرتی چلی جاتی ہے۔‘‘  [۶]

سید وقار عظیم خطوط کی تکنیک کو افسانے میں ایک جدت کہتے ہیں۔ وہ یک طرفہ اور دو طرفہ خطوط سے افسانے میں عمل کو واضح کرتے ہیں۔ یک طرفہ خطوط سے دونوں طرف کی باتوں کا علم ہو جاتا ہے۔ وہ ڈائری کے طریقے کو خطوں سے بہتر سمجھتے ہیں اور ڈائری میں مکالموں اور مزاحیہ باتوں سے دل چسپی پیدا کی جا سکتی ہے۔ خاص کردار کی سیرت، جذباتی اور شعوری کیفیتوں کا واضح اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔شعور کی رو کی تکنیک کی بنیادی خصوصیت اختصار ہے جو کم سے کم وقت میں داخلی زندگی اور شعور و لاشعور کی مکمل تصویروں کو سامنے لے آتا ہے۔ سید وقار عظیم اس تکنیک کے دو فوائد یوں بیان کرتے ہیں:

’’اوّل تو موجودہ تجربہ یا واقعہ کی صحیح حیثیت کا اندازہ ہو جاتا ہے اور دوسرے یہ کہ اس ایک تجربہ یا واقعہ کے سلسلے میں کردار کی پچھلی زندگی کے بہت سے واقعات ہماری نظر کے سامنے آ جاتے ہیں اور ایک محدود وقت میں بھی اس کردار کی سیرت کا مکمل نقشہ پیشِ نظر ہو جاتا ہے۔ ہم اس کردار کی عملی اور ذہنی و نفسیاتی زندگی کے بہت سے اہم اور بامعنی رازوں سے واقف ہو جاتے ہیں اور ذہن اور شعور کی ہر آن بدلتی ہوئی کیفیتوں کی مدد سے کردار کی گزشتہ زندگی کو ایک بہت ہی محدود وقت میں پڑھنے والے کے سامنے لایا جا سکتا ہے۔‘‘  [۷]

 اُردو افسانے پر جس رجحان نے سب سے پہلے اثرات مرتب کیے، وہ رومانیت کا رجحان ہے جسے ناقدین نے مغرب کی رومانوی تحریک سے قدرے الگ اقدار کا حامل بھی قرار دیا ہے۔ سید وقار عظیم نے اپنی کتاب ’’فنِ افسانہ نگاری‘‘ کے نویں باب کا عنوان ’’افسانہ اور رومان‘‘ رکھا ہے۔ اس باب میں انھوں نے رومانویت کی اصطلاح کی وضاحت، والٹر پیٹر اور ہیگل کے تصورات، افسانے میں رومانیت کے بیانیے کے طریقہ کار اور ’’محبت‘‘ کے موضوع کے حوالے سے بحث کی ہے۔ اُنھوں نے انگلستان، جرمنی اور فرانس میں اس تحریک کے الگ الگ مباحث کا تذکرہ کیا ہے۔ اُن کے نزدیک انگلستان میں یہ تحریک ’’فطرت کی طرف لوٹو، سادہ فطری جذبات کی طرف رُخ کرو، آبائو اجداد کی تاریخ اور تہذیب، رسوم اور اُن کے طور طریقے اپنائو‘‘ ایسے نعروں کا مرکز رہی۔ جرمنی میں محسوسات کی دنیا میں بے خوف جذب ہونے کی خواہش اور طلسم وا فسوں کے اَن دیکھے جہانوں میں پرواز کرنے کی تمنائوں کے گرد گھومتی رہی اور فرانس میں بیان و اظہار کو کلاسیکی تصنّع سے نجات دلانے اور آزاد کرانے کی تحریک بن کر اُبھری۔ سید وقار عظیم کے اپنے خیال میں رومانیتآرزوئوں اور خواہشوں کے جوش و خروش، جذبات کی سادگی، معصومیت اور طلسم و اسرار کی دنیا اپنانے کا نام ہے اور یہ خاص چیزوں کے مجموعے کی بجائے چیزوں کو خاص نظر سے دیکھنے کا نام ہے۔ اُنھوں نے والٹر پیٹر کی رومانیت کی تین خصوصیات کو بھی بیان کیا ہے جس میں پہلی خصوصیت حیرت و استعجاب اور حسن کا بے پایاں احساس، دوسری ایسے حسن کی جستجو جو اپنی خصوصیات میں غیرمعمولی ہو اور تیسری خصوصیت تخیل کی بلندی جس کے ذریعے خیال کی ایک دل کش دنیا بنے۔ اس کے بعد سید وقار عظیم نے ہیگل کے نزدیک فن کی تین ارتقائی منزلوں کی نشان دہی کی ہے۔ پہلا مرحلہ فن کی مرکزی اور اشاراتی صورت کا ہے۔ اس مرحلے میں مادی عنصر، رومانی عنصر پر غالب ہوتا ہے اور فنِ تعمیر اس کا اعلیٰ نمونہ ہوتا ہے، فنی ارتقا کا دوسرا مرحلہ، کلاسیکی مرحلہ ہے جس میں فن مادی اور روحانی عناصر میں اعتدال پیدا کرتا ہے اور بت تراشی اس مرحلے کی نمائندہ ہے۔ تیسرا مرحلہ وہ ہے جب فن میں روحانی عنصر، مادی عنصر پر غالب آ جاتا ہے اور جمال کی اقدار، جلال کے مظاہر کو گرفت میں لے لیتی ہے اور یہ مرحلہ فن کا رومانی مرحلہ ہوتا ہے۔ موسیقی، مصوری اور شاعری اس کے نمائندہ ٹھہرتے ہیں۔ سید وقار عظیم نے رومان کی خصوصیات کو بھی ایک جگہ بیان کیا ہے اور یہ خصوصیات رومان کے افسانوی ادب میں کردار کی روشنی میں بیان کی گئی ہیں۔ مثلاً ان خصوصیات میں شاعرانہ تخیل و تصور، عوام کی دل چسپی کا سبب، جرأت، مردانگی کے حیرت انگیز قصوں کا بیان، اتفاقات، حادثات جو زندگی کی معنویت کو بے حقیقت ٹھہرائیں، غیرفطری واقعات جو غیرمعمولی ہوں اور جذباتی شدت اور اس کے شدید ردعمل، شامل ہیں۔ اُنھوں نے کہانی میں رومانی فضا پیدا کرنے کے دو طریقے بھی بیان کیے ہیں۔ اوّل طریقہ وقت کا بُعد ہے جس میں ماضی کی یادوں کو حال کی دنیا میں لایا جاتا ہے اور اس طرح وقت کے دھندلکوں میں چھپا حسن حال کی جگمگاتی روشنی میں آتا ہے۔ اس طرح روشنی اور دھندلکوں کے امتزاج سے کہانی رومانی روپ اختیار کر لیتی ہے۔ دوسرا طریقہ مناظر کی اجنبیت کا ہے جس میں ایسے مناظر تخلیق کیے جاتے ہیں جس سے وجد کی کیفیت اور رومانی فضا کی تخلیق کی گئی ہو۔ اس کے بعد اُنھوں نے حقیقت نگاری اور رومانویت کی ہم رشتگی کو بھی واضح کیا ہے۔ اُن کے نزدیک حقیقت کی آخری منزل ’’مثالیت‘‘ ہے اور اس مثالیت کو تصور کا سہارا رومانیت عطا کرتی ہے۔ اس طرح حقیقت اگر ابدی ہے تو حقیقت کو مثالیت کا روپ دینے والی رومانیت بھی ’’ابدی‘‘ ہے اور حقیقت افسانے کا جسم ہے تو رومانیت حقیقت کے بلند ترین تصوریعنی مثالیت کی روح ہے۔ سید وقار عظیم رومان کے ایک اہم اور وسیع مفہوم ’’محبت‘‘ کے حوالے سے بھی بحث کرتے ہیں۔ اُن کے نزدیک محبت کے افسانوں کا سب سے پہلا جزو معصومیت ہے۔ اور اس معصومیت اور فطرت کی تحریکات کے ساتھ حزن و یاس کی کیفیت بھی شامل ہو جاتی ہے، اس کے علاوہ عشقیہ افسانوں کے لیے چند تجاویز بھی پیش کی ہیں جس میں محبت کے مادی تصور کو زیادہ نہ اُبھارا جائے، ہیرو اور ہیروئن تعلیم یافتہ اور روشن خیال ہوں۔ اخلاقی، سماجی اور سیاسی پابندیوں اور محبت میں جنگ دکھائی جائے اور ان سے نفسیاتی عوامل کے تحت نتیجہ اخذ کیا جائے اور افسانے کا انجام زیادہ تر حزنیہ برآمد ہو اور ایسے افسانوں کا آغاز اصل واقعات کے درمیان سے کیا جائے۔ مذکورہ بالا مباحث ، رومانیت کے حوالے سے کیے گئے مباحث میں اوّلیت کا درجہ بھی رکھتے ہیں اور مکمل اور موثر بیانیے کا ثبوت بھی۔ چوں کہ بعد میں لکھنے والوں نے اِس قدر تفصیل اور جامعیت کے ساتھ اِس موضوع پر قلم نہیں اُٹھایا۔

سید وقار عظیم نے جن مغربی ناقدین سے استفادہ کیا ان  میںایچ۔ای۔بیٹس کی کتاب “THE MODERN SHORT STORY” ہنری جیمس کی کتب “THE HOUSE OF FICTION” اور”THE ART OF FICTION” ہاف مین (HOFFMAN)کی کتاب “FUNDAMENTALS OF FICTION WRITING” J.O.BRIENکی کتاب”THE ADVANCE OF SHORT STORY”باری پین کی کتاب “THE SHORT STORY” فرانسس فاسٹر کی کتاب”HOW TO WRITE AND SELL SHORT STORIES”اہم ہیں۔ان کے دیگرماخذات میں BLISS PERRY کی “A STUDY OF PROSE FICTION”، BRANDER MATHEWSکی “THE PHILOSOPHY OF THE SHORT STORY”، EDITH WHARTON کی “THE WRITING OF FICTION”، W.V.O’CONNER کی “FORMS OF MODERN FICTION”، FOSTER HARRIS کی “BASIC FORMULAS OF FICTION” اور A.C.WARD کی کتاب “ASPECTS OF MODERN SHORT

STORY” شامل ہیں۔

مذکرہ بالا تجزیے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ سید وقار عظیم کے ہاں افسانے کے مباحث کے حوالے سے ابتدائی مبسوط کوشش ملتی ہے اور ما بعد ناقدین نے بھی انھیں کے خیا لات کی بنیاد پر اپنے مباحث کو آگے بڑھایا۔

  حوالہ جات

۱۔ سید وقار عظیم، فنِ افسانہ نگاری، اردو مرکز، لاہور، ۱۹۶۱ء، دوسرا ایڈیشن، ص۳۸؍۳۹

 ۲۔ سید وقار عظیم، نیا افسانہ، اردو اکیڈمی سندھ، کراچی، طبع دوم ۱۹۵۷ء، ص۸۲،۸۶

 ۳۔ سید وقار عظیم، فنِ افسانہ نگاری، ص۸۳

 ۴ ۔ایضاً ، ص۱۸۱

۵۔ایضاً، ص۱۲۳،۱۲۴

۶۔ایضاً، ص۳۰۰۔۳۰۱

۷۔سید وقار عظیم، نیا افسانہ، ص۵۰

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.