تصوراور حقیقت کا افسانہ نگار :اصغر کمال

 

arshaddu@gmail.com

آزادی سے قبل اور آزادی کے بعدافسانہ لکھنے والوں کی لمبی قطار ہے ۔ان میں سے تقریباًبیشتر افسانہ نگاروں نے اپنی کہانیوں میں اپنے عہد کی ہیئت کذائیوں اور سماجی کشمکش کی داستان کو پیش کر نے کی کو شش کی ہے ۔مو جودہ دور میں بھی افسانے لکھے جا رہے ہیں اور تواتر کے ساتھ لکھے جا رہے ہیں ۔ہرافسانہ نگار اپنے اپنے نقطہء نظر سے اپنے معاشرے کے خدو خال کو قاری تک پہنچا رہا ہے ۔بغور دیکھیں تو موجودہ دور کے افسانوں میں مجموعی طور پر ایک بے چین اور مضطرب روح کی کا رفرمائی نظر آتی ہے ۔ایک ایسی روح جو اپنے ماحول اور اپنے معاشرے سے ناہم آہنگ اورغیر مطمئن ہے ۔یہ روح جو بظاہرہمیں خوش و خرّم نظر آتی ہے لیکن داخلی طور پر یہ کس حدتک سلوٹوں سے بھری ہوئی ہے ،اُسی کا اظہارآج کے افسانوں کا خصوصی مو ضوع ہے ۔ہمارے عہدکے تقاضے، پرانے عہد کے تقاضوں سے مختلف ہیں ۔پرانی روایتوں کی پابند یوں سے بھی آزاد ہیں اوراب یہ ایک طرح سے سرکا سٹک (Sarcastic ( ڈھانچے میں تبدیل ہو گئے ہیں ،جس میں انسان کا پورا وجود ہی خطرے میں پڑا ہو انظر آتا ہے۔ درد مندی ،شائستگی ،بھا ئی چار گی ،وفاداری ،میل و محبت آج کے عہد میں ہماری ترجیحات کا حصہ نہیں رہے۔اس لئے ہمارے معاشرے کا کوئی بھی انسان خوش نظرنہیں آتا اور جب ہم آج کے افسانہ نگاروں کو پڑھتے ہیں تو اُن کے اظہار کی دنیا درد و کرب اور آہ و بکاکے دائرے میں سمٹی ہو ئی نظر آتی ہے ۔
اصغر کمال ہمارے عہد کے ایک ایسے ہی افسانہ نگار ہیں جو اپنے قاری کوآج کے انسانی معاشرے کی کہانی سناتے ہیں وہ کہانی جو ہراعتبار سے پر آشوب ہے ۔ان کی کہانیاں وقت کی ایک ایسی پکار ہے جو بغیر آنسوؤں کے رلاتی ہے اور آنسوؤں کے ساتھ مسکرانے کا ہنر بھی سکھاتی ہے ۔ان کی کہانیوں کے مو ضوعات میں بہت ساری زندگی نہیں سما تی ۔اُس کا دائرہ بھی بہت دور تک نہیں پھیلتا۔لیکن سماج کے جس جزو کی طرف اشارہ کر تی ہیں وہ بے حد مؤثر اورمعنیٰ خیز ہو تی ہے اور تمام ہندوستانیوں کے دل و دماغ سے رشتہ استوار کر لیتی ہیں ۔ان کی تمام کہانیوں میں غریبی ،مفلسی ،بے چارگی ،سیاسی ، دہشت گردی اورمظلومی کے مو ضوعات و مسائل زیادہ ملتے ہیں ۔ ان کے افسانوں کو پڑھ کر قاری کے ذہن میں پہلا سوال یہی پیدا ہو تا ہے کہ سماج میں اور بھی تو بہت سے مو ضو عات و مسائل ہیں ،پھر آخر فرقہ واریت ،دہشت گردی،جبرو استحصال ،مظلو میت ،غریبی اور نفرت ہی کیوں کہا نی کا مو ضوع بنے ؟اس سوال کا جواب میں بھی پوری طرح نہیں دے سکتا لیکن اِن کے افسانوی مجموعہ ’’افسانۂ نیم شب ‘‘کے افسانوں کو پڑھ کر اوران میں اٹھا ئے گئے مو ضو عات کو دیکھ کر یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اصغر کمال محبت ،انسانیت اور شرافت کی قدروں کے پاسدار اور معاشرتی برائیوں پر احساسِ کرب پیدا کر نے والے افسانہ نگار ہیں۔ ان کی یہی درد مندی انہیں بدی کی معرفت سے نیکی کو تلاش کر نے پر مجبور کرتی ہے۔دراصل ماضی سے لے کر حال تک کے فرقہ وارانہ فسادات،آزادی کے بعد مظلوم طبقے کی زبوں حالی اور کبھی نہ ختم ہو نے والی غربت ،ان کے حسّاس ذہن کو بار بار ضرب دیتی ہے۔ صبرو تحمل اور محنت و مشقت سے حاصل کی گئی قومی یک جہتی کو جب وہ منتشر دیکھتے ہیں تو ان کا قلم خود بخود ان موضو عات کو کہا نی کے اندر سمیٹ لیتا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اصغر کمال کی یہ کہا نیاں خود ان کا Catharsis کرتی ہیں اور اُن کو آرام و سکون مہیا کراتی ہیں ۔ان کی تحریروں میں کسی قسم کا تصنع نہیں ملتا ،نہ کو ئی حجا ب ،نہ کوئی روک ٹوک ،سب کچھ واضح اور کھلا ہو ا ۔ نفسیاتی کشمکش کے بطن سے ابھر نے والی ایک قسم کی جرأت آمیز حق گو ئی اِن کے یہاں مو جود ہے جو معا شرے کے پردے چا ک کر تی ہے۔مذہبی اجارہ داری کی وہ بے راہ روی جو انسان کے ظاہر و باطن کو آشکا ر کر تی ہے وہ بھی ان کی کہانیوں کا حصّہ بنی ہے ۔پردہ دری کی یہی کیفیت ،(ابھی آپ نے کہا ہے کہ ان کے یہاں پردہ داری نہیں ہے۔ سب کچھ کھول کربیان کیا ہے پھر یہ جملہ؟)اِن کے افسانوں میں عجیب و غریب رنگ پیدا کرتی ہے اور اِنہیں ہمارے دوسرے افسانہ نگار وں سے علا حدہ بھی کر تی ہے ۔اصغر کمال کو زندگی کے تلخ تجربوں کا خاصہ تجربہ ہے ۔وہ اپنے تجربے کو سچائی کا آئینہ دکھاتے ہیں اور اپنے افسانوں کے ذریعے انسان کو حریفِ سنگ سے باخبر بھی کر تے ہیں ۔
اصغر کمال کے افسانے بنیادی طور پر اُس سماج کے ترجمان ہیں، جس میں آج ہم سانس لے رہے ہیں ۔ان کے بیشتر افسانے بیانیہ ہیں اور بیشتر افسانوں کے راوی بھی وہ خود ہیں ۔اس لئے ان کے افسانوں میں کردار بھی زیادہ دیکھنے کو نہیں ملتے۔وہ ایک تما شائی کی طرح خود کردار بن جا تے ہیں اور مشا ہدے اور تجربے کو زبان عطا کر تے چلے جا تے ہیں ۔اِن کے افسانوں میں جہاں کہیں بھی کردار ابھر تے ہیں وہ بھی مرکزی حیثیت حاصل نہیں کر پا تے بلکہ راوی کے تا بع رہتے ہیں ۔اس لئے اِن کے افسانے آنکھوں دیکھا حال بن جا تے ہیں۔یہ اپنے افسا نوں کے ذریعے نہ صرف ماضی ،حال اور مستقبل کے رشتے جو ڑ تے ہیں بلکہ مو جودہ بشری تقاضوں کی طرف خصوصی اشارے بھی کر تے ہیں۔اِن اشاروں میں اصلاح کا مقصد بھی پو شیدہ ہو تاہے اور آداب زندگی کی سیکھ بھی شامل ہو تی ہے۔غالباًیہی وجہ ہے کہ اصغر کمال کے افسانوں میں ایک طرح کی تہہ داری ملتی ہے جو ہمارے فکری رَسا کو متحرک کرتی ہے اور سماجی نا ہمواریوں کو کھلی کتاب ٍکی طرح ہمارے سامنے پیش کر دیتی ہے ۔اِنہوں نے طبقاتی کشمکش کو حالات و واقعات کی روشنی میں اس طرح پیش کیا ہے کہ گو یا شہر کی پوری آبادی اس کے نرغے میں ہے اور یہ زندگی کوئی زندگی نہیں ہے بلکہ ایک میدانِ جنگ ہے ۔
’’انگارے ‘‘ ان کا ایک ایسا ہی افسانہ ہے جس میں سارا شہر فساد کی زد میں ہے ۔ہر چہار جانب چیخ و پکار ہے ،کوئی کسی کا پُرسان ِ حال نہیں ۔ تمام اسپتالوں میں مریض بھرے پڑ ے ہیں ۔ایسے مو قعے پرمیڈیا والے اسپتا ل کے سرجن چندر پر کاش سے سوال کر تے ہیں کہ کس قسم کے زخمی ہسپتال میں آرہے ہیں ۔یہ چاقو کے زخم ہیں ،تلوار کے زخم ہیں یا پستول کے ہیں ؟پھرچندر پر کا ش اس کا جوا ب دیتا ہے :
’’چندر پرکاش جیسے پھٹ پڑا ،اس کی آنکھوں سے آنسوجاری ہو گئے ،یہاں روح زخمی ہو ئی ہے ، دل پر گھا ؤ لگے ہیں ۔ ایک پلنگ پر میرا پیارا چا چا سوریہ پر کاش ہے تو دوسرے پر مجھے اس مقام تک پہنچا نے والے چا چا رحمان ہیں ۔ایک نے نام دیا تو ایک نے عز ت ۔دونوں میرے لئے برابرہیں ۔یہ مجرم کو ن لو گ ہیں ،کیا یہ مسلمان ہیں یا یہ ہندوہیں ۔نہیں نہیں ، یہ کسی مذہب کو نہیں ما نتے……یہ کسی اﷲ اور بھگوان کو نہیں مانتے ۔یہ وقت کے پجاری ہیں ‘‘
(انگارے)
فر قہ واریت در حقیقت ایک طرز فکر ہے جسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے لو گوں کے ذہن سے فر قہ وارانہ خیالات کو ختم کر نا ہو گا ۔ فرقہ پرستی اور فرقہ وارانہ فسادات گرچہ ایک چیز نہیں ہے لیکن کئی معاملات میں فرقہ پرستی ،فرقہ وارانہ فسادات کا سبب بن جا تی ہے ، جس کے نتیجے میں قتل و غارت گری ،منصوبہ بند نسل کشی ،درندگی ،بر بریت اور اشتعال کے دوسرے طریقے ہمارے معاشرے کے دامن کو داغدار کر تے رہتے ہیں۔ اصغر کمال اپنے افسانوں میں انسان کی اِ سی بے رحمی اور اس کے اندر پلنے والے بغض و عناد کی طرف اشارہ کر تے ہیں اور اپنے قاری کو اِس قسم کے خرافات سے بچنے کی تلقین بھی کر تے ہیں ۔مو جو دہ معاشرے میں ایسی کئی سیا سی اور مذ ہبی تنظیمیں ہیں جو ملک میں نفرت اور عداوت کی آگ پھیلا رہے ہیں ۔وہ معصوم ،مفلس و نادار کو لا لچ دے کر ایسے آلات ِ حرب تقسیم کر رہے ہیں ،جس سے ملک میں نفرت پھیل رہی ہے۔اس قسم کی سیاسی بد اعمالیوں سے دہشت پسند گروہ کا پر دہ فاش ہو رہا ہے ۔ اصغر کمال نے بہت ہی خوبصورتی سے اس طرف اشارہ کیا ہے :
’’ہندوستا ن میں بے گناہ انسانوں کی لا شوں پر سیا ست کے محل تیار ہوتے ہیں ،گمراہ شہر یوں کو قتل عام کر نے کے لئے چند سکوں کا لا لچ دے کر تلواریں تقسیم کی جا تی ہیں ‘‘
(انگارے )
اس ملک کی جو مو جودہ صورت حال ہے اس پس ِ منظر میں اگر دیکھا جائے تو یہ افسانہ ’’انگارے ‘‘ اس حقیقت کا سچا تر جمان بن جا تا ہے ۔
اسی طرح افسانہ ’’تفتیش ‘‘ میں بھی ان حالات و واقعات کی جانب اشارہ کیا گیا ہے ،جس میں مسلم نوجوان کو پولس کسی نہ کسی بہانے سے نشانہ بنا تی ہے اور اسے دہشت گرد قرار د ے کر اس کا انکا ؤنٹر کر دیتی ہے ۔اس کے پیچھے جو عوامل کار فرما ہو تے ہیں ان کی طرف بھی یہ افسانہ اشارہ کر تا ہے :۔
’’ان سیاسی اعلانات پر پولس اہلکار اپنے ما تحتوں کو دہشت زدہ غریب محلوں کی تلاشی کے لئے روانہ کر دیا جا تا ہے اور پھر آخری وقت تک بھی انہیں مجرموں کا سراغ نہیں ملتا تو یہ اپنے سر بچا نے کے لئے مظلوم سروں کا سہارا لیتے ہیں اور انہیں سولی پر چڑھا کر سو نے کے تمغے اپنے سینوں میں سجا لیتے ہیں،یو ں مقررہ مدت میں بے گناہوں کو دہشت گرد بنا کر سیاست داں اپنی جال میں کا میاب ہو جا تے ہیں ‘‘
اصغرکمال نے شہروں کی زندگی کے ساتھ ساتھ گاؤں کے ماحول کو بھی اپنے افسانے کا مو ضوع بنا یا ہے اور ان لو گوں کی طرف اشارہ کیا ہے جو روزی روٹی کما نے کی غرض سے شہر آتے ہیں اور شاطروں کے جال میں پھنس کر ایک ایسی راہ پر گامزن ہو جا تے ہیں ،جس میں تباہی و بر بادی ہی منزل ہو تی ہے ۔افسا نہ ’’بس اسٹینڈ ‘‘ میں اِس کی منظر نگار ی اس طرح کی گئی ہے :
’’بسیں آرہی تھیں اور مسافروں کو ان کی منز ل دکھا رہی تھیں ۔ہر طرف بس میں چڑھنے والوں کا شور تھا ،اسی ہنگا مے میں ایک زور دار دھماکے کی آواز آئی جس کے بعد پورے بس اسٹینڈ پر چاروں طرف لا شیں ہی لا شیں نظر آرہی تھیں ……ایک طرف مصیبت زدہ ،پریشان حال او ر بے چین لو گوں کو ہمیشہ کے لئے سکون کی نیند سلا چکا تھاتو دوسری طرف ناچتی ہوئی سرورِ زندگی کو خون میں بھی نہلا چکا تھا ……مسافروں کی چہل پہل اور دکا نداروں کی آواز وں سے میلے کا منظر پیش کرنے والا بس اسٹینڈ خاموش قبرستان میں تبدیل ہو چکا تھا ‘‘
(بس اسٹینڈ)
ہمارے سماج کا نظام طبقوں میں منقسم ہے ۔ہر اوپری طبقہ اپنے نچلے طبقے کا استحصال کرتا ہے ۔نچلا طبقہ اپنے وجود کے استحکا م کے لئے اپنے سے نچلے طبقے پر ڈھاتا ہے ۔اس طرح ظلم و جبر کا سلسلہ طویل ہو تا جا تاہے اور طبقاتی جنگ شروع ہو جا تی ہے۔اس جنگ کے بطن سے جوبد صورت زندگی نمودار ہو تی ہے وہ معاشرے کو لگاتار بدلتی رہتی ہے ۔اصغر کمال نے اُنہیں کی تصویر اپنے افسانوں میں کھینچی ہے ۔ظلم و جبر کی مختلف صورتوں کو انہوں نے اپنے افسانوں میں پیش کیا ہے اور ہمارے سامنے وہ سچائیاں رکھی ہیں جن پر عموماً ہماری نظر نہیں جاتی۔زندگی تا عمر انسان کو ذلیل و خوار کر تی ہے اور غربت تو بلا شبہ ایک ذلیل پیشہ ہی ہے ۔ایک مجبور ِ محض انسان کی زندگی کیسے کیسے دن دیکھتی ہے اُسی کو افسانہ ’’سلیقہ ‘‘ میں مو ضوع بنا یا گیا ہے :
’’کچھ دیر بعد انہوں نے دروازہ کھولا تو وہاں وہی مسکین بھیکا ری صورت ایک لڑکا نظر آیا ،لڑکے کودیکھ کر زیتون آپا کی زبان سے وہی پرانا جملہ ادا ہو ا ،بابا معاف کرو ،آگے بڑھو ،ابھی ہمارے پاس کچھ نہیں ہے ۔یہ کہہ کر جب وہ دروازہ بند کر کے واپس جا نے لگیں تو اس لڑ کے نے بڑی عاجزی سے بھرّائی ہوئی آواز میں کہا ’’خالہ !یقین کیجیے میں بھکا ری نہیں ہو ں ،میں یہاں قریب کی ایک دوکان پر کام کرتا ہوں ۔دراصل میری پینٹ پھٹ گئی تھی تو میں نے سوچا کہ میں آپ سے سوئی دھا گہ لے کر اس بد نصیب پینٹ کی مر مت کر لوں ‘‘
(سلیقہ )
اصغر کمال کے افسانوں کو پڑ ھ کر مجمو عی اعتبار سے جو تأثر ابھر تا ہے وہ یہ ہے کہ اِن کے افسانے مثلاً کھلا خط،کندن، احترام ، شاہکار، آنکھوں کا تار ا، بیٹا تم بہت یاد آتے ہو ،ایک بھیانک رات،وہ جب ناراض ہو تی ہے ،وغیرہ، طبقاتی تضادات کو حقیقت سے قریب کر تے ہیں ،جن میں ردِ عمل کی تیزابیت بھی موجود ہے ۔اِن کے افسانے گاؤں اور شہروں کی زندگی کے مدّو جزر کو بڑی خوبی سے منعکس کر تے ہیں اور وہاں کی آب و ہوا میں پلنے ،بڑھنے والی نئی نسل کے نا آسودہ آرزؤں کو دوبارہ دریافت اور متحرک کرتے ہیں ۔ اصغرکمال ایک درد مند اور ذمہ دار فن کا ر ہیں ،اس لئے اِن کے افسانوں میں بار بار یہ اشارہ ملتا ہے کہ ہم نے اپنی اخلا قی ذمہ داری سے منھ مو ڑ لیا ہے اور اپنی تہذیبی وراثت کو کھو دیا ہے ۔ اس لئے اپنے فرائض کو یا د کریں اور گم شدہ تہذیب کو دوبارہ زندہ کریں ۔ایک طرح سے دیکھا جائے تو اصغر کمال اپنے افسانوں میں زندگی کے محاسن اور معائب دونوں کو اپنا موضوع بنا تے ہیں ۔ زندگی کے وسیع منظر نامے پر ان کی نظر گہری ہے لیکن افسانے کی حد تک وہ زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات و حادثات پرہی خود کو مر کوز رکھتے ہیں ۔سچ تو یہ ہے کہ وہ زندگی کے اندھیرے میں جگنوتلاش کر تے ہیں ۔ہا تھ آجا تا ہے تو خوش ہو جا تے ہیں اور نہیں آتا تو غم کی ایک لکیر پیشا نی پر ابھر آتی ہے ۔اِن کے افسانوں میں کوئی ایسا کردار نہیں ابھرتا جو مرکزی حیثیت کا حامل ہو اور جس کے اردگرد کہانی گھو متی ہوبلکہ پورا معاشرہ کردار بن جا تاہے۔اس لئے معاشرے کی مر کزیت میں ان کی کہانیاں آگے بڑ ھتی ہیں اور یہ خود زندگی کی گھمسان کو ایک تماشائی بن کر دیکھتے اور بیان کر تے ہیں ۔اِن کے بیانیہ افسانے زندگی کی حقیقتوں سے ٹکراتے ضرور ہیں لیکن اس تیزی اور تلخی سے نہیں کہ لمبی گو نج پیدا ہو ۔زبان و بیان میں بھی تخلیقی خلاقیت کا وہ اعجاز نظر نہیں آتا جو ہمارے عہد کے بعض افسانہ نگاروں کا طُرّ ہ امتیاز ہے ۔اِن کا اسلوب بہت حد تک کھرُ درا ہے۔کہیں کہیں زبان و بیان میں نا ہمواری بھی پیدا ہو گئی ہے لیکن ان سب کے باوجود اصغر کمال کے افسانے زندگی کے اندھے کنویں سے بعض حقیقتوں کو تلاش کر نے میں کا میاب ہیں۔
٭٭٭
“Tasawwur aur Haqiqat ka Afsana Nigar: Asghar Kamal” written by Dr. Mohd Arshad.”Urdu Research Journal” ISSN 2348-3687, Vol. I, Issue II, page No. 90-95.

Leave a Reply

2 Comments on "تصوراور حقیقت کا افسانہ نگار :اصغر کمال"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] تصوراور حقیقت کا افسانہ نگار :اصغر کمال← […]

trackback

[…] اردونظم آغاز و ارتقاء […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.