راجند ر سنگھ بیدی کا افسانوی فن

ترقی پسند تحریک کے پہلے کانفرس میں  صدارت کرتے ہوئے جب پریم چند نے کہا تھا کہ ’ اب ہمیں  اپنے حسن کا معیار بدلنا ہوگا‘تو اُس حسن کے معیار کو بدل کر حقیقت پسندی اور اصلاحی رجحانات قائم کرنے والوں  میں راجندر سنگھ بیدی بھی تھے، جنہوں  نے اردو افسانہ نگاری کو ایک مضبوط ستون فراہم کیا۔حالانکہ راجندر سنگھ بیدی ترقی پسند تحریک سے اُسی حد تک وابستہ تھے کہ اپنے اِرد گرد کے پس ماندہ ماحول کی مصوّری اور مرقع کشی کر سکیں  کیوں  کہ بیدی کا خیال تھاکہ ادب کو تحریکوں  کا پابندنہیں  ہونا چاہیے ۔ اُن کی نظر میں  سب سے زیادہ اہم چیزانسان کا اپنا وجود اور اُس کا اپنا ذہن ہوتاہے ، جو تخلیق کرتا ہے۔ یہی تخلیق بیدی کی نگاہ میں  سچاادب تھا۔ اِسی متوازن مزاج و خیالات نے راجندر سنگھ بیدی کی ترقی پسند ی کو کبھی انتہا پسندی کی حدود میں  داخل نہیں ہونے دیا ۔

راجندر سنگھ بیدی کی نظر حقیقی زندگی میں بھی ہمیشہ اپنے گردو پیش کی زندگی کی باریکیوں  پر ہی رہی اور وہی اُن کے افسانوں  کے موضوعات بھی بنے ۔ حقیقت کو حقیقی لباس میں  پیش کرنا بیدی کی فطرت تھی ۔ وہ حقیقت کو معمہ بناکر پیش کر نے کے قائل نہیں  تھے ۔ حقیقت کتنی ہی تہہ دار ہو اُسے سیدھے سادے انداز میں  پیش کرنا ہی وہ اپنا فرض سمجھتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے یہاں  نہ صرف سماجی کشمکش کا جذباتی منظر وجدکرتا ہے بلکہ نفسیاتی کشمکش کے بہتر ین نمونے بھی دیکھنے ملتے ہیں ، جن میں  خصوصی مرکز عورت ہو تی ہے ۔ اِس نفسیاتی کش مکش کو پیش کرنے میں  اشاروں اور کنایوں  سے کا م لینے کا جو بہتر اورنکھرا ہوا انداز ہمیں  بیدی کے یہاں  نظر آتاہے وہ اُن کے معاصرافسانہ نگاروں  میں  بہ استثنیٰ منٹو کے کم ہی نظر آتا ہے۔ اگرچہ بیدی کے افسانوں  میں  نفسیات کے ساتھ ساتھ جنسیات نے بھی جگہ پائی ہے اورحقیقت یہ ہے کہ اِس سے مفر ممکن بھی نہیں  تھا کیوں  کہ ہر انسان کی سوچ اور اُس کی حرکتیں  جنسی جبلت سے متاثر ہوتی ہیں ، جس میں  فطرت کا عمل دخل بھی ہوتا ہے۔منٹو اور عصمت نے بھی اپنے افسانوں  میں نفسیات اور جنسیات کو پیش کیا ہے لیکن اُن کے اِس طرزِعمل میں کبھی کبھی یہ کج روی بھی اختیار کر لیتی ہے۔ لیکن بیدی کے افسانوں  میں  اِس تعلق سے ایک صحت مندانہ رویہ دیکھنے کو ملتا ہے، جس میں جنسی اپیل کی گنجائش نہیں  ہوتی ۔ اگرہم اِس کے اسباب و علل پر نظر ڈالیں  تو پائیں  گے کہ منٹو کے یہاں  در آنے والی کج روی، اُن کے فکری تضادات کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے اور عصمت چونکہ خوداپنے آپ سے مطمئن نظر نہیں  آتیں  اِس لیے اُن کے افسانوں  میں  یہ کج روی کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ بیدی کا رویہ اِس تعلق سے سلجھا ہوا ذہنی رویہ ہے ،نہ شخصیت میں  تضاد ہے اور نہ ہی وہ اپنے آپ سے غیر مطمئن نظر آتے ہیں ۔مزاج اور خیالات کا تسلسل ہی اُن کے افسانو ی موضوعات میں  اعتدا ل و توازن کا سبب بنتے ہیں  اور یہی وہ چیز ہے جو بیدی کو دوسرے افسانہ نگاروں  سے الگ کر تی ہے ۔

انسانی رشتوں  کی خوبصورت پیش کش بھی بیدی کے افسانوں  کی خصوصیات میں شامل ہے جس کی بیک وقت سماجی حد یں  بھی ہوتی ہیں  اور نفسیاتی الجھنیں  بھی اور جس میں  زندگی کی آنچ بھی ہوتی ہے اور زندگی کی حقیقی تصویر بھی ۔زندگی کی حقیقتوں  کی مرقع کشی ہی بیدی کے افسانوں  کی اصل روح ہے۔

بیدی کے فن میں  بُت تراشی کی جھلک بھی ملتی ہے ۔اُن کے افسانوں  میں  فن کے اعتبار سے ایک خاص قسم کا نکھار نمایاں ہے جس میں  زندگی کے تجربے کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیں ۔زندگی کی کوئی کل سیدھی نہیں  ہوتی مگر فنکار اپنی بصیرتوں  سے انہیں فن کے پیمانے پر سیدھا کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے جس سے زندگی اور زمانے کی گتھیاں  سلجھ جاتی ہیں اور اُس کا حقیقی عرفان حاصل ہوجاتا ہے ۔عتیق اللہ نے بیدی کے بارے میں  لکھا ہے کہ :

’’بیدی ایک چھوٹی سی دنیا آباد کرتے ہیں  ،اُسے بڑے چائو سے بساتے ہیں پھر بڑے خلوص کے ساتھ اُسے ٹوٹتا بکھرتا ہوا دیکھتے ہیں  لیکن پھر بھی بساوٹ سے وہ ہاتھ نہیں  اٹھاتے یعنی اُن گھور اندھیروں  میں  بھی روشنی کی ایک کرن کہیں نہ کہیں  چھپا دبا کروہ رکھ ہی دیتے ہیں ۔اِس طرح بڑے المیوں  سے اُن کی کہانی بال بال بچ جاتی ہے ‘‘۔(تعصبات  ص۲۴۔۲۲۳)

کہانی کہنے کا فن بیدی کو خوب آتا ہے کسی بھی واقعات کو پیش کرنے سے قبل بیدی انہیں ذہن کی بھٹی میں خوب اچھی طرح پکاتے تھے، تب جا کر قلم کو جنبش دیتے تھے ۔ اِسی ٹھہر ٹھہر کر اور سوچ سمجھ کر قدم اٹھانے والے مزاج نے اُن کے افسانوں  میں واقعیت نگاری کو فروغ دیا ۔ بیدی کی نظر میں  شعر گوئی اور افسانہ نگاری میں کوئی فرق نہیں تھا۔اگر کچھ فرق تھاتو صرف اتنا کہ شعر چھوٹی بحرمیں  ہوتا ہے اورافسانہ لمبی اور مسلسل بحر میں  ۔ سادگی اوراصلیت  کے ذریعے بیدی افسانوں  میں  جان ڈالتے ہیں ۔اِسی وجہ سے اُن کے افسانوں  میں  ایک خاص قسم کا ربط و تسلسل دیکھنے کو ملتا ہے۔جیسے :

’’میں  نے اپنے پوتے کو پیار سے گود میں  اٹھا لیا ۔بھولے کا جسم بہت نرم و نازک تھااور اُس کی آواز بہت سریلی تھی ،جیسے کنول پتیوں  کی نزاکت اور سپیدی ،گلاب کی سرخی اوربلبل کی خوش الحانی کو اکٹھا کر دیا گیا ہو ۔اگرچہ بھولا میری لمبی اور گھنی داڑھی سے گھبرا کر اپنا منھ چومنے کی اجازت نہ دیتا تھا تاہم میں  نے زبردستی اُس کے سرخ گالوں  پر پیار کی مہر ثبت کر دی ۔‘‘(بھولا)

بیدی ہی نہیں  اُن کے معاصرافسانہ نگاروں  نے بھی اپنی کہانیوں  میں  عوامی زندگی کی ترجمانی کی ہے ۔لیکن اُن معاصرین میں  اور بیدی میں جو امتیاز ہے وہ افتادِ طبع کا ہے۔اُن کے معاصرین نے اپنی کہانیوں میں عوامی زندگی کی ترجمانی کا دعویٰ بھی کیا ہے لیکن بیدی نے کبھی اپنی کہانیاں  کو عوامی زندگی کا ترجمان نہیں  بتایا۔انہوں نے ایک مرتبہ اپنی کہانیوں کے بارے میں  کہاتھاکہ’’ میری کہانیا ں جھو ٹ اور سچ ،حقیقت اور تخیل کا مرکب ہیں ‘‘۔ تخلیقِ فن کا یہی تصوّر بیدی کی بیشتر کہانیوں  میں  نظر آتاہے ۔بیدی کے اِس خیال سے اُن کے فن کو سمجھنے میں  بڑی مدد بھی ملتی ہے ۔اگر اُن کے افسانوی فن پر غورکیا  جائے تو یہ کہا جا سکتاہے کہ یہ پریم چند کے بعد سب سے زیادہ سماجی سروکار رکھنے والے با شعور اور باخبر افسانہ نگار ہیں  جنہوں  نے انسانی کرب اور سماجی کرب کوفن کی مؤثر زبان عطا کی ہے۔اُن کی کہانیوں  میں  دبے کچلے انسانوں  کی کراہیں ،مظلوموں  اور ناداروں کی سسکتی ہوئی آواز و اشارے ملتے ہیں ۔وہ اپنے افسانوں  میں  صرف سماجی سچائیوں  کی پردہ دری نہیں  کرتے بلکہ فن کا اعلیٰ تصور بھی پیش کرتے ہیں ۔بید ی کے افسانوی فن کایہ میلان اُن کے ابتدائی افسانوں  من کی من میں  ،گرم کوٹ ،تلا دان ،وٹامن بی ، وغیرہ سے لے کر آخری دور کے افسانوں  مثلاً۔جنازہ کہاں  ہے ،رحمن کے جوتے،بولو وغیرہ تک پھیلا ہوا ہے ۔اِن افسانوں  کے کردار صرف افسانو ی فضا کی تعمیر ہی نہیں  کرتے بلکہ زندگی کے عمیق تجربوں اور مشاہدوں کو ایک فنی تصوّر میں بدلنے کا کام بھی انجام دیتے ہیں  ۔

بیدی کے فن پر مختلف اثرات پڑے ۔ جن میں  سب سے زیادہ چیخوف کا اثر ہے۔ مختصر افسانے کو ایک خوبصورت شکل میں  ڈھالنے کا کام روسی افسانہ نگاروں  نے انجام دیا تھا۔ یہی نہیں  بلکہ فطرت پسندی اور حقیقت پسندی کا رجحان بھی روسی افسا نہ نگاروں  ہی کی دین ہے ۔ اُن میں  چیخوف اور کیو پرین (Keyoperyon)کو خاصی مقبولیت حاصل ہے۔ اِن افسانہ نگاروں  نے کہانی کے صوری حسن سے زیادہ معنوی حسن پر زور دیاتھا۔ بیدی کے افسانوں میں  مذکورہ افسانہ نگاروں کے اِسی اسلوب کی جھلک ملتی ہے ۔ روسی افسانہ نگاروں  کے اثرات کے تحت ہی بیدی کے افسانوں  کا اختتام ،منٹو کے افسانوں  کے اختتام کی طرح نہیں  ہوتا ۔ اُن کے افسانوں  میں  چونکا دینے والی یا متحیرکر دینے والی کیفیت نہیں  ملتی اورنہ ہی اُن کے افسانوں  کے لب لہجہ میں کرشن چندر کے افسانوں کی سی رنگینی اور تیزی پائی جاتی ہے۔ بیدی کی آواز اور اُن کا افسانوی لہجہ آہستہ رو اور دھیمی دھیمی آنچ پرسلگنے والا لہجہ ہے ۔ بیدی کے افسانوں  میں  تکلف کے باوجود بے تکلفی ہے جو بیدی کے افسانوں  کو دلچسپ بنادیتا ہے ۔ بیدی کے افسانو ں  میں   نیاز فتح پوری اور مجنوں  گورکھ پوری کی طرح تخیل آرائی بھی نہیں  ہے۔ سادگی، پاکیزگی، لطافت اور نزاکت کے انضمام سے اُن کی کہانیوں  کا خمیر اٹھتاہے جو موضوع کے مرکزی خیال کو زندگی کی گوں  نگوں  تجربات کی حدود تک پھیلا دیتا ہے۔

چیخوف کے افسانوں  کی طرح ہی بیدی کے یہاں  بھی جزئیات نگاری کے بہتر ین نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ طنز اور استہزاء کی گلکاری بھی اُن کے افسانوں  کی خصوصیات میں  شامل ہیں ۔ اِس ضمن میں  اُن کاا فسانہ ’’چھوکری کی لوٹ ‘‘ قابل ذکر ہے ۔ جس میں  قدیم زمانے سے چلی آرہی ’’ چھوکری کی لوٹ‘‘کی رسم پر گہرا طنز کیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ ’’ایک باپ بکائو ہے‘‘بھی اسی ذیل کا افسانہ ہے:

’’۔۔۔میرے گھر میں اور کوئی بھی تو نہ تھا ۔بی اے پاس کر چکی تھی اور پاپا کہتے تھے کہ آگے پڑھائی سے کوئی فائدہ نہیں ،ہاں  اگر کسی لڑکی کو پروفیشن میں  جانا ہو تو ٹھیک ہے لیکن اگر ہندوستانی لڑکی کی شادی ہی اُس کا پروفیشن ہے توپھر آگے پڑھنے سے کیا فائدہ ۔‘‘  (وہ بڈھا)

     بیدی کی کہانیوں  کی جڑیں  اُن کے عہد کے معاشرتی اور تاریخی رکھ رکھاؤ میں  دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں ۔وہ اپنی کہانیوں  میں  داخلی کرب اور سماجی کرب کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور بقیہ تمام سچائیاں  انہیں کے تابع اپناسفر طے کرتی ہیں ۔بیدی کا یہ خیا ل تھا کہ جس ادیب کی جڑیں  اپنی زمین میں جس قدر گہر ی ہوں گی اور جو اپنے سماجی دکھ درد سے جتناقریب ہوگا،اُس کا فن اُسی قدر توانااور جان دار ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ بیدی کی تمام کہانیوں  میں اُن کے اِس خیال کاپَرتو نظر آتا ہے ۔بیدی کے تجربے اور مشاہدے نہ تو سرسری تھے اور نہ ہی سطحی بلکہ اُن کی جزئیات نگاری ،ماحول نگاری اور کردار نگاری اِس بات کی دلالت کرتی ہیں  کہ بیدی اپنے ماحول کو آنکھ بند کر کے نہیں  دیکھتے تھے بلکہ کھلی آنکھوں  سے دیکھتے اور محسوس کرتے تھے ۔ اِس لیے اُن کی کہانیاں  صرف کہانیاں  نہیں ہیں  بلکہ زندگی کی ٹھوس حقیقت اور اُس کی باز گزشت ہیں ۔بیدی کایہی فن اُن کو ایک لازوال افسانہ نگار بنا دیتا ہے۔

     بیدی کے فن کی ایک خصو صیت اُن کی خاموش مزاجی بھی ہے۔اُن کی کہانیوں  کے کردار بلند بانگ اور چلبلے نہیں ہوتے بلکہ خاموش، سنجیدہ اور سر گوشی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن اِس قدر مؤثر ہوتے ہیں کہ عقبی دروازے سے کب قاری کے دل و دماغ میں داخل ہو جاتے ہیں اِس کا پتہ ہی نہیں چلتا اور قاری بھی بے حد سنجیدگی کے ساتھ کہانی کے ماحول میں  گم ہو جاتا ہے۔بید ی کے فن کا یہی کرشمہ ہے جو دھوئیں  کی طرح ذہن پر چھا جا تا ہے اور افسانوی منظر آہستہ آہستہ آنکھوں کے سامنے واضح ہوتا جاتاہے ۔

بیدی کے افسانوں  کا موضوع متوسط طبقہ اور اُن کی زندگی کے مسائل کے اِرد گرد گھومتا ہے ۔ اُن کی تحریروں پرپنجابی زبان کے اثرات بھی ہیں ۔ پنجابی گھرانوں  میں اردو بولنے کا ایک خاص انداز ہوتا ہے۔جس میں ہندی اور پنجابی کے الفاظ اپنا تسلط بنائے رہتے ہیں  ۔ اِس مخصوص انداز نے اُن کی تحریروں  میں  ایک کھنکتی ہوئی کیفیت پیدا کردی ہے ۔گرچہ اِس سلسلے میں  بید ی پر اعتراضات بھی کئے گئے ہیں کہ ُان کے زبان وبیان میں  پنجابیت کا اثر زیاد ہ ہے جس سے اردو زبان کی لطافت مجروح ہوگئی ہے ۔ جہاں  تک میں  سمجھتی ہوں  بیدی کے اِس انداز ِبیان کے پسِ پشت دو چیزیں  کا ر فرماتھیں ایک یہ کہ بیدی اُن دونوں  زبانوں  (اردو اور پنجابی) کو ایک دوسرے کے قریب لا نا چاہتے تھے۔ دوسرے یہ کہ اگر اُن کے افسانوں  کا دونوں  زبانوں میں  سے کسی ایک زبان میں  ترجمہ کیا جائے تو صرف رسم الخط بدلنے کی ضرورت پیش آئے ۔ باوجود اِس کے بیدی کے افسانوں  میں ہندی اور پنجابی کے الفاظ حسبِ ضرورت استعمال ہوئے ہیں  ۔دانہ ودام، چھوکری کی لوٹ، من کی من میں ،ایسی کہانیاں  ہیں  جہاں  پنجابی الفاظ موقع برمحل نظر آتے ہیں  اور اِس سے کہانی کی داخلی روح مجروح نہیں  ہوتی ۔ اِن افسانوں  میں  بیدی نے کرداروں  کو حسبِ حال کلام کرتے ہوئے دکھایا ہے۔ ظاہرہے افسانوں  میں  جس طبقے کی پیش کش ہوگی، افسانہ نگاراُس کے مقام اور مرتبے کے لحاظ سے ہی اپنا انداز بیان بھی بدلے گا اور لفظیات بھی۔ یہ تمام افسانے بیدی کے فطری انداز ِ بیان کے مظہر ہیں  ۔

ہر زمانہ اپنے  بطن میں انقلاب چھپائے ہوتا ہے ۔ جو وقت اور حالات کے تحت رونما ہوتا ہے ۔جس کے ذریعے زمانے کے ذہنی رجحانات میں تبدیلی آتی ہے ۔جو بہتے ہوئے سیلِ رواں  کے رُخ کو ایک خاص راہ پر لگا دیتا ہے ۔بیدی کا زمانہ ایسا ہی تھا ۔ ۱۹۴۷ء کے انقلاب نے شعوری یاغیر شعوری طور پر افسانہ نگاروں  کو کردار نگاری کی طرف متوجہ کیا ۔اِس بحرانی دور سے بیدی بھی متاثر ہوئے اور تقسیمِ ملک کے بعدایسے کئی کرداروں  کی تخلیق کی جو ایک خاص مقصد کے تحت تھے۔انہوں  نے سماج اور ماحول سے زندہ اور متحرک کردار اخذ کئے ۔ اُس زمانے میں انسانوں  پرجو بر بریت ہو رہی تھی اور جو غیر ہمدردانہ رویہ اختیار کیا جارہا تھا وہ بیدی کے افسانوں  میں  صدائے احتجاج بن کر ابھرے ۔انہوں نے اپنے افسانوں  میں کردار وں  کے ساتھ ہمدردانہ رویہ اختیار کیا ۔ اُن کے ساتھ دل لگی کی ۔ اُن کے لیے زندگی کی محرومیوں  کو خوشیوں  میں تبدیل کرنے کی کوشش کی اور اِس میں کوئی شبہ نہیں  کہ بیدی نے منٹو کے بر خلاف اپنے افسانوں  میں  شرفاء کی زندگی خصوصاً سکھ یا ہندو گھرانوں  کی زندگی کو موضوع بنایا اور اُ ن کے کرداروں  کے طبقاتی ،خانگی اور معاشی مسائل اوراُن کے نفسیاتی و جذباتی کش مکش کو پیش کیا۔اِس سلسلے میں  انہوں نے ہندو دیو ما لا سے بھی استفادہ کیا ۔’’ گرم کوٹ‘‘ جو بیدی کی آپ بیتی ہے اِس میں  خود کو بطورِ کردار پیش کیاہے۔ کردار نگاری، بیدی کے افسانوں  کا ایک اہم جز و ہے ۔انہوں نے کئی بلند مرتبت کردار تخلیق کئے ہیں  ۔’بھاگو‘ جیسے کردار کے نزدیک ’ڈاکٹر‘ جیسا کردار بونا نظر آتا ہے ۔’ بھولا ‘کاکردار انسانیت کی مجسم صورت ہے ۔ وہ انسان کی بنیادی خوبیوں  کو پیش کرتا ہے ۔ اِن کے علاوہ ببل،مادھو ،زین العابدین، لاجونتی اورمدن بھی قابل ذکر ہیں ۔

بیدی کے افسانوں میں عورت ایک خاص مرکز کی حامل رہی ہے ۔دیگر افسانہ نگاروں  کی طرح بیدی نے بھی عورت کو مختلف شکلوں   میں   پیش کیا ہے۔اِ ن کے یہاں   عورت اوراُس کی زندگی کرشن چندر کی طر ح پاکیزہ اورلطیف تصوّر کے ساتھ موجود ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ کرشن چندر عورت کو سراپا حسن سمجھتے ہیں  ۔ اُن کی نگاہ عورت کے خوبصورت جسم پر ہوتی ہے اوروہ عورت کو رومانی فضائوں  کے پس منظر میں  دیکھتے ہیں  ۔ برخلاف اِس کے بیدی کے یہاں  عورت مجسم سیرت ہے۔ اُن کی نگاہ عورت کی روح پر ہوتی ہے جسم پرنہیں ۔ جسے بیدی انسانی رشتوں  کے پس منظر میں دیکھتے ہیں  ۔’اندو‘ اِسی انسانی رشتوں  میں  بندھی روایتی ہندوستانی عورت کی سچی اور جیتی جاگتی تصویر ہے، جسے بچپن سے ہی غلامانہ سپرد گی کی تربیت ملی تھی ۔مہر و وفا ، ایثار وقربانی کی یہ مورت ہر ایک کا غم بانٹتی ہے لیکن خود اُس کا غم بانٹنے والا کوئی نہیں ہو تا اور یہ توقع وہ اپنے شوہر سے بھی کرتی ہے لیکن اِس خواہش کی تکمیل میں اُس کی عمر گزر جاتی ہے۔ عورت کی نفسیاتی کشمکش کا اِس افسانہ میں  جس انداز سے تجزیہ کیاگیاہے وہ لائقِ تحسین ہے ۔ جسے بیدی نے مؤثر انداز میں  پیش کیاہے۔ اِس کے علاوہ لاجونتی، درشی اور ہولی کاکردار بھی جان دار اور مؤثر ہے ۔

٭٭٭

Dr. Atia Rais

atiadu@hotmail.com

Leave a Reply

2 Comments on "راجند ر سنگھ بیدی کا افسانوی فن"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
Mir Aubaid
Guest

Thanks Mam for sharing this important knowledge..be always blessed..

Mahfooz khan
Guest
مختصر مگر بہت ہی جامع اللہ مزید علم میں اضافہ کرے
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.