شکنتلا ڈراما اور فطرت کی قربتیں
شکنتلا ڈراما اور فطرت کی قربتیں
“In this article,Shakuntala(Drama) has been seen in the context of Ecocriticism.It’s a style of study that chalanges the “Enthropocentrist” thought and removes the duality that the man has created by interfering with the environment.This play looks at the relationship between human being and environment.Unlike industrial society;in this article, elements of Wilderness Writing, Landscape Writing,Animism,Shaminism etc have been discussed.There are also some indications of ecofeminism in this play.There is also a reflection of patriarchal society in the beginning of play but it all comes to an end.A relationship of equality and love between man(Raja) and woman(Shakuntala) is established.”
آج کے انسان کے برعکس ماضی کا انسان فطرت کے زیادہ قریب تھا۔فطرت کا مشاہد ہ بھی اس قربت کی بنا پر عمیق تھا۔جوں جوں وقت گزرتا گیا انسان کے شعور نے ترقی کی منازل طے کیں۔مگر یہ ارتقا ماحول دوست ثابت نہ ہوسکا۔انسان نے اپنی سہولیات کی خاطر ماحول کو تباہ کرنا شروع کردیا۔ہیرو شیما پہ حملہ ہو یا اپنی طاقت کے اظہار کے لیے ایٹمی دھماکے یا پھر کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال،فطرت کو زخمی کیا گیا۔دوسری طرف انسان نے اپنی معاشی ضروریات اس قدر بڑھا لیں کہ اسے فطرت کی طرف توجہ کرنے کی توفیق نہ ہوئی۔اگر کوئی سیر کے لیے جاتا ہے تو فطرت کو سرسری طور پر دیکھتا ہے۔شہر کے شہر آباد ہوتے چلے جارہے ہیں۔اور ہم فطرت کے نظاروں سے دور ہوتے جارہے ہیں۔اس حوالے سے “ماحولیاتی تنقید” ایک نیا مطالعہ ہے جس نے ادب اور ماحول کے مابین رشتوں کے مطالعے کو مدِ نظر رکھا۔(1 )ماحولیاتی تنقید نےبشر مرکز فکر کو چیلنج کیا۔اس کے مطابق فطرت کےتمام افراد یکساں اہمیت کے حامل ہیں۔انسان خبطِ عظمت کا شکار ہوا تو اس نے فطرت کے ساتھ کھلواڑ کیا۔اس نے سوچا کہ و ہ فطرت کو اپنے مطابق ڈھال لے۔مگر یہ اس کی بھول تھی۔نتائج ہمارے سامنے ہیں؛بے تحاشا بارشیں،زلزلے،اوزون کی تہ میں سوراخ۔گلین اے لونے درست کہا: ہمارا مقصد فطرت کی ایسی تجدیدِ نو نہیں کہ وہ انسان کے لیے موافق ہو۔انسان کو فطرت کے مطابق بنانا ہمارا نصب العین ہے۔(2 )
ماحولیاتی تنقید کے تناظر میں اردو میں کیا تخلیقات ہمارے سامنے آئیں اس پر سیر حاصل گفتگو کی جاسکتی ہے۔سرِ دست میرے سامنے ہندوستانی ادب کا شاہ کار ڈراما”شکنتلا” میرے سامنے موجود ہے۔اردو ادب کے قارئین یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ کالی داس کا لکھا ہوا یہ ڈراما کلاسیکی لحاظ سے اہم ہے۔اس کا انگریزی میں ترجمہ ولیم جونسن نے 1889ءمیں کیا تھا ۔(3 )1801ءمیں اس کا اردو ترجمہ کاظم علی جوان نے فورٹ ولیم کالج کے زیرِ نگرانی کیا تھا۔(4 )میرے سامنے جو ترجمہ موجود ہے وہ اختر حسین رائے پوری نے کیا ہے۔(5 )ڈرامے میں مجھے فطرت کے عناصر نظر آئے تو سوچاکہ اس پر ماحولیاتی حوالے سے کام کیا جائے۔
راجا جب جب شکار کرتے ہوئے تپ بن کی طرف جاتا ہے تو فورا قاری کا ذہن “بن نگاری”(wilderness writing) کی طرف چلا جاتا ہے۔بن نگاری میں “صنعتی معاشرے کی شہری زندگی کے برعکس غیر آباد خطوں کی تصویر کشی کی جاتی ہے۔”(6 )درامے کی ابتدا میں ایک گانے والی سوتر دھار کے کہنے پر گاتی ہے”سرس کے پھولوں کو بہت نزاکت سے توڑ کر سندریاں کانوں کے لیے جھومر بنا رہی ہیں۔ان کے زرتار کتنے حسین ہیں۔اور انھیں بھنوروں نے ابھی ابھی چوما ہے۔”(7 ) تپ بن میں انسان بس رہے ہیں اور ان کا فطرت سےرشتہ قربت پر مبنی ہے۔اس مشاہدے کی گہرائی دیکھیے کہ انھیں بھنوروں کے بوسوں کا اندازہ ہورہا ہے۔
راجا اور اس کا رتھ بان جب بن میں پہنچتے ہیں تو رشی انھیں بتاتا ہے کی رِشی شکنتلا پر آنے والی بپتا کی روک تھام کے لیے سوم تیرتھ گئے ہیں۔راجا اسے بتاتا ہے:”سلوں کی چکناہٹ بتا رہی ہے کہ ان پر مالکنگنی کے پھل توڑے جاتے ہیں۔”(8 )انسان جس ماحول میں رہتا ہے تو اس کی اشیا سے مانوس ہوجاتا ہے۔اس ماحول کی اشیا اس کے لیے عام سی حیثیت رکھتی ہیں۔اب اگر راجا کا مالکنگنی کے رس کے بارے میں یقینی اندازہ لگانا ہمارے لیے باعثِ حیرت ہے تو راجا کے لیے بالکل نہیں ہے۔مگر یہ کہنا بجا ہے کہ اس وقت کا انسان فطرت کے قریب تھا۔اس بات کو “راعیانیت”pastoralism))کے زمرے میں دیکھنا بعید ازقیاس نہیں ہے۔راعیانیت”فطرت سے قربت اور فطرت کے براہِ راست مشاہدے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔”(9 )
فطرت سے قربت کی بنا پر اس وقت کا ادب فطرت کے مظاہر کو تشبیہ اور استعارے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔جیسے راجا بن کی کنواریوں کو دیکھتا ہے،جو بن کے پودوں کو پانی دے رہی ہیں تو کہتا ہے کہ چمن کی بیلیں جنگلی بیلوں سے آنکھ نہیں ملا سکتیں۔(10)اس استعارے نے شہری اور دیہاتی زندگی کے فرق کو نمایاں کر دیا ہے۔
کرسٹوفر مینز جانوروں اور پرندوں کی زبان سیکھنے کو احسن قرار دیتا ہے۔(11)تو دوسری طرف “مظاہر پسندی” (animism)اس بات کی طرف مائل کرتی ہے کہ فطرت کے تمام مظاہر ذی روح ہیں۔(12)اگر چہ اسے اساطیری انداز میں دیکھا جاسکتا ہے مگر اب یہ ماحولیاتی تنقید میں اہمیت اختیار کر گئی ہے۔علامہ اقبال نے بھی سکوتِ گل و لالہ سے کلام کرنے کا کہا تھا۔جب ڈرامے شکنتلا کا ذکر آتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ اس کا پھولوں سے بہناپے کا رشتہ ہے۔(13)اسی طرح اس کی سکھی اس سے کہتی ہےکہ پل بھر تم یہیں کھڑی رہو کہ تمھاری قربت پہ گمان ہوتا ہے کہ اس مولسری کو دل لگانے کے لیےایک بیل مل گئی ہے(14)اس طرح جب شکنتلا رخصت ہوتی ہے تو رشی سے کہتی ہے:”یہ ہرنی جو حمل کی وجہ سے کٹیا کے پاس سے آہستہ سے گزر رہی ہے،جب یہ بچے جن دے تو مجھے سندیسا بھیجنا ۔(15)یہاں انسان اور فطرت کی دوستی کو خوب صورتی سے بیان کیا گیا ہے۔آج کا انسان تو دیواروں،سڑکوں اور اونچے اونچے محلات سے گفتگو کرتا ہے۔فطرت کے سامان کہاں میسر ہیں۔اگر کچھ دیر کے لیے فطرت اسے میسر ہوتی بھی ہے تو انسان اور فطرت کے درمیان اجنبیت آجاتی ہے۔
ندی کے کنارے بیلوں کا کنج ہے۔اور راجا ،شکنتلا کی محبت میں گم اسے تلاش کرتا ہےتو کہتا ہے:”میں سمجھتا ہوں کہ و ہ سیم تن ابھی ان ننھے پودوں کے جھنڈسے گزری ہے۔جن ڈنتھلوں سے پھول توڑے گئے ہیں ان کے گھاؤ ابھی ہرے ہیں۔اور جن سے پتیاں توڑی گئی ہیں ان کی کوروں سے اب بھی دودھ کی بوندیں چھلک رہی ہیں۔(16)ایک طرف محبوب کا فراق ہے تو دوسری جانب فطرت کی قربت۔عاشق اپنے محبوب کے راستوں کوفطرت کی مددسے تلاش کر رہا ہے۔
اس ڈرامے میں بشر مرکزیت (anthropocenterism)کے عناصر خال خال ہی نظر آتے ہیں۔بل کہ فطرت کے معصومیت کی حفاظت کے عناصر ملتے ہیں۔جب راجا اور رتھ بان تپ بن میں پہنچتے ہیں اور ہرن کا شکار کرنا چاہتے ہیں تو وہاں کا مادھو انھیں کہتا ہے :”آشرم کا ہرن کشتنی نہیں ہے۔”(17)محبت انسان کے وجود میں انقلاب لے آتی ہے ۔جب راجا شکنتلا کی محبت میں مجذوب سا بن جاتا ہےتو سپہ سالارسے کہتا ہے:”بھینسوں کو تالاب کے پانی میں ڈبکی لگانے دو۔ہرنوں کو گھنی چھاؤں میں سبھا رچانے دو۔اور اتھلی جھیلوں میں سوروں کو گڑھے کھودنے دو۔”(18)محبوب کا تصوراوراس کا فراق راجا کو بے کل کردیتا ہے۔مگر یہ بے کلی فطرت کے لیے رحمت بن جاتی ہے۔انسان کا تخریبی کردار رک جاتا ہے۔دل یہ کہتا ہے کہ فطرت کے دشمن کو راجا کی طرح کسی سے محبت ہواور وہ اس کے فراق میں ہلکان ہوجائے۔پھر اسے فطرت کے بے کس معصوم افراد پہ ظلم کرنے کا موقع نہ ملے۔یہ المیہ (راجا کے لیے ہے ) فطرت کے عاشقوں کے لیے طربیہ ہے۔
بن میں کھڑے ہوکر راجا،شکنتلا کی باتیں سنتا ہےجو وہ سکھیوں سے کہ رہی ہوتی ہے کہ اسے راجا سے محبت ہوگئی ہے۔اگر چہ وہ ہجر کے صدمے برداشت کر رہا تھا،لیکن یہ الفاظ اس کے لیے حیات بخش بن جاتے ہیں۔اس لیے وہ موسم کے تناظرمیں تشبیہ لاتا ہے۔”عشق نے درد دیا اور پھر اس کا مداوا بھی دیا۔جیسے ساون کا دل گھمس سے بے کل ہوجاتا ہےپھر کالی گھٹا لا کر چین بھی پہنچاتا ہے۔(19)ماحولیاتی تنقید میں منظر نگاری کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔”یہ محدود قطعہء زمین پر جلوہ افروز فطرت پہ بات کرتی ہے”۔(20)موسم بھی کسی خاص علاقے کا اہم جزو ہے۔ساون تو ہندی ادب کا اہم جزو ہے۔راجا نے اسی موسم کا ذکر کیا ہے جسے مقاماتی ادب کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے۔(21)چوں کہ مقاماتی ادب مخصوص مقام کے فطری مظاہر ،حالات و خصوصیات اوران کے انسان سے تعامل پہ بات کرتا ہےےتو ساون بھی ہمارے مخصوص جغرافیائی اور موسمیاتی پس منظر میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔برِصغیر کے لوگ جانتے ہیں کہ ساون میں حبس بڑھنے سے کس طرح سانس لینا دوبھر ہوجاتا ہے۔مگر جب ساون برستا ہے توانسان کے سارے غم دور ہوجاتے ہیں۔
اس ڈرامے میں راجا چتر کار سے کہتاہے :”مالتی ندی کا ایک منظر بنانا ہےجس کی ریتی پر ہنس کے جوڑے کلیلیں بھر رہے ہوں۔دونوں طرف ہمالیہ کی پہاڑیاں پھیلی ہوں۔اور ان پر ہرنوں کے جھنڈ جگالی کررہے ہوں۔میں یہ بھی چاپتا ہوں کہ ایک ایسا پیڑ دکھایا جائےجس کی ڈھال پہ جھال کے کپڑے سوکھ رہے ہوں۔اور نیچے ہرنی اپنی بائیں آنکھ کسی کالے ہرن کے سینگ سے کھجا رہی ہو۔”(22)اس عبارت کو منظر نگاری(landsccape writing) کے زمرے مین رکھا جاسکتا ہے۔یہ منظر نگاری مقامی جغرافیے کا ذکر کرتی نظر آتی ہے۔جس میں ہنس،ہمالیہ کی پہاڑیاں اور ہرن ہیں۔پورا منظر ہماری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔منظر نگار اور مصور ایک ہی صفحے پر نظر آتے ہیں۔
کرسٹوفر مینز کے بقول مظاہر پسند ی معاشروں کے لیے استحکام کا باعث ہے۔جیسا کہ اس نے زمانہ قبل مسیح میں ہمارے معاشرے کواستحکام اور تقویت دی تھی۔اس کا یہ بھی کہنا ہے کی جدیدتکنیکی معاشروں میں مظاہر پرستی کا ایک لطیف سا عکس موجودہے۔کاروں اور کھیلوں کے نام جانوروں کے نام پہ رکھنے اور گڑیاؤں اورجانوروں سے بات کرنے والوں کو بیمار ذہنیت کاحامل نہیں سمجھا جاتا۔(23)اس ڈرامے میں ہمیں مظاہر پسندی کے واقعات بھی ملتے ہیں اور فطری محسوس ہوتے ہیں۔جیسے راجا کا یہ کہنا :”ارے دیوانے تیری بھنوری اس پھول پہ بیٹھی تیرا انتظار کر رہی ہے۔تیرے بنا اس سےرس نہیں پیا جاتا”۔(24)اسی طرح یہ بھی کہتا ہے:”اگر تو ان ہونٹوں کو چھونے کا جتن کرے گاتو تجھے کنول کے دل کے اندر بند کر دوں گا۔”(25)یہاں راجا بھنورے سے گفتگو کر رہا ہے۔یہ مظاہر پرستی کے خوب صورت نمونے ہیں۔پورے ڈرامے کے لینڈ سکیپ کو ذہن میں لائیے تو بن،پہاڑ،ہرن،پھول،بھنورے،کنواریاں اور وہاں راجا کی موجودگی۔۔۔اس دور کی یاد گاریں ہیں جب انسان صنعتی انقلاب کاخواب بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔اس وقت اسے فطرت سے گفتگو کے مواقع بھی ملتے تھے۔اس لیے وہ فطرت شناس تھا۔اس منظر کو دیکھیے تو راجا کی بھنورے سےگفتگو فطری نظرآتی ہے۔اختر حسین رائے پوری نے فٹ نوٹ میں بتایا ہےکہ شام کوجب کنول کامنھ بند ہوتا ہےکبھی کبھی اس پہ بیٹھا ہوا بھنورا اس کے اندر رہ جاتا ہے اور صبح تک وہیں گرفتار رہتا ہے۔یہ مشاہدہ فطرت کی قربت اور اس کے مشاہدے پردال ہےجو آج سے سینکڑوں سال پہلے کیا گیا تھا۔
اس ڈرامے میں شمن پرستی shaminismکے عناصر بھی ملتے ہیں۔شمن پرستی کا تعلق ماورائی دنیا سے ہے۔کرسٹوفر مینز نے بھی اپنے مضمون میں اس کا ذکر کیا ہے۔ہندی دیومالاتو اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔اس ڈرامے میں مادھو خون میں لت پت پڑا ہوتا ہے۔عرض بیگن کو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کسی بھوت پریت کا اثر ہے۔وہ راجا کو بتاتی ہے:”اس (بھوت پریت)مادھو کی مشکیں کس کر میگھ بھون کی منڈیر پر ڈال دیا ہے۔(26)پسِ پردہ راجا کو آواز سنائی دیتی ہے کہ میں تیرے خون کا پیاسا ہوں۔تجھے کھا جاؤں گا۔(27)لیکن راجا گھبراتا نہیں ہے۔بعد میں اس پہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ماتلی ہے جو اندر دیوتا کا رتھ بان ہے۔اسے اندر نے راجا کے ہاں بھیجا تھاتاکہ راکششوں پر حملہ کرےکیوں کہ اِندر بھگوان ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا۔یوں اس ڈرامے کا تعلق اس دنیا سے جا ملتا ہے جس کا تعلق ہمارے حواسِ خمسہ سے نہیں ہے۔یہاں راجا اند ربھگوان سے رشتہ جوڑے ہوئے ہے۔اور ماتلی کی ذریعے اس کی ملاقات اپنی بچھڑی ہوئی بیوی سے ہوتی ہے۔اس طرح ایک چیلے کا واقعہ بھی ہماری نظروں سے گزرتا ہےوہ کہتا کہ ہم دونوں ابھی گل چینی کر رہے تھے کی کسی پیڑ نے ہماری طرف دوپٹا ہلایاجو چاندنی کی طرح سفید ہے۔ایک نے مہاور ٹپکایا جس سے پاؤں رنگے جاتے ہیں۔پریوں نے ہماری طرف رنگ برنگے گہنے بڑھا دیے۔ان کی کلائیاں لچیلی ٹہنیوں کی طرح تھیں(28)یہاں پودے کام بھی کرتے ہیں اور پریاں گہنے بھی دیتی ہیں۔پریوں کی کلائیوں کو لچیلی ٹہنیوں سے تشبیہ دینا بھی فطرت سے قربت کا اشارہ ہے۔
نسترن احسن فتیحی کا کہنا ہے:”سترھویں صدی کے سائنسی انقلاب نےنہ صرف ماحولیاتی نظام کو درہم برہم کردیا بل کہ مادرِ ارض کو ایسے مشینی استعارہ میں بدل دیا جو مردوں کے غلبے میں ہے۔ایکو فیمینسٹ ادب کا مرکز استحصال اور تسلط کے اردگرد گھومتا ہے۔جہان فطرت اور عورت دونوں مادرنٹی کے جبر کا شکارنظر آتے ہیں۔اس ڈرامے کا مطالعہ کیا جائے تواس میں نہ صرف ہمیں فطرت کے عناصر سے محبت نظر آتی ہے بل کہ اس وقت کی زمین قریب قریب انسانی تخریبی سرگرمیوں سے محفوظ نظر آتی ہے۔فطرت انسان کے جبر سے آزاد ہوتی ہے۔جہاں تک عورت پہ جبر کا تعلق ہے فتیحی کے بقول:”یہ پدر سری معاشرہ تھا اور ماضی قریب کا ہندوستانی سماج رسوم رواج کی زنجیروں میں جکڑ اہوا تھا۔توہمات گلے کا ہار تھے۔ایسے میں عورت حد درجہ مظلوم تھی۔(30)مزید ان کا کہنا ہے کہ پدر سری سوچ نے ہر بری چیز کو ڈائن قرار دیا۔اور خواتین کو ڈائن ہونے کے الزام میں قتل کردیا گیا۔(31)اگر ڈرامے کا مطالعہ کیا جائے تو راجا ،شکنتلا کے عشق میں مبتلا ہوجاتا ہے۔شکنتلا راجا سے منسوب ہونے کے کافی عرصے بعد راجا کے دربار میں جاتی ہے تو وہ اسے پہچاننے سے انکار کردیتا ہےاور دربار سے نکال دیتا ہے۔یہاں بشر مرکزی فکر نظر آتی ہے۔ڈرامے کے آخر میں وہ نہ صرف شکنتلا سے معافی مانگتا ہے بل کہ ان کے درمیان محبت اور برابری کا تعلق قائم ہوجاتا ہے۔یوں پدر سری سوچ انا کی بلندی سے اتر کر عورت کی ذات کے برابر کھڑی ہوجاتی ہے۔ڈراما اختتام پذیر ہوجاتا ہے۔
الغرض یہ ڈراما اپنے اندرفطرت کی خوب صورتی،نازکی،پاکیزگی اور منظر نگاری کے تمام عناصر کو سامنے لاتا ہے۔انسان فطرت سے باتیں کرتے نظر آتے ہیں۔انسان اور فطرت کے درمیان رشتہ،خونی رشتے کی طرح ہوتا ہے۔فطرت کے مظاہر کی باریکیاں بھی ہمارے سامنے اتی ہیں۔مثال کے طور پر جل سوسن اور چاند،سورج اور کنول،چکور اور چکوری،بھنورا اور کنول۔یہ باتیں ایک طرف فطرت سے قربت کو ظاہر کرتی ہیں تو دوسری طرف ان کو تشبیہات اور استعارات کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔قاری کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔جیسے جل سوسن کا کھلنا اور چاند کی موجودگی۔جب چاند غروب ہوتا ہے تو جل سوسن بھی مسکرانا چھوڑ دیتا ہے۔اس طرح کنول کا کھلنا سورج کی موجودگی پر موقوف ہے۔چکور اور چکوری کا رات کو فراق ہونا؛بھنورے کا کنول کے رس کو چوستے ہوئے اس میں بند ہوجانا،فطرت کے دل آویز مظاہر ہیں جن تک کالی داس کی رسائی تھی۔ماورائی دنیا سے تعلق بھی اس ڈرامے کا موضوع ہے۔ماتلی کا سادھو کو زخمی کرنا اور راجا کو غصہ دلانا،اندر بھگوان کے رتھ میں اڑنا،پریوں کا گہنے پیش کرنا ایسے واقعات ہیں جن کا تعلق اس دنیا سے نہیں ہے۔مگر مصنف نے اپنی تخلیق میں شامل کرکے اسے دل چسپ بنا دیا ہے۔ماحولیاتی نقاداس مظہر کوا ہمیت دیتے ہیں۔اس ڈرامے فطرت کے جانداروں سے تعارف بھی کرایا گیا ہے۔جن میں مولسری،بھنورا،مالکنگنی،ہنس،چکور،چکوری،ہرن،جل سوسن اور چنبیلی وغیرہ شامل ہیں۔شفق،چاند،سورج،پہاڑ،آسمان اور پانی وغیرہ فطرت کے غیر جان دار عناصر ہیں۔یہ سب مل کر ڈرامے کا ماحولیاتی نظام بناتے ہیں۔مولسری،بھنورا،چکور،چکوری وغیرہ اس خاص خطے کی طرف اشارہ کرتے ہیں جہاں ڈراما لکھا گیا ہے۔اس کے علاوہ ماحولیاتی تنقید ٹیکنالوجی کی حامل جدید معیشتوں کو ماحولیاتی بحران اور وسائل کی کمی کا ذمہ دار ٹھیراتی ہے۔وسائل کی کمی اور ماحولیاتی مسائل کا سبب انسانی آبادی کو قرار دیتی ہے۔جس وقت یہ ڈراما لکھا گیا اس وقت آبادی کم تھی۔شکنتلا کے مناظر صاف ستھرے نظر آتے ہیں۔شکنتلا کا پھولوں سے بہناپے کا رشتہ بھی اس دور کی دین ہے۔سکھیوں کاپودوں کو جاں فشانی سے پانی دینا بھی فطرت سے محبت کا منھ بولتا ثبوت ہے۔آبادی کی کمی کی وجہ سے تخلیق کار کے سامنے لینڈ سکیپ کے وسیع و عریض سلسلے تھےالغرض آج کے تناظر میں شکنتلا ہمارے لیے فطرت سے محبت اور اس کی حفاظت کا استعارہ ہے۔
حوالہ جات
1۔ اورنگ زیب نیازی،ڈاکٹر،ماحولیاتی تنقید:نظریہ اور عمل،لاہور:اردو سائنس بورڈ،اپر مال ،2019،ص 8
2۔ ایضا ص 85،
3۔ سلیم اختر،ڈاکٹر،اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ،لاہور:سنگ میل پبلی کیشنز،2013،ص 673۔77
4۔ جمیل جالبی،ڈاکٹر،تاریخِ ادبِ اردو، جلد سوم،لاہور،:مجلسِ ترقئ ادب اردو،2008،ص525
5۔ اختر حسین رائے پوری،(مترجم)،دہلی:انجمن ترقئ اردو،1923
6۔ اورنگ زیب نیازی،ڈاکٹر،ماحولیاتی تنقید:نظریہ اور عمل،ص 235
7۔ اختر حسین رائے پوری،(مترجم)شکنتلا،ص8
8۔ ایضاً ،ص14
9۔ اورنگ زیب نیازی،ڈاکٹر،ماحولیاتی تنقید:نظریہ اور عمل،ص238
10۔ اختر حسین رائے پوری،(مترجم)شکنتلا،ص15
11۔ اورنگ زیب نیازی،ڈاکٹر،ماحولیاتی تنقید:نظریہ اور عمل،ص55
12۔ ایضاً ،ص242
13۔ اختر حسین رائے پوری،(مترجم)شکنتلا ص 65
14۔ اختر حسین رائے پوری،(مترجم)شکنتلا ص 15
15۔ ایضاً
16۔ ایضاً،ص 140
17۔ ایضاً،ص 12
18۔ ایضاً ،ص 30
19۔ ایضاً ص 44
20۔ اورنگ زیب نیازی،ڈاکٹر،ماحولیاتی تنقید:نظریہ اور عمل،ص241
21۔ ایضاً،ص242
22۔ اختر حسین رائے پوری،(مترجم)شکنتلا ص 102،102
23۔ اورنگ زیب نیازی،ڈاکٹر،ماحولیاتی تنقید:نظریہ اور عمل،ص55
24۔ اختر حسین رائے پوری،(مترجم)شکنتلا ص102
25۔ ایضاً
26۔ ایضاً،س 108
27۔ اختر حسین رائے پوری،(مترجم)شکنتلا ص
28۔ ایضاً ،ص 61
29۔ نسترن احسن فتیحی،ایکو فیمنزم اور عصری تانیثی افسانہ،دہلی:ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،2016،ص 64
30۔ ایضاً ،ص50
31۔ ایضاً،ص48
ظہور احمد (میانوالی)
[پی ایچ ڈی اردو سکالر]
قرطبہ یونی ورسٹی آف سائنس اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی،
پشاور، پاکستان
Leave a Reply
Be the First to Comment!