تانیثیت : نظریات ،مغربی تناظر ات

تانیثیت کی خشت اول کا سراغ مغرب میں ملتا ہے اس لیے تانیثیت کے تصور اور فلسفے کے مبادیات سمجھنے کے لیے مغربی حوالوں کو کھنگالنا ہوگا ۔تبھی اس کی اصل اور ابتدا کے ساتھ اس کے ارتقا ئی سفر سے واقفیت ہوگی ۔ حقوق نسواں پر مبنی ایک سیاسی اور معاشی ’رجحان‘ نے بعد میں ’’ تانیثیت‘‘ کی تحریک کی شکل اختیار کر لی ۔گزرتے وقت کے ساتھ اس تحریک میں اتنی وسعت آ گئی کہ اس نے تمام شعبۂ حیات میں عورت کے مقام و مرتبہ کی بازیافت کر نا شروع کردیا۔سماج میں موجودصنفی تفریق پر مبنی قدیم مسلمات اور روایات پر سوالیہ نشان قائم کیا۔عورت کے تعلق سے سماج کے دوہرے رویے کو موضوع بنایا ۔عورت کی تلاشِ ذات سے اظہار ذات تک کے سفرکو تانیثی تحریک نے ایک جہت عطا کی۔

تانیثیت نے اتنے مسائل اور اتنی جہات کواپنے اندر جذب کرلیا ہے کہ اس کی ایک جامع تعریف کرنا بھی مشکل ہے ۔Feminist Frameworks: Building Theory against Violence on women کی مرتبہ لیزا ایس پرائس(Lisa s.Price)فیمنزم کی تعریف کرتے ہوئے لکھتی ہیں ۔

ٖFeminism is also a method of analysis ,a standpoint,a way of looking at the world from the Prospective of Women.It Questions govenrment Policies ,Popular culture,ways of doing and being,and asks how women’s lives are affected by these ideological and institutional practices”

(Feminism: P:1,Arpita Mukhopadhyay,Orient Blackswan 2016)

فیمنزم، تجزیہ کا طریقہ کار ہے، ایک نظریہ ہے اور دنیا کوعورت کی نظر سے دیکھنے کا طریقہ ہے ۔فیمنزم حکومتی پالیسی ،مقبول عام ثقافت ،عمل اور وجود کے حوالے سے سوالات قائم کرتی ہے ۔ان نظریات اور ادار ہ جاتی اعمال کے باعث عورت کی زندگی پر کیا اثر ہوتا ہے اس سے بھی بحث کرتی ہے ۔‘‘

 فیمنزم (Feminisim)کا لفظی اطلاق و استعمال پہلی دفعہ۱۸۷۱میں میڈیکل سائنس میں ہوا تھا ایک مرد مریض کے جسم میں موجود نسائی علامتوں کے بیان کے لیے Feminisation کا لفظ استعمال کیا گیا تھا۔۱۸۷۲میں الیگزینڈر ڈوماس(Alexander Dumas) نے ایک پمفلٹ میں مردانہ خصوصیات کی حامل ایک عورت کے لیے I’homme femmeاستعمال کیا تھا۔1910کے بعد سے یورپ میں feminismکے لفظ کا چلن ہوا۔اس اصطلاح پر بحث کرتے ہوئے ارپتا مکھو پادھیائے لکھتی ہیں ۔لفظ Feminismدو اجزا سے مل کر بناہے ۔فرانسیسی لفظ Femmeجس کے معنی عورت کے ہیں اور esmeجو کہ سماجی تحریک یا سیاسی نظریے پر دلالت کرتا ہے۔

 تاریخی اعتبار سے فیمنزم کے بدلتے رجحانات اور تحریکات کی درجہ بندی کے لیے ماہرین نے اسے تین ادوار میں تقسیم کیا ہے ۔

پہلا دور ؛ انیسوی صدی اور بیسوی صدی کے اوائل (اس دور میں خواتین مردوں کے مساوی حقوق کے لیے بر سر احتجاج رہیں ۔دوسرے لفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس عہد کی تحریک بس نسائی تحریک تھی جس میں قانونی او ر سیاسی حقوق کے لیے عورتوں نے مزاحمت کی ۔)

دوسرا دور:۱۹۶۰ سے ۱۹۷۰ تک (اس دور میں عورتوں نے ملازمت کرنے ،گھر میں اپنے رول کے تعین ،اور جنسیت کے علاوہ سیاسی حقوق کی لیے جد وجہد کی ۔)

تیسرا دور : ۱۹۹۰ سے اکیسویں صدی کے اوائل تک

 اب اکیسویں صدی کے دوسرے دہے میں نسائی حقوق کے لیے جس قدر آگہی عام ہو رہی ہے اور سوشل میڈیا کے علاوہ مختلف سرگرمیوں سے حقوق نسواں کے لیے بیداری پائی جاتی ہے اسے چوتھے دور کا آغاز مانا جا سکتا ہے ۔۱۶ دسمبر۲۰۱۲ کو دہلی میں ایک وحشیانہ عصمت دری کے واقعے کے بعدفیس بک،ٹویٹر،انسٹاگرام،ٹمبلر جیسے سوشل میڈیاپلیٹ فارم سے عورتوں کے ساتھ جنسی تشدداور جنسی استحصال کے خلاف آواز بلند کرنے اور حقوق نسواں کی بحالی کے لیے مہم کے آغاز کو تانیثیت کا چوتھا دور کہا جا سکتا ہے۔

مغرب میں تانیثیت کی تحریک کیسے وجود میں آئی اس کے لیے فرانس اور انقلاب فرانس کے بعد کی کچھ سرگرمیوں کا ذکر ضروری ہے ۔۱۷۹۱میں فرانس کی قومی اسمبلی میں چارلس موریس نے صنفی بھید بھاو پر مبنی ایک تعلیمی خاکہ پیش کیا تھا۔جس میں  عام تعلیم کا حق مردوں کے ساتھ مخصوص کیا گیا اورعورتوں کے لیے فقط گھریلو بنیادی تعلیم کی تجویز رکھی گئی۔ اس کے جواز کی دلیل یہ دی گئی کہ مرد کو دنیا سنبھالنی ہے اس لیے مرد کو اعلیٰ تعلیم کی ضرورت ہے جب کہ عورت گھر گرہستی سنبھالتی ہے لہذاان کے لیے گھریلو اور بنیادی تعلیم کافی ہے ۔فرانس میں ہی مقیم ایک برطانوی خاتون میری وال اسٹون کرافٹ نے چارلس مورس کی اس رپورٹ کے رد میں  ۱۷۹۲ میں  A vindication of the Rights of Womenکے عنوان سے ایک پمفلٹ لکھا ۔وال اسٹون کرافٹ نے عورتوں کو تعلیم کاحق دیے جانے کی وکالت کرتے ہوئے کہا ہے کہ عورت اپنے شوہر کی فقط بیوی ہی نہیں بلکہ عورت بھی سماج اور ملک کا لازمی حصہ ہے ۔ عورت کو معاشرے کا قیمتی زیور اور شادی میں بیچ دی جانے والی جائداد کی بجائے انسان سمجھنا چاہیے اور بحیثیت انسان ان کے بنیادی حقوق انہیں ملنے چاہیے ۔

 میری وال اسٹون کرافٹ کی ایک کتاب A Vindication of the Rights of Men بھی ہے جو کہ ایڈمنڈ برک کی ایک تحریر کے جواب میں لکھی گئی ہے اور دوسری کتاب A Vindication of the Rights of Women ہے جو چارلس موریس کی رپورٹ کے رد عمل میں لکھی گئی ہے ۔میں اس وضاحت اور تفصیل پر اس لیے زور دے رہاہوں کیوں کہ اردو ناقدین نے کئی مضامین میں A Vindication of the Rights of Women کوایڈمنڈ برک کی تحریر کا جواب بتایا ہے اور یہ بھی کہ ایڈمنڈ برک نے A Vindication of Rights of Men نام سے کتاب لکھی تھی جب کہ ایڈمنڈ برک کی کتاب کا نام ہےReflection on the Revolution in france ۔ ایڈمنڈ برک نے اپنی کتاب میں یہ نظریہ پیش کیاتھا کہ انقلاب درست نہیں اور عام شہریوں کو حقوق حاصل نہیں ۔ اس لیے وال اسٹون کرافٹ نےA Vindication of the Rights of Men لکھ کر عام شہریوں کے حقوق کی وکالت کی اور انقلاب کو درست ٹھہرایا ۔پروفیسر عتیق اللہ او ر پروفیسر انور پاشا کے مضامین میں بھی یہ غلط فہمی نظر آئی (ان دونوں کے مضامین بالترتیب ’’بیسویں صدی میں خواتین اردو ادب‘‘ اور’’ تانیثیت اور ادب‘‘ میں شامل ہیں )۔

وال اسٹون کرافٹ کے علاوہ جن لوگوں نے تانیثی تحریک کے لیے بنیاد فراہم کی ان میں امریکی ادیب مارگریٹ فلراور جان اسٹورٹ مل کے نام اہمیت کے حامل ہیں ۔انیسویں صدی میں عورتوں کی صورت حال پر بحث قائم کرتے ہوئے امریکی صحافی مارگریٹ فُلر نےWoman in the Nineteenth Century لکھی جوپہلی بار ۱۸۴۳ میں شائع ہوئی ۔ حقوق نسواں کی آواز کی حمایت کسی مرد ادیب /مصنف کی جانب سے پہلی بار۱۸۶۹ء میں ہوئی ، جب جان اسٹورٹ مل کی کتاب The Subjection of Woman شائع ہوئی ۔جان اسٹورٹ مِل(1806-73) ایک برطانوی فلسفی ،مفکر اور ادیب ہیں جنہوں نے انیسویں صدی کے چھٹے عشرے کے دوران برطانیہ میں حقوق نسواں کی آواز کی حمایت کی اور مذکورہ کتاب کے ذریعے اس کی فلسفیانہ اساس پر بھی گفتگو کی ۔مِل نے سماج میں عورتوں کو مساوری رتبہ دینے کا ترقی پسند نظریہ پیش کیا۔مل نے ایسے سماجی اور قانونی اصول کی سخت تنقید کی جن سے سماج میں عورتوں کی آزادی پر قدغن لگتی ہے۔ مل نے اپنی تحریروں میں مرد اساس رویے میں تبدیلی لانے کی ضرورت پر زور دیااورشادی کے ذریعے عور ت کو محکوم یا مملوک بنانے کی بجائے انہیں زندگی کے ہر موڑ پر برابر کا شریک سمجھنے کی وکالت کی ۔

۱۸۴۸ میں نیو یارک کے Sceneca fallsمیں پہلی مرتبہ چند باہمت خواتین اور مردوں نے حقوق نسواں کی بحالی کے لیے باضابطہ ایک میٹینگ کی ۔جس میں Declaration of Rights and Sentimentsکے عنوان سے ایک قرارداد پیش کی گئی۔اس قرارداد میں ایک طاقتورعورت کا تصور پیش کیا گیا جو وال اسٹون کرافٹ کی تحریروں میں ندارد تھی ۔ قرار داد پرد ستخط کرنے والوں نے یہ اعتراف کیا کہ ایک عرصے عورتوں کو مناسب تعلیم سے جان بوجھ کر محروم رکھا گیا جس کے باعث وہ ڈاکٹر اور وکیل جیسے دیگر اہم پیشوں سے سرے سے غائب ہیں ۔عورت کو سیاسی اداروں سے بھی باہررکھا گیا ہے اسی لیے انہیں ووٹ دینے کا بھی حق حاصل نہیں ہے ۔ان دنوں یہ تصور عام تھا کہ سیاست کے لیے ذہانت و فطانت درکار ہے جب کہ عورت قدرتی طور پر ذہانت و فطانت اور دانشوری سے محروم ہیں ۔

انیسویں صدی کے امریکہ میں غلامی کی روایت کے خاتمے کے لیےAbolitionist Movement بھی عروج پر تھی ،اس لیے حقوق نسواں کی جد وجہد کرنے والوں کو Abolitionist Movementسے بھی تقویت ملی ۔کیوں کہ مردوں کے جبر ، شوہر اور والد کی جانب سے عورتوں پر عائد پابندیوں کو غلامانہ زندگی کے مشابہہ ہی سمجھا جاتا تھا۔

امریکہ میں لوسی اسٹون (Lucy Stone)الزابیتھ کیڈی اسٹنٹون(Elizabeth cady stanton)اور سوزین بی (Susan .B)وغیرہ انیسوی صدی میں حقوق نسواں کی نمایاں علمبردار خواتین ہیں ۔1869میں لوسی اسٹونٹن نے جولیاوارڈ ہو(Julia ward howe)اور جوسفن رفین (Josephine Ruffin)کے ساتھ مل کر بوسٹن میں American Woman Sufferage Association کی بنیاد رکھی ۔لوسی نے ۲۰ سالوں تک ایک ہفت روزہ تانیثی رسالے کی ادارت بھی کی ۔الزابیتھ کیڈی اسٹنٹون ایک سرگرم Activist تھی ۔جو غلامی کے خاتمے کے ساتھ حقوق نسواں کے لیے بھی برابر کی جہد وجہد کرتی رہی ۔الزابیتھ نے مادریت کو عورت کی ایک عظیم ذمے داری مانا لیکن مادریت کی ذمے داری میں عورت کو مقیداور محدود کرنے کے سماجی رویے پر اعتراض کیا ۔ 1848میں عورتوں کو حق رائے دہی سے محروم کیے جانے کے خلاف ایک احتجاج اور مزاحمت کی قرارداد Decalaration of Sentiments تیار کرنے میں بھی الزابتھ کا اہم کردار تھا۔الزابتھ نے چرچ کے ذریعے عائد کیے گئے ان سماجی اور مذہبی رسوم ورواج کا بھی انکشاف کیا جو خاص طور سے عورتوں کے ساتھ جانب داری پر مبنی تھے ۔اسٹونٹن نے محسوس کیا کہ عورتوں کو مساوی حقوق اور سماجی توقیر سے محروم کیے جانے کی ایک وجہ چرچ کے ذریعے بائبل کی تعصب پر مبنی تشریح و تفسیر بھی ہے اس لیے اسٹونٹن نے 21 خواتین کی ایک ٹیم تشکیل کی اور ان کے ساتھ بائبل کی تفسیر و تشریح پر نظر ثانی کرکے دو جلدوں میں ’’خواتین کا بائبل‘‘(Woman’s Bible)شا ئع کیا۔جس میں بائبل کے وہ متون ہیں جو عورتوں سے متعلق ہیں یا عورتوں سے متعلق احکامات پر مبنی ہیں اس کے ساتھ ہی اس کی تفسیر بھی شامل کی گئی۔ اسٹونٹن نے خواتین کا بائبل مرتب کرکے یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ مذہبی کتب میں عورتوں کو ان کے حقوق سے محروم نہیں کیا گیا ہے بلکہ بائبل کی غلط تشریحات کے ذریعے چرچ نے عورتوں کو محروم کرنے کی کوشش کی ہے ۔

ورجینا وولف:

 تانیثیت کی ادبی نظریہ سازی میں ورجینا وولف کا نام ایک رہنما کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔پہلی عالمی جنگ کے بعد دنیا بھر میں سیاسی ،معاشی ،سماجی تبدیلیاں رونما ہونے لگی تھیں ۔برطانیہ بھی ان تبدیلیوں کا گہوارہ تھا ۔ہشت پہلو تبدیلیوں کی اس لہر میں ’عورت‘‘ کا مسئلہ بھی زیر بحث آیا۔ورجینا وولف کے مکمل ادبی کارناموں میں اس عبوری دور کی عکاسی نظر آتی ہے ۔وولف کی دو کتابوں A Room of One’s Own (1929)اور Three Guineas(1938)نے1960 نے بعد کے تانیثی مفکرین اور ادبا کو بھی بہت متاثر کیا ہے ۔وولف نے سماجی ،سیاسی ،معاشی اور ادبی یعنی ہر شعبۂ حیات میں عورت اور مرد کے درمیان تفاوت اور تفریق پر مبنی فکر ورجحان کو سرایت کرتے ہوئے پایا۔یہ صورت حال وولف سے پہلے اور بعد میں بھی قائم رہی۔وولف نے واضح کیا کہ گھریلوزندگی میں بیویوں اور بیٹیوں پر شوہروں اور والدوں کے تسلط سے لے کر عوامی زندگی میں تجارت ،قانون ،تعلیم اور مذہبی معاملات میں بھی عورتوں کو مردوں کی محکومی اور تابعداری تفویض کی گئی ہے ۔اسی طرح سامراجیت ،نوآبادیت اور فاشزم جیسے نظریاتی مباحث میں بھی عورت کا مقام مردوں سے ایک زینہ نیچے ہی ہے ۔عورتوں کو احساس کمتری میں مبتلا کرنے کے پیچھے کارفرما سب سے طاقت ور علّت مرد مرکوزیت (Patriarchy) ہے ۔وولف کا خیال ہے کہ طاقت و قوت کے عدم تواز ن اور مردوں کی حاکمیت و تسلط کا یہ نظام ادب میں بھی اپنی جگہ بنائے ہوئے ہے ۔وولف نے مردوں کے ادب کا گہرائی سے جائزہ لیا تو پایا کہ مردوں کے ادب میں عورت کی نمائندگی کم سے کم ہے اورجتنی نمائندگی دی گئی ہے اس میں بھی عورت کے کردار کو فعّالیت سے بھی محروم دکھایا گیا ہے ۔مرد ادیبوں کے اس رویے پر احتجاج جتانے کے لیے لیے وولف نے شیکسپیئر کی بہن(Judith Shakespeare) کا خیالی کردار وضع کر کے دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ قدرت نے شیکسپیئر کو اس کی بہن تحفے میں دی تھی لیکن عورت ہونے کی وجہ سے اس کی تخلیقی صلاحیتوں پر کسی نے توجہ نہیں دی ۔ نسائی چہرہ اور نسائی جسم نے اسے ادیب بننے نہیں دیا ۔وولف نے Androgynyکا بھی فلسفہ پیش کیا ۔Androgynyیونانی لفظ ہے جودو لفظوں کا مرکب ہے Andro یعنی مرداور gyneیعنی عورت ،مطلب یہ کہ ایسا فرد جس کے اندر مردانگی اور نسوانی دونوں خصوصیات موجود ہوں ۔وولف نے اس نظریے سے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ انسانی کلیت کی مکمل نمائندگی تبھی ہوگی جب لکھنے والا ،مرد اور عورت دونوں کی سوچ و فکر کا جامع ہو۔وولف نے جنسی ثنیوت کے نظریے کو خارج کرتے ہوئے کہاہے کہ مرد اور عورت کی تخلیق میں جسمانی تفاوت ضرور ہے لیکن ذہن ودانش کا جہاں تک معاملہ ہے اس میں کوئی تفاوت فطری اورپیدائشی نہیں ہے ۔

وورجینا وولف کی کتاب A Room of One’s ownتانیثی ادب کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے ۔یہ کتاب صنف ،جنس اور تانیثی تنقید کی ایک بنیادی متن سمجھی جاتی ہے ۔ورجینا وولف نے کیمبرج یونی ورسٹی میں عورتوں کو لیکچرز دیے تھے یہ کتاب انہیں  لیکچرزکا مجموعہ ہے ۔وولف نے اس کتاب میں اس بات پر زور دیا ہے کہ اگر کوئی عورت مصنف اور ادیب بننا چاہتی ہے تو اسے خود کفیل ہونا پڑے گااور اسے ایک علاحدہ رہائش بھی حاصل کرنی ہوگی تبھی وہ آزادانہ کچھ لکھ سکے گی ۔

Three Genieas میں ورجینا وولف نے عورتوں   کو بالخصوص تعلیم یافتہ عورتوں کی بیٹیوں کو ہدایت دی ہے کہ ایک ایسے سماج کی تعمیر و تشکیل کریں جس سے ’’ مرد مرکوزیت‘‘ کے ڈسکورس کو چیلنج کیا جاسکے ۔وولف نے اس کتاب میں ایسے احکام اور فتووں کی سخت مخالفت کی ہے جن کے باعث خاتون ادیبوں کو ادب کی شریعت سے باہر کر دیا جاتا ہے ۔وولف نے خاتون ادیبوں کی تخلیقات اور تصنیفات کی اہمیت اور قدر شناسی کے لیے خاتون ادیبوں کے گم شدہ متون کی تلاش اور اس کی تفہیم کے ساتھ تجزیے پر بھی زور دیاہے۔

Radical Feminism

فرانس میں عورتوں کو ووٹ کا حق 1944میں حاصل ہوا۔اس واقعے کے پانچ سال بعد 1949میں فرانسیسی مصنفہ سیمون دی بوائر (Simon de Beauvoir)کی کتاب The Second Sex شائع ہوئی ۔سیمون دی بوائر ایک مفکرہ تھی اور فلسفۂ و جودیت کے بانی سارتر کی بیوی تھی ۔اس کتاب نے سماج میں عورتوں کے رتبے پر نظر ثانی کی تحریک دی۔ کتاب کے معرض تصنیف میں آنے کے پیچھے عورتوں کے ساتھ ہونے والی نابرابری اور جبر و استحصال کی صورت حال ہے ۔عورتیں محض بچوں کی پرورش اور گھر داری میں مجبور و محبوس اور Gender Stereotypeمیں پھنسی ہوئی تھیں ۔انہیں معاشی ،سیاسی اور جنسی خود مختاری سے محروم رکھا گیا تھا اور محنت مزدوری کے کام میں بھی ان کے ساتھ بھید بھائوہوتا تھا۔ان تما م پہلوؤں  کو نظر میں رکھنے ہوئے سیمون دی بوائر نے فلسفہ وجودیت اور تاریخ کے مارکسی تجزیے کے نقطۂ نظر سے مختلف تنازعات اور مباحث پر گفتگو کی ہے۔

سیمون دی بوائر نے The Second Sex میں دو نکتے سے بحث کی ہے ۔

۱۔ عورت کو ہمیشہ ’غیر‘کے زمرے میں محدود رکھا گیا ۔

۲۔نسائیت مردوں کا گڑھا ہوا تصورہے ۔

سیمون دی بوائر کا خیال ہے کہ مرد مرکوز سماج میں نسائیت ہمیشہ سے ’’غیریت ‘‘ کے پردے میں مستور رہی ہے ۔کیوں کہ عوامی زندگی پراکثر مردوں کی بالا دستی رہی ۔مشہور زمانہ مقولہ ’’عورت پیدا نہیں ہوتی بلکہ بنا دی جاتی ہے ‘‘ (One is not Born,but rather, Becoms, a woman”)سیمون دی بوائر کی مذکورہ کتاب میں ہی ہے ۔سیمون دی بوائر کی کتاب اصلاً فرانسیسی زبان میں لکھی گئی تھی جسے بعد میں دنیا کی متعدد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ۔اردو میں کشور ناہید نے ’عورت مرد کا رشتہ‘‘ کے نام سے ترجمہ کیا ہے دوسرا ترجمہ یاسر جواد نے ’’عورت ‘‘کے نام سے ہی کیا ہے جو فکشن ہاوس لاہورسے۲۰۱۳ میں شائع ہوئی ہے ۔

Radical Femisim

 Radicalلاطینی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی Rootیعنی بنیاد کے ہیں اور چوں کہ Radical Feminist سماج میں موجود مسائل کو اس کی جڑ اور بنیاد سے اکھاڑنے میں یقین رکھتی ہے اس لیے ان معنوں میں یہ طبقہ اناث خود کو بنیاد پرست کہلاتا ہے ۔یہ تانیثیت کی دوسری لہر ہے ۔اس نظریے کے حاملین کا ماننا ہے کہ عورتوں کے ساتھ جبر کی وجہ مرد بالادستی اور مرد مرکوزیت کا عقیدہ ہے۔ جبر کایہ عمل کئی سطحوں پر رائج ہے ۔مثلاً عورت کی جنسیت پر پہرے بٹھانا،لازمی اور جبری طور پر عورت کو ماں بنانا،قدامت پسند نظریہ مباشرت(Noramativ heterosuxuality)پر اصرارکرنا وغیرہ۔

بنیادپرستانہ تانیثیت صنفی خطوط پر سماج کی تشکیل نو کے اصرارکے باعث لبرل اور مارکسی تانیثیت سے جدا گانہ ہے ۔بنیاد پرست تانیثیت کے قائلین کا ماننا ہے کہ زچگی ،محبت،شادی،جنسی عمل،اور گھریلو کام کاج کو بڑی ہوشیاری سے معمولات زندگی میں شمار کر لیا گیا ہے ۔

تانیثیت کی دوسری لہر کی مفکرین میں ایک نا قابل فراموش نام کیٹ ملیٹ (kate Millet)کا ہے ۔کیٹ ملیٹ کے مطابق صنفی عدم مساوات کی جڑیں مذہب ،سماج ،سیاست او ر معاشیات میں اس قدر پختہ ہیں کہ وہ ’’داخلی نوآبادیت ‘‘ کو جنم دیتی ہیں جس کے باعث طاقت کے استعمال واختیار میں عدم تواز ن کی راہیں ہموار ہوتی جاتی ہیں ۔کیٹ ملیٹ نے خیال ظاہر کیا ہے کہ عورت اور مرد کے درمیان طاقت کا رشتہ غالب و مغلوب ،حاکم ومحکوم کے طرز پر استوار ہو چکا ہے۔کیٹ ملیٹ نے یہ بھی وضاحت کی ہے کہ تذکیری تحریریں یعنی مرد مصنفین کی تحریریں ،مردوں کی مخصوص زبان Male Stereotypeپر مبنی ہیں ۔کیٹ ملیٹ نے مرد مصنفین کی تحریروں میں زن منافرت (Misogynism)کے مواد کی بھی نقاب کشائی کی ہے ۔ اس ضمن میں کیٹ نے سگمنڈ فرائڈ،ڈی ایچ لارنس،ہینری ملر،نورمین میلرجین زینٹ وغیرہ کی تحریروں میں عورت کی منفی تصویر کشی کی مثالیں بھی پیش کی ہیں ۔کیٹ نے عورت کو احسا س کمتری میں مبتلا کرنے کا ذمے دار فرائڈ جیسے ماہر نفسیات کو بھی قرار دیاہے۔Androgynyکے تعلق سے کیٹ کا نظریہ روایتی نظریوں سے مختلف ہے وہ صرف مردانگی اور نسوانیت کی خصوصیات(مثلاً اناپسندی اورخود سپردگی ) کے اجتماع کو Androgynyنہیں کہتی ہیں بلکہ ان کا خیال ہے کہ نظریات اور پسندیدگی کا اجتماع در اصل androgynyہے۔

 Gynocriticism

تانیثیت کی تھیوریز کے مطالعات کے دوران Gynocritismکی اصطلاح بھی نظر آتی ہے ۔

Gynocriticismدر اصل Androcentrism کی ضد ہے ۔کیوں کہ Androcentrism میں مرد مرکوز زاویہ نظر کو اہمیت حاصل ہے اور Gynocritism میں نسوانی زاویہ نگاہ کی اہمیت ہے ۔ Gynocriticismکی اصطلاح الین شوالٹرنے ۱۹۸۲میں وضع کی۔ خواتین کی تحریروں پر اس اصطلاح کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ تاریخ ،اسلوب ،موضوعات،اصناف اور ساختیات کے تانیثی سروکار، نسائی تخلیقات کی نفسی حرکیات ،عورت کی انفرادی اور اجتماعی روش ورفتار اور نسائی ادبی روایت کی شعریات و اختصاص Gynocriticismکے تحت آتے ہیں ۔ارپتا مکھو پادھیائے لکھتی ہیں :

“Gynocriticism is the branch of feminist criticism that focuses on woman’s art,with the aim of developing a ‘woman’s Poetics”(p; 46)

۱۹۸۳ میں لارنس کپلنگ نے ایک کتاب Abandoned Women and poetic tradition کے نام سے لکھی جس میں نسائی ادبی روایت کے تجزیے پر زور دیا گیاہے۔ورجینا وولف نے شیکسپیئر کی بہن کے کردار کا اختراع کیا تھا اسی طرز پر لارنس نے ارسطو کی بہن Arimnesteکا کردار مخترع کر کے نسائی ادب پر توجہ دلانے کی کوشش کی ۔کپلنگ نے کہا ہے کہ عورتوں کے ثقافتی اور سماجی تعامل سے نسائی علمیات اور جمالیات کی تشخیص اور تشکیل ممکن ہے ۔

 Post Modern Feminism

ما بعد جدید تانیثیت :

ما بعد جدید تانیثیت مائکل فوکاٹ،جیکس دریدا،جیکس میری ایملی لکن،اور سیمون د ی بوائر کے نظریات پر مبنی ہے ۔ما بعد جدید تانیثیت نے تشخص اور وجود کی ہمہ جہتی ،تنوع اور تکثیریت پر زور دیاہے ۔قدامت پرست تانیثیت کاسارا زور صنفی تفریق کے ارد گرد گھومتا ہے اور لبرل تانیثیت ’’مساوات کی تلاش ‘‘پر زور دیتی ہے لیکن مابعد جدیدتانیثیت ان دونوں نظریات سے ہٹ کر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ تفریق کی اندرونی اور داخلی صورت حال کو مذکورہ دونوں تصورات نے نظر انداز کیاہے ۔اس لیے مابعد جدیدتانیثیت داخلی تفریق پرخصوصی توجہ مبذول کرتی ہے ۔ عورت اپنی صنف یعنی عورت کے درمیان بھی مختلف سطحوں پر بھید بھاؤ کی شکار ہے ۔اس جانب توجہ مبذول کرنا بھی بے حد ضروری ہے ۔

فرانسیسی تانیثیت

تانیثیت کی تحریک نے سب سے زیادہ مقبولیت فرانس میں حاصل کی اس لیے تانیثیت کے مختلف رنگ وروپ ہمیں فرانس میں دیکھنے کو ملتے ہیں ۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے اوائل میں فرانس میں ادبا و مفکرین ،دانشور اور فلسفیوں کی بھی ایک بڑی تعداد تھی ۔اس لیے ادب ،فلسفہ اور نظریات کی بھی ریل پیل تھی ۔ دنیائے ادب و فلسفہ کو ’’پس ساختیات ‘‘اور ’’رد تشکیل‘‘ کا نظریہ دینے والے جیکس دریدا جیسے فلسفی نے بھی فرانس میں ہی آنکھیں کھولیں ۔ دریدا کے فلسفلے نے تانیثیت کی تھیوری وضع کرنے والوں کو بھی متاثر کیا جن میں فرانس کی متعدد ادیبہ شامل ہیں مثلاً لوسی اری گیرے(Luce Irigaray)جوڈتھ بٹلر(Judith Butler)اور گایتری چکرورتی وغیرہ ۔

فرانسیسی تانیثیت پسند گروپ مثلاً جولیا کرسٹوا،ہیلن ککساؤس،اور لوسی اری گیرے وغیرہ نے نسوانیت کے مطالعے کے دوران متعدد فلسفیانہ نظریات اور تحلیل نفسی کے نقطہ نظر پر بھی غور کیا۔ان کے مطالعات کو 1979کے بعد شہرت ملی جب New French Feminism کی کتاب منظر عام پر آئی ۔جس میں ان خواتین نے جنس،صنف،جمالیات ،عورت کی نمائندگی ،تشخص،معروضیت وغیرہ کے زمرہ جات پر نظر ثانی کی اور اس کی رد تشکیل کی ۔فرانسیسی تانیثی تحریک گزاروں نے نسوانیت کے ساتھ مخصوص کر دیے گئے عیوب اور منفی خصوصیات کو توڑنے کا کام کیا۔مثلاً ہسٹریاوغیرہ کو عورت کی خاصیت بتاکر اسے کمتر سمجھا جاتا تھا ۔ دریدا نے Phallogocentrismکا نظریہ وضع کیا تھا ۔جس کے تحت وہ Phalloیعنی عورتوں پرمردانہ تفوق اور برتری کا قائل تھا ۔فرانسیسی تانیثی تحریک گزاروں نے دریدا کے اس نظریے کو چیلنج کیا ۔

 جسمانی و عضویاتی خصوصیات کو اینگلو امریکی تانیثیت میں  حیاتیاتی لزومیت کا شاخسانہ تسلیم کیا جاتا ہے جس کے باعث عورت کی بااختیاری کا فلسفہ مجروح نظر آتا ہے ۔یعنی جب جسمانی اور عضویاتی اعتبار سے عورت کی کمزوری کو حیاتیاتی لزومیت کا نتیجہ مان لیا جائے تو ظاہر ہے کہ مردوں کے مقابلے میں عورت کے اختیار کو کمتر ہی ماننا ہوگا ۔ جولیا کرسٹوا اس نظریے کی سخت مخالفت کرتی ہیں ۔

فرانسیسی تانیثیت پسند مصنفین گروپ میں ایک اہم نام لوسی ایری گیرے کا بھی ہے ۔لوسی نے تانیثیت کی فلسفیانہ اساس پر نظر ثانی کی ہے ۔انہوں نے تحلیل نفسی اور لسانیات دونوں نقطہ نظر سے تانیثیت کے فلسفے پر گہری نظر ڈالی ہے۔ایری گیرے اپنے مطالعے سے اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ انہوں نے افلاطو ن سے فرائڈ تک کے فلسفیوں پر الزام عائد کیا ہے کہ ان سب نے عورت کو فعال کردار سے محروم کیاہے۔مادریت تو روایتی طور پر عورت سے وابستہ ہے ،فکر ودانش کے فقدان کو بھی عورت کے ساتھ وابستہ کر دیاگیا۔اس کے برعکس مردوں کو ثقافتی تاریخ میں مرکزی کردار اورایک فعال حیثیت کا اختیار دیا گیا۔

فرانسیسی تانیثی تحریک گزاروں میں ہیلن ککساؤس بھی اہم مقام رکھتی ہیں ۔ہیلن ککساؤس کے مضامین کا مجموعہ The Laugh of Medusa(1975) تانیثیت کے باب میں اہم مقام رکھتا ہے ۔ان مضامین میں ککساؤس نے عورت کی خواہشات اور اس کی زبان کے درمیان ربط کی وضاحت کرتے ہوئے قدامت پرست مرد اساس نظام کی بھی بخیہ دری کی ہے۔ککساؤس نے جنسیاتی شناخت کو الگ الگ خانوں اور زمروں میں بانٹنے کی روایت کو چیلنج کیاہے۔اور نسوانیت پر Phallogocentrismیعنی تذکیری نظام کے غلبہ و تسلط کو بھی چیلنج کیا ہے ۔ Binaryکی تشکیل ،فعالیت /مفعولیت ۔سورج/چاند.فطرت/ثقافت۔ دن/رات۔ماں /باپ۔وغیرہ کی ثنویت سے ہوتی ہے لیکن اس عمل میں ایک زمرے کو دوسرے پر فوقیت اور برتری دینا درست نہیں ہے ۔اسی طرح ایک زمرے کی تعمیر و ترقی کے لیے دوسرے زمرے کو تباہ وبرباد کرنا قطعاً مناسب نہیں ۔اس زمرہ بندی کے عمل میں عورت کو ’’غیر ‘‘ اور دوسرا درجہ دیا جاتا ہے ۔ککساؤس مردانگی اور نسوانیت کی ثنویت (Binary)کو مسترد کرتی ہیں اور نظریۂ تکثیریت کی توسیع کے لیے دو جنسے یعنی (Bisexual)کو ترجیح دیتی ہیں ۔

PostColonial Feminism and Third world Feminism

 تانیثیت کی تھیوری اور تحریکات کا دائرہ یورپ اور امریکہ میں بالعموم سفید فام ،انگریزی بولنے والی ،تعلیم یافتہ اور متوسط طبقے کی خواتین تک محدود تھا اِس مین اسٹریم تحریک میں تیسری دنیا کی خواتین کے مسائل غائب تھے ۔استعمار اور سامراجیت کے بطن سے پیدا ہونے والی نو آبادیات میں خواتین کی کیا صورت حال تھی اس پر سرے سے گفتگو نہیں نظر آتی تھی اور نہ ہی ان کے حقوق کے لیے تحریکیں یا آوازیں بلند ہوتی تھی ۔اس لیے PostColonial Feminsim یا Third world Feminism کی بھی ضرورت محسوس ہوئی ۔اس نظریے کے علمبرداروں میں ایک اہم نام گایتری چکرورتی اسپیوک(Gayatri Chkravorty Spivak)کا بھی ہے ۔گایتری نے اپنے مشہور زمانہ مضامین کے مجموعے Can the Subultern Speak میں رد تشکیل،مارکسیت،اور تانیثیت کے حوالے سے Subalternکے مقام و مرتبہ کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے ۔Subalternدوسرے درجے یا ماتحت فوجی افسرکو کہتے ہیں لیکن اس لفط کا ایک وسیع مفہوم بھی ہے ۔مورخین اس لفظ کو جنوب ایشا میں مقیم ان افراد کے لیے استعمال کرتے ہیں جن کو ذات ،طبقہ،عمر ،جنس اور عہدے و رتبے کی بنیاد پر کمتر سمجھا جاتا ہے۔ مابعد نو آبادیات میں عورت کی ماتحتی(Subalternity) کی صورت حا ل کا جائزہ لیتے ہوئے گایتری بیان کرتی ہیں کہ ما بعد نو آابادیات میں عورت کی بات کو سنا نہیں جاتا ہے انہیں گویائی سے محروم کیے جانے جیسی صورت حال ہے ۔ انہیں نوآبادیاتی ڈسکورس میں کوئی جگہ ہی نہیں ملی اس لیے وہ خاموش رہنے کو مجبو رہوئیں ۔گائتری نے French Feminism In an International Frameاور Feminism and Critical theoryمیں نہ صرف تانیثیت کی مدلل تشریح و تعبیر کی ہے بلکہ جولیا کرسٹوا ،لوسی ایری گیرے،ہیلن ککساؤس وغیرہ فرانسیسی تانیثی مفکرین اور ناقدین کی کھل کر تنقیدیں بھی کی ہیں ۔عورت کو محکوم اور دوسرے درجے کا بنانے والے مرد اساس معاشرتی نظام ،چرچ،اورایسے قوانین جو مرد وزن کے درمیان تفریق کو بڑھاوا دیتے ہیں ان تمام کا محاکمہ کیا ہے۔گایتری نے تانیثیت کے باب میں ایک بحث کا رخ موڑ دیا انہوں نے جنسی تفریق کے موضوع کو مسترد کرتے ہوئے’’پہلی دنیا‘‘ اور ’’تیسری دنیا‘‘ کے درمیان پائی جانے والی ثقافتی اور سماجی تفریق کے حقائق کو زیر بحث لایا ۔گایتری نے مہاشویتا دیوی کی کہانی سے مثال پیش کی ہے جس میں جسودا یک نچلے طبقے کی عورت ہے جس کا شوہر اپاہج ہے اس لیے وہ گزر بسر کے لیے ، ایک اعلیٰ طبقے (برہمن) کے گھر نوکرانی کا کام کرتی ہے ۔ لیکن ا س گھر کے بچوں کی دیکھ ریکھ کے ساتھ اسے دو سطح پر استحصال کا شکار ہونا پڑتا ہے ۔اول تو یہ کہ ایک اعلیٰ طبقے کے بچے کی پرورش کے لیے اسے اپنا دودھ پلانا پڑتا ہے اور دوسرے اسے اپاہج شوہر کے لیے اپنے جسمانی اعضا کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔اسی طرح گایتری نےSubaltern عورتوں کے استحصال کی دو دیگر نوعیتوں کی بھی وضاحت کی ہے۔اول یہ کہ انہیں مقامی مرد اساس معاشرتی نظام کاجبر جھیلنا پڑتاہے اوور دوسرے انہیں سامراجی نظام کی مرد حاکمیت کا بھی جبر جھیلنا پڑتا ہے ۔گایتری کے علاوہ ،چندرا تالڈے موہنتی ،راجیشوری سندر راجن ،لیلا احمد،وغیرہ نے بھی مابعد نوآبادیاتی تانیثیت کی تھیوری کی توسیع میں اہم کردار ادا کیاہے ۔

 مغرب میں جو تانیثیت وجود میں آئی اس کے دو پہلو تھے ایک صنفی حقوق کے مطالبے پر مبنی سماجی اور اقتصادی تحریک اور دوسرے شعر وادب کی تانیثی قراء ت پر مبنی تانیثیت ۔اسی طرح تانیثیت کے زیر اثر جو ادب وجود میں آیا ان کی بھی دو نوعیت ہے ۔ایک تو عورتوں کے بارے میں مردوں   کا لکھا ہوا ادب ۔اور دوسرا عورتوں کا تخلیق کردہ ادب۔اردو میں عام طور سے عورتوں کے ایشوز پرعورتوں کے تحریر کردہ ادب اور ادب پاروں کی تانیثی قراء ت پر مبنی تنقیدات کو تانیثیت کے زمرے میں رکھا جاتا ہے۔

 مغرب میں تانیثیت کی تحریک اور رجحان دونوں حیثیت سے نظر آتی ہے لیکن ہندوستان میں تانیثیت ایک منظم تحریک نہ ہو کر رجحان کے بطور ادبی تخلیقات اور احتجاجی و مزاحمتی سرگرمیوں میں نظر آتی ہے ۔

گزشتہ صفحات میں تانیثیت کی تھیوری کی متعدد شکلوں کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ان تمام تھیوریز کے علاوہ بھی تانیثیت کی متعدد تھیوریز ہیں ۔مثلاً ایکو فیمنزم ،بلیک فیمنزم ،اسلامک فیمنزم وغیرہ۔لیکن تمام تھیوریز کی قدریں تقریباً یکساں اور مشترک ہی ہیں ۔ سماج کے جس ڈھانچے میں جہاں کہیں بھی عورت کے ساتھ کسی بھی نوعیت کے استحصال کے خلاف آواز بلند کرنا اور حقوق نسواں کی آگہی عام کرنا ہی در اصل تمام تھیوریز کا محور ہے ۔شرم و حیا کے باعث ایک عرصے تک عورتیں اپنے ساتھ ہونے والے استحصال کی مکروہ شکلوں کے اظہار سے بھی گریزاں تھیں ۔لیکن اب اتنی بیداری عام ہوئی ہے کہ عورتوں نے اپنے ساتھ ہونے والے استحصال کا برملا اظہار کرنے کی جرأت کرنا شروع کیا ہے ۔حال ہی میں سوشل میڈیا کے ذریعے می ٹوکے ہیش ٹیگ #Metooکی مہم کے ذریعے دنیا بھر کی متعدد خواتین نے اپنے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتیوں کا کھل کر اظہار کیا ۔

کتابیات:

Feminism by Arpita mukhopadhyay,Orient Blackswan2016

Feminist Literary History by Janet Todd,Polity Press Dales UK1988

Dictonary of Literary Terms and Literary Theory by; J.A.Cuddon &M.A.R.Habib,Penguin2013

Gaytri Chakravorty Spivak on Situating Feminism (Youtube Link:http://youtube.be/garPdV7U3fQ)

بیسویں صدی میں خواتین اردو ادب:مرتب عتیق اللہ،موڈرن پبلشنگ ہاؤس گولا مارکیٹ ،دریا گنج دہلی ۔۶۔سن اشاعت۲۰۰۲

تانیثیت اور ادب ،مرتب: انور پاشا،عرشیہ پبلیکیشنز دہلی۔۹۵۔سن اشاعت ۲۰۱۴۔

تانیثی مطالعات اور دوسرے مضامین: ارجمند آرا،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی ۔اشاعت ۲۰۱۶۔

عورت مرد کا رشتہ ؛ کشور ناہید ،ہر آنند پبلیکیشنز چراغ دہلی،سن اشاعت ۱۹۹۴

…..

محمد حسین

ریسرچ اسکالر شعبہ اردو دہلی یونی ورسٹی

ای میل:hussaindu21@gmail.com

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.