چراغ حسن حسرتؔ کی نثر نگاری

غلام مصطفیٰ اشرفی

ریسرچ اسکالر  شعبہ اردو  جامعہ ملیہ اسلامیہ جامعہ نگر نئی دہلی

ghulammustfa3805@gmail.com

9149977425

    چراغ حسن حسرتؔ کا شمار بیسویں صدی کے ان جید ادیبوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی علمی و ادبی شخصیت سے اپنے دور کے ادب اور صحافت پر دیر پا نقوش مرتب کیے۔جہاں ان کی شاعری بڑی اہمیت کی حامل ہے وہیں انہوں نے اردونثر میں ایسے اسلوب کو متعارف کرایاجس کے اثرات آج بھی نمایاں اور اچھوتے دکھائی دیتے ہیں۔حسرتؔ کی نثرکے کئی پیلو ہیں ،ان کی مزاحیہ تحریروں کا ایک الگ میدان نظر آتا ہے، ساتھ ہی ان کے قلم سے سنجیدہ تحریروں کا بھی ایک قابل قدر ذخیرہ نکلتا ہے۔حسرت کے دور کے کئی نوجوان ادیب ان کی صحبت میں رہ کر اپنی  ادبی منزل کا تعین کرتے تھے۔موصوف کا اپنا شعری سرمایہ زیادہ نہیں ہے پھر بھی جو کچھ حاصل ہوا کمیت میں نہ سہی مگر کیفیت میں بڑا جاندار ہے۔آپ کی پیدائش موضع ’’بمیار‘‘ (جو کہ جموں و کشمیر میں  بارہمولہ اور پونچھ کے  درمیان واقع ہے )میں 1904 عیسوی میں ہوئی۔آپ کا بچپن پونچھ میں گزرا  اور  جوانی بر صغیر ہند کے مختلف شہروں۔کلکتہ اور لاہور میں رہ کر آُ نے مختلف رسائل و اخبارات کی ادارت کے فرائض انجام دیے اور  ادبی سطح پر مختلف کتابیں بھی تحریر کیں۔آپ کی وفات ۲۶ جون 1955 کو لاہور میں ہوئی۔

   چراغ حسن حسرتؔکے بارے میں بلا خوف وتردید یہ کہا جا سکتا ہے کہ اردو ادب میں ان سے بڑامزاحیہ کالم نویس اور طنز نگار آج تک پیدا نہیں ہوا ،جہاں تک حسرتؔ کے نثری سرمائے کی بات ہے تو وہ شعری سرمائے سے کہیں زیادہ ہے۔ ان کا بہت سارا نثری سرمایہ ظائع ہو گیا۔ان کی وہ تحریریں جو کہ رازانہ کے اخبارات میں لکھیں وہ زمانہ کی دست برد نذر ہو گئیں۔چراغ حسن حسرتؔ کی مطبوعہ نثری تخلیقات کی تعداد بیس ہے۔ اس کے علاوہ ان کے اخباری کالموں کے دو مجموعے ’’مطائبات‘‘ اور’’ حرف و حکا یت‘‘ بھی ہیں ،جن میں سوانح ،تاریخ، افسانہ،کہانی،مظامین اور مطائبات جیسے موضوعات پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔ حسرت ؔ کی نثری تخلیقات میں آدھے سے زیادہ حصہ ان کی صحافت کی دین ہے ،اس حوالے سے سید ضمیر جعفری نے لکھتے ہیں:

’’ادب کو ان سے جو کچھ مل سکا اس کا بہت بڑا حصہ صحافت کے واسطے سے ملاہے۔مگر چونکہ وہ صحافت بھی ادب کی سطح پر کرتے تھے  اس لیے یہ ذخیرہ بھی اتنا  کافی رنگا رنگ اور قابل قدر ہے کہ ہمارے تہذیبی و لسانی ورثے کی عزیز ترین متاع سمجھا جائے گا۔‘‘ ۱؎

   چراغ حسن حسرت ؔ نے صحافت کو ادب کے پیرائے میں کس طرح بیان کیا اس کے لیے ادب اور صحافت کے مابین رشتے کی وضاحت ضروری ہے۔عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ ادب کو صحافت میں جگہ نہیں دی جاتی۔ اس سلسلے میں یہ جملہ بہت دہرایا جاتا ہے کہ ’’ادب کی حیثیت مستقل ہے  اور صحافت کی حیثیت محض عارضی ہوتی ہے۔‘‘  اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو صحافت کی حیثیت بھی اس وقت مستقل ہو جاتی ہے جب کہ اس میں ادبیت کا وجود پایا جائے۔صحافت کے اندر موضوع کے ساتھ ساتھ جب اسلوب پایا جاتا ہے تو اس میں ادبیت آجاتی ہے کیوں کہ اسلوب ہی حقیقت میں کسی خیال یا موضوع کو ادب کے دائرے میں داخل کرتا ہے۔صحافی ہو یا ادیب دونوں اپنا مواد  ارد گرد پھیلی ہوئی زندگی سے لیتے ہیں۔ صحافی اس مضمون کو بغیر رنگ آمیزی کے بیان کر دیتا ہے مگر ادیب چونکہ حسن کار ہوتا ہے ،ساتھ ہی جمالیاتی منطقوں تک اس کی رسائی ممکن ہوتی ہے اس لیے وہ جمالیاتی پہلئوں کو بہترین اسلوب کے ساتھ پیش کرتا ہے،ساتھ ہی تمام فنی ذرائع کا استعمال کرتا ہے۔ادب اور صحافت کے مابین فرق کی و ضاحت کے لیے فیض احمد فیض کی رائے بہت اہم ہے جو کہ ایک بہترین ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ صحافت کی دنیا میں بھی ایک عرصہ تک قلم کی جولانی دکھاتے رہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’شاعری  اور  صحافت  میں  بس اتنا فرق ہے کہ صحافت  میں جمالیاتی پہلو نہیں ہوتا۔جمالیات کو آپ ابلاغ میں شامل کر لیں  تو ادب بن جاتا ہے،اور جمالیات کو خارج کر دیں تو وہ صحافت بن جاتی ہے۔‘‘۲؎

   چراغ حسن حسرتؔ  ایک صاحب اسلوب نثر نگار تھے۔نثر میں اسلوب چونکہ ادائے خیالات ہوتا ہے،جس سے مراد  مصنف کے ذہنی تجربات کا قاری کے ذہن میں منتقل  ہوجانا ہوتا ہے۔حسرتؔ کی نثری تحریروں میں ان کی شخصیت اور ان کے بہترین اسلوب کی چھاپ لگی ہوئی ہے۔اخباری کالموں، سوانحی مضامین ہوں ،تاریخ نگاری ہو ،خاکہ نویسی ہو  یا مطائبات و فکاہات (جو کہ حسرت ؔ کا طرہ امتیاز ہیں ) ان سب میں ان کا اسلوب پکار کر بتاتا ہے کہ وہ کس شخصیت کی تخلیق ہیں۔ چراغ حسن حسرتؔ نے زندگی کا بیشتر حصہ صحافت نگاری میں گزارا اور یہ بات بھی سب کے علم میں ہے کہ انہوں نے صحافت بھی ادب کی سطح پر کی ہے۔ہر کسی نے انہیں ادیب پہلے اور صحافی بعد میں لکھا ہے۔ساتھ ہی یہ بات بھی ذہن نشیں ہونی چاہیے کہ وہ صرف طنز و مزاح نگار ہی نہیں تھے  بلکہ سنجیدہ نگاری میں بھی ان کا ایک اہم مقام اور مرتبہ ہے ،جس کی دلیل یہ ہے کہ حسرت ؔ دور سر سید کے اصلاحی ادیبوں کی سنجیدہ نگاری سے بھی متاثر تھے اور خصوصاََ مولانا محمد حسین آزاد کی انشا پردازی ،تذکرہ نویسی،زبان دانی اور ان کے دل آویز اسلوب سے حد درجہ متاثر تھے۔

    چراغ حسن حسرتؔ کی نثر کے بارے میں شورش کاشمیری لکھتے ہیں:

’’وہ نثر کی ہر صنف پر قادر تھے ،سیرت بھی لکھی،افسانے بھی تحریر کیے،تاریخ پر بھی قلم اٹھایا۔بچوں کا نصاب بھی لکھا۔‘‘

   چراغ حسن حسرتؔ کی نثر مختلف النوع موضوعات پر مشتمل ہے۔وہ متین و سنجیدہ،خالص ادبی و رومانی اور مزاحیہ الغرض ہر قسم کی نثر لکھتے تھے۔چونکہ ان کی عملی زندگی کا آغاز صحافت کی دنیا سے ہوا تھا اس لیے کالم نگاری ان کی نثری تحریروں کا اہم حصہ شمار ہوتا ہے۔اس کے علاوہ فکاہی مضامین ،خاکہ نویسی ،تراجم دیباچے ،تنقیدات ،تبصرے اور تحقیقی مضامین وغیرہ ان کی نثری تحریروں کی مختلف صورتیں ہیں۔حسرت کی نثری تحریروں میں سب سے نمایاں تحریریں ان کے کالم ہیں۔ان کی ظرافت آمیزکالم نگاری کا آغاز کلکتہ سے ہوا۔لاہور آکر اس میں کافی نکھا ر آیا۔حسرت ؔ جب کلکتہ گئے تو آپ کی تحریروں پر فارسیت کا بھی کافی غلبہ تھا ،پھر ان کی تحریروں پر مولانا ابولکلام کا اثر واضح ہوتا گیا۔اس حوالے سے حسرتؔ خود لکھتے ہیں :

’’نثر نگاروں میں ابولکلام کے سوا کسی کا انداز جچتا نہیں تھا ‘‘

    حسرت ؔ کا مولانا ابولکلام کے حوالے سے یہ شعر بھی ملاحضہ ہو کہ :

جب سے دیکھی  ابولکلام کی نثر

نظم حسرتؔ میں بھی مزا نہیں رہا

   چراغ حسن حسرتؔ کی نثر نگاری کا دوسرا دور لاہور میں مزاحیہ کالم کا وہ دور ہے جو کئی روزناموں میں کم و بیش چودہ پندرہ سال تک جاری رہا جس میں ’’زمیندار‘‘ کے علاوہ ’’احسان ‘‘ کے صفحات ایک زمانے تک گل و گلزار بنے رہے۔ حسرتؔ کی نثر نگاری کا تیسرا دور تقریباََ پانچ سالوں کی مدت پر محیط ہے۔اس دور میں ان کا مشہور ہفت روزہ ’’شیرازہ‘‘ منظر عام پر  آیا۔شیرازہ نے بہت قلم کاروں کو لکھنا سکھایا اور بہت سوں پر اپنے بیش بہا اثرات مرتب کیے۔’’شیرازہ‘‘ کی اشاعت کو مولانا صلاح الدین احمد نے ایک تحریک کا آغاز قرار دیتے ہوئے لکھا ہے:

’’یہ تحریک جسے میں کسی بہتر لفظ کی عدم موجودگی میں لطافت نگاری کی  تحریک کہتا ہوں۔پنجاب کی خدمت زبان و ادب میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہے اور خدا کا شکر ہے وہ کسی نہ کسی صورت میں آج بھی  زندہ ہے۔اور اس میں کسے کلام ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی آفرینش ،اپنے وجود ،اپنے فروغ ،اپنے نتائج،غرض کہ اپنے آغاز سے لے کر اپنی موجودہ کیفیت تک حسرتؔ اور اس کے کارنامہ لطیف و  جمیل یعنی ’’شیرازہ‘‘ کی مرہون منت ہے  اور اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ حسرتؔ اگر اپنی زندگی میں شیرازہ کی ادارت کے سوا  اور کچھ نہ  کرتے تو ان کا یہی ایک کارنامہ انہیں ہمارے ادب  او ر  ہماری  صحافت دونوں میں ایک مقام لازوال دلانے میں کافی تھا۔‘‘ ۴؎

    حسرتؔ کی نثر نگاری کے تیسرے دور کے ساتھ ہی عسکری زندگی کا وہ چوتھا دور شروع ہوتا ہے جس میں انہوں نے انگریزی اخبار نویسی کے رخ و رنگ دیکھے جن کے تجربات نے اردو صحافت میں روایت سازی کا کام کیا۔حسرتؔ کی کالم نگاری اگر چہ ان کی روزانہ کی صحافت کا حصہ تھی مگر ان کالموں میں ادبی عناصر کی فراوانی نے ان کو ایک مستقل مقام دے دیا ہے۔حسرت ؔ کے کالموں کے بارے میں عام طور پر مزاح کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔میرے خیال میں موصوف کے کالموں میں مزاح اور افادیت کا لفظ مناسب معلوم نہیں ہوتا ہے۔ مزاح ایک عام لفظ ہے ،اس لفظ کی مختلف صورتیں اور نوعیتیں ہیں ،کچھ ان میں فکر و بالیدگی سے عاری ہوتی ہیں اس لیے اگر حسرتؔ کو ظرافت نگار کہا جائے تو زیادہ موذوں  اور مناسب ہے۔ظرافت کی تعریف کرتے ہوئے پروفیسر سید محمد حسنین نے لکھا ہے :

’’ ظرافت میں بالغ نظری کے ساتھ شعور خوب و زشت شرط ہے۔یہ مزاح سے زیادہ بالیدہ ،شائستہ اور زیادی شگفتہ ہوتی ہے۔میعاری ظرافت  ہمیں ہنسنے کا سلیقہ اور فکر کی توفیق عطا کرتی ہے۔اس  سے  ذہن میں

تازگی آتی ہے اور بیداری بھی۔‘‘۵؎

    چراغ حسن حسرتؔ کے کالم صرف شعور خوب و زشت ہی نہیں دیتے بلکہ فکر کی توفیق بھی عطا کرتے ہیں۔ان کے کالم ہوں یا دوسری نثری تحیریریں ان سب میں ظرافت کے ساتھ ساتھ افادیت کے پہلو بھی نمایاں ہیں۔موصوف نے تقریباََ ہر موضوع پر کالم لکھے جو زندگی کی بھر پور عکاسی کرتے ہیں۔ان کے یہ کالم صرف ہنسنے  ہنسانے  یا ذہنی آسودگی کے لیے ہی نہیں ہیں بلکہ یہ اپنے اندر ایک تعمیری قوت بھی رکھتے ہیں ۔حسرتؔ مختلف النوع موضوعات پر مشتمل ہیں  ادب اور سیاست سے لے کر اخلاق اور معیشت تک ہر موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔حکومت کی پالیسیاں ہوں یا معاشرت کی خرابیاں ،فرقہ وارانہ جھگڑے ہوں یا جعلی پیروں کے ہتھکنڈے ،تمام کو ظرافت کے انداز میں آپ نے بے نقاب کیا ہے۔اس حوالے سے عبد المجید سالک لکھتے ہیں:

’’اردو  اخباروں کے پڑھنے والوں پر ا ن  کے کالم سے ایک دہشت سی طاری تھی۔  لیکن یاد رہے  یہ  د ہشت خطرے کی دہشت نہیں تھی  بلکہ اس کو ایک سنسنی کہنا چاہیے،جس کا انتظار ہر پڑھنے والے کو  رہتا ہے۔اور  ان کے کالموں میں جن افراد اور جماعت کے خلاف زور آزمائیاں  کی جاتیں تھیں  و ہ خود بھی اس کے بے کینہ اور مخلصانہ کچوچوں سے لطف ا ٹھا تے  تھے ،کیوں کہ اس کا مقصد توہین نہ تھا بلکہ ہلکی سی تضحیک اور خندہ آوری مقصود تھی۔‘‘  ۶؎

    چراغ حسن حسرت ؔ اپنے ارد گرد اور مقامی موضوعات کو اپنے کالموں میں اچھوتے انداز میں بیان کرتے ہیں۔موصوف اپنی تحریروں میں زور اور اثر پیدا کرنے کے لیے محاورہ،تشبیہ ،استعارہ اور ضرب الامثال کے علاوہ مبالغہ سے بھی کام لیتے ہیں۔چونکہ کالموں میں بھی ان کا مقصد اصلاح ہے اس لیے تنقید کا پہلو بھی نمایاں ہے۔’’مطائبات‘‘ میں  آپ ’’بلد ،بلدیہ۔بلدیات‘‘ کے زیر عنوان لکھتے ہیں :

’’ پنجابی زبان میں بیل کو ’’بلد ‘‘ کہتے ہیں۔اس لیے لوگوں نے جب پہلے پہل لفظ ’’بلدیہ‘‘ سنا تو چونک پڑے۔کسی نے کہا  بلدیہ  پنجرہ پول  کوکہتے ہیں۔جہاں بچہ کشی کے لیے سانڈ پرورش پا  تے ہیں۔ کوئی کہنے لگا ’’بلدیہ ‘‘ چھکڑے کا  نام ہے جسے بیل کھینچتے ہیں۔آخر ایک نکتہ رس بزرگوارنے  انہیں سنجھایا کہ بھئی ’’بلدیہ‘‘ میونسپلٹی کا اخباری نام ہے اور لوگ مطمئن ہو گئے۔اب یہ  جھگڑا  چھڑا  کہ آخر میونسپلٹی کو’’ بلدیہ‘‘ کیوں کہتے ہیں ’’ٹٹویہ ‘‘ کیوں نہیں کہتے۔کیوں کہ میونسپلٹی کو بیلوں اور بیل گاڑیوں  کے  علاوہ گھوڑے ٹٹو اور گھوڑا گاڑی سے گہرا تعلق ہے۔اس جھگڑے کا  فیصلہ یوں ہوا کہ میونسپلٹی کے ممبر خوبو میں گائے بیل سے  بہت ملتے جلتے  ہیںاس لیے اخبار والے ان کو ’’بلد ‘‘ کہتے ہیں اور میونسپلٹی کو ’’بلدیہ‘‘۔  اس پر خوب قہقہے لگے۔لوگوں نے اخبار والوں کی نکتی شناسی داد دی  اور  یہ علمی بحث بخیر و خوبی ختم ہوگئی۔اگر چہ اخبار والوں کے وہم و گمان میں یہ بات  نہ آئی کہ بلدیہ پنجابی زبان کے لفظ ’’بلد‘‘ سے مشتق ہے۔ہم تو’’ بلدیہ ‘‘کو عربی زبان کا لفظ سمجھ کر استعمال کرتے رہے ہیں لیکن سچ پوچھیے تو  یار لوگوں کی اس گھڑھت پر بے اختیار داد  دینے کو جی چاہتا ہے۔  بلدیہ سچ مچ بیلوں کی دنیا کا نام ہے۔اور بلدیہ کے  ارکان نرے’’ بلد‘‘  یعنی بیل۔بیل کو کہیں باندھ دیجیے تھوڑی دیر میں گوبر کا ڈھیر لگ جائے گا  اور مکھیاں بھنبھناناشروع کر دیں گی۔گوبر کی خشبو سے مچھر کھچے چلے آئیں  گے اور بلدیہ والوں کی مہربانی سے بھی لاہور پر ان نعمتوں کا نزول ہو رہا ہے۔‘‘  ۷؎

   مطائبات کے اس کالم میں حسرتؔ ’’بلدیہ‘‘ کے لفظ پر نکتہ طرازی کرتے کرتے اس وقت کی موجودہ سیاست ،تاریخ و لسانیات اور ادب کی وادیوں کی طرف نکل جاتے ہیں۔ان کے کالم کا یہ اقتباس تحریر کے بے ساختہ پن کی بہترین مثال ہے۔چراغ حسن حسرتؔ کی ظرافت نگاری، بلند پایہ اخبار نویسی اور وسیع و عریض معلومات کا اظہار ان کے ہر کالم اور ہر تحریر میں ہوا ہے۔حسرتؔ کے ہم عصر عبد المجید سالک بھی ایک بہترین اخبار نویس اور اعلیٰ پائے کے کالم نگار تھے۔حسرت ؔ اور سالک کی تحریروں میں جو بات مختلف تھی وہ یہ کہ سالک صاحب کی تحریروں میں طنز کا عنصر نمایاں تھا جب کہ حسرت طنزنگار نہ تھے بلکہ ان کی ظرافت میں طنز مل جاتا تھا۔سالک صاحب کے ہاں کبھی کبھی طنز کے نشتر اتنے تیز ہو جاتے ہیںکہ وہ آپے سے باہر ہو کر کچھ کہ جاتے ہیں۔مثلاََ ایک بار ہندو خواتین نے پٹنہ میں ’’اینٹی پردہ کانفرنس‘‘ منعقد کی اور یہ کہا کہ’’ مسلمان عورتوں کے یہاں پردے کی وجہ سے کم زور بچے پیدا ہوتے ہیں  ‘‘ تو سالک صاحب نے ان کے جواب میں اپنے ایک کالم ’’افکار و حوادث ‘‘  میں یہ لکھا کہ:

’’ پنجاب میں ایسے ایسے جوان آباد ہیں کہ جن کی ایک جھلک بھی پٹنہ والیاں دیکھ  پائیں تو عمر بھر آپے میں نہ آئیں ‘‘  ۸؎

    عبد المجید سالک کے بر عکس چراغ حسن حسرتؔ کے ہاں ایک مثال بھی ڈھونڈے سے نہ ملے گی جس میں تعصب  و فرقہ ورایت ہو یا کسی کو مورد طعن گردانا گیا ہو۔ظرافت اور طعن میں یہی حد فاصل ہوتی ہے۔ظرافت نگار اپنے جذبات پر قابو رکھتا ہے جبکہ طنز نگار غصہ کی حالت میں کچھ ایسا بھی لکھ دیتا ہے جو اسے نہیں لکھنا چاہیے تھا۔سعادت حسن منٹو حسرتؔ اور سالک کا موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’ عبد المجید سالک صاحب کو حسرتؔ کے مقابلے میں فکاہی کالموں کے  سلسلے میں پیش کیا جاسکتا ہے۔لیکن ان دونوں میں بہت بڑا تفاوت ہے

سالک ٹھیٹ امریکیوں کی طرح ’’پھکڑ باز ‘‘ ہیں۔حسرتؔ انگریزوں کی  طرح کھل کر ہنسنے ہنسانے والے نہیں۔‘‘  ۹؎

   حسرتؔ نے اپنے کالموں میں ظرافت کے لیے وہی زبان استعمال کی جس میں سادگی اور بے ساختہ پن ہے۔کیوں کہ یہ بات طے ہے کہ مرصع کاریوں اور لفظی صناعیوں میں الجھ کر ظرافت کا رنگ نکھر نہیں سکتا  اور اس میں وہ شوخی جسے  جان ظرافت  کہا جاتا ہے پیدا نہیں ہوسکتی۔

   چراغ حسن حسرتؔ کی تحریروں کا ایک دور ان کی روزانہ کی صحافت کا دور ہے۔روزانہ کے کالموں میں وہ مہینوں تک اپنے کلگ گہربار سے قارئین کی نظروں کو خیر ہ اور  دل و دماغ میں گل و گلزار کھلاتے چلے جاتے تھے۔لیکن جب حسرتؔ کو روزانہ کی صحافت کی رسوم و قیود سے آزادی ملی تو ان کی تخلیق اور ان کی طبیعت دونوں میں کشادگی ،فرخی و فراخی اور اطمنان کے آثار پیدا ہونے لگے یہ آثار ان کے ہفت روزہ ’’شیرازہ ‘‘ پر بآسانی دیکھے جاسکتے ہیں۔وہ ’’شیرازہ ‘‘ میں بڑی آزادی کے ساتھ اپنے من پسند موضوعات پر بہترین اور انوکھے اسلوب میں لکھتے تھے۔ مولانا صلاح الدین احمد نے شیرازہ کے طرز اسلوب پر بات کرتے ہوئے لکھا ہے :

’’یہ  وہ مخصوص کیفییت اور منفرد رنگ ہے جو حسرت ؔ کی  ہفت روزہ صحافت و ظرافت کو  اس کی اولین  اور آخری نگارشات (جو کہ  ر وزانہ صحافت کی پابندیوں اور تقاضوں کے اسیر ہیں ) سے علاحدہ  و ممتاز کرتا ہے۔شیرازہ کے اوراق میں وہ جو چاہتا ہے لکھتا ہے  اور اس رنگ اور اس  اسلوب میں لکھتا ہے  اور اس رنگ اور اس اسلوب میں لکھتا ہے جو  اسے طبعاََ عزیز تر ہے۔پھر اس پر کالم نگاری کی بھی کوئی حدود کی بھی کوئی قید نہیں  ہے۔چنانچہ ان کی بعض معروف ترین تصانیف مثلاََ ’’جغرافیہ پجناب‘‘  اور ’’ دو ڈاکٹر ‘‘ بھی ’’شیرازہ‘‘ ہی کے صفحات بالاقساط تمام ہوئیں  اور  تمام ہونے کے بعد کتابی صورت میں منظر عام پر آئیں۔میرا خیال یہ ہے کہ حسرتؔ اگر ’’شیرازہ ‘‘ جاری نہ کرتے تو شاید یہ کتابیں بھی عدم سے وجود میں نہ آتیں۔‘‘  ۱۰؎

    چراغ حسن حسرتؔ کی ظرافت کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ان کی ظرافت کی بنیاد ،ان کی وسیع معلومات پر ہوتی ہے۔مشرقی علوم کی کوئی شاخ ایسی نہ تھی جس تک انہوں کے رسائی حاصل نہ کی ہو۔وہ جہاں بھی رہے مستقل مطالعہ کرتے رہے  اور ساتھ ہی کچھ وقت میں وہ اپنے مطالعہ کے نتائج کو ذ  ہنی طور پر پرکھتے رہتے تھے۔یہاں یہ سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ علم کا ظرافت کے ساتھ کتنا تعلق ہے۔بظاہر اس کا تعلق نظر نہیں آتا مگر حسرتؔ کا کمال یہ تھا کہ انہوں نے علم کی سنگلاخ چٹانوں سے بھی ظرافت کے چشمے بہائے ہیں اور خصوصاََ اس بات کو بھی ملحوض خاطر رکھتے تھے کہ اس میں طنز کا عنصر زیادہ نہ ہو جائے۔حسرت ؔ  ’’تبسم‘‘ اور’’ قہقہہ ‘‘ کی چاشنی کے درمیان سے ہو کر اپنی ظرافت کا استعمال کرتے تھے۔

   ایک ادیب ، ایک صحافی ، ایک انشا پرداز  اور  ایک تاریخ نگار کی حیثیت سے چراغ حسن حسرتؔ مشہور تھے۔ان تمام اصناف میں ان کی شہرت کی بنیاد ان کا اسلوب نگارش ہے جو کلکتہ کے زمانے کی نگارشات سے لے کر آخری دور کی تحریروں میں ملتا ہے۔ہر ادیب ار انشا پرداز کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ بحث و نظر کے ہر زاویے میں طرز نگارش اور اسلوب تحریر کو برقرار  رکھے۔موصوف کے یہاں مختلف مضامین میں الگ الگ اسالیب اپنی رعنائی اور پوری توانائی کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔حسرتؔ کی معروف کتابیں،  جدید جغرافیہ پنجاب،مردم دیدہ، دو  ڈاکٹر ، زرنیخ کے خطوط  اور پربت کی بیٹی خاص ظور پر قابل ذکر ہیں  جو کہ اپنے اچھوتے اسلوب کی وجہ سے اردو زبان میں اپنی نظیر نہیں رکھتیں ہیں۔’’جدید جغرافیہ پنجاب ‘‘ کے حوالے سے ڈاکٹر تاثیر نے کتاب کے مقدمے میں لکھا ہے:

’’مجازات کے استعمال سے پردے پردے میں حقیقت حال کے اظہار سے بیان میں ایک نئی طرح کی تازگی آجاتی ہے جیسے چاند بادلوں میں  چھپ جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پنجاب کا جغرافیہ مجازات کے ان تمام محرکات کا نتیجہ ہے،سیاسی جبر سے بچاو،معاشی بندشوں سے پناہ،سماجی رکھ رکھاو کا لحاظ اور بیان کے بانکپن کا اقتضا۔۔۔۔۔۔۔اس تصنیف میں ان سب کا اظہار موجود ہے۔‘‘  ۱۱؎

    چراغ حسن حسرت کی خاکہ نگاری کی اگر بات کی جائے توان کے خاکوں میں قریب کا مشاہدہ ملتاہے۔انہوں نے ان لوگوں کے بارے میں لکھا ہے جن سے ان کی ملاقات رہی۔محفلوں یا مجلسوں میں ملتے رہے ہوں یا پھر جن کے ساتھ مل کر کام کیا تھا خاکوں کے حوالے سے ان کی مشہور کتا ب’’ مردم دیدہ ‘‘ سامنے آجاتی ہے۔در اصل یہ خاکے پہلے ’’شیرازہ ‘‘ میں شائع ہوئے پھر کتابی صورت میں ’’مردم دیدہ ‘‘ کے نام سے ۱۹۳۹ ء  میں شائع کیا گیا۔خاکوں کے حوالے سے یہ کتاب حسرتؔ کی انوکھی پہچان ہے جس کی کئی ادیبوں نے تائید بھی کی ہے۔کتاب مذکورہ کے دیباچہ نگار سید امتیاز علی تاج نے سوانح نگاری کا جدید طرز کہتے ہوئے لکھا ہے:

’’مردم دیدہ  میں چند ایسے مشاہیر کی زندگی کے متعلق مضامین ہیں جن  سے مصنف کے ذاتی طور پر عرصہ تک مراسم رہے۔چنانچہ تعلقات اور  واقفیت کی بنا پر  ان کی شخصیت نے جو تاثر مصنف کے  دل پر پیدا کیا  ہے اسے مصنف نے ان مضامین میں منتخب واقعات کے ذریعے پیش  کیا ہے۔اور  ا ن  و اقعات کو ایسی ترتیب سے اور ایسے انداز میں لکھا ہے کہ ان مشاہیر کی جیتی جاگتی تصویر آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے۔‘‘

۱۲؎

   خاکے کا مقصد یہ ہے کہ جو شخص جیسا بھی ہے ویسا کچھ قاری کے سامنے آجائے۔یہ خصوصیت حسرت ؔ کے خاکوں میں بدرجہ اتم موجود تھی۔موصوف کے لکھے ہوئے خاکوں میں مزاج ،وقت اور میلان زمانہ کے ذکر کے ساتھ ساتھ اس شخصیت کی نفسیاتی کیفیت کا احوال بھی ملتا ہے۔خیال عظیم آبادی کے خاکے میں ایک جگہ لکھتے ہیں:

’’وہ ہمیشہ شعر شاعری کی مذمت کرتے اور جہاں تک ہو سکتا نوجوانوں کو شعر کہنے سے روکتے رہتے تھے۔ مشا عروں سے تو انہیں چڑ سی تھی۔ کہتے تھے  مشاعروں  نے  شاعری کی اہمیت کو کھو دیا ہے۔‘‘ ۱۳؎

   چراغ حسن حسرتؔ کی نثر کی بات کرتے ہوئے ان کے مضامین کو بھلایا نہیں جا سکتا۔حسرت ؔ کے مضامین کا مجموعہ ’’کیلے کا چھلکا ‘‘ جس کو آپ نے خود مرتب کیا ’’مضامین حسرت ‘‘ جس کو آپ کے بیٹے ظہیر الحسن جاوید نے مرتب کر کے شائع کیا۔’’کیلے کا چھلکا‘‘ میں کل اٹھارہ (۱۸) مضامین ہیں جن میں کچھ کہانیاں اور انگریزی زبان کے افسانوں کے تراجم بھی شامل ہیں۔حسرتؔ کے مضامین کا یہ مجموعہ اپنے بہترین اسلوب اور ہلکے پھلکے مزاح کی وجہ سے عرصے تک اسکولوں کے نصاب میں بھی شامل رہا۔اس مجموعے میں ،ایک عورت،شاہ جہاں کی تصویر،لکڑی کی ٹانگ،نئی اصطلاحات،بھینس،سراغ رسانی،الیکشن،وغیرہ بہترین مضامین ہیں جس کا سب سے نمایاں پہلو اسلوب ہے۔’’مضامین حسرت‘‘ میں کل سولہ مضامین ہیں۔’’دھوپ چھاوں ‘‘ ان کا ایک بہترین مضمون ہے۔الغرض حسرت  اپنے تمام مضامین میں اسلوب ،طرز نگارش  اور  ظرافت کی وجہ سے امتیازی حیثیت رکھتے ہیں۔سنجیدہ نگاری میں بھی حسرت کا قلم کسی رکاوٹ کا شکار نہیں ہوتا۔حسرتؔ کو منظر نگاری کا بھی خاص ملکہ حاصل ہے۔مذکورہ مضامین کے علاوہ حسرت ؔ کے بے شمار غیر مدون مضامین بھی موجود ہیں۔اس کے علاوہ حسرت نے مختلف کتابوں کے مقدمے بھی تحریر کیے اور ساتھ ہی ان پر تبصرے بھی کیے۔کچھ مطبوعہ و غیر مطبوعہ خطوط بھی ان کی یادگار ہیں۔

مرگ حسرت ؔ ہے مرگ روایات فن

تیرے سوتے ہی صدیوں کا فن سو گیا

٭٭٭

Chiragh hasan hasrat ki nasar nigari by Hulam Mustafa Ashrafi

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.