اقبال شناسی…………… ایک جائزہ

حمیرا جمیل ،ریسرچ اسکالرایم یس اردو جی سی ویمن یونی ورسٹی  ، سیالکوٹ، پاکستان

ڈاکٹر طاہر عباس طیب ، اسسٹنٹ پروفیسراردو جی سی ویمن یونی ورسٹی ، سیالکوٹ، پاکستان

Abstract:

The global convention of Iqbal’s acknowledgment, which has spread in the East and theWest, has entered the 21st century as a dynamic and vibrant movement. A concise overview of the same tradition has been presented in recent years and efforts have been made to understand Iqbal. This article illuminates some aspects of Iqbal’s thinking, encourages others to move forward, understand and explain Iqbal, and presents his outstanding academic stance. Dr. Allama Muhammad Iqbal is a global celebrity. His universal message has been displayed in various languages of the world. Where Urdu is spoken, Iqbal is praised in some way. Iqbal, in the corner of the world, is committed to promoting his ideas according to his own scope. Iqbal scholars have presented confessional writings in research and critical books, research articles, magazines and journals. There are a large number of articles that paid tribute to Allama Muhammad Iqbal, and conveyed Iqbal’s personality, poetry, philosophy and message to the masses through charming prose.

علامہ اقبال برصغیر کےعظیم شاعر ،مفکر اورمصلح ہیں جنہوں نے اپنے عمیق خیالات اور انقلابی افکار کے اظہار کے لیے بیک وقت اردو فارسی اور انگریزی زبان کو وسیلہ ءاظہار بنایا۔ان کی شاعری اردو اور فارسی میں جبکہ خطبات اور مقالات انگریزی میں موجود ہیں۔جبکہ انہوں نے مکاتیب اردو زبان میں لکھے۔ان کا فکر و فلسفہ محض شاعرانہ خیال یا فلسفیانہ تصور نہیں بلکہ ایک واضح حکمت عملی کا درجہ رکھتا ہے۔اقبال مفکر ِ اسلام ،حکیم الامت ،شاعر مشرق ،دانائے راز ،ترجمان ِ خودی اور نجانے کتنے ہی خطابات و القاب کے حق دارہیں ۔ہر فرد اور ہر طبقے کا اپنا اقبال ، وہی اقبال ،جس نے پوری دنیائے ادب اور فکری رویوں کو متاثر کیا ۔وہی اقبال جو دنیا بھر میں اردو بولنے والوں کی نہ صرف پہچان ہے بلکہ فخر و ناز کا باعث بھی ہے ۔اسی نے قوم کو پستیوں سے نکال کر خود شناسی کا پیغام دیا۔ ظاہر ہے کہ جو مسیحا نفس اپنے کلام سے اتنا بڑا کام لینا چاہتا ہو اس کے نزدیک پرانے الفاظ اور معانی اپنی حقیقت کھو بیٹھتے ہیں لہٰذا اس نے نئی تراکیب ایجاد کیں ،نئے الفاظ وضع کیے اور بعض خاک افتادہ الفاظ کو اٹھایا اور ہمدوش ثریا بنا دیا۔ متبذ ل اور ناپسندیدہ معنوں میں استعمال ہونے والے الفاظ نئی معنوی شان و شوکت سے آشنا ہوئے۔اقبال کے فارسی اور اردو کلام میں ہزاروں تازہ بتازہ اور نوبہ نو تراکیب اور الفاظ موجود ہیں ۔وہ چونکہ حقیقی معنوں میں علامہ تھے ۔اس لیے ان کے ذخیرہ الفاظ نے فارسی اور اردو کی علمی و ادبی دنیا کو حیرت زدہ کرکے رکھ دیا۔سلیم احمد کہتے ہیں:

’’اقبال ہمارے ماضی قریب کی عظیم ترین علمی ، فکری اور سیاسی شخصیتوں میں سے ایک ہیں۔۔۔اس کے علاوہ وہ مشرق و مغرب کے فلسفوں سے بھی آگاہ اور عہد حاضر کے علوم مسائل سے باخبر ایک ایسی شخصیت ہیں جن کی نظیر جدید مشرق میں مشکل ہی سے ملتی ہے۔پھروہ ایک ایسے تہذیبی اور سیاسی نظرئیے کے بانی ہیں جس نے ایک ملک کو جنم دیا ہے اور ان کی یہ حیثیت ایسی ہے جو تاریخ عالم میں کسی شاعر یا مفکر کو حاصل نہیں ہوئی ۔“1

دنیائے علم وادب ،فلسفہ و سائنس اور تاریخ و سیاست میں اقبال ایک ایسی منفرد حیثیت حاصل کرچکے ہیں کہ مشرق و مغرب ان کی عظمت کے قائل ہیں۔ڈاکٹر سلیم اختر اقبال کو ”ممدوح عالم “ قرار دیتے ہیں :۔’’آج کی تمام مہذب دنیا اقبال کے نام اور افکار سے واقفیت رکھتی ہے ۔“2

 اقبال اپنے عہد کی مختلف تحریکات اور رجحانات کا نہ صرف گہرا شعور رکھتا تھا بلکہ اس کے صحت مند عناصر کو جذب کر نے کی بھرپور صلاحیت سے بھی بہرور تھا۔ مغرب اور مشرق کے بیشتر ممالک کی زبانوں میں اُن کی شاعری کے تراجم ہو چکے ہیں اور متعدد ممالک کے دانشوروں نے اُن کے افکار و تصورات کی توضیح و تشریح کے لیے مقالات تحریر کیے اور کتابیں طبع کیں۔علامہ اقبال کی صورت میں ہمیں وہ فلسفی شاعر ملتا ہے جسے مسلمانوں نے تو سرآنکھوں پر بٹھایا لیکن تعجب ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام والےمغرب یورپین ممالک اور اس نظام کے مخالف سوشلسٹ ممالک میں بھی علامہ اقبال کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔صرف چند ممالک کے معروف اقبال شناسوں کے ناموں سے پیغامِ اقبال کی عالمگیر مقبولیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ آر اے نکلسن ،ہربرٹ ریڈ، اے جے آربری، ای ایم فاسٹر (برطانیہ)،ایسا ندروبوزانی،جی توچی (اٹلی) اینا میری شمل (جرمنی) ایوا مار یووچ،لوس کلوڈ میتخ(فرانس)،ژاں ماریک (چیکو سلواکیہ)،سخو چوف،ایل آر گورڈن پو لنسکایا، نکولائی گلیبوف، نتا لیا پری گارنیا ،ایم ٹی ستے نیتس (روس) یہ صرف چند نام ہیں ورنہ دنیا کی بیشتر اہم زبانوں میں علامہ کی شاعری کے تراجم ہوئے، افکار و تصورات کی صراحت میں مقالات تحریر کیے گئے اور کتابیں طبع کی گئیں۔

 مسلم ممالک میں ایران، مصر، ترکی، افغانستان ، مراکش، انڈونیشیا اور متعدد دیگر مسلم ممالک کے دانشوروں کی فکر اقبال سے دلچسپی اور اقبال شناسی کے فروغ کی وجہ بنی ۔زبان کا اشتراک ذہنی روابط کا بہت بڑا ذریعہ ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ عالم ہے کہ علامہ اقبال ایران میں اسی طرح مقبول و معروف ہیں جیسے کوئی مقامی شاعر۔اقبال شناسی برصغیر کی حدود عبور کر کے ایک ایسی عالمی روایت کا درجہ اختیار کرچکی ہے جووقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نئی رفعتوں اور نئی وسعتوں کو چھورہی ہے۔ منورمرزا لکھتے ہیں :۔

’’علامہ اقبال کا کلام اور ان کافکر محض براعظم کی وسیع و عریض حدود تک ہی محدود نہ رہا بلکہ وہ سیاسی، جغرافیائی اور نسلی حدود کو عبور کر کے کہیں سے کہیں جاپہنچا۔ آج علامہ اقبال کی حیثیت ایک بین الاقوامی مفکر اور معلم کی ہے اور یہ امر مسلم ملت کے لیے اور پاکستان کے لیے لائق صد فخر ہے۔ “3

 جو لوگ اقبالیات یا اقبال شناسی کی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں ان کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ان دو اصطلاحات کے اندر فرق موجود ہے۔”اقبالیات“ ایک شعبہ ءعلم ہے ، جس میں اول اقبال کی شعری و فکری تصانیف اور مقالات و مکاتیب و بیانات شامل ہیں اور دوم ایسی تمام تحریرات و تحقیقات جو حیات و تصانیف اقبال کے تشریحی و توضیحی اور تنقیدی مطالعات پر مبنی ہیں۔جبکہ اقبال شناسی میں موجود لفظ ’’شناس “ وضاحت کا متقاضی ہے مولوی سید احمد دہلوی نے ’’فرہنگ آصفیہ “میں لکھا ہے :۔

 ’’شناس “(ف) مرکبات میں) جیسے مردم شناس،قدر شناس،حق شناس وغیرہ یعنی آدمی کو پہچاننے۔ قدر جاننے اور حق کی تمیزکرنے والا ہے’’۔4

اسی طرح وارث سر ہندی ایم اے نے ”علمی اُردو لغت “ (جامع) میں یوں لکھا ہے :

“شناس’’ [ف ۔صف] فارسی مصدر ”شناختن“کا امرجو اسم کے بعد آکر اسے اسم فاعل بناتاہے اورپہچاننے والا کے معنی دیتا ہے مثلا ً “قدر شناس۔’’5

اقبال شناسی وہ علمی روایت ہے جس کی بنیاد حیات و افکار اقبال کی تفہیم کے سلسلہ میں کی جانے والی اب تک کی کاوشوں کو قرار دیا جاتا ہے۔ اور اقبال شناسی کی روایت سے وابستہ اہل علم کو اقبال شناس ،اقبال سکالر یا ماہر اقبال کہا جاتا ہے۔قاضی مرحوم ایسے اصحاب کے بارے میں رقم طرازہیں:۔

“اقبالین’’ کی اصطلاح کو موزوں سمجھتے ہیں جنہوں نے اقبالیات کو اپنا خاص موضوع بنایا ہے اور ان پر مستقل کتابیں اور مضامین لکھے ہیں۔ وہ ان کے لیے اقبال شناس کی اصطلاح بھی استعمال کرتے ہیں “6

پاکستان میں اقبال شناسی کے فروغ میں مختلف درسگاہوں کے اساتذہ کا کردار نہایت اہم رہا ہے جنہوں نے کلام و افکار اقبال کے ساتھ اپنی دلچسپی اور وابستگی کو اپنے عزیز طلبہ کے دلوں میں جا گزیں کیا اور اس سلسلے کو آگے بڑھانے کا ذریعہ بنے۔پروفیسر عابد علی عابد، صوفی تبسم، ڈاکٹر سید عبداللہ،پروفیسر سید وقار عظیم،ڈاکٹر عبادت بریلوی ،ڈاکٹر افتخار صدیقی،پر وفیسر عبد الشکور احسن ، ڈاکٹر وحید قریشی ،منور مرزا ، ڈاکٹر غلام مصطفی خان ، ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار ،ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، ڈاکٹر سلیم اختر، ڈاکٹر تبسم کاشمیری ،ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ڈاکٹر سعادت سعید، ڈاکٹر نعیم احمد ،ڈاکٹر تحسین فراقی اور ڈاکٹر آصف اعوان کے اسمائے گرامی اس ضمن میں چند مثالوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایران کے ڈاکٹر احمد علی رجائی کےمطابق۔”اقبال ایک نو دریافت براعظم کی مانند ہیں جس میں کتنی ہی دلآویز اور قابل غورچیزیں ہنوذ بحث طلب ہیں۔’’ 7

ایک عالم کے دانشور اس نو دریافت براعظم کی کشش اور دلآویزی کے حسن کے کھوج میں نظر آتے ہیں۔عہد حاضر میں ہر جگہ اقبال شناس ملتے ہیں جنہوں نے اقبال شناسی کے مفہوم کوبہتر انداز سے اپنے نقطہ ءنظر کے مطابق قارئین کے سامنے سادہ اور عام فہم زبان میں پیش کیا۔تاکہ نسل ِ نو پیغام ِ اقبال سے استفادہ کرسکے ۔قدرت نے اقبال کو نو ر ِ معرفت ،بصیرت ،شاعرانہ فطرت اور درد دل عطا کرنے میں کھول کر فیاضی کی تھی جس کی مثالیں تاریخ عالم میں بہت کم نظر آتی ہیں۔اقبال علم ،آزادی اور اجتہاد کا قائل تھا ۔

 اقبال نے نہ صرف مسلمانوں بلکہ پورے بنی نوع انسان کو اپنے حیات بخش پیغام سے نوازا۔اُن کے احساس کمتری کو دور کرکے اُن میں خودی اور خودداری کا جذبہ بیدار کیا۔عمل سے غافل قوم کو سعی پیہم کا درس دیا۔علامہ کی ولو لہ انگیز شاعری نے مسلمانان برصغیر کو حریت فکر سے آشنا کیا۔اُن کے انقلابی فکر و فلسفہ سے عالم انسانیت کو بالعموم اور عالم اسلام کو بالخصوص ایک نیا جذبہ اور ولولہ ملا جس کی ضیا ءپاشیوں سے عصر حاضر میں بھی تمام انسانیت بلا لحاظ مذہب و ملت روشنی حاصل کرتی جارہی ہے۔ سید ابو الحسن علی ندوی کہتے ہیں :“اقبال حکمت و فلسفہ اور دوسرے علوم نظری میں بھی اپنی ایک مخصوص رائے رکھتے ہیں ۔’’8

 اقبال ؒ مسلمانان برصغیر کے ایک عظیم محسن ہیں ،انہوں نے مسلمانوں کو غیر اسلامی نظریات سے مرعوب نہ ہونے اور اپنے دین ، ثقافت اور اقدار سے گہری وابستگی کے ذریعے نشاۃ الثانیہ کی راہ دکھائی۔اقبال کی حیات ہی میں ان کے خیالات کو عالمی سطح پذیرائی حاصل ہوئی۔ان کے پیش کردہ تصور کی بنیاد پر دنیا میں ایک نظریاتی مملکت کا قیام عمل میں آیا۔مصباح الحق صدیقی رقم طراز ہیں:

“اقبال نے پوری امت ِ مسلمہ کے مسائل پر قلم اٹھایا ہے ۔وہ پوری دنیا کے اتحاد کے علمبردار تھے۔اس اتحاد کے لیے وہ کسی سیاسی دباؤ کے قائل نہیں تھے۔وہ یہ یگانگت صحیح قسم کے جذبہ اخوت اسلامی کے ساتھ پیدا کرنا چاہتے تھے۔ان کے اس اتحادکی بنیاد اسلام کے نظریہ حریت فکر و اظہار رائے اور مساوات ہے۔’’9

علامہ کے افکار آفاقی قدروں کے حامل ہیں۔ اقبال نے فلسفے کو شعر کی رعنائی میں ڈھالا اور علم و عمل اور حقائق کے بیان کو نغمہ و آہنگ کا پیکر عطا کیا۔وہ ایسے شاعر اور مفکر ہیں کہ جن کی شاعری اور افکار محض اپنے عہد تک ہی محدود نہ تھے۔اُن کی شاعری راہ عمل کا تعین اور حرکت کا پیغام دیتی ہے ۔انہوں نے اپنی شاعری میں ایسی صداقتوں کو بیان کیا جن کی اہمیت ہر دور میں برقرار رہتی ہے اور ہر دور میں برقرار رہے گی۔ڈاکٹر شاہد کامران نے شریعت اسلامیہ کی روشنی میں فکر اقبال سے اجتہاد کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔بقول شاہد اقبال کامران:

’’اقبال نے پوری توانائی کے ساتھ انفرادی اجتہاد کے بجائے اجتماعی اجتہادکی ضرورت پر زور دیا ہے۔۔۔۔۔ ۔اقبال کا فلسفہ تو یہ ہے کہ اجتماعی اجتہاد کا حق ایک منتخب شدہ مجلس قانون سازکے سپرد کیا جانا چاہیے۔ایسی مجلس قانون ساز قرآن و سنت کی روشنی میں ،اور جدید تقاضوں کے حوالے سے جو فیصلے کرے گی ، وہ اجتماعی اجتہاد کہلائیں گے۔“10

اہل ِ علم و دانش کی جانب سے اقبالؒ کی شاعری اور فلسفے کی طرف جس توجہ اور دلچسپی کا اظہار ہوا۔اس کا سلسلہ موجود ہ عہد میں بھی جاری ہے۔اس کا اظہار شاعرِ مشرق کی شاعری اور فلسفے کے بارے میں شائع ہونے والے مقالات اور کتابوں کی صورت میں ہوتا رہتا ہے۔’’تاریخ ادب اُردو میں ڈاکٹر رام بابو سکسینہ لکھتے ہیں۔’’وہ نوجوانان ہند کے بہترین شاعرہیں کیونکہ انہی کے جذبات واحساسات کو وہ عمدہ طریقے سے ادا کرتے ہیں۔“11

علامہ کی حیات ،نظریات اور خدمات پر دنیا کی اہم زبانوں میں جو کام ہوا ہے وہ قابل تحسین ہے۔امریکہ ،یورپ اور روس میں کلام اقبال کے تراجم ہوچکے ہیں اس طرح دنیا کی تمام بڑی بڑی زبانوں جیسے انگریزی،جرمنی ،فرانسیسی ،اطالوی ،روسی ،چینی ،جاپانی ، ترکی اور فارسی وغیرہ میں اقبال پر کتابیں اور مقالات قلمبند کیے جاچکے ہیں۔اقبال نے اگرچہ خطاب مسلمانوں سے کیا لیکن ان کا پیغام جغرافیائی حدود اور مذہبی عقائد کی قیود سے آزاد ہے۔ان کے افکار میں ایسی عالمگیر خصوصیات ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر اقوام کے افراد اور غیر مسلم بھی ان سے استفادہ کرسکتے ہیں۔مراکش کے پروفیسر ایس۔ آئی۔فہد رقم طراز ہیں:

’’اقبال ایک ہمہ گیر شخصیت ہیں۔آپ کی ہمدردیاں اتنی وسیع ہیں کہ ان میں تمام دنیا کے انسان بلا امتیاز نسل و ملک سما جاتے ہیں۔آپ عظمت،انسانی کے علمبردار ہیں۔اسی لیے اقبال کو مشرق و مغرب میں یکساں عزت حاصل ہے۔“12

اقبال نے فلسفہ ء مغرب کا گہرا مطالعہ کیا ہے لیکن وہ ایک مسلمان کی حیثیت سے سوچتا ہے اور محسوس کرتا ہے ۔اسی وجہ سے وہ بے حد مقبول ہے۔وہ مذہب کے بارے میں بہت پرجوش ہے ۔وہ ایک حرم (مکہ) کی تعمیر میں مصروف ہے۔اس نئی بستی سے مراد ایک عالمگیر مذہبی مثالی ریاست ہے جس میں دنیا بھر کےمسلمان نسل و وطن کی قید سے بےنیاز ہو کر ایک ہوجائیں ۔وہ استعماریت اور وطنیت کا مخالف ہے ۔بقول آر ۔اے ۔نکلسن اقبال :

’’جہاں منطق ناکام ہوتی ہے وہاں اس کی شاعری ذہن کو جلا بخشتی اور قائل کرتی ہے۔۔۔۔۔اقبال ایک پیغمبر کے روپ میں آتا ہے اور اپنے زمانے کے ساتھ ساتھ آنے والی نسلوں سے بھی مخاطب ہوتا ہے۔ من نوائے شاعر فردا ستم“ 13

علامہ محمد اقبال کی سوچ اور فکر کا مرکز و محور قرآن تھا اور صاحب ِ قرآن تھے۔وہ ایسے تصوف کے قائل تھے جو مردہ جسموں میں نئی روح پھونک دے۔اقبال کے فلسفے کی بنیادقرآن مجید کی تعلیمات پر استوار ہے۔وہ متعصب مسلمان نہ تھے انہیں جہاں سے بھی روشنی ملی انہوں نے اسے حاصل کرنے میں تامل نہ کیا۔وہ بیک وقت مسلمان صوفیانہ،مغربی فلاسفروں اور ہندو دانشوروں سے متاثر تھے ،جس کے نتیجے میں ان کا کلام قلب روشن کا آئینہ بن گیا۔ایسا آئینہ کہ جس میں غیر مسلم اقوام بھی اپنے خدوخال کی شناخت کرسکتی ہیں۔ ای ۔ایم فاسٹر لکھتے ہیں:’’اقبال کٹر مسلمان تو تھا مگر وہ کہنہ روایات کا پرستار نہ تھا۔۔۔۔۔ اس کے خیالات خواہ کیسے ہی کیوں نہ ہوں مگر وہ انتہا پسند اور متعصب نہ تھا۔“14

اقبا ل نے تمام عمر انسانی عظمت کے گیت گائے ،یہ صرف جذباتی سطح پر ہی نہیں تھا بلکہ انہوں نے ان عوامل و محرکات تک پہنچنے کی کوشش کی جو انسان کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑتے ہیں۔اقبال ملک کے معاشی وسائل اور عوام کی اقتصادی صورت حال کی اہمیت سے بھی آگاہ تھے۔چنانچہ انہوں نے اپنی اولین تالیف ”علم الاقتصاد “میں ان اقتصادی امور کی نشاندہی کی جو اقوام اور افراد کو معاشی بدحالی کی دلال میں پھنسا دیتے ہیں۔اس کے بعد انہوں نے ان مسائل کا فکری سطح پر مطالعہ کر کے جو نتائج اخذ کیے وہ عالمگیر اہمیت کے حامل ثابت ہوئے ۔انہوں نے اپنے افکار کی ہمہ گیریت کی بناءپر عالمگیر مقبولیت حاصل کی۔ڈاکٹر یوسف حسین خان کہتے ہیں کہ ’’اقبال کو چونکہ اپنا پیغام عام لوگوںکو پہنچانا تھا اس لیے اس کے بیان میں وضاحت اور پھیلا وہے۔اقبال کی نوائے گرم کی بلند آہنگی اس کی مقصدیت کی اندرونی لہر سے ہم آہنگ ہے۔“15

اسی طرح لوس کلوڈ اپنے مضمون ”IQBAL:AGREAT HUMANIST“میں لکھتی ہیں کہ:

’’Muhammad iqbal is one of the greatest Figures in the literary history of the east. He come at a difficult moment to give courage and hope.”16

اقبال ایک ہمہ گیر شخصیت جن کی ہمدردیاں اتنی وسیع ہیں کہ ان میں تمام دنیا کے انسان بلا امتیاز نسل و ملک سماجاتے ہیں۔آپ عظمتِ انسانی کے علمبردار ہیں اس لیے اقبال کو مشرق و مغرب میں یکساں عزت حاصل ہے۔ برصغیر پاک و ہند کے علاوہ مغرب کے کئی ممالک میں اقبال شناسوں نے اقبال پر کئی حوالوں اور زوایوں سے کام کیا ہے۔برصغیر پاک و ہند میں مولوی احمد دین سے لے کر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اور برصغیر پاک و ہند سے باہر مغرب میں نکلسن سے لے کر ڈاکٹر این میری شمل تک اقبال شناسی کی روایت پھیلی نظر آتی ہے۔صرف مرد حضرات کا ہی اقبال شناسی پر کام موجود نہیں بلکہ خواتین کا بھی اقبال پر کیا گیا کام قابلِ تعریف ہے۔

مختلف شہروں میں اقبالیاتی تحقیق پر مشتمل کتب کی اشاعت، اقبال شناسی کا ایک شاخسانہ ہے۔ اقبال اور لاہور ،اقبال اورگجرات، اقبال اور لیہ، اقبال اور بھوپال ، اقبال اور کشمیر ،اقبال اور بلوچستان ،اقبال اور افغانستان ،اقبال اور سرگودھا ،اقبال اور سیالکوٹ ،اقبال اور ڈیرہ غازی خان، اقبال اور ہند ،اسی طر ح کی کئی کتب مختلف شہروں کے اقبالیاتی کام کو متعارف کروا رہی ہیں۔پاکستان میں اقبال شناسوں کی ایک بڑی جماعت کام کررہی ہے۔عصر ِ حاضر میں لا تعداد احباب فکر اقبال کی ترویج و تفہیم کے لیے کام کررہے ہیں ۔ بقول ہارون الرشید تبسم :

’’ڈاکٹر علامہ محمد اقبال صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں سوچتے تھے بلکہ ان کی نظر عالمی افق پر رہتی ہےیہی وجہ ہے کہ انہیں ہر دور اور ہرملک میں سراہا گیا۔“17

دنیا کے بڑے بڑے فلسفی اقبال کی عظمت اور اہمیت کا اعتراف کرتے ہیں ۔مختلف ممالک میں برپا ہونے والی تجدید و احیائے دین کی تحاریک کے پس منظر میں اقبال کے افکار کی علمداری دکھائی دیتی ہے۔ اقبال کا فلسفہ جو محض ایک لفظ پر مشتمل ہے پوری کائنات کو اپنے دائرہ کار میں سمیٹے ہوئے ہے۔ اس ایک لفظ یعنی ’’خودی “کی لاکھوں اوراق پر مشتمل تشریحات ہو چکی ہیں اور مزید سے مزید وضاحتوں کا سلسلہ جاری ہے۔اسی ایک لفظی فلسفہ نے اقبال کو امام ِ فلسفہ کی مسند پر بٹھایا ۔اقبال کے افکار کی روشنی سے اندھیروں کو دورکرنے کا اہتمام کیا گیا ۔ اقبال کے انقلاب آفریں کی بدولت زمانہ ان کی جانب جلد متوجہ ہوا۔ زاہد حسین انجم کے مطابق:

’’اقبال کون ہیں ؟ اقبال شاعرامروز،نابغہ روزگار، عالمی مفکرو مدبر، حکیم ملت، ترجمان حقیقت،دانائے راز،گنبد خضرا کے شیدائی،دینی علوم کے بحر بیکراں،تصور پاکستان کےخالق، مسلمانان برصغیر پاک و ہند کے غم خوار،رفعت خیال و قوت،بصیرت اور اعلیق ذوق عمل کے بہترین عکاس ،قائد کے مدبر دوست۔۔۔۔اقبال کی شخصیت کی شناخت صرف یہیں ختم نہیں ہوجاتی بلکہ اس کے کہیں بڑھ کر اقبال خودی کے پیامبر ،محبت و یگانگت کے حسین پیکر ،عقل و شعور کے مینارہ نور، ایک شفیق باپ،ایک باوفا شوہر ،المختصر یہ کہ وہ سیرت و کردار کے بحر بے کراں ہیں۔“18

پڑوسی ملک ایران میں تو اقبال شناسی کی قابل تقلید روایت ہے۔ ان میں سید محمد محیط طباطبائی سعید غنی ،ڈاکٹر غلام حسین یوسفی،ڈاکٹر جلال متینی، ڈاکٹرفریدوںبدرہ ای،صادق سرمد، ڈاکٹررضا زادہ شفیق ،ڈاکٹر احمد علی رجائی ،علی اکبر دہخدا،ادیب برومند،احمد گلچیں معانی، علی اصغر حکمت،کاظم رجوی ایزد، منو چہر طالقانی،قاسم رسا، امیر شفائی نوا، علی خدائی ،ڈاکٹر علی نہاد تارلان ،آیت اللہ سید علی خامنہ ای،حسین علی سلطان زادہ پسیان اور دیگر دانش ور شامل ہیں۔

بھارت میں اقبال شناسی کے حوالے سے جگن ناتھ آزاد، اقبال سنگھ ،ڈاکٹر سجد انند سنہا، رام بابو سکسینہ،ڈاکٹر ملک راج آنند، مالک رام، نربھے رام جوہر،سر جو گندر سنگھ ،ڈاکٹر گیان چند ،سردار گوریجن سنگھ،ہنس راج رتن،مہا راجہ سر کشن پرشاد،پر وفیسر م۔ ت استیتاس ،ڈاکٹر بوسانی ،ڈاکٹر گوپی چند نارنگ ،رابندر ناتھ ٹےگور ،تلوک چند محروم، کلدیپ نیر،سر تیج بہادر سپرو، مجنوں گو رکھپوری ،عالم خوند میری ،ڈاکٹر میر ولی الدین ،ڈاکٹر عشر ت حسن انور، مولانا عبدالسلام ندوی،شمس الرحمن فاروقی ،بلراج کومل ،بلونت سنگھ لانبا ،خشو نت سنگھ اور کئی اقبال شناس مقبول ہیں۔عالمی سطح کے مستشرقین میں پو لو لنسکا یا، میر بٹا سٹے پین نیتیس،این میری شمل ،سر ٹامس آرنلڈ،پر وفیسر نکلسن،پر وفیسر آربری اور اقبال ،پر وفیسر ڈکنسن،فاسٹر، ایوا مار یوچ، لوئی میسون ،لوس کلوڈ متیخ ، ڈاکٹر شیلا میکڈونا، ڈاکٹر باربر امٹکاف ،ڈاکٹر یاں ماریک ،ہربرٹ ریڈ، سر مالکم ڈارلنگ ،رش برک ولیمز اور لاتعداد اقبال شناسوں نے اپنے اپنے زوایہ نظر سے اقبال شناسی کو فروغ دیا۔ڈاکٹر شفیق عجمی رقم طراز ہیں:

’’اقبال کے فکر کی تازگی ،بلند آہنگی اور انقلابیت سے زمانہ آنکھیں کھول کر اس کی طرف متوجہ ہو نے پر مجبور ہوگیا ۔علمی دنیا میں اس کا خیر مقدم کیا گیا ،اس کے فکر و شعر کی تفہیم و تشریح کے عمل کا آغاز ہوا ،تراجم ہوئے ، بحث و تنقید کا دروازہ کھلا، اتفاق و اختلاف ،ردو قبول،اخذ و اکتساب کے سلسلے بڑھتے چلے گئے اور ایک روایت کا آغاز ہوا،جو جلد ہی برعظیم کی جغرافیائی حدود کو پار کر کے چاردانگ عالم میں پھیلی ،پروان چڑھی اور مستحکم ہوتی چلی گئی۔آج اس روایت کو ”اقبال شناسی “ کا عنوان دیا جاتا ہے، جس میں مشرق و مغرب کے نامور محققین ،شارحین اور ناقدین کی ایک بڑی تعداد نے اپنے انداز اور اسلوب میں بہت کچھ Contributeکیا ہے۔ جس سے اس روایت کو قوت، تحریک اور وسعت حاصل ہوئی ہے۔“ 19

اقبال کے عالمگیر فلسفہ ٔ حیات کا یہ کاروانِ اقبال اپنی منزل کی طرف بڑھ رہا ہے۔اس بات کا ادراک تو دنیا بھر کے ناقدین کررہے ہیں کہ وہ خودنمائی سے بالا تر تھے۔ درویشی ان کے خمیر میں شامل تھی۔وہ برصغیر پاک و ہند سے اُٹھے اور دنیا بھر کے علوم و فنون کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ صبری تبریزی لکھتے ہیں:

’’اقبال کا تخیل نہ تو مجرد تھا اور نہ محدود،یہ اس کے معاشرے کی جڑوں میں پیوست تھا، اس کی آرزو اور مقصد کا محرک یہ تھا کہ معاشرے کو تخلیق کیا جائے اور اس کے مفادات کا تحفظ کیا جائے۔“20

 مختلف ممالک میں بھی اقبال کے فکر و فن پر بہت سا کام ہورہا ہے۔ اقبال شناسی کی بین الاقوامی روایت کے پیش نظر کلام اقبال میں آفاقیت کا مسئلہ اپنے حل کے لیے نظریاتی بحث سے ہٹ کر اب عملی صداقت کا روپ دھار چکا ہے۔اقبال کے آفاقی کلام کو پڑھنے والوں نے مختلف زبانوں میں تراجم بھی کیے اور یوں اقبال کو مختلف زبانوں اور مختلف ممالک میں پڑھا اور سمجھا جانے لگا ۔ ڈاکٹر طہٰ حسین رقمطراز ہیں:

’’اقبال کی سوچ بڑی منطقی بھی تھی، وہ اجتماعیت کا قائل تھا اور جماعت کے لیے ہر ممکن حد تک مخلص ۔چنانچہ اس نے خود اپنی ساری زندگی عالم ِ اسلام اور بنی نوع انسان کے لیےاس تعلیم و ارشاد اور نصحیت و دعوت میں صرف کردی کہ انسان خود اپنی نگاہ میں معتبر ہوتاکہ لوگوں کی نگاہ میں محترم ہو اور نتیجتاً زندگی کی نگاہ میں بھی وقیع ہو۔“21

آج اقبالیات کو ایک باقاعدہ شعبہ ءعلم قرار دیا جاچکا ہے۔پاکستان اور دیگر ممالک سے باہر بھی اقبال کی زندگی، ان کی شاعری اور فکر پر مختلف زبانوں میں بہت کچھ لکھا گیا ہے اور تحقیق کا یہ سلسلہ جاری ہے۔اب تک ہونے والے کام پر اگر ایک نظر ڈالی جائے تو ”اقبالیاتی ذخیرے“ کو دیکھ کر اطمینان بھی ہوتا ہے کہ اردو کے کسی شاعر یا ادیب کی تخلیقات پر اس درجہ ہونے والے کام کی مثال اس سے پہلے نظر نہیں آتی۔ پاکستان کی اعلیٰ تعلیمی درسگاہوں کے علاوہ مسلم یونی ورسٹی ، علی گڑھ، بہار یونی ورسٹی  (بھارت)، ڈرہم یونی ورسٹی (انگلستان)، تہران یونی ورسٹی  (ایران)، عین الشمس یونی ورسٹی  ،قاہرہ (مصر)، چارلز یونی ورسٹی  ،پراگ(چیکو سلواکیہ) میں اردو ،انگریزی ،فارسی ،عربی اور چیک زبانوں میں پی ایچ ڈی کی سطح پر مقالات تحریر کیے گئے ہیں۔ جرمنی اور فرانسیسی زبان میں لکھے گئے مقالات کی تفاصیل بھی منظر عام پر آئی ہیں۔ یہ ڈگریاں اردو اور فارسی شعبوں کے علاوہ عربی، فلسفہ اور سیاسیات کے شعبوں میں عطا کی گئیں۔ مختلف جامعات میں ایم ۔اے کی سطح پر لکھے جانے والے مقالات بے شمار ہیں جبکہ ایم ۔ فل کی سطح پر بھی کام جار ی ہے اور اقبالیات کے موضوع پر اب تک سینکڑوں مقالات قلمبند کیے جاچکے ہیں۔

پاکستان میں کئی نجی اشاعتی ادارے بھی اقبالیات کے حوالے سے قابل قدر خدمات انجام دے رہے ہیں اس کے علاوہ مختلف اداروں کی اقبال شناسی کی کتب بھی منظر عام پر ہیں۔ وفاقی سطح پر قائم ”اقبال اکادمی پاکستان “جس کا دفتر اور لائبریری ایوان اقبال ،لاہور میں موجود ہے ،اپنے انگریزی سہ ماہی مجلات”اقبالیات“ اور ’’Iqbal Review“اور دوسری علمی و ادبی سرگرمیوں کے ذریعے افکار ِ اقبال کی ترویج و اشاعت میں اپنا فعال کردار ادا کررہی ہے۔

اقبال اکادمی پاکستان اور بزم اقبال لاہور کے علاوہ بعض دوسرے سرکاری نیم سرکاری علمی اداروں نے بھی اقبال اور فکر اقبال کے حوالے سے اہم کتابیں شائع کیں ہیں۔ جیسے ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور کی طرف سے ’’Reconstruction of Religious Thought in Islam“بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی  ،ادارہ تحقیقات اسلامی ،اکادمی ادبیات ،کی طرف سے سال 2002ءکے موقع پر ”اقبال کے سو سال“ کے عنوان سے منتخب مضامین کا مجموعہ شائع کیا گیا ہے اس کے علاوہ ادارہ فروغ اردو،مجلس ترقی ادب، انجمن ترقی اردو ،نظریہ پاکستان ٹرسٹ، نظریہ پاکستان اکادمی، نیشنل بک فاونڈیشن پاکستان، ادارہ مقتدرہ قومی زبان ،لوک ورثہ ،ادارہ مطبوعات پاکستان، نظریہ پاکستان کونسل ،علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی  ،مجلس اقبال، دبستان اقبال، ایسے کئی اداروں نے اقبال شناسی کی روایت کو مستحکم کررکھا ہے۔ شفیق عجمی لکھتے ہیں :

’’پاکستان کی مختلف جامعات میں اقبالیات کے باقاعدہ شعبے قائم ہیں جبکہ 1974ءمیں اسلام آباد میں فاصلاتی تعلیم کے لیے قائم ہونے والی یونی ورسٹی  کو اقبال کی ولادت کے جشن صد سالہ کی مناسبت سے1977ءمیں علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی  کا نام دیا گیا جس میں دوسرے شعبوں کے علاوہ1981ء سے شعبہءاقبالیات بھی افکار ِ اقبال کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کررہا ہے۔“22

پاکستان میں علامہ اقبال یونی ورسٹی  کو یہ اختصاص حاصل ہے کہ جہاں اقبالیات کو ایک باقاعدہ مضمون کے طور پر اعلیٰ ثانوی سطح سے لے کر ایم ۔فل اور پی ایچ ۔ڈی کی سطح تک وسعت دے دی گئی ہے اور متعدد سکالرز کو پی ایچ ۔ڈی کی سطح کے تحقیقی مقالات کی تکمیل پر ڈگریاں دی جاچکی ہیں اورکئی مقالات زیر تکمیل ہیں اس کے علاوہ تعلیمی اداروں میں اقبالیات کے حوالے سے خصوصی نمبر بھی قابل ِ تعریف ہیں۔

پاکستان میں اقبال شناسی کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ علامہ اقبال کے یوم وفات اور سالگرہ کے موقع پر بہترین تقریبات کا انعقاد اقبال شناسی کے لیے بہت مفید ثابت ہو رہا ہے۔اقبال شناسی کی روایت کو بام ِ عروج تک لے جانے میں رسائل و جرائد کا کردار بھی بہت اہم رہا ہے۔اردو زبان و ادب کے ارتقا ء میں ادبی رسائل نے ہمیشہ بنیادی کردار ادا کیا ہے۔

بیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی شیخ عبداالقادر نے لاہور میں’’مخزن“ کےاجراء کو جریدی صحافت میں ایک اہم موڑ قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ لاہور کے ادبی پرچوں کے حوالے سے اردو ادب کی ایک نئی تاریخ مرتب کی جاسکتی ہے۔ ابتداءہی سے’’مخزن “ کا کوئی پرچہ اقبال کے کلام سے خالی نہ ہوتا۔ ’’بانگ درا“کی بیشتر نظمیں’’مخزن“ کی زنیت بن چکی تھیں۔ جنوری 1922ءمیں لاہور سے’’ ہمایوں“ میں بھی اقبال کا کلام چھپتا رہا۔علامہ کی شہرہ آفاق نظم ’’خضرراہ“1931ءکے شمارے میں چھپی اور ساتھ میں اس کی رنگین عکاسی بھی کی گئی۔ ’’نیرنگ خیال“،’’ادبی دنیا“، ’’ادب لطیف“، ’’سویرا “،’’نقوش“، اور ’’فنون“یہ محض چند جریدوں کے نہیں بلکہ ادبی میلانات کے دھاروں کے تال میل کی داستان کے درخشندہ ابواب ہیں۔ جولائی 1924ءمیں لاہور سے ’’نیرنگ خیال“کا اجراءہوا۔ اس رسالہ نے ایک مخصوص نظریاتی نوعیت کا مواد لکھنے والا حلقہ پیدا کیا۔ جس میں علامہ اقبال سرفہرست تھے۔ نیرنگ خیال میں وقتا ً فوقتا ً اقبال کی مختلف تخلیقات شامل ہوتی رہیں۔’’ادبی دنیا“ نے اقبال نمبر بھی شائع کیے۔’’ماہ نو“سید وقار عظیم کی ادارت میں 1947ءمیں کراچی سے جاری ہوا۔ اس پرچے میں اقبال پر مضامین پیش کیے جاتے رہےجن میں’’اقبال نمبر“ قابل ذکر ہے۔شورش کشمیری کا ہفت روزہ ’’چٹان“جنوری 1948ءمیں جاری ہوا ۔ گو اس کا اساسی موضوع سیاست ہے لیکن اس نے ادب کو سماج کے ایک موثر وسیلے کے طور پر قبول کیا۔ ہر سال اپریل میں’’اقبال نمبر“کی اشاعت اس کی نمایاں خصوصیت تھی۔شورش نے خود بھی اقبال کی تفہیم و تعبیر کے لیے متعدد مضامین لکھے ۔جولائی 1948ءمیں ہفت روزہ’’قندیل “ کا اجراءلاہور سے ہوا۔ بقول ڈاکٹر انور سدید :

’’قندیل“ میں اقبالیات کوایک اہم موضوع کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ چنانچہ ہر سال اپریل میں اقبال کے یوم ِ وفات پر ایک پرچے میں ان پر چند صفحات ضرور مخصوص کیے جاتے اور ان کے شایان ِ شان خراج تحسین پیش کیا جاتا“۔23

ماہر القادری کے ادبی ،مذہبی اور سیاسی پرچے ’’فاران“میں بھی موضوعات اقبال کو زیادہ اہمیت دی جاتی۔ اسی طرح 1949ءکراچی سے شائع ہونے والے’’قومی زبان“ میں بھی وقفے وقفے سے اقبال پر مقالات و مضامین چھپتے رہے اور علامہ کی برسی پر خصوصی شمارہ شائع کیا جاتا۔اپریل 1950ءمیں لاہور سے ’’اقدام“ کا اجراءہوا۔ یہ پرچہ ہر سال اپریل میں اقبال نمبر شائع کرنے کا اہتمام کرتا ۔سہ ماہی مجلہ ’’اقبال “لاہور سے1952ءمیں جاری ہوا۔ اقبالیات کو اس دور میں ایک موضوع کی حیثیت حاصل تھی۔اسی طرح ’’اقبال ریویو“ کا مقصد اقبال کی زندگی شاعری اور حکمت کے مطالعہ پر تجزیاتی تشریحی، تحلیلی اور عملی مضامین شائع کرنا تھا۔’’سویرا“ میں بھی موضوع اقبال پر مختلف مضامین اور مقالات چھپتے رہے۔‘نقوش“ لاہور سے موضوع اقبال پر وقفے وقفے سے تحقیقی و تنقیدی مقالات چھپتے رہے۔ہفت روزہ ’’لیل و نہار“ کا اجراءلاہور سے1951ءمیں ہوا۔ اس کے مدیران فیض احمد فیض اور سبط حسن تھے۔اس رسالہ میں بھی وقفے وقفے سے اقبالیات کو موضوع بحث بنایا گیا۔ماہنامہ ’’سیارہ“ اگست1962ءلاہور سے جاری ہوا ۔سیارہ کا دوسرا اہم موضوع اقبالیات ہے۔جنوری 1966ءمیں لاہور سے ڈاکٹر وزیر آغا کی ادارت میں ’’اوراق“میں اقبالیات کے حوالے سے “جدید نظم نمبر(1977ء) اس کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔اس کی اشاعت میں بنیادی طور پر یہ نکتہ اُبھرا کہ جدید اردو نظم کو اقبال نےسب سے زیادہ متاثر کیا ۔ سہ ماہی جریدے’’غالب“ کا آغاز جنوری 1975ءفیض احمد فیض کی ادارت میں ہوا۔ اقبال کے جشن صد سالہ ’’اقبال نمبر“ شائع کیا جو ایسے مضامین پر مشتمل تھا جو اپنے وقت کے معروف و محترم رسائل میں شائع ہوئے تھے۔لیکن اب عام لوگوں کی دسترس سے باہر تھے۔ اس ضمن میں آغا حیدر ، حسن مرزا ،سکندر علی وجد، مختار صدیقی اور پاشا رحمن کے مضامین کی اشاعت بھی کی گئی ۔ستمبر1977ءمیں ’’اقبال نمبر“ اس کا آخری شمارہ تھا۔صرف یہی رسائل نہیں جو فکر اقبال کو اجاگر کر نے میں پیش پیش رہے بلکہ اس کے علاوہ بے شمار رسائل اور دوسرے کالج یونی ورسٹی وں کے میگزین بھی ہیں۔ جنہوں نے موضوعات اقبال کو اپنایا اور ان پرچوں کے اقبال نمبر تک چھپتے رہے مگر افسوس تمام رسائل کا احاطہ کرنا یہاں ممکن نہیں ہے۔

مشرق و مغرب میں پھیلی ہو ئی اقبال شناسی کی عالمی روایت ایک متحرک اور توانا تحریک کے طور پر اکیسویں صدی میں داخل ہوچکی ہے ۔گزشتہ اوراق میں اسی روایت کا ایک اجمالی جائزہ پیش کیا گیا اور کوشش کی گئی ہے کہ تفہیم اقبال کے سلسلے میں کی جانے والی کاوشوں کا نہ صرف مجموعی جائز ہ پیش کیاجائے بلکہ ان محرکات و رجحانات کا فہم بھی حاصل کیا جاسکے جو اس علمی روایت کے تسلسل کا باعث بنے اور اس ضمن میں ان اہم اقبال شناسوں کی عملی کارگزاریوں پرایک طائرانہ نگاہ ڈالی جائے جنہوں نے بطور مترجم ،مفسر ،محقق ،شارح ،ناقد اور ترجمان اقبال کی حیثیت سے اس روایت کو اعتبار بخشا اور اقبال کے فکر وشعر کے کسی نہ کسی پہلو کو روشن کیا ،دوسروں کو بھی آگے بڑھنے ،اقبال کو سمجھنے اور سمجھانے کی ترغیب دی اور اپنا دیا نتدرانہ علمی موقف پیش کرنے کا حوصلہ بخشا۔ اقبالیاتی ادب کا رقبہ بہت پھیلا ہوا ہے ۔ قاضی احمد میاں اختر جونا گڑھی کے مطابق:

 ’’اب تک اقبالیات کے نام سے جو ذخیرہ ادب تیار ہوچکا ہے وہ اس پایہ کا نہیں جیسا کہ ہونا چاہیے اور جس سے اقبال کے مطالعہ میں کافی مدد مل سکے اس کا سبب ظاہر ہے کہ اب تک کسی خاص منصوبہ بندی کے تحت یہ کام نہیں کیا گیا اور سوائے ان گنے چنے لوگوں کے جنہوں نے اپنے ذاتی شوق اور مطالعہ سے اقبال کی کسی نہ کسی حیثیت پر کام کیا، باقی اکثر تحریرات یا تو ایک دوسرے کی نقل ہیں یا محض مدحیہ اور ستائشی ہیں۔“24

اقبال صدی نے اقبال شناسی کی جو تحریک پیدا کی تھی، اس کے اثرات باقی ہیں اور مختلف سطحوں پر مطالعہ اقبال جاری وساری ہے۔ اس مطالعے میں دقت نظر اور گہرائی پیدا کرنا اقبالیات کا بنیادی تقاضا ہے۔جو اقبال شناسی میں امتیازی درجہ رکھتے ہیں۔ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒ عالمگیر شہرت کے حامل ہیں ۔اُن کا آفاقی پیغام دنیا کی مختلف زبانوں میں منظر عام پر آچکا ہے۔ جہاں اُردو بولی جاتی ہے وہاں اقبال کی تعریف و توصیف کسی نہ کسی حوالے سے کی جاتی ہے ۔دنیاکے کونے کونے میں اقبال شناس، افکار ِ اقبال کی ترویج کے لیے اپنے اپنے دائرہ کار کے مطابق مصروف عمل ہیں۔ اقبال شناسوں نے تحقیقی و تنقیدی کتب،تحقیقی مقالات ،رسائل و جرائد اوراخبارات میں اقبالیاتی تحریریں پیش کیں۔ اقبالیات میں اقبال شناسوں کے مقالات اور مضامین کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ان میں سے بیشتر مضامین مختلف کتابوں میں شائع ہوچکے ہیں۔اقبال شناسوں نے اقبال شناسی کے فروغ کو اپنی زندگی کا مشن سمجھااور اس بلند پایہ شاعر اور فلسفی کو نہ صرف اپنی شاعری کے توسط سے خراج عقیدت پیش کیا بلکہ دلکش نثر کے ذریعے اقبال کی شخصیت ،شاعری ،فلسفہ اور پیغام کو عوام تک پہنچایا۔

حوالہ جات

1-سلیم احمد ،اقبال ایک شاعر ،لاہور، قوسین ، 1987ء ،ص 15

2۔ سلیم اختر،ڈاکٹر، اقبال۔ممدوح عالم(مرتبہ ) ،لاہور ،بزم اقبال ،1978ء،ص 49

3- محمد منور ،پروفیسر ،حرف آغاز،میزان اقبال ، لاہور، اقبال اکادمی پاکستان، 1992ء،ص 13،14

4۔مولوی سید احمد دہلوی(مرتبہ)فرہنگ آصفیہ،جلد سوم تا چہارم، س تا یے،لاہور ،اُردو سائنس بورڈ،طبع دوم ،جولائی 1987ءص189

5-وارث سر ہندی ایم اے، علمی اُردو لغت (جامع)،لاہور ،علمی کتب خانہ کبیر سٹریٹ اُردو بازار،طبع دوم 1996ء، ص 961

6-قاضی احمد میاں اختر جو نا گڑھی کی تالیف”اقبالیات کا تنقیدی جائزہ“پہلی بار کراچی ،اقبال اکادمی پاکستان کی طرف سے1955ءمیں شائع ہوئی جبکہ اس کا دوسرا ایڈیشن 1965ءمیں مولف کی وفات کے بعد بغیر کسی ترمیم و اضافے کے شائع ہوا۔البتہ ادارے کی طرف سے یہ وضاحت کی گئی کہ پہلی طباعت کی غلطیوں کو دور کرنے کی حتی الوسع کوشش کی گئی ہے ہمارے پیش نظر یہی دوسرا ایڈیشن ہے ۔ص10،11،12

7- احمد علی رجائی ،ڈاکٹر ، اقبال: ممدوح عالم، مشمولہ،اقبال ۔ممدوح عالم،مرتب ڈاکٹر سلیم اختر،لاہور ،سنگ میل پبلی کیشنز،2013ء ،ص 54

8۔سید ابو الحسن علی ندوی،نقو ش اقبال ، اسلام آباد،سروسز بک کلب، 1988ء ،ص 99

9۔مصباح الحق صدیقی ،اُ مت مسلمہ کے اتحاد کی بنیاد ، مشمولہ ،اقبال افکارو خیالات ،مرتبہ مصبا ح الحق صدیقی ، تسنیم کوثر گیلانی ،لاہور، فرحان پبلشر ،جون 1977ء ،ص 132۔131

10۔شاہد اقبال کامران، اقبال دوستی، اسلام آباد ، پورب اکادمی ،اپریل 2009ء ،ص 27

11۔مجلہ راوی ،گورنمنٹ کالج ،لاہور ،شمارہ مئی ۔جون 1938ء ،ص 3۔2

12۔ایس آئی فہد،اقبال کا انقلابی فلسفہ، مشمولہ ،مسلم ممالک میں اقبال شناسی کی روایت، مرتب ڈاکٹر سلیم اختر اقبال، لاہور سنگ میل پبلی کیشنز،2013ء،ص 264

13۔ آر اے نکلسن ،اقبال بدیشی زمینوں میں ، مشمولہ ،اقبال ۔ممدوح عالم،مرتب ڈاکٹرسلیم اختر ،لاہور ، سنگ میل پبلی کیشنز،2013ء،ص 38

14۔ ای ۔ ایم فارسٹر ،محمد اقبال ، مشمولہ ،اقبال۔ممدوح ِ عالم، مرتب ڈاکٹر سلیم اختر ،لاہور ،سنگ میل پبلی کیشنز،2013ء، ص105

15۔ یوسف حسین ، خان ،ڈاکٹر ،غالب اور اقبال کی متحرک جمالیات ،ملتان، کاروان ادب ،1986ء، ص 29

16۔ Luce Claude Maitre, “IQBAL:A GREAT HUMANIST “Hundred years of iqbal studies “compiled by Dr Waheed-Ishrat2003,p.g665 – pakistan Academy of letters\ Islamabad\

17۔ہارون الرشید تبسم ،ڈاکٹر ،چند ہم عصر اقبال شناس،جہلم ،بک کارنر ، 2018ء،ص 16

18۔زاہد حسین انجم، علامہ اقبال سیرت و کردار کےآئینہ میں،لاہور، نذیر سنز پبلشرز ،2009ء،ص 7

19۔شفیق عجمی ،ڈاکٹر ،اقبال شناسی عالمی تناظر میں ، لاہور ،پاکستان راٹرز کو آپر یٹو سوسائٹی ، 2011ء،ص 10

20۔ صبری تبریزی ،مسلم ممالک میں اقبال شناسی کی روایت، مشمولہ ،مسلم ممالک میں اقبال شناسی کی روایت ،مرتب ڈاکٹر سلیم اختر ،لاہور،سنگ میل پبلی کیشنز ،2013ء ،ص 35

21۔طہٰ حسین،ڈاکٹر،مسلم ممالک میں اقبال شناسی کی روایت، مشمولہ ،مسلم ممالک میں اقبال شناسی کی روایت ،مرتب ڈاکٹر سلیم اختر،ص 36

22۔ شفیق عجمی ،ڈاکٹر ،اقبال شناسی عا لمی تناظر میں ،ص 22

23۔انور سدید،ڈاکٹر،مشمولہ “قبال اور اقبال شناسی”،ازاقرار حسین شیخ ،لاہور، دی بکس 2004ء،ص 29

24۔ قاضی ،احمد میاں اختر، جونا گڑھی ، اقبالیات کا تنقیدی جائزہ ،لاہور، اقبال اکادمی پاکستان ، 1965ء، ص 171

٭٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.