بلونت سنگھ کے افسانوں میں تقسیم ہند کا المیہ

تقسیم ہند اپنی نوعیت کے ا عتبار سے بر صغیر کا ایک بہت بڑا سانحہ ہے ۔جہاں ایک طرف آزادی تو ملی وہیں دوسری طرف ہندوستان اور پاکستان کے نام سے دو ملکوں کا بٹوارہ بھی عمل میں آیا، گویاتقسیم ہند ایک المیہ بن کر سامنے آیا۔صدیوں کی اخوت و محبت اوربھائی چارگی میں درار پڑ گئی۔مذہب کے نام پر ہر طرف خون کی ہولی کھیلی گئی،فرقہ وارانہ فسادات کا بازار گرم ہوا،لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبورہو گئے،ظلم وبربریت اپنے انتہاپر تھی۔ ہزاروں عورتوں کے سہاگ اجاڑ دیے گئے،لاکھوں معصوم بچیوں اورعورتوں کو ہوس کا شکار بنایا گیا۔بعض اپنی عزت و عصمت کے خاطر کنویں میں کود کر جان دے دیں ۔تقسیم ہند کے سبب برپا ہوا یہ عمل اتنا درد ناک ہے کہ تاریخ کے اوراق آج بھی مرثیہ خواں ہیں ۔

     تقسیم ہند سے رونما ہوئے حادثات نے ہند و پاک کے تمام ادیبوں کو متاثر کیا اور ا نھوں نے فسادات وہجرت سے متعلق پیدا ہونے والے مسائل،مہاجر کیمپوں کے حالات،اغوا شدہ عورتوں کو دوبارہ بسانے کے مسائل،فسادیوں کے دلدوزمظالم وغیرہ جیسے موضوعات پر خامہ فرسائی کی، جن میں سعادت حسن منٹو،کرشن چندر،راجندر سنگھ بیدی،حیات اللہ انصاری،قدرت اللہ شہاب،خواجہ احمد عباس،عصمت چغتائی، قرۃالعین حیدر اور انتظار حسین وغیرہ خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں ۔

     تقسیم ہند کے باعث پیدا ہوئے مسائل پر لکھنے والوں میں بلونت سنگھ کا نام بھی اہمیت کا حامل ہے۔۱۹۳۸ میں انکا پہلا افسانہ’’سزا‘‘ رسالہ ’’ساقی‘‘ میں شائع ہوااور یہیں سے ان کی افسانہ نگاری کا آغاز ہوتا ہے۔انھوں نے اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں کہانیاں لکھیں ،اردو میں ان کے چھ افسانوی مجموعے منظر عام پرآکرداد وتحسین حاصل کر چکے ہیں ،اس کے علاوہ تین اور مجموعوں کے نام ملتے ہیں جو ابھی تک دستیاب نہیں ہو سکے ۔ابتدائی دور میں لکھے گئے افسانے فنی اعتبار سے کمزور نظر آتے ہیں لیکن رفتہ رفتہ پختگی اختیار کرتے گئے ۔

     تقسیم ہند کے متعلق بلونت سنگھ نے ’’پہلا پتھر‘‘،’’کالے کوس‘‘،’’لمحے‘‘،’’ویبلے ۳۸‘‘اور’’ تعمیر‘‘جیسے افسانے لکھے ۔ یہ تمام افسانے ان کے افسانوی مجموعے’’پہلا پتھر‘‘ میں شامل ہے ،جودسمبر۱۹۵۳ میں ’مکتبہ جدید لاہور‘ سے شائع ہوا ۔ افسانہ’کالے کوس‘ فساد زدہ حالات کی کہانی ہے باقی افسانے فساد کے مابعد پیدا شدہ دیگر مسائل کے ترجمان ہیں اوریہ کہانیاں محض فسادات کے اثرات کوبیان نہیں کرتیں بلکہ چند اور اہم نکات کی طرف بھی توجہ مرکوز کراتی ہیں ۔

      ’’کالے کوس‘‘ فسادات کے موضوع پر ایک بہترین افسانہ ہے،جس میں بلونت سنگھ نے انسان دوستی کی ایک عمدہ مثال پیش کی ہے۔غلام عرف گاماں جواپنے پریوار(جس میں ماں ،بیوی اور بہن شامل ہیں ) کے ساتھ مشرقی پنجاب سے مغربی پنجاب(موجودہ پاکستان) کی طرف کوچ کرنے پر مجبور ہے۔اس ناسازگار حالات میں جہاں ہر طرف دشمنوں کا خوف اور ہر پل جان جانے کا خطرہ لاحق ہو ایسے میں گاماں کا دوست پھلورسنگھ ان کی مددکرتا ہے۔پھلور سنگھ ان لوگوں کو راتوں رات ایک گائوں سے دوسرے گائوں چوری چھپے پہنچا دیتاتھا،اسی طرح تین دن بعد یہ پریوار بچتے بچاتے پاکستان کی سرحد تک پہنچ جاتا ہے البتہ گاماں کوجہاں صحیح سلامت پاکستان پہنچ جانے کی خوشی ہے وہیں اپنے دوست پھلور سنگھ اور مادرِوطن سے دورہونے کا دردبھی ہے جو اس طرح بیان ہوا ہے:

’’گامے کی باچھوں میں سے ہنسی پھوٹی پڑتی تھی۔گھوم کر کہنے لگا۔’اماں !ہم پاکستان پہنچ گئے ہیں ۔‘‘

معصوم عورتوں نے رک کر نظریں اِدھر ٰادھر دوڑائیں اور دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا۔

     گامے نے قدرے توقف کے بعدجھک کر دونوں ہاتھوں میں کھیت کی بھربھری مٹی لی اور اسے اپنے چہرے کے قریب لے آیا۔چند لمحوں تک اسے غور سے دیکھتا رہا،دبا کر اس کے لمس کو محسوس کیا،ہوا کو سونگھا،پھر سر گھما کر طویل و عریض جا ل کی مانندپھیلی ہوئی کھیتوں کی مینڈھوں پرنگاہ دوڑائی جو ایک دوسرے کو کاٹتی چھانٹتی افق تک چلی گئی تھیں …

     اس کے چہرے پر سنجیدگی کے آثار پیدا ہونے لگے۔

     پھر اسے احساس ہوا کہ پھلورا اس کے ساتھ نہیں ہے۔پھلورادوکھیت پرے دھندلی چاندنی میں اڑیل ٹٹو کی زمین پر پائوں جمائے کھڑا تھا۔

     چند لمحوں تک وہ سب چپ چاپ اس کی جانب دیکھتے رہے۔‘‘ ۱؎

     ایسے حالات میں جہاں نفرت کی آگ چاروں طرف پھیلی ہوئی ہو، فرقہ واریت اپنی انتہا پر ہو،ظلم و زیادتی کا دور دورہ ہوبلونت سنگھ،پھلور سنگھ جیسے کردار کو تلاش کر لیتے ہیں جو اپنی جان کو جوکھم میں ڈال کر ایک مسلم خاندان کو بچاتا ہے۔یہ افسانہ ہندوستانی مٹی کی اس خصوصیت کو اجاگر کرتا ہے جس میں اخوت،رواداری اور انسانیت اس کے خمیر میں شامل ہے۔ صدیوں کے رشتے لمحوں میں ٹوٹ نہیں سکتے۔

      ان کادوسرا افسانہ ’ویبلے ۳۸‘ مذہبی ریاکاری کی کہانی ہے،جس میں بلونت سنگھ نے انسانی چہرے کے تلخ تضاد کو پیش کیا ہے ،جو مذہب کا چولا پہن کرمعصوموں کا خون چوستے ہیں اور ان کے غم گسار ہونے کا دم بھرتے ہیں ۔افسانے میں سردار بدھ سنگھ جوفساد میں بھاگتے ہوئے مسلمانوں کی جائداد کوکوڑیوں کے دام خرید لیتا ہے اور مغربی پنجاب کی جانب سے آئے ہوئے شرنارتھیوں سے زیادہ داموں میں فروخت کر خوب منافع کماتا ہے۔ انھیں شرنارتھیوں میں ایک خاندان بساکھا سنگھ کا بھی تھا جو مغربی پنجاب کے ضلع لائلپور کا ایک معمولی زمین دار تھا۔ایک دن بستی کے گرودوارے میں بساکھا سنگھ کی ملاقات بدھ سنگھ سے ہوتی ہے،جو اپنے کردار وگفتار سے بہت بڑا سنت نظر آتا تھا۔اس کی شخصیت سے متاثر ہوکر اور کچھ اپنے فائدے کے عوض بدھ سنگھ کے یہاں آمد ورفت جاری رکھی۔بساکھا سنگھ اپنے مصائب بدھ سنگھ کو بتاتاتوبجائے کچھ مدد کرنے کے کہتا’’بساکھا سنگھ جی ! پاٹھ کیا کرو‘‘چنانچہ بساکھا دن رات پاٹھ کیا کرتا،مشکل حل نہ ہونے پر بساکھا پھر وہی سوال دہراتا جواب ملتا ،’’گرودوارے جایا کرو۔سارے پریوار کو لے کر جایا کرو۔‘‘بساکھا گرودوارے جاناکیا بلکہ پورے پریوار سمیت گرودوارے کا طواف کرنے لگا،بالآخر نتیجہ صفر ہی رہا۔ اپنی تنگ دستی اور خستہ حالی سے پریشان بساکھا سنگھ ایک روز گھومتے گھامتے شام کے وقت بدھ سنگھ کے گھر پہنچتا ہے،’’ست سری اکال‘‘ کے نعروں کے ساتھ ملاقات ہوتی ہے۔اسی اثناء میں بدھ سنگھ ایک پستول ’’ویبلے۳۸‘‘ دکھاتا ہے اور پستول کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ آج ہی محض چودہ سو میں خریداہے جوو یبلے کمپنی کا بنا ہوا ،۳۸ بور کا ہے۔پستول کا جائزہ لینے کے لئے بساکھا سنگھ اسے ہاتھ میں لیتا ہے اور اسکی لبلبی پر انگلی رکھ دیتا ہے اور یہیں سے افسانے میں ایک نیا موڑپیدا ہوتا ہے۔بساکھا سنگھ کہتا ہے:

’’اب مذہب صرف دو رہ گئے ہیں ۔ ایک دوسروں کا خون چوسنے اورانھیں لوٹنے والوں کا مذہب اور دوسرا اپنا خون دینے والوں اور لٹنے والوں کا مذہب۔اس کے علاوہ اور کوئی مذہب نہیں ہے۔آپ سمجھے…آپ نہ معلوم کون سی گیان دھیان کی باتیں کرتے ہیں …وہ باتیں میری سمجھ میں بالکل نہیں آتیں …شاید اس لئے میں بھوکا ہوں ،میرے بچے بھوکے ہیں ،میری بیوی بھوکی ہے…میں زندگی کی چھوٹی چھوٹی ضرورت کے لئے ترستا ہوں …۔‘‘     ۲؎

     بساکھا کے اس انداز کو دیکھ کرسردار بدھ سنگھ گھبرا کر چارپائی سے اٹھتا ہے کہ تپائی کودھچکا لگتا ہے اور اس پر رکھی لمپ نیچے گر جاتی ہے جس کی وجہ سے غالیچہ میں آگ لگ جاتی ہے،بدھ سنگھ کو باہر جانے کا راستہ نہیں ملتا کیوں کہ راستے میں بساکھا سنگھ کھڑا رہتا ہے اور آگ بھڑکتی چلی جاتی ہے اورافسانے کایہیں پر اختتام ہو جاتا ہے ۔بلونت سنگھ نے بساکھا سنگھ کو مذہبی استحصالی روا رکھنے والوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والے کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس افسانے کے فن کے بارے میں وارث علوی یوں رقم طراز ہیں :

’’بلونت سنگھ نے بہت ہی دلچسپ لیکن تلخ تضاد پیش کیا ہے۔بدھ سنگھ کالے کرتوتوں سے دھن کماتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ اس کی پوجا پاٹھ کا پھل ہے۔دھن میں سے وہ بساکھا سنگھ کو کوڑی نہیں دیتا،لیکن جاپ،پاٹھ اور دعائوں پر اسے لگا دیتا ہے جس سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔قدرت اندھے کی طرح ریوڑیاں بانٹتی ہے اورست نا م کا جاپ کرنے والے اپنے معبود سے جا ملتے ہیں اور بیٹیاں کنواری کی کنواری گھر میں دھری رہ جاتی ہیں ۔آرٹ کی یہی خوبی ہے کہ وہ ایک تضادسے،ایک اشارے اور ایک کنایہ سے حقیقتِ حال کو سامنے لے آتا ہے اور ان اداروں کے کھوکھلے پن کو بے نقاب کر دیتا ہے۔‘‘ ۳؎

     تقسیم کے تناظر میں لکھا گیا ’پہلا پتھر‘ ایک طویل افسانہ ہے،جو دس ابواب پر محیط ہے۔اس افسانے کا موضوع انسان دوستی و ہمدردی ہے،جس میں پسماندہ طبقے کے سماجی ،معاشی اور اخلاقی زندگی کے تضاد کو پیش کیا گیا ہے ۔اس افسانے کے زیادہ تر کردار جنسی بے راہ روی کے شکار ہیں حتیٰ کہ بلونت سنگھ اس افسانے کی شروعات ہی انجیل کی ایک روایت سے کرتے ہیں ،جس میں ایک عورت بدکاری کرتی ہوئی پکڑی گئی اور عیسیٰؑ کے قانون کے مطابق ایسی عورت کو سنگسار کرنا جائز ہے۔چنانچہ حکم صادر ہوا’’تم میں سے جس نے کوئی گناہ نہ کیا ہو،وہ پہلے اس کوپتھر مارے‘‘۔

     نکّی جو گھکی سے چھوٹی تھی اورسانولی سے بڑی ،گھکی کے شادی کے بعد وہ اس حویلی کی منظور نظر تھی لیکن نکّی کی منظور نظر تو پریس میں کام کرنے والا جل ککڑتھا۔نکی کے ساتھ بھی وہی حادثہ پیش آتا ہے۔ اس کے بھی پائوں بھاری ہو جاتے ہیں اور اس بدنامی سے بچنے کے لئے نکّی اچانک غائب ہو جاتی ہے اور کہیں کنویں میں چھلانگ لگا دیتی ہے۔سانولی جو کہ اندھی تھی اور جس کے بارے میں ایسا تصوربھی نہیں کیا جا سکتا تھا وہ بھی اس دلدل سے نہ بچ سکی اور امتحان دینے کی غرض سے آئے ہوئے کلدیپ سے نزدیکی بڑھ جاتی ہے ،جو کئی دنوں سے غائب ہے اور کافی دن گزرجانے کے بعدایک روز سانولی خود باجؔ کے کارخانے میں آ کر بتاتی ہے کہ کلدیپ اسے چھوڑ کر شہر چلا گیا ہے اور وہ اس کے بچے کی ماں بننے والی ہے اور پھرافسانہ یہیں سے دوسرا رخ اختیار کر لیتا ہے۔ باج ؔ کی شخصیت کا ایک نیا پہلو سامنے آتا ہے ،وہی باجؔ جوان لڑکیوں سے چھیڑچھاڑ کر دل بہلاتا تھا آج وہ سانولی کی بپتا سننے کے بعد اس کے متعلق پدرانہ محبت جاگ اٹھتی ہے اور اس کے لئے فکرمندہوجاتاہے۔اسی فکر میں دن بیتتے گئے کہ ایک دن دفعتاًسانولی نے دروازے پردستک دی اور گھبرائی ہوئی آواز میں آکر کہنے لگی کہ کلدیپ بابو آگئے ، کلدیپ کے آنے کی خبر سن کرکارخانے کے سبھی لوگ سانولی کی سنورتی ہوئی زندگی کو دیکھ کر خوش ہو جاتے ہیں اوریہیں کہانی اپنے اختتام کو پہنچتی ہے ۔اس افسانے پر تبصرہ کرتے ہوئے گوپی چند نارنگ رقم طراز ہیں :

’’پہلا پتھر بھی انسانی فطرت کے گھنائونے اور پست پہلوئو ں   کو سامنے لانے کے اعتبار سے بے مثال کہانی ہے۔بلونت سنگھ کے پورے افسانوی سرمائے میں اس نوع کی دوسری کہانی نہیں ہے۔’ویبلے۳۸‘ کی اپنی اہمیت ہے لیکن اس میں شاید ہی دو رائے ہو کہ’پہلا پتھر‘،’ویبلے۳۸‘ سے بڑی کہانی ہے۔تناظر یہاں بھی فسادات اور مذہب کا ہے،لیکن مسئلہ یہاں ہوس زر کا نہیں ،جنسی ہوس کا ہے جو فطرتاًمردانگی کا حصہ ہے۔اس سے یہ بھی کھلتا ہے کہ جبر فقط طبقاتی نوعیت نہیں رکھتا۔جبر کے کئی چہرے ہیں ۔ان میں سے ایک چہرہ مردانگی کا بھی ہے جومعاشرتی طور پر عورت کے خلاف جبر کو ہمیشہ روا رکھتا ہے۔ مذہب فقط آلہ کار ہے،وہی مذہب جس کو دوسرے فرقے کی عورتوں کی عصمت دری اور آبروریزی کا جواز بنایا جاتا ہے،لیکن خود اپنے فرقے میں مسئلہ ہوس کا ہو تووہی مذہب بالکل بے معنی ہو جاتاہے اور استحصال کی نوعیت جوں کی توں رہتی ہے۔‘‘          ۴؎

     افسانہ’’ تعمیر‘‘ایک ایسے نوجوان مرد کی کہانی ہے جو تقسیم سے پہلے سیالکوٹ میں تجارت کرتا تھا۔تقسیم کے بعد ہوئے فساد میں اس کی بیوی اور بچے مارے جا چکے ہیں ،ایک روز جنسی آسودگی کے خاطروہ کسی ہوٹل میں جاتا ہے اور اس کے ساتھ جس لڑکی کا سودا ہوتا ہے ،وہ لڑکی کمرے میں داخل ہونے کے بعد پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی ہے۔جب مرد نے دریافت کیا تو اس نے اپنی بپتا بیان کرتے ہوئے بتایاکہ فساد میں اس کے گھر کے سارے افرادمارے گئے صرف وہ بچ گئی یا بچا لی گئی جس کے بعد کئی بار اس کی عزت خراب کی گئی اور جب بھی اس کے بابت سودے بازی ہوتی ہے تو وہ اسی طرح روتی ہے۔اتناکہتے ہوئے وہ پھر رونے لگتی ہے۔ اس کے بعد ان دونوں میں جو مکالمہ ہوتا ہے وہ کافی اہمیت کا حامل ہے،جہاں بلونت سنگھ نے مذہب کے نام پر ہوئے بہیمانہ قتل وغارت گری پر طنز کیا ہے :

’’چند منٹ کے بعد اس نے پھر لڑکی کی جانب دیکھا کہ وہ سر نیہوڑائے نظریں فرش پر گاڑے ہے اور عمیق غور وفکر میں ڈوبی ہوئی ہے۔

تم کیا سوچ رہی ہو؟ وہ چپ رہی۔ تم چپ کیوں ہو؟

’کچھ نہیں ‘ لڑکی نے بے کیف آواز میں جواب دیا۔ ـ’یونہی بیتے دنوں کو یاد کررہی ہوں ۔اپنی زندگی کا وہ آغاز اور یہ انجام دیکھ کر دل ڈوبا جاتا ہے۔‘

…اورشاید اسی سلسلے میں تم یہ بھی سوچ رہی ہوکہ یہ سب قتل و غارت اس لئے ہوا کیونکہ سب کے سروں پر شیطان کا سایہ مسلط تھا۔ ’جی ہاں ‘ لیکن یہ غلط ہے۔

لڑکی نے قدرے متعجب ہو کر اس کی جانب دیکھا۔

     چندے تامل کے بعد مرد نے پھر سلسلہ کلام جاری کیا۔’’درحقیقت یہ سب کچھ نیکی کی خاطر پیش آیا ہے۔مرنے والے نیکی کی راہ میں مرے ہیں اور مارنے والوں نے اللہ ہو اکبر،بم بم بھولے اور ست سری اکال کے نعروں کے شور میں قتل کیے ہیں ۔مجھے تو اس میں ناپاکی کا شائبہ تک نظر نہیں آتا۔یہ درست ہے کہ قتل ہوتے وقت مرنے والوں کو تکلیف ضرور ہوئی ہوگی،لیکن اب…اب تو وہ لوگ یقینا بہشت میں حور وغلمان سے دل بہلا رہے ہوں گے یا سورگ میں گوکل کی کنہیا کی بنسری کی لے پر مسرور وشاداں ہوتے ہوں گے یا ان کی روحیں ننھے منے رنگین پرندوں کے روپ میں سورگ کے سر سبز و شاداب درختوں کے پانی کے چشموں پر جھکی ہوئی نازک شاخوں پر جھولنا جھولتی ہوں گی… سمجھیں ۔‘‘           ۵؎

     لڑکی مرد کی فلسفیانہ باتوں کو نہیں سمجھ پاتی اور ایک کونے میں بپھری بیٹھی رہی ،اس کے اس ناچار حالات سے واقفیت کے بعد مرداسے اپنانے کا فیصلہ کر لیتا ہے۔بیدی کا افسانہ ’’لاجونتی‘‘ میں جہاں لاجو اغواہونے کے بعدکچھ دن کہیں اور رہ کر واپس آئی ہے توسندر لال اسے دیوی کا درجہ تو دے دیتا ہے ،لیکن اسے اپنانے میں تامل کرتا ہے وہیں بلونت سنگھ کے افسانے میں جس لڑکی سے جبراً پیشہ کرایا جارہاہے اس کے حالات کو سمجھنے کے بعد اسے اپنانے کافیصلہ کرتا ہے یہاں بلونت سنگھ بیدی سے آگے بڑھ جاتے ہیں اور انسانی شرف کا ایک اعلیٰ نمونہ پیش کرتے ہیں ۔

 بلونت سنگھ کا فسادات کے موضوعات پر لکھے گئے افسانوں کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے ہندوستان میں رونما ہوئے اس سانحہ کا نہ ہی سینہ کوبی کی اور نہ ہی کسی انتقامی جذبات یا تشدد کی پیشکش کی بلکہ تقسیم سے متاثرلوگوں کے تئیں انسانیت ، ایثار وقربانی کاسبق دیا ہے۔انسان کے مختلف چہروں سے روشناس کرایا ،کہیں ہوس ناکی ہے تو کہیں شفقت و ہمدردی،کہیں مکاری و عیاری ہے تو کہیں اخوت و جانثاری۔ افسانہ تعمیر کے کردار کی قلب ماہیت اعلیٰ قدروں کا احساس دلاتا ہے اور قاری ایک قسم کی طمانیت محسوس کرتا ہے اور یہی اچھے ادب کی پہچان بھی ہے کہ وہ کسی نہ کسی جذبے کے توسط سے روح تک پہنچ جائے۔

حواشی

۱۔کلیات بلونت سنگھ،جلد سوم(کالے کوس)،ص۱۹۱

۲۔کلیات بلونت سنگھ،جلد سوم(ویبلے ۳۸)،ص۲۱۸

۳۔رسالہ ’’آج کل‘‘بلونت سنگھ نمبر،نئی دہلی،جنوری ۱۹۹۵،ص۳۶

۴۔بلونت سنگھ کے بہترین افسانے،گوپی چند نارنگ

۵۔کلیات بلونت سنگھ،جلد سوم(تعمیر)ص۲۵۸

……………

محمد رضوان انصاری

(ریسرچ اسکالر) شعبہء اردو

مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد500032

ای۔میل:ansarizwan092@gmail.com

موبائیل:7207131926/ 8808157195

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.