تصوف، وحدت الوجود اور ابن عربی :ایک مطالعہ

   

                                عالَمِ حادثات و ممکنات میں انسان ہمیشہ سے اپنے وجود اور اس کے بنانے والے یعنی خالق حقیقی پر غور وخوض کر تا رہا ہے جہاں وہ اس کائنات کی موجود اشیاء میںایک ایسی ذات جو بظاہرتو آنکھوں سے اوجھل ہے مگراس کی جلوہ گری ہر چیز کو متاثر کرتی ہے،اس کی کرشمہ سازی کو دیکھ کر متعجب ہوتا رہا وہیں وہ اس بناوٹی مادی کائنات کوہی اپنا سب کچھ سمجھتا رہا یعنی اس کے یہاں خالق کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔عہد قدیم میں یونانی فلسفیوں اور منطقیوں نے بندے اور خدا کے بارے میں جو نظریات وتصورات دیے ان میں خرافات زیادہ اور درستگی کے پہلو کم ہیں۔ جیسے ان کے یہاں عقول عشرہ کا تصور یعنی وہ دس عقلیںجس میں تواتر کے ساتھ پہلے ایک عقل پیدا ہوئی پھراس پہلی عقل نے دوسری عقل کو بنایا علی ھذا القیاسی یہی دس عقول اس کائنات کی پالنہار ہیں باقی خداکی فی ذاتہ کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔یہ فلسفہ صرف عقلیت اور مادیت سے بحث کرتا ہے اور خدا کے وجود کا مطلقا انکاراسی فلسفے کی ایک کڑی ہے یعنی یونانی فلسفی روحانیت (Spirituality)سے کوئی خاص لگاو نہیں رکھتے تھے بلکہ ان کا مطمح نظر صرف انسان اور انسانی معاشرہ تھا۔حسن عسکری یونانی فلاسفر کے نقائص شمار کراتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :

                ’’یونانی فلسفیوں کی توجہ کا مرکز انسانی معاشرہ تھا ،نہ کہ مبدء و معاد۔یعنی دنیاویت ان یونانی فلسفیوںمیںاچھی طرح جڑپکڑچکی تھی۔یونانی ہر مسئلے کو انسانی نقطہ نظرسے دیکھنے کے عادی تھے۔چنانچہ جب پندرہویں اورسولہویں صدی میں یورپ والوں نے یونانی فلسفے پر زور دینا شروع کیاتو اس تحریک کا نام ہی ’’انسانیت پرستی‘‘(Humanism)قرار پایا۔‘‘ ۱ ؎

                                تصوف میں بھی ایسے مسائل پربحث ملتی ہے بلکہ فلسفہ تصوف ایک زمانے میں اپنے عروج پر تھاایسے ہزاروں صوفیا اس وقت موجود تھے جنھوں نے نا صرف اس پر لکھا بلکہ اپنے نظریات کو بھی ثابت کرنے میں پیش پیش رہے تصوف میں بھی حادث و قدیم اور خالق و مخلوق کے مسائل بہت اہمیت رکھتے ہیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ فلسفہ تصوف انھیں یونانی فلاسفہ و مناطقہ سے مستعار ہے بلکہ وہ خرافات جو یونانیوں سے ہوتی ہوئی مسلمانوں میں پروان چڑھنے لگی تھیںتصوف کے ذریعے ان کا ازالہ تھا اور ان کے بہت سے مسائل کا جواب بھی تھا ۔اگر تصوفیت پر غور کیا جائے تو اس کا سرچشمہ حضرت آدم سے پھوٹتا ہے۔کیونکہ عہد قدیم سے ہی اس کے اثرات کو دیکھا اور محسوس کیاجا تا رہاہے۔اس بارے میںڈاکٹر رضا حیدر لکھتے ہیں کہ :

                ’’تصوف کے خیالات کا اظہار ،ہر ملک ،ہر زبان اور ہر مذہب میں ہوا ہے ۔ظاہر سے ہٹ کر باطن کی طرف متوجہ انسانی فطرت کا تقاضہ ہے۔ولبر فورس کلارک اور لوئی میسگنن کا خیال ہے کہ ہر قوم ایک خاص وقت میں تصوف کی طرف راغب ہوتی ہے ۔یہ ضروری نہیں کہ یہ خیالات دوسروں ہی سے اخذ کیے جائیں ۔حالات خود انسانی فطرت کو باطنی اصلاح و تربیت کی راہیں تلاش کرنے پرمجبور کر دیتے ہیں۔‘‘ ۲ ؎

                                تصوف اورفلسفہ تصوف کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے صوفی علماء نے بہت سی کتابیں تصنیف فرمائیںجو کتابیں آج ہمارے لیے امہات الکتب کی حیثیت رکھتی ہیں۔مثلا ’’الطواسین‘‘از منصور حلاج،’’احیاء العلوم‘‘از امام غزالی،’’منازل السائرین‘ ‘از ابو اسماعیل عبد اللہ ،’’کتاب اللمع فی التصوف‘‘از ابو النصر عبد اللہ  ابن علی السراج طوسی،’’کشف المحجوب‘‘ازسید علی بن عثمان ہجویری،’’الرسالۃالقشیریہ‘‘از ابو القاسم القشیری،’’فتوح الغیب‘‘از عبد القادر جیلانی،’’عوارف المعارف‘‘از شہاب الدین سہروردی،’’قوت القلوب فی معاملات المحبوب‘‘از ابو طالب محمد بن علی عطیہ مکی،’’ التعرف علی مذہب اہل التصوف‘‘از ابو بکر محمد بن اسحاق الکلاباذی،’’طبقات الصوفیہ‘‘از عبد الرحمن ابن الحسین ابن موسی نیشاپوری،’’نفحات الانس‘‘از مولانا عبد الرحمن جامی،’’حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء‘‘از حافظ ابو نعیم احمد ابن عبد اللہ الاصفہانی،’’مشکوٰۃ الانوار‘‘از غزالی،’’مدارک السالکین‘‘از ابن قیم ،’’کتاب الصدق‘‘از ابو سعید خرازبغدادی وغیرہ کتابیں علم تصوف کا مستند اور بنیادی ماخذ ہیں۔

                                سب سے پہلے تصوف کے ماخذ،اس کی تعریف اورمادہ اشتقاق کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔کیونکہ تصوف کے ان متعلقات کے بارے میںبہت سی اختلافی آرائیںسامنے آئی ہیں۔ڈاکٹررضاحیدر نے اپنی کتاب ’’اردو شاعری میں تصوف اور روحانی اقدار‘‘ میں خاصا تفصیلی بحث کی ہے۔کتاب کے عنوان ’’تصوف اور روحانیات:معنی و مفہوم‘‘میںتصوف کے ماخذاورنظریات کے بارے میں مختلف آراء کو پیش کیا گیاہے مغربی مستشرقین علماء میں پروفیسر بروان ،ڈاکٹر نکلسن اورر مشرقی علما میں پروفیسر ضیاء احمد بدایونی اور پروفیسر صفی حیدردانش کا ذکر کرکے ان کے نظریات کا جائزہ لیا گیا ہے۔وہ کچھ اس طرح ہیں:

                ’’ ۱۔         تصوف ایک ایسے خود رو پودے کی مانند ہے جو مناسب زمین پر اگتا اور پھلتا پھولتاہے ۔

                ۲۔            تصوف سامی مذہب کے خلاف آریائی دماغ کا ردِعمل ہے۔

                ۳۔            صوفیانہ عقائد مسیحی افکار کے رہینِ منت ہیں۔

                ۴۔            تصوف نو افلاطونیت سے ماخوذ ہے۔

                ۵۔صوفیائے کرام کے نزدیک تصوف عین اسلام ہے اور کتاب و سنت سے ماخوذ ہے۔‘‘ ۳ ؎

ان مختلف نظریات کی مزید تفصیل کتاب میں دیکھی جا سکتی ہے۔لیکن آخر کا نظریہ صوفیا کے یہاں قابل قبول ہے اوریہی قرین قیاس بھی ہے جس کی ابتدا ،اصحاب صفہ سے بتائی جاتی ہے کہ جن کو اہل بیت بلکہ خود اللہ کے رسول بھی بڑی عزت دیاکیا کرتے تھے اور آپ کے بعد بھی صحابہ سے یہ عمل ثابت رہا۔ صوفیاتصوف کو قرآن وحدیث سے اخذ کرتے ہیںاور اس پر قرآن و حدیث سے بہت سے دلائل بھی دیتے ہیں۔خیریہ تو ماخذی بات ہوئی ،اب بات آتی ہے کہ تصوف کی تعریف کیا ہوگی۔؟ اور اس کا مادہ اشتقاق کیا ہے ۔؟

                ۱۔            جنید بغدادی نے تصوف کی یہ تعریف کی ہے۔’’التصوف ھو تصحیح الخیال‘‘(تصوف ،خیال کی درستگی کا نام ہے۔)

                ۲۔            سید علی بن عثمان ہجویری تصوف کی تعریف اس طرح کرتے ہیں کہ ’’اپنے اخلاق اورمعاملات کو صاف رکھنا،ہر حال میں صفتِ صفا کو لازم رکھنا،تصوف ہے،اور صوفی ’قد افلح من تزکیٰ‘کا مظہر ہوتا ہے۔                                تصوف کے مادہ اشتقاق کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ لفظ ’صفا‘سے بنا ہے یالفظ’ صوفی‘ اس کی اصل ہے یا یہ کہ لفظ’ صفوۃ ‘سے ماخوذ ہے قول راجح یہ ہے کہ تصوف لفظ ’صوف‘سے ماخوذ ہے ’کتاب اللمع‘ میں سراج طوسی نے بھی یہی لکھا ہے۔ لیکن ان تمام باتوںسے صرف اور صرف ایک ہی چیز کی طرف اشارہ ہے اور وہ یہ ہے کہ بندہ خدا کا قرب حاصل کرلے اور خود کو خدا کی ذات میں جذب کرکے دنیاوی معاملات ،اخلاقیات ہر اعتبار سے خود کو عمدہ انسان بنائے اور شریعت کی پاسداری کرتے ہوئے طریقت کی اعلی منزلوںتک پہنچ کر سلوک و معرفت کی راہ اختیار کرکے خدا میں مل جائے اور فنا فی اللہ کا لقب حاصل کرلے۔

                                اسلام میں تصوف کی مقصدیت، خدا کا قرب اور دنیاوی غلاظتوں اور آلائشوں سے خود کو پاک کرکے رب العزت کے نور میں ضم ہو جانا ہے۔تصوف اور صوفیت میں قادریہ ،چشتیہ ،نقشبندیہ اور سہروردیہ ،یہ چاربڑے سلسلے ابھر کر سامنے آتے ہیں ۔ان چاروں سلاسل کے بزرگوں کے عقائد و نظریات خدا کے متعلق ایک جیسے ہیں ہاں کچھ لفظی و معنوی اور تعبیری و تشریحی فرق ضرور ہے۔ تصوف اورنظریہ وحدت الوجود میں جزء و کل کا رشتہ ہے۔اس کے برخلاف ایک اور نظریہ سامنے آتا ہے جس کو وحدۃ الشہود کہا جاتا ہے جس کے بانی شیخ سرہندی مجدد الف ثانی ہیں ۔یہاں صرف فلسفہ وحدت الوجود سے بحث طلب ہے۔

                                وحدت الوجود ’’ھو الکل ‘‘ یا’’ ہمہ اوست ‘‘(Pantheism) یہ ایک صوفیانہ نظریہ ہے جس کی رو سے جو کچھ اس دنیا میں نظر آتا ہے وہ خالق ِحقیقی کی ہی مختلف شکلیں ہیں اور اس کے وجود ہی کا ایک حصہ ہیں۔ پہلے لفظ ’وجود‘ کی تعبیر و تشریح ضروری ہے تاکہ مطلب تک رسائی مشکل طلب نہ ہو۔وجود کے معنی ہیں کسی چیز کا ہونا اوریہ ’’ہونا‘‘انسان کے ذہن میں ہوگا یا خارج میں ۔اب یہ وجود ایک حیثیت سے یا تو ’’بدیہی‘‘ ہوگا یعنی خارج سے اس کی ذات پرکوئی دلیل موجود ہوگی یا پھر یہ وجود’’ نظری‘‘ ہوگا یعنی خارج سے اس کی ذات پر کوئی بھی دلیل موجود نہیں ہوگی ۔اب وحدت الوجود کاسیدھا سادہ مطلب یہ ہوگا کہ خدا کائنات ہے اور کائنات ہی خد ہے نا کمیت میں ناہی تکثیریت میں۔اردو کی ایک مشہور لغت میں وحدت الوجود کا یہ مطلب بیان کیا گیا ہے کہ :

                ’’تمام موجودات کو اللہ تعالی کا وجود خیال کرنا اور جو ماسوی کو محض اعتباری سمجھنا جیسے قطرہ ،حباب،موج اور قعر وغیرہ سب کو پانی معلوم کرنا۔ ‘‘ ۴؎

 ’علمی اردو لغت‘کے مصنف وارث سرہندی وحدت الوجود کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:

                ’’صوفیوں کی اصطلاح میں تمام موجودات کو خدا تعالی کا وجود ماننا اور ما سوا کے وجود کو محض اعتباری سمجھنا ۔‘‘ ۵؎

                                علامہ شبلی وحدت الوجود کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:

                ’’علمائے ظاہر کے نزدیک تو توحید کے معنی یہ ہیں کہ ایک خدا کے سوا کوئی اور خدانہیں،نہ خدا کی ذات و صفات میں کوئی اور شریک ہے ،لیکن تصوف کے لغت میں اس لفظ کے معنی بدل جاتے ہیں ۔حضرات صوفیہ کے نزدیک توحید کے یہ معنی ہیں کہ خدا کے سوا اور کوئی چیز عالم میں موجود نہیںہے ،یا یہ کہ جو کچھ موجود ہے ،سب خداہی ہے ،اسی کو ’ہمہ اوست‘ کہتے ہیں ،یہ مسئلہ اگرچہ تصوف کا اصل موضوعہ ہے لیکن اس کی تعبیر اس قدر نازک ہے کہ ذرا بھی انحراف ہو تو یہ مسئلہ بالکل الحاد سے مل جاتا ہے۔‘‘۶؎

                                میکش اکبرآبادی اپنی کتاب ’مسائل تصوف‘ میں لکھتے ہیں کہ :

                ’’اسلامی صوفی خصوصا شیخ اکبر ابن عربی کے مقلدین اور جمہورصوفیہ کا مسلک یہ ہے کہ ظاہر و باطن خدا کے سوا کوئی موجود نہیں ہے ۔یہ دکھائی دینے والا عالم جو خدا کا غیر محسوس ہوتا ہے اور جسے ’ماسوا ‘کہتے ہیں ،ماسوا نہیں ہے ،نہ خدا کا علاوہ اور غیر ہے بلکہ خدا کا مظہر ہے۔خدا اپنی لا انتہا شانوں کے ساتھ اس عالم جلوہ گر ہے،یہ غیریت اور کثرت سے جو محسوس ہوتی ہے ہمارا وہم اور صرف ہماری عقل کا قصور ہے یعنی ہم نے اسے غیر سمجھ لیا ہے۔درحقیقت ایسا نہیں ہے۔حضرت ابن عربی نے کہا ہے کہ ’’الحق محسوس و الخلق معقول ‘‘یعنی جو کچھ محسوس ہوتا ہے اور جس کو ہمارے حواس محسوس کرتے ہیں وہ سب حق ہی ہے البتہ ہم جو کچھ سمجھتے ہیں ،وہ مخلوق ہے یعنی مخلوق ہماری عقل نے فرض کرلی ہے جو در حقیقت نہیں ہے۔‘‘ ۷؎

                                وحدت الوجود اور اس کے خصائص اور اس کی وجدانیاتی کیفیات کے اثرات ہر عہد اور ہر معاشرے میں پائے جاتے رہے ہیں۔یورپ سے لے کر ایشیا تک اس کے اثرات کو واضح انداز میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔بلکہ ایشیا توایسی سرزمین ہے کہ جس میں وحدت الوجود کواگرچہ عقلا تسلیم نہ کیا ہو مگر پھر بھی تمدنی وفکری اور نظری و ثقافتی رو سے اس کے اثرات و ترجیحات دیکھنے میں آتے ہیں۔فلسفہ تصوف کے نظریاتی مسائل ایک دوسرے سے اتنے ملے ہوئے ہیں کہ ان کے درمیان ایک خط امتیاز کھینچنا دشوار طلب کام ہے کیونکہ اس کے کسی ایک نظری پہلومیں کمزوری پورے نظری نظام کو کمزور بنا دیتی ہے، اسی بارے میںعلا مہ عبد السلام دہلوی لکھتے ہیں کہ:

                ’’فلسفے کی طرح،نظری تصوف میں بھی یہ بات طے کرنا دشوار ہے کہ ابتدا کس مسئلے سے کی جائے ۔کیونکہ ہر مسئلہ دوسرے سے اس طرح وابستہ ہے کہ ایک دوسرے کے بغیر بیان کرنا مشکل ہے اسی لیے کسی ایک خیال کی کمزوری پورے نظام کو کمزور کر بنا دیتی ہے۔‘‘ ۸؎  اس لیے فلسفہ تصوف کو سمجھنے کے لیے نظریاتی طور اس کی مکمل آگہی ضروری ہے۔

                                اس فلسفے کے بانی شیخ محی الدین ا بن عربی کوقرار دیا جاتا ہے۔جب کہ اگر نظریہ وحدت الوجود کی تہہ تک پہنچا جائے تو معلوم پڑتا ہے کہ عہد قدیم سے ہی اس پر بحث ہوتی چلی آرہی ہے۔یہ فلسفہ صرف اسلام میں ہی نہیں ہے بلکہ ہندومت یا اپنشدوں میںبھی اس کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔اسی طرح ابن عربی سے پہلے بھی مسلم صوفیا کے یہاں ذات ِخدا یعنی مسئلہ توحید کے متعلق بحث ملتی ہے۔ جنید بغدادی کا اس سلسلے میں ایک اہم نام ہے ان کے شاگرد حسین بن منصور حلاج نے بازاروں میں ’’انا الحق‘‘ کے نعرے لگائے ۔اس لیے اس فلسفے کو صرف ابن عربی سے جوڑنا درست نہیں ہے لیکن ہاں یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ تصوف کے مسائل اور اس کے اسرار و رموز جس طرح ابن عربی نے کھولے ہیں وہ کلا وحاشا کسی کے یہاں ملتے ہیں۔یہ صرف ابن عربی ہی کا حصہ ہے کیونکہ وہ دنیائے اسلام کے ایک عظیم مفکر ،ممتا ز صوفی،عارف باللہ،محقق عدیم المثل اور علوم کا بحر بے کنار ہیں ۔اسلامی تصوف میں آپ کو ’’شیخ اکبر ‘‘کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے،اکثر صوفیا و مشائخ آ پ کے فلسفے کے صرف قائل ہی نہیں ہیں بلکہ آپ کے فلسفے کو تسلیم بھی کرتے ہیں ۔ان کی کتابیں وقعت و جامعیت کی حامل ہیں خاص کر ’’فصوص الحکم‘‘ اور ’’فتوحات مکیہ ‘‘ کوبہت ہی ارفعیت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جو ابن عربی کی پختہ عمری اور بالغ نظری میں تصنیف شدہ ہیں’فصوص الحکم ‘کے مقدمے میںشیخ خوداس کتاب کے لکھنے کی وجہ تسمیہ بتاتے ہیںکہ:

                ’’مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں زیارت کرائی گئی اور حضور کے ہاتھ میںایک کتاب تھی ،بولے یہ کتاب ’فصوص الحکم‘ ہے اس کو لو اوراس کو لوگوں تک پہنچاو تاکہ لوگ اس سے نفع اٹھائیں۔‘‘۹؎

                                ابن عربی کے خیالات ان کی کتابوں اوررسالوں میں بکھرے ہوئے ہیں اس مطلب یہ ہے کہ ابن عربی کے مابعد الطبعیات افکار وخیالات میں ایک فنی ترتیب موجود نہیں ہے ۔اسی لیے شیخ اکبر کا فلسفہ اتنا دشوار کن نظر آتا ہے کہ ان کے تمام نظریات کو بنا دقت نظری کے سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔پھر ان کے کچھ نظریات درمیانی عمر کے ہیں کچھ پختہ عمری کے اور کچھ آخیر عمر کے ،پھر ان میں بھی فرقِ زمانی ہونا بھی ایک مشکل مسئلہ ہے۔مگر’فصوص الحکم‘ اور ’فتوحات مکیہ‘ میں یہ ترتیب پائی جاتی ہے اور فتوحات مکیہ میںکچھ مسائل سے رجوع بھی کیا گیا ہے۔جیسے انھوں نے فصوص الحکم میںدلیلیں دے کر یہ ثابت کیا ہے کہ فرعون کا خاتمہ ایمان پر ہوا ہے لیکن اس کی تردید انھوں نے اپنی آخری عمر میں لکھی ہوئی کتاب ’’فتوحات مکیۃ‘‘میں کی ہے کہ فرعون دعوی الوہیت کرکے کفر پرمرا، اس کا سیدھامطلب ہے کہ شیخ نے بذاتِ خوداپنے بہت سے نظریات سے رجوع کیاہے۔یہ ایک کشف کی حالت ہوتی ہے جہاں وقت کے ساتھ معاملات کی گرہیں کھلتی جاتی ہیں اور یہ معاملہ شیخ کے ساتھ بھی تھا ۔ایران کے ایک محقق سید حسین نصر ابن عربی کی قدر و قیمت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ :

                ’’ابن عربی کے ظہور میں آنے کے ساتھ مابعد الطبعیات و کونیات کے لحاظ سے بھی اور نفسیات و انسانیات کی رو سے بھی تصوف کے بارے میں ہمارا واسطہ اچانک ایک ایسے وسیع الحدود اور کامل نظریے سے پڑتا ہے،جہاں بادی النظر میں تصوف کی روایت ٹوٹتی ہوئی یا خود تصوف کے اندر ہی ایک نیا موڑ اختیار کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔‘‘۱۰ ؎

                                لیکن اس سب کے باوجودابن عربی نے اپنے موقف کو جن دلائل و براہین سے ثابت کیا ہے وہ ابن عربی ہی کا اپنا کمال ہے ،وہ نباض تھے فلسفہ پر ان گہری نظر تھی ،سلوک و معرفت ان کی زندگی تھی۔’’فصوص الحکم‘‘ان کی یہ کتاب متعدد فصوص پر مشتمل ہے جو ساری کی ساری انبیاء و رسول کے نام سے موسوم ہیں مثلا ’فص نوحیہ‘’فص اسماعیلیہ‘’فص ادریسیہ‘’فص صالحیہ‘ وغیرہ لیکن اس کی ترتیب پر اگر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ شیخ نے کس قدر توجہ برتی ہے کہ یہ کتاب’ ’فص آدمیہ ‘ ‘سے شروع ہو کر ’’فص محمدیہ‘ ‘پر ختم ہوتی ہے یعنی آدم کو پہلا نبی تسلیم کرتے ہوئے محمد رسول اللہ کے خاتم النبیین ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ اس کتاب میںوحدت الوجود کے متعلق کچھ جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں ، شیخ لکھتے ہیں کہ :

                ’’وجود ایک حقیقت ہے اس لیے ذاتِ باری تعالی کے سوا کچھ باقی نہ رہا،چنانچہ نہ کوئی ملا ہوا ہے ،نہ کوئی جدا ہے ،یہاں ایک ہی ذات ہے جو عین وجود ہے۔‘‘ ۱۱ ؎ یعنی اصل میںوجود تو ایک ہی ہے اور وہ وجود بذات خود اللہ ہے مگر اس کے علاوہ ہر شیے اس وجود کی مظہریت اور تجلی کا عکس ہیں۔ اللہ اور اس کی صفات ایک دوسرے کے لیے عین ہیںہر گز ہرگزایک دوسرے سے جدا جد ا اور علیحدہ نہیں ہیںکیونکہ ابن عربی کا ماننا ہے کہ تصورِ ذاتِ خدا ،صفات کے بغیر ممکن نہیں ہے اس لیے یہ اشیا خدا کی صفات کا بھی عکس ہونگیں تو اس اعتبار سے عالمِ کل خدا وحدہ کی صفات کی تجلی ہوا۔تو اب عالمِ کل یعنی کائنات اللہ کا عین ہوئی اور اللہ اس کائنات کا عین ہوا اور اب ما سوا اللہ کچھ باقی ہی نہ رہا ۔ایسے ہی آگے لکھتے ہیں کہ:

                ’’اگر چہ مخلوق بظاہر خالق سے الگ ہے لیکن با اعتبار حقیقت خالق ہی مخلوق،اور مخلوق ہی خالق ہے۔یہ سب ایک ہی حقیقت سے ہیں۔نہیں بلکہ وہی حقیقت واحدہ اور وہی ان سب حقائق میں نمایاں ہے۔۱۲؎

پھر یہ بھی لکھتے ہیں کہ :

                ’’کائنات خدا کا تخیل ہے جس نے مظاہر کا لباس پہن لیا ،یا اس کی تجلی ہے جو اس سے جدا نہیں … اس دنیا کے فنا کے بعد ایک نئی دنیا پیدا ہوگی پھر ایک اور،اور،پھر اور،اور اس طرح یہ سلسلہ جاری رہے گا۔۱۳؎

                                ابن عربی نے چونکہ اپنے اعتبار سے اس کائنات کو سمجھ کر اس کی عقلی تفسیر کی ہے جو قرآن و حدیث سے بظاہر متضاد ہی نظر آتی ہے ۔خود ان کی باتوں کو منفرد طور پر پڑھنے سے بھی تضاد نظر آتا ہے۔اس کائنات کی تباہی ،اس میں تغیر و تبدل بتاتا ہے کہ یہ کائنات اور یہ عالم خدا نہیںہوسکتا ۔مگر آگے چل کر شیخ لکھتے ہیں کہ:

                ’’کائنات کا وجود خالق سے علیحدہ نہیں ،سمندر کی لہریں سمندر سے ایک نظر آتی ہیں لیکن یہ فریب نظر ہے ۔اللہ زندگی کا سمندر ہے جس سے یہ ایک کائنات لہروں کی طرح ابھری،نام جدا سہی لیکن حقیقت ایک ہے،شعاعیں آفتاب سے اور لہریں سمندر سے الگ نہیں ہو سکتیں،جس طرح پھول مرجھا جانے اور نغمہ کے ختم ہونے کے بعد بھی خوشبو اور موسیقی کی لہریں کائنات میں باقی رہتی ہیں اس طرح موت کے بعد انسان کل میں جذب ہو کر ہمیشہ زندہ رہتا ہے ۔یہ کائنات بظاہر کثرت لیکن دراصل وحدت ہے اور خدا بظاہر وحدت لیکن دراصل کثرت ہے۔‘‘۱۴؎

یعنی یہ فلسفہ ایک طرح سے خدا اور مخلوق میں پہچان اور حیثیت کے لحاظ سے ایک رشتہ بیان کرتا ہے جس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ بس سارا عالم یعنی کائنات خدا ہے اور انسان بھی خدا بن سکتا ہے ،جب انسان خدابنے گا تو خدااس میں حلول پذیر ہوگا۔

                                ابن عربی کی سب سے اہم کتاب ’فتوحات مکیہ ‘ ہے جو ان کے افکار و نظریات اور ان کی تحقیق کا نچوڑ سمجھی جاتی ہے،یہ کتاب ۷ جلدیں اور۵۶۰ابواب پر مشتمل ہے۔قیام مکہ کے دوران اس کا آغاز کیا اور اس کی بنیاد مکہ میں حاصل ہونے والے کشف تھے ،اس کتاب کا ہر باب ایسے مقام کے اسرار و رموز پر ختم ہوتا ہے جو کسی حقیقت یا اس کے کسی پہلو کاتجزیہ کرتاہے۔اس طرح وہ کثرت میں وحدت کو تلاش کرتے ہیں۔اس کتاب نے اسلامی تصوف پر اپنے ان مٹ اثرات مرتب کیے ہیں اسی وجہ سے اس کے اثرات کافی حد تک اسلامی سلاسلِ صوفیامیں بھی پائے جاتے ہیں۔اس کتاب میں انھوں نے روح،عالم کی ابتدا،اقطاب،مراتب نار،جنت ،برزخ،توبہ،مجاہدہ،خلوت،تقوی اللہ،توکل،مقام شکر،مقام یقین،مقام ولایت،مقام نبوت،مقام فقر،مقام غنا،مقام تصوف،مقام حکمت اور اس طرح تمام ابواب روحانیات و عرفانیات کی آماجگاہ نظر آتے ہیں۔

                                ابن عربی کے نظریاتی فلسفے کو جنھوں نے سمجھا انھوں شیخ اکبر کو کبھی خارج از اسلام نہیں کہا کیونکہ شیخ نے صرف باطنی شریعت کی تلقین نہیں کی بلکہ ایک صوفی کے لیے ظاہری شریعت کو بھی لازم قرار دیا ہے اس کی تفصیلات ’’فتوحات مکیہ‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہیں اس لیے یہ کہنا کہ شیخ نے صرف طریقت و حقیقت اور وجدان و عرفان کی بات کی ہے تو یہ درست نہیں ۔مولانا اشرف علی تھانوی نے ’’التنبیہ الطربی فی تنزیۃابن العربی ‘‘ میں ’’فتوحات مکیہ‘‘ کے حوالے سے شیخ کے کئی اقوال نقل کیے ہیں،ان میں ایک دو یہ ہیں۔

                ۱۔’’ قال ابن العربی ،کل من رمیٰ میزان الشریعۃ من یدہ لحظۃ ھلک۔‘‘ ترجمہ’’ابن عربی کا ارشاد ہے کہ جس شخص نے ایک لمحے کے لیے بھی میزان شریعت کو اپنے ہاتھ سے پھینک دیا تو وہ ہلاک ہوا۔‘‘ ۱۵؎

                ۲۔’’فی الفتوحات ،کل حقیقۃ علی خلاف الشریعۃ زندقۃ باطلۃ‘‘ترجمہ’’شیخ کا قول ہے کہ جو حقیقت ،شریعت کے خلاف ہو وہ زندقہ باطلہ یعنی مردود اور لائق اعتبار نہیں ہے۔‘‘۱۶؎

                                ابن عربی کے نظریات اور ان کے فلسفے کی تعریف و توصیف کرنے والوں کی ایک لمبی فہرست موجودہے جن میں چند نام یہ ہیں۔شیخ مجد الدین فیروزآبادی،شیخ سراج الدین مخزومی،شیخ کما ل الدین زملکانی،شیخ صلاح الدین صفدی،شیخ حافظ ذہبی،شیخ قطب الدین شیرازی،شیخ موٗید الدین خجندی،شیخ فخر الدین رازی،شیخ محی الدین نووی،امام یافعی ،شیخ عبد الحق محدث دہلوی،شیخ عزالدین بن عبد السلام وغیرھم۔ان میں بعض حضرات نے ابتدا میں ابن عربی کی نکیر کی مگر بعد میں رجوع کر لیا ۔شیخ اکبر کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ علما و صوفیا کہتے ہیں کہ اگر کوئی ابن عربی کی نکیر کرے تو امید قوی ہے کہ اس کا خاتمہ ایمان پر نہ ہو۔شیخ کی طرف بہتان طرازی بھی بڑے زور پر تھی اور ہے ،امام شعرانی جو فتوحات مکیہ کی شرح و تلخیص لکھ رہے تھے انھوں نے کہا کہ میں نے فتوحات کے کچھ ابواب پر تردد کیا بعد میں پتہ چلا کہ وہ شیخ کے کلام میں الحاق کیا گیا تھا۔اسی لیے اپنے وقت کے بڑے بڑے علما و صوفیا نے پہلی بات ،شیخ کے اقوال کی تاویل کرنے کی تلقین کی ہے دوسری بات یہ کہ چونکہ شیخ کی طرف ان کے کچھ مخالفین نے بہت سا کلام منسوب کر دیا ہے جو ان کا نہیں ہے اس لیے علما نے کتابیں ،رسالے لکھ کر اس کا جواب بھی دیا ہے۔ ان میں ایک نام شیخ جلال الدین سیوطی کا بھی ہے جنھوں نے ’’التنبیہ الغبی فی تبریۃ ابن العربی‘‘لکھ کر شیخ پر لگائے گیے الزامات کا جواب دیا ہے۔

                                جس قدر ابن عربی اور ان کے اس نظریے کی حمایت کی گئی بالکل ویسے ہی اس کی بے حد مخالفت بھی کی گئی بلکہ وحدت الوجود کے نظریے کو تو ’’عقیدہ تثلیث ‘‘کی بدلی ہوئی شکل بتایا گیا کیونکہ اس نظریے کے اعتبار سے یہی سمجھ آتا ہے کہ جب ہر چیز میں خدا موجود ہے تو وہ ایک انسان میں بھی حلول پذیر ہوگا اور ایک گندگی کے ڈھیر میںبھی، تب تو خدا کی پاکیزگی ختم اور اس کی جسم و جسمانیت ثابت ،جوکہ کفر ہے کیونکہ خدا تو لطیف ہے اس کے لیے جسم ہونا اس کی لطافت کو ختم کر دیتا ہے اسی کی بنیاد پر شیخِ اکبر ابن عربی پر کفر و الحاد کے فتوے لگائے گیے۔ابن تیمیہ نے بھی ابن عربی کو کافر کہا ہے اس کی وجہ بھی بالکل صاف ہے کہ خداکا انسان میں حلول کرنا کفر تک لے جاتا ہے کیونکہ یہاں بھی اس کے لیے جسم اور ایک ہیئت ثابت ہو رہی ہے۔کویت کے مشہور فاضل ،سلفی مکتبہ فکر کے حامی عبد الرحمن عبد الخالق نے اپنی کتاب ’’الفکر الصوفی فی ضوء الکتاب و النہہ‘‘ جس کااردو ترجمہ محمد صادق خلیل نے ’’افکار صوفیہ‘‘ نام سے کیا ہے اس میں اسلامی تصوف کو غیر اسلامی مانا ہے اور سختی کے ساتھ نظریہ وحدت الوجود کی مخالفت کی ہے۔ انھوں نے ابن عربی کی باتوں کو صرف خرافات اور ہفوات سے تعبیر کیا ہے خاص کر ابن عربی کو لے مصنف نے بہت ہی سخت الفاظ استعمال کیے ہیں۔وہ لکھتے ہیں کہ:

                ’’ہم قارئین سے بجا طور پر یہ توقع رکھتے ہیں کہ انھیں صوفیا کے باطل عقائد سے معرفت حاصل ہوگئی ہوگی۔ابن عربی جسے عام طور پر’ الشیخ الاکبر‘ کا لقب دیاجاتاہے دراصل اسے’ الشیخ الاکفر‘ کہنا چاہیے۔اس لیے کہ اس کے عقائد جیساکہ سابقہ اوراق میں گزر چکے ہیں،کافرانہ عقائد ہیں۔‘‘۱۷؎

                                شیخ کو صرف یہی نہیں کہا گیا بلکہ ضلال ،کذاب اورجھال جیسے الفاظ بھی ان کے لیے استعمال کیے گیے۔ اسی طرح ابن کثیر نے بھی کہا ہے کہ اس کی کتاب جس کا نام ’فصوص الحکم‘ ہے اس میںبہت سی چیزیں  ایسی ہیں جن میں صریح کفر ظاہر ہے۔صلاح الدین خلیل بن ایبک الصفدی نے اپنی کتاب ’الوافی بالوفیات‘ میں حافظ دقیق العید کے حوالے سے لکھا ہے کہ انھوں نے شیخ عزالدین سے ابن عربی کے بارے میں سنا :

                ’’ھذا شیخ سوء کذاب،یقول بقدم العالم و لا یحرم فرجا‘‘ ترجمہ ’’یہ ایک گھٹیا جھوٹا شخص ہے ،وہ عالم کے قدیم ہونے کا قائل تھا اور کسی شرمگاہ کو حرام نہیں سمجھتا تھا۔‘‘۱۸؎

                                ملا علی قاری المکی نے بھی اس کے رد میں ایک کتاب لکھی جس کا نام ’’الرد علی القائلین بوحدۃ الوجود‘‘ ہے اس میں ابن حجر عسقلانی الشافعی کا ابن عربی کے ایک معتقد کے ساتھ مباہلے کا ذکر کرتے ہوئے بڑی سختی کے سا تھ ابن عربی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:

                ’’والمعنی انہ ثبت کونہ من الکاذبین و یتفرع علیہ انہ من الملعونین و شیخہ من الضالین المضلین،ثم اعلم ان من اعتقد حقیقۃ عقیدۃ ابن عربی فکافربالاجماع من غیر النزاع……. فقد نص العلامۃ ابن المقری کما سبق ان من شک فی کفر الیھود و النصاری و طائفۃ ابن عربی فھو کافر۔‘‘ترجمہ ’’اس سے اس کا جھوٹا ہوناثابت ہوتا ہے ،اور اس کو ملعومین میں شمار کرنا چاہیے،اس کا شیخ خود گمراہ اور دوسروںکو گمراہ کرنے والا ہے، تو تم جان لو کہ جو ابن عربی کے عقیدے کو درست سمجھتا ہے وہ بنا کسی اختلاف کے بالاجماع کافر ہے …..تو علامہ ابن مقری کی دلیل جس کا کہ پہلے ذکر ہوا وہ یہ ہے کہ جس نے یہودی و نصرانی اور ابن عربی کے معتقدین کے کفر میں شک کیا تو وہ خود کافر ہوا۔‘‘۱۹؎

                                ان تمام رد وقدح کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ اصل مسئلہ وحدت الوجود کی تفسیر کا ہے جس کی جیسی  تفسیر کی جائے گی تو اس کا ویسا ہی اس کا اثر ظاہرہوگا۔جب پہلے ہی کسی چیز کو غلط اور برا تسلیم کر لیا جائے گاتو اس کی مخالفت ہونا ظاہر سی بات ہے۔یوسف سلیم چشتی نے اپنی کتاب ’تاریخ تصوف ‘ میںاس کے متعلق بہت اہم بات کہی ہے کہ تصوف دو طرح کا ہے ایک اسلامی تصوف دوسرا غیر اسلامی تصوف ،اسلامی تصوف کو جو برا بھلا اور اس پر جو سخت تنقید کی گئی ہے اس کی ایک بڑی وجہ ،غیر اسلامی تصوف کا،اسلامی تصوف سے خلط ملط ہونا ہے۔اور بات کسی حد تک درست بھی ہے۔کیونکہ ابن عربی کو اپنے وقت کے جلیل القدر صوفیا و اولیا نے قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے اور ان کے اقوال کی صحیح تعبیر و تشریح بھی کی ہے اس لیے ابن عربی اور ان کے فلسفے کو سمجھنے کے لیے سنجیدہ ہونا بہت ضروری ہے۔ان کی کتابیں تصوف کے اسرار و رموز ،شریعت و طریقت اور سلوک و معرفت کا بیش بہا خزانہ ہیں،ان کے اقوال ایسے جامع ہیں کہ ان کی باطنی گہرائی کی تہہ تک پہنچے بنا ان کو سمجھنا ازحد مشکل ہے۔یہ ابن عربی کا کمال ہے کہ انھوں نے عقلا قرآن و حدیث کے الفاظ کی تعبیر کی ہے جس کو سمجھنے کے لیے ایک فلسفی بھی حیران و پریشان نظر آتا ہے۔یہ ان کا انداز ہے کہ وہ ایک لفظ کو متضاد معنی میں استعمال کرتے ہیں جو صرف غور و فکر سے ہی سمجھ آتا ہے۔یہ بھی ابن عربی ہی کا خاصہ ہے کہ وہ عموما کسی لفظ کا ظاہری معنی مراد نہیں لیتے ہیں بلکہ اس کی انتہائی غایت مراد لیتے ہیں۔انھیں سب خصوصیات کی وجہ سے ابن عربی ’شیخ اکبر‘ کہلائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حواشی

۱  ؎۔سید محمدحسن عسکری،جدیدیت،ادارہ فروغ اسلام ،لاہور،۱۹۹۷ء،ص ۲۶۔

۲؎ ۔ڈاکٹر رضا حیدر،اردو شاعری میں تصوف اور روحانی اقدار،غالب انسٹی ٹیوٹ،نئی دہلی،۲۰۰۷ء،ص ۱۷۔

۳؎۔ایضا ،ص ۱۹۔

۴؎ ۔ حسن اللغات اردو، اعتقاد پبلشنگ ہاوس،نئی دہلی،۲۰۰۴ء،ص ۹۷۶۔

۵؎ ۔وارث سرہندی ،علمی اردو لغت،علمی کتاب خانہ،لاہور،۱۹۷۶ء،ص ۱۵۵۱۔

۶؎ ۔علامہ شبلی،سوانح مولانا روم،دار المصنفین،شبلی اکیڈمی،اعظم گڑھ،یوپی،ایڈیشن،۲۰۱۰ء،ص۱۴۰۔

۷؎۔میکش اکبرآبادی،مسائل تصوف،انجمن ترقی اردو (ہند) نئی دہلی،۲۰۰۰ء،ص ۵۹۔

۸؎۔عبد السلام دہلوی،ابن عربی کا نظریہ وحدت الوجود،مشمولہ فلسفہ وحدت الوجود،مجموعہ مقالات،سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور،۲۰۰۸ء،ص ۲۸۲۔

۹؎۔ابن عربی،فصوص الحکم،دار الکتاب العربی،بیروت۔ لبنان،۱۹۴۶ء،ص ۱۷

۱۰؎۔سید حسین بن نصر،تین مسلمان فیلسوف،مترجم ،محمد منور،ثقافتی ادارہ،(آر،سی،ڈی ،تہران)لاہور،طبعِ اول،۱۹۷۲ء،ص ۱۰۸۔

۱۱؎ ۔ابن عربی،فصوص الحکم،دار الکتب العلمیہ،بیروت،۱۹۹۹ء،ص ۱۱۴

۱۲؎۔ایضا،ص ۷۸

۱۳؎۔ایضا ۔

۱۴؎۔ایضا ۔

۱۵؎۔مولانا اشرف علی تھانوی،’التنبیہ الطربی فی تنزیۃ ابن العربی‘مشمو لہ، ارمغان ابن عربی،تصوف فاونڈیشن،لاہور،۱۹۹۹ء،ص ۷

۱۶؎۔ایضا ص ۶۔

۱۷؎۔محمد صادق خلیل،افکار صوفیہ،ضیاء السنۃ دارۃ الترجمہ و التالیف،رحمت آباد۔فیصل آباد ،۱۴۰۴؁ھ،ص ۱۴۷تا ۱۴۸۔

۱۸؎۔خلیل بن ایبک الصفدی،الوافی بالوفیات،دار احیاء التراث العربی،بیروت۔لبنان،جلد ۴

،طبع اول،۲۰۰۰ء،ص ۱۲۵۔

۱۹؎ ۔ملا علی القاری،الرد علی القائلین بوحدۃ الوجود،دار المامون للتراث،بیروت،طبع اول ،۱۹۹۵ء،ص ۱۵۴ تا ۱۵۵۔

٭٭٭٭

محمد عارف

ریسرچ اسکالر ۔جواہر لال نہرو یونیورسٹی،نئی دہلی

ای میل آئی ڈی۔ma9815330@gmail.com

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.