مجاز کی انقلابی شاعری میں عورت کا تصور

اسرار الحق مجاز کا شمار ان ترقی پسند شعرا میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے امیدوں اور آرزئوں کا چراغ جلا کر ترقی پسند خیالات کو عام کیا اور مزید یہ احساس دلایا کہ ہر وہ فنکار جو گہرا شعور رکھتا ہے وہ سماجی رسم ورواج اور معاشرتی صوت حال سے چشم پو شی نہیں کر سکتا‘ وہ زندگی کی نا ہمواریوں پر گہری نظر رکھتا  اور اپنے مشاہدے کے ذریعے سماج کے دکھ درد کا مداوا تلاش کرتا ہے۔ مجاز کی شا عری میں ان خیا لات کی عکاسی مو جود ہے۔ ان کی شاعری اس عہد کی پروردہ ہے جب ترقی پسند تحریک اپنے ابتدائی مراحل سے گزررہی تھی’ اس تحریک کا قیام عمل میںابھی نہیں آیا تھا۔ باوجود اس کے عوامی قدرومنزلت وشہرت حاصل کرنے والے شعرا میں مجاز سر فہرست  ہیں۔ منظر سلیم کی یہ تحریر کسی حد تک اس  حقیقت کی عکاسی کرتی ہے۔

’’ان کے ذریعے ترقی پسندی کے بنیادی تصورات اس زمانے میں عام ہوچکے تھے جبکہ انجمن ترقی پسند منصفنین کو کسی بڑی ادبی تحریک کی حیثیت اختیار کرنے میں کافی عرصہ باقی تھا۔ مجاز کو اس لحاظ سے بھی فوقیت حاصل ہے کہ ان کا شعری مجموعہ’’آہنگ‘‘ پہلا ترقی پسند مجموعہ تھا، جو ۱۹۳۸ئ؁ میں لکھنؤ سے شائع ہوا۔ ترقی پسند اور جدید شاعری کے دوسرے اہم مجموعے ’’نقش فریادی‘‘ (فیض احمد فیض) اور ماورا (ن۔م۔راشد) کافی بعد میں ۱۹۴۱ئ؁ میں شائع ہوئے۔ اسی طرح مجاز ترقی پسند شاعری کے اقدار کی تشکیل میں جو حصہ لیا اس کی بنا پر انہیں ترقی پسند ادب کی تحریک کی پیداوار نہیں بلکہ اس کا ایک اہم خالق کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔‘‘

مجاز حیات اور شاعری۔منظر سلیم۔ص۱۶۸

مجاز کی شاعری کی وہ وصف جو انہیں دوسرے ہم عصر ترقی پسند شعراء میں ممتاز کرتی ہے وہ احساسات وجذبات کی بہترین ترجمانی ہے۔ ترقی پسند نظریے کے قائل ہوتے ہوئے بھی اپنی شاعری کو انتہا پسندی سے بچائے رکھا۔ ان کے کلام میں انقلابی جوش ہونے کے باوجود کسی حد تک  توازن برقرار ہے۔ ان کی شخصیت اعلیٰ ظرفی کی عمدہ مثال ہے۔ وہ سچے اور حقیقت پسند مزاج کے شاعر تھے، اس لئے محض خیالی اور رومانی شاعری کے گرد نہیں گھومتے بلکہ ان کی حساس ذہن اور نظریہ زندگی کی توانائیوں کا جذبہ بھی پیدا کرتا ہے۔ اگرچہ مجازکی عشقیہ شاعری شباب پر ہے تو دوسری طرف یہی شاعری دعوت انقلاب بھی دیتی ہے اور اپنے عہد کے سماجی حالات ، کہن مشق خیالات اور احتجاج اور بے روزگاری کا واضح اور حقیقت پسندانہ گہرا شعور بھی رکھتی ہے۔ مزدور کا گیت، نوجوان خاتون سے، خواب سحر، انقلاب، سرمایہ داری، اندھیری رات کا مسافر، نذرخالدہ، تعارف، شوق گریزاں، آورہ، طفلی خواب وغیرہ اس نوع کی عمدہ مثال ہیں۔ اندھیری رات کا مسافر اور آوارہ ان کی بہترین نظموں میں سے ہے۔ نظم ’’اندھیری رات کا مسافر‘‘ میں مجاز نے ان دشواریوں کو بھی بڑی ہنرمندی کے ساتھ پیش کیا ہے جو انقلاب لانے کے راستے میں رکاوٹ کے سبب تھے۔ اس کے باووجود شاعرکاجدوجہد جاری رکھنا اور اپنی منزل کی تلاش میں آگے بڑھتے رہنا حقیقت پسندی کی عمدہ مثال ہے۔ نظم کا ایک بند ملاحظہ ہو۔

افق پر جنگ کا خونیں ستارہ جگمگاتا ہے

ہر ایک جھونکا ہوا کا موت کا پیغام لاتا ہے

گھٹا کی گھن گرج سے قلب گیتی کانپ جاتا ہے

مگر میں اپنی منزل کی طرف بڑھتا  ہی جاتا ہوں

مجازدوسرے ترقی پسند شاعروں میں اس لحاظ سے بھی منفرد اور  بلندمقام رکھتے ہیں کہ ان کی شاعری عورت کی حسن اور رنگینیوں سے اوپر اٹھ کر اس وسیع میدان میں بھی قدم رکھتی ہے جہاں وہ اپنے دوسرے رفیق یا ہمراہ کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل سکے۔ عورت یا محبوبہ کا تصور ان کے یہاں محض نازک اندام حسینہ اور دل جوئی اور پس پردہ رہنے والی محبوبہ نہیں بلکہ وہ سفر حیات بھی ہے۔ عورت کی عظمت کا یہ انقلابی تصور مجاز نے اس عہد میں پیش کیا تھا جب دوسرے شعراء کی نظر اس سلسلے میں بالکل سطحی تھی۔  دوسری طرف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جہاں مجاز نے اپنی زندگی کے حسین پانچ سال گزارے وہ آج بھی حجاب کے لئے جانا جاتا ہے۔ ایسے عہد میں مجاز کی یہ دوراندیشی اور فکری بصیرت دوسرے ترقی پسند شعراء سے بالکل الگ اور وسیع ہے۔ ان کے رفیقوں میں ’’خلیل الرحمن اعظمی‘‘ مجاز کے اس تصور کا ان کے ہم عصر شعراء جوش کے کلام سے موازنہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

’’جوش کا رویہ عورت کے ساتھ خالص جاگیردارانہ ہے۔ یعنی اپنی بہو بیٹیوں پر تو وہ قدغن لگاتے ہیں اور انہیں خاتون مشرق بننے کی تلقین کرتے ہیں لیکن مہترانی اور جامن والیاں ان کی ہوس کا آلہ کار بنتی ہیں۔ اس کے برخلاف مجاز کا نقطۂ نظرجدید اور ایک صحت مند رومانی نقطۂ نظر ہے۔ نیز عورت کے متعلق ان کا شعور ایک بیدار اور صالح شعور ہے۔‘‘

عورتوں پر مسلط کی جانے والی سماجی قوانین اور بندشوں کو انہوں نے ’’شکوہ مختصر‘‘ میں یوں بیان کیا ہے۔

مجھے شکوہ نہیں دنیا کی ان زہرہ جبینوں سے

ہوتی ہے جن سے نہ میرے شوق رسوا کی پذیرائی

مجھے شکوہ نہیں ان پاک باطن نکتہ چینوں سے

لب معجز نما نے، جن کے مجھ پر آگ برسائی

زمانے کے نظام زنگ آلودہ سے شکوہ ہے

قوانین کہن، آئین فرسودہ سے شکوہ ہے

مندرجہ بالا نظموں کے ذریعے مجاز نے فرسودہ رسم ورواج اور جبرواستبداد کو بے نقاب کیا ہے۔ اور یہ اشارہ بھی کہ کس طرح عورت کی شناخت پردہ اور حسن تک محدود کرکے اس کے پیروں میں سماج اور قوانین نے ایک مضبوط بیڑی ڈال رکھی ہے۔ آج اس بیڑی کو توڑنے کے لئے Feminism کی تحریک زوروشور سے چلائی جارہی ہے۔ مجاز کی انقلابی نظر آج سے بہت قبل اس نہج پر پہنچ چکی تھی۔ وہ ان دو شیزائوں کی صلاحیت اور عظمت کی پہچان کرچکے تھے۔ اسی لئے وہ نظم ’’نوجوان خاتون سے‘‘ اس طرح خطاب کرتے ہیں۔

حجاب فتنہ پرور اٹھالتی تو اچھا تھا

خود اپنے حسن کو پردا بنا لیتی تو اچھا تھا

تری نیچی نظر خود تیری عصمت کی محافظ ہے

تو اس نشتر کی تیزی آزمالیتی تو اچھا تھا

تیری چین جبیں خود اک سزا قانون  فطرت میں

اسی شمشیر سے کار سزا لتی تو اچھا تھا

تو اپنے سر سے یہ بادل ہٹالیتی تو اچھا تھا

یہ تیرا زرد رخ، یہ خشک لب، یہ وہم، یہ وحشت

نظم کے آخری حصے میں اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

سنانیں کھینچ لی ہیں سر پھر سے باغی جوانوں نے

تو سامان جراحت اب اٹھالیتی تو اچھا تھا

ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن

تو اس آنچل سے اک چرچم بنا لیتی تو چھا تھا

نوجوان عورتوں کو اس طرح انقلاب کا نعرہ بلند کرنے اور انہیں اپنی وجود اور طاقت ، عظمت اور بلند حوصلہ کا احساس دلانا اردو شاعری کے باب میں بالکل ایک نیا اضافہ ہے۔اس نظم کے آخری اشعار کے سلسلے میں ڈاکٹر علی جاوید رقم طراز ہیں:

’’ اس نظم کے دوسرے اشعار کے ذریعے مجاز نے نوجوان خاتون کو مخاطب کرتے ہوئے جس بات کی آرزو کی ہے وہ بلا شبہ ترقی پسند ادبی تحریک کا مینی فیسٹو ہی نہیں بلکہ عورت کی عظمت کا اپنا تراشیدہ استعارہ ہے جس کا کوئی متبادل کم از کم اردو شاعری میں نہیں ملتا۔‘‘ مجاز حیات وخدمات۔ مرتبہ ڈاکٹر رضا حیدری، ص۔۸۹(علی جاوید)

مجاز کی شاعری میں گرچہ ہرجگہ حسن وعشق کا سایہ نظر آتا ہے مگر اسی سایہ میں ابتدا سے ہی انقلابی نعرہ اور فرسودہ اور جارحانہ رویوں سے بغاوت کے آثار ہر جگہ نمایاں ہیں۔ انقلابی تحریک میں عورت کی شخصیت کو ابھارنا ان کی شاعری کا اصل محوررہا ہے۔ اس لیے وہ ہر جگہ قوانین کی بیڑیاں توڑ کر ان سے شرکت کی درخواست کرتے ہیں۔ اس نوع کی معرکہ آرا نظموں میں نذر علی گڑھ، نورا، تعارف، شوق گریزاں، نذر خالدہ، پردہ اور عصمت، نوجوان خاتون سے وغیرہ شامل ہیں۔ اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے ’’آل احمد سرور‘‘ فرماتے ہیں:

’’اس نے نوجوانوں کے عزم اور سرفروشی ولولۂ حیات قلندرانہ آن بان جرأت رندانہ اور شوق بیباک کو حسن کے غازے کے طور پر نہیں چمن حیات کی حیا بندی کے لئے بھی استعمال کیا ہے۔ ایک طرف وہ نوجوانوں میں ایک مجاہدانہ جوش پیدا کرنا چاہتا ہے دوسری طرف خواتین کو بھی رزم گاہ حیات میں شرکت کی دعوت دیتا ہے۔‘‘

 مجاز سوانح شخصیت اور شاعری۔ محمد حسین دیپک، ص۷۱

اس طرح مجاز کی شاعری اپنی انفرادیت کو برقرار رکھتے ہوئے اس عہد کی سیاسی اور سماجی مسائل اور ترقی پسند موضوعات سے پور ی  طرح  ہم آہنگ ہے۔ ان کے یہاں رومان اور انقلاب کا حسین امتراج ہے جو بعض دوسرے معاصر شعراء میںانھیں ایک الگ پہچان بناتی ہے۔ اس طرح کی نظموں میں اندھیری رات کا مسافر، مزدوروں کا گیت، انقلاب، خواب سحر، ، سرمایہ داری، ، آوارہ ، خانہ بدوش وغیرہ کو بے حد مقبولیت حاصل ہے۔ مثال کے طور پر سرمایہ داری کے یہ اشعار دیکھئے:

یہ وہ آندھی ہے جس کی رَو میں مفلس کا نشیمن ہے

یہ وہ بجلی ہے جس کی زد میں دہقاں کا خرمن ہے

یہ اپنے ہاتھ میں تہذیب کا فانوس لیتی ہے

مگر مزدور کے تن سے لہو تک چوس لیتی ہے

یہ انسانی بلا خود خون انسانی کی گاہک ہے

وبا سے بڑھ کے مہلک، موت سے بڑھ بھیانک ہے

اپنے کلام میں انقلابی رنگ وآہنگ پیدا کرنے کے لئے مجاز نے جو اسلوب اختیار کیا ہے وہ رومانی طرز بیان اور غنائیت ہے۔ ان کے کلام میں نرمی وگداز، لہجے کی سوز اور عمدہ اور توانا تخیل موجود ہے۔ وہ ہر طرح کے مضامین میں اثر آفرینی پیدا کرنے کا اچھا ہنر جانتے ہیں۔ نادر تشبیہوں اور علامتوں کا استعمال ان کے انقلابی مزاج میں غنائیت اور دُھن کا جذبہ پیدا کردیتا ہے۔ اس حقیقت کا اندازہ مندرجہ ذیل اشعار کی قرأت سے کیا جاسکتا ہے۔

وہ اک مضراب ہے اور چھیڑ سکتی ہے رگ جاں کو

وہ چنگاری ہے لیکن پھونک سکتی ہے گلستاں کو

وہ بجلی ہے جلا سکتی ہے ساری بزم امکاں کو

ابھی میرے ہی دل تک ہیں شرر سامانیاں اس کی

زباں پر ہیں ابھی عصمت و تقدیس کے نغمے

وہ بڑھ جاتی ہے اس دنیا سے اکثر اس قدر آگے

مرے تخیل کے بازو بھی اس کو چھو نہیں سکتے

مجھے حیران کر دیتی ہے نکتہ دانیاں اس کی

نظم کس سے محبت ہے؟

سرشار نگاہ نرگس ہوں پابستۂ گیسوئے سنبل ہوں

یہ میرا چمن ہے میرا چمن ہے، میں اپنے چمن کا بلبل ہوں

ہر آہ یہاں صہبائے کہن اک ساغر نو میں ڈھلتی ہے

کلیوں سے حسن ٹپکتا ہے پھولوں سے جوانی ابلتی ہے

جو طاق حرم میں روشن ہے وہ شمع یہاں بھی جلتی ہے

اس دشت کے گوشے گوشے سے اک جوئے حیات ابلتی ہے

اسلام کے اس بت خانے میں اصنام بھی ہیں اور آذر بھی

تہذیب کے اس میخانے میں شمشیر بھی ہے اور ساغر بھی

ہر شام  ہے شام مصر یہاں ہر شب ہے شبِ شیراز یہاں

ہے سارے جہاں کا سوز  یہاں اور سارے جہاں کا ساز یہاں

جو ابریہاں سے اٹھے گا وہ سارے جہاں پر برسے گا

ہر جوئے رواں پر برسے گا ہر کوہِ گراں پر برسے گا

(نذر علی گڑھ)

مندرجہ بالا اشعار سے مجاز کا علی گڑھ سے ذہنی لگاؤ اور قربت کا بخوبی اندازہ ہوتاہے۔ اس نظم کی قدرومنزلت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آج بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ترانے میں شامل ہے اور خوبصورت دھن کے ساتھ گایا جاتا ہے اور انشاء اللہ جب تک یہ ادارہ قائم رہے گا اس کی قدرومنزلت یوں ہی برقرار رہے گی۔ اور مجاز کی یادیں نوجوان ذہنوں کو تازہ کرتی رہیں گی۔ بحر کیف مجاز کی شاعری سوز، تڑپ، آہنگی اور حقیقت نگاری کے ساتھ انقلابی مزاج کا طرۂ امتیاز ہے۔ اور اس انقلابی فکر میں عورت کا تصور پیش پیش ہے۔ یہی وہ اہم خوبی ہے جو انہیں ترقی پسند شعراء کی بھیڑ میں منفرد شناخت دلاتی ہے۔

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.