ملک زادہ منظوراور’ شہرِادب‘

ملک زادہ منظور

ملک زادہ منظور احمد کی عام شہرت اور مقبولیت ناظمِ مشاعرہ کی ہے۔ تقریباًنصف صدی سے وہ مشاعروں میں شعراء کے تعارف کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔اور ا ن کا یہ فرض اس قدر عام اور مشہور ہے کہ ان کی دوسری حیثیتیں دب سی گئی ہیں۔
ملک زادہ منظور احمد نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز’’ مولانا ابو الکلام آزاد:فکر و فن‘‘نامی کتاب سے کیا تھا۔ ہندوستان میں مولانا آزادپر غالباً یہ پہلی سندی تحقیق ہے۔ملک زادہ منظور نے اس دوران بہت سی کتابیں تصنیف کیں۔ ابتدائی دنوں میں ایک ناول ’’کالج گرل‘‘کے نام سے لکھا۔ناول کی رومانی فضا میں ملک زادہ منظورکی کو ثر و شبنم میں دُھلی ہوئی نثر کاسب نے اعتراف کیا۔1962ء میں ’’شہر سخن‘‘نامی کتاب آئی۔اس کتاب میں در اصل اس زمانے کے مقبول عام شعراء کاتعارف ،خاکے اور ان کی شاعری پرتبصرے شامل ہیں ۔ موضوع گفتگو کتاب’’شہِرادب‘‘ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
’’شہرِادب ‘‘میں مضمون نگار(ملک زادہ منظور)نے بات غزلیات سے شروع کی ہے۔اس کتاب میں پیشِ لفظ کے علاوہ دس مضامین شامل ہیں۔پہلا مضمون ’’اردو کا ادارۂ رابطہ عامّہــ:مشاعرہ‘‘،دوسرا مضمون’’غزلیاتِ نظیر اکبر آبادی:ایک تنقیدی جائزہ‘‘اور اس کتاب میں شامل آخری مضمون’’علّامہ تاج الفحول نعتیہ شاعری کے آئینے میں‘‘ہے۔کتاب غزلیات سے شروع ہوکر نعتیہ شاعری پر اختتام پذیر ہوئی ہے۔ اچھا ہوتا کہ نعتیہ شاعری سے شروع ہوتی۔ممکن ہے کہ ان تمام مضامین کے مصنف ومرتب ،ترتیب دیتے وقت زمانی اعتبار سے ترتیب دیا ہو۔لیکن با ت یہاں بھی بنتی ہوئی نظر نہیں آتی۔کیونکہ اس کتاب میں جن شخصیتوں کی زندگی یا ان کے کارنامے پر مضمون لکھ کر ترتیب دیا گیا ہے،ان میں سب سے قدیم شاعر’’علّامہ تاج الفحول‘‘ہی ہیں۔ یہ کتاب2011ء میں ماہنامہ ’امکان‘سیمانت نگر ،کنچن بہاری مارگ،کلیان پور،لکھنؤ سے شائع ہوئی۔
مذکورہ بالا کتاب’’شہرِادب‘‘میں شامل پہلا مضمون ’’اردو کا ادارۂ رابطۂ عامّہ:مشاعرہ‘‘ سوال و جواب پر مشتمل ہے۔لیکن قاری کے لئے سب سے زیادہ الجھانے والی بات یہ ہے کہ سوال کرنے والا کون ہے اور جواب کون دے رہا ہے؟راقم الحروف کی رائے میں سوال کرنے اور جواب دینے والے شخص الگ الگ نہیں بلکہ خود مضمون نگار’’ملک زادہ منظور‘‘ ہیں ۔بہر صورت اس مضمون میں اسی سوال و جواب کے ذریعہ ایک طرح سے قاری کے لئے دلچسپی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔تاکہ قاری متجسّسانہ انداز میں آگے بڑھے۔اور اس نادر انداز کے ذریعے اپنے اندر ان موضوعات پر اٹھے سوالوں کا تشفّی بخش جواب دے سکے۔سوال وجواب سے پہلے مضمون نگار نے ایسے شاعروں پر ضرب لگائی ہے،جو راتوں رات شاعری میں اپنا نام پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ایسے لوگوں کے متعلّق ملک زادہ منظور رقم طراز ہیں:
’’ہمارے صفِ اوّل کے ناقدین اور محقّقین جو اپنے دائرۂ تصنیف میں حیاتِ جاودانی حاصل کر چکے ہیں ،اپنی آخری عمروں میں اپنے مجموعے ہائے کلام کے ساتھ یکایک منظرِعام پر آنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ حضرات نہ تو خواص کے حلقہ میں اپنی محدود دائمی شہرت پر قناعت کر پاتے ہیں اور نہ اپنی وضع داری کے باعث ان حربوں کا استعمال کرکے عوامی شہرت حاصل کر پاتے ہیں جن کا مطالبہ دورِحاضر کا مشاعرہ اپنے شاعروں سے کرتا ہے․․․․․․․․․․․․․․سچی بات تو یہ ہے کہ مشاعروں کے سلسلے میں ان جیسے حضرات کا رویّہ ہمیشہ منفی ہوتا ہے اور وہ مثبت طور پر نہ تو ایک محدود حلقہ میں اپنی شہرت پر خدا کا شکر ادا کرتے ہیں اور نہ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ عوام نے انہیں رد کر دیا ہے۔‘‘(1)
ملک زادہ منظور نے اپنے اس مختصر سے مضمون میں آزادی کے بعد سے اب تک کے مشاعروں کے احوال پر بڑی بصیرت افروز بات کی ہیں۔اس مضمون میں کل گیارہ ایسے سوالات ہیں جن کے جوابات پڑھنے کے بعد مشاعرے کی ادبی اور تہذیبی فضا کے علاوہ لسانی توسیع کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔بلکہ یوں کہیں کہ جہاں اس سے لوگوں کو حظ ملتا ہے وہیں اردو زبان کے فروغ کا ایک بے حد اہم ذریعہ بھی ہے۔مشاعرہ ہماری اردو تہذیب کا ایک اہم حصہ بن گیاہے۔کیونکہ پہلے یہ دیوان خانوں اور محل سراؤں کے سامعین ہی تک محدود تھا۔لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اس کی چاہت لوگوں کے دلوں میں بڑھتی گئی۔سائنس اور ٹکنا لوجی کی ترقّی نے اسے محدود سے لا محدود سطح پر کھڑا کر دیا۔
اس کتاب کا ایک اہم مضمون ’’غزلیاتِ نظیراکبرآبادی:ایک تنقیدی جائزہ‘‘ہے۔یہ مضمون ملک زادہ منظور کی تنقیدی بصیرت اور اردو غزل سے ان کی غیر مشروط وابستگی کا آئینہ دار ہے۔سب سے پہلے یہ مضمون اتر پردیش اردو اکیڈمی سے غزلیات نظیر کے انتخاب میں بطور مقدمہ شائع ہوا تھا۔بعد میں جزوی ترمیم کے بعد اس کتاب میں شائع ہوا۔نظیر کے شاعرانہ کمالات کا احاطہ کرنے والے بیشتر نقادوں نے ان کی غز لوں کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے ۔اور ایسے لوگوں کے پیشِ نظرصرف انکی منظومات ہی رہی ہیں۔جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے کہ نظیر غیر متوازن تنقید کے شکار ہوئے ہیں۔ان کے بارے میں ایسی فضا ہموار کر دی گئی ہے کہ عام طور پر ان کا تصور ہمارے سامنے صرف ایک نظم نگار کا ہوتا ہے۔اور انکی غزلیں ثانوی درجے کی حیثیت رکھتی ہیں۔اس سلسلے میں ملک زادہ منظور نے ایک جگہ لکھا ہے:
’’نظم نگار نظیر اکبرآبادی نے غزل گو نظیر اکبرآبادی کو اس تمام تر عرصہ میں دبائے رکھا اور صاحبانِ نقد ونظر کی نگاہیں ان کی نظموں کی اجتہادی شان میں اتنی خیرہ ہو گئیں کہ وہ ان محاسن کو نہ دیکھ سکے جو نظیر کی غزلوں میں پائے جاتے ہیں۔اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ نصف نظیر کے مطالعہ کا اطلاق نظیر کے مکمل فکروفن پر کیا گیا اور جز سے کل کو ناپنے کی کوشش کی گئی۔‘‘(2)
درج بالا اقتباس سے واضح ہوتا ہے کہ نظیر کا مکمل تعارف ان کی غزلوں کے بغیر ادھورا ہے۔نظیر کی غزلوں کا سب سے اہم پہلو روایتی تصّور حسن و عشق ہے۔ یہی چیزدامن دل کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ نظیر نے اپنی غزلوں میں اردو شاعری کے مروّجہ تصور حسن سے انحراف کیا ہے۔اور موضوعِ گفتگو کسی شریف عورت کو نہیں بنایا بلکہ ایسی طوائف کو بنایا ہے،جس کا وجود لذتیت کے ساتھ ساتھ شہوانی جذبات کی آسودگی فراہم کرنا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ان کے دیوان میں صرف ایسے ہی اشعار ہیں بلکہ ایسے بھی اشعار ہیں جن میں دنیا کی بے ثباتی اور انسانی زندگی کی کم مائیگی کو اجاگر کیا گیا ہے،اور پند و نصائح کے دفتر کھولے گئے ہیں۔یہ مضمون ان لوگوں کے لئے ایک طرح سے جواب ہے ،جو نظیر کو غزل کا شاعر نہیں مانتے ہیں،ملک زادہ منظور نے ایسے اشعار کو بطور مثال پیش کیا ہے،جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزل گوئی کی دنیا میں بھی نظیر کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔چند اشعار ملاحظہ ہوں۔
میں ہوں پتنگ کاغذی ڈور ہے اس کے ہاتھ میں
چاہا ادھر گھٹا لیا، چاہا ادھر بڑھا لیا

موم ہوں میں تو،بتاں مجھ کو نہ سمجھو آہن
ٹک جو تم گرم ہوئے میں تو پگھل جاؤں گا

جو وہ بعد بوسہ کے ناز سے ذرا جھڑکے ہے تو نظیر کو
کبھی مصری ہے کبھی قند ہے کبھی شہد ہے کبھی راب ہے

ان اشعار میں نفسِ موضوع کے اعتبار سے وہی باتیں بیان کی گئی ہیں جن پر نظیر سے پہلے اردو اور فارسی کے نہ جانے کتنے شعرا نے خامہ فرسائی کی ہے۔بعد بوسہ محبوب کی جھڑ کیاں ،دل کے پھپھولے اور رقیب کا ماجرا،یہ سارے عنوانات ایسے ہیں جن سے ہماری اردو شاعری نظیر سے پہلے یا انکے دور میں نا آشنا نہیں تھی۔لیکن نظیر نے ان موضوعات کو جس طرح سے روز مرہ کی زندگی کی علامتوں میں برتا ہے ،وہ نظیر کا اپنا انفرادی رنگ اور امتیازی تجربہ تھا۔اس سلسلے میں ملک زادہ منظور لکھتے ہیں:
’’یہ نظیر کا کمال ہے کہ ان کے لفظی اختراعات ،روز مرہ اور محاور ے جب اشعار کے پیکر میں ڈھلتے ہیں تو نہ صرف غزلوں کی موسیقی کورواں دواں کرتے ہیں بلکہ محاکاتی کیفیت کو بڑھا کر پورا منظر نگاہوں کے سامنے پیش کر دیتے ہیں اور وہ الفاظ جو اپنی تنہا ذات میں نا مانوس ،ثقیل اور کھردرے نظر آتے ہیں ،مصرعوں میں شامل ہونے کے بعد ایسا مد و جزر پیدا کرتے ہیں اور اتنے روشن اور تابناک ہو جاتے ہیں کہ ان کی چھوٹ سے غزل کا پیمانہ جگمگانے لگتا ہے۔‘‘(3)
نظیر نے نہ صرف اپنے فکری میلانات اور فنی اجتہادات سے اردو غزل کو متاثر کیا ،بلکہ الفاظ کی کثرت اور ترنم ،مرادفات کی فراوانی اور موسیقی آمیز بحروں سے اردو غزل کی لسانی جمہوریت کو بہت زیادہ وسیع کیا۔کلیاں ،چڑیل،پھانسی،لڑاکا،بیہودہ،مکڑی،ڈالیا،بانس،نٹ ،پٹ،راب،کوند ن وغیر ہ الفاظ کا استعمال نظیر نے نظموں ہی میں نہیں کیا ہے بلکہ غزلوں میں بھی کیا ہے۔چند اشعار ملا حظہ ہوں۔
ہزار گل کی بہاریں نہ ہو سکیں ہمسر
تمہارے ایک کرن پھول کی بہار کے ساتھ

دکھا کر اک نظر دل کو نہایت کر گیا بیکل
پری رو،تند خو ،سرکش، ہٹیلی، چلبلا، چنچل

فرو کچھ ہو چلا تھا شعلہء دل
دیا جھپکوں نے پھر مژگاں کی بھڑکا

کلیات نظیر میں مرادفات اور نامانوس الفاظ کے خوبصورت استعمال بکھرے پڑے ہیں۔الفاظ و لغات کی کثرت ،جدت استعمال اور مختلف صیغوں کے الفاظ کو جس طرح سے نظیر نے اپنی غزلوں میں داخل کیا ہے اس کی مثال اردو کی شعری تاریخ میں بہت کم ملتا ہے۔نظیر کی غزلوں کے متعلق ملک زادہ منظور نے لکھا ہے:
’’نظیر کی غزلیں ان حضرات کے لئے خصوصیت کے ساتھ طمانیت قلب کا باعث ہوں گی جو غزل کی ریزہ خیالی کے شاکی ہیں اور اسے ایک نیم وحشی صنف سخن گردانتے ہیں اس لیے کہ مسلسل غزلوں اور قطعہ بند اشعار کی جو فراوانی کلیات نظیر میں ہم کو ملتی ہے اس سے ہمارا سابقہ کسی اور شاعر کے دیوان میں نہیں پڑتا۔‘‘(4)
اس مضمون کے ذریعہ،ملک زادہ منظو رنے، نظیر کی نظم نگاری اور غزل گوئی دونوں کو ایک ساتھ ملا کر نظیر کی مکمل تصویر کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔بغیرغزل گوئی کے نظیر مکمل شاعر نہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ دونوں کے ملنے ہی سے نظیر، بطور فن کارہمارے سامنے کھڑے ہوتے ہیں ۔ایسا بھی نہیں ہے کہ لوگوں نے ان کی غزلوں کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے۔بلکہ لوگوں نے نظیر کی غزلوں کو اپنے اپنے اعتبارسے جانچا پرکھا ہے۔نظیر کی نظمیں مضمون کے اعتبار سے، غزلوں سے زیادہ بامعنی ہیں ۔ شاید یہی بنیادی وجہ ہے کہ نظیر کا نام آتے ہی ہمارے ذہن میں بطور نظم نگار ہی ان کا تصور ابھرتا ہے۔
اس کتاب کا چوتھامضمون’’عثمان عارف کی غزل:ایک جائزہ‘‘ہے ۔ایک زمانے میں عثمان عارف کی شاعری کا بڑا چرچا تھا۔یوپی کے بعض رسائل نے ان پر خصوصی گوشے اور نمبر بھی شائع کیے تھے ۔ملک زادہ منظور سے ان کا تعلق قریبی تھا۔مگر یہ مضمون تعلق سے زیادہ فن اور فنکار کی بالا دستی کا مظہر ہے۔انہوں نے روایتی انداز کے بجائے ان کی غزلیہ شاعری کی مختلف جہات کا جائزہ پیش کیا ہے ۔وہ لکھتے ہیں ۔
’’عثمان عارف کی شاعری میں یوں تو بصائر اور تاملات کے بہت سے پہلو نکلتے ہیں لیکن جو چیز بڑی آن بان کے ساتھ ابھر کر سامنے آتی ہے وہ انکی بے پناہ رجائیت ہے۔بادِمخالف کی زد پر امید کی شمع اس اعتماد کے ساتھ جلانا کہ آخر فتح کی روشنی ہوگی،ان کی شاعری کی امتیازی خصوصیت ہے۔‘‘(5)
غزل ایک ایسی صنف سخن ہے،جس میں ہر طرح کے مضامین کی گنجائش ہے۔اس مضمون کے مطالعہ سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ فکری سطح پر غزل کا رنگ و آہنگ قدما سے مختلف ہے۔لیکن فنّی سطح پر وہ قریب قریب ایک ہیں۔ عثمان عارف کی غزل گوئی بھی اسی روایت کا احترام اور اسی فن کاری کی توسیع و تجدید ہے۔جو ایک عہد کے شاعرسے دوسرے عہد کے شاعر کو منتقل ہوتی رہتی ہے۔
عثمان عا رف فارسی کے معروف شاعر محمد عبداﷲ بیدل کے بیٹے ہیں۔ان کو ادبی اور تہذیبی وراثت اپنے اسلاف سے ورثے میں ملی ہے۔عثمان عارف کی عشقیہ غزل کا مطالعہ کیا جائے تو بغیر کسی تاویل اور تعلیل کے ان کا رخ بیک وقت حسن مجازی اور حسن حقیقی دونوں طرف ہے۔اور یہی وہ خوبی ہے جس کی وجہ سے ان کی غزلیں پاکیزہ فضا میں سانس لیتی ہیں۔کیونکہ ان کی غزل میں دور دور تک ہوس اور جسمانی محبت کا شائبہ تک نہیں ملتا۔شاید اس کی سب سے بڑی وجہ وہ تہذیبی اور دینی عوامل ہیں ،جو انہیں اپنے اسلاف سے ورثے میں ملا ہے۔ملک زادہ منظوران کی غزل کے متعلق لکھتے ہیں :
’’عثمان عارف اردو غزل کی کلاسیکی روایات سے خاطر خواہ واقف ہیں اور اسی لیے وہ روایتی رموزوعلائم میں عصری حسیت کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ وہ گرد وپیش کی زندگی کی تاریخی دستاویزبننے کے ساتھ ساتھ اپنی ایک مستقل ادبی اہمیت بھی رکھتی ہے۔ہماری سیاسی اور معاشرتی زندگی میں جو ناہمواریاں ہیں ان سب کو وہ اپنے اشعار کا موضوع بناتے ہیں اور شاعرانہ انداز میں ان کی کڑی گرفت کرتے ہیں تا کہ وہ معاشرہ پیدا ہو سکے جس کا خواب ہمارے اسلاف نے دیکھا ہے۔‘‘(6)
درج بالا اقتباس سے واضح ہوتا ہے کہ عثمان عارف اپنی غزل گوئی کے ذریعے ایک اچھے سماج کی تشکیل کا پیغام دینا چاہتے ہیں ۔اس مضمون سے اس بات کابخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ عثمان عارف نے اپنی شاعری کے ذریعے روح عصر کو بے نقاب کرنے کی سعی کی ہے۔اور حکایتــ روز گار کو حدیث حسن بنا کر پیش کیا،اور زلف گیتی کے پیچ و خم کو سلجھا نے کی بھی کوشش کی ہے۔
ان کی سیاسی وفاداریاں اور انکی اجتماعی ترجیحات اس بات پر آمادہ نہیں کرتیں کہ وہ محض ان مثبت اقدار کی ترجمانی کرکے رہ جائیں ،بلکہ وہ شاعرانہ بے باکی اور بے خوفی سے ان منفی میلانات پر بھی کاری ضرب لگاتے ہیں جو روزانہ کی زندگی کا حصہ ہیں۔چند اشعار ملاحظہ ہوں،
صراحی ہے،نہ مینا ہے،نہ صہبا ہے،نہ ساغر ہے
یہ کن ہاتھوں میں عارف میکدہ کا انتظام آیا

اہل چمن کی حرکتیں حد سے گزر گئیں
بد نام ہو رہا ہے گلستاں کا نام بھی

ہوتی ہے خیالوں میں ہی تنظیم چمن کی
کردار ہی بدلے ہیں نہ گفتار ابھی تک

درج بالا اشعار کا جو غیر متزلزل اور غیر مشروط شاعرانہ لب و لہجہ ہے،وہ اس با ت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ عثمان عارف کی شاعری ان کی سیاست کو زیر کر لیتی ہے۔کیو نکہ انہیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر شعری صداقت کا خون ہو گیا تو علم و ادب اور انسانیت کی اعلی و ارفع قدروں کا خون ہوگا۔خالص غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
حیات روز نئے رنگ میں نمایاں ہیں
جو اک چراغ بجھا سیکڑوں چراغ جلے

اے دوست اب نہ چین سے بیٹھیں گے عمر بھر
بدلیں گے اس کو گردشِ ایام ہی تو ہے
آنکھیں تو ملا، دیکھ ادھر گردش دوراں
جینے کا مزہ حوصلہ والوں کے لئے ہے

اپنی بے پناہ رجائیت،اپنے طاہر اور پاکیزہ لہجہ کے بنا پر عثمان عارف کی غزلیں پہچانی جاتی ہیں۔شباب کی سر مستی ہو یا شراب کی بد مستی آپ بیتی ہو یا جگ بیتی ،مجاز ہو یا حقیقت،غرض کہ کوئی بھی موضوع ہو،جب الفاظ کے سانچے میں ڈھل کر ان کے یہاں شعر بنتا ہے تو ہر طرف پاکیزگی اورشائستگی چھا جاتی ہے۔ملک زادہ منظور لکھتے ہیں:
’’وہ نہ صرف لغت ،معانی اور عروض کے نکات سے خاطر خواہ واقف ہیں بلکہ ان کی شاعر ی میں روح اور بیان کی حرارت ،ان کے جذبے میں گرمی اورنرمی کا امتزاج اوران کے تخیل میں شعریت اور صداقت کی بڑی متوازن کار فرمائی نظر آتی ہے۔وہ صر ف ماحو ل کی خام کاریوں کو بے نقاب نہیں کرتے بلکہ یہ بھی بتلاتے ہیں کہ زندگی کی وہ کون سی قدریں ہیں جن سے ہم محبت کریں اور کون سے وہ رجحانات ہیں جو نفرت کرنے کے قابل ہیں۔‘‘(7)

محمد عثمان عارف نے قدماکے کلام کو پڑھا ہے،سمجھا ہے اور اس کے بعدماضی کی تمام صالح روایات کو اپنے کلام کے اندر جذب کر کے بڑی سوجھ بوجھ کے سا تھ موجودہ عہد کے تقاضوں کے پیش نظر اپنی راہ نکالی ہے ۔غرض یہ کہ اس مضمون کے مطالعہ سے عثمان عارف کا پورا فن تغزل قاری کے سامنے آجاتا ہے۔
ملک زادہ منظور کی اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے بڑے ناموں کے بجائے ایسے شاعروں پر لکھا ہے،جو ادبی حلقوں میں بہت زیادہ متعارف نہیں۔البتہ اگر معروف شخصیت پر لکھا گیا ہوتا تو یہ کوشش ہوتی کہ ان کی زندگی یا فن کا کوئی ایسا پہلو سامنے لایا جائے جس سے عام طور پر لوگوں کی واقفیت محدود ہے۔اس ضمن میں ،پروفیسر احتشام حسین،فراق گورکھپوری اور اندرا گاندھی سے متعلق مضمون’’وہی غزال ابھی رم رہا ہے آنکھوں میں‘‘بطور مثال پیش کئے جا سکتے ہیں۔
حواشی
(1)شہرِادب،ملک زادہ منظور،ص۔8۔7،ماہنامہ’امکان‘سیمانت نگر،کنچن بہاری مارگ،کلیان پور،لکھنؤ۔2011ء
(2)ایضاً۔ص۔29
(3)ایضاً۔ص۔38
(4)ایضاً۔ص۔41
(5)ایضاً۔ص65،66
(6)ایضاً۔ص۔64
(7)ایضاً۔ص۔67
”Malik Zadaa Manzoor Ahmad aur ‘Shahr-e-Adab” by Shahnawaz Fiyaz, “Urdu Research Journal” ISSN 2348-3687, Vol. I, Issue II, page No. 108-116.

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.