سلیمان خطیب:  دکنی زبان کا نمائندہ شاعر

ڈاکٹر محمد انظر ندوی

اسسٹنٹ پروفیسر، شعبۂ مطالعاتِ عربی،

انگلش اینڈ فارن لینگویجز یونیورسٹی ، حیدرآباد ۔ 500 007 ، تلنگانہ۔

Mobile: 09959725371, e-mail: itsanzar@gmail.com

   اپنے فکر و فن کو قدیم دکنی زبان کا پیرہن عطا کرنے والے سلیمان خطیب محتاجِ تعارف نہیں ہیں، دکنی زبان کو ایک نئی زندگی بخشنے اور اس کے فروغ کی راہیں ہموار کرنے کے سلسلہ میں وہ ہمیشہ یاد کیے جاتے رہیں گے، انہوں نے نہ صرف شعر و ادب کی محفلیں جمائیں بلکہ اپنی تخلیقات سے اپنی انفرادیت کا سکہ بھی جمایا، انہوں نے طنز و مزاح اور ظرافت سے بھرپور اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کے ذریعے میدانِ مزاح نگاری میں اپنی ایک علاحدہ شناخت بنائی۔زبان کی ندرت، دل کو چھولینے والا انوکھا اندازِ بیان اور نظموں کی ڈرامائیت کی وجہ سے انہوں نے ہندوستان گیر شہرت حاصل کی۔ انہوں نے کم و بیش ربع صدی تک ممبئ، دہلی، پٹنہ اور کشمیر سمیت ہندوستان کے دور دراز علاقوں کے مشاعروں میں بے تاج بادشاہ بن کر راج کیا، بلکہ ان کے تعلق سے یہاں تک نقل کیا جاتا ہے کہ ’’ ہندوستان کا کوئی مشاعرہ ان کی شرکت کے بعد کامیابی سے بچ نہیں سکتا‘‘۔ وہ مشاعرہ کو لوٹ لینے پر اس طرح اپنی خوشی کا اظہار کرتے گویا کوئی علاقہ فتح کرلیا ہو، ان کی زندگی کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مشاعرہ کے لیے انہوں نے خود کو وقف کر رکھا تھا، مشاعرہ میں شرکت کی دعوت پر بہر صورت شریک ہونے کی کوشش کرتے تھے ۔

   محمد خورشید عالم ندوی نے اپنی کتاب ’کرناٹک کی ادبی شخصیات‘ میں وہاب عندلیب صاحب کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ۱۹۶۰ء کی دہائی سے ان کی شہرت کا آغاز ہوا ، جس کے بعد ان کے اقبال کا سورج چڑھتا ہی رہا، کبھی اس کوزوال نہیں آیا۔ اس مدت میں انھوں نے نثری وشعری تخلیقات کاگراں بہا سرمایہ اردو دنیا کو دیا۔شعری تخلیقات میں ان کی نظموں کو مختلف مرکزی عنوانات میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔مثلاً سماجی اصلاح کے تحت پہلی تاریخ، چھورا چھوری، ساس بہو، اٹھائیس تاریخ، ہراج کا پلنگ، بیچارگی۔ مناظرفطرت کے ضمن میں پگڈنڈی، ندی، موت کا پانی، پانی دے رے میگھ راج، نہیو کالا۔حب الوطنی کے موضوع پر ہمالہ کی چاندی، چینی گڑیا، بہادر بیٹا، ایسا سمئے اب آئے گا، وغیرہ نظمیں لکھی ہیں۔جبکہ سیاست اورسیاست کی گلیاروں کو موضوع بناتے ہوئے الیکشن کا موسم، چمچے، کانادجّال، آخری تمنّا اور سفیرِ امن کے عنوان پر نظمیں کہی ہیں۔انھوں نے رومانیّت کو بھی اپنی شاعری کا حصہ بنایا اور عشق و محبت کے موضوع پر پڑوسن، دکنی عورت کا انتظار، سن رے گوی، یاد، محبوب صاحب محمود بی کے عنوان سے رومانیت کو پیش کیا ہے۔ان نظموں میں جہاں حقیقت بیانی سے کام لیاگیا ہے، وہیں طنزوظرافت کے ساتھ ساتھ نقدکا نشتر بھی چبھویا ہے۔جملہ طور پر ان کی نظموں میں ساس بہو، پہلی تاریخ، سانپ، روٹی ، رستے، تلاشِ گمشدہ ،اٹھائیس تاریخ،ہراج کا پلنگ اور الیکشن کا موسم، وغیرہ سماجی مسائل کی عکاسی کرتے ہیں۔عوام و خواص میں یہ نظمیں بے حد مقبول ہیں۔

سلمان خطیب کا سوانحی خاکہ

   سلیمان خطیب ۲۶ / دسمبر ۱۹۲۲ء میں سابق ریاستِ حیدرآباد کے ضلع گلبرگہ، بیدر کے مقام چٹگوپہ ، تعلقہ ہمنا آباد (کرناٹک) میں پیدا ہوئے، ان کے اجداد عہدِ عالمگیری میں جامع مسجد چٹگوپہ کے خطیب رہے، خطیب ان کا خاندانی نام ہے جسے انہوں نے اپنا تخلص قرار دیا۔ والد کا نام محمد صادق خطیب تھا، والدین کا سایہ سر سے اٹھنے کے بعد بڑے بھائی وزیر الدین کی خاص توجہ سے رائچور میں اسکول کی ابتدائی تعلیم حاصل کی، ہائی اسکول کی تعلیم میدک میں محمد حسین ادیب اور مولانا عبد الرحیم صدیقی حیرت کے زیرِ تربیت رہ کر حاصل کی، حیدرآباد سے میٹرک کی سند لی اور منشی فاضل کی سند ان کی صاحبزادی ڈاکٹر شمیم ثریا کے بقول پنجاب سے اور کرناٹک کی ادبی شخصیات کے مصنف کی تحقیق کے مطابق جامعہ نظامیہ حیدرآباد سے حاصل کی ۔ ملازمت پیشہ کیریئر کا آغاز ۱۹۴۱ ء میں میکانیکل فورمین محکمہ واٹر ورکس گلبرگہ سے کیا اور دسمبر ۱۹۷۷ء تک فلٹر بیڈس کی خدمات پر مامور رہے اور اسی سال وظیفۂ حسن خدمت پر سکبدوش ہوئے ۔یہاں واقع ان کی رہائش گاہ ’’ پانی محل‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔ سلیمان خطیب ۱۹۴۶ء میں رشتۂ ازدواج سے منسلک ہوئے، دس اولاد ہوئیں جن میں پانچ لڑکے اور پانچ لڑکیاں تھیں۔ سلیمان خطیب ۲۲/ اکتوبر ۱۹۷۸ کو اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے ۔ ان کی وفات کے بعد شعرا اور ادبا نے اپنے حزن و ملال کے اظہار اور خراجِ عقیدت کے طور پر مرثیے اور قطعاتِ تاریخِ وفات کے نذرانے پیش کیے، ان کے مزاحیہ کلام کا آڈیو کیسٹ تیار ہوا، کرناٹک اردو اکیڈمی نے ’ان کے شعری مجموعۂ کلام ’ کیوڑے کا بن ‘‘ کا منظوم ترجمہ کرواکر شائع کیا، ان کا کلام پھر اردو سے کنڑ میں منتقل کیا گیا، مرحوم کی صاحبزادی ڈاکٹر شمیم ثریانے اپنے والد کی حیات و خدمات پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی، مختلف مقامات سے کئی جرائد و ورسائل نے ان کی یاد میں خصوصی شمارے شائع کیے، نیز ان کی یاد کو زندہ رکھنے کے لیے ۱۹۸۹ء میں ان کے نام سے تعلیمی و ثقافتی امدادی ٹرسٹ بھی قائم کیا گیا ۔ستمبر ۲۰۱۳ء میں اردو اکیڈمی نے جناب وہاب عندلیب کی مرتب کردہ کتاب ’’ سلیمان خطیب شخص ، شاعر اور نثر نگار‘‘ شائع کی ۔ سلیمان خطیب دکنی اردو کے بے مثال شاعر ہیں، ۱۹۷۴ء میں حکومتِ کرناٹک نے ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں راجیو تسوا اسٹیٹ ایوارڈ سے نوازا، ۱۹۷۵ء میں انجمن ترقی اردو کے زیرِ اہتمام اعلیٰ پیمانہ پر جشنِ خطیب کا اہتمام کیا، اسی موقعہ پر ان کا مجموعۂ کلام ’’ کیوڑے کا بن ‘‘ زیورِ طبع سے آراستہ ہوکر منظرِ عام پر آیا۔ سلیمان خطیب نے ساؤتھ انڈیا اردو اکادمی گلبرگہ کی داغ بیل ڈالی، علاوہ ازیں کرناٹک ہندی، پرچار سبھا (گلبرگہ) کے نائب صدر اور مراٹھی ساہتیہ منڈل گلبرگہ کے رکن کی حیثیت سے بھی ان کی خدمات لائقِ ستائش ہیں ۔

دکنی زبان : اہمیت اور تاریخ

   دکنی زبان کی ایک تاریخ ہے ، دکن میں یہ زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے، اس زبان میں بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں، یہاں کے بزرگانِ دین نے اسی زبان میں دینِ حنیف کی نشر و اشاعت کی اور اپنی تعلیمات عام کیں۔ حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کی تصنیفات نے دکنی ادب میں وقیع اضافہ کیا ہے ۔انہوں نے معراج العاشقین کے نام سے تصوف کے موضوع پر ایک رسالہ تحریر کیا تھا، جو نہایت عام فہم اور عوامی مزاج کے مطابق تھا اور یہ اردو میں دکنی نثر کا پہلا نمونہ تسلیم کیا جاتا ہے ، تبلیغ و اشاعت کا کام وہاں کی عوامی زبان میں انجام دیے ، لہذا میران جی شمس العشاق، برہان الدین جانم وغیرہ بطور خاص قابلِ ذکر ہیں، ان بزرگان نے اس عوامی زبان جسے ہندی یا ہندوی کہتے تھے، کو وسیلۂ اظہارِ خیال بناکر نظم و نثر میں صوفیانہ باتیں اور مذہبی نکات بیان کیے ہیں ۔

   بزرگوں اور صوفیا کے بعد مختلف ادوار میں اس زبان کو بہمنی سلطنت ، عادل شاہی اور قطب شاہی سلاطین کی سرپرستانہ توجہ حاصل رہی، ان درباروں سے جڑے ادبا و شعرا نے اس کی خوب آبیاری کی۔ دکنی ادب کے ابتدائی زمانے ہی میں دکن کے مشہور شاعر مُلّا وجہی نے نثر میں ’تاج الحقائق‘ پھر ’سب رس‘ لکھ کر دکنی ادب کو نثر کا شاہکار شہ پارہ دیا۔سب رس اخلاقی اور صوفیانہ رنگ کی کہانیوں پر مشتمل ہے۔زبان صاف ستھری اور خالص دکنی لب و لہجہ میں ہے ،سب رس کی تصنیف کا زمانہ 1635ہے ۔ اسی طرح دکن کی پہلی طبع زاد مثنوی قُطب مشتری ہے۔

   شعر و سخن کا بڑا ذخیرہ اس زبان میں ملتا ہے۔ نصرتی، نشاطی، ولی، باقر آگاہ اور قلی قطب شاہ وغیرہ نے دکنی زبان میں اردو شاعری کی ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے اور اردو ادب کو اپنے جواہر پاروں سے مالا مال کیا ہے۔ پروفیسر یوسف رحمت زئی اپنے مضمون ’’ شاعری سچ بولتی ہے ‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’ دکنی زبان ایک سیدھی سادی زبان ہے، اس میں مٹھاس ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس میں تصنع نام کی کوئی چیز نہیں ہے، اس زبان میں لفظوں کی آسان ترین ادائیگی کو ملحوظ رکھا جاتا ہے، اگر کوئی مشکل ہو تو دکن والے اس کے تلفظ کو بدل کر آسان کر لیتے ہیں، گویا لفظ دکنیا لیا جاتا ہے، دکن کے تلفظ میں الفاظ پھسل کر ادا ہوتے ہیں اور ایک نامحسوس طریقے سے ایک مصوتے سے دوسرے مصوتے تک ادائیگی منتقل ہوتی ہے، جیسے ’’ بولا ‘‘ کے لیے دکنی میں ’’ بولیا‘‘ کہا جاتا ہے، لیکن اگر ’’ بولیا ‘‘ کہاجائے تو یہ دکنی کا قتل ہے ‘‘۔ پروفیسر یوسف رحمت زئی کے بقول صحیح دکنی تلفظ کے ساتھ لفظ ادا کرنے کے لیے صرف دکنی ہونا کافی نہیں ہے ، بلکہ دکن میں رہتے ہوئے دکن کا مزاج رکھنا اور اس مزاج سے ہم آہنگ ہونا بھی ضروری ہے، اگر یہ دونوں باتیں کسی محقق یا ادیب یا شاعر کی زبان میں بدرجۂ اتم پائی جائیں تو اس کی زبان میں شمالی ہند کی طرح شستگی بھی ہوگی اور اس میں دکن کا لہجہ بھی پوری طرح دکھائی دے گا ۔پروفیسر یوسف رحمت زئی مزید کہتے ہیں کہ سچ بات یہ ہے کہ دکنی میں مراٹھی کی لچک ، تلگو کی چھنک اور کنڑی کی لٹک موجود ہے، یہی وجہ ہے کہ دکنی ہندوستان کی تمام زبان اور بولیوں سے مختلف ہے۔ دکنی شاعری کو صرف مزاح کی چیز سمجھنا غلط ہے، اس زبان کے لوچ اور نزاکت سے واقفیت قاری کو شاعری کی روح تک پہنچنے میں مدد دیتی ہے، چنانچہ جو لوگ اس زبان کے لوچ سے واقف نہیں اور اس کی نزاکتوں سے آگاہ نہیں ہیں وہ جب دکنی زبان سنتے ہیں تو فصیح اور غیر فصیح، متروک اور غیر متروک کے چکر میں پڑ کر شاعری کی روح تک پہنچنے سے قاصر رہتے ہیں ۔

   پروفیسر مجید بیدار اپنے ایک مضمون بعنوان ’’ سلیمان خطیب کی شاعری میں المیہ اور طربیہ پیکر کی حسن آفرینی ‘‘ میں دکنی زبان کے نشیب و فراز پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’اردو کی ادبی زبان سے قبل دکنی لب و لہجہ کو بیشتر شعرا نے لچرسی زبان اورغیر معیاری زبان کی حیثیت سے متعارف کرایا۔لیکن بہمنی دور سے لے کر مغلوں کی دکن میں آمد تک جس زبان نے اپنے وقارکوبرقراررکھا،اور سولہویں صدی کے اواخر میں دم توڑ کر پھر بیسویں صدی کی پانچویں دہائی میں ارتقائی مراحل طے کیے۔اس زبان کودکنی زبان کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔جسے مغلوں نے دکن کی فتح کے بعد یکسر معدوم کردیا، لیکن بیسویں صدی کے نصفِ اوّل کے ساتھ ہی اس زبان کو دوبارہ معیار کا درجہ حاصل ہوا۔دکنی شاعری کو عصرِ حاضر میں بہ یک وقت المیہ اور طربیہ محاکاتی خصوصیات اور پیکروں سے وابستہ کرنے والے اہم شاعر کی حیثیت سے سلیمان خطیب کا نام ہمیشہ سربلند رہے گا۔جنھوں نے دکن کے بہمنی دور کے دارالسلطنت گلبرگہ میں اپنی زندگی گذارتے ہوئے مختلف نثری اصناف کی نمائندگی کی اور آخر میں دکنی شاعری کی طرف توجہ دی۔ انھوں نے کیفیاتی فضا کو دکنی شعر میں سمونے اور اشعار کی دلکشی کو برقراررکھنے کے ہنر کا مظاہرہ کیا۔دکنی لب و لہجہ کے ساتھ منفرد منظرنگاری کی بنیاد رکھی۔جسے بلاشبہ المیہ اور طربیہ پیکر تراشی کے نام سے یاد کیا جاسکتا ہے۔‘‘

دکنی زبان اور سلیمان خطیب

   سلیمان خطیب دکنی روش، دکنی لب و لہجہ کی فراوانی اور جدید دکنی زبان کے ایک کامیاب شاعر کی حیثیت سے بے حد مقبول ہیں اور انہوں نے اپنے کلام سے ایک زمانے کو متاثر کیا، ان کی شاعری میں کنڑی اور تلگو کے علاوہ مرہٹی زبان کے اثرات نمایاں نظر آتے ہیں۔دکنی شاعری اور خصوصاً مزاحیہ دکنی شاعری کے حوالہ سے سلیمان خطیب کا نام جلی حرفوں میں کندہ ہے، ان کا لب و لہجہ جہاں منفرد تھا، وہیں ان کا انداز بھی نرالا تھا، انہوں نے قلی قطب شاہ ، ملاّ وجہی، نصرتی، ملک خونشود اور ابن نشاطی وغیرہ کی زبان کو اپنا میڈیم بنایا اور نذیر دہقانی، علی صاحب میاں اور سرور ڈنڈا کی اتباع میں اپنی قہقہہ بردوش شاعری کو زندہ کردیا۔ انہیں یہ کمال حاصل ہے کہ انہوں نے الفاظ اور محاورے ایسے استعمال کیے جو بالکل مقامی رنگ لیے ہوئے ہوتے تھے، لیکن موضوعات اتنے سنجیدہ ہوتے تھے کہ لوگ ان کی تخلیقات کی سحر آفرینی سے بے پناہ متاثر ہوتے تھے ۔

   سلیمان خطیب کا خمیر دکنی ہے، ان کا مزاج دکنی ہے ، ان کا لہجہ او ر ان کا اسلوب دکن کی نزاکتوں سے سجا ہوا ہے، انہوں نے جہاں زندگی بسر کی وہ دکن کا حصہ رہا ہے اور اسے مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے ۔ حسن شاہ گنگو بہمنی نے جب اپنی سلطنت قائم کی تو گلبرگہ کو دار السلطنت بنایا، حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کا تعلق یہیں سے تھا اور یہیں وہ سکونت پذیر رہے، چنانچہ سلیمان خطیب میں یہاں کا ماحول، آب و ہوا، زبان ، لب و لہجہ رچ بس کر جزو ذات بن گیا تھا، ان کی ہر ادا میں دکن کی نفاست جھلکتی تھی ، یہی وجہ ہے کہ انہیں دکنی زبان پر فطری طور سے عبور حاصل تھا اور اس پر انہیں ناز بھی تھا، وہ فصیح اردو بھی جانتے تھے، لیکن تقریر یا تحریر میں دکنی زبان کے استعمال کو ترجیح دی ۔

   سلیمان خطیب اپنے شعری مجموعہ ’’ کیوڑے کا بن ‘‘ میں رقمطراز ہیں: ’’ میرا ماحول دکنی تھا، اس لیے میں نے دکنی زبان اپنائی، میری شاعری کا مزاج بھی دکنی ہے، اس کی تشبیہات دکنی ہیں، روز مرہ کے محاورے دکنی ہیں، رسم و رواج دکنی ہیں، زبان کا بانکپن بھی دکنی ہے، میں نے ساکن لفظ کو دکنی کے انداز میں بھی متحرک باندھا، قوافی سے بغاوت کی ہے ، یا صوتی اعتبار سے الفاظ استعمال کیے ہیں ‘‘۔ اسی طرح ملنسار اطہر کے نام ایک مکتوب (مورخہ ۱۹/ ۹/ ۱۹۷۸ء) میں اپنی انکساری کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے : ’’ میں دکنی زبان کا شاعر ہوں اور عوامی شاعر ہوں ، میں نے جو کچھ لکھا ہے وہ عوام کے لیے لکھا ہے ․․․․‘‘ آگے تحریر فرماتے ہیں ’’ میرا اندازِ بیان بالکل سیدھا سادا دکنی ہے، سہلِ ممتنع کے قریب قریب، جس میں درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہے ، مزاج کی چاشنی ہے، مجھے جدید اور قدیم ادب کی ترازو میں مت تولو۔ کسانوں کی، مزدوروں کی اور عوام کی صف میں شامل رکھو اور ان کا شاعر لکھو، یہی بس ہے ‘‘۔

   ڈاکٹر عابد علی خان مرحوم نے خطیب کے مجموعۂ کلام ’’ کیوڑے کا بن ‘‘ کے پیشِ لفظ میں لکھا تھا کہ ’’ خطیب کی مقبولیت کی بڑی اور بنیادی وجہ دکھنی زبان کا استعمال اور اس میں عوامی مسائل کا اظہا رہے ، وہ عوام کے مسائل کے ترجمان شاعر ہیں اور روز مرہ زبان میں عوام سے مخاطبت عوام پر گہرا اثر چھوڑتی ہے ‘‘۔ مندرجہ بالا اقتباس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سلیمان خطیب کا رشتہ راست عوام سے تھا، ان کی شاعری عوام کے لیے تھی، انہیں خواص سے کوئی مطلب نہیں، یہ اور بات ہے کہ خواص بھی اس عوامی شاعری سے اسی طرح لطف اندوز ہوتے ہیں جس طرح عوام ۔ میر نے کہا تھا کہ ؂

                                                   گو میرے شعر ہیں خواص پسند

                                                   پر مجھے گفتگو عوام سے ہے

   سلیمان خطیب کو ابتدا ہی سے دکنی لوک گیتوں سے شغف رہا، انہیں دکن کے گاؤں گاؤں پھرنے کا موقعہ ملا اور انہوں نے اپنی محنت و لگن سے دکنی محاورے، تشبیہات اور ہزاروں لوک گیت جمع کیے ، جن کا انہوں نے اپنی شاعری میں بر محل استعمال کیا، انہیں دکنی محاورے اور تشبیہات کے استعمال میں کمال حاصل تھا، ان کی شاعری کا بنیادی وصف لوک گیتوں کا انداز ہے، دیہات کی عورتیں جس بولی میں گفتگو کرتی ہیں اور دیہات کے بھولے بھالے ، سیدھے سادے کسان جس بولی میں بات کرتے ہیں وہی بولی، وہی تلفظ اور وہی انداز سلیمان خطیب کا ہے، خطیب کی شہرت کا راز یہ ہے کہ خطیب نے قدیم دکنی محاورات ، تشبیہات اور استعاروں کو نہایت چابکدستی سے استعمال کیا۔ پروفیسر رؤف خوشتر اپنے مضمون میں رقم کرتے ہیں کہ ’’ محمد قُلی قُطب شاہ معانیؔ اور نظیر اکبرآبادی کے بعد اردو شاعری میں ہندوستان کے دیہات کے باشندے اپنے رسموں ، رواجوں، تیوہاروں، پستیوں اور بلندیوں کے ساتھ خطیب کی شاعری میں زندہ ہو اٹھے۔یہ دوسرے تمام معاصرینِ دکن ( علی صاحب میاں، نذیردہقانی، اعجاز کٹھا، سرور ڈنڈا، حمایت علی حمایت)میں منفرد و محترم ہیں‘‘۔

   ہر ملازم کے لیے پہلی تاریخ بڑی اہم ہوتی ہے، اس دن پچھلے مہینے کی ساری کمائی یکمشت ملتی ہے اور اس پر آنے والے مہینے کا دار و مدار ہوتاہے، ایک کم معاش ملازم کے لیے تو اور بھی مشکل ہوتی ہے کہ اس نے مہینہ بھر قرض لے لے کر دن گزارے تھے اور ہر ایک سے پہلی کا وعدہ کیا تھا، سلیمان خطیب کی شاعری میں ایک ایسے ہی ملازم کی خوشیاں دیکھیئے جو اپنی بیوی سے مخاطب ہوکر کہتا ہے ؂

                                       تجھے معلوم ہے، کی انا خوشی سے آیوں

                                       منجے آتے سو بی، نیں آتے سو گانے گایوں

                                       ادی بریانی بی ہوٹل میں دبا کو کھایوں

                                       دیکھ جیبق میں ترے واسطے کیا کیا لایوں

                                       آج تنخواہ ہے مری، آج ہے چاندی سونا

                                       بول گلے میں ترے واسطے کیا کیا ہونا

مگر بیوی کے ذہن میں سیٹھ کا خیال مسلط ہے ، کہتی ہے ؂

                                       کی شرم ننیں سو کتنیں، بات کو تنخواہ آریئے

                                       آنے کی دیر بی نئیں سیٹھ کے گھر یو جاریئے

سلیمان خطیب اور سماجی مسائل

    سلیمان خطیب عوامی شاعرتھے، ان کی شاعری میں عوامی لہجہ اور عوامی جذبات نظر آتے ہیں ، انہوں نے عوامی موضوعات پر قلم اٹھایا ہے، انہوں نے اپنی ایک نظم ’’ ایک کلرک کی بیوہ‘‘ میں کلرک کا مہینے کی آخری تاریخوں میں انتقال کرجانا اور اس بیوہ کا شوہر کی قبر پر آہ و زاری کرنا ، ان احساسات کا اظہار خطیب کے ان اشعار میں دیکھیئے ؂

                                       ایسا مرنا بھی کیئکا مرنا جی

                                       پھول تک میں ادھار لائی ہوں

                                       اِتّا احسان مجھ پو کرنا تھا

                                       تنخواہ لینے کے بعد مرنا تھا

   موجودہ سماجی مسائل پر سلیمان خطیب نے اظہارِ خیال کیا ہے ،ان کی ایک نظم ’’ سانپ ‘‘ ہے، اس نظم کی ابتدا میں انہوں نے لڑکے کے تعارف میں ایسے الفاظ کا استعمال کیا ہے کہ سننے والے کے سامنے معاشرہ کی مکروہ تصویریں رقص کرتی نظر آتی ہیں، لیکن ان کا بھرپور وار نظم کے آخری حصہ ہی میں ظاہر ہوتا ہے ۔ انہوں نے ناصحانہ انداز میں لڑکی کے والدین کو لڑکی کے رشتے کے تعلق سے کافی غور و فکر کے بعد قدم اٹھانے کی تلقین کی ہے، ذیل کے چند اشعار ملاحظہ کریں جن سے ان کی فکر کی ترجمانی ہوتی ہے ؂

                                       خوب سوچ سمجھ کے بچی دو

                                       کاٹ کھانے کو سانپ آتے ہیں

                                       روپ بھر کر کبھی فرشتوں کا

                                       گھر بسانے کو سانپ آتے ہیں

                                       ہم نے ممبر پہ سانپ دیکھے ہیں

                                       ہم نے مندر کے سانپ دیکھے ہیں

                                       کیا بتائیں کہ اونچی کرسی پر

                                       کتّے زہریلے سانپ دیکھے ہیں

                                       رونے دھونے سے کچھ نہیں ہوتا

                                       خوب سوچ سمجھ کے بیٹی دو

   آج کے معاشرے میں لڑکوں کے سرپرستوں کے لڑکی کے سرپرستوں سے مطالبات، ان پر اصرار اور خود کی جوابی فرمائشوں سے مجبوری کا اظہار سلیمان خطیب نے یوں کیا ہے ؂

                                       بھار والے تو بھوت پوچھیں گے

                                       گھر کا بچہ ہے گھر کا زیور دیو

                                       بھوت چیزاں نکو جی تھوڑے بس

                                       ایک بنگلہ ہزار جوڑے بس

سلیمان خطیب کی زبان میں اب لڑکے والوں کی مجبوریاں ملاحظہ فرمائیں ؂

                                       جوڑے لانا بھی راس نیں ہمنا

                                       نتھ چڑھانا بھی راس نیں ہمنا

                                       ہم ولیمہ تو کب بی دیتے نیں

                                       کھانا وانا بھی راس نیں ہمنا

                                       مہر و تاج جتی سنت ہے

                                       بھوت بننا تو سب حماقت ہے

اس نظم کے آخری بند عبرت و نصیحت سے پر ہیں، سلیمان خطیب کہتے ہیں ؂

                                       جس کی بچی جوان ہوتی ہے

                                       اس کی آفت میں جان ہوتی ہے

                                       بوڑھے ماں باپ کے کلیجے پر

                                       ایک بھاری چٹان ہوتی ہے

                                       جی میں آتا ہے اپنی بچی کو

                                       اپنے ہاتھوں سے خود ہی دفنا دیں

                                       لال جوڑا تو دے نہیں سکتے

                                       لال چادر میں کیوں نا دفنا دیں

   سلیمان خطیب مشاعروں میں پہلے پہل سامعین کو خوب ہنساتے اور پھر جب ان کا وار کارگر ہوجاتا تو وہ برائیوں اور ناعاقبت اندیشوں کی نشاندہی شروع کردیتے جو اصلاحِ معاشرہ کے لیے ضروری تھا، واقعی خطیب نے نشتر زنی کا یہ کام صرف سنجیدگی سے لیا ۔ ’’ دکنی ادب کے چار مینار‘‘ میں رشید شکیب نے لکھا ہے کہ ’’ خطیب کی شاعری فطرت کی عکاس ہے، شاعر اپنے شاعرانہ اظہار کے لیے کسی کی طرف نہیں دیکھتا ، بلکہ وہ جس معاشرہ ، جس دیس اور رسم و رواج کے ماحول میں پل رہا ہے اس سے استفادہ کرتا ہے ، اسی لیے خطیب کی شاعری میں سچائی ، حسن ، معاشرتی مسائل اور سماجی الجھنوں کی نشاندہی ہوتی ہے ، علاوہ ازیں تشبیہات، استعارات جابجا ملتے ہیں، یہی شاعری شاعر کو بلند مقام عطا کرتی ہے ‘‘۔

 سلیمان خطیب کی شاعری میں طنز و مزاح

   مزاح جس کی پسلی سے قہقہے جنم لیتے ہیں ، غم و اندوہ کے لیے تریاق کا کام کرتا ہے ، یہ انسان کو مصائب اور تردّد سے نبرد آزما ہونے کا گُر سکھاتا ہے ، یہ فنکار کے لیے ایک ایسا آلہ ہے جواس کے اظہارِ خیال میں معاون و مددگار ہے اور اس کی ذہنی کاوشوں کو رواں کرتا ہے ، قہقہے اور ہنسی پیدا کرنے والا مزاح ہی انسان کو حقیقی لطف فراہم کرتا ہے ۔ یونس فہمی اپنے مضمون بعنوان ’’ سلیمان خطیب ایک سنجیدہ شاعر ‘‘میں تحریر کرتے ہیں : ’’ خطیب قہقہوں کا شہنشاہ ہے، وہ اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کے باعث ایک انفرادی خصوصیت کا حامل ہے، وہ ابتداء قہقہوں کی کڑکتی ہوئی بجلیوں سے کام لیتا ہے اور پھر زندگی کی گھنگھور اور تاریک فضا کی سیر کراتا ہے، وہ ان رستے ہوئے ناسوروں کی نشاندہی کرتا ہے جو معاشرے کو کمزور اور نحیف بناتے جارہے ہیں، وہ یہ سب کچھ خطیبانہ انداز میں نہیں کرتا ، بلکہ لطیف مزاح کا سہارا بھی لیتا ہے ‘‘۔

   سلیمان خطیب عزیز اﷲ بیگ کی نظر میں طنز و مزاح کی حیثیت سے کہیں زیادہ بلند شاعر ہیں، وہ ایک ترقی پسند شاعر ہیں جو غریبوں، کسانوں ، مزدوروں اور مفلوک الحال انسانوں کے بہتر مستقبل کے خواب دیکھتے تھے، وہ قلندرانی طبیعت کے مالک تھے اور لوگوں میں گھرے رہنا پسند کرتے تھے، اس وجہ سے ان کی شاعری میں ہمیں سماجی حقائق کی اس قدر کھری اور سچی تصویریں دیکھنے کو ملتی ہیں۔

   یونس فہمی اپنے مذکورہ بالا مضمون میں سلیمان خطیب کے شعری مجموعہ ’’ کیوڑے کا بن ‘‘ کے مطالعہ کی روشنی میں لکھتے ہیں کہ ’’ واقعی خطیب کی شاعری میں مزاح، مقصدیت، افادیت، معنویت اور مقاصد کی کارفرمائی کثرت سے پائی جاتی ہے اور یہی دراصل حقیقی مزاح ہے، کیوں کہ مقصدیت کی نشتر زنی، افرادِ معاشرہ کے خیالات و رجحانات کو نفاست بخشتی ہے، طبائع انسانی کو پژمردگی سے نجات دلاتی ہے اور جینے کا سلیقہ بھی سکھاتی ہے، گویا مزاح سماج کے عمومی مسائل کی تطہیر کرتا ہے، شائستگی اور شرافت کے انعامات سے نوازتا ہے ، مزاح دراصل مہذب اور متمدن معاشرے میں قدرِ دوام کی حیثیت رکھتا ہے ، مزاح نگار اعتدال پسند ہوتا ہے اور اس کی مقصدیت میں تفریح و تفنن کے بجائے کمزوریوں و کوتاہیوں کی نشاندہی ہوتی ہے، وہ نقاب پوش نہیں ہوتا، پہرہ دار ہوتا ہے ۔ اس تناظر میں خطیب کی شاعری کو دیکھیں تو کہنا پڑتا ہے کہ خطیب نے صرف تبسم ہی کی نہیں، غور و فکر کی بھی دعوت دیتا ہے ۔وہ مسلمات یا مفروضۂ مسلمات پر نظرِ ثانی کی دعوت دیتا ہوا دکھائی دیتا ہے ‘‘۔

   پروفیسر یوسف رحمت زئی لکھتے ہیں : ’’ سلیمان خطیب نے مزاح کو طنز کی طرف موڑ کر وہی کام انجام دیا جو ایک عمدہ قسم کا سرجن یا جرّاح کرتا ہے، انہوں نے ماحول میں بکھرے ہوئے تمام زہر کو بوند بوند میں بند کیا، لیکن اس زہر پر مزاح کی شکر لپیٹ دی، آہستہ آہستہ شکر گھل جاتی ہے اور زہر کی تلخی روح کے اندر ایک کرب پیدا کردیتی ہے ، سلیمان خطیب کے ہاں مزاج میں پھکڑپن نہیں ، ایک نرم آہنگ ہے جو دلوں میں انبساط بھردیتا ہے اور پھر طنزکی تلخیاں اس انبساط کو درد میں بدل دیتی ہیں، سلیمان خطیب کی شاعری کا یہ وصف انہیں ہمیشہ زندہ رکھے گا ‘‘۔

   یونس فہمی اپنے مضمون بعنوان ’’ سلیمان خطیب ایک سنجیدہ شاعر ‘‘میں سلیمان خطیب کی ہجو گوئی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں : ’’ خطیب ہجویاتی اندازِ بیان اختیار نہیں کرتے اور نہ ہی عضویاتِ انسان کی غیر معمولی اشکال کو نشانہ بناتے ہیں، لیکن جزوی طور پر کہیں کہیں خطیب آپے سے باہر بھی دکھائی دیتے ہیں اور انسان کے اعضائے بدن کی قدرتی یا حادثاتی عیوب کو ظاہر کرکے ہجو گوئی کے زمرے میں آجاتے ہیں، ان کی نظم ’’ کانا دجّال ‘‘ اس کی بہترین مثال ہے ‘‘۔

سلیمان خطیب کی شاعری میں سنجیدگی

   سلیمان خطیب سماج کی کوتاہیوں اور کمزوریوں کی نشاندہی کرتے تھے اور پھر ان کی نشتر زنی کا کام ہنسی کی آڑ میں سنجیدگی سے لیا کرتے تھے،ان کی شاعری میں جدت بھی ہے اور ندرت بھی ، وہ عوام کو ہنسا ہنسا کر بے دم کردیتے تھے اور اس کے فوراً بعد غور و فکر پر مجبور بھی کردیتے تھے ، ان کے لیے یہ ضروری بھی تھا کہ وہ اپنی بات کہنے کے لیے طنز و مزاح کا سہارا لیتے ، مان لیجیئے اگر ان کی شاعری سے سنجیدہ کلام کو الگ کردیا جائے تو ان کی شاعری کی دلکشی میں بڑی حد تک کمی واقع ہوجائے گی ، مگر اس کے باوجود ان کا سنجیدہ کلام اپنے آپ میں مکمل اور مشن کی ترسیل میں کامیاب ہے ۔ وہ مشاعروں میں جب بھی اپنی معرکۃ الآرا نظم ’’ ساس بہو ‘‘ سناتے اور دیہاتی ساس کے ڈائیلاگ نذرِ سامعین کرتے تو سامعین لوٹ پوٹ ہوجاتے، لیکن جب اسی نظم کے آخری بند کو شاعر بہو کی زبان میں پیش کرتا تو محفل کا رنگ یکسر بدل جاتا، وہ کہتے ہیں ؂

                                       ہم گھرانے کی شان رکھتے ہیں

                                       بند مٹھی کی آن رکھتے ہیں

                                       گھر کی عزت کا پاس ہے ورنہ

                                       ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں

                                       بیٹی مریم ہے ، بیٹی زہرہ ہے

                                       بیٹی سیتا ہے اور ساوتری

                                       بیٹی عنوانِ درسِ عبرت ہے

   یونس فہمی نے سلیمان خطیب کی سنجیدہ شاعری کا بڑا گہرا مطالعہ کیا ہے اور ان کی ان نظموں کی نشاندہی کی ہے جو سنجیدگی اور متانت سے عبارت ہیں ، آئیے ہم بھی ان کے اس گراں قدر مطالعہ سے استفادہ کریں ۔ سلیمان خطیب کی بیشتر نظمیں خالص سنجیدہ ہیں ، نظم ’’ درِ خواجہ پہ چلو ‘‘ ، ’’ بارگاہِ بندہ نواز ‘‘ میں ایک پیام ہے ، مندرجہ بالا دلیل کے ثبوت میں یہ نظمیں پیش کی جاسکتی ہیں ، ان نظموں کے علاوہ اور بھی کچھ نظمیں ایسی ہیں جن میں نہ تو مزاح کی چنگاریاں ہیں اور نہ طنز کے تیر۔ مذکورہ دونوں نظموں میں طنز و مزاح کی گنجائش ہی نہیں تھی، خطیب کی چند ایسی بھی نظمیں ہیں جن کے ابتدائی اشعار میں سنجیدگی اور متانت کے سوا کچھ بھی نہیں۔خطیب کی ایک نظم ’’ بشکولا ‘‘ ہے جو خالص طنزیہ نظموں میں شمار کی جاسکتی ہے ، ان کی نظمیں ’’ پہلی جمعگی‘‘، ’’ ہراج کا پلنگ ‘‘ اور ’’ پہلی تاریخ ‘‘ شاہکار نظمیں ہیں۔ نظم ’’ سانپ ‘‘ میں بھی خطیب نے وہی تکنیک استعمال کی ہے جس کا رشتہ سنجیدگی سے جڑ جاتا ہے ۔ نظم ’’ روٹی ‘‘ میں خدا کا مکالمہ اور نظم ’’ راستے ‘‘ کے آخری اشعار خطیب کو ایک سنجیدہ شاعر سمجھنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ’’ دو شاعر ایک رقاصہ ‘‘ اور ’’ پیارا وطن ہمارا ‘‘ پر مکمل طور پر سنجیدگی کی چھاپ ہے ۔ ان کی نظم ’’ پہلی جمعگی ‘‘ کے ابتدائی اشعار سنجیدگی سے عبارت ہیں، اس نظم میں شاعر نے لالچی ساس کی نفسیات کی بھرپور عکاسی کی ہے ؂

                                       کیا دیا تھا نبی نے بیٹی کو

                                       کچھ تو ہوگا بتول سے رشتہ

                                       ایک چکی تھی اور مشکیزہ

                                       صرف لفظِ قبول سے رشتہ

                                       گھر نبی کا نبی کی بیٹی ہے

                                       اور علی کا رسول سے رشتہ

                                       اسی نقشِ قدم پہ چلنا ہے

                                       تا ابد ہے رسول سے رشتہ

ان کی نظم ’’ تنگ پتلون ‘‘ کے مزاحیہ اشعار ملاحظہ فرمائیے ؂

                           ایک صاحب نماز میں یارو، تنگ پتلون چڑھا کر آئے تھے

                           اُنّوں کھڑکو تھے بس اقامت میں ، لوگاں سجدہ میں سرجھکائے تھے

سلیمان خطیب کی نثری تخلیقات

   سلیمان خطیب ایک عمدہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے نثر نگار بھی تھے، نثر نگاری میں بھی انہیں کمال حاصل تھا ، اگرچہ نظم کی بہ نسبت ان کی نثری تحریروں کی تعداد بہت کم ہے ، لیکن جو کچھ ہے بہت بہتر ہے ، ان کی نمائندہ تحریروں میں مضامین بعنوان الیکشن کا موسم،کتاب پڑھنے کی تکنیک،آنکھیں،ماضی پر ایک نظر،خیریت اورگلبرگہ کلب کا ایک شاعر،میری زندگانی اوردروغ بیانی وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔یہ مضامین اردو زبان و ادب کے مختلف جرائد و رسائل میں پھیلے ہوئے ہیں، جن میں سماجی اور معاشرتی مسائل کی بھرپور ترجمانی اور عکاسی ملتی ہے۔ یہاں نمونے کے طور پر سلیمان خطیب کے ایک مضمون ’الیکشن کاموسم‘ کا ایک اقتباس نقل کیا جارہا ہے تاکہ اس سے ان کے اسلوبیاتی نہج کا پتہ چل سکے ، اس اقتباس میں الیکشن کے موقع پر سیاست دانوں اورنام نہاد لیڈران کی دوڑدھوپ، شعلہ بیاں تقریر پھر اس میں بھلے مانوس لوگوں کو ترقی وخوشحالی کاپرفریب وعدہ وعید،روزی روزگار دلاکر ان کی دنیا بدل دینے کاجو سرسبز باغ دکھایا جاتا ہے۔اس پر انھوں نے دلچسپ پیرائے میں طنز کیا ہے۔ آپ بھی اس اقتباس کا لطف اٹھایئے :

’’اس موسم میں انسانی ہمدردی،بھائی چارگی جی اٹھتی ہے۔یہ تقریروں کا موسم ہے ، اس موسم میں دنیا کی طویل سے طویل تقریریں ہوتی ہیں۔قوم کی زبوں حالی اور ملک کے افلاس کے رقت آمیز مرثیے سنائے جاتے ہیں۔ہر گلی کے موڑ پر ایک پٹرومکس کی روشنی میں سو دو سو سامعین نہ ملیں تو صرف ایک دو راہ چلتوں کو پکڑ کر دھواں دھار تقریریں ہوتی ہیں۔مگرمچھ کے آنسو بہانے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ان تمام تقریروں کا خلاصہ اور لُبِّ لباب صرف یہی ہوتا ہے کہ’’مائی باپ!مجھے یا میرے امیدوار کو ووٹ دیجیے۔‘‘ موقع پرست اور پیشہ ور مقررین کا یہ خاص موسم ہے۔یہ لوگ بریانی کھاتے ہیں، دودھ پیتے ہیں، پھول پہنتے ہیں، لونگ اور سعالین کھا کھا کر تقریریں کرتے ہیں، کبھی ’مرغ‘کو تیار کرتے ہیں، کبھی ’ترازو‘کو شہ دیتے ہیں۔یہ دونوں کے رازدار ہوتے ہیں، اسی لیے دونوں کو خوب لڑاتے ہیں اور اپنا اُلّو سیدھا کرتے ہیں‘‘۔

خلاصۂ کلام

   سلیمان خطیب زمانہ کے نبض شناس، مصلحِ قوم، ہمدردِ ملت اور اپنی تہذیب و ثقافت کے نقیب تھے، انہوں نے اپنے کلام میں شعبہائے زندگی کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کیا ہے ، معاشرہ کے جس شعبہ میں بھی انہوں نے بے راہ روی دیکھی، بیباک انداز میں اسے موضوعِ سخن بنایا۔ اربابِ حل و عقد ہوں یا احبابِ علم و دانش، سماجی زندگی ہو یا انفرادی زندگی، مرد و زن کی نفسیات ہوں یا نت نئے سماجی ریت و رواج ، سب کو اپنے دائرۂ گفتگو میں شامل کیا اور ان کی عکاسی کی۔ یونس فہمی اپنے مضمون ’’ سلیمان خطیب ایک سنجیدہ شاعر ‘‘ میں سلیمان خطیب کی شاعری میں سنجیدگی کا مطالعہ کرنے کے بعد لکھا ہے کہ ’’ ان کی اَن گِنت نظمیں ایسی ہیں جن کا مطالعہ یہ محسوس کراتا ہے کہ ان کے دل میں قوم و ملت کا درد موجود ہے ، اس کے سینے میں ایک دردمند دل دھڑکتا ہے ، ایک ایک لفظ سے دل کی آواز سنائی دیتی ہے جو پتھر دل کو موم بناسکتی ہے۔ خطیب نے معاشرتی بگاڑ کو نہایت دل پذیر انداز میں پیش کیا، ایسا لگتا ہے کہ وہ معاشرتی سدھار کا مشن لے کر اٹھے اور تنہا اس پر کام کرتے رہے، ان میں فنکارانہ صلاحیتیں بہت زیادہ تھیں اور یہ سب کچھ رب العزت کا گراں بہا عطیہ تھا ‘‘۔

حوالہ جات

۱ ۔ محمد خورشید عالم ندوی : کرناٹک کی ادبی شخصیات، قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان، نئی دہلی، ۲۰۱۵ء ۔

۲ ۔ ڈاکٹر سید بشیر احمد : مزاح نگارانِ حیدرآباد (حیدرآباد میں طنزیہ و مزاحیہ شاعری آزادی کے بعد)۔

۳ ۔ پروفیسر یوسف رحمت زئی : شاعری سچ بولتی ہے(مقالہ)، سیف قاضی کا بلاگ، ۲۰۱۳ء۔

۴ ۔ یونس فہمی : سلیمان خطیب ایک سنجیدہ شاعر(مقالہ)، روزنامہ سیاست ( ادبی ڈائری)، حیدرآباد، ۲۰۱۴ء ۔

۵ ۔ ڈاکٹر شمیم ثریّا : سلیمان خطیب بین الاقوامی شہرت یافتہ طنزیہ و مزاحیہ شاعر (مقالہ)، وقارِ ہند ڈاٹ کوم ۔

۶ ۔ منور سلطانہ : سلیمان خطیب (مقالہ)۔

۷ ۔ وہاب عندلیب : سلیمان خطیب شخص ، شاعر اور نثر نگار۔

۸ ۔ سہ ماہی طنز و مزاح (سلیمان خطیب نمبر )، ج۳ ، شمارہ ۱ ، جنوری ۔ مارچ ۲۰۱۲ء ۔

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.