امدادامام اثرکی میرشناسی کا تنقیدی وتحقیقی جائزہ

ناقدین میرمیں ایک اہم نام سیدامدادامام اثرکاہے، وہ اردوکے عظیم ناقدومحقق اورشاعروادیب گزرےہیں ۔ ان کا شمار اردوتنقیدکے بانیوںمیں ہوتا ہے ۔ ان کی تصنیف کاشف الحقائق اردو تنقیدمیںمیل کے پتھرکی حیثیت رکھتی ہے ۔ ان کی یہ کتاب کسی دیوان یا کلیات کا مقدمہ نہیں بلکہ باضابطہ تصنیف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ متعددناقدومحققین نے مقدمہ شعر و شاعری کی جگہ کاشف الحقائق کوہی اردوتنقیدکی اولین کتاب قراردیا ہے۔ ان میں پروفیسراحتشام حسین بھی شامل ہیں۔محمد حسین آزاد کی آب حیات پہلی بار۱۸۸۰ءمیں شائع ہوئی۔ الطاف حسین حالیؔ کی کتاب ’’مقدمۂ شعر و شاعری‘‘ ۱۸۹۳ءمیں اور امداد امام اثر کی کتاب’کاشف الحقائق‘ پہلی بار۱۸۹۷ء میںمعرض وجودمیں آئی جبکہ شبلی نعمانی کی کتاب’موازنۂ انیس و دبیر‘کی اشاعت ۱۹۰۶ء میںہوئی۔

کاشف الحقائق کواردوتنقیدکی پہلی کتاب تسلیم کرنے والوں کے بقول خواجہ الطاف حسین حالیؔ کی کتاب ’مقدمۂ شعر و شاعری‘ کو اردو کی پہلی تنقیدی تصنیف اس لیے قرار نہیں دیا جا سکتا ہے کہ۱۸۹۳ء میں جب یہ پہلی مرتبہ شائع ہوئی تو اس وقت اس کی حیثیت ایک خود مکتفی کتاب کی نہیں تھی بلکہ یہ ایک دوسری کتاب دیوانِ حالیؔ کا حصہ تھی۔ پروفیسر احتشام حسین کے مطابق:

’’شعر و شاعری پر خواجہ الطاف حسین حالیؔ کا مقدمہ ان کے دیوان کے ساتھ پہلی دفعہ۱۸۹۳ء میں شائع ہوا۔ اس کے بعد کسی طرح اسے ایک آزاد اور خود مکتفی تصنیف کی حیثیت حاصل ہو گئی اور وہ برابر دیوان سے الگ شائع ہونے لگا۔ پڑھنے والوں نے بھی ہمیشہ اسے دیوان سے الگ ہی کر کے پڑھا۔ یہاں تک (کہ) بہت سے لوگوں کے لیے وہ دیوان کا مقدمہ نہیں ایک باقاعدہ تنقیدی کتاب ہے۔ جس کی بنیاد پر حالیؔ کو اردو کا پہلا باقاعدہ نقاد تسلیم کیا جاتا ہے۔ اسے اس کے اصل مقصد یعنی مقدمۂ دیوان کی حیثیت سے دیکھا جائے تو کہہ سکتے ہیں کہ اس کا ناقدانہ پہلو ایک ضمنی حیثیت رکھتا ہے۔ اصلاً مقدمہ محض دیوان کا مقدمہ ہے اور اس کا مطالعہ اسی روشنی میں کرنا چاہیے۔ ‘‘

(عکس اور آئینے از احتشام حسین۔ ص:۱۴۷)

’’حالیؔ کا مقصد تنقید کی کتاب لکھنا تھا ہی نہیں ۔ وہ تو اپنی شاعری کے سمجھنے اور اس سے لطف اندوز ہونے کے لیے کچھ ضروری اشارے کر رہے تھے۔ ‘‘

                                                                                      (ایضاً۔ ص:۱۴۸)

اسی طرح ناقد ڈاکٹر محمد خالد سیف اﷲ نےبھی کاشف الحائق کواردوتنقیدکی باضابطہ پہلی تصنیف قراردیا ہے ۔وہ رقم طراز ہیں:’’کاشف الحقائق اردو تنقید کی پہلی باقاعدہ تصنیف ہے۔ ‘‘

(خدا بخش لائبریری جرنل، شمارہ:۱۶۷)

پروفیسراحتشام حسین اور ڈاکٹر سیف اللہ کے نظریات سے اختلاف بھی کیاجائے تب بھی اس حقیقت سے فرارمشکل ہوگی کہ امداد امام اثرؔ کی یہ کتاب اردو تنقید کی اوّلین کتابوں میں سے ایک ہے ۔

امداد امام اثر نے اپنی تصنیف ‘کاشف الحقائق(۱۸۹۷ء) میں ولی سے لیکر غالب تک تقریبا تمام اہم شعرا پراظہار خیال کیا ہے ان کے کلام کاتقابلی وہ تنقیدی جائزہ لیا ہے ۔ اثربابہرہ تھے اور معتقد میرتھے ۔انھوں نے اپنی کتاب میں میر کا تذکرہ تین جہتوںسےکیا ہے۔ (۱)غزل گوئی ،(۲)تضمین وتخمیس اور(۳) مثنوی۔ البتہ قطعہ ،رباعی اور قصیدے کے ضمن میں ان کی توجہ میر پر مبذول نہ ہوسکی ۔ انھوں نے میرکی غزل گوئی کو مثنوی پر فوقیت دی ہے جبکہ امر أ القیس کی قصیدہ نگاری پربحث کرتےہوئے موقع محل کی مناسبت سے میر کا ایک شعرنقل کیا ہے اورانھیں فن صیدافگنی سے نابلدقراردیتے ہوئے ان کی مثنوی اورقصیدہ گوئی کو لطف سخن سے بعیدتربتایا ہے۔ اس کی تفصیل اگلے سطورمیں آئےگی ۔

امداد امام اثر کی میرشناسی پرکچھ خامہ فرسائی سے قبل یہ بیان کرنا ازحدضروری ہے کہ غزل کے باب میں امدادامام اثر کا نظریہ کیا ہے ۔ دراصل وہ غزل کے باب میں دبستان دہلی کی خارجیت پرفریفتہ نظرآتےہیں جبکہ لکھنوکی داخلی رنگینی انہیں کچھ زیادہ نہیں بھا تی ہے۔ انھوںنے شاعری کے دوپہلو نکالےہیں :ایک خارجی اوردوسرا داخلی ۔ اسی کوایک کسوٹی بناکر تمام شعراکے کلام کا تجزیہ کیاہے ۔وہ شعرائے دہلی کےتعلق سے کچھ اس طرح اپنے خیالات کااظہار کرتےہیں:

’’یہ عجیب بات معلوم ہوتی ہے کہ دہلی کے حضرات متغزلین اکثر اپنی غزل سرائیوں میں شاعری کا داخلی پہلو ملحوظ رکھتے گئےہیں۔ اس سبب سےان کی غزل سرائیاں تقاضائے تغزل کے مطابق پائی جاتی ہیں۔ میرحسن ،خواجہ میر درد، میرتقی میر، سودا ، مومن ،غالب یہ سب شعرائے متغزلین اپنی داخلی رنگ کے برتنےوالے گذرے ہیں۔البتہ ذوق پورے طورپر داخلی پہلو کے برتنے والے نہ تھے توبھی وہ خارجی پہلو کی آمیزش داخلی پہلو کے ساتھ اس رنگ سے کردیتےہیں کہ ان کا کلام سیٹھے ہونے سے بچ جاتا ہے ۔ برخلاف اس کے لکھنو کی غزل گوئی کارنگ نظرآتا ہے۔ اس جگہ (لکھنو)کے اکثر شعرائے نامی غزل سرائی میں خارجی پہلو اختیار فرماتےہیں ۔یعنی واردات قلبیہ اورامورذہنیہ کی قید کے پابند نہیں رہےہیں۔ بلکہ تقاضائے غزل گوئی کے خلاف خارجی مضامین کواپنی غزل سرائیوں میں زیادہ جگہ دیتے گئےہیں۔ اس جدت سے احاطہ غزل گوئی تووسیع ہوگیا مگر غزل سرائی سے جوغزل متصور ہے فوت ہوگئی ۔ ظاہراً اس صنف شاعری کی علت غائیہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ دل مضامین دردانگیز سے متاثر ومتالم ہو، طبیعت شوخی کلام سے مزا اٹھائے ،جان کو سرمایہ سوزوگداز حاصل ہو، اخلاقی قویٰ ترقی کرجائیں ۔پس ان جب باتوں سے کوئی بات حاصل نہیں ہوئی تو غزل سرائی سے کیافائدہ ۔‘‘

(کاشف الحقائق جلد دوم:۴۰۸)

دوسرے مقام پر کچھ یوں خامہ فرسائی کرتےہیں:

’’خداجانے سرزمین دہلی کی کیا تاثیر ہے کہ وہاں کے شعرائے متغزلین اکثر غزل سرائی کی دادخوب دیتے گئے ہیں۔ اس پُرتاثیری کا سبب یہی ہے کہ غزل سرائی میں واردات قلبیہ اورامورذہنیہ کےمضامین حوالہ قلم کرتےگئے ہیں۔ یعنی غزل سرائی میں شاعری کے خارجی پہلو سے کام لیتے ہیں ۔ ہمیشہ شاعری کے داخلی پہلو کو ملحوظ رکھا برخلاف اس کے استادان لکھنو غزل سرائی میں بیشتر شاعری کے خارجی پہلو سے کام لیتے رہے ہیں جس کے سبب ان کی غزل سرائی سے دل کو حسب مراد حظ نہیں اٹھتا ہے ۔ مرزاغالب فرمایاکرتے تھے کہ زبان اردو کو اہل لکھنو نے درست کیا مگر مضمون آفرینی میں دہلی والوں کے برابر نہ ہوسکے ۔ مرزا غالب کا یہ قوم مضمون آفرینی کے اعتبار سے توصحیح نہیں ہے ۔ اس لیے کہ ناسخ ،آتش اور ان استادوں کے شاگردوں نے مضمون آفرینی کاکوئی دقیقہ اٹھانہیں رکھاہے ۔مگربات یہ ہے کہ لکھنو کے حضرات متغزلین دہلی کے حضرات کے برابر پُرتاثیر مضمون آفرینی نہ کرسکے ۔ اس کا سبب یہی ہے کہ غزل سرائی میں حضرات لکھنو نے شاعری کے خارجی پہلو کوداخل کردیا ۔ جو غزل سرائی کے تقاضےکے خلاف ہے ۔پس یہ جدت مفید غزل سرائی کیوںکرہوتی ۔‘‘

(کاشف الحقائق جلددوم:۴۱۳)

مذکورہ بالا اقتباسات سے دوباتیں واضح ہوتی ہیں۔

اوّل:       امداد امام اثرنےصنف غزل کے لیے دوپہلو متعین کئے ہیں ۔ ایک داخلی اوردوسرا خارجی

دوم:         انھوںنے داخلیت وخارجیت کے میزان پر تولتے ہوئے اہل دہلی کی غزل سرائی کولکھنوکے شعرائے غزل پر فوقیت دی ہے۔

انھوںنے کاشف الحقائق میں غز ل کے ضمن میں تمام شعرائے متغزلین کے کلام کا تجزیہ داخلی وخارجی پہلو کوپیمانہ بنا کرکیا ہے۔ چنانچہ انہوں نےمیر کی غزل گوئی کاجائزہ لیتے ہوئے انھیں ’سلطان المتغزلین ‘بتایاہے ۔ان کے پست اشعار کو ترک کرنے اور ان کے انتخابِ کلام کی بات بھی کہی ہے۔حالاںکہ وہ کلام میرکاتنقیدی جائزہ لیتے ہوئے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ میر کے کلام سے خوبصورت کلام زبانِ اردو میں کہیں نہیں ہے۔ حتیٰ کہ ان کا چربہ کرنا بھی ناممکن ہے۔ان کی نظر میں میرتقی میر داخلیت کے شاعر ہیں اور یہ داخلی پہلو ان کے شعروں میں سوز و گداز، خستگی، نشتریت، رنگینی، ملاحت، شیرینی، شوخی وغیرہ کی کیفیتوں کا باعث بھی ہے۔ یہ چیزیں خواجہ میر درد کے کلام میں بھی ملتی ہے لیکن دل گرفتگی، محزونی اور نشتریت میر میں زیادہ ہے اور قوتِ شاعری میں بھی درد میر سے کم درجے پر ہیں۔ اثر غزل سرائی میں میر کو وارداتِ قلبیہ اور امورِ ذہنیہ کا شاعر قراردیتےہیں جس کے سبب ان کی غزلوںمیں دلآویزی پیدا ہوئی ہے۔ اثر یہ بھی کہتے ہیں کہ میر کے سبھی معتقد ہیں لیکن ان کے تتبع میں ناسخ ، ذوق ،غالب ، آتش اورمومن بھی کامران نہیں ہوسکے۔سوائے خواجہ درد کے کسی ریختہ گوشاعرکومیرکے کلام کی ہواتک نہیںلگی ہے ۔انھوںنے میرتقی میر اورخواجہ درد کو ایک دوسرے کا جواب قراردیا ہے۔امداد امام اثر نے میرکی شاعری کا جائزہ لیتےہوئےبقول پروفیسرخواجہ کرام ’سوائے داخلی پہلو کے اور کوئی نئی بات نہیں کہی لیکن جو کچھ کہا وہ حق بجانب کہا اور حالی سے زیادہ کہا۔‘‘

میرتقی میرکی غزل گوئی کاجائزہ لیتےہوئے اثرنے ان کی سوانحی کیفیت کے ذکرسے گریز کرتےہوئے محض ان کی غزل گوئی کی تنقیدوتجزیہ سے غرض رکھی ہے ۔ وہ میرکے تعلق سے رقم طراز ہیں:

’’میر نام نامی آپ کا میر محمد تقی ہے لاریب میر صاحب اردو کے سلطان المتغزلین ہیں ۔ اوراستاد ناسخ کی عقیدت مندی ان کی جناب میں بے سبب نہ تھی ۔                         ع

آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میرنہیں

میر صاحب کے چھ دیوان ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ان میں بہت اشعار ایسے ہیں کہ ترک کر دینے کے قابل ہیں ، اس لیے کہ ان میں یا پست خیالی کا نقصان لاحق ہے یا ان کی شان اس قدر کم ہےکہ ان کو میر صاحب کے کلام ہونے کا رتبہ حاصل نہیں ہے۔ اس پر بھی اگر ان چھ دیوانوں سے انتخاب اشعار کیا جائے تو ایک نہایت حسب مراد دیوان مرتب ہو سکتا ہے۔ خیر را قم اب اپنے خیالات میرصاحب کے منتخب کلام کی نسبت ظاہر کرتا ہے اور وہ یہ ہیں کہ اگر میر صاحب کے منتخب کلام پر نگاہ ڈالتے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کے کلام سے زیادہ خوب صورت کلام زبان اردو میں کہیں نہیں ہے اور حقیقت حال بھی یہی ہے کہ خواجہ میر درد کو مستثنیٰ کرکے کسی شاعر ریختہ گو کو آج تک ان کے کلام کی ہوا بھی بھی نہیں لگی ہے ۔ واقعی میر صاحب کچھ ایسا کہہ جاتے ہیںکہ ویسا کہنا تو درکنار کناران کے دو دو ایک مصراع(مصرعہ)کا چربہ بھی کسی سے نہیں ہو سکتا ہے۔ سارا دیوانِ ذوق یا ناسخ کا پڑھ ڈالئے ایک مصراع(مصرعہ) بھی کہیں نظر نہ آئے گا جس پر میر صاحب کے کلام کا دھوکہ ہو سکے ۔ حالانکہ ناسخ یا ذوق کے استاد الاستاد ہونےمیں کسی صحیح الحواس کو عذر نہیں ہو سکتا۔ اس حیرت افزا غزل سرائی کا سبب جو ڈھونڈتے تو صرف اتنی باتوں میں محدو د پایا جاتا ہے کہ میر صاحب غزل سرائی میں کبھی واردات قلبیہ اور امور ذہنیہ کےاحاطہ سے باہر قدم نہیں رکھتے ہیں اور ان کے وہی اشعار زیادہ دل آویز معلوم ہوتے ہیں جو زیادہ واردات قلبیہ سے متعلق معلوم ہوتے ہیں۔میر صا حب کی غزل سرائی تمام تر شاعری کا داخلی پہلو رکھتی ہے۔ تب ہی تو ان کے کلام میں سوز و گداز، خستگی، نشتریت ، رنگینی، ملاحت شیرینی، شوخی و غیرہ کی کیفیتیں بدرجہ کثیر پائی جاتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ کیفیتیں ہیں جودل کو بھاتی میں ہیں۔ جس شاعر کے کلام میں یہ کیفیتیں موجود ہوں گی کیوں کر اس کا کلام دل آویز او دلکش نہ ہوگا۔ یہ صفتیں خواجہ میر درد کے کلام میں بھی موجود ہیں مگر بدانست فقیر خواجہ صاحب کے کلام میں میر صاحب کے کلام کے اعتبار سے خستکی کم ہے لیکن سوز و درد خواجہ صاحب کا میر صاحب سے بڑھا نظر آتا ہے۔ علاوہ اس کے پاکیزگی اور نفاست خواجہ صاحب کے کلام کی بہت قابل توجہ ہے۔ اسی طرح میر صاحب کے کلام میں دل گرفتگی ،محزونی اور نشتریت خواجہ صاحب کے کلام سے زیادہ پائی جاتی ہے۔ خیر یہ سب کیفیات قلبی میں یہی دونوں حضرات ایک دوسرے کے جواب نظر آتے ہیں، مگر میر صاحب کو جو خواجہ صاحب پر غلبہ نظر آتا ہے وہ قوت شاعری کے اعتبار پر ہے کہ یہ قوت میر صاحب کو خواجہ صاحب سے زیادہ حاصل تھی ۔ امر موازنہ سے علاوہ ہو کہ گذارش راقم میر صاحب کی غزل سرائی کی نسبت یہ ہے کہ ان کی سخن سنجی کا اندازہ ایسا ہے کہ کسی شاعر سے اس کا تتبع نہ ہوسکا بلکہ میر صاحب کے حسن کلام تک پہنچنے کی شعرا نے جس قدر کوششیں کیں اسی قدر انھیں پسپائی نصیب ہوئی ۔ چنانچہ ذوق نے نہایت انصافا نہ فرمایا ہے :

نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب

ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا

اسی نا کامیابی نے مختلف شعرا کو مختلف غزل سرائی کی راہیں سوجھائیں مگر کوئی موصل الى المطلوب نہ نکلی ، ذوق ، ناسخ، آتش نے جس قدر منزلیں طے کیں میر صاحب کی غزل سرائی کے دیار سے دور پڑتے گئے۔ مومن نےراہ راست اختیار کی بھی تو چندمنزل چل کررہ گئے۔ غالب کا بھی یہی حال ہوا کہ منزل راہ راست پر چل کر آخر کا ر انھیں راہ زنوں سے پالا پڑا اور منزل مقصود تک نہ پہنچ سکے ۔مختصر یہ کہ جہاں میر صاحب جا کر منزل گزیں ہوتے وہاں کوئی راہ رو نہ پہنچ سکا۔

                                                                                                     (کاشف الحقائق جلد دوم :۴۱۷۔۴۱۶)

نمونےکے طورپرمیرتقی میرکے متعددغزلوںکے اشعار اور قطعہ نقل کرنے کے بعد اثرکچھ اس طرح نتیجہ اخذکرتےہیں:

’’واضح ہو کہ اشعار بالا راقم نے نمونہ کے طور پر میر صاحب کے دیوان اول سے انتخاب کر لیے ہیں اس انتخاب سے یہ مطلب نہیں ہے کہ اس دیوان میں اس کے علاوہ اور اشعار انتخاب کے قابل نہیں ہیں۔ بہر حال اتنے اشعار میر صاحب کے انداز کلام کو دکھانے کے واسطے کافی ہیں۔ حضرات اہل قلم واقفیت سے مخفی نہیں ہے کہ اشعار بالا میں کیا کیا واردات قلبیہ اور امور ذہنیہ کی کیفیتیں شاعری کے پیرایہ میں بیان کی گئی ہیں۔ اور لطف بالائے لطف یہ ہے کہ یہ سب دشوار کیفیتیں جو مسائل علمیہ کا حکم رکھتی ہیں۔ ایسی آسان اور سلیس زبان میں بیان کی گئی ہیں کہ اس سے آسان اور سلیس تر زبان میں ان کا بیان کیا جا نا ممکن نہ تھا۔ واقعی کیا کیا یا دشوار مضامین کو جو محض قلب و ذہن سے متعلق ہیں میر صاحب ایسی آسانی اور خوش اسلوبی کے ساتھ بیان فرما جاتے ہیں کہ عقل دنگ ہو جاتی ہے۔ ان کی سادگی زبان کا عالم فی الحقیقت نرالا ہے۔ بیان مضامین بیشتر تشبیہ استعارہ اور مبالغہ سے احتراز رکھتا ہے اور اگر کہیں ان صنعتوں کو دخل بھی دیتے ہیں تو اس خوبصورتی سے کہ آورد کی کیفیت مطلق ظاہر نہیں ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب شاعر سخن سنجی میں قاصر آتا ہے تب ہی تشبیہ استعارہ اور مبالغہ سے اپنے کلام میں اعانت لیتا ہے۔ ور نہ منقح، خوش اسلوب ، پر تاثیر، دلفریب جاں فزا، روح پرور، نیچرل مضمون زینہار ایسی ایسی ترکیبوں کا محتاج نہیں ہوتا۔ چنانچہ بہت سے گیت دُہرے (دوہے)وغیرہ ایسے ہیں کہ تمام تر تشبیہ استعارہ اور مبالغہ سے پاک ہیں مگر ان کے مضامین کی عمدگی ایسی ہے کہ بےاختیار دل پر عجب با مراد تاثیر پیدا کرتی ہے۔‘‘

                                                                                      (کاشف الحقائق جلددوم: ۴۲۳؍)

مذکورہ بالا اقتباس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہےکہ امدادامام اثرمیرتقی میرکی غزل سرائی کے نہ صرف شیدائی ہیں بلکہ ان کے کلام میں سادگی ،آسانی وخوش اسلوبی ، واردات قلبیہ اور امور ذہنیہ کی کیفیتوںکے مریدبھی ہیں۔انھوںنے میر کی غزلوں کے بیشترمضامین کو تشبیہ،استعارہ اور مبالغہ سے مبرا بتایا ہے اوراگرکہیں میرکے کلام میں یہ صنعتیں دربھی آئی ہیں تو وہ بھی اس خوبصورتی سے کہ اس میں آوردکی کیفیت ظاہرنہیں ہوتی ۔دشوار اورمشکل ترین مضامین کوبھی غزل میں سہل ترین انداز میں باندھنے پرجناب اثر؛میرکونہ صرف داددیتےہیں بلکہ کہتےہیں کہ اس پر ’عقل دنگ ‘ رہ جاتی ہے ۔

میرکی غزلوںمیں سادگی ،سوزوگداز اورآسان اورسلیس زبان کاجادواثرکے سرچڑھ کر بول رہاہے ۔ انھوںنےاسے میرکی انفرادیت بتاتےہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ ان کی غزل گوئی کا تتبع مشکل ہے ۔ ناسخ ،ذوق اورآتش نےغزل گوئی میں میرکے تتبع کی جتنی کوششیں کیں اتنی ہی دورہوتےگئےجبکہ مومن اورغالب بھی میرکی ڈگرپرمحض چندقدم چل کرہی رک گئے اورانھیں منزل نصیب نہ ہوسکی ۔یہی نہیںاثر نے غزل سرائی کے باب میں میرتقی میر کوسودا جیسے استادالشعراپربھی فوقیت دی ہے ۔سودا کی شاعری میں خارجی مضامین کی رنگارنگی اورداخلی رنگ کے پھیکےپن کے سبب انھیں میرسے کم درجہ کا شاعر قراردیاہے جبکہ خارجی بندش کے معاملے میں وہ سود اکو میر پر ترجیح دیتے نظرآتےہیں۔ وہ رقم طراز ہیں:

’’مضامین داخلی اورخارجی دونوں کی بندش پر انھیں (سودا) اچھی طرح قدرت حاصل تھی ۔ اس لیےتمام اصناف شاعری میں ان کا کلام عجیب جلوہ دکھارہاہے ۔ اگرانھیں داخلی شاعری کچھ اور بھی قدرت ہوتی تو غزل گوئی میں میرؔ کے ہمسر ماناجاتے ۔ یوں تو اوراصناف شاعری میں وہ میر سے بہت بڑھے ہوئے تھے ۔ میر صاحب کو خارجی شاعری کی بہت کم قوت حاصل تھی بلکہ سودا کے مقابلے میں کچھ نہ تھی ۔‘‘۔۔۔۔۔’’ شاعری کے دوپہلو ہیں ایک خارجی اوردوسرا داخلی ، خارجی پہلو کومرزا صاحب ایسا برتتےہیں کہ زبان اردومیں سوائے میرانیس کے کوئی ان کا جواب نہیں ہے مگرداخلی پہلوپر ان کوویسی قدرت حاصل نہ تھی جس کے سبب وہ میر تقی صاحب میر سے غزل سرائی میں پیچھے نظرآتےہیں‘‘

 کاشف الحقائق ص: ۴۱۰)

’’یہاں پر چوں کہ غزل سرائی کی بحث پیش ہے اس لیے ان کی غزل سرائی کے مادہ میں عرض کرنا کافی ہوگاکہ ہرچند وہ(سودا) اس صنف شاعری(غزل) میں میرؔ صاحب کے برابر نہیں ہیں اس پر بھی وہ اس صنف شاعری کے بھی بڑے استاد ہیں ۔‘‘

(کاشف الحقائق جلد دوم ص:۴۱۱)

انھوں نے سوزوگداز، خستگی ، درد، شوخی ،نازک خیالی ،بلند پردازی اور رنگینی کے ساتھ زور طبیعت کے خوبصورت اظہار کے ضمن میں بھی میر کوان کا جواب بتایا ہے اورکہاہے کہ اگر تھوڑی اور خستگی بھی سودا کے کلام میں ہوجاتی توان کاکلام بھی میر کےمساوی ہوجاتاہے۔اثر لکھتےہیں:

’’غزل سرائی اس اعلا درجے کی ہے کہ سوامیرؔ اوردردؔکے ان کا جواب کوئی نظرنہیں آتاہے ۔ اگر تھوڑی خستگی اور بھی سودا کے کلام میں ہوتی تو ان کا کلام میرؔ اور دردؔ کے برابرہوجاتا۔‘‘

(کاشف الحقائق جلد دوم ص:۴۱۲)

شاعری میں سوزوگداز کے معاملے میں امدا دامام اثر نے خواجہ میر درد کی شاعر کا جائزہ لیتےہوئے میرتقی میرکوان کا ہم پلہ وہم جواب قراردیاہے۔وہ لکھتےہیں:سوزوگداز میں ان کے جواب یامیرتھے یا آپ اپنے جواب تھے۔ واردات قلبیہ کے مضامین ایسے باندھتے تھے کہ سودا ان تک نہ پہنچے تھے۔‘‘

’’اگرمیر صاحب کے دواوین سے انتخاب کیے جائیں تو خواجہ صاحب کے دیوان سے ان کے منتخب کلام کا حجم بہت زیادہ نہ ہوگا۔ ‘‘

خواجہ صاحب (درد) کی غزل سرائی تمام تراس صنف شاعری کے تقاضوں کے مطابق پائی جاتی ہے علاوہ سوز وگداز ،درد، خستگی ،علومعانی اورسمومضامین کے نظم کی شستگی راقم کی دانست میں میرصاحب کے کلام سے زیادہ بڑھی ہوئی معلوم ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔ المختصر غزل سرائی کے اعتبار سے ایک بڑے شاعر تھے۔ اوران کا نظیر سوائے میر کے کوئی دوسرا نہیں ہودیکھاجاتا۔‘‘

(کاشف الحقائق جلد دوم ص:۴۱۴)

اثرکے اس خیال سے ناقد وہاب اشرفی متفق نظرنہیں آتےہیں ۔ ان کاکہناہے :

’’ان کا (امدادامام اثر) کاخیال ہے کہ غزل سرائی کے اعتبار سے خواجہ میردرد ایک بڑے شاعرتھے اوران کا نظیر سوائے میرتقی میر کے کوئی دوسرا نہیں ۔ میرتقی میر کواثر سلطان المتغزلین مانتےہیں ۔ یہ حیرت انگیز ہےکہ اثر میرتقی میر پربھرپور تنقیدبھی کرتےہیں ۔ وہ ان کے چھ دیوانوں کا تذکرہ کرتے ہیں اور ان کے بعد لکھتےہیں کہ ان میں بہت سے اشعار ایسے ہیں کہ ترک کردینے کے قابل ہیں پست خیالی کے باعث بھی اورکم رتبہ ہونے کے باعث بھی لیکن وہ اس طرف اشارہ بھی کرتےہیں کہ میر تقی میر کا منتخب کلام ہی ذہن میں رکھنا چاہئے ۔ انھوں نے ان کی غزلوں کے ذکر میں خواجہ میر درد کا بھی تذکرہ کیا ہے اوران نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ درد کے کلام میں میر کے کلام کے اعتبار سے خستگی کم ہے لیکن سوز اوردرد خواجہ کا میرسے بڑھا نظرآتا ہے ۔ میرے خیال میں یہ رائے وزنی نہیں معلوم ہوتی ۔ درداورنشتریت کے اعتبارسے بھی آج کوئی نہیں یہ کہتا کہ درد کا کلام میر سے افضل ہے ۔ لیکن حیرت انگیز امریہ ہے کہ اثر خود اپنے بیان میں تضاد کے شکار ہوگئے ہیں۔

’’میر صاحب کے کلام میں دل گرفتگی ، محزونی اورنشتریت خواجہ صاحب کے کلام سے زیادہ ہے ۔

                                                                        (کاشف الحقائق ،ص: ۱۰۰)

اثر نے دلی کی ویرانی کے بعد لکھنوکی ہزار ادبی شادابی وترقی کے باوجود میرکی غزل سرائی پر فوقیت سے انکار کیا ہے ۔ یعنی وہ یہاں بھی میرکی عظمت کا اعتراف کرتےہیں ۔ وہ رقم طراز ہیں:

’اس سے کسی کوانکار نہیں ہوسکتا کہ شعرائے لکھنو نے غزل سرائی کی ترقی کوہمیشہ ملحوظ رکھا ۔ چنانچہ ناسخ نے نہ صرف اردو کواپنے کلام معجز نظام سے ایک شستہ پاکیزہ اورباقاعدہ زبان بناڈالا بلکہ اردولٹریچر کوبھی دولت عالی خیالی سےمالامال کردیا۔ فی الواقع جیسی ترقی اردو کوناسخ کی بدولت نصیب ہوئی ہے ویسے کسی دوسرے شاعر کی بدولت ظہور میں نہیں آئی۔ بیشک اردو پر ناسخ کابڑا احسان ہے۔ اگر ناسخ نہ ہوتےتو جیسی لکھنو کی زبان نفیس وفصیح، شستہ اورپاکیزہ ہورہی ہے یہ خوبیاں اس کو نصیب نہ ہوتیں۔ اس زبان کا منظوم لٹریچر بھی شیخ کی توجہ فرمائی کا بہت ممنون ہے۔ اگرناسخ نہ ہوتے تو اردو میں کوئی شاعر مرزا صاحب کاجواب نہ نکلتا۔ لیکن زبان اورلٹریچر کی ترقیوں کے ساتھ لکھنو میں اردو کے نفس غزل گوئی کوفائدہ حاصل نہ ہوتا۔ کس واسطے کہ ان سب ترقیوں سے میرکی غزل سرائی پر ترقی کی کوئی صورت پیدا نہ ہوسکی۔ حقیقت یہ ہے کہ میر کی غزل سرائی اپنے حال پر رہ گئی ۔‘‘

(ص: کاشف الحقائق جلد دوم : ۰۹۔۴۰۸)

اثر نےغزلیات کے باب میں جن شعرائے متغزلین کےکلام کا جائزہ لیا ہے تقریباً تمام کے کلام پر اپنی گراں قدر رائے کا اظہار کرتےہوئے میرتقی میر اور دردکی غزل سرائی کی مختلف فنی وشعری خوبیوںکے لحاظ سے موازانہ ومقابلہ بھی کیا ہے۔ اس دوران وہ عجب مخمصے میں نظرآتےہیں کہیں وہ میرؔ کو کسی سے کم تر دکھاتے ہیں اور فوراً ہی کسی خوبی کا ذکرتےہیں اورمیرؔ کی بلندقدری ورفعت سخنوری کا اعتراف بھی کر جاتے ہیں۔ ناقدوہاب اشرفی کے لفظوں میں ہم کہہ سکتےہیں کہ وہ میرؔ کے باب میں تضاد کے شکار ہوجاتے ہیں۔ غالب کی غزلوں کا تجزیہ کرتے ہوئے انھوں نے میر کوکئی مقامات پرزیربحث لایا ہے۔ ملاحظہ کریں:

’’حقیقت یہ ہے کہ غالب کی غزل سرائی میں میر کی جھلک نمایاں ہے۔ لاریب واردات قلبیہ اورامورذہنیہ کے مضامین غالب قریب قریب میر صاحب کے پر تاثیری کے ساتھ باندھ جاتے ہیں مگر حالت یہ ہے کہ ان کے مختصردیوان میں بہت کم شعر ہیں جو میر صاحب کی سادگی کلام کا لطف دکھاتے ہیں۔ زیادہ حصہ ان کے کلام کا استعارات سے بھراہواہے۔‘‘

(کاشف الحقائق جلد دوم: ۴۳۵؍)

’’واقعی جو سوز، گداز، خستگی، درد، برجستگی، نشتریت، بلند پروازی، نازک خیالی، تمکنت، متانت، جلالت، تہذیب، شوخی غالب کے کلام میں ہے ،باستثنائے درد، میر کسی استاد کے کلام میں نہیں پائی جاتی ہے۔ نشتریت توایسے غضب کی ہے کہ میر صاحب کلام میں بھی اس سے زیادہ نہ ہوگی۔ ‘‘

(کاشف الحقائق جلد دوم: ۴۳۵؍)

’’ان میں (غالب کی پیش کردہ غزلوں میں) میر صاحب کے کلام کی سادگی نہیں ہے تو بھی ا س میں غزلیت کا ایسا لطف ہے کہ کمتر استادوں کے کلام میں دیکھا جاتا ہے۔‘‘

(کاشف الحقائق جلد دوم: ۴۳۵؍)

مذکورہ بالا اقتباس میں امداد امام اثر خود تضاد کا شکار نظر آتے ہیں۔ ایک طرف توغالب کی غزل سرائی میں تمام فنی خوبیوں کو شمار کراتے ہیں اورکہتے ہیں یہ خوبی درد اور میر کے علاوہ کسی کے یہا ںنہیں ہے اور چند سطور بعد ہی نشتریت کے معاملے میں غالب کو میر پر فوقیت دے جاتے ہیں پھر سادگی کے ضمن میں غالب پرمیر کی بالادستی تسلیم کرتے ہیں۔ انھوں نے مرزا غالب کی غزل گوئی کونقائض سے ’بہت کچھ پاک‘ قرار دیا ہے۔ حالاں کہ انھوں نے کھلے طور پر یہ اعتراف کیا ہے کہ غالب صنف غزل گوئی میں درد اور میر کی شاعری تک نہیں پہنچ سکے ۔ انھوں نے درد اور میر کے بعد انھیں صنف شاعری میں استادکادرجہ دیا ہے۔

’’حقیقت یہ ہے کہ استاد غالب اردومیں بڑے شاعر گذرے ہیں۔ یوں تو بے عیب خدا کی ذات ہے مگراس پر بھی ان کی غزل سرائی معائب غزل سرائی سے بہت کچھ پاک ہے۔ لاریب ان کی غزل سرائی قریب قریب غزل سرائی کےتقاضوں کے موافق ہے۔ اگر غالب ،درد یا میرتک اس صنف شاعری میں نہیں پہنچتے ہیں تو ان دونوں استادوں کے بعد انہیں کادرجہ ہے ۔‘‘

(کاشف الحقائق جلد دوم: ۴۴۳؍)

غزل میں پُرتاثیری کے بیان میں بھی اثر نے خواجہ میر درد اور میرتقی میرکی عظمت کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’غالب کی نسبت بھی فقیرکا یہی عقیدہ ہے کہ ان کے کلام میں تاثیرعجب رنگ ڈھنگ رکھتی ہے ۔‘‘

امدادامام اثر نے تضمین میں بھی ’میرتقی میرکی غزل کی تخمیس‘ کے زیر عنوان میر کویاد کیاہے ۔ تخمیس کے تحت انھوںنے بلا کسی نقد ونظر کے میرکی ایک غزل پر امانتؔ کی تضمین کا ذکر کیا ہے ۔

مطلع

میری وحشت کاجوکچھ حال سنا میرے بعد

ہوگیا جوش جنوں حدسے سوا میرے بعد

سونا جنگل جونظراس کوپڑا میرے بعد

آکے سجادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد

نہ رہی دشت میں خالی مری جا میرے بعد

مقطع

مرگیا جبکہ امانت توپھری کچھ تقدیر

غم ہوا اس کو بہت ہوگئی حالت تغیر

جیتے جی تونہ خبرلی نہ ذرا کی تدبیر

بعدمرنے کے مری قبرپرآیاوہ میر

یادآئی مرے عیسیٰ کودوامرے بعد

 یہاں تعجب خیز امریہ ہے کہ اثر نے میرکی جس غزل پرامانت کی تضمین کا ذکر کیا ہے وہ میر کی غزل ہے ہی نہیں بلکہ وہ محمدمنور خاں غافل لکھنوی کی غزل ہے جو ان کے دیوان میںشامل ہے۔ دراصل حکیم نجم الغنی نجمی رام پوری کی کتاب’بحرالفصاحت‘ میں یہ غزل میر کے نام سے درج ہے۔ یہ کتاب پہلی بار(۱۸۸۵) میں شائع ہوئی تھی۔ دوسری دلیل معروف ڈراما نگار اندرسبھا کے خالق امانت لکھنوی کی ایک مخمس کی دی جاتی ہے جو انھوں نے میر تقی میر کی زمین کہہ کر لکھی اور اپنے شعری مجموعہ’’گل دستہ ء امانت ‘‘میں صفحہ سات پر درج کی ہے۔

آکے سجادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد

نہ رہی دشت میں خالی مری جامیرے بعد

جبکہ مقطع کا شعرکچھ اس طرح ہے :

بعدمرنے کے مری قبرپرآیاوہ میرؔ

یادآئی مرے عیسیٰ کو دوامرے بعد

دراصل مقطع میں غافلؔ کی جگہ کسی سبب میر کا تخلص جڑ گیا ہے۔ یہی نہیں اس ردیف کے تحت درج غزل میں کچھ اشعار مرزاتقی خاں ہوس لکھنوی کی غزل کے بھی شامل کردیے گئےہیں یعنی لاشعوری طورپراس میں غافل اورہوس کی غزلوںکے اشعار شامل ہوگئےہیں ۔ ڈاکٹریوسف حسین خان نے اپنی کتاب’اردوغزل ‘(مطبوعہ معارف پریس اعظم گڑھ) میں یہ غزل محمدمنورخاں غافل لکھنوی کے نام سے نقل کیا ہے ۔

اثرجیسےعظیم ناقدومحقق اورشاعر سے اس تسامح کی امیدنہیں کی جاسکتی ۔ امکان غالب ہے کہ ان کے سامنے میرکے دیوان کا وہی نسخہ رہا ہو جو فورٹ ولیم کالج سے چھپی ہے یا پھر صرف تحریف وترمیم شدہ یہی تضمین ان کے ہاتھ لگی ہو جس میں اصل شاعرکے تخلص کی جگہ میرکا تخلص مستعمل ہو۔ بہرحال اثر واحد شخص نہیں ہیں جو غچہ کھاگئے بلکہ ناصر کاظمی تودوقدم مزیدآگے بڑھ گئے ہیں۔انھوںنے رسالہ سویرا لاہورکے شمارہ نمبر ۱۹،۲۰؍ اور۲۱؍ میں شائع اپنے ایک مضمون میںغافل کی زمین پر کہی گئی ہوس لکھنوی کی غزل کے اشعار کو بھی میرکی طرف منسوب کردیا۔

اس تعلق سے دیوان میرنسخہ محمودآبادمخطوطہ ۱۲۰۳ھ بحیات میر،ترتیب وتدوین ڈاکٹر اکبرحیدری مطبورہ جموں اینڈ کشمیر اکیڈیمی آف آرٹ کلچر اینڈ لنگویجز سری نگر میں صاحب مقدمہ نگار نے ایک عنوان الحاقی کلام کا باندھا ہے اس کے تحت میرکی طرف منسوب اشعار اور غزلوں کی حوالوںکے ساتھ نشاندہی کی ہے ۔

وہ صفحہ ۷۵؍ پر الحاقی کلام واشعار کاذکرتے ہوئے حاشیے میں اصل شاعر کی نشاندہی کی ہے ۔

آکے سجادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد

نہ رہی دشت میں خالی کوئی جامیرے بعد

تیز رکھیو سرہرخار کواے دشت جنوں

شایدآجائے کوئی آبلہ پا میرے بعد

منہ پہ رکھ دامن گل روئیںگے مرغان چمن

ہرروش خاک اڑائےگی صبامیرے بعد

وہ ہوا خواہ چمن ہوں کہ چمن میں ہرصبح

پہلے میں جاتا تھا اورباد صبامیرے بعد

پہلےشعرکے تعلق سے صاحب مقدمہ نگار حاشیے میں رقم طراز ہیں:

 یہ شعر ڈاکٹر یوسف حسین نے اپنی کتاب ’اردوغزل ‘ میں ایک جگہ میرکے نام اور دوسری جگہ غافل لکھنوی کے نام منسوب کی ہے۔ ناصر کاظمی نے اپنے ایک مضمون مطبوعہ سویرالاہور نمبر ۱۹،۲۰، اور ۲۱؍ میں میرکے نام لکھاہے۔ حالاں کہ یہ غزل غافل کی ہی ہے اوران کے دیوان میں موجود ہے۔ واضح رہے کہ راقم نے ڈاکٹریوسف حسین کی کتاب اردوغزل میں جب یہ غزل ڈھونڈنےکی کوشش کی، تواسے منورخاں غافل کے نام ہی منسوب پایا۔ میرکی جن غزلوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں ’د‘ ردیف کے تحت کوئی شعر یا کلام موجودنہیں ہے۔ یہاںمحمد منورخاں غافل لکھنوی کی غزل کا دوشعر درج ہے :

آکے سجادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد

نہ رہی دشت میں خالی کوئی جامیرے بعد

گرمی بازاری الفت ہے مجھی سے ورنہ

کوئی لینے کا نہیں نام وفامیرے بعد

مظفر علی سید نے ماہِ نومئی۱۹۵۲ء میںشائع اپنے مقالے میں اسے میر کی غزل ثابت کرنے کی کوشش کی اوراسے دیوان ِ غافل میں موجود ہونے کو یہ کہہ کرمسترد کردیا کہ چونکہ ان کا دیوان ان کی وفات کے بعد شائع ہوا ہے اس لیے دوسرے شعرا کا کلام بھی غلطی سے شامل کر لیا گیا۔ مظفر علی سید نے یہ بھی لکھا:’’ غزل کا مزاج بتا رہا ہے یہ میر کی ہے‘‘۔ماہِ نو جنوری۱۹۵۳ءکے شمارے میںعطا کاکوی کا ایک مضمون شائع ہوا جس میں انھوں نے دلائل کے ساتھ مظفر علی سید کے دعویٰ کا رد کیا۔ عطا کاکوی امانت لکھنوی کی مخمس بر غزل میر تقی سے متعلق لکھتے ہیں’’ میاں امانت یا کاتب کے خیال میں شخصیت تو مرزاتقی کی تھی لیکن تحت الشعور میں میرہی بسے ہوئے تھے۔اس لیے عنوان تو رکھا مخمس سوم بر غزل تقی صاحب مگر مقطع میں میر داخل ہو گئے۔لفظ صاحب دلالت کر رہا ہے کہ امانت کے ذہن میں تقی ہوس تھے جو اس وقت زندہ تھے‘‘۔

لطف کی بات یہ ہے کہ امانت لکھنوی کی تضمین میں مرزا تقی ہوس لکھنوی کی غزل کے دواشعار شامل ہوگئےہیں۔ ان کے کلام کا انتخاب کلام ہوس میں شامل ہےجس کا مطلع اورمقطع پیش ہے:

بے کسی ہی نے نہ دنیا کو تجا میرے بعد

غم بھی مرقد پہ مرے بیٹھ رہا میرے بعد

اٹھ گیا میں جو جہانِ گزراں سے تو ہوس

خاک چھانے گی بہت بادِ صبا میرے بعد

سعادت خان ناصر نے اپنے تذکرہ ’’خوش معرکہ ء زیبا‘‘(صفحہ ۴۵۶؍ ) میںبھی ہوس کی اس غزل کے تین شعر نقل کیے ہیں جبکہ مصحفی نے بھی اپنے تذکرہ میں اس غزل کوشامل کیا ہے ۔ہمیں لگتا ہے کہ امداد امام اثر نے اس تخمیس کو میرکی طرف نسبت کرنے کےلیے امانت لکھنوی پربھروسہ جتایا ہوگا کہ وہ لکھنوکے باسی اورمستندادیب وڈراما نگار ہیں۔ ’مخمس سیوم برغزل میرتقی صاحب ‘ کے عنوان سے امانت کی یہ مخمس گلدستہ امانت کے صفحہ سات پردرج ہے ۔ہاں کلیات میر میں’د‘ ردیف کے تحت میر کی ایک غزل شامل ہے ۔یہاں اس کا مطلع اورمقطع کا ذکردلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ ؎

آوے گی میری قبر سے آواز میرے بعد

ابھریں گے عشق دل سے ترے راز میرے بعد

بیٹھاہوں میرؔ مرنے کواپنے مستعد

پیدا نہ ہوں گے مجھ سے بھی جانباز میرے بعد

حیرت ا س بات پر ہے کہ ناقدومحقق وہاب اشرفی نے بھی اپنی کتاب’ کاشف الحقائق :ایک مطالعہ ‘ میںا س تخمیس کے تعلق سے خاموشی برتی اورکوئی وضاحت نہیں پیش کی ۔

امداد امام اثر نے ’عرب کی شاعری قبل وبعد بعثت صلعم‘ کے تحت تذکرہ شعرائے عرب کے ضمن میںامرأ القیس کے قصیدہ کی خوبیوںکاتذکرہ کرتےہوئےموقع کی مناسبت سے میرتقی میرکا مندرجہ ذیل شعر نقل کیا ہے۔

جہاں آگےبہاریں ہوگئی ہیں

وہاں اب خارزاریں ہوگئی ہیں

اثرکہتےہیں کہ ’’ لطف گذشتہ کے مضمون کومیرترقی میرصاحب نےبھی خوب باندھا ہے ۔ یہ دومصرعے بہت کچھ واردات قلبیہ کی خبردیتےہیںاورتوحش واندوہ پیداکرنے کےلیے قوی آلے ہیں۔‘‘

(کاشف الحقائق ص:۱۸۴؍)

امرأ القیس کے عربی شعر

فالحقنایاالھادیا                          تو دونہ

جوارحھا فی صرۃ لم تزیّلٖ

پرتبصرہ کےدوران اثرنے امرأالقیس کی نہ صرف فن صیدافگنی سے پوری واقفیت بلکہ مذاقابھی شکارافگنی کااعتراف کیا ہے اورشعرائے اردوسے مقابلہ کرتےہوئے میرتقی اور مرزا سودا کے شکارسے متعلق منثوی پر کچھ یوں خامہ فرسائی کرتےہیں:

’’شکار کی مثنویاں جو مدح آصف الدولہ وغیرہ میرومرزا نے بھی لکھی ہیں غایت بے سروپائی سے خبردیتی ہیں مگران حضرات کی طرف سے یہ معذرت کی جاسکتی ہے کہ ایسی مثنویاں شاعری کی غرض سے نہیں لکھی گئی تھیں ان سے والیاں ملک کوخوش کرنا منظورتھا۔‘‘

کاشف الحقائق : ۲۲۴۔۲۲۵؍)

اثرنے میرتقی میرکےفن شکارسےعدم واقفیت کے سبب آصف الدولہ کی شان میں لکھی منثوی کو ایک اورمقام پرہدف تنقیدبنایاہے ۔ وہ رقم طراز ہیں:

’’واضح ہوکہ منجملہ بزمی منثویات کے میر صاحب نے ایک مثنوی لکھی ہے کہ جس میں نواب آصف الدولہ کی شکارافگنی کے حالات رقم فرماتےہیں۔ یہ مثنوی ان حضرات کی جوفن صید افگنی کے ماہرہیں کسی طرح لذت بخش نہیں ہوسکتی ہے ۔صباؔ نے بھی ایک ایسی مثنوی لکھی ہے وہ بھی مذاق صحیح نہیں رکھتے۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ میر نہ صبا دومیں کوئی صاحب بھی علم صید سے واقف نہ تھے ۔ پس ان کی اس قسم کی مثنویاں کیالطف سخن پیدا کرسکتی ہیں۔ان دونوں استادوں کی شکاری مثنویاں غایت صیدافگنی سے مطلق خبرنہیں دیتی ہیں اور نہ ان سے کسی علمی مسئلہ کی تحقیق ظہورمیں آتی ہے ۔اگر صیدافگنی سے مجرد شیروشغال کی جان لینی مراد ہے تویہ مثنویاں خوب ہیں۔‘‘

(کاشف الحقائق جلددوم: ص ۵۸۳۔۵۸۲)

اثرنے قصیدہ ،قطعہ اور رباعی کے ابواب میں میرتقی میرسے قبل اورمابعد کے شعرا کا ذکرکیا ہے مگروہ یہاں میر کے قصیدہ، قطعہ اوررباعی کے تعلق سے خاموش نظر آتے ہیں۔

فن مثنوی کے باب میں امدادامام اثر نے’میر تقی میربہ حیثیت مثنوی نگار‘ کاعنوان قائم کرکے ان کی منثوی نگاری پرجامع تبصرہ کیا ہے ۔انھوںنے میرکی عشقیہ مثنویوں دریائے عشق ،شعلہ عشق اور ساقی نامہ کے اشعار درج کرکےمیر کی مثنوی کو غزل گوئی سے کم ترقراردیا ہے اوران کی مثنوی نگاری پر غزل گوئی کی چھاپ پڑنے کی بات کہی ہے ۔دراصل وہ فضابندی کے باب میں میر کی عظمت کے قائل نظرنہیں آتے ہیں ۔انھوں نے میرکی مثنوی ساقی نامہ پرظہوری کے ساقی نامہ کونہ صرف فوقیت دی ہےبلکہ ظہوری کی مثنوی کے مقام تک بھی نہیں پہنچنے کا قول کیا ہے ۔ وہ رقم طرازہیں:

’’میر تقی میر لاریب سلطان المتغزلین تھے ۔ مگر حضرت کی مثنوی نگاری سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو درجہ غزل سرائی میں حاصل ہے وہ مثنوری نگاری میں نہیں ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کو صرف مضامین داخلی کی بندش کی بڑی قابلیت حاصل تھی لیکن مثنوی نگاری کی وہی شاعر داد دے سکتا ہے جو مضامین خارجی کی بندش پر بھی پوری قدرت رکھتا ہے۔ یہ قدرت آپ کو بہت حاصل نہ تھی۔ اس لیے آپ کی مثنویاں تمام تر داخلی پہلوکی شاعری سے خبر دیتی ہے۔ در حقیقت آپ کی مثنوی نگاری بھی مضامین کے اعتبار سے ایک قسم کی غزل سرائی نظر آتی ہے ۔ آپ کی مثنویوں میں خارجی مضامین گویا ندارد ہیں۔ کہیں آپ صحرا جنگل و جبال بحور خزاں، بہار، برق، باراں ، سر ما، گرما، طیور، وحوش، آب و سراب وغیرہ وغیرہ کے خوش آئند مضامین کو بیان نہیں فرماتے ہیں۔ اس پر بھی جس قدر آپ کی مثنویاں ہیں قابل توجہ ہیں ۔کس واسطے کہ روحانی اور قلبی معاملات کے بیانات سے مملو ہیں، جتنی عاشقانہ کیفیتیں آپ نے تحریر فرمائی ہیں، اکثر بے حیائی کی ذلتوں سے بری دکھائی دیتی ہیں ۔کمتر کوئی جزو تصنیف ایسا ہے کہ تہذیب کی آنکھیں اسے دیکھ کر شرم اٹھائیں‘‘

(کاشف الحقائق جلددوم ص ۵۸۰؍)

میرتقی میر کی مثنوی ساقی نامہ کے منتخب اشعار نقل کرنے کے بعداثرکچھ اس طرح اپنی حتمی رائے کا اظہا رکرتےہیں کہ ’’ہرچند میرصاحب نے اچھا لطف سخن دکھایا ہے مگرظہوری کے ساقی نامہ کونہیں پہنچتےہیں۔ ‘‘

مثنوی اورقصیدہ کے باب میں امدادامام اثربھلے ہی میرکی رفعت کلامی کا اعتراف نہ کریں مگرغزالی سرائی کے میدان وہ میرتقی میر کی عظمت کے سامنے نہ صرف سرتسلیم خم کرتےہیں بلکہ سودا،ناسخ،ذوق اورآتش جیسے استادالشعرا پر فوقیت دیتےہیں۔میر کے سلسلے میں وہ کئی مقامات پر تضادات کاشکاربھی ہوئے ہیں ۔وہ ایک طرف میر کو سلطان المتغزلین کہتے ہیں تو دوسری جانب ان کے پست اشعارکو ترک کرنے اور ان کے انتخابِ کلام کا مشورہ بھی دیتے ہیں۔ وہ یہ بھی اقرارکرتےہیں کہ میر سے خوبصورت کلام زبانِ اردو میں کہیں نہیں ہےیہاں تک کہ میرکے طرزتغزل کی تقلید وتتبع بھی ناممکن ہے۔ان کاکہناہے کہ میر کے کلام میں وارداتِ قلبیہ اور امورِ ذہنیہ کے باعث دلآویزی پیدا ہوئی ہے۔انھوںنے میر کو داخلیت کا شاعر قرار دیتے ہوئے ان کے شعروں میں سوز و گداز، خستگی، نشتریت، رنگینی، ملاحت، شیرینی، شوخی کو کیفیتوں کاسبب گردانتےہیں جبکہ دل گرفتگی، محزونی اور نشتریت کے معاملے میں درد پرمیر تقی میر کی عظمت تسلیم کرتے ہیں ۔ ان کے بقول میر کے سبھی معتقد ہیں لیکن نہ تو ناسخ نہ ذوق وغالب اور نہ ہی آتش ان کے تتبّع میں کامیاب ہوسکے بلکہ اثر نے سودا کی غزل گوئی پر بھی میرتقی میر کی غزل سرائی کی بالادستی تسلیم کی ہے ۔بہرحال میرشناسی کے باب میں امداد امام اثر کی خدمات آب زرسے لکھنے کے لائق ہےکہ انھوںنے جوکچھ لکھا چھانٹ پھٹک کراورمستحکم بنیادوںپر رقم کیاجس کے سبب میرشناسی کے ضمن میں اثرکی خدمات سے انکارممکن نہیں ہے ۔

خخخ

کتابیات

(۱)         کاشف الحقائق معروب بہ بہارستان سخن ،مصنف :سیدامدادامام اثر، مطبوعہ:ترقی اردوبیورنئی دہلی ۱۹۸۲ء

(۲)         کاشف الحقائق ایک مطالعہ ،مصنف :پروفیسر وہاب اشرفی، مطبوعہ :ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس دہلی ،۱۹۹۴

(۳)        دیوان میر،نسخہ محمودآباد۱۲۰۳ھ بحیات میر، مرتبہ: ڈاکٹراکبرحیدری ،مطبوعہ ،جموں اینڈ کشمیراکیڈیمی آف آرٹ اینڈلنگویجز سری نگر ۱۹۷۳ء

(۴)        کلیات میر،مطبع نول کشور لکھنو،۱۹۴۱ء

(۵)        اردوغزل،مصنف :ڈاکٹریوسف حسین خاں، مطبوعہ معارف پریس اعظم گڑھ ۱۹۷۴

(۶)         بحرالفصاحت:مولوی نجم الغنی رامپوری، مطبوعہ راجارام کمار بک ڈپووارث نول کشوربک ڈپو لکھنو،۱۹۵۷ء

(۷)        گل دستۂ امانت: امانت لکھنوی،ناشر :منشی نول کشور، لکھنؤ ،۱۸۸۷ء

(۸)        تذکرہ خوش معرکہ زیبا، مصنف :سعادت خاں ناصر،مطبوعہ:مجلس ترقی ادب، لاہور ۱۹۷۲ء

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.