کرشن چندر کے افسانوں میں دیہی سماج کی عکاسی

 ڈاکٹر مختار احمد ڈار

 لیکچرار شعبئہ اردو ساوتھ کیمپس یو نیورسٹی آ ف کشمیر

 ترقی پسند افسانے کا بڑا مقصد ہمارے قدیم روایتی اور فرسودہ سماج و معاشرے کو بدلنا اور مساوات پر مبنی ایک نئے معاشرے کو قائم کرنا تھا، چنانچہ ترقی پسند بیشتر افسانہ نگاروں نے ہندوستانی عناصر اور دیہی سماج کے مسائل کو بطور خاص اپنے افسانوں کا موضوع بنایا جن میں کرشن چندر، حیات اللہ انصاری، اپندر ناتھ اشک، راجندر سنگھ بیدی، اختر اورینوی، احمد ندیم قاسمی اور دیوندر ستیارتھی کے اسمائے گرامی بطور خاص انفرادی کے حامل ہیں ۔ ترقی پسند افسانہ نگاروں میں کرشن چندر کو حق گوئی و صدق بیانی میں ید طولیٰ حاصل ہے ، اس ضمن میں سید اعجاز حسین یوں رقم طراز ہیں:

’کرشن چندر حقیقت پسند اور زبر دست حقیقت پسند ہیں، اگر وہ تنگ و تاریک گلیوں کا بھی ذکر کرتے ہیں تو ساتھ ہی ساتھ تیرہ و تار مناظر سے نکال کر روشنی اور کشادہ سڑکوں کی بھی سیر کرا دیتے ہیں، اب یہ پڑھنے والے کی صلاحیت پر ہے کہ وہ نبض شناسی سے کام لے اور مصنف کی حقیقی ہمدردی کا اندازہ کر لے۔‘  ۱؎

 بہ الفاظ دیگر تر قی پسند افسانہ نگاروں میں کرشن چندر کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ دیگر کو نصیب نہیں ہوئی، ان کے یہاںموضوعات کا تنوع ہے جہاں انسانی زندگی کی مختلف صورتیں جلوہ گر ہیں۔ کرشن چندر نے انسانی نفسیات کے ساتھ ساتھ فرسودہ رسم و رواج اور زندگی کے مسائل کو نہایت ہی فن کارانہ چابکدستی کے ساتھ پیش کیا ہے، ان کے بیشتر کردار مختلف طبقات سے تعلق رکھتے ہیں، اس تناظر میں کرشن چندر کے معروف زمانہ افسانوں میں ’کالو بھنگی، بھیروں کا مندر، لمیٹڈ اور شہتوت کا درخت‘ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔

زبان و بیان کے نقطۂ نگاہ سے بھی کرشن چندر کی انفرادیت مسلم ہے۔ اس ضمن میں پروفیسر صادق یوں رقم طراز ہیں ، ملاحظ کریں:

’ زبان واسلوب کے لحاظ سے اردو کا کوئی افسانہ نگار ان کی ہم سری کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔‘  ۲؎

موضوع کے اعتبار سے کرشن چندر نے ہندوستانی مسائل اور بطور خاص کشمیر کی دیہی زندگی اور وہاں کے احوال و کوائف کو اپنے افسانوں کا موضوع بیایا ہے، بطور مثال افسانہ ’اندھا چھترپتی ‘ میں کرشن چندر نے زمانے کی تبدیلیوں اور سماج کی طبقاتی کشمکش کو اجا گر کیا ہے، ’چھتر پتی‘ افسانے کا مرکزی کردار ہے جو استحصال کا شکار ہوتا ہے اور آخر میں اندھا ہو کر دنیائے فانی سے رخصت ہو جاتا ہے، چھتر پتی کے والدین کے انتقال کے بعد اس کے ہی رشتے دار اس کی زمین پر قبضہ کر لیتے ہیں ان حالات میں چھتر پتی پیٹ کی آگ بجھا نے کے لیے مزدوری کرتا ہے، رشتے داروں کے یہاں پانی بھرتا ہے، جانوروں کے ریوڑ کی رکھوالی کرتا ہے، لوگوں کے کپڑے دھوتا ہے لیکن گاؤں والے اسے پسند نہیں کرتے ، لہذا وہ شہر چلا جاتا ہے اور جب شہر سے دو سال بعد واپس لوٹتا ہے تو حالات کچھ اس طرح کروٹ لیتے ہیں:

’اس عرصے میں اس کی کئی ایک خالائیں، پھوپھیاں، چچیاں پیدا ہو گئیںہیں۔ بات یہ تھی کہ چھتر پتی دو تین سو روپیے پردیس سے کما کر لایا تھا اور پھر اس کے پاس کپڑوں اور دیگر اشیاء سے بھرے ہوئے تین چار ٹرنک بھی تھے۔‘  ۳؎

چھتر پتی کے روپیوں کو گاؤں والے اسے بیوقوف بنا کر اینٹھ لیتے ہیں، روپیوں کا نصف حصہ تومکھنی کا باپ ہی اپنی لڑکی سے شادی کا لالچ دے کر اینٹھ لیتا ہے ،بعدازاں مکھنی کا باپ چھترپتی کو کہتا ہے کہ شادی کے لیے بڑا خرچ آتا ہے چنانچہ تم پھر سے شہر جاؤ اور کما کر دو تب شادی ہوگی اس طرح چھتر پتی دوبارہ شہر جاتا ہے اور ہر مہینہ کچھ نہ کچھ روپیے پیسے مکھنی کے باپ کوبھیج دیتا ہے،سال بھر بعد جب وہ شہر سے واپس آتا ہے تو دیکھتا ہے کہ مکھنی کے باپ نے اس کی شادی ایک ادھیڑ عمر کے نمبردار کے ساتھ کر دی ہے، مکھنی بھی اسے بخوشی اپنا لیتی ہے۔ چونکہ دیہی عوام عام طور پر تقدیر پرست ہوتے ہیں اس پس منظر میں افسانے کا یہ اقتباس ملاحظہ کریں:

 ’نمبر دار ادھیڑ عمر کا تھا تو اس میں کیا حرج تھا، اگر یہ اس کی تیسری شادی تھی تو اسے اس کی کیوں پروا ہو۔ دور مہاجنی میں سب سے زیادہ خوبصورت، قیمتی اور حسین چیز روپیہ ہے اس لحاظ سے مکھنی خوش نصیب تھی۔اور آخر میں دیوتاؤں نے کہا ہے ، ایسا ہی ہونا تھا، قسمت کا لکھا اٹل ہے۔‘  ۴؎

کرشن چندر کا افسانہ ’آنگی‘ کشمیری دیہات کی منظر کشی کا ایک اعلی نمونہ ہے ، ملاحظہ کریں:

’مسافر کو سارو گاؤں بہت پسند آیا۔ بس کوئی بیس پچیس کچے گھر تھے، سپلید مٹی(کھریا) سے لپے ہوئے، ناشپاتیوں، کیلوں اور سیبوں کے درختوں سے گھرے ہوئے، سیب کے درختوں میں پھول آئے ہوئے تھے، کچی سبز چھوٹی چھوٹی ناسپا تیاں لٹک رہی تھیںاور کھیت مکی کے پودوں سے ہری مخمل بنے ہوئے تھے، کیلوں کے ایک بڑے جھنڈ کی آغوش میں گنگناتا ہوا نیلا جھرنا تھا۔‘  ۵؎

کرشن چندر نے مذکورہ افسانے میں آنگی اور ایک مسافر کی محبت کی داستان کو مو ضوع بنایا ہے، دیہی افراد بہت جلد دوسروں کی چالاکی کا شکار ہو جا تے ہیں۔ افسانے کی مرکزی کردار آنگی کے ساتھ بھی یہی ہوا ، ملاحظہ کریں:

’اس نے آنگی کے آنسو نہیں پو نچھے، اس نے اسے پیار نہیں کیا، یکایک ایک پرندہ اپنے سیاہ پر پھیلائے ہوئے تیر کی طرح سامنے سے نکل گیا۔‘  ۶؎

کرشن چندر کے افسانے ’گھاٹی‘ اور ’ایک دن‘ میں بھی ہندوستانی عناصر اور دیہی زندگی کے مسائل کی بھر پور عکاسی کی گئی ہے، متذکرہ دونوں افسانوں میں عشق و محبت کی داستانیں پس منظر میں پر وان چڑھتی ہیں، یہاں کرشن چندر کا طرز بیان رومانویت اختیار کیے ہوئے ہے اس کے برعکس افسانہ ’شہتوت کا درخت‘ میں کرشن چندر نے جس انداز میں دیہی زندگی اور وہاں کے مسائل کو بیان کیا ہے وہ پریم چند کی روایت سے بہت قریب ہے، اس افسانے میں کرشن چندر نے غریبی اور مفلسی و ناداری کی ایک الم ناک تصویر پیش کرتے ہوئے دیہی زندگی کے مختلف مراحل و منازل کو اپنا موضوع بنایا ہے افسانے کا مرکزی کردار نواز موچی ہے، نواز کا خاندان اتنا غریب ہے کہ اس کی شادی میں شہنائی تک نہیں بجتی، ملاحظہ کریں:

’شادی خاموشی میں طے ہوئی تھی نواز گھر سے دلہن کو لانے کے لئے اکیلا اس طرح روانہ ہوا تھا گویا شادی نہیںقتل کا سامان بہم پہنچا نے جا رہا ہو۔ صبح کو وہ گھر سے نکلا اور دوپہر کو نگر گاؤں میں پہنچ گیا۔ قاضی نے نکاح پڑھایا، بیاہ پر نواز کے صرف سترہ روپے خرچ ہوئے تھے۔ چاندی کی بالیاں سنار نے ادھار دی تھیں، دلہن کی جوتی اس نے خود بنائی تھی۔ نواز کی دلہن بھی زمین کی ان بیٹیوں میں تھی جن کے پاؤں کبھی ڈولی میں نہیں پڑتے، کبھی جھولے میں نہیں جھولتے، کبھی گاڑی ہی نہیں چڑھتے، وہ زمین کے سینے پر چلتے جاتے ہیں، حتیٰ کہ بچپن گزر جاتا ہے، حتیٰ کہ موت آجا تی ہے اور وہ تھکے تھکے قدم قبر کی گہری غار میں اتار دیئے جاتے ہیں۔ یہ ہولے ہولے چلتے ہوئے مایوس اداس قدم جو اپنی محنت سے سونا اگلتے ہیں، وہ کھیتبوتے ہیں، جوتے بناتے ہیں اور کائنات کی بسیط برفیلی فضا میں بہار کا پیغام لاتے ہیں، کیا سچ مچ انھیں کبھی ڈولی نہ ملے گی۔ کبھی جھولہ نہ ملے گا، کبھی حنا کی لکیر میسر نہ ہو گی۔ مندروں سے لیکر مسجدوں تک یوں ہی گزر جانے والے قدم کیا ہمیشہ یوں ہی چلتے رہیں گے، بے سواری بے آسرا۔‘  ۷؎

نواز اوراس کی بیوی دونوں برفیلی رات میں آٹھ کوس پیدل چل کر اپنے گھر پہنچتے ہیں، اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کشمیر کے دیہی علاقوں میں آمد و رفت کس قدر مشکل ہے، گھر پہنچ کر نواز دیکھتا ہے کہ ابا اور اماں سو گئے ہیں، چنانچہ وہ اپنی بیوی سے انھیں نہیں جگانے کی بات کہتا ہے اور دونوں سو جاتے ہیں ذیل میں یہ منظر ملاحظہ کریں:

اتناکہہ کر وہ آنگن میں مڑا اور ایک کونے سے کمائی ہوئی کھال کا بڑا سا ٹکڑا اٹھا لایا، اس ٹکڑے کو اس نے وہاں بچھا دیا جہاں ایک طرف جوتے بنانے کے اوزار پڑے تھے اور دوسری طرف ایک بھیڑ اپنے بچے کو آغوش میں لئے ہوئے سو رہی تھی۔ کھال پر ایک پرانا اونی کمبل ڈال کے اس نے اپنے جوتے کھول کے الگ رکھ دیئے اور پھر چھوری کو آواز دی ، آہستہ سے ’چھوری‘ کئی لمحے گذرگئے چھوری چھپ چاپ تھم سے لگی کھڑی رہی پھر وہ آہستہ سے مڑی، اس نے اپنے جوتے اتارے، اپنے پاؤں پونچھے، اور کھال پر آکے لیٹ گئی۔ اس کا ہاتھ بھیڑ کے بچے کی نرم نرم اون سے کھیلتا رہا، پھر جیسے اندر ہی اندر اس کے دل کی برف پگھل گئی، ہر کسان کا گھر ایسا ہی ہوتا ہے، اسی میںاس کے بال بچے رہتے تھے، اسی میں وہ رہتا تھا، اسی میں اس کے بیل رہتے تھے، بھیڑ بکریاں۔ ہزاروں سالوں سے وہ اسی طرح رہتا چلا آرہا تھا۔‘   ۸؎

 آج بھی ہندوستانی دیہی عوام کی زندگی کی صورت حال جوں کی توں ہے ،کرشن چندر نے اپنے افسانے ’ماہر فن‘  میں ہندوستان کی دیہی زندگی کی ایک سو پچاس سالہ تاریخ کو پیش کرنے کی نہایت کامیاب کوشش کی ہے، ساتھ ہی دیہات کے مختلف قدیم رسوم و رواج اور فرسودہ روایات کو بھی موضوع بنایا ہے، ملاحظہ کریں:

’ہر گاؤں میں اپنی پنچایت تھی، اور حکومت اور انصاف کا کہیں مرکز نہ تھا، پنچایتوں میں من مانی کاروائیاں ہوتی تھیں اور انصاف کے پردے میں ظلم رواں رکھا جاتا تھا۔‘   ۹؎

’ان داتا‘ کرشن چندر کا مشہور افسانہ ہے، جو قحط بنگال کے موضوع پر لکھا گیا ہے کرشن چندر نے اسے تین حصوں منقسم کیا ہے

   ۰  وہ آدمی جس کے ضمیر میں کانٹا ہے!

   ۰  وہ آدمی جو مر چکا ہے !

   ۰  وہ آدمی جو ابھی زندہ ہے!    ۱۰؎

افسانے کے پہلے حصے میں ایک غیر ملکی قونصل کے مکتوبات شامل ہیں جو اس نے اپنے افسراعلیٰ کو کلکتہ سے ارسال کیے ہیں، ان خطوط میں کلکتہ شہر کی منظر کشی کے علاوہ قحط بنگال اور سوکھیا کی بیماری پر گفتگو کی گئی ہے۔ دوسرے حصے میں بھی قحط بنگال کی تصویر کشی کی گئی ہے ذیل میںملاحظہ کریں:

’صبح ناشتے پر جب اس نے اخبار کھولا تو بنگال کے فاقہ کشوں کی تصاویر دیکھیں، جو سڑکوں پر، درختوں کے نیچے، گلیوں میں، کھیتوں میں، بازاروں میں، گھروں میںہزاروں کی تعداد میں مر رہے تھے۔‘  ۱۱؎

تیسرے حصے میں دیہات پر قحط کے اثرات اور اس سے پیدا ہونے والی دشواریوں اور مسائل کو پیش کیا گیا ہے، اس تعلق سے کرشن چندر کی منظر کشی ملاحظہ کریں:

’درختوں پر سے آم ، جامن، کٹیل، شریفے،کیلے ختم ہو گئے، تاڑی ختم، ساگ سبزی ختم، مچھلی ختم،ناریل ختم،کہتے ہیں زمیندار کے پاس منوں اناج تھا، اناج حاصل کرنے کی سب تدبیریں رائیگاں گئیں،گڑ گڑانا، منتیں کرنا، خداسے دعا مانگنا، خدا کو دھمکی دینا، سب کچھ ختم ہو گیا، صرف اللہ کا نام باقی تھا یا زمیندار اور بنئے کا گھر۔ چلو کلکتے چلو! جیسے یہ صدا سارے گاؤں والوں نے سن لی، گاؤں کی سماجی زندگی ایک بند کی طرح مضبوط ہوتی ہے، یکایک چلو کلکتے چلو کی صدا نے اس بند کا ایک کنارہ توڑ دیا اور سارا گاؤں اس سوراخ کے راستے بہہ نکلا ،چلو کلکتے چلو ہر لب پر یہی صدا تھی، چلو کلکتے چلو!‘   ۱۲؎

اس عہد میں بنگال کی دیہی زندگی بڑی الم ناک تھی، اناج کے چند دانوں کے لیے انسان، انسان کو بیچنے پر مجبور ہو گیا تھا۔ اس تناظر میں افسانے کا یہ اقتباس ملاحظہ کریں:

   ’خاوند بیویوں کو، مائیں لڑکیوں کو، بھائی بہنوں کو فروخت کر رہے تھے، یہ وہ لوگ تھے جو اگر کھاتے پیتے ہوتے تو ان تاجروں کو جان سے مار دینے پر تیار ہو جاتے، لیکن اب یہی لوگ نہ صرف انھیں بیچ رہے تھے بلکہ بیچتے وقت خوشامد بھی کرتے تھے۔ دوکاندار کی طرح اپنے مال کی تعریف کرتے، گڑگڑاتے، جھگڑا کرتے، ایک ایک پیسے کے لیے مر رہے تھے ۔ مذہب، اخلاقیات، روحانیت، مامتا، زندگی کے قومی سے قو می ترین جذبوں کے چھلکے اتر گئے تھے اور ننگی بھوکی پیاسی خونخوار زندگی منہ پھا ڑے سامنے کھڑی تھی۔‘  ۱۳؎

ان کسمپرسی کے حالات میں ایک شخص قحط سے بچنے کے لیے شہر جاتا ہے، لیکن وہاں بھی اسے کوئی سہارا نہیں ملتا،بالآ خر وہ بھوک کی وجہ سے اپنی جان تک نہیں بچاپاتا، مرتے مرتے وہ ان سیاستدانوں سے جو نئی دنیا کی تعمیر کا خواب دکھاتے ہیں یہ سوال پوچھتا ہے:

’اس نئی دنیا کی تعمیر میں کیا ان کروڑوں بھوکے ننگے آدمیوں کا بھی ہاتھ ہو گا، جو اس دنیا میں بستے ہیں؟‘  ۱۴؎

کرشن چندر نے اپنے افسانے ’بھگت رام‘ میں دیہات کے ایک فرد بھگت رام کی زندگی کو پیش نظر رکھا ہے، بھگت رام افسانے کا ایک مرکزی کردار ہے جسے دیہات کے جملہ افراد لفنگا، بدمعاش اور غنڈا تصور کرتے ہیںجبکہ بھگت رام ایک نیک انسان تھا اور اس کا دل انسانیت سے معمور تھا، دوسروں کی مشکلات دیکھ کر تڑپ اٹھتا تھا، وہ ذات پات میں فرق نہیں کرتا خود ہندو ہو تے ہوئے بھی مسلمان لڑکی سے نکاح کرتا ہے نیز ایک بیوہ کو سہارا دیتا ہے مختصراً یہ کہ کرشن چندر نے افسانہ بھگت رام کے توسط سے قومی یکجہتی کی بھی ایک بہترین مثال پیش کی ہے۔

ہندوستان میں مختلف تبدیلیاں ہونے کے باوجود بعض قبائلی علاقے اب بھی ایسے ہیں جہاں ڈاکوؤں نے بڑی وحشت پھیلا رکھی ہے، نکسلی علاقے اس تناظر میں بطور مثال پیش کیے جا سکتے ہیں،افسانہ’ شمع ‘ کے سامنے کا مرکزی کردار شاہ زماں خود اپنے ماموں اللہ داد خاں سے خوف زدہ ہے، چونکہ اللہ داد خاں ایک ڈاکو ہے قبائلی علاقے کا ایک منظر ملاحظہ کریں:

’چمن کوٹ کے گاؤں میں میرا ماموں اللہ داد خاں رہتا تھا اور سارے علاقے میں اپنی ڈکیتی کے لئے بہت مشہور تھا، بخلاف اس کے میرا باپ سرکاری ملازم تھا اور یوں بھی ہمارے رنگپور کے گاؤں والے بہت ہی امن پسند واقع ہوئے ہیں، اس لئے اپنی قرابت داری کے باوجود میں نے کبھی چمن کوٹ میں اپنے ماموں کے ہاں ٹھہرنا مناسب نہیں سمجھا، اس وقت بھی جبکہ دن تیزی سے ڈھل رہا تھا۔‘  ۱۵؎

افسانہ ’زندگی کے موڑ پر‘ کرشن چندر کا ایک طویل افسانہ ہے، جس میں انھوںنے ہندوستانی عناصر اور دیہی سماج کی فرسودہ روایات اور دیہی زندگی کے مسائل کی بھر پور عکاسی کی ہے۔ افسانہ  ’زندگی کے موڑ پر‘ کے ذیل میںخود کرشن چندر یوں رقم طراز ہیں:

’ ’زندگی کے موڑ پر ‘ میرا پہلا طویل مختصر افسانہ ہے اور شاید اب بھی مجھے یہ اپنے تمام افسانوں میں سب سے زیادہ پسند ہے، اس میں وسطی پنجاب کے ایک قصبے کا مرقع پیش کیا گیا ہے ا ور اس قصبائی پس منظر کو لے کر شادی، براہمنی نظام زندگی، عشق کی خودکشی اور ان سے متعلق مسائل سے پیدا ہونے والے فکری اور جذباتی ماحول کی آئینہ داری کی گئی ہے، جہاں تک ان مسائل سے پیدا ہونے والی فکری اور ذہنی الجھنوں کا تعلق ہے آپ ان کی نفسیاتی تشریح کی ایک واضح صورت اس کہانی میں دیکھیں گے، لیکن راہ نجات ابھی بہت دور ہے۔‘  ۱۶؎

 افسانے کے پلاٹ کے مطابق گیارہویں جماعت تک پڑھی ہوئی لڑکی کی شادی ایک امیر ہلدی بیچنے والے مہا جن کے لڑکے سے کروا کر کرشن چندر نے نہ صرف قصبے میں موجود رسوم و رواج کی پابندی کے مسلئے کو اجاگر کیا ہے بلکہ اس کے خلاف آواز بھی بلند کی ہے ساتھ ہی عورتوں پر ہونے والے ظلم و جبر کی جانب بھی واضح اشارات کیے ہیں۔

 بہ اعتبار مجموعی یہ کہاجا سکتا ہے کہ ترقی پسند افسانہ نگاروں میں کرشن چندر نے نہ صرف پریم چند کی روایت کو ہی فروغ بخشا بلکہ اسے نئی سمت ورفتار بھی عطا کی، بلا شبہ کرشن چندر نے انسانی زندگی کے تلخ حقائق اور ہندوستانی طرز معاشرت کے ساتھ ساتھ شہری اور دیہی و قصباتی عوام کی زندگی کے مراحل و مسائل کو بطور خاص اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے جہاں طبقاتی کشمکش اور جاگیردارانہ نظام کی جبریت کے علاوہ روزمرہ کی زندگی کے ساتھ ساتھ رومانوی طرز زندگی کا روزنامچہ بھی پڑھنے اور محسوس کرنے کو ملتا  ہے۔

 حواشی

  ۱۔تاریخ ادب اردو ‘، پروفیسر سید اعجاز حسین ،ص-۳۵۵

۲۔’ادب کے سرو کار ‘، پروفیسرصادق ،ص-۸۱

۳۔طلسم خیال‘(مجموعہ) ،افسانہ -’اندھا چھتر پتی ‘ ،ص -۲۶

۴۔ایضاً ،ص-۳۰

۵۔’طلسم خیال‘(مجموعہ) ،افسانہ -’آنگی‘، ص -۵۸

۶۔ایضاً ،ص-۶۵

۷۔’ایک گرجا  ایک خندق ‘(مجموعہ )، افسانہ’شہتوت کا درخت ‘ ،ص -۱۵۲-۱۶۰

۸۔یضاً ،ص-۱۶۲

۹۔ایضاً،ص -۱۶۵

۱۰۔’ان داتا‘(مجموعہ )، افسانہ،’ان داتا ‘ ، ص -۹

۱۱۔ایضاً ،ص-۳۰

۱۲۔ایضاً،ص-۴۹

۱۳۔ایضاً ،ص-۵۲-۵۳

۱۴۔ایضاً ،ص-۶۰

۱۳۔ایضاً،ص -۱۲۹

۱۴۔زندگی کے موڑ پر‘، کرشن چندر،ص-۵

٭٭٭٭٭٭٭٭

 

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.