مولانا الطاف حسین حالیؔ اور موجودہ نظامِ تعلیم

     تعلیم اپنے وسیع تر معنوں میں ایسی شے ہے جس کے ذریعے ایک نسل کی عادات و اہداف دوسری نسل کو منتقل کی جاتی ہے ، خواہ تکنیکی لحاظ سے اس کے معنی فقط وہ رسمی طریقۂ کار ہو جس کے ذریعے معاشرہ علم ، ہنر اور روایات و اقدار ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل کرتا ہے ۔انسان کے لیے تعلیم ایک ناگزیر ضرورت ہے بلکہ اس کی اہمیت کے پیش نظر اسے انسان کی بنیادی ضروریات میں بھی شمار کیا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ جو انسان علم سے کورا ہوتا ہے ، اسے انسانی تہذیب و معاشرت سے کوئی سروکار نہیں ہوتا، زیورِ علم ہی سے انسان حقیقی معنوں میں انسان بنتا ہے ۔افسوس اس بات کا ہے کہ نسلِ نوفی صد کے اعتبار سے بھلے ہی تعلیمی میدانوں میں ترقی کررہی ہو لیکن حقیقی معنوں میں وہ علم اور زیورِ علم سے عاری ہوتی جارہی ہے ۔ یہ فقط ہمارا ذاتی مشاہدہ اور خام خیالی نہیں بلکہ اکثر اہلِ فہم کا خیال ہے ۔جس کی وجہ ہمارے نزدیک یہ ہے کہ شاید نسلِ نو ’علم‘ حاصل ہی نہیں کررہی بلکہ ان کے پڑھنے لکھنے یا زیادہ سے زیادہ فی صد حاصل کرنے کا منشا ایک عدد نوکری ہے ۔وہ اپنے یا اپنے والدین کے مناسب و غیرمناسب خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنا اور زیادہ سے زیادہ مال کمانا زندگی کا حاصل سمجھتے ہیں ۔ اگر آپ بھی سماج اور اس کے بدلتے اقدار اور رویّے پر نظر رکھتے ہیں تو یقیناً ًہماری اس بات سے ُکُلّی یا جزوی اتفاق کریں گے ۔ ویسے اس صورتِ حال کی پوری ذمّے داری نسلِ نو پر ڈالنا زیادتی ہوگی، کیوں کہ موجودہ تعلیمی، سماجی اور معاشی نظام بھی ان پر پوری طرح اثر انداز ہے ۔آج ہمارے تعلیمی نصاب سے مذہب واخلاق کو نکال کرپھینک دیا گیا ہے اور چند تکنیکی مباحث پر عبور حاصل کرلینے کا نام ’دانشوروں ‘ نے ’علم‘ رکھ دیا، ظاہر ہے اس سے طلبہ میں مشینوں کی سی حرکات تو پیدا ہو جا سکتی ہیں ،لیکن انسانوں کے سے اخلاق پیدا نہیں ہو سکتے ؎

بس کہ دشوار ہے ، ہر کام کا آساں ہونا

آدمی کو بھی میسّر نہیں  اِنساں  ہونا

     اس حقیقت کا احساس ایک عرصے سے علما و دانشوران کو ہو چکا تھا، جن میں سرِ فہرست مولانا الطاف حسین حالیؔ بھی ہیں ۔حالی نے جس صدی میں جنم لیا، وہ صدی مصلحین و مجددین کی صدی ہے ۔ انھوں نے جن شخصیات کے ساتھ کام کیا، ان میں سے متعدد حضرات اپنی ذات میں انجمن تھے اور ان سب کا اپنا الگ رنگ تھا، جن میں حالی کی منفرد شناخت و اہمیت ہے ۔حالی? جدید اردو شاعری کے مجدّد ہیں یا نیچرل شاعری کے امام؟ اعلیٰ و اولین نقّاد ہیں یا مصلحِ ادب؟ان امور کا تعین بھی ان کے حق میں ایک بڑا مسئلہ ہے اور اس سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ سب ان کی ذاتی خصوصیات و کمالات ہیں یا سر سید احمد خان کے کمالات کا چربہ اور صداے باز گشت؟ جیسا کہ ان کے متعلق عام خیال ہے ۔ جس کی وجہ شاید یہ ہے کہ حالیؔ کی تعلیمی، مذہبی، سماجی اور سیاسی انفرادیت کو سمجھنے میں باریک بینی سے کم کام لیا گیا،یا یوں کہہ لیجیے کہ اس عظیم شاگرد نے اپنے کسرِ نفسی اور اپنے استاد سے انتہائی عقیدت کے سبب کبھی اپنی انفرادیت کو ابھرنے کا موقع ہی نہیں دیا۔

     بقول ڈاکٹر جمیل جالبی :

’’ان کے دور نے انھیں انفرادیت سے عاری اور سر سید کا چربہ کہا۔ ان کی منکسر المزاجی اور مرنجاں و مرنج طبیعت نے اپنی انفرادیت کے اظہار کی کبھی کوشش بھی نہیں کی، حالاں کہ وہ ان کے ہاں موجود تھی۔ یہ بات پوری طرح صحیح نہیں ہے کہ وہ سر سید سے سرِ مو تجاوز نہیں کرتے ۔ ’حیاتِ جاوید‘ میں سر سید کی زندگی کے جن پہلوؤں   پر حالی نے روشنی ڈالی ہے ، وہی ان کی قوم کے لیے بھی اہم و مفید تھے ۔ اس دایرے میں آکر حالی اپنی ہستی کو اپنی قوم کے لیے فراموش کر چکے تھے اور اس طرح وہ خود کو فراموش و معدوم کرکے قوم کی زندگی اور اس کے ادب کو ایک نیا موڑ دے رہے تھے ۔ اہلِ نظر جانتے ہیں کہ وہ اپنی ذات کو قربان کرکے قوم کو بدلنے ، منقلب کرنے اور نئے راستے پر ڈالنے میں کامیاب ہو گئے ۔ ان کا انقلاب ایک خاموش انقلاب ہے جس کے اثرات اتنے ہی اہم ہیں جتنے کسی انقلاب کے ہو سکتے ہیں ۔ شاعری میں علامہ اقبال اور نثری ادب میں شبلی نعمانی حالیؔ کے خاموش انقلاب کی پیداوار ہیں ۔ اردو کا[غالباً] کوئی ادیب، شاعر اور نقاد نہیں ہوگا جو ان سے کتنا ہی اختلاف کیوں نہ رکھتا ہو، مگر کسی نہ کسی طرح حالیؔ کے زیرِ اثر نہ ہو۔ اُن کی ہستی میں خود نمائی اور خود بینی کا کوئی بھی شائبہ نہ تھا اور اسی لیے ان کا اثر زیادہ گہرا اور زیادہ دیر پا ثابت ہوا۔ حالیؔ کا اثر ہمارے ادب اور ہمارے ذہنوں کی گہرائیوں میں چھپا ہوا ہے اور سطحی نظر کو دکھائی نہیں دیتا۔‘‘ [1]

     حالیؔ کی شاعری، نثر، سوانح نگاری، تنقید، مضامین و مقالات اور خطوط نگاری تمام ہی اپنے مقام پر اہمیت کے حامل ہیں ، لیکن ان کا عظیم الشان کارنامہ اکثر اردو شعری سرمایے کا جائزہ لے کر اپنا ذاتی شعری نظریہ اور اپنے نظریات کی روشنی میں اپنی تخلیقات پیش کرنا ہے ، جن کے گو نا گو فوائد سامنے آئے ۔جس کا اعتراف ڈاکٹر شجاعت علی سندیلوی نے بہ ایں الفاظ کیا ہے :

’’در حقیقت اُردو شعر و سخن کی نشاۃِ ثانیہ اور حیاتِ نو انھیں کی مرہونِ منت ہے ، انھوں نے پہلے اردو شعر و ادب کا جائزہ لیا، اس کے بعد اس کی اصلاح و ترقی کے لیے اپنا نظریۂ شعری پیش کیا اور اس کے معیار پر پورے سرمایۂ سخن کو پرکھا اور خود عمل کرکے نمونہ پیش کیا۔ اپنے نظریات کی روشنی میں اپنی تخلیقات پیش کیں ، جن کے دُور رَس اور مفید نتائج برآمد ہوئے ۔‘‘[2]

     اس تمہید سے حالیؔ کی آفاقی افادیت اور ان کی گہری فکر و نظر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ، اس کے بعد ہم اصل موضوع پر آتے ہیں ، جو کہ تعلیم کے حوالے سے دورِ حاضر میں کلامِ حالیؔ کی معنویت اور افادیت پر روشنی ڈالنا ہے ۔واضح رہے کہ معلم و ماہرِ تعلیم کا لفظ عام طور سے دو طرح کے لوگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے ، ایک تو ان لوگوں کے لیے جو درس گاہوں میں باقاعدہ تعلیمی اصولوں و نظریوں کا تجربہ کرتے ہیں ، دوسرے ان لوگوں کے لیے جن میں قدرت کی طرف سے ایسی تخلیقی و فکری صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہوتی ہیں ، جو فلسفہ، مذہب اور سیاست میں گہری نظر رکھنے کے ساتھ اس کا سراغ لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ دنیا میں انسان کا اصل مقام کیا ہے ۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو انسانی زندگی میں تعلیم کو جدید قدروں اور سمتوں سے روشناس کرنے کے لیے آلۂ کار بناتے ہیں ۔

     جن حضرات کی دورِ حاضر اور اس کے بدلتے تقاضوں پر نظر ہے اور جو حضرات حالیؔ اور ان کے کلام سے بہ خوبی واقف ہیں ، ان کی نظر میں کلامِ حالیؔ کی معنویت و افادیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔انھوں نے اس باب میں تقریباً ایک صدی قبل ایسے رموز و نِکات پیش کیے جنھیں دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہوتی ہیں ۔ ان کی دور رس نگاہوں نے وہ سب کچھ ایک صدی قبل دیکھ لیا تھا، جس سے ہم آج بھی آنکھیں چُراتے ہیں ۔

     اسی کے پیشِ نظر وہ اپنے مخصوص لہجے میں گویا ہیں [3]  ؎

گئے دن وہ کہ تھا علم و ہنر انسان کا زیور

ہوئی ہے زندگی خود منحصر اب علم و دانش پر

     دیکھیے ہم نے بہ طور تمہید تعلیم کے حوالے سے جس مسئلے کو چھیڑا تھا، حالیؔ کی دور رس نگاہیں اپنے زمانے ہی میں اس کا مشاہدہ کر چکی تھیں کہ اب انسان علم اس لیے حاصل نہیں کرتا کہ علم انسانیت کا زیور ہے بلکہ ان کے پیشِ نظر اس علم کے ذریعے فقط معاش حاصل کرنا ہوتا ہے ، جس سے وہ اپنی زندگی کی ضرورتیں بلکہ خواہشیں پوری کرنا چاہتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج جتنے قلم کی روٹی کھانے والے ہیں ، ان میں ایسے افراد انگلیوں پر شمار کیے سکتے ہیں جو محض ذوق و شوق اور قلبی وابستگی کی بنا پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے اور پھر بے لوث علم کی خدمت انجام دیتے ہیں ،ورنہ اکثر تعلیمی ڈگریوں کے حصول کا مقصد اعلیٰ عہدوں کی طلب کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔حالیؔ نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے ۔

     حالیؔ نے اپنے عمیق مطالعے و مشاہدے کے ثمرے میں یہ بھی محسوس کر لیا تھا کہ انسان کو زمانے کے ساتھ ساتھ ہر دم نئی ترقیات کی طرف قدم بڑھاتے رہنا اور زمانے کے حالات کے مطابق جدید علوم و فنون سے رشتہ استوار کرنا چاہیے ۔ وہ جانتے تھے کہ زمانہ کبھی کسی کا انتظار نہیں کرتا اگر ہم زمانے کی تیزگامی کو نظر انداز کریں گے تو زمانہ ہمیں پیچھے چھوڑ جائے گا۔کل تک جب ہم کسی کام کو اعلیٰ سمجھ کر اس کی طرف متوجہ ہوں گے ، تب تک کوئی اور کام اس سے اعلیٰ ہو چکا ہوگا۔اس لیے حالی? کا کہنا ہے کہ ہمیں ہمیشہ حال کی نظروں میں نظریں ڈال کر آگے بڑھنے کی فکر کرنی چاہیے۔[4]  ؎

یہ دورہ ہے بنی آدم کی روز افزوں ترقی کا

یہ جو آج اک کام ہے اعلیٰ تُو کل ہے اس سے اعلیٰ تر

     ان کا ایقان ہے کہ اس دنیا میں وہی انسان کام یابی سے ہم کنار ہو سکتا ہے ، جس نے خود کو تعلیم بلکہ جدید تعلیم سے آراستہ و پیراستہ کیا ہو، جو لوگ اس حقیقت سے آنکھیں چُراتے ہیں ، ان کا نام تاریخ کے پنّوں میں دھندلا ہوجاتا اور کچھ وقت بعد صفحۂ ہستی سے مٹ جاتا ہے ۔اسی کو وہ کہتے ہیں ۔[5]

زمانہ نام ہے میرا تو میں سب کو دکھا دوں گا

کہ جو تعلیم سے بھاگیں گے ، نام ان کا مٹا دوں گا

     دیکھیے کس علامتی انداز میں حالیؔ زمانے کا سہارا لے کر قوم کو جدید اور سائنسی علوم کی ترغیب دے رہے ہیں کہ اگر اس سے رو گردانی کی گئی تو قوم کا نام و نشان تک باقی نہیں رہے گا۔ حالی فقط سائنسی علوم ہی نہیں ساتھ صنعت و دست کاری کو بھی رواج دینا چاہتے ہیں ،کیوں کہ وہ سمجھ چکے تھے کہ افرادِ زمانہ کی یہی عام خواہش ہے ۔وہ رقم طراز ہیں :

’’بالفعل بہ نسبت اس کے کہ ایک مدرسہ فزیکل سائنس کی تعلیم کے لیے قائم کیا جائے ، بہتر یہ ہے کہ ایک تعلیم خانہ صنعت اور دستکاری کے لیے کھولا جائے ، کیوں کہ پہلی صورت کی بہ نسبت دوسری صورت عام خواہشوں کو زیادہ پورا کرنے والی ہے ۔‘‘[6]

     متذکرہ بالا اقتباس پر غور کریں اور دورِ حاضر کی عام خواہشوں بلکہ ضرورتوں پر بھی نظر دورائیں تو محسوس ہوگا کہ حالیؔ نے کتنے دہوں پہلے زمانے سے آنکھیں ملانا سیکھ لیا تھا۔ اسی لیے وہ ایسی تعلیم کے حق میں تھے جو عملی اعتبار سے بھی مفید و کار آمد ثابت ہو، کیوں کہ جب تک ایسا نہ ہو، انسان خود داری اور شرافت کے ساتھ زندگی گزارنے سے قاصر رہتا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ دورِ حاضر میں انھیں علوم کا دور دورہ اور خواہش ہر دل میں موج زن ہے ، جن کے ذریعے علم و معلومات کے ساتھ کم وقت میں معاشی و اقتصادی حالت سنوارا جا سکے اور جن علوم کا رشتہ پریکٹل لائف اور عمل زندگی سے منقطع ہو چکا، ان علوم و فنون کی تعلیمی اداروں میں بھی جو درگت بنی ہوئی ہے ، اس کا کوئی دانا و بینا انکار نہیں کر سکتا۔کمال یہ ہے کہ حالیؔ ایک صدی قبل اسے محسوس کر چکے تھے اور اسی لیے انھوں نے اپنے آل نامے یہ درج کیا تھا: [7]

العلم

قسمے از جہلِ مرکّب

الامتحان

آزمائشِ لیاقتِ ممتحنان

الیونیورسٹی

کارخانۂ کلرک سازی

     یعنی حالیؔ کے نزدیک موجودہ تعلیم جہلِ مرکب کے سوا کچھ نہیں جو کہ جہالت کی بد ترین قسم ہے ، جہلِ بسیط تو پھر بھی غنیمت ہے کہ خود کو کم از کم جاہل تو سمجھا، اور ان کی نظر میں امتحان کا مروج طریقہ جس کے ذریعے طالبِ علم کی صلاحیت کا اندازہ لگایا جاتا ہے ‘ دکھاوے اور طلبہ کے بجائے ممتحن کے لیے آزمائش کا سبب اور یونیورسٹی کا مقصد تو دفتروں کے لیے فقط کلرک تیار کرناہے ۔

     حالیؔ علم کو عمل کی خاطر حاصل کرنے پر زور دیتے ہیں اور مروجہ طریقۂ تعلیم سے چوں کہ یہ مقصد حاصل نہیں ہورہا اور طلبہ میں صلاحیت کے بجائے ملازمتیں حاصل کرنے کا جذبہ پروان چڑھ رہاہے ، جس پر حالیؔ درجِ ذیل الفاظ میں شاکی ہیں :

’’ہماری قوم میں انگریزی تعلیم (جو پریکٹکل [یعنی کام کرنے والے اشخاص] پیدا کرنے کا دعویٰ کرتی ہے) چشم بد دور روز بہ روز بڑھتی جاتی ہے اور تعلیم یافتہ اصحاب کی تعداد میں ہر سال معقول اضافہ ہوتا رہتا ہے ، مگر افسوس ہے کہ مستثنیٰ صورتوں کے سوا عملی قوت اور سِلف ہِلپ (اپنی مدد آپ کرنے) کا مادّہ ان میں تعلیم کے بعد اتنا بھی باقی نہیں رہتا جتنا کہ مدرسے میں داخل ہوتے وقت وہ اپنے ساتھ لائے تھے ۔ان میں سے ایک گروہ وہ ہے جس کی بڑی دوڑ بھی بی اے یا ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد یہ ہے کہ مڈل پاس کیے ہوئے طلبہ کی طرح سرکاری نوکری کے لیے اِدھر اُدھر سلسلۂ جنبانی کرتا پھرے اور ذریعوں اور سفارشوں کی تلاش میں ایک مدّت تک سرگرداں و پریشان رہے ۔ ان کو اپنے دست و بازو پر اتنا بھی بھروسہ نہیں ہوتا جتنا کہ چرندوں اور پرندوں کو اپنی قوتِ لایموت کی تلاش میں ہوتا ہے ، وہ وجہِ معاش کو غلامی یعنی نوکری ہی میں منحصر جانتے ہیں ۔‘‘[8]

     اس اقتباس سے مروجہ تعلیمی نظام سے حالیؔ کی خفگی کا صاف پتا چلتا ہے ، اور کیوں نہ ہو جب کہ یہ تجربہ ہے کہ اس سے طلبہ میں علمی صلاحیت اور تحریکِ عمل پیدا ہونے کے بجائے سکوت طاری ہو رہا ہے ، جو کہ افسوس ناک ہے ۔حالیؔ کے نزدیک علم خاص مقصد کے تحت حاصل کیا جانا چاہیے ، اور وہ مقصد کیا ہے ، ملاحظہ ہو:

’’جس علم کی ہم کو ضرورت ہے ، وہ‘ وہ علم ہے جو ہماری ساکن اور پژ مُردہ قوتوں کو متحرک اور شگفتہ و شاداب کرے ، نہ کہ وہ علم جو ہمارے متحرک اور شگفتہ قویٰ کو بھی ساکن اور پژمردہ کر دے ۔ ایسے علم سے بے علمی سو درجے بہتر ہے ۔‘‘ [9]

     خلاصہ یہ کہ حالیؔ کے کلام میں جدید سائنسی علوم حاصل کرنے ، تعلیم سے فرار اختیار نہ کرنے ، صنعت و دست کاری کو فروغ دینے ، مروجہ تعلیم کو دفتروں کے لیے کلرک مہیا کرنے تک محدود نہ رکھنے ، علم کو عمل کی خاطر حاصل کرنے ، تعلیم کو محض اعلیٰ ڈگریوں یا نوکریوں تک پہنچنے کا وسیلہ نہ بنانے اور انسان کی ساکن و پژمُردہ قوتوں کو متحرک کرنے کی نیت سے حاصل کرنے کا وہ روشن پیغام موجودہے ،جس پر عمل پیرا ہوئے بغیر دورِ حاضر کے بڑھتے بلکہ سلگتے مسائل کو حل نہیں کیا جا سکتا ہے ۔

٭٭٭٭

     حوالہ جات:

     [۱]جمیل جالبی،تاریخ ادب اردو، جلد چہارم، حصہ دوم، ص:۹۸۳ملخصاً

     [۲]شجاعت علی سندیولی،حالی بہ حیثیت شاعر، ص:۳۷۹

     [۳]اسماعیل پانی پتی، کلیاتِ نظمِ حالی، مسلمانوں کی تعلیم

     [۴]اسماعیل پانی پتی،کلیاتِ نظمِ حالی، مسلمانوں کی تعلیم

     [۵]اسماعیل پانی پتی، کلیاتِ نظمِ حالی، مسلمانوں کی تعلیم

     [۶]الطاف حسین حالی، مقالاتِ حالی، حصہ دومِ ص:۱۰

     [۷]صالحہ عابد حسین،یادگارِ حالی،ص:۵۵

     [۸]الطاف حسین حالی، مقالاتِ حالی، حصہ اول، ص: ۱۷۶،۱۷۷

     [۹]الطاف حسین حالی، حصہ اول، ص:۱۷۳

٭٭٭٭

ندیم احمد انصاری

لیکچررشعبۂ اردو، اسماعیل یوسف کالج، ممبئی

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.