راجند سنگھ بیدی اور ایک چادر میلی سیا

راجندر سنگھ بیدی بنیادی طور پر ترقی پسند افسانہ نگار ہیں۔کرشن چندر ،منٹو، عصمت چغتائی جیسے مشہور افسانہ نگاروں میں بیدی کا شمار ہوتا ہے۔بیدی افسانہ نگاروں کی فہرست میں تو پیش پیش نظر آتے ہیںلیکن ناول نگار کی حیثیت سے دیکھا جائے تو بیدی کو وہ عزت اور مقبلویت حاصل نہیں ہوپائی جو افسانہ نگاری کے میدان میں حاصل ہوتی ہے۔اس کی ایک خاص وجہ یہ بھی تھی کہ بیدی کہ ناول ’’ایک چادر میلی سی‘‘ کے بارے میں اردو ادب کے ناقدین کی مختلف رائے تھی۔کسی نے اسے ناول کا درجہ دیا تو کسی نے اس کوناولٹ کے نام سے پکارا اور کسی نے اسے طویل افسانے میں شمار کیا۔اس کی ایک خاص وجہ ناول کے اصول و تراکیب بھی تھے۔لہذا ’’ایک چادر میلی سی ‘‘کو الگ الگ ناموں سے پہچانا جانے لگا۔
دراصل ناول کا کینوس وسیع ہوتاہے اور اس میں کرداروں کی کوئی قید نہیں ہوتی۔اور زندگی کے زیادہ تر سماجی مسائل کو ناول کے اندر پیش کیا جاتا ہے۔ناول کی بنسبت ناولٹ موضوعاتی اعتبار سے چھوٹا ہوتا ہے۔جس میں مخصوص مواد اور خاص کرداروں کی مدد سے ناولٹ کی نقاشی کی جاتی ہے۔جس کی وجہ سے ناول ناولٹ اور افسانے کی درمیانی شکل اختیار کرلیتا ہے۔راجندر سنگھ بیدی کے ناول ایک چادر میلی سی کے بارے میں پروفیسر قمر رئیس اپنی کتاب’’ اردو میں بیسویں صدی کا افسانوی ادب میں لکھتے ہیں
’’بہت سے افسانہ نگاروں کی کہانیاں طویل تر ہوکر ناولٹ بنتی نظرآتی ہیں ۔مثال کے طورپرراجندر سنگھ بیدی کا ’’ ایک چادر میلی سی‘‘بلونت سنگھ کا ’’ ایک معمولی لڑکی‘‘، جیلانی بانوکا’’جگنواورستارے‘‘سہیل عظیم آبادی کا’’ بے جڑ کے پودے‘‘ قراۃ العین حیدر کا ’’ ہائوسنگ سوسائٹی‘‘ اور جوگیندر پال کا’’ بیانات‘‘۔
بیدی ایک فنکارانہ حیثیت کے حامل تھے۔ان کا تخلیقی دائرہ بہت وسیع تھا۔وہ کرشن چندر کی طرح کسی مخصوص خطے کی گردش نہیں کرتے۔اور نہ ہی منٹو کی طرح نسوانی فحش نگاری کے قائل تھے۔عصمت چغتائی بھی بس عورتوں پر ہورہے مظالم اوراستحصالِ حقوق کی آئینہ دار نظرآتی ہیں۔لیکن بیدی کی تخلیقی قوت تخلیقی کائنات میں ارتقائی کیفیت پیدا کرتی ہے۔اور تغیری عناصر کو واضح بھی کرتی ہے۔بیدی کی کہانیوں میں جنس اور حقیقت کے لوازمات بنیادی عنصر تھے۔بیدی منٹو کی طرح برہنگی اختیار نہیں کرتے بلکہ سماجی نا انصافیوں ،محرومیوں اور ظلم و ستم کے پسِ پشت جذبوں کو منظرِ عام پر لاتے ہیں۔وہ تمام تر حالات کا تجزیہ بھی کرتے ہیںجس کی وجہ سے بیدی کی فنکارانہ شخصیت عظیم تر ہوجاتی ہے۔بیدی نے اپنے ناول ایک چادر میلی سی میں حقیقت نگاری سے کام کیا ہے ۔جس کی وجہ سے پنجاب کے دیہات کی تہذیبی اور ثقافتی صورتِ حال ابھرکرسامنے آتی ہے جس سے قاری کا ذہن بھی متاثر ہوجاتا ہے۔
’’ایک چادر میلی سی‘‘ راجندر سنگھ بیدی کا اول اور آخر ناول ہے۔یہ ناول پنجاب کے دیہات کے پس ماندہ معاشرے اور سنگھ گھرانے کے معاشی حالات کی نشاندہی کرتا ہے۔پورا ناول پنجاب کے کوٹلہ گائوں کے تانگے والے کی بیوی رانو پر محیط ہے۔رانوںایک چادر میلی سی کا مرکزی کردار ہے۔اس کا ایک دیور ہے جسے وہ اپنی اولاد کی طرح چاہتی ہے۔وہ تین بچوں کی ماں بھی ہے۔رانو کے ساس سسر بھی ہیں۔پریشانی کا سبب یہ ہے کہ رانوکا میاں تلوکا کو شراب کی لت ہے اور شراب کے نشے میں بیوی اور گھر والوں سے مارپیٹ بھی کرتا ہے۔رانو پر ستم بالائے ستم ڈھاتا ہے۔تلوکا ایک بد اخلاق کردار ہے۔وہ بھولی بھالی لڑکیوں کو ساہوکاروں اور زمینداروں کے پاس لے جاتا ہے۔ان ہی بد کاموں کی وجہ سے ایک دن تلوکا کا قتل ہوجاتا ہے اور رانو بیوہ ہوجاتی ہے۔‘‘
بیوہ عورت کو ہندوستانی سماج کی نظروں میں بہت خراب سمجھا جاتا ہے۔راجندر سنگھ بیدی نے ایسی ہی صورتِ حال کو اپنے ناول ایک چادر میلی سی کا موضوع بنایا ہے۔حد تو یہ ہوتی ہے کہ پھر اسی کے دیور منگل سے شادی کرنے کی تجویز رکھی جاتی ہے۔وہ منگل جس کو رانو نے اپنی اولاد کی طرح پالا تھا۔اب اسی منگل کو رانو اپنے شوہر کے طور پر کس طرح قبول کرے؟ یہ میلی سی چادر اوڑھنا رانو کی مجبوری بن جاتی ہے۔یہ میلی چادر ظاہری طور پر حفاظت کی علامت ہے۔رانو وقت اور حالات کے ساتھ خود کو ڈھال لیتی ہے اور پھر وہ مجبوراً منگل کو اپنا شوہر تسلیم کرلیتی ہے۔رانو کا کردار صبروتحمل کی عمدہ مثال ہے۔جس میں جوش وجذبہ بھی ہے اور غصے کے ساتھ محبت کی چاشنی بھی ہے۔رانو ایک ماں بیوی بہویا یوں کہو کہ ایک مکمل عورت کی شکل میںابھر کر سامنے آتی ہے۔ان تمام تر خوبیوں کی ملی جلی کیفیت اور نفسیات کو بیدی نے بہت ہی دلکش انداز میں پیش کیا ہے۔
بیدی کی کہانیوںمیں پلاٹ کتنے ہی قسم کا کیوں نہ ہومگر ان کے کرداروں میں عورت کا کردار مقرر کر دیا گیا ہے جیسے ایک چادر میلی سی کی رانو لاجونتی کی لاجو اور اپنے دکھ مجھے دے دو کی اندوایک امر کردار کی صورت میں نظرآتے ہیں۔اس کے بعد وہ عورت کے کسی بھی پہلو کو اپنی کہانی کا موضوع بنا سکتے ہیں۔بیدی نے رانو کے کردار کو اتنا حقیقی بناکر پیش کیا ہے کہ اگر ہم اس کردار کو ناول ’’ امرائو جان ‘‘ اور گئو دان’’ کی دھنیاسے ملاکر دیکھیں تو بے جا نہ ہوگا۔رانو کا کردار اتنا امر ہوجاتا ہے کہ اایک جگہ شمیم نکہت لکھتی ہیں۔
’’اس میں ہندوستانی عورتوں کی ساری امنگوں اور آرزومندیوں کو مجسم کردیا ہے۔پھر اسے مردوں کی بنائی ہوئیایک ایسی جہنم میں چھوڑدیا ہے جسے سماج کہتے ہیں۔ پسماندگی،جہالت اور عسرت کو خاموشی سے رہنے والا جو اپنی ذلت و محرومیوں کا انتقا م اس عورت سے لینے آیا ہے جو جنتی ہے۔جس کے دل میں ایثار ہے۔ہمدردی اور محبت کی موجیں اس طرح امنڈتی ہیں کہ بے کنار سمندر بھی پناہ مانگتا ہے جو اس دھرتی پر قدرت کی سب سے حسین تخلیق ہے۔‘‘
بیدی اپنی کہانیوں کو پریم چندر کی طرح ساہوکاروں کے جبراًاستحصال اور مظالم کی حدوں تک محدود کر سکتے تھے۔مگر بیدی کی نظروں میں ظلم محض ظلم ہے پھر چاہے وہ کسی بھی درجے کا ہو یا کسی بھی شکل میں۔وہ ان تمام تر پریشانیوں سے نجات دلانے کی راہیں ہموار کرتے ہیں ان کی ہر تخلیق میں راستہ بے معنی پوشیدہ ہوتا ہے۔بیدی افسانہ نگار ہوں یا ناول کے تخلیق کار، ان کی ان ہیں تخلیقی کاوشوں کو پڑھ کر کرشن چندر نے بیدی سے کہا تھا کہ ’’ تم نہیں جانتے کہ تم نے کیا لکھ ڈالا۔‘‘ اور خوشونت سنگھ بھی اس ناول ’’ ایک چادر میلی سی‘‘ سے اتنا متاثر ہوئے کہ اس کا انگریزی میں ’’Take thsi woman‘‘کے نام سے ترجمہ کردیا۔
بیدی کے تخلیقی زاویے انسان کے ذہنی رویوں اور ان کی باطنی کشمکش سے الگ نہیں ہوتے۔بلکہ ان حالات و جذبات کوایک چادر میلی سی کی بنیاد بنا لیتے ہیں۔ہمیں ناولٹ ایک چادر میلی سی میں وہ سب کچھ حاصل ہوتا ہے جو بیدی کے فن کی ساخت ہے۔معاشرت ، فطرت اور ماحول سے پریشان لوگ رشتوں کی پاکیزگی ،ان رشتوں کی عزت اور اہمیت اور پھر ان ہی رشتوں کی بے قدری ،حد درجہ کی غریبی اور پھر ساہوکاروں اور امیروں کے ہاتھوں غریبوں کااستحصال،غریبوں کے ہاتھوں بھی غریبوں کی بے حرمتی قتل وغارت گری ، دھوکہ اور مکاری وغیرہ راجندر سنگھ بیدی کی کہانیوں میں نمایاں طور پر اجاگر ہوتے ہیں۔بیدی کی تخلیقی کاوش بے مثال اور یکتا ئے اثر نظرآتی ہے۔ان میں اعلی سطحی تخلیق بھی موجود لیکن کہیں کہیں خامیاں بھی کثرت سے نظرآتی ہیں۔ناول ایک چادر میلی سی دراصل خلافِ قائدہ اور خلاف معمول ہوتا نظرآتاہے ۔بیدی کی بیشتر تخلیقوں میں بہت سے کردار، موضوعات، تخیل ،نئے تجربات اور نظریاتی زاویہ بے معنی ہوجاتے ہیں۔ایک چادر میلی سی میں بھی بیدی نے بہت سی کمیوں کو نظرانداز کیا ہے۔مثلا رانو کی اولاد جیسے دیور منگل سے شادی سماج اور رشتوں کے خلاف نظرآتا ہے۔ہندوستانی سماج اور مذاہب میں اکثر ایساہوتا نظرآیا ہے مگر بیدی ناول ’’ ایک چادر میلی سی‘‘ کے ابتدائی دور میں رشتوں میںشدید چاشنی پیدا کردیتے ہیں۔پھر ان رشتوں میں بے ثباتی یا تغیر پزیری کی کوئی جگہ باقی نہیں رہ جاتی ۔بیدی کی جدت نگاری کہیں کہیں کمزور نظرآتی ہے۔وہ جدت نگاری کی دلدل میں پھنس کر ممتا کے رشتے،محبت و جذبات ،فکرو فن کو بالائے طاق رکھ کر ان تمام رشتوں کو نئے زاویہ نظر سے دیکھنے کی ایک کمزور اور بے مزہ کوشش کرتے نظرآتے ہیں۔کئی جگہ کرداروں کو غیر حاضر بنادیتے ہیں۔پورے ناول میں تلوکا کا قاتل منشر خیالی نظرآتا ہے ۔مگرآخر میں رانو اپنی بڑی بیٹی کی شادی اپنے شوہر کے قاتل سے کرانے پر کس طرح راضی ہوتی ہے؟یہ شادی کن حالات میں ہوتی ہے؟ان تمام ترپہلووٗں پرراجندر سنگھ بیدی خاموش نظرآتے ہیں۔
جہاں تک رانو کے کردار کا سوال ہے تو وہ ایک مکمل ہندوستان عورت کا مجسمہ کہلانے کے لائق ہے۔مگرایک جگہ یہ منجمد کردار بھی منتشر ہوتاہوا نظرآتا ہے۔جب رانو خود اپنی اولاد کو جسم فروشی کی دلدل میں اترنے کا راستہ دکھاتی ہے۔

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.