عصمت چغتائی کی ترقی پسندی ’’ضدی‘‘ کے حوالے سے

فیاض حمیدؔ

ریسرچ اسکالرشعبہ اردو وفارسی ڈاکٹر ہری سنگھ گورسینٹرل یونیورسٹی ساگر ایم پی
7909923200/7006148112

عصمت چغتائی کی ادبی زندگی کا آغاز ترقی پسند تحریک کے عروج کے زمانے میں ہوا۔وہ عمر بھر ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہیں اورانھوں نے ترقی پسندی کی تبلیغ کو اپنا مقصدِ حیات بنا لیا تھا۔انہوں نے متوسط طبقے اور خصوصاً اس طبقے کے مسلم گھرانے کی معاشرت اور اس کے مسائل کو بڑی جرأت اور بے باکی سے پیش کیا ہے۔ سماج کے فرسودہ اور روایتی رسم ورواج ،اخلاقی اقدار اور بے جاجنسی پابندیوں کی کھل کر مخالفت کی۔انہوں نے جو ناول تخلیق کئے ان میں ’’ضدی‘‘،’’ٹیڑھی لکیر‘‘،’’معصومہ‘‘،’’ سودائی‘‘،’’جنگلی کبوتر‘‘،’’دل کی دنیا‘‘،’’عجیب آدمی‘‘،’’باندی‘‘،’’ایک قطرہ خون‘‘،اس کے علاوہ بچوں کے لئے لکھے گئے دوناول ’’ نقلی راج کمار‘‘اور’’تین اناڑی‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔عصمت چغتائی کے ہاں بھی دیگر ترقی پسندناول نگاروں کی طرح فرسودہ اور رجعت پسند سماجی،تہذیبی،مذہبی اور اخلاقی اقدار ونظام سے بغاوت اور نئی ترقی پسند اقدار ونظام کی حمایت ملتی ہے۔چونکہ اس عہد کے تمام ناول نگار زندگی سماج اور تہذیب وتمدن سے متعلق مسائل واقدار کو سائنس کی روشنی میں دیکھنے اور پرکھنے کے قائل ہیں۔لہذا انہوں نے اپنے ناول میں توہم پرستی‘ہدایت کاری‘رجعت پرستی‘روایت پسندی‘فرقہ پرستی‘مذہبی کٹر پن اور ڈھونگ جنس اور رنگ ونسل کی بنیاد پر کی جانے والی تفریق اور استحصال ‘چھوت چھات ‘اونچ نیچ جیسی تمام سماجی لعنتوں کے خلاف آواز بلند کی ۔عصمت کے ناولوں میں بھی سماجی انصاف ‘انسان دوستی مساوات‘روشن خیالی‘ترقی پسندی اور عقلیت پسند کی وکالت ملتی ہے۔
اردو ناول کی تاریخ میں ’’ضدی‘‘ایک اہم مقام رکھتا ہے طبقاتی کشمکش پر منحصر یہ ناول ایک رومانی المیہ ہے جو کہ ۱۹۴۱؁ ء میں لکھا گیا۔ناول کی کہانی ایک امیرزادے پورن( ناول کا ہیرو) اوراس کی نوکرانی آشا ، جو ایک اچھوت لڑکی ہے ، کی ناکام محبت کے گرد گھومتی ہے۔یہ ناول جس عہد میں لکھا گیا اس وقت حقیقت نگاری کا دور دورہ تھا۔واقعات کے تانے بانے خواہ رومانی ہی کیوں نہ ہوں ، اس کی پیش کش میں اس بات کا خیال رکھا جاتا تھا کم از کم دو طبقوں کی کشمکش کو ضرور بیان کیا جائے ۔ناول کی ابتدا میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عصمت بھی طبقاتی کشمکش پہ توجہ مرکوز رکھنے والی ہیں لیکن ناول جیسے جیسے آگے بڑھتا ہے یہ اندازہ ہونے لگتا ہے کہ ایسا نہیں ہے بلکہ اس میں دو طبقے کی محبت کو زِیر بحث لا گیا ہے ۔ خاندانی روایت کے سبب ان کی شادی نہیں ہوپاتی ہے اور آخر کاران کی محبت دم توڑ دیتی ہے۔
کہانی یوں ہے کہ پورن زمیندار گھرانے کا تعلیم یافتہ نوجوان ہے جو اپنے ہی گھر کی نوکرانی آشا سے محبت کرنے لگتا ہے اور باقاعدہ شادی کرکے اسے عزت اور برابری کا درجہ دینا چاہتا ہے۔والدین اور پورن کی یہ کشمکش ،جہدوجہد ،جھگڑے ،بغاوتیں ،یہ طبقاتی کشمکش کسی ایک گھر کی ،ایک گاؤں کی نہیں بلکہ پورے معاشرے کی کہانی ہے۔پورن ایک جذباتی نوجوان ہے جس کا تعلق ایسے خاندان سے ہے جو اپنے اقتدار اور دولت کی آڑلے کر غریبوں کا استحصال کرتا ہے اور محبت کو بھی دولت وامارت کے ترازو پر تولتا ہے ۔اس کے برعکس غریب طبقہ جو بہ مشکل اپنے لیے دو وقت کی روٹی حاصل کر پاتا ہے اسے ایسے خواب دیکھنے کا کوئی حق نہیں جس کی تعبیر نہ ہو۔یہی وجہ ہے کہ پورن جب نوکرانی سے پیار کرتا ہے تو اس کے والدین کے وقار کو ٹھیس پہنچتی ہے اور انہیں خاندانی وقار مجروح ہو تا نظر آتا ہے۔ وہ پورن کی اس محبت کے خلاف غم و غصے کا اظہار کرتے ہیں۔ان کی نظر میں پورن کی محبت ایک ناقابلِ معافی جرم ہے۔دوسری طرف آشا ، جسے نوکرانی ہونے کے ناطے اپنی حیثیت کا خوب اندازہ تھا، محبت کا اظہارکرنے سے کتراتی ہے ۔ وہ جانتی ہے کہ زمین آسمان تو مل سکتے ہیں لیکن یہ دنیا جو طبقاتی تفریق کی بنیادوں پہ قائم ہے، وہاں امیر و غریب کا شادی کے بندھن میں بندھنا کارِ محال ہے ۔ جب پورن گھروالوں کو اپنی محبت کے خلاف پاتا ہے تووہ اپنے باپ کی دولت اور سماج کے فرسودہ رسم ورواج کو ٹھکرا نے کا ارداہ کر لیتا ہے۔ یہاں تک کہ جب چمکی (گھر کی نوکرانی) اسے آشا سے باتیں کرتے ہوئے دیکھتی ہے تو پورن نہایت لا پرواہی سے کہتا ہے کہ؛
’’چمکی ؔتو کیا کوئی بھی آجائے مجھے کسی کی پرواہ نہیں ۔ دنیا آجائے اور دیکھ لے کہ آشا سے پریم کرتا ہوں مجھے کسی کا ڈر نہیں۔
اچھا یہ ہمت! میں بھی دیکھوں اس سورما کوجو کسی سے نہیں ڈرتا۔
اور ماتاجی اپنے پورے جلال سے تنی ہوئی دروازے میں کالی گھٹا کی طرح منڈ لارہی تھی۔‘‘۱؂
( ۱؂ ضدی ؛عصمت چغتائی ؛ایجوکیشل بک ہاوس علی گڑھ؛ایڈیشن ۲۰۱۴۔ص ۷۵)
یہاں پورن اس دور کے نئے تعلیم یافتہ اور جذباتی نوجوانوں کا نمائندہ ہے جو سماج کی فرسودہ روایات سے تو نفرت تو کرتا ہے ٹکراتا بھی ہے لیکن شکست نہیں دے پاتا اس لئے جب افسردہ ہوتا ہے تو خود سے ہی انتقام لینے لگتا ہے ۔وہ آخر تک آشا سے شادی کرنے کی ضد پراڑا رہتا ہے ۔اس کے سامنے امیر اور غریب میں کوئی فرق نہیں ہے ۔سب برابر ہوتے ہیں ۔انسانی مساوات کے سلسلے میں پورن اپنے بھائی کے ساتھ جو گفتگو کرتا ہے وہ قابل توجہ ہے جس میں پورن اپنے ترقی پسند خیالات کا اظہار یوں کرتا ہے:
’’مجھے معلوم ہے کہ میں بچہ نہیں ،جب ہی تو میں پوچھتا ہوں کہ آخر وجہ کیا کہ جو میں چاہوں وہ نہ کر سکوں‘‘۔
’’ٹھیک ۔۔لیکن تمہیں کس نے ایسے حقوق دئیے جن کی رو سے تمہیں سماج اور بزرگوں کی دل شکنی کا ٹھیکہ مل گیا؟۔
’’سماج۔واہ واہ۔وہی پرانی سڑی بحث ۔۔پتا جی اتنے اندھیرے خیالات کے نہیں۔‘‘
’’یہی تو تمہاری غلطی ہے ۔۔یعنی غلط فہمی ہے پتا جی کتنے ہی روشن خیال ہوں وہ یہ بات کبھی گوارہ نہ کریں گے کہ ان کے خاندان میں اس قسم کی واہیات بات ہو۔
اور پھر یہ سوچو ماتاجی۔میں۔یہ بچے تمہارے معصوم بھتیجے آخر انھوں نے کیا قصور کیا ہے جو یہ تمہارے خواہشات پر قربان ہوجائیں۔‘‘
’’ارے ۔یعنی ان کے قربان ہونے کا سوال کہاں سے آن کودا۔واہ ۔خوب۔‘‘
’’کیوں نہیں ۔ان کی سوسائٹی میں کیا حیثیت ہو جائے گی۔کہ بھئی چچا نے نوکرانی سے بیاہ کرلیا۔
شیلاؔ کو کون شریف خاندان بیاہ لے گا۔اور نرملؔ کو کون بیٹی دے گا جب وہ اُن کے چچا کے
کارنامے سُنیں گے؟۔۔‘‘
’’پھٹکار ہے ایسی سوسائٹی پر۔لعنت ہے ایسے لوگوں پر جو شیلاؔ میں یہ عیب نکالیں کہ اس کے چچا نے غریب لڑکی سے شادی کرلی۔اس سے بہتر ہے کہ ایسے لوگوں میں جانے کے بجائے شیلاؔ سدا کنواری رہے۔‘‘
’’ہاں تمہارے لئے یہ کہہ دینا آسان ہے ۔تم اپنی خوشی پوری کرلو‘ خواہ سارا خاندان مٹ جائے‘‘۔
’’نہیں تو۔میرا مطلب ہے کہ ہم شیلا ؔ کی شادی ایسے واہیات لوگوں میں کیوں کریں جو اس قدراندھیرے خیال کے ہوں۔‘‘۲؂
( ۲؂ ضدی ؛عصمت چغتائی ؛ایجوکیشل بک ہاوس علی گڑھ؛ایڈیشن ۲۰۱۴۔ص ۶۶)
مذکورہ بالااقتباس سے یہ بخوبی پتہ چلتا ہے کہ پورن نئی نسل کا نوجوان ہے جو ہر بوسیدہ رسم ورواج کے خلاف ہے۔جو مساوات کا قائل نہیں ہے بلکہ وہ سماج کے برابر کے حقوق کا قائل ہے۔باوجود اس کے کہ اس کی پرورش ایک اعلیٰ خاندان میں ہوئ جہاں غربت کو حقیر سمجھا جاتا تھا وہ اس کا مستحق نہیں بلکہ وہ ایک روشن خیال اور پڑھا لکھا نوجوان ہے جو طبقاتی اونچ نیچ کے معیار کو نہیں مانتا اور محبت کے جذبے کو تمام روایات اور معاشرتی پابندیوں سے افضل جانتا ہے ۔وہ سماج کے اس فرسودہ نظام کے خلاف جنگ کا اعلان کرکے ا پنے گھر والوں کے سامنے علی الاعلان اپنی محبت کا اظہارا یک غریب نوکرانی کے ساتھ کرتا ہے۔ لیکن پورن کی زندگی کا المیہ اس وقت سامنے آتا ہے جب آشا کو ایک دن غائب کردیا جاتا ہے اور پورن کو یقین دلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ مر چکی ہے۔ اس وقت یہ جذباتی نوجوان غم وغصے میں پاگل سا ہوجاتا ہے۔ اسے ا پنا بھائی ہی نہیں بلکہ پورا خاندان دشمن نظر آتا ہے۔ آشا کو نہ پانے کی صورت میں پورن زبردست ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کی شوخیاں اور شراتیں ختم ہوکر رہ جاتی ہیں اور وہ افسردگی اور مایوسی کی تصویر بن جاتا ہے۔ بلکہ غصے کے حالت میں سارا الزام اپنے بھائی اور بھابی پر رکھ دیتا ہے ؛
’’تمہارابس ! بھیا تمہارا تو خوب بس تھا جبھی تو تم نے یوں میرے ہاتھ پیر کاٹ دئیے۔ بھیا تُم میرے ہمیشہ سے دشمن ہو۔میں مر جاؤں تو خوش ہونا ۔ساری جائیداد کے مالک تو ہوگے۔
پورن بس کرو ایسے بول نہ نکالوجن سے بعد کو پچھتانا پڑے۔۳؂
۳؂ ضدی ؛عصمت چغتائی ؛ایجوکیشل بک ہاوس علی گڑھ؛ایڈیشن ۲۰۱۴۔ص ۸۳
ایک اور جگہ یوں کہتا ہے :
’’ مرچکا ۔آپ کا پورن تو کبھی کا مرچکا ۔اور اب اس مُردہ پورن کی باری ہے۔بھیا من چاہے جو کچھ کہہ لو۔روح تو کبھی کی مر چکی ۔یہ مردہ مٹی حاضر ہے۔یہ بھی اگر کسی کام آسکے تو موجود ہے۔مگر یاد رہے بھیا یہ جسم بالکل کھوکھلا ہے۔نام کو بھی دم نہیں ۔پورن انتقاماً مُسکرایا۔۴؂
۴ ؂ ضدی ؛عصمت چغتائی ؛ایجوکیشل بک ہاوس علی گڑھ؛ایڈیشن ۲۰۱۴۔ص ۱۲۱۔
غرض اس حادثے کے بعدپورن کی شوخی ختم ہو جاتی ہے وہ اداس اورمضمحل رہنے لگتاہے۔ کچھ مدت کے بعد بھابی کی ضد،ماں کی ممتا اور باپ کی ضعیفی کو دیکھتے ہوئے پورن شادی کے لئے حامی بھرنے پر،مجبور ہوجاتا ہے۔ لیکن شادی کے منڈپ میں آشا کو دیکھ کر وہ دوبارہ باغیانہ جذبات سے مغلوب ہو جاتا ہے اور اس کو لے کر کہیں دور بھاگنا چاہتا ہے جہاں ایسے رسوم و ورواج نہ ہوں، ایسی کوئی پابندی نہ ہو ۔لیکن آشا کو ایک بار پھر غائب کر دیا جاتا ہے جس کے بعد پورن بالکل ہی ٹوٹ جاتا ہے۔ لمحہ بھر کی خوشی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اسے اندھیروں میں غرق کر دیتی ہے۔ آخر کار ایک رئیس اور ہم پلہ گھرانے کی لڑکی شانتا سے اُس کی شادی کردی جاتی ہے جو کہ ایک دکھاوا ثابت ہوتا ہے۔اور پورن کبھی حق شوہریت ادا نہیں کرپاتا جس کی وجہ سے پورن کی بیوی شانتا کسی دوسرے مرد کی طرف مائل ہو جاتی ہے۔ صرف یہی نہیں وہ اس دوسرے مرد یعنی مہیش کے ساتھ جنسی تعلق قائم کر لیتی ہے اور آخر میں تنگ آکر گھر چھوڑ دینے کا فیصلہ کرتی ہے۔ پھر وہ مہیش کے ساتھ بھاگ جاتی ہے عصمت لکھتی ہیں:
’’شانتا کے سامنے بھی دوراستے تھے۔ایک تو وہی راستہ جس پر وہ چل رہی تھی۔ پتی ورتا ہندوستانی بیوی بن کر جگ کی لاڈلی؟ ۔نیک اور پارساں جہاں وہ مٹی کے ڈھیلے کی طرح لڑھک رہی تھی۔اس سے بھی بدتر ،مٹی کے ڈھیلے سے کبھی کوئی گھاس پھوس کا تنکا تو اُگ آتا ہے وہ بھی کبھی کسی مصرف میں آجاتا ہے مگر وہ تو اور ہی کچھ تھی۔اس ٹھنڈی چتا میں سال سے اوپر اسے بھُلستے ہو گیا ۔کاش پورن کی طرح اُسے بھی روگ لگ جاتا۔مگر روگ تو اُسے لگا ہوا تھا ۔پر یہ کیسا روگ تھا جو اُس کے من کو ہر وقت گدگدُاتا رہتا اور دن بدن اس کا جسم زیادہ لچکدار اور آنکھیں زیادہ باتونی ہوتی جارہی تھیں۔ کیونکہ مہیش کے مضبوط جسم کو دیکھ کر اُسے ہلکے ہلکے زلزلے جیسے ہلکورے محسوس ہونے لگتے تھے!کیوں جی کہتا تھا کہ وہ گوشت و پوست کا بھاری بھر کم انجن اس کی ہستی کو پیس رہا ہے ۔لیکن ایسے نہیں پیس رہا ہے کہ روح پامال ہوجائے بلکہ جیسے صندل کو سخت پتھر سے گھس دو تو وہ مہک اُٹھتا ہے۔‘‘
( ضدی ؛عصمت چغتائی ؛ایجوکیشل بک ہاوس علی گڑھ؛ایڈیشن ۲۰۱۴۔ص ۱۱۳۔۱۱۲)
مہیش میں اپنی بیوی شانتا کی دلچسپی دیکھنے کے بعد بھی پورن کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔وہ سب کچھ دیکھ کر بھی مطمئن رہتاہے ۔ جس عزت کی دھجیاں اڑنے سے گھر والے ڈرتے تھے ، جنہوں نے اس کی محبت کواس سے دور کیا،اسی گھر میں پورن اپنی بیوی کے ناجائز رشتے کو پروان چڑھنے دیتا ہے۔ گویا گھر والوں سے ایک طرح کا انتقام لیتا ہے۔ آخر کار اس کی بیوی ایک دن معاشرتی اقدار اور حد بندیوں سے بغاوت کرکے ایک غیر مرد کے ساتھ بھاگ جاتی ہے۔ گویا اصل میں پورن کی طرف سے یہ معاشرے کے منہ پر طمانچہ تھا۔وہ خود اپنی محبت پانے میں ناکام رہا لیکن کسی دوسرے کومحبت کے حصول کی جد و جہد میں پوری مدد کرتا ہے۔ اس طرح وہ معاشرے سے انتقام لیتا ہوا نظر آتا ہے۔ناول کے اختتام میں مصنفہ پورن اور آشا کی خودکشی کے ذریعہ یہ بتانا چاہتی ہیں کہ عشق جب انتہا کو پہنچتا ہے تو وہ ہر سماجی اصول و بندش کو توڑدیتا ہے۔بیشتر ناقدین کا یہ خیال ہے کہ اگرچہ پورن نئے دور کے تعلیم یافتہ اور روشن خیال نوجوان کے طورپر سامنے آتا ہے لیکن آشا کو پانے کی ناکامی میں اس کی بغاوت ایک انفعالی کیفیت اختیار کرلیتی ہے اور وہ بغاوت کی آگ میں پورے سماج کو جھونک دینے کے بجائے خود کو جلا لیتا ہے یعنی پورن ایک ایسا مجبور اور بے بس انسان ہے جو سماج کے خلاف بغاوت کے بجائے اپنی ذات سے ہی انتقام لیتا ہے۔ دراصل عصمت چغتائی سماج ،طبقہ،روایت،مذہب وغیرہ کے ہاتھوں ترقی پسند ی کو نا کام دیکھتی ہیں ۔آخر کب تک خاندانی رویوں کی خاطر نوجوان اپنی بلی چڑھاتے رہیں گے۔آشا اور پورن کی موت سے ایک خاموشی، ایک سناٹا چھا جاتا ہے اور تب دقیانوسی خیالات والے روایتی افراد نظروں کے سامنے آجاتے ہیں جو ترقی کے دشمن ہیں۔ان تمام سوالوں کے ساتھ یہ ناول معاشرے کی سچی عکاسی کرتا ہوا ختم ہو جاتا ہے۔اصل میں عصمت چغتائی اس ناول کے ذریعہ بتانا چاہتی تھیں کہ محبت ایک عالم گیر آفاقی جذبہ ہے جس میں اونچ نیچ ،ذات پات کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ پروفیسر احتشام حسین ’’ضدی ‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں؛
’’ضدی کا مجموعی اثر وہی پڑتا ہے جو اصلاحی کہانیوں کا ہونا چاہیے لیکن جگہ جگہ پر پورن کی غریب دیہاتی محبوبہ کا احساس غربت وکمتری اس بات کے سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ کس طرح خارجی حقیقتیں داخلی تصورات پر اثر انداز ہوتی ہیں اور کس طرح نئے نئے مسائل قدیم زندگی کے ڈھانچے پر پورے نہیں اترتے ۔‘‘
( اردو ناول پر مارکسزم کا اثر ؛سید احتشام حسین ؛ماہنامہ نگار مئی ۱۹۴۳۔ )
مختصر طور پر عصمت چغتائی نے ’ضدی‘‘میں حقیقت نگاری کو رومانیت کے پیرایے میں ڈھال کر ہمارے سامنے پیش کیا ہے جو ترقی پسند ادیبوں کی خاصیت ہے اور ایک اہم سماجی مسئلے کو ترقی پسندانہ انداز میں پیش کرنے کی بھر پو ر کوشش کی ہے جس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہوئی ہیں کیونکہ ناول کا مطالعہ قاری کے ذہن پر طبقاتی کشمکش کا ایک المناک احساس نقش کردیتا ہے۔ یہ ناول اپنی خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ اپنے موضوعی حدود میں منفرد حیثیت رکھتا ہے۔
٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.