حیات سعدی کا تنقیدی جائزہ

Click here for PDF file

  ممتحنہ اختر،

پی ایچ۔ ڈی اسکالر، شعبہ اردو۔کشمیر یونیورسٹی سرینگر۔190006 Email:-mumtaheenaa@gmail.com، Phone no :-+919906439542

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

            حیات سعدیؔ سنِ تصنیف ۱۸۸۶ء حالی ؔکی لکھی ہوئی اولین سوانح عمری ہے جس میں انہوں نے شیخ سعدی ؔکی زندگی اور ادبی کارناموں کو بہت ہی خوبصورت اور جامع انداز میں پیش کیا ہے۔ [1]خاص کر سعدی ؔکے ادبی کارناموں پر حالیؔ نے جس جامعیت کے ساتھ اظہار خیال کیاہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ یہ کتاب دو حصوں میں منقسم ہے ۔ پہلے حصے میں حالا ت زندگی ہیں اور دوسرے حصے میں سعدی ؔکی شاعری اور نثر نگاری کے مختلف پہلوؤں پر بحث ہے ۔اگر چہ حالیؔ کی اس پیش کردہ سوانح عمری کاآج تک کوئی مستحکم و مبسوط جائزہ پیش نہیں کیاگیا ہے لیکن اس کتاب کی معنویت اور اس کاوجودکئی پہلوؤں سے اہمیت رکھتاہے ۔

            پہلی خصوصیت جو اس سوانح عمری میں پائی جاتی ہے وہ ہے سعدی ؔکے ساتھ حالیؔ کی ذہنی و روحانی مناسبت ‘ جو حالیؔ اور سعدی ؔکے درمیان عصری تقاضوں کے فرق کے باوجودانہیں ایک دوسرے کے کافی قریب لا کر کھڑا کردیتی ہے ۔ حالی‘ؔ سعدی ؔکے کلام سے ان کے نفسیاتی و ذہنی کردار کو سمجھنے میں جتنے کامیاب ہوئے ہیں وہ واقعی قابل قدر ہے اس کااظہار ’’ حیات سعدی‘ؔ‘ میں جابجا ملتا ہے ۔ ’’حالی ؔجس طرح یکے بعد دیگر گلستان و بوستان کے اقتباسات پیش کرتے ہیں اسے صرف ان کاحسن انتخاب کہنا کافی نہیں ہے بلکہ ایسا کرتے وقت ان کی نظر سعدی کی ایسی خصوصیات پر جمی رہتی ہے جو انسانی ضمیر کی تہہ داری اور نظام قدرت کی گہری واقفیت کے بغیر کسی ادیب میں پیدا نہیں ہوسکتی ‘‘ ([1]حیات جاوید سرسید کی زندگی اور کارناموں کی مکمل سر گذشتہ‘ تعارف قمر رئیس ص ۱۹)

            دوسری خصوصیت اس کتاب کی یہ ہے کہ سعدیؔ کی فنی خصوصیات کو اجاگر کرنے میں حالی جتنے کامیاب ہوئے ہیں ۔ اتناحالیؔ کے بعد کوئی نہ ہوسکا۔ اس لیے اس سوانح عمری کو دیکھ کر مولانا شبلی ؔنے ’’ شعرالعجم‘‘کی دوسری جلد میں شیخ کے حالات لکھتے وقت فٹ نوٹ میں تحریر کیاہے کہ :

’’ مولانا الطاف حسین صاحب حالی ؔنے حیات سعدی میں سعدی کے حالات اور شاعری پر جو کچھ لکھ دیا اس کے بعدکچھ لکھنا بے فائدہ ہے ‘ لیکن بعض تعلیم یافتہ دوستوں نے حدسے زیادہ اصرار کیا اور آخر مجبوراً لکھنا پڑا‘‘

’’ مولانا نے اپنی اس رائے کااظہار مکاتیب میں بھی کیاہے۔ جہاں اس کتاب کو اردو کے بہترین ادب میں شمار کیاہے‘‘ ۱؂ حالی ؔنے جس دوربین نگاہ سے سعدیؔ کے فنی محاسن پر روشنی ڈالی ہے وہ واقعی قابل تعریف ہے بقول رشید حسن خان:

’’ یہ حقیقت ہے کہ سعدی کے کلام پر حالی ؔکاتبصر ہ قابل قدر ہے۔ انہوں نے جن محاسن کو نمایاں کیا ہے ‘ وہ کلام سعدی ؔکی جان ہیں۔ جگہ جگہ ایسے نکات بتاتے چلے گئے ہیں جس سے ان کی قابل رشک سخن فہمی اور سخن سنجی پر ایمان لانا پڑتاہے ‘‘ (سرسید اور رفقاء کی اردو نثر کافنی اور فکری جائزہ‘ سید عبداﷲ‘ مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد ص ۱۰۵)

            تیسری خصوصیت اس کتاب کی یہ ہے کہ یہ کتاب صرف ایک سوانح حیات کے طور پر ہمارے سامنے نہیں آتی بلکہ تنقیدی پہلو سے بھی کافی اہمیت رکھتی ہے ۔ نئی تنقید یا حالیؔ کی ابتدائی نظر ی و عملی تنقید کے نمونے ’’ مقدمہ شعر و شاعری ‘‘ سے پہلے اسی کتاب سے وجود میں آتے ہیں۔ اس وجہ سے دوسری سوانح عمریوں کے مقابلے میں اس میں تنقیدی پہلو زیادہ نمایاں ہے ۔ اس کے علاوہ اس کتاب میں اصلاحی پہلو بھی غالب نظر آتاہے۔ سید عبداﷲ کابھی کہنا ہے کہ:

’’حیات سعدیؔ کی اہمیت کے لیے ہمارے پاس ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ مولانا نے اس کتاب میں ادبی اصلاحی کے متعلق ایک نظریہ قائم کرلیا تھا اور بعض ایسے مضامین چھیڑے ہیں جن کو مقدمہ دیوان میں پختہ شکل میں پیش کیاہے …غرض حیات سعدیؔ میں وہ اصلاح کاجذبہ ابھی ابتدائی حالت میں نظر آتاہے جو بعد میں ایک مستقل تحریک بن جاتا ہے ‘‘

(سرسید اوراس کے نامور رفقاء‘ سید عبداﷲ ( مقتدہ قومی زبان اسلام آباد ۱۹۸۶ء) ص ۱۰۶)

            ’’حیات سعدی‘ؔ‘ میں سعدیؔکے کلام پر حالی ؔنے جو تجزیات پیش کئے ہیں اسے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ حالی ؔنے اپنے بنائے ہوئے اصول و نظریات کو مخصوص طور پر مدنظر رکھا ہے ۔اگرچہ ’’ حیات سعدی‘ؔ‘ میں ان تمام نظریات کابیان نہیں ملتا جو ’’مقدمہ‘‘میں پیش کئے گئے ہیں لیکن اس کتاب سے یہ ضرور پتہ چلتا ہے کہ حالیؔ کی یاداشت نے ان تمام نظریات کو ذہن نشین کرلیاتھا جو بعدمیں ’’ مقدمہ‘‘ میں پیش کئے گئے اور انہیں کے پیش نظر انہوں نے سعدیؔ کے کلام کا جائزہ لیاہے ۔ جیسا کہ حالیؔ کو سعدیؔ کے کلام میں تخیئل کی قوت اور مطالعہ کائنات کی عمیق گہرائی بھی نظر آتی ہے اور تفحص الفاظ کا ہنر بھی ۔ حیات سعدی ؔمیں گلستان کی تعریف کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں:

’’ گلستان کے ابواب کی عمدہ ترتیب اس کے فقروں کی برجستگی اس کے الفاظ کی شستگی‘ اس کے استعارات کی جذالت ‘ اس کے تمثیلات و تشبیہات کی طرفگی اور پھر باوجودان تمام باتوں کے ‘ عبادت میں نہایت سادگی اور صفائی‘ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ شیخ نے اپنی عمر عزیز کا ایک معتدبہ حصہ اس کی تصنیف میں صرف کیا تھا اوراس کی تنقیح و تہذیب میں اپنے فکر اور سلیقے سے پورا پورا کام لیا تھا‘‘

( حیات سعدی‘ الطاف حسین حالیؔ ‘ مکتبہ جامعہ لمٹیڈ نئی دہلی ص ۸۶۔۸۷ )

حالی ؔنے ’’ مقدمہ شعر و شاعری ‘‘ میں تفحص الفاظ پر جو سیر حاصل بحث کی ہے اور اس کی اہمیت پر جو روشنی ڈالی ہے ‘ اسی کو مدنظر رکھکر گلستان میں بیان کی پور ی خو بصورتی کاسہرا(Credit)تفحص الفاظ کے ہنر کو دیا ہے ۔

            اسی طرح حالی ‘ ؔشیخ ؒ کے کلام میں مطالعہ کائنات کی عمیق گہرائی پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں:

’’ سعدی ؔنے اپنی دونوں بے نظیر کتابوں میں بر خلاف ایرانی نثاروں کے اپنی بلندپروازی اور نازک خیالی ظاہر کرنی یا اپنا تفلسف اور تبحّر علمی جتانا یا عقل و عادت کے خلاف باتیں لکھ کر لوگوں کادل لبھانا اور عجائبات کا طلسم باندھ کر خلقت کو حیرت میں ڈالنا نہیں چاہا۔اس نے دونوں کتابوں میں بہ استثنا چند حکایتوں کے کوئی واقعہ ایسا نہیں لکھاجو عقل یا عادت کے خلاف ہو یا جس کو سن کر کچھ زیادہ تعجب ہو۔ وہ اکثر اپنی آنکھ کی دیکھی یا کان سے سنی یا کسی کتاب سے انتخاب کی ہوئی ایسی سیدھی سادی معمولی باتیں لکھتا ہے جو صبح سے شام تک ہر انسان پر گزرتی ہیں‘‘

(۱؂ حیات سعدی‘ الطاف حسین حالیؔ ‘ مکتبہ جامعہ لمٹیڈ نئی دہلی ص ۹۰ )

اسی طرح حالیؔ‘ شیخ کے کلام میں قوت متخیلہ کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ دوسری عام اور بڑی خوبی جو ان کتابوں کی خصوصیات میں سے ہے ‘ وہ شیخ کا اندازِ بیان ہے ‘ جس کاملکہ اُس کی طبیعت میں ودیعت کیاگیا تھا۔ یہ بات نہ قواعد علمِ بلا غت کی پابندی سے حاصل ہوسکتی ہے اورنہ کسی استاد کی تعلیم سے آتی ہے ۔ بلکہ جس طرح حُسنِ صورت اور حُسنِ صوّت قدرتی خوبیاں ہیں ‘ اسی طرح حسنِ بیان بھی ایک جبلّی خاصہ ہے جس میں اکتساب کو چنداں دخل نہیں اور یہی وہ چیز ہے جس کی کمی اور زیادتی پر شاعر کانقصان او ر کمال موقوف ہے ۔ جو مطلب اس کو بیان کرنا ہوتا ہے ‘ اس کے لیے ایسا دل کش اور لطیف پیرایہ ڈھونڈلاتا ہے جو کسی کے وہم گمان میں نہیں ہوتا‘‘

(حیات سعدی‘ الطاف حسین حالیؔ ‘ مکتبہ جامعہ لمٹیڈ نئی دہلی ص ۱۳۸)

چونکہ حالی ؔنے یہاں براہ راست شیخ کی قوت متخیلہ کی تعریف نہیں کی ہے ۔ لیکن بعدمیں مقدمہ میں انہوں نے تخئیل کی تعریف اور اس کے تصرف پر جس انداز سے روشنی ڈالی ہے اسے لگتا ہے کہ سعدیؔ کے کلام پر حالی کایہ بیان اصل میں اس کی قوت متخیلہ کو پیش کرنا ہے ۔

            اسی طرح حالی ؔنے شعر کی خوبیوں کے توسط سے بھی شیخ کے کلام کاجائزہ لیاہے۔ حالی کو شیخ کے کلام میں سادگی ‘ اصلیت اور جوش تینوں خوبیاں نظر آتی ہیں۔ چنانچہ ان تینوں خوبیوں کاذکر انہوں نے ’ حیات سعدیؔ‘ میں بھی مختصرطور پر پیش کیاہے اور پھر ان تینوں خوبیوں کو شیخ کے کلام سے وابستہ کیاہے۔چنانچہ لکھتے ہیں:

’’ شاعری کی بنیاد زیادہ تر چار چیزوں پر ہے ۔ ایک یہ کہ شاعر کے خیالات کم و بیش کسی حقیقت واقعیہ پر نہ کہ محض اختراع ذہن پرمبنی ہونے چاہے۔ورنہ شعر میں کچھ تاثیر نہ ہوگی ۔ دوسرے وہ ایسے خیالات ہوں جن میں عام خیالات کی نسبت ایک قسم کی ندرت اور نرالا پن اور تعجب پایا جائے ‘ ورنہ معمولی بات چیت میں اور شعر میں کچھ فرق نہ ہوگا۔تیسرے یہ خیالات عمدہ لباس میں ظاہر کئے جائیں۔ کیونکہ خیال کیسا ہی عمدہ ہو‘ اگر مناسب لفظوں میں ادانہ کیاجائے تو دائرہ شاعری سے خارج ہوگا۔ چوتھے ‘ شاعرکے دل میں جب کہ وہ کسی مضمون پر شعر لکھ رہا ہے‘ کم وبیش اس مضمون کاجوش او ر ولولہ موجود ہونا چاہیے۔ورنہ شعر نہایت کمزور ہوگا او ریہ چاروں باتیں جیسی شیخ کی شاعری میں پوری پوری پائی جاتی ہیں ویسی ایران کے کسی اور شاعر میں مشکل سے پائی جائیں گی ‘‘

(حیات سعدی‘ؔ الطاف حسین حالیؔ ‘ مکتبہ جامعہ لمٹیڈ نئی دہلی ص ۲۴۷)

حالیؔ کے دوسرے بیانات سے بھی سعدی ؔکے کلام میں سادگی ‘ اصلیت اور جوش کی خوبیاں اس طرح سامنے آتی ہیں۔

1 ۔ ’’ ان دونوں کتابوں میں یہ بات بھی تعجب انگیز ہے کہ باوجودے کہ صنائع لفظی و معنوی ان میں کثرت سے موجودہیں اور تقریباًنصف گلستان کے قصے مسجع اور مقفاً ہیں باایں ہمہ وہ سادگی میں ضرب المثل ہیں‘‘

( حیات سعدی‘ ؔ الطاف حسین حالی ‘ ؔ مکتبہ جامعہ لمٹیڈ نئی دہلی ص ۱۴۳)

2۔ ’’نیچر کے بیان میں شیخ کاکلام فی الواقع لاثانی ہے خدا کی صنعت او رحکمت کے متعلق وہ وہی باتیں بیان کرتا ہے جو سب جانتے ہیں ‘‘

(حیات سعدی‘ ؔ الطاف حسین حالیؔ ‘ مکتبہ جامعہ لمٹیڈ نئی دہلی ص ۱۵۶)

3۔ ’’ بوستان میں …باوجود صنعت شاعری کے نہایت بے تکلفی اور باوجود ساختگی کے کمال کابے ساختہ پن پایا جاتا ہے‘‘حیات سعدی‘ ؔ الطاف حسین حالی ‘ ؔ

(مکتبہ جامعہ لمٹیڈ نئی دہلی ص ۱۲۱)

             حالیؔ کو شیخ کی شخصیت اور کلام میں وہ تمام خصو صیات بھی نظر آتی ہیں جو موجودہ زمانے کے سماجی ‘ اخلاقی اوراصلاحی نقطہ نظر سے اہمیت رکھتی ہیں۔ جیسا کہ اس کتاب کے محاسن بیان کرتے ہوئے حالی ان خصوصیات پر اس طرح روشنی ڈالتے ہیں :

1۔ ’’ چند مقامات مستثنا کرنے کے بعد کوئی ایسی بات باقی نہیں رہتی جو زمانۂ حال کے مورل اور سوشل خیالات کے بر خلاف ہو‘‘

(حیات سعدی‘ؔ الطاف حسین حالیؔ ‘ مکتبہ جامعہ لمٹیڈ نئی دہلی ص ۱۳۱)

 2 ۔ ’’ سوپر نیچرل یعنی فوق العادت باتیں اور عجیب و غریب قصے بھی جن سے قدیم اور متوسط زمانے کامغربی اور مشرقی لٹریچر بھرا ہوا ہے ‘ ان کتابوں میں بہت کم ہیں‘‘

(حیات سعدی‘ ؔ الطاف حسین حالی ‘ ؔ مکتبہ جامعہ لمٹیڈ نئی دہلی )

3۔ ’’ وہ کبھی فقیہانہ اور واعظانہ نصیحتیں جو اکثر تلخ اور بے مزہ اور سامعین کے دل پر گراں ہوتی ہیں ‘ نہیں (کرتا) بلکہ اکثرآزادانہ اورمحققانہ نصیحتیں کرتاہے جو اگرچہ عام خیالات سے کسی قدر بلند ہوتی ہیں۔ لیکن حدِ شرع سے ہرگز متجاوز نہیں ہوتیں اور اس لیے ان کو زاہد اور رند دونوں پسند کرتے ہیں‘‘

(حیات سعدی‘ ؔ الطاف حسین حالیؔ ‘ مکتبہ جامعہ لمٹیڈ نئی دہلی ص ۱۶۱)

            گلستان و بوستان کے علاوہ حالیؔ نے شیخ سعدی ؔکے باقی کلا م کو بھی جس میں غزلیات ‘ قصائد ‘ مقطعات اور باقی متفرق اشعار موجودہیں ۔ انہیں اصول و نظریات کی روشنی میں جائزہ لیا ہے جو انہوں نے مقدمہ میں پیش کئے ہیں ۔

            شیخ سعدی ؒؔکی شخصیت اور اس کے کلام پر یہ تجزیات جو حالی ؔنے ’’ حیات سعدی‘ؔ‘ میں پیش کئے ہیں ‘ بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ اردو ادب میں ایسی پہلی کوشش ہے جس میں کسی شاعر کی شخصیت اور اس کے فنی محاسن کانئے انداز اور نئے طریقے سے تجزیہ کیاگیا۔ قدیم رویوں کو چھوڑ کر جدید طریقے اپنا ئے گئے ہیں۔ حالی ؔسے پہلے اور حالیؔ کے بعدسعدیؔ کی شخصیت اور اس کے کلام پر ایسی مفصل ترین سوانح عمری لکھنے کاحق کسی سے ادا نہ ہوسکا ۔ بقول ڈاکٹر سید عبداﷲ:

’’ حیات سعدیؔ‘‘ غالباً مفصل ترین سوانح عمری ہے ۔ حالیؔ کے بعد سعدیؔ کے مضمون پر مولانا شبلی ‘ پروفیسر براؤن اور فرانسیسی فاضلMasseنے بھی قلم اٹھایا ہے لیکن مقدم الزکر نے مفصل تذکرہ لکھنے کادعویٰ ہی نہیں کیا‘‘

(سرسیداور اس کے نامور رفقاء ‘ سید عبداﷲ ‘ مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد ص ۱۰۲)

Leave a Reply

1 Comment on "حیات سعدی کا تنقیدی جائزہ"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] حیات سعدی کا تنقیدی جائزہ […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.