عصمت چغتائی کا تصوّرِحقوقِ نسواں ــ “چوتھی کا جوڑا “کے حوالے سے

نگہت امین

 شعبہ اردو ریسرچ اسکالر، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ،علی گڑھ

nighatamin33@gmail.com

فون نمبر۔7055990169

 عصمت چغتائی پہلی ایسی خاتون افسانہ نگار ہیں جنھوں نے سب سے پہلے خواتین کے حقوق کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔ان سے پہلے نذر سجاد حیدر،بیگم حجاب اسماعیل اور رشید جہاں و غیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں جنھوں نے اپنے افسانوں میں خواتین کی بات کی لیکن ان میں ان کااصلاحی اور تبلیغی رنگ حاوی نظر آتا ہے ۔عصمت نے اپنے افسانوں کے ذریعے عورتوں کے ساتھ ہو رہے مظالم و استحصال ،ان کی نفسیاتی ،ذہنی، جذباتی ،معاشی اور جنسی خواہشات کے تئیں مردوں کی بے حسی کے خلاف کچھ اس طرح آواز بلند کی ہے جس سے ان کے افسانے ہر زمانے کے قارئین کو متاثر کرتے ہیں ۔خصوصاً متوسط طبقے کی مسلم خواتین کی ذہنی ،جذباتی اور نفسیاتی الجھنوں اور ان سے پیدا شدہ مسائل کو انھوں نے بے حد موثر انداز میں پیش کیا ہے۔ اس حوالے سے ان کا افسانہ” چوتھی کا جوڑا” بے پناہ اہمیت کا حامل ہے۔
چوتھی کا جوڑا “میں عصمت کے جذبات اور احساسات کا فن کارانہ اظہار ملتا ہے۔اس افسانے میں انھوں نے اس دور کے تہذیبی رویے سے انحراف کیا ہے۔یہ افسانہ بڑے دردو کرب سے لبریز ہے اور غریب طبقے کی محرومیوں اور مجبوریوں کی جیتی جاگتی تصویر پیش کرتا ہے۔ اس بات پر زور دیتا ہے کہ عورت آج بھی محکوم ،بے بس ،لاچار اور مجبور ہے۔ مرد ذات اس کی محبت اوراس کے جذبات کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ یہ افسانہ ایک بیوہ بی اماں کے ارد گرد گھومتا ہے جو اپنی دو جوان بیٹیوں کبریٰ اور حمیدہ کے ساتھ مفلسی کی زندگی گزارتی ہے۔اس کہانی میں عصمت نے بی اماں کی توجہ اپنی بیٹی کبریٰ کی شادی جلد از جلد کرانے پر مرکوز کی ہے۔ اس حوالے سے بی اماں کس کس طرح کی کوششیں کرتی ہیں ،کس نوع کی دشواریوں سے دو چار ہوتی ہیں اوراس دوران کس طرح کی ذہنی ،نفسیاتی اور معاشی کرب میں مبتلا ہوتی ہیں ،ان سب کا عصمت نے بے حد فنکارانہ تجزیہ پیش کیا ہے۔
بی اماں کبریٰ کی شادی کر کے اپنی ذمہ داری سے جلد از جلد سبکدوش ہونا چاہتی تھیں۔کبریٰ کی عمر چونکہ زیادہ ہو گئی تھی اس لیے بی اماں کو کبریٰ کا رشتہ تلاش کرنے میں بڑی دقتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔وہ چاہتی تھیں کہ کبریٰ کی شادی جلد ازجلد ہو جائے تاکہ کم از کم وہ حمیدہ کی شادی تووقت پر کر سکیں ۔ افسانہ میں کبریٰ کو ایک انتہائی سادہ لڑکی کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے جو دنیا کے مسائل کو سمجھنے کے باوجود خاموش ہے ۔ کبریٰ اپنی بد نصیبی کے آگے خود کو بے بس اور مجبور محسوس کرتی ہے۔کبریٰ کے ان جذبات کو عصمت نے پیش کیا ہے لیکن خود اس کے ذریعے نہیں ،بلکہ اس کے لیے انھوں نے حمیدہ کو استعمال کیا ہے۔ مثلاًحمیدہ اپنی بڑی بہن کے جذبات کو بیان کرتے ہوے کہتی ہے:’ان [کبریٰ ]کا بس چلتا تو زمین کی چھاتی پھاڑ کر اپنے کنوارپنے کی لعنت سمیت اس میں سما جاتیں ۔ـ‘1
بی اماں وہ بد نصیب بیوہ ہے جو اپنی بیٹی کی شادی کا ارمان لیے ’چوتھی کے جوڑے‘ کو تیار کر کے بڑی حفاظت سے صندوق کے حوالے کر دیتی ہے لیکن افسوس وہ جوڑا صرف صندوق کی زینت بنتا رہا۔ پھر ایک دن امید کی کرن نظر آتی ہے جب کبریٰ کے رشتے کا ماموں زاد بھائی “راحت” پولیس ٹریننگ کے سلسلے میں آکر اس کے گھر میں ٹھہرتا ہے ۔ اس کے قیام کے ساتھ ہی بی اماں کے ذہن میں راحت ،کبریٰ کے لیے ایک بہتررشتے کے طور پر ابھرتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بی اماں راحت کے آرام وآسائش اور خوردونوش کے سلسلے میں پہلے سے کہیں زیادہ فکر مند ہو جاتی ہیں ۔جب بی اماں کی منھ بولی بہن راحت کے آنے کی خبر سنتی ہے تو وہ بی اماں کو مشورہ دیتی ہے ۔ منھ بولی بہن کے مشورے کے بعد بی اماں کو ایسا لگتا ہے کہ برات اسی وقت ان کے آنگن میں آکر کھڑی ہوگئی ہے ۔ عصمت چغتائی نے بی اماں کے ان جذبات و احساسات کوکچھ یوں بیان کیا ہے:
’بی اماں کو تو بس جیسے ایک دم گھبراہٹ کا دورہ پڑگیا۔جانو راحت نہیں ‘چوکھٹ پر برات آئی کھڑی ہو اور انھوں نے ابھی دلہن کی مانگ کی افشاں بھی نہیں کتری۔ہول سے ان کے تو چھکے چھوٹ گئے۔‘2
حقیقت یہ ہے کہ”چوتھی کا جوڑا ” ہمارے معاشرے کا المیہ ہے۔ہمارا معاشرہ جن فرسودہ رسم ورواج کی بے جا بندشوں میں جکڑا ہوا ہے، اسے دیکھ کر عصمت بے چین ہو جاتی ہیں ۔وہ انسانی زندگی کی تلخ حقائق کو بڑی مہارت سے پیش کرتی ہیں۔افسانہ میں بیوہ بی اماں کے لیے اپنی دونوں بیٹیوں کی شادی کرنے سے زیادہ بڑی تلخ حقیقت کیا ہو سکتی ہے۔
بی اماں ،کبریٰ اور حمیدہ جس معاشرے کے کردار ہیں ،ان کے جس نوع کے مسائل ہیں ،ان کی عکاسی کے لیے عصمت نے اسی کے مطابق لفظیات کا استعمال کر کے افسانے کی دلکشی میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ کبریٰ جو افسانے کا مرکزی کردار ہے وہ اپنی زبان سے کچھ بھی کہتی نظر نہیں آتی۔وہ شرم و حیا کی پابندنظر آتی ہے لیکن عصمت کرداروں کی روح میں اتر کر ان کے ہر راز کو جاننے اور عیاں کرنے کا ہنر جانتی ہیں۔راحت کے آنے کی خبر پا کر کبریٰ اپنے ہاتھوں سے کمرہ پوتتی ہے، اس کے لیے اس کی اپنی تکلیف بے معنی لگنے لگتی ہے۔ وہ راحت کی جس طرح خدمت کرتی ہے اور راحت کے تئیں اس کے دل میں جس نوع کے جذبات پلنے شروع ہو جاتے ہیں، اس کا اظہار عصمت نے حمیدہ کی زبانی کیا ہے، مثلاً :
’ وہ راحت بھائی کے کمرے کو جھاڑتیں ،ان کے کپڑوں کو پیار سے تہہ کرتیں جیسے وہ کچھ ان سے کہتے ہوں۔وہ اس کے بدبودار چوہوں جیسے سڑے ہوئے موزے دھوتیں۔بساندی بنیائن اور ناک سے لتھڑے ہوئے رومال صاف کرتیں۔اس کے تیل میں چپچپاتے ہوئے تکئے کے غلاف پرsweet dreamکاڑھتیں۔‘3
عصمت کے نزدیک عورت کی بدحالی کا بنیادی سبب اس کی اقتصادی غلامی ہے۔ان کے مطابق اسے تبھی نجات مل سکتی ہے جب وہ پڑھ لکھ کر اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی صلاحیت پیدا کر لے ۔”چوتھی کا جوڑا “میں عصمت سماج کو یہ باورکراتی ہیں کہ عورت صرف گھر کی چکی میں پسنے کے لیے پیدا نہیں ہوئی ہے بلکہ مردوں کی طرح اسے بھی تعلیمی ، سیاسی ،معاشی اور دیگر معاملات و مسائل کا حصہ دار بنانے کی ضرورت ہے تا کہ وہ کسی کے ظلم و ستم کا شکار نہ بنے۔ کبریٰ خود کو گھر کا بوجھ اس لیے سمجھتی ہے کیونکہ اسے تعلیمی ،سیاسی اور معاشی طور پر مضبوط بننے نہیں دیا گیا ۔اس کے دل میں راحت سے شادی کر نے سے کہیں زیادہ بی اماں کے بوجھ کو ہلکا کرنے کی خواہش ہے ۔اگر وہ راحت سے شادی کرنے کا خواب بنتی ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ غربت ہے۔ کبریٰ جس ذہنی اور نفسیاتی کرب میں مبتلانظر آتی ہے ،اس کی عکاسی عصمت نے حمیدہ کے ذریعے کچھ اس طرح کی ہے :
’کیا میری آپا مرد کی بھوکی ہے ؟نہیں وہ بھوک کے احساس سے پہلے ہی سہم چکی ہے۔مرد کا تصوّر اس کے ذہن میں ایک امنگ بن کر نہیں ابھرا۔ بلکہ ایک روٹی کپڑے کا سوال بن کر ابھرا۔وہ ایک بیوہ کی چھاتی کا بوجھ ہے۔اس بوجھ کو ڈھکیلنا ہی ہو گا۔ ‘4
چوتھی کا جوڑا”میں کہیں عورتوں کے جذبات ، ان کی فطرت ،ان پر ہونے والے مظالم اوران کے خوابوں کے ٹوٹنے بکھرنے کے مناظرکو پیش کیا گیا ہے ،تو کہیں سارے جہاں کی اداسیاں سمیٹتے چہرے اور سسکتی چیختی عورتیں مختلف انداز اور روپ میں ہمارے سامنے آتی ہیں ۔بی اماں گھر کا قیمتی اثاثہ بیچنے کے باجود اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو پاتیں۔وہ راحت کو خوش رکھنے کے لیے خود روکھا سوکھا کھاتیں۔نہ صرف بی اماں بلکہ کبریٰ بھی راحت کے آرام و آسائش کے لیے ہر ممکن کوشش کرتی ۔اس کا بس چلتاتو وہ تا عمر راحت کے لئے بھوکی رہتی۔بی اماں ،کبریٰ اور خود حمیدہ ،راحت کی آسائش کے لیے جس طرح کی کوششیں کرتی ہیں یا جس نوع کی تکالیف برداشت کرتی ہیں، اسے بتانے کے لیے عصمت نے حمیدہ کی زبانی کچھ اس نوع کے خیالات کو پیش کیا ہے :
’ہم بھوکے رہ کر داماد کو کھلا رہے ہیں۔بی آپا صبح سویرے اٹھ کر جادو کی مشین کی طرح کام پر جٹ جاتی ہے۔نہار منھ پانی کا گھونٹ پی کر راحت کے لیے پڑاٹھے تلتی ہے۔اس کا بس نہیں تھا کہ وہ اپنی چربی نکال کر ان پراٹھوں میں بھر دے۔آخر کوایک دن وہ اس کا اپنا ہو جائے گا۔جو کچھ کمائے گا ،اس کی ہتھیلی پر رکھے گا۔پھل دینے والے پودے کو کون نہیں سینچتا۔‘5
ہمارے یہاں سب سے بڑی معاشرتی بیماری غربت اور جہیز کی رسم ہے۔غریب ماں باپ کے لئے بیٹیوں کی شادی کرنابے حد مشکل ہوتا ہے کیونکہ ان کے لئے جہیز سب سے زیادہ سنگین مسئلہ بن جاتا ہے۔مثلاًغریب بیوہ کے لیے کبریٰ اور حمیدہ کی شادی کا مسئلہ جہیز کی لعنت سے جڑا ہوا ہے۔بی اماں کے پاس اتنی دولت نہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ جہیز دے کر اپنی بیٹیوں کا گھر بسائے۔ عصمت خواتین کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کرتی ہیں۔وہ مرد اور عورت کی تفریق کو ختم کردینا چاہتی ہیں۔وہ یہ سوال کرتی نظر آتی ہیں کہ مرد اور عورت دونوں ایک ہی مٹی سے بنے ہوئے ہیں،پھر مرد عرش پر اور عورت فرش پر کیوں ہے ؟کیا راحت کبریٰ کے جذبات سمجھنے سے قاصر تھا کبریٰ دن رات چولھے کے سامنے جلتی ہے اور اپنے ہاتھوں سے اس کے لیے سوئٹر بنتی ہے۔ راحت سے اس نے ڈھیرساری توقعات وابستہ کر لی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس کے لئے سوئٹر بنتی ہے اور اپنی چھو ٹی بہن حمیدہ کے ذریعے اسے تحفتاً دیتی ہے لیکن راحت اس کے جذبات سے بے خبر ،اپنی نگاہ حمیدہ پر جمائے رہتا ہے ۔ کبریٰ کے اصرار پر حمیدہ ،راحت کو سوئٹر دینے جاتی ہے تو وہ پوچھتا ہے:
کیا یہ سوئٹر آپ نے بنا ہے ؟
نہیں تو
تو بھئی ہم نہیں پہنیں گے”
اس پر حمیدہ کا جو ردعمل سامنے آتا ہے یا راحت کے جواب سے حمیدہ کا دل جس طرح غمگین اور پریشان ہو جاتا ہے ،اس کی عصمت چغتائی نے کچھ یوں عکاسی کی ہے :
میرا جی چاہا۔اس کا منھ نوچ لوں۔ کمینے مٹی کے تودے۔یہ سویٹر ان ہاتھوں نے بنا ہے جو جیتے جاگتے غلام ہیں،اس کے ایک ایک پھندے میں کسی نصیبوں جلی کے ارمانوں کی گردنیں پھنسی ہوئی ہے ۔یہ ان ہاتھوں کا بنا ہوا ہے جو پنگوڑے جھلانے کیلئے پیدا ہوئے ہیں۔۔۔۔انھیں پیانوں پر رقص کرنا نہیں سکھایا گیا ،انھیں پھولوں سے کھیلنا نصیب نہیں ہوا۔مگر یہ ہاتھ تمھارے جسم پر چڑھانے کے لیے صبح سے شام تک سلائی کرتے ہیں ،چولھے کی آنچ سہتے ہیں ،تمھاری غلاظتیں دھوتے ہیں تا کہ تم اجلے چٹے بگلا بھگتی کا ڈھونگ رچائے رہو۔‘6
عصمت ان پابندیوں کے خلاف تھیں جو کبریٰ اور حمیدہ جیسی لڑکیوں پر عائدہیں۔ ان کے لیے کسی کی طرف آنکھ اٹھانا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اس کا اندازہ بی اماں اور ان کی منہ بولی بہن کے اس مکالمے سے ہوتا ہے جس کو عصمت نے بڑی مہارت اور فنی چابکدستی سے پیش کیا ہے۔ اس سے اس دور کی زبان وبیان کے علاوہ عورتوں کی معاشرتی زندگی کا بھی علم ہوتا ہے کہ کس طرح گھر کی بڑی عورتیں اپنی بیٹیوں کی شادی کے لیے مروں کو متاثرکرنے کے حیلے تلاش کرتی تھیں۔جب بی اماں کی منھ بولی بہن راحت کو متاثر کرنے کے لیے بی اماں سے حمیدہ کو اس کے پاس جانے کی بات کہتی ہے یا اس کے ذریعہ راحت کو متاثرکرنے کا مشورہ دیتی ہیں تو بی اماں پر جس طرح کاردعمل ہوتا ہے،اس سے اس عہد کی ایک خاص معاشرت کا پتہ چلتا ہے :
’اے نوج، خدا نہ کرے جو میری لونڈیا آنکھیں لڑائے۔اس کا تو آنچل بھی نہیں دیکھا کسی نے بی اماں فخرسے کہتی ۔۔۔اے تو پردہ توڑوانے کو کون کہے ہے،بی آپا کے پکے آنسوؤں کو دیکھ کر انہیں بی اماں کی دوراندیشی کی داد دینی پڑتی ، اے بہن تم تو سچ مچ میں بہت بھولی ہو۔یہ میں کب کہوں ہوں۔یہ چھوٹی نگوڑی کون سی بقر عید کو کام آئے گی۔‘8
تمام تر کوششوں اور خدمات کے باوجوبی اماں ،کبریٰ اور حمیدہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو پاتی ہیں کیونکہ راحت کو اس گھر سے نہ ہی جہیز کی امید ہوتی ہے اور نہ ہی کسی دوسرے مفاد کی۔ چنانچہ ایک دن اچانک راحت یہ کہہ کر واپس جانے کی تیاری کرتا ہے کہ اس کی شادی کی تاریخ طے ہو چکی ہے۔ اس طرح بدنصیب اور نامراد کبریٰ جس کا ہاتھ تھامنے کے لئے ہر جگہ جہیزکی شرط رکھی جاتی تھی موت اس کا ہاتھ بغیرکسی شرط کے تھام لیتی ہے ۔ حمیدہ جس نے اپنی بہن کا گھر بسانے کی خاطراپنے ساتھ ہوئی ہر زیادتی کو برداشت کیا۔ یہاں تک کہ اپنی عصمت تک کو داؤ پر لگا دیا جو کہ موت سے بھی زیادہ الم ناک ہے اور وہ ماں جس نے بڑے ارمانوں سے چوتھی کے خوبصورت جوڑے تیار کئے تھے بڑے صبرو تحمل کے ساتھ کبری کو “چوتھی کا جوڑا “نہیں بلکہ کفن کا جوڑا پہنانے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ اس پورے واقعے کوعصمت نے جس خوبصورتی سے پیش کیا ہے ،اس کا اندازہ بد نصیب بی اماں کے جذبات کے اظہار سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے :
’اور پھر اسی سہ دری میں چوکی پر صاف ستھری جازم بچھائی گئی۔ محلے کی بہو بیٹیاں جڑیں۔کفن کا سفید لٹھا موت کے آنچل کی طرح بی اماں کے سامنے پھیل گیا۔تحمل کے بوجھ سے ان کا چہرہ لرز رہاتھا۔بائیں ابرو بھڑک رہی تھی۔گالوں کی سنسان ندیاں بھائیں بھائیں کر رہی تھیں۔جیسے ان کے چہرے پر بھیانک سکون اورموت بھرا اطمینان تھا۔‘8
چوتھی کا جوڑا”معاشرے میں عورت کی محکوم وپست حیثیت اوراس پر ہونے والے مظالم و استحصال کے خلاف آواز بلند کرتا نظر آتاہے۔یہ نہ صرف کبریٰ کی حرماں نصیبی کا بیان ہے بلکہ ایک پوری نسل کا المیہ ہے۔خواجہ احمد عباس نے “چوتھی کا جوڑا”کے المیہ کو مندرجہ ذیل الفاظ میں قلم بند کیا ہے:
چوتھی کا جوڑا” ہمارے سماج کا المیہ ہے۔نچلے متوسط طبقے کی یہ کہانی ہے جس میں” چوتھی کا جوڑا “ایک نشانی ایک سمبل کے طور پر استعمال کیا گیاہے۔یہ سمبل ہے ان لڑکیوں کا جو اپنی خاندانی غربت کی وجہ سے بن بیاہی رہ جاتی ہیں۔‘9
مختصر یہ ہے کہ ” چوتھی کا جوڑا” میں عصمت چغتائی نے خواتین کی نفسیات اور ان کی دکھتی رگوں پرجس انداز سے اپنی انگلی رکھی ہے،اس سے ان کا یہ افسانہ آفاقیت کا حامل ہوگیا ہے ۔ اس افسانہ کا تعلق محض کبریٰ،حمیدہ اور بیوہ بی اماں کے المیہ سے نہیں ہے بلکہ ان لاکھوں کروڑوں پسماندہ اور متوسط طبقے کی مسلم خواتین سے ہے جن کی زندگی آج بھی گھرکی چہاردیواری تک محدود ہے، جو حرف شکایت زبان پر نہیں لاتی ہیں ۔انہیں ان کے حقوق مناسب طریقے سے نہیں ملتے ۔عصمت نے اس افسانے کے ذریعہ یہ پیغام دینے کی فنکارانہ کوشش کی ہے کہ جب تک خواتین اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے نبرد آزما نہیں ہوں گی اور ان کے خلاف ہو رہے مظالم واستحصال کے خلاف آواز بلند نہیں کریں گی تب تک وہ اپنی زبوں حالی پر روتی رہیں گی ۔
٭٭٭
حوالے و حواشی
1۔عصمت چغتائی،دو ہاتھ ، دہلی :مکتبہ جامعہ، 2012،ص 124۔
2۔ایضاً،ص114۔
3۔ ایضاً ،ص116۔
4۔ایضاً،ص125۔
5۔ایضاً،ص116۔
6۔ایضاً،ص122،121۔
7 ۔ایضاً،ص ص 117،116۔
8۔ایضاً ،ص 127۔
9۔خواجہ احمد عباس،چوتھی کا جوڑا : ایک تجزیہ ،مشمولہ “عصمت چغتائی نقد کی کسوٹی پرـــ، ( مرتبہ جمیل اختر)،نئی دہلی : انٹر نیشنل اردو فاؤڈیشن، 2001،ص351۔

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.