میر غلام رسول نازکی۔جموں و کشمیر میں اردو کے بنیاد گذار شاعر

ریاست جموں وکشمیر میں اردو شاعری کے بنیاد گذاروں میں جو چند نام لیے جاتے ہیں ۔ ان میں میرغلام رسول نازکی (۱۹۱۰ء ۔۱۹۹۸ء )کا نام نمایاں حیثیت کا حامل ہے۔ بیسویں صدی کی تیسری چوتھی دہائی میں نازکی صاحب اپنی استعداد اور ذوق وشوق سے اردو شاعری پر ایک ایسے ستارے کی شکل میں نمودار ہوئے جواپنی مثال آپ ہے اور شناخت کے اعتبار سے انفرادیت کا حامل بھی ہے۔ نازکی صاحب کواپنی زندگی میں جو شہرت، مقبولیت اوراہمیت حاصل ہوئی وہ ان کے بہت کم ہم عصر شعرا کو حاصل ہوئی۔

میر غلام رسول نازکی کا دور جموں و کشمیر میں اردو ادب خصوصا شاعری کے حوالے سے ابتدائی دور کہلاتا ہے۔اسی لیے اپنے ابتدائی ایام کے کلام میں روایات اوراسالیب کے دائرے سے باہر نہیں رہ سکے۔ ان کی ابتدائی شاعری میں جذبات کی روانی اورسطحی ہم آہنگی ہے ۔ لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ نازکی صاحب کے کلام میں فکری وفنی چابکدستی آنے لگی۔ وہ نئے رجحانات اورتحریکات بالخصوص آزاد اور حالی کی تحریک جس نے نیچرل شاعری پر زور دیتے ہوئے اردو شعروادب کوایک نیا موڑ عطا کیا تھا،سے کہیں شعوری اور کہیں لاشعور ی طورپر متاثر ہوئے۔ اس سلسلے میں میر غلام رسول کا بیان ہے:

’’اردو کے رجحانات بدلتے گئے اور بعد میں مسلسل مطالعہ کے ذریعے اس کے بدلتے ہوئے رجحانات سے متاثر ہوتا گیا اور میرے کلام میں اسی طرح تبدیلیاں آتی گئیں ۔‘‘  ۱ ؎

جدید شاعری کے مطالعے کے ساتھ ساتھ نازکی صاحب مشق سخن بھی کرتے رہے۔ اس طرح انہوں نے اپنی شاعری کو ایک نئے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی اور مواد اور اسلوب دونوں اعتبار سے نئی وسعتیں اور کئی جہتیں پید ا کیں ۔ نازکی صاحب نے آغازِ شاعری میں کلاسیکی انداز کو اپنایا۔ انہوں نے نہ صرف زبان وبیان کی صفائی وچستی پر زور دیا بلکہ اس کے مقابل نئے تجربات اور اپنے قریبی ماحول اورقریبی زندگی کے حقیقی تجربات وموضوعات کا عکاسی پر بھی توجہ دی۔ انہوں نے اردو شاعری کا وسیع مطالعہ کیااور اردو شاعری کے کئی سرچشموں سے سیراب ہوئے۔ نازکی صاحب کی سب سے امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے اردو وفارسی شعری سرمائے سے خوب استفادہ کیا لیکن کسی ایک آواز کی پیروی نہیں کی بلکہ اپنے تخلیقی اظہار کے لیے ایک اختراعی راہ ہموار کی۔ یہی وجہ ہے کہ نازکی اپنا ایک انفرادی لب ولہجہ تشکیل ودریافت کر نے میں کامیاب ہوئے۔ اس سلسلے میں پروفیسر ظہورالدین رقمطراز ہیں :

’’ابتداً اردو شاعری کی کلاسیکی روایت کی پیروی کرتے ہوئے انہوں نے بھی غزل کو ہی وسیلۂ اظہار بنایا لیکن اس کا خیال ضرور رکھا کہ ان کی آواز کہیں کسی استاد کی آواز کی بازگشت بن کر نہ رہ جائے کیوں کہ ایسا اکثر ہوتاہے کہ صلاحیت رکھنے کے باوجود روایت کی پیروی کر تے کرتے شاعر کی اپنی آواز کہیں گم ہوجاتی ہے۔ نازکی نے ایسا انہیں ہونے دیا۔ انہوں نے اس کا اہتمام شعوری طورپر کیا کہ اپنی شاعری کو عصری آگہی کا پرتو بناتے ہوئے اپنے دور کی صرف عکاسی ہی نہ کریں اس سے ہم کلام ہونے کی بھی کوشش کریں ۔‘‘ ۲؎

نازکی صاحب کی ایک پرانی بیاض جس کی حال ہی میں بازیافت ہوئی ہے۔ اس میں 1926ء سے 1938ء تک کا ابتدائی کلام شامل ہے ۔ اس بیاض میں شامل کلام کا بیشتر حصہ نازکی صاحب نے اپنے پہلے مجموعۂ کلام میں شامل نہیں کیا۔ گویا یہ نازکی صاحب کے اس دور کا کلام ہے جب وہ شعری ریاضت کے عمل سے گذر رہے تھے۔ لیکن اس بیاض کا مطالعہ کرنے سے یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ نازکی صاحب کا ابتدائی کلام محض مشق یا تقلید ی وروایتی نہیں بلکہ اس میں نازکی صاحب کے مخصوص طرز احساس کے کچھ بنیادی عناصر بھی شامل ہیں ۔ ناقدین کا خیال ہے کہ بڑے شاعر کی عظمت کا راز اس کی ابتدائی شاعری میں بھی نظرآجاتاہے۔ یہاں نازکی صاحب کی عظمت کا راز ان کی ابتدائی اور ریاضت کی شاعری میں بھی دیکھنے کو ملتاہے۔ اگر چہ یہاں روایتی اورتقلیدی قسم کے اشعار بھی موجود ہیں لیکن کسی بھی شاعر کا تعین قدر اس کے کمتر درجہ کے اشعار سے نہیں کیاجاتابلکہ بہتر درجے کے اشعار سے قائم ہوتاہے۔

تن بدن میں لگ رہی ہے روز وشب اک آگ سی

جب سے مجھ سے دور ہے اس بت کا روئے آتشیں

لطف شب وصال ہے جینا کہیں جسے

روز مذاق یار ہے مرنا کہیں جسے

اہل نظر کے دل میں ہے راسخ یہ اعتقاد

اک خوشنما فریب ہے دنیا کہیں جسے

چہرۂ عاشق پر ظاہر ہیں علامات سرور

غالباً آیا ہے اس کو یار سے خط کا جواب

آج قاتل نے مری گرد پہ خنجر رکھ دیا

بار احسان وتشکر میرے سر پر رکھ دیا

دل سے بڑھ کر قیمتی کیا شے ہے دلداروں کے پاس

تیرے آگے میں نے اس کو بھی میسّر رکھ دیا

ان اشعار سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نازکی اپنا انفرادی طرزِ احساس وطرزِ اظہار رکھنے کے باوجود بھی روایتی طرزِ احساس واظہار سے کسبِ فیض کرتاہے۔ 1937-1928ء تک کے دور کو کسی حد تک نازکی کا تشکیلی دور یا عبوری دور کہا جاسکتا ہے۔ اگر چہ اس عبوری یا تشکیلی دور میں بھی ان کی انفرادی صلاحیت اپنے آپ کو مسلسل اورتواتر کے ساتھ ظاہر کرتی رہی۔ یہاں غور طلب یہ ہے کہ نازکی صاحب نے اس وقت وادیٔ کشمیر میں شعر وشاعری کا آغاز کیا تھاجب اردو شعروادب جموں وکشمیر میں عہد طفولیت میں تھا۔ نازکی صاحب اوران کے چند ہم عصر شعرا نے اردو زبان کو گلے سے لگایا اورچند شعری مجموعیمنظر عام پر لاکر دادوتحسین حاصل کرگئے۔یہ دور نہ صرف نازکی صاحب کی شاعری کا ابتدائی دور اورتشکیلی دورتھا بلکہ ریاست جموں وکشمیر میں اردو شعروادب بھی انہی دنوں پروان چڑھ رہا تھا۔ اس لیے اس دور کے شعرامیں کچھ خامیوں کا ہونا کوئی مضحکہ خیز بات نہیں ۔ دوسری بات کشمیر کا جوادبی ماحول نازکی صاحب کو ورثہ میں ملا تھا وہ خالصتاًروایتی تھا اوران کی مادری زبان کشمیری تھی۔ اس لیے نازکی صاحب کی ابتدائی شاعری کا موازنہ ومقابلہ بیرون ریاست کے اعلیٰ شعرا کے ساتھ کرنا ایک جانبدارانہ عمل ہوگا۔ نازکی نے ابتد میں غزل کی روایتی شاعری کواپنے اندر جذب کیا۔ غزل کے تشخص کو پہچانا اورکلاسیکل غزل کے رموز وعلائم سے آگاہی حاصل کی اور غزل کی روایت کو اپنی شخصیت میں اس طرح اوراس قدر جذب کر لیا کہ بذات خود روایتی غزل کے اثرات سے نکلنے کے لیے بھی انہیں ایک دوسری قسم کی ریاضت کے عمل سے گذرنا پڑا۔انہوں نے کلاسیکی شاعری سے بغاوت نہیں کی بلکہ کلاسیکی روایت کے رچائو کے اندر رہتے ہوئے منفرد احساس رکھنے والی غزل کہی۔ البتہ اس ریاضت کا فائدہ انہیں غزل کے علاوہ نظم اورخاص کر رباعی میں پہنچا۔ نازکی کی رباعیات میں جو کیفیات ہیں ، جو زندگی اوراس کے مختلف روپ ہیں وہ کسی دوسرے شاعر کو نصیب نہ ہوسکے۔

میر غلام رسول نازکی نے 1948ء میں اپنا پہلا باضابطہ مجموعہ’’دیدۂ تر‘‘ کے نام سے شائع کیا ۔ نازکی صاحب کی بیاض میں شامل بہت سا کلام اس مجموعے میں شامل نہیں ہے۔ نازکی صاحب نے انتخاب کے دوران صرف ان غزلیات اورمنظومات کو ترجیح دی ہے جوفنی کسوٹی پر کھری اترتی ہو۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی اس ناقدانہ بصیرت سے کئی معیاری چیزیں بھی ’’دیدۂ تر‘‘ میں شامل ہونے سے رہ گئیں ۔ دراصل نازکی صاحب مقدار سے زیادہ معیار پر ترجیح دیتے تھے۔ وہ اپنے کلام کو ضخامت سے نہیں بلکہ معیار کے لحاظ سے ادبی حلقوں کے سامنے رکھنا چاہتے تھے تاکہ ادب نواز دوست اردو زبان وادب کی چاشنی سے واقف ہوسکیں جس میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی ہوئے۔ نازکی صاحب کی شاعری سے متاثر ہوکر بہت سے پڑھے لکھے لوگ اردو شاعری کی طرف راغب ہوگئے۔ اسی کوشش کے نتیجے میں ان کاسا راکلام اس مجموعے میں شامل ہونے سے رہ گیا۔ مجموعہ صرف 136صفحات پر پھیلا ہواہے اور اس میں 106رباعیاں ، 22غزلیں اور 20 نظمیں درج ہیں ۔

اس مجموعے کا مطالعہ کرنے سے یہ واضح ہوجاتاہے کہ نازکی کی تمام وکمال شاعری صرف انتخاب کی شاعری نہیں ہے اوریہ شاعری محض ریاضت کی شاعری بھی نہیں ہے۔یہ شاعری اپنے عہد کے دوسرے شعرا کے انداز سے مختلف ہے اوراس شاعری میں نازکی کے مخصوص طرز اظہار واحساس کے بنیادی عناصر، ان کی اپنی شخصیت کے پیچیدہ اورتہ در تہ پرت موجودہے۔ یہ شاعری نازکی کی آئندہ شاعری کا صرف اشاریہ نہیں ہے بلکہ اس سے بہت کچھ زیادہ ہے۔ ان اشعار میں کلاسیکیت کے ساتھ ساتھ زبردست انفرادیت بھی ہے۔ لیکن یہ انفرادیت بغاوت کے مترادف نہیں ہے۔ ان میں نئے رموز وعلائم بھی ہیں ایک نیا طرز احساس بھی ہے ۔ بدلے ہوئے طرز احساس کی وجہ سے طرز اظہار میں خود بخود ایک تبدیلی کے آثار بھی واضح طورپر ملتے ہیں ۔ یہ اشعار کسی حدتک روایتی غزل سے منقطع کر تے اور جدید غزل سے اپنا ناطہ جوڑ تے نظرآتے ہیں ۔

نازکی صاحب کے اس مجموعہ کلام سے متاثر ہوکر ریاست اوربیرون ریاست کے ادیبوں اور دانشوروں نے ان کی شاعرانہ اورفنکارانہ حیثیت کو سراہا۔یہاں تک کہ نازکی صاحب کو وادیِ کشمیر میں  ایک استاد کی حیثیت سے پہچانا جانے لگا۔ حامدی کاشمیری ، غلام نبی خیا ل ، فاروق نازکی، ایاز رسول نازکی جیسے کشمیر کے بڑے اوراعلیٰ شاعروں نے نازکی صاحب سے کسب فیض کیا۔ ان کی صحبت میں رہ کر شاعری کے رموز ونکات سے آشنا ہوئے ۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ نازکی صاحب خود اپنی شخصیت سے مطمئن نظر نہیں آرہے تھے۔ انہوں نے اپنے اردو کلام کا دوبارہ جائزہ لیا۔ اپنی ناقدانہ وشاعرانہ نظر سے اپنے کلام میں حذف واضافہ کیااوردوبارہ اپنے کلام کو 1996میں ’’متاع فقیر‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ ’’متاع فقیر‘‘ حذف واضافہ کے لحاظ سے مجموعہ ’’دیدۂ تر‘‘ سے بالکل مختلف ہوگیا۔ اسی لیے اس مجموعے کو دیدۂ تر کے نام سے شائع کرنا مناسب نہیں تھا۔ ’’متاع فقیر‘‘ کا مقدمہ کشمیر کے مشہور ومعروف نقاد وشاعر حامدی کاشمیری اورپیش لفظ حکیم منظور نے لکھا ہے۔ اگر چہ نازکی صاحب نے اپنے کلام کو اپنی زندگی کے آخری ایام میں از سرِ نو مرتب کر کے متاع فقیر کے نام سے شائع کیا۔ لیکن ان کی شاعرانہ خصوصیات، ان کے مخصوص طرز اظہار اورمخصوص طرز احساس اور اردو شعر وادب میں ان کے مقام پر کسی نتیجے تک پہنچنے کے لیے ان کے پورے کلام کو پیش نظر رکھناہوگا۔ ’’دیرۂ تر‘‘ اور’’متاع فقیر ‘‘کے علاوہ نازکی صاحب نے 1989ء میں اپنا ایک نعتیہ مجموعہ ’’چراغ راہ‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ اس مجموعے سے بھی ان کی تخلیقی صلاحیت کے علاوہ ان کے مذہبی رجحان کو سمجھنے میں کافی مددہوگی۔

میر غلام رسول نازکی اپنے مجموعہ کلام’’ متاع فقیر ‘‘ میں اپنے فکر وفن اورشاعرانہ صلاحیتوں کے بارے میں بڑے ہی فخریہ انداز میں دعویٰ کرتے ہیں کہ:

کشمیر کا رہنے والا ہوں اردو معلی لکھتا ہوں

اس دیش میں مجھ سا کوئی بھی اردو کا سخن ور ہونہ سکا

یہ محض تعلّی شاعرانہ نہیں بلکہ میر غلام رسول نازکی وادی کشمیر کے شعرا میں مرکزیت رکھتے ہیں اور بیشتر اہل ادب ان کے فکروفن کے قائل ہیں ۔میر غلام رسول نازکی کے مبارک ہاتھوں سے ریاست جموں وکشمیر میں اردو شاعری کی شمع روشن ہوئی اوریہ وہ دور تھا جب وادی میں اردو کا چلن بہت کم تھا۔ اس ابتدائی دور میں اس قدر شعری لوازم کا شعور رکھنا اورنبھانا کوئی معمولی بات نہیں ۔ انہوں نے ہر اعتبار سے شاعری میں اپنی استادانہ مہارت، انفرادیت اوراعلیٰ سطح کا مظاہرہ کیا ہے۔ پروفیسرظہورالدین اپنے مقالہ ’’میر غلام رسول نازکی ، میری نظرمیں ‘‘ میں نازکی صاحب کی استادانہ مہارت کا ذکر یوں کرتے ہیں :

’’میر غلام رسول نازکی وادی کے ان معدودے چند شاعروں میں سے تھے جنہیں ایک طرف اگر فن شاعری کے جملہ لوازم کا بھر پور شعور تھا تو دوسری طرف اردو زبان کے اسرار ورموز سے بھی وہ کما حقہ آشنا تھے۔ زبان وبیان پر قدرت کی وجہ سے وہ اشاتذہ شمار کیے جاتے رہے۔‘‘ ۳؎

ریاست جموں وکشمیر کے اردو شعرا میں نازکی صاحب کی انفرادیت اس لحاظ سے مسلم ہے کہ انہوں نے جملہ اصناف سخن میں کامیاب طبع آزمائی کی۔ انہوں نے جس صنف کی طرف توجہ دی اس کے فنی لوازمات کو بھر پور طریقے سے نبھایا اوران کی تہہ تک رسائی حاصل کی۔ انہوں نے غیراردو علاقے میں رہنے کے باوجود اپنی تخلیقات کی بدولت اردو دانوں سے اپنی زبان دانی کا لوہا منوایااوراپنی منفرد شناخت قائم کی۔ اس ضمن میں پروفیسر حامدی کاشمیری کی اس رائے سے کسی کو انکارنہیں ہوسکتا جس کا اظہار انہوں نے نازکی صاحب کے مجموعہ کلام ’’متاع فقیر‘‘ کے مقدمہ میں یوں کیاہے:

’’نازکی صاحب نے اردو شعری روایت کی پاسداری کی ہے وہ کلاسیکی شعری ورثے پر نظر رکھتے ہیں ۔انہوں نے اپنے کلام کو ان فنی معائب سے پاک رکھا ہے جو نئی نسلوں کے کم گو شعرا سے اکثر سرزد ہوئے ہیں ۔ اور واقعی وہ کشمیر میں اردو شعری روایت کے اولین بنیاد گذاروں میں نمایاں مقام رکھتے ہیں ۔‘‘ ۴؎

پروفیسر حامدی کاشمیری متاع فقیر کے اسی مقدمے میں نازکی صاحب کی شاعرانہ صلاحیتوں اورامتیازی خصوصیات کا بیان کر تے ہوئے لکھتے ہیں کہ نازکی صاحب کی شاعری میں جو دو نمایاں رجحانات ملتے یں وہ فطرت نگاری اور تخیل کی دنیا آباد کرنے کی آرزو ہے۔

تخیل کو شعروشاعری میں ہمیشہ سے مرکزیت حاصل رہی ہے۔ بغیر قوت تخیل کے اعلیٰ شاعری ممکن نہیں ۔مولانا الطاف حسین حالیؔ نے مقدمہ شعر وشاعری میں اعلیٰ شاعری کے لیے جس چیز کو بنیادی قراردیا وہ قوت تخیل ہے۔ حالی کے مطابق جس شاعر میں یہ قوت جس قدر اعلیٰ درجے کی ہوگی اسی قدر اس کی شاعری اعلیٰ درجے کی ہوگی۔شاعری جس کی بنیاد جذبے پر ہے ۔ اپنے سارے مطالب تخیل کی مدد سے ادا کرتی ہے۔ یہی اس کی زبان ہے جواس کے انداز بیان کو ایک خاص شکل میں ڈھالتی ہے۔ اس کی ہر ادا پر تخیل کا رنگ چڑھا ہوا ہوتاہے۔ اوریہی خیال کی رنگ آمیزی اس کو عام طرز بیان سے جدا اورممتاز کرتی ہے۔ شاعر اپنی قوت تخیل سے اپنے کلام میں ترکیب وترتیب کی عجیب وغریب صورتیں اختیار کرتاہے۔ کبھی شاعری کو حکمت بناتا ہوااور کبھی حکمت کو شاعری میں ڈھالتا ہوا مناسب شکلیں اختیار کر تارہتاہے۔

نازکی صاحب نے قوت تخیل سے کام لیتے ہوئے نادر استعارات ، منظر نگاری، پیکر تراشی، طرز اظہار وطرز بیان وتشبیہات کے استعمال سے اپنی شاعری کو وسعت عطا کی ۔ جہاں تک ناز کی صاحب کی شاعری میں تخیلی دنیابسانے کی آرزو ہے ۔ یہ رجحان ابتدائی شاعری سے لے کر آخری کلام میں جابجا ملتاہے۔ اسے نازکی صاحب تا حیات چھٹکارہ نہ پاسکے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آخر نازکی صاحب نے تخیلی دنیا کو ہی ترجیح کیوں دی۔ کیا نازکی صاحب حقیقی دنیا کا سامنا کرنے سے گریز کرتے ہیں یا حقیقت کا سامنا کرنے کی قوت نہیں رکھتے۔ اس بات پر قلم اٹھانے سے پہلے ہمیں اس دور کے سماجی وسیاسی حالات کا مختصراً جائزہ لینا ہوگا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہا جاسکتا کہ انسان کی زندگی جن حالات اورجس نشیب وفراز سے گذرتی ہے اس کا اثر اس کی تخلیقات پر بھی پڑتاہے۔ معاشرے میں جبتبدیلیاں رونما ہوتی ہیں تو ااس کے اثرات شعروادب پر بھی پڑتے ہیں ۔یہ بھی ایک صداقت ہے کہ شاعری میں فرد اور سماج کے درمیان ایک گہرا رشتہ ہوتاہے اس لیے نازکی صاحب کی شاعری اپنا تاریخی اورزمانی پس منظر رکھتی ہے۔ یہاں یہ مطلب ہر گز نہیں کہ شاعر اپنے ماحول کا غلام ہوتاہے ۔ لیکن وہ اس سے بے نیاز بھی نہیں رہ سکتا۔ جس وقت نازکی صاحب کا شعور بالغ ہوا اس وقت ریاست میں نئی نئی شورشیں اوربے اطمینانیاں پھیلنے لگی تھیں اور جابجا خفیہ شازشیں اوربغاوتیں ہماری خوش خوابی میں خلل ڈالنے لگی تھیں ۔ ریاست میں ڈوگرہ راج کاتسلط قائم تھا۔ آخرکار بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں کشمیر ی عوام کو شیخ عبداللہ قائد کے طورپر مل گیا۔ انہوں نے کشمیری عوام کو متحد کر کے ڈوگرہ راج کے خلاف صف آراکیا۔ اس تحریک نے کشمیر کی سماجی ، سیاسی، تعلیمی اوراقتصادی ماحول میں ہلچل پیداکی۔ یہ ایک ایسا تاریخی موڑ تصور کیاجاتاہے جس نے کشمیری عوام کے خون میں انقلاب پروری موجزن کی۔1947ء میں ملک تقسیم ہوا اورپاکستان وہندوستان وجود میں آئے۔ کشمیر میں ڈوگرہ راج کا خاتمہ تو ہوالیکن ساتھ ہی ساتھ نئے مسائل نے جنم لیا۔ آزادی سے پہلے عوام نے اپنے مستقبل کے جو سنہرے خواب دیکھے تھے آزادی کے بعد خواب خواب ہی رہے اور امیدی ناامیدی میں بدل گئی۔ اس طرح وہ ملکی اورمعاشرتی فضا جس میں نازکی صاحب کا ذہن جوان ہوا تصادم اوربیکاری کے احساس سے پرتھا۔ دوسری طرف نازکی صاحب کی نجی زندگی بھی کچھ اچھی نہ تھی۔ انہیں ایک غریب گھرانے کا فر د ہونے کی وجہ سے قدم قدم پر آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا۔

نازکی صاحب چونکہ ایک حسّاس اوردردمند دل رکھتے تھے ۔انہوں نے اپنی نجی زندگی میں ماحول اورزمانے کی سختیاں برداشت کرتے ہوئے اپنی شخصیت اور انفرادیت برقراررکھنے کے لیے بڑی ہنر مندی اوراستقلال سے جدوجہد کی۔ اسی وجہ سے ان کے یہاں احساس غم سب سے نمایاں ہے۔ وہ ناموافق اورناسازگار حالات وواقعات سے نبر دآزماہوتے ہوئے ایک فنی اورخیالی دنیا تعمیر کرنا چاہتے ہیں ۔ اسی لیے کہتے ہیں :

میرے بس میں میری تقدیر ہوگی

نیا نقشہ نئی تصویر ہوگی

ہلا ڈالوں گا میں بنیاد جہاں کو

پھر اک دنیائے نو تعمیر ہوگی

لیکن میر غلام رسول نازکی کا یہ تخیل حد سے تجاوزبھی نہیں کرتا بلکہ اپنے حدود میں رہ کر اپنی جلوہ سامانیوں کے ساتھ ظاہر ہوتاہے:

چاند کی کرنوں سے دنیا حسن کا گہوارہ ہے

پرتوِ مہتاب ہے یا نور کا فوارہ ہے

جلوہ گاہ طور ہے پست و بلندِ کائنات

رات کا سنسان منظر ہے، نظر آوارہ ہے

میر غلام رسول نازکی کی تخیلاتی اورحقیقی دنیا سے متعلق پروفیسر حامدی کاشمیری اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں :

’’ان کے یہاں خیالی دنیا میں مراجعت کا رویّہ بھی خاصا نمایاں ہے۔ یہ ایک رومانی رویّہ ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ نازکی صاحب حقیقی زندگی سے رشتوں کی تنسیخ کرتے ہیں وہ حقیقت کے طمانچے کھاتے ہیں ۔ ان کا وجود مجروح ہوتاہے، ان کے خواب بکھر جاتے ہیں ، وہ پیکر یاس وحسرت بن جاتے ہیں ۔ مگر ان کا وجود منتشر نہیں ہوتا۔وہ اپنی حقیقی پناہ گاہ یعنی تخیلی دنیا میں لوٹتے ہیں اور پھر حادثاتِ دنیا کا جائزہ لیتے ہیں ۔ اس طرح سے ان کے یہاں حقیقت اورخواب کی آویزش ان کے شعری عمل کو مہمیز کر تی ہے۔‘‘  ۵؎

جہاں تک شاعری میں موضوعِ غم کا تعلق ہے ۔ اردو کی ادبی تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتاہے کہ شروع ہی سے قریب قریب ہر شاعر نے اس موضوع کو کسی نہ کسی حدتک ذریعہ اظہار بنایا۔ کبھی یہ غم جاناں کی شکل میں عیاں ہے تو کبھی غم روزگار کی صورت میں ۔ میرسے لے کر دور جدید کے ہر شاعر کے ہاں غم پسندی کی واضح جھلک نظر آتی ہے:میر غلام رسول نازکی کا غم ان کی ذات کا حصہ ہے ۔وہ اس میں کھوکر سکون محسوس کرتے ہیں ۔غم ان کا اوڑھنا بچھونا ہے ۔ وہ اسے اپنے رومانوی نقطہ نظر پر پرکھتے ہیں اوراسے اپنا محبوب گردانتے ہیں اورپھر اسی غم میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ وہ اسی راستے سے زندگی کی حقیقتوں سے آشنا ہوتے ہیں ۔

نازکی صاحب کے کلام کے مطالعے سے ہمیں ان کے یہاں پائے جانے والے غم کی دو سطحیں نظرآتی ہیں ایک سطح وہ ہے جس میں روزمرہ کی زندگی میں پیش آنے والی دقتوں کا بیان ہے۔ یہ بیان ہمیں زیادہ متاثر نہیں کرتا کیوں کہ یہاں وہ ایک عام انسان کی طرح بات کرتے نظر آتے ہیں ۔ یہاں زندگی میں پیش آنے والے واقعات کا سیدھے سادھے انداز میں پیش کیا جاتاہے:

دل عموماً اداس رہتا ہے

وقف حرماں و یاس رہتا ہے

چھوڑ جاتے ہیں ساتھ جب ساتھی

ایک غم ہے جو پاس رہتا ہے

ایک جان ناتواں اس پر ہزاروں آفتیں

درد بھی ، رنج و الم بھی، زخم بھی، ناسور بھی

دوسری سطح پر وہ ایک فلسفی کی طرح ان سطحی دقتوں کا اور پریشانیوں کی تہہ میں اتر کر ایسے فلسفیانہ نتائج اخذ کرتے ہیں جو قاری کے لیے بصیرت افروز ہیں :

محبت زندگی زندگی غم ہوتی جاتی ہے

خوشی تحلیل ہو کر غم میں مدغم ہوتی جاتی ہے

اب کس کو یقین آئے جو چیز ہے فانی ہے

پیغام محبت ہے ، اور ان کی زبانی ہے

اب تو دن ڈھلنے لگا سائے بھی لمبے ہوگئے

ہم بھی گھر جائیں گے اپنے اپنے گھر جاتے ہیں لوگ

پہلوئوں میں برف کی ٹھنڈی سی قاشیں دیکھیے

دفن ان اجلی سی پوشاکوں میں لاشیں دیکھیے

زندگی کا غم، جوانی کا الم، فکر معاش

غم کے ہاتھوں دل کے چہرے کی خراشیں دیکھیے

یہی فلسفۂ غم نازکی کی شاعری میں غالب ہے۔ وہ ایسی دنیا کے غم میں مگن ضرور رہتے ہیں ۔ لیکن ایک خاص ادائے بے نیازی کے ساتھ ساتھ وہ تمام انسانیت کے لیے ایسا دل رکھتے تھے جو دھڑکن سے تعبیر ہے۔ وہ اپنے انوکھے غم کا اس طرح اظہار کرتے کہ یہ آہ جو دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے کی شکل پیدا کر لیتی ہے اور یہی دراصل شاعر کا مقصدہے کہ وہ تاثیر غم چاہتاہے۔یہاں اس بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ نازکی صاحب کی شاعری کے کئی موڑہی نہیں کئی رنگ بھی ہیں ۔ اس لیے نازکی صاحب کو ایک ہی رنگ تک محدود رکھنا ان کے فن کے ساتھ ناانصافی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کسی شاعر کے ایک ہی رخ کو نمایاں کرنے سے اس کے دوسرے رخ پس پشت پڑجاتے ہیں جس کی وجہ سے اس کی کامل تصویر سامنے نہیں آتی ۔ نازکی صاحب کے ساتھ بھی کسی حدتک یہی ہوا۔ ان کے کلام کے غمگین پہلو کو اتنا زیادہ اچھالا گیا کہ دوسرے پہلو دب گئے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نازکی صاحب کی شاعری میں تصور غم کا عنصر غالب نظرآتاہے ۔ میرغلام رسول نازکی کی شاعری کے مطالعے کے دوران میں نے محسوس کیا کہ نازکی صاحب نے منظر نگاری، پیکر تراشی،ترکیب سازی اورطرز اظہار وطرز احساس میں بڑی بیباکی کامظاہرہ کیا ہے اور اپنے مشاہدات وجذبات کے اظہار کی صداقت کو بڑی ہنر مندی کے ساتھ شاعری میں سمو دیا۔وہ سارے الفاظ جو زندگی کے تجربے کا اظہار کرتے ہیں ۔ نازکی نے اپنی شاعری میں استعمال کیے ہیں ۔ فکر معاش، انقلاب، غم زیست، ظلم، فکر وفلسفہ، ملا ومجاہد، استحصال ، مصور وفنکار، دیوار، اشتہار ،منصف وغیرہ جیسے الفاظ ان کی شاعری میں بہت ہی وسیع معنوں میں استعمال ہوئے ہیں ۔ اور ہر طرح کے الفاظ کا بیباکانہ استعمال بڑے سلیقے سے کیاہے۔ نازکی صاحب کے ذہن میں خالص غزل کے شعر جیسی کوئی چیز نہیں تھی۔ غزل کی ہیئت واردات قلبی کے اظہار کے لیے نازکیصاحب نے استعمال کی اور واردات قلبی کے محرکات میں حسن وعشق ہی نہیں ، قتل وخون اور بستیوں کے اجڑنے اور گھر وں کے جلنے کا بھی ذکر ہے۔ نازکی صاحب نے اپنے فن کو محدود نہیں کیا، کسی لفظ کے استعمال سے گریز نہیں کیا۔ کسی تجربے کے ذکر سے اجتناب نہیں کیا، کسی کیفیت کو نظرانداز نہیں کیا۔اسی لیے ان کے یہاں کئی موڑ ، کئی کیفیتیں ملتی ہیں ۔ بلکہ کئی رنگ بھی ملتے ہیں جس میں نازکی کی مخصوص شناخت کی زیریں لہر دوڑتی ہوئی نظر آتی ہے جس سے ہم ان کے لہجے کا انداز پہچانتے ہیں ۔ نازکی عاشق بھی ہے، عاشق مزاج بھی ہے، حسن پرست بھی ہے، حسن پر فریفتہ بھی ہے، وہ ظالم کے خلاف احتجاج بھی کرتا ہے، ظالم کو متنبہ بھی کرتاہے۔ شکست وریخت کا تجزیہ بھی کرتاہے ۔ حالات کا شکوہ بھی کرتاہے۔ اپنی خودی پر نازاں بھی ہے، اپنی سپر دگی سے مسرور بھی ہے، وہ صوفی بھی ہے ، مفکر بھی ہے، مست وبے خود بھی ہے، غم سے نڈھال بھی ہے، مسرت سے سر شار بھی ہے اور ان سارے احساسات کا اظہارانہوں نے بڑی بیباکی سے کیاہے ۔ ان سب جذبات واحساسات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پروفیسر حامدی کاشمیری ’’متاع فقیر‘‘ کے مقدمہ میں بیان فرماتے ہیں :

’’ان کی(نازکی صاحب) کی شخصیت میں جذبات کی کارفرمائی ملتی ہے۔ مگر جذبات کا وفور نہیں ۔وہ عقلی قوتوں سے کام لے کر اپنے جذبات کو قابو میں رکھتے ہیں اور اپنی شاعری کو جذباتیت سے آلودہ نہیں ہونے دیتے۔ وہ زندگی کے نشیب وفراز سے گذرتے ہوئے مختلف حقائق سے متصادم ہوکر اپنے داخلی رد عمل کو لفظوں کا جامہ پہناتے ہیں ۔اس طرح سے ان کی شاعری زندگی کے دکھ درد کااحساس پیدا کرتی ہے۔ نازکی صاحب کی نجی زندگی جدوجہد کی ایک طویل اور کرب انگیز داستان ہے۔ وہ اپنے عہد اور ماحول کی سختیاں برداشت کرتے رہے اورانہوں نے ہر قدم پر عزم وحوصلہ کا ثبوت دیا ہے۔ انہوں نے اپنی شخصیت کو منتشر ہونے سے محفوظ رکھنے کے لیے شعر گوئی اختیار کی اور وہ اپنے جذبات واحساسات مثلاً غم روزگار، عشق ، حسن ، درد، تزکیۂ نفس، درد وحسرت، بے ثباتی دنیا، طول

 وامل، استغنا، اور غم کی تجسیم کر تے رہے۔‘‘ ۶؎

دوسرا رجحان جو نازکی صاحب کی شاعری میں نمایاں طورپر ملتا ہے ، فطرت نگاری ہے۔مناظر فطرت کا رجحان اردو شاعری کا ایک پسندیدہ موضوع رہاہے اور ابتدا سے تاحال بہت سے شاعر اپنی تخلیقی کاوشوں میں گوناگوں انداز میں اسے جگہ دیتے رہے ہیں ۔ اردو کے کلاسیکی ادب میں بھی مناظر فطرت کی جھلکیاں نظر آتی ہیں ۔ اگر چہ کلاسیکی غزل میں ا س کی مثالیں کم ملتی ہیں ۔ لیکن قصیدہ اورمرثیہ ، مثنوی وغیرہ میں فطرت نگاری کو شعوری طورپر برتا گیاہے اور بہت ہی اچھے اور اعلیٰ نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ جدید اردو شاعری میں محمد حسین آزاد نے پہلی بار یہ محسوس کیا کہ ہماری اردو شاعری میں جن مناظر قدرت کا ذکر کیا جاتاہے ان کا تعلق ہندوستان سے کم ہوتاہے۔ اس کے بعد حالیؔ نے اردو میں باقاعدہ تنقید نگاری کی بنیاد ڈالی اور مقدمہ شعر وشاعری لکھ کر فکروشعور کے لیے نئی راہیں کھول دیں ۔ انہوں نے شاعری کے مختلف اصولوں سے بحث کی۔ اس سلسلہ میں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ شاعری کے لیے کائنات کا مطالعہ نہایت ضروری ہے خصوصاً منظر نگاری کائنات کے مطالعے کے بغیر صداقت کے ساتھ نہیں پیش کی جاسکتی ہے۔

میرغلام رسول نازکی فطرت کے دلدادہ ہیں ۔ انہوں نے فطرت کی طرف خاص توجہ کی ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں فطرت کی جھلکیاں اور مناظر قدرت کے جلوے دکھائے ہیں ۔ خاص کر کشمیر ی نثراد ہونے کی وجہ سے ان کی شاعری میں کشمیر کا حسن جلوہ گر رہتاہے۔ انہوں نے انہیں مناظر کو اپنی شاعری میں جگہ دی جن کو انہوں نے بذات خود دیکھا ہے اس لیے ان کی منظر نگاری کا تعلق کشمیر ہی سے ہے۔نازکی نے فطرت کا بغور مطالعہ کیا جس کے پیش نظر ان کی شاعری میں فطرت کی شادابی اور دلفریب مناظر کی عکاسی ملتی ہے۔ ان کی شاعری میں کہیں کشمیر کی دلکش وادیاں ہیں جہاں ڈھلانوں پر لمبی لچکتی ہوئی گھاس ہے۔ اس گھاس کے خوشبو سے فضا معطر ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ آئینہ نما جھیلیں ہیں ۔ پہاڑوں کے حسن اورقدرت کی بوقلمونیا ہیں ۔ کہیں تاروں بھری رات کی سحر انگیز فضا، کہیں صبح کی دلفریبیاں اور رعنائیاں ہیں تو کہیں برف سے ڈھکے بلند بالا کہسار کا سلسلہ ہے اور کہیں فلک شگاف چوٹیوں کا دلکش منظر دلوں کو لبھاتاہے اور آنکھوں کو بھلا لگتا ہے۔ ان کی نظموں نے سوزوگداز ، سلاست ونغمگی سے ایک دلفریب کیفیت پیدا کردی ہے۔چند اشعار دیکھیے:

اس شوخ کو کیا دیکھوں آنکھوں میں سمٹ آئی

شیراز کی شادابی، کشمیر کی رعنائی

اک سہانی چاندنی رات اور مانسبل کا جھیل

حسن کی چپ چاپ دنیا، خلد کا عکس جمیل

دور تاحد نظر سرسوں کے کھیتوں کے قطار

آرزو کا سلسلہ لا انتہا، فرصت قلیل

مرے کشمیر کی ہر شے حسین ہے

یہاں کی ہر پہاڑی مہ جبین ہے

فلک پر اس زمین کی سر زمین ہے

فلک خود ڈل کے اندر تہہ نشین ہے

ان اشعار سے واضح ہوتاہے کہ نازکی صاحب نے کس طرح اپنی شاعری میں صداقت اور حقیقت کی جھلکیاں دکھاتے ہیں ۔ انہوں نے شعور ی طور پر منظر کشی کے وقت کشمیری کی رعنائی وشادابی، چاندنی رات، مانسبل جھیل ، ڈل جھیل، پہاڑی، سرسوں کے کھیت جیسے الفاظ استعمال کیے ہیں جو مناظر قدر کی عکاسی میں مدد کرتے ہیں ۔ ان کی اس منظر نگاری میں کشمیر کی روح رقص کر تی ہوئی نظر آتی ہے۔ جن لوگوں نے کشمیر کی سیر کی ہواور کشمیر کی جھیلوں ، پہاڑوں ، دریائوں ،کھیتوں وغیرہ کو دیکھا ہو وہ یہ محسوس کر سکتے ہیں کہ یہ اشعار کس سچائی سے اس کی عکاسی کر تے ہیں :

یہ شب مہتاب یہ پانی سے مالا مال جھیل

دامن کہسار کا جھرنا، عدیل سلسبیل

ہر ادا مخمور، ہر جانب سکوں ، ہر سو سکوت

ہر پہاڑی طور، ہر منظر حسین، ہر شے جمیل

چاند کی کرنوں سے دنیا حسن کا گہوارہ ہے

پر تو مہتاب ہے یا نور کا فوارہ ہے

جلوہ گاہ طور ہے پست وبلند کائنات

رات کا سنسان منظر ہے، نظر آوارہ ہے

ان اشعار کو پڑھنے کے بعد کشمیر کے اونچے اونچے پہاڑوں کا صحیح نقشہ نظر کے سامنے آجاتاہے۔ ان اشعار میں مبالغہ بہت کم ہے شاعر نے زیادہ تر مشاہدات کی روشنی میں پہاڑوں کی تصویر کشی کی ہے۔ جس طرف نظراٹھے ہریالی ہی ہریالی ہے۔جھیل ،پہاڑی، جھاڑیاں ، خاموشی، رات کا سنّاٹا یہ مصرعے واضح الفاظ میں پہاڑوں کے مناظر پیش کرتے ہیں ۔چاند رات کی منظر کشی اس سے بہتر اورکسی طرح نہیں ہوسکتی ہے۔

     ٭٭٭

۱؎۔ غ۔م طاؤس ۔ دیدۂ تر از میر غلام رسول نازکی ۔ص ۳

۲؎۔ میر غلام رسول نازکی میری نظر میں ۔پروفیسر ظہور الدین ۔شیرازہ ، سری نگر ۔ نازکی نمبر ۔ ص ۲۶

۳؎ ۔ میر غلام رسول نازکی میری نظر میں ۔پروفیسر ظہور الدین ۔شیرازہ ، سری نگر ۔ نازکی نمبر ۔ ص ۲۶

۴؎۔ متاع فقیر۔میر غلام رسول نازکی مقدمہ از حامدی کاشمیری۔ ص ۵

۵؎۔ متاع فقیر۔میر غلام رسول نازکی مقدمہ از حامدی کاشمیری۔ ص ۵

۶؎ ۔ متاع فقیر۔میر غلام رسول نازکی مقدمہ از حامدی کاشمیری۔ ص ۱۱

۔۔۔۔۔

ڈاکٹرطاہر محمود ڈار

لیکچرر ۔کشمیر یونیورسٹی سری نگر

ای میل tahir.rubani@gmail.com;

رابطہ:   9596353689

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.