اٹھارہ سو ستاون اور اردو

بشریٰ غفور

ریسرچ اسکالر، شعبہ اردو،دہلی یونی ورسٹی

دہلی۔۱۱۰۰۰۷

 

انسان کے  خیالات واحساسات اور جذبات کو دیگر افراد کے  سامنے  پیش کرنے  کا اہم ذریعہ زبان ہے۔ زبان کے  ذریعے  انسان جو کچھ سوچتا یا سمجھتا ہے  ا نھیں  وہ اظہارکا وسیلہ بناکر دوسروں کے  سامنے  کرتا ہے۔الغرض زبان کی ابتدااور فروغ،  اس کی تمدنی زندگی،  اس کے  ارتقا پر منحصر ہوتی ہے۔ دنیا کے  کسی بھی مذاہب کی اپنی کوئی متعینہ زبان نہیں ہوتی ہے  اور نہ ہی زبان مذہبی تخصیص کی تعلیم دیتی ہے۔زبان ہی ایک ایسا رائج الوقت سکہ ہے  جو بلاتفریق ہندو،  مسلم،  سکھ او ر عیسائی کسی کے  بھی ہاتھ آجاتی ہے۔ اس کے  برخلاف جن ممالک نے  ذات پات کی بنیادپر زبان میں تفریق پیداکرنے  کی کوشش کی،  وہ ملک یا تو بربادی کے  دہانے  پر پہنچ گیا یا اس میں شگاف و دراڑپڑتے  ہوئے  نظرآتے  ہیں۔ اِنھیں تمام باتوں کو مد نظر رکھتے  ہوئے  اگر ہم یہ کہیں کہ زبان انسان کے  دلی جذبات کو اجاگر کرنے  کا اہم ترین ذریعہ ہے  تو زیادہ بہتر ہوگا، کیوں  کہ انسان جوکچھ بھی سوچتا ہے  وہ اس کے  تحت الشعور میں پہلے  سے  موجود ہوتی ہیں۔

تاریخ کے  اس اہم دور پر کچھ کام تو ہوا ہے  مگر ابھی بہت سے  گوشے  ایسے  ہیں جہاں تک ہمارے  مورخوں اور دانشوروں کی رسائی نہیں ہو پائی ہے۔ اور ایسے  ہی گوشوں پر کا م کرنے  کی گنجائش باقی ہے۔ ہم جانتے  ہیں کہ ہندوستان میں تیرہویں صدی سے  لے  کر۱۸۹۱ ء تک حکومت کی زبان فارسی تھی جس کی وجہ سے  تمام احکامات، خطوط اور سرکاری دفاتر کی کاروائیاں بہ زبان فارسی ہی ہوا کرتی تھی۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ سے  متعلق متاثرہ تمام شہروں میں اس کے  دستاویزات کے  ذخائر نہ صرف فارسی بلکہ اردو کے  ساتھ ساتھ مقامی زبانوں میں بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں ۔  ان سب کو کھنگالنے  کی ضرورت ہے۔ہمارے  ملک کی ایک قدیم تاریخ رہی ہے۔ اس میں مختلف مذاہب کے  ساتھ ساتھ مختلف زبانیں بھی روز اول سے  ترویج وترقی کرتی رہی ہیں۔  اس ملک کی یہ بھی تاریخ رہی ہے  کہ جس طرح اس میں ہندو مسلم ایک زمانے  سے  ایک ساتھ رہتے  آئے  ہیں اسی طرح اس ملک کی اہم زبانوں  میں سے  دو مقبول ترین زبان اردو، ہندی بھی ایک ساتھ ہی پروان چڑھی ہے۔کسی بھی زبان کا ابتدائی زمانہ بڑی دشواریوں سے  گھرا ہوا ہوتا ہے۔ ایسا ہی کچھ ہماری مادری زبان اردو کے  ساتھ بھی ہوتا آیا ہے،  جس کی ایک لمبی تاریخ ہے۔

یہ ملک ہندوستان جیسے  جیسے  ترقی کرتاگیاویسے  ویسے  اردو زبان سادہ،  سہل اور عام فہم زبان ہوتی چلی گئی۔اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے  کہ اردو کو۱۸۵۷سے  قبل بڑی اہمیت حاصل تھی۔  ۱۸۵۷ کے  بعد اس کی اہمیت میں مزید اضافہ ہی ہوا۔دراصل اگر ہم جنگ آزادی سے  پہلے  کے  اردو ادب پر نظر ڈالیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ اردو کن کن دشوار گذارمراحل سے  گزر کرآج ہمارے  سامنے  آسان زبان کی صورت میں نظرآرہی ہے۔

اردو کے  معنی لشکر کے  ہوتے  ہیں۔  جس طرح لشکر میں ملک و قوم کے  افراد شامل ہوتے  ہیں اُسی طرح سے  اردو بھی قوم و مذہب کی زبانوں کا خوبصورت سنگم ہے۔ مثلاً پنجابی،  کھڑی بولی،  سنسکرت،  ہندی،  فارسی اور انگریزی وغیرہ۔لہذا ان سبھی زبانوں کو ملا کر جو زبان وجود میں آئی اس زبان کو’اردو ‘کا نام دیا گیا۔اردو نہ کسی ایک قوم کی زبان ہے  بلکہ یہ ہندوستان یا اب توبرصغیر سے  نکل کر دوسرے  ممالک میں بھی بولی،  پڑھی اور سمجھی جاتی ہے۔ اس کا اپنا ایک وجود ہے۔ اس کی ابتدا دو گروہوں کے  ذریعے  ہوئی۔ جس میں ایک معاشرتی گروہ اور دوسرا انقلابی گروہ ہے۔

 غدر سے  قبل ملک کے  سیاسی،  سماجی اور معاشرتی حالات بہت ہی خستہ تھے۔ انگریزوں نے  ہندوستان پر اپنا سکہ جما کر ملک ہندوستان کو اپنی گرفت میں  کررکھا تھا۔ جس سے  ہندوستانی عوام کونہ اپنی مرضی سے  بولنے  کی اجازت تھی اور نہ ہی انھیں کسی کام کو کرنے  کا کوئی حق تھا۔ ان تباہ کن حالات کا سامنا کرتے  کرتے  ہندوستانی عوام خود سے  بہت زیادہ پریشان ہوچکی تھی اور ہندوستانیوں کے  دماغ میں انگریزوں سے  آزادی حاصل کرنے  کا خیال آیا تو انہوں نے  انگریزوں سے  لوہا لینا بہتر سمجھا۔ ایسے  حالات میں ہندوستانیوں نے  جنگ کا اعلان کردیا کہ جب تک انگریزوں سے  ڈٹ کر مقابلہ نہیں کیا جاسکتا ہم ان کی غلامی سے  آزاد نہیں ہو سکتے  اور جب ہم غلامی سے  آزاد ہوں گے  تب ہی اپنی مرضی سے  اپنی زندگی گزار سکتے  ہیں۔  اس لئے  انگریزوں سے  جنگ کا سامنا کرنے  کے  لئے  ہندوستان کے  بہت سے  عالمِ دین نے  بھی جنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا حصہ لیا۔ امیر ہو یا غریب،  بوڑھا ہو یا جوان یا بچہ،  ہندو ہو یا مسلمان غرض کہ ہندوستان کے  سبھی طبقے  نے  جنگ میں شرکت کرنا اپنافرض سمجھا۔ کسی نے  قلم کے  ذریعے  تو کسی نے  ہتھیار کے  ذریعے  آزادی حاصل کرنے  کی اہم خدمات کو انجام دیا۔

رفتہ رفتہ ہندوستان میں جنگ کا مقابلہ کرنے  اور آزادی حاصل کرنے  کے  لئے  زبان و ادب کو اپنا اہم ذریعہ بنایا۔ اس لئے  کسی نے  اخبار تو کسی نے  تصانیف وغیرہ لکھ کر جنگ سے  مقا بلہ کرنے  کی مہم کو جاری رکھا۔ کیونکہ جب اخبارات عوام کے  بیچ میں شائع ہونگے  تو عوام ان کو پڑھیں گے  تو ان کے  دماغ میں سوچنے  سمجھنے  کی صلاحیت دوگنی پروان چڑھے  گی جس میں اردو اخبار کے  بانی محمد حسین آزاد کے  والد مولوی محمد باقر تھے۔  جنگ کے  اسباب کو بیان کرنے  کی اہم کتاب ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ ہے  جس میں  بغاوت یا آزادی کے  اسباب کو سرسید احمد خاں نے  بہت ہی خوبصورتی اور شگفتہ انداز میں بیان کیا ہے۔سر سید نے  اس کتاب میں بغاوت کے  لئے  انگریزوں کو بھی موردِ الزام ٹھہرایا ہے۔ سرسید نے  اپنی تصنیف ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ میں جنگ آزادی کے  اسباب کا بھرپور انداز میں تذکرہ کیا ہے۔ ان کی اس تصنیف کے  علاوہ اردو شاعری میں بہت سی ایسی نظمیں ہیں جن میں بغاوت کا خاصا تذکرہ کیا گیا ہے۔شاعری کے  علاوہ بغاوت کے  اسباب اور حالات کا تذکرہ زیادہ تر دہلی کے  اخبارات میں بھی کیا گیا ہے۔ ان میں زیادہ ترغالب کی تحریروں میں اُن کی غزل،  قصیدہ،  خطوط اور ان کی بعض دیگر تصانیف کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ مرزا اسد اللہ خاں غالب نے  بغاوت کے  واقعات کو اردو اور فارسی زبان میں بہت ہی خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔دلی اور اس کے  آس پاس کے  کچھ اضلاع جو ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں سب سے  زیادہ متاثر ہوئے  ان میں میوات، روہتک، فریدآباد، سونی پت اور پانی پت خاص طور سے  قابل ذکر ہیں۔  ان اضلاع کے  صدر دفتر کے  محافظ خانوں میں ۱۸۵۷ء پر فارسی اور اردو میں دستاویزات،  روزنامچے، تاریخوں ،  خطوط، تذکروں اور فارسی اور اردو شعراء کے  کلام کی شکل میں ملتے  ہیں۔  ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی لڑائی کے  بعد نہ صرف ہندوستانیوں کو پھانسی دی گئی بلکہ ان کے  قلعوں ، گڑھیوں  اور بے  شمار مکانات کو منہدم اور مسمار کردیا گیا، جھجھر، میوات، بلبھ گڈھ، فرخ نگروغیرہ کے  قلعہ اور مکانات کو منہدم کردیا گیا۔  اس وقت کی تباہی وبربادی کا نقشہ حالیؔ نے  اس شعر میں پیش کیا ہے   ؎

مٹ گئے  ترے  مٹانے  کے  نشان بھی اب تو

اے  فلک اس سے  زیادہ نہ مٹانا ہرگز

(حالیؔ)

۱۸۵۷ ء کی ناکام جنگ آزادی سے  متاثر ہوکر ہندوستان کی تباہ حالی، بربادی اور بے  بسی پر مختلف شاعروں نے  بڑی تعداد میں اشعار،  نظمیں  اورمرثیے  کہے  ہیں۔ حالیؔ کا وطن پانی پت ہریانہ تھا۔اور اردو کے  بہترین ادیب اور ساتھ ہی کامیاب شاعر بھی تھے۔ مولانا حالیؔ کا شمار نیچرل شاعری کے  بانیوں میں ہوتا ہے۔شاعر کو سچائی اور حقیقت پسندی کی راہ پر ڈالنے  والے  شاعروں میں حالی ؔ کا مقام اہم ہے۔

ملک کو آزاد کرانے  میں اردو زبان کا بھی اہم کردار رہا ہے۔ آج کے  دور میں بھی  اردو ہندوستانی عوام کی دلچسپ زبان ہے۔  ہندو ہو یا مسلمان سب ہی اس کا بخوبی استعمال کرتے  ہیں۔ یہ زبان ہندوستان کے  علاوہ بیرونِ ممالک میں بھی بولی جاتی ہے۔ یہ بہت ہی خوبصورت زبان ہے،  سادہاور سہل ہے۔ گفتگو میں اس کا استعمال بڑی دل چسپی سے  کیا جاتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے  جیسے  بولنے  والے  کے  منھ سے  پھول جھڑ رہے  ہوں۔ زبان و ادب کے  میدان میں اردو زبان کوخاصا اہمیت حاصل ہے۔

٭٭٭

بشریٰ غفور

  ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو، دہلی یونی ورسٹی

دہلی۔۱۱۰۰۰۷

 ٭٭٭

Leave a Reply

2 Comments on "اٹھارہ سو ستاون اور اردو"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…]   اٹھارہ سو ستاون اور اردو […]

trackback

[…] 15.    اٹھارہ سو ستاون اور اردو […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.