شہریار کی شاعری: ایک مطالعہ
آزادی کے دس پندرہ سال بعد ہماری اردو شاعری نے نیا رنگ و آہنگ اختیار کیا۔اسے بالعموم ترقی پسند تحریک کے رد عمل کے طور پر جانا جاتا ہے۔اور اس کے نتیجے میں ایک باقاعدہ تحریک کا آغاز ہوتا ہے جسے ہم جدیدیت کی تحریک کے نام سے جانتے ہیں ۔اس نئے رجحان کے زیر اثر کی جانے والی شاعری کو جدیدیا نئی شاعری کہا جا سکتاہے۔شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں :
’’خاص میکانکی اور زمانی نقطۂ نظر سے ’نئی شاعری‘سے میں وہ شاعری مراد لیتا ہوں جو ۱۹۵۵ء کے بعد تخلیق ہوئی ہے۔۱۹۵۵ء کے پہلے کے ادب کو میں نیا نہیں سمجھتا اس کا مطلب یہ نہیں کہ ۱۹۵۵ء کے بعد جو لکھا گیا وہ سب نئی شاعری کے زمرے میں آتا ہے اور یہ بھی نہیں کہ ۱۹۵۵ء کے پہلے کے ادب میں ’جدیدیت ‘کے عناصر نہیں ملتے۔میری اس تعین زمانی کی حیثیت صرف ایک Refrenceکی ہے۔‘‘ ۱؎
بہر حال ۱۹۶۰ء کے بعد کی شاعری نئی شاعری یا جدید شاعری کہلاتی ہے۔اور اس دور کی شاعری کہ نئی نظم ،نئی غزل یا جدید غزل کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ایسی شاعری میں شاعر کی انفرادیت ،اس کا مزاج نیز اس کے تجربات و محسوسات کو نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔نیا شاعر کسی ازم کا پابند نہیں ہوتا ۔وہ اپنے عقل وشعور اور اپنے داخلی احساس کو ہی اپنا آئیڈیل قرار دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ نئے شعراء کو اکثر ترسیل کی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔لیکن جن شعراء نے محنت، لگن اور خلوص سے کام لیا ان کے فن میں پختگی ہے۔اس فن میں زندہ رہنے کی صلاحیت موجود ہے۔انھیں مخلص فنکاروں میں شہریار کا نام بھی بہت نمایاں ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ خلیل الرحمن اعظمی،ناصر کاظمی وغیرہ کے بعد جو نام سب سے اہم ہے وہ کنور محمد اخلاق خاں متخلص بہ شہریار ؔکا ہے۔شہریار جدید یت سے وابستہ رہ کر کبھی بھی اس کی فکر کو اپنے فن پر غالب نہیں ہونے دیے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری بہت مضبوط اور پائیدار ہے۔وہ یکسر کلاسیکی روایت سے منہ نہیں موڑتے بلکہ ماضی کی صحت مند روایتوں سے ہمیشہ اپنا رشتہ استوار رکھتے ہیں ۔اس لیے ان کی شاعری کو قدیم و جدید کا سنگم بھی کہا گیا ہے۔انھوں نے کلاسیکی روایات کو موجودہ عہد کے تقاضوں کی روشنی میں نئی جہت دینے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
تمام جدید شعراء کی طرح شہریارؔنے بھی اظہارِ ذات کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اپنے عہد کے سماجی مسائل،تنہائی،بے چارگی،شکستہ خوردگی، ناکامی، ناامیدی، زندگی کی تلخییاں ، بے حسی،عدم تحفظ وغیرہ کوبھی موضوع بنایا ہے۔مگر فن پر مضبوط گرفت ہونے کی وجہ سے وہ ترسیل کی ناکامی سے بچ گئے ہیں ۔ان کے کلام میں بڑی تہہ داری پائی جاتی ہے۔جہاں ان کا لہجہ طنزیہ ہو گیا ہے وہاں تلخی بھی پیدا ہو گئی ہے۔لیکن وہ اپنے دھیمے لہجے اور گن گناہٹ سے اس تلخی کو قابل قبول بنا دیتے ہیں ۔چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎
عجیب سانحہ مجھ پر گزر گیا یارو
میں اپنے سایے سے کل رات ڈر گیا یارو
وہ کون تھا ،وہ کہاں کا تھا،کیا ہوا تھا اسے
سنا ہے آج کوئی شخص مر گیا یارو
شہریار ؔ کے یہاں ایسے اشعار کی بھی کمی نہیں ہے جن میں زندگی ہے ،حرارت ہے ،جوش ہے حوصلہ ہے۔ان کی شاعری میں رنگا رنگی پائی جاتی ہے۔مندرجہ ذیل اشعارسے ہم اس بات کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں ؎
امید سے کم چشم خریدار میں آئے
ہم لوگ ذرا دیر سے بازار میں آئے
لاکھ خورشید سر بام اگر ہیں تو رہیں
ہم کوئی موم نہیں ہیں کہ پگھل جائیں گے
راتیں جیسی بھی ہوں ڈھل جاتی ہیں
زخم کیسے بھی ہوں بھر جاتے ہیں
جان بھی میری چلی جائے تو کوئی بات نہیں
وار تیر ا نہ ایک بھی خالی جائے
جستجو جس کی تھی اس کو تو نہ پایا ہم نے
اس بہانے سے مگر دیکھ لی دنیا ہم نے
ہر ایک ادا پسند ہے معشوق کی ہمیں
ظالم ہو ،بددماغ ہو،ہرجائی تو نہ ہو
شہریار کی شاعری میں کلاسیکی روایات کی پاسداری ملتی ہے۔وہ قدیم روایات کو یکسر نظر انداز نہیں کرتے بلکہ قدیم و جدید کے امتزاج سے ان کی غزلوں میں نئے طرز کا احساس ہوتا ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے طرز احساس میں شدت پیدا ہوـتی جاتی ہے ؎
جدھر اندھیرا ہے ،تنہائی ہے، اداسی ہے
سفر کی ہم نے وہی سمت کیوں مقرر کی
دھوپ کی قہر کا ڈر ہے تو دیار ِشب سے
سر برہنہ کوئی پرچھائیں نکلتی کیوں ہے
گردش وقت کا کتنا بڑا احساں ہے کہ آج
یہ زمیں چاند سے بہتر نظر آتی ہے ہمیں
اے شہر ترا نام و نشاں تک نہیں ہوتا
جو حادثے ہونے تھے اگر ہو گئے ہوتے
تقسیم کا المیہ بہت بڑا المیہ ہے۔کون شخص تھا جو اس حادثے سے متاثر نہیں ہوا۔شہریار نے بھی اپنی شاعری میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔آزادی ،تقسیم،فسادات اور ہجرت کے وقت ہونے والے سانحات ،عظیم اقدار کی پامالی کا ذکر جب ان کی شاعری میں ہوتا ہے تو ان کے یہاں حزن و الم کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ایسے مواقع پر انسانوں کے ذہن و دماغ پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔اس کو انھوں نے بڑی چابک دستی سے اپنے اشعار میں ڈھالا ہے ؎
ہر شخص مضمحل ہے بکھرنے کے خوف سے
آندھی کا قہر سر وصنوبر پہ دیکھ کر
ماحول میرے شہر کا ہاں پر سکوں نہ تھا
لیکن بٹا ہو ا یہ قبیلوں میں نہ تھا
کیا عجب رسم ہے دستور بھی کیا خوب ہے یہ
آگ بھڑکائے کوئی ، کوئی بجھانے آئے
گزرے تھے حسین ابن علی رات ادھر سے
ہم میں سے مگر کوئی بھی نکلا نہیں گھر سے
وقت کی بات ہے یہ بھی کہ مکاں خوابوں کا
جس نے تعمیر کیا ہو وہی ڈھانے آئے
نئے عہد میں انسان جن مسائل سے دوچار ہے ان میں عدم تحفظ ،تنہائی ،احساس بے چارگی،خوف ،زندگی سے بے زاری وغیرہ ایسے موضوعات ہیں جن پر تمام جدید شعراء نے اپنی توجہ مرکوز کی ہے۔شہریار ؔنے بھی ان موضوعات کو اپنی شاعری میں جگہ دی ہے۔ لیکن ان کے یہاں سطحیت بالکل نہیں پائی جاتی بلکہ ان کے فکر وفن کی بلندی ہر جگہ نمایاں ہے۔وہ ثقیل الفاظ کے بجائے عام فہم الفاظ اور تراکیب ہی کے ذریعہ اپنے اشعار کو کمال ہنر مندی سے نئے معنی و مفہوم میں پیش کرتے ہیں ۔ان کے یہاں خود کلامی کا لہجہ بھی ااستعمال ہوتا ہے اور کبھی کبھی وہ سوال بھی قائم کرتے ہیں اور نہایت سادگی سے بہت کچھ کہہ جاتے ہیں ۔ان کا دھیما لہجہ بہت مشہور ہے مگر وہ دل کو چھو نے والا ہوتا ہے۔ان کے یہاں تشبیہ و استعارہ،علامات اور پیکر تراشی کا عمل بھی دیکھنے کو ملتا ہے لیکن ان وسائل کے استعمال سے ان کے یہاں کسی طرح کی پیچیدگی پیدا نہیں ہوتی ۔یہ اشعار دیکھیے ؎
میں زندہ ہوں اس کا مجھ کو کچھ تو یقیں آئے
ہے آباد مکاں دل میں کوئی تو مکیں آئے
جہاں جائیے ریت کا سلسلہ
جدھر دیکھئے شہر اجڑے ہوئے
مری آنکھوں کو کب روشنی سے نسبت تھی
ازل سے میرے تعاقب میں ہے اندھیرا کیوں
میرے سورج آ!میرے جسم پہ اپناسایہ کر
بڑی تیز ہوا ہے ،سردی آج غضب کی ہے
جدید شاعری میں خواب کا ذکر کثرت سے ہوا ہے اور اسے بحیثیت پناہ گاہ اور سہارا کے استعمال کیا گیا ہے۔شہریار ؔکے یہاں خوابوں کو مرکزیت حاصل ہے۔ان کے یہاں آنکھ ،نیند،رات،اندھیرا،جگنو وغیرہ کا استعمال خواب کے استعارے کو اور بھی معنی خیز بنا دیتا ہے ؎
یہی ہے وقت کہ خوابوں کے بادباں کھولو
کہیں نہ پھر سے ندی آنسوؤں کی گھٹ جائے
سورج کا سفر ختم ہوا ،رات نہ آئی
حصے میں میرے خوابوں کی سوغات نہ آئی
زخموں کو رفو کر لیں دل شاد کریں پھر سے
خوابوں کی کوئی دنیا آباد کریں پھر سے
کون سا قہر یہ آنکھوں پہ ہو اہے نازل
ایک مدت سے کوئی خواب نہ دیکھا ہم نے
جاگتی آنکھوں سے بھی دنیا دیکھو
خوابوں کا کیا ہے وہ ہر شب آتے ہیں
اٹھو نیندوں سے آنکھوں کو جلائیں
چلو خوابوں کی پریوں کو پکاریں
ریت کے استعارے کا استعمال بھی ان کے یہاں خوب ہے۔اس کے ذریعہ وہ انکشاف ِذات بھی کرتے ہیں اور گرد و پیش کے حالات و واقعات پر تبصرہ بھی کرتے ہیں ۔پیش ہیں اس سے متعلق یہ اشعار ؎
ریت پھیلی اور پھیلی دور دور
آسماں سے کیا خبر لائی ہوا
ریت بے فیض تھی ،بے مہر مگر ریت نہ تھی
ریت کے غم میں بگولوں کو بھپرتادیکھو
منتشر کر چکی آندھی تو یہ معلوم ہوا
اک بگولے کی طرح ریت کے گھر میں ہم تھے
جذب کرے کیوں ریت ہمارے اشکوں کو
تیر ا دامن تر کرنے اب ہم آتے ہیں
رگوں میں ریت کی اک اور تہ جمی دیکھو
کہ پہلے جیسی نہیں خون میں روانی بھی
مٹھیاں ریت سے بھر لو کہ سمندر میں تمھیں
اک نہ اک روز جزیروں کی ضرورت ہوگی
مندرجہ بالا اشعار میں ریت کو استعارہ کے طور پر استعمال کر کے نئے زمانے کی کرب ناکی کو اجاگر کیا گیا ہے۔اس طرح کے اشعار ان کے تمام مجموعہ کلام میں ملتے ہیں ۔اس طرح شہریارؔ کی شاعری ہم عصروں میں بہت ممتاز نظر آتی ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ شاید یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی ازم کی زنجیروں میں قید ہو کر شاعری نہیں کر تے ۔بے شک انھوں نے جدیدیت کا اثر قبول کیا ہے اور جدیدیت کے زیر اثر نظمیں اور غزلیں بھی کہی ہیں ۔لیکن ان کی اس فکر پر فن غالب رہتا ہے۔وہ جدیدیت کی رو میں بہہ نہیں جاتے بلکہ فنی تقاضوں کو ہمیشہ عزیز رکھتے ہیں ۔اس لیے کہا جا تا ہے کہ ان کی گرفت فن پر بہت مضبوط ہے۔احمد محفوظ لکھتے ہیں :
’’جدید غزل کی نمائندہ آوازوں میں شہریار کی حیثیت آج کے تناضر میں مرکزی کہی جا سکتی ہے۔اس مرکزیت کی بنیاد محض اس بات پر نہیں ہے کہ ان کا تخلیقی سفر طویل عرصہ گزر جانے کے بعد آج بھی جاری ہے بلکہ اس بات پر بھی ہے کہ ان کے یہاں اظہار کی یکسانیت کے بجائے فکر و احساس کی سطح پر مسلسل آگے بڑھنے اور نئے نئے ابعاد تلاش کرنے کا رجحان اب بھی نمایاں ہے۔اس عمل میں جو بات سب سے زیادہ اپنی طرف متوجہ کرتی ہے وہ ان کے یہاں فنی تقاضوں کی بھر پور پابندی ہے۔یہی وہ منزل ہے جہاں بیش تر شعرا کو ناکامی کا منھ دیکھنا پڑتا ہے۔ترقی پسندوں ااور آج کے بہت سے شعرا کی ناکامی کا ایک سبب یہی کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے فن کے تقاضوں کو قابل ِ لحاظ اہمیت نہیں دی۔‘‘ ۲؎
شہریار کی نظموں کا ذخیرہ کچھ کم نہیں ہے۔ انھیں نظم گوئی اور غزل گوئی دونوں پر یکساں عبور حاصل ہے۔انھوں نے خلیل الرحمن اعظمی سے کسب ِفیض کیا تھا۔ ان کی نظمیں فکر و فن کے لحاظ سے کافی بلند مقام پر ہیں ۔اان کی نظموں میں بھی روایت سے بغاوت کے باو جود کلاسیکیت یکسر نظر انداز نہیں ہوتی ۔اس لیے ان کی نظمیں نئی ہونے کے ساتھ فطری بھی ہیں ۔نئے زمانے کے مسائل ،عصری حسیت،شہری زندگی ،انسانی اقدار کی پامالی،ناکامیاں ،محرومیاں ،خوشی و غم جیسے موضوعات پر ان کی نظموں کا تانا بانا تیار ہوا ہے ؎
ابھی نہیں ابھی زنجیرِخواب برہم ہے
ابھی نہیں ابھی دامن کے چاک کا غم ہے
ابھی نہیں ابھی در باز ہے امیدوں کا
ابھی نہیں ابھی سینے کا داغ جلتا ہے
ابھی نہیں ابھی پلکوں پہ خوں مچلتا ہے
ابھی نہیں ابھی کم بخت دل دھڑکتا ہے
(موت)اسم اعظم
دن کے صحرا سے جب بنی جان پر
ایک مبہم سا آسرا پاکر
ہم چلے آئے اس طرف اوراب
رات کے اس اتھاہ دریا میں
خواب کی کشتیوں کو کھیتے ہیں !
(فریب درفریب)اسم اعظم
بس کی بے حس نشستوں پر بیٹھی
دن کے بازار سے خریدی ہوئی
آرزو ،غم، امید،محرومی
نیند کی گولیاں ، گلاب کے پھول
کیلے ،امرود،سنگترے،چاول
ایک اک شے کا کر رہی ہے حساب
عہد حاضر کی دل ربا مخلوق
(عہد حاضر کی دل مخلوق) ساتواں در
صنعتی ترقی کے دور کی تصویر بھی ملا حظہ کیجئے جہاں کرب ناکی، دنیا بیزاری ،اکتاہٹ کاکیسا سماں بندھا ہوا ہے ؎
دواؤں کی الماریوں سے سجی اک دوکان میں
مریضوں کے انبوہ میں مضمحل سا
اک اانسان کھڑا ہے
جو اک نیلی کبڑی سی شیشی کے سینے پہ لکھے ہوئے
ایک اک حرف کو غور سے پڑھ رہا ہے
مگر اس پہ تو’’زہر‘‘لکھا ہوا ہے
اس انسان کو کیا مرض ہے
یہ کیسی دوا ہے؟
(نیا امرت) اسم اعظم
آج کا انسان جن مسائل کے دوچار ہے۔ان میں تنہائی کا خوف ،عدم تحفظ ،بے چارگی ،زندگی سے مایوسی،غربت و افلاس ان تمام باتوں کی طرف شہریار کی نظموں میں واضح اشارے موجود ہیں ۔انھوں نے اپنی نظموں کے ذریعہ اانسانی زندگی کے مختلف پہلو ؤں کو بے نقاب کیا ہے ؎
ہاتھوں میں نہیں حرکت کوئی
محروم ہیں گویائی سے لب
آنکھوں کو دید کی تاب نہیں
انکار ہے دل کو دھرکنے سے
اور گوش ،سماعت سے خائف
چھو کر تو ذرا دیکھو اس کو
انسان ہے یا ہے بت کوئی
(انسان یا بت)ساتواں در
میں نہیں جاگتا تم جاگو
سیہ رات کی زلف ،اتنی الجھی ہے کہ سلجھا نہیں سکتا ہوئی
بارہاں کر چکا کوشش میں تو
تم بھی اپنی سی کرو
اس تگ ودو کے لیے خواب مرے حاضر ہیں
نیند ان خوابوں کے پروازوں سے لوٹ جاتی ہے
سنو،جاگنے کے لیے ان کا ہونا
سہل کر دیگا بہت کچھ تم پر
آسماں ریگ میں کاغذ کی ناؤ
رک گئی ہے اسے حرکت میں لاؤ
اور کیا کرنا ہے تم جانتے ہو
میں نہیں جاگتا تم جاگو
سیہ رات کی زلف
اتنی الجھی ہے کہ سلجھا نہیں سکتا کوئی
( میں نہیں جاگتا۔۔۔)نیند کی کرچیں
ہنسنے کے جتنے مقام آئے ہنسا
بس مجھے رونے کے ساعت پہ خجل ہونا پڑا
جانے کیوں رونے کے ہر لمحے کو
ٹال دیتا ہوں کسی اگلی گھڑی پر
دل میں ،خوف و نفرت کو سجا لیتا ہوں
مجھ کو یہ دنیا بھلی لگتی ہے
بھیڑ میں اجنبی لگنے میں مزا آتا ہے
(زندہ رہنے کا احساس )نیند کی کرچیں
بنائے تھے ہوس گھیرے
د ریچوں میں سجے چہرے
گلی کی آخری حد تک
میں اپنی آنکھ میں نقشہ
کسی اجڑے ہوئے گھر کا
لیے واپس چلا آیا
یہ پچھتاوا اسی کا ہے
کہ کیوں خود کو بچا لایا
(کیوں خود کو بچا لایا)نیندکی کرچیں
معاصرعہد میں انسان کی نفسیاتی اور جذباتی پیچیدگی نے ان کے احساس میں شدت پیدا کر دی ہے۔جس سے ان کے اندر ایک طرح کا جنون طاری ہو گیا ہے اور شعور کی گہرایٔ وگیرائی میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔شہریار بھی جیسے جیسے اپنی داخلی و خارجی دنیا سے آگاہ ہوتے جاتے ہیں ان کی الجھنیں بڑھتی جاتی ہیں ۔انھیں نفسیاتی و جذباتی پیچیدگیوں کے پس منظر میں خلیل الرحمن اعظمی نے ان کی شخصیت اور شاعری کا تجزیہ کچھ اس انداز میں پیش کیا ہے :
’’وہ اپنی اندرونی شخصیت کی تلاش میں ہے اوراس تلاش کے لیے اس نے شاعری کا سہارا لیا ہے۔ اس کی ساری نظمیں در اصل ااسی جستجو کی روداد ہیں ۔خواب اورحقیقت کا ٹکراؤ ،دن اور رات کی کش مکش ،بھری دنیا میں تنہائی کا احساس ،فریب اور خود فریبی، سراب، صحرا، ریت، تاریکی، دھندلکا،گمشدگی،بازیافت،کرب،موت اور زندگی دونوں کی خواہش اور دونوں سے فرار ۔یہ وہ داخلی مسائل ہیں جن سے اس کی شاعری کا خمیر تیار ہواہے۔اس کی نظموں میں کہیں مدھم اور کہیں واضح طور پر یہ آہیں سنائی دیتی ہیں ۔‘‘ ۳؎
شہریار کی نظموں میں علامت نگاری کی بے شمار مثالیں ہیں۔ان کی شاعری میں جدید علامتیں ،نئے نئے موضوعات اور انسانی جذبات واحساسات کو بڑی خوش اسلوبی سے بیان کیا گیا ہے۔ان کے یہاں برجستگی اور بے شاختگی پائی جاتی ہے۔ان کی کوئی بھی نظم شعریت سے خالی نہیں ہوتی ؎
دن کا دروازہوابند شب ِتار آئی
راستے کروٹیں لینے لگے
گلیوں میں اداسی چھائی
سارے ہنگامے،وہ سب رونقیں (دن کی ہمراز)
گونگی جیلوں میں ہوئیں قید
چلو اب نکلیں
اپنی تنہائی کے اس خول سے باہر
دیکھیں
اپنا سایہ کہاں جاتا ہے شبِ تار میں آج
کون سی یادوں کو چمکاتا ہے
کس پل کو صدا دیتا ہے
آج کیا کھوتا ہے،کیا پاتا ہے
کس طرح بڑھتا ہے ،گھٹتا ہے،بکھرجاتا ہے
کیسے مر جاتا ہے؟
(سائے کی موت ) اسم اعظم
جدید شعرا کی بھیڑ میں شہریارؔنے جس طرح اپنی انفرادیت برقرار رکھی ہے یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔انھوں نے غزلوں اور نظموں میں روایت کی پاسداری کے علاوہ خوشگوار اضافے بھی کیے ہیں اور اظہار کی نئی شمعیں بھی جلائی ہیں ۔ان کی شاعری میں جو انفرادیت ہے وہی ان کی شناخت ہے اور طرز اظہار بھی ہے۔اگر شہریار کی شاعری کا سنجیدگی سے مطالعہ کیا جائے تو جدید شاعری کے خلاف جو تعصب دلوں میں پایا جاتا ہے وہ دور ہو سکتا ہے اور نئی نسل کے شعرا اپنے تخلیقی عمل کے دوران ان کی شاعری سے بھر پور استفادہ کر سکتے ہیں ۔
حواشی
۱۔صفحہ۱۲۶،لفظ و معنی،شمس الرحمن فاروقی،شب خون ،کتاب گھر،الہ آباد، ۱۹۶۸ء
۲۔صفحہ۔۲۹۵،شعرو حکمت دور سوم ۔کتاب پانچ(مرتبین:شہریار و مغنی تبسم)۔کپاڈیا لین،سوماجی گوڑہ،حیدرآباد، ۲۰۰۳ء
۳۔صفحہ ۔۱۱۲،شہریار،مرتب سرورالہدیٰ،اصیلا آفسیٹ پریس،دریا گنج،نئی دہلی، ۲۰۱۰ء
FAIZUR RAHMAN
Department Of Urdu
University Of Delhi
Email.frahman68@gmail.com
Mob No.9654338719
شموئل احمد اورجنسی نفسیات
(’’عکس چار‘‘ کا مطالعہ Electra Complex تھیوری کی روشنی میں )
زبیر عالم
ریسرچ اسکالر،105(ای)،برہم پترا ہاسٹل، جے این یو،نئی دہلی۔110067
موبائل نمبر۔9968712850
شموئل احمد کے افسانہ’’عکس چار‘‘ پر گفتگو سے پہلے ’’الیکٹرا کامپلکس ‘‘ اور اس کے مختلف ابعاد کی تفہیم ضروری معلوم ہوتی ہے۔’’اوڈیپس کامپلکس‘‘ کی اصطلاح کا موجد سگمنڈ فرائڈاپنی ’y ‘psychoanalytic theorکے ذریعہ ہمیں چونکاتا ہے کہ دوران بچپن بیٹے اور ماں کے درمیان بہت مضبوط رشتہ ہوتاہے۔اس کے بقول ماں ،باپ اور بیٹے کے درمیان ایک تثلیث قائم ہوتی ہے۔بیٹا،جنس مخالف ہونے کے سبب ماں کی طرف ملتفت ہوتا ہے اور ہم جنس ہونے کے سبب باپ کو اپنا حریف گردانتا ہے۔ماں کی طرف شدید قسم کا جنسی رحجان اور باپ سے ٹکرائو کی کشمکش سے بیٹا اپنے ہونے کے احساس اور اپنی شخصیت کے اوصاف سے آشنا ہوتا ہے۔ماں کی طرف ملتفت اور باپ سے حریفانہ جذبے کی ذہنی کیفیت ہی دراصل وہ احساس ہے جسے سگمنڈ فرائڈ ’’اوڈیپس کامپلکس ‘‘ کہتا ہے۔
فرائڈ اپنے تجربات کو بیان کرتے وقت صرف ماں بیٹے کی مثال پیش کرتا ہے اس لیے بعد کے دور میں یہ اعتراض واردہوا کہ لڑکیوں کے اس قسم کے جذبے کے تعلق سے کیا کہا جائے ؟کیا وہ بھی اسی طرح اپنے باپ کی طرف جنس مخالف ہونے کے سبب ملتفت ہوتی ہیں ؟اگر ہاں تو اس جذبے کو کیا نام دیا جائے؟ بعد کے ماہرین نفسیات میں سے یونگ نے باقاعدہ اس کے لیے ایک الگ اصطلاح ’’الیکٹرا کامپلکس‘‘استعمال کی ۔حالانکہ فرائڈ نے اس ضمن میں یونگ سے اختلاف کیا۔(۱)
اوڈیپس کامپلکس اور الیکٹرا کامپلکس کے درمیان مما ثلت کے سبب ہی بعد کے دور میں رائج ہوئی موخر الذکراصطلاح کواول الذکر اصطلاح کے حوالے سے سمجھنے اور سمجھانے کا رحجان حاوی رہا۔مثال کے طور پر اسٹڈی۔کام کی تعریف پیش خدمت ہے:
“As you may able to guess,the electra complex is the female version of the conflict children experience during the phallic stage”. (2)
لفظ ’’الیکٹرا ‘‘ کا حوالہ تاریخی ہے۔یونانی ڈرامے کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ الیکٹرا ایک شہزادی کا نام ہے۔قدیم یونانی ثقہ ڈرامہ نگاروں کے مطابق الیکٹرا،ارگوس ریاست کی شہزادی ہے۔ ارگوس ایک شہری علاقے پر مشتمل ریاست ہے جس پر الیکٹرا کے والد بادشاہ اگامیمنان اور والدہ ملکہ کلائم نیسٹراکاحکم چلتا ہے۔خاندان میں کافی خلفشار ہے۔الیکٹرا کی بہن،ایفی گینیاکو خدا کے حکم سے’ ’ٹروس جنگ‘ ‘سے پہلے آزمائش سے گزرنا ہے۔الیکٹرا کواپنے جڑواں بھائی ’اورسٹس ‘کو اپنی کینہ پرور ماں سے بہن کو بچانے کے لیے بھیجنا ہے۔
ٹروس جنگ سے واپس آنے کے بعد بادشاہ کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی بیوی نے اپنے چچا زاد کو اپنا عاشق بنا لیا ہے۔کلائم نیسٹرا اور اس کے عاشق نے سازش کے تحت بادشاہ کو قتل کر دیا ۔الیکٹرا برباد ہو جاتی ہے اور اپنے بھائی سے درخواست کرتی ہے کہ وہ واپس آکر بدلہ لے اور تخت کا وارث بنے۔اورسٹس ایک مقررہ وقت پر ارگوس واپس آتا ہے اور الیکٹرا کی مدد سے اپنی اور اس کے عاشق کو قتل کرکے تخت و تاج سنبھلاتا ہے۔
ایسے دیکھیں تو الیکٹرا کامپلکس اور اوڈیپس کامپلکس کے درمیان بہت سی مماثلتیں ہیں ۔دونوں جنسی تنازع اور قتل سے تعلق رکھتی ہیں ۔الیکٹرا کامپلکس کا حوالہ قدیم یونانی ڈرامے ہیں اور اوڈیپس کامپلکس کابھی۔یہ خیالات آج کے نفسیاتی معالج کے لیے انتہائی شدید معلوم ہوتے ہیں باوجود اس کے کہ ہماری معاصر کہانیوں میں جنسی تنا زعہ اور قتل مرکزی حیثیت میں بکثرت بیان ہوتے ہیں ۔کم و بیش ہر جدید فلم اور ٹیلی ویزن پروگرام کے لیے بھی یہی مرکزی مو ضوع ہے۔ہندوستانی سنیما میں وشال بھاردواج کی مقبول(۲۰۰۳)،اومکارا(۲۰۰۶)اورحیدر(۲۰۱۴)جیسی فلمیں اور کرائم پٹرول جیسے ٹیلی ویزن پروگرام اس کی نمایاں مثال ہیں ۔
شموئل احمد کے افسانوی مجموعے ’’بگولے‘‘میں شامل افسانہ’’عکس چار‘‘حقیقت میں فرائڈ کے مذکورہ بالا نظریے کے تحت لکھا گیا ہے۔اس میں ایک جواں سال دو شیزہ اپنی عمر سے نسبتاً بڑے عمر کے مرد میں دلچسپی رکھتی ہے ۔معاشرے میں اس قسم کے معاملات بہت کم عیاں ہوتے ہیں اس کا مطلب یہ ہرگزنہیں ہے کہ ایسے واقعات رونما نہیں ہوتے۔عموماً اس قسم کے واقعات افرادخانہ یا خاندان کے درون میں ذاویہ اختیار کرتے ہیں ۔عام طور پردونوں فریقین بات کو بات تک رہنے دیتے ہیں ۔کبھی کبھی بات اپنے دائرے سے نکل کر دوسری سرحدوں کو چھونے لگتی ہے۔ماہرین اس ضمن میں اس بات کے قائل نظر آتے ہیں کہ عموماًبدلائو سے دو چار دوشیزہ اپنے باپ کی طرف ملتفت ہوتی ہے۔چونکہ وہ اپنے اندر رونما ہو رہی تبدیلی سے آشنا نہیں ہوتی اس لیے اس کی کچی پکی آرزوئیں اس شخص کے گرد بصورت حصار ڈیرا جما لیتی ہیں جس کے ہاتھ میں گھر یاخاندان کا نظم و نسق ہوتا ہے۔
شموئل احمد کا مذکورہ افسانہ اسی رشتے کی پرپیچ وادیوں اور ان وادیوں میں روپوش نشیب و فراز کی مختلف جہات کو آشکار کرتا ہے۔جنسی طورپر غیر مطمئن دوشیزہ کی زندگی میں اس کے شوہر کے ادھیڑ عمر کے رشتے دار کے آنے سے تقریباً معمول پر رہنے والی زندگی ارتعاشات سے آشنا ہوتی ہے۔کہانی میں مستعمل فلیش بیک کی تکنیک ماضی کے واقعات کو ترتیب وار پیش کر کے انسانی زندگی کے مختلف ادوار میں ابھرنے والے مختلف النوع جذبات و احساسات کو کو دائروی شکل عطا کرتی ہے۔افسانہ نگار کا بیان اس لیے لائق ستائش ہے کہ اس نے گزشتہ یا سابقہ ذایوں کو بیان کرنے کے لیے زبان کو فن کارانہ انداز میں استعمال کرتے ہوئے الفاظ کے محل استعمال سے اپنے مقصد کی جانب قدم بڑھایا ہے۔مثال کے طور پرکہانی کے ابتدائی حصے سے ایک مثال ملاحظہ ہو:
’’ادھیڑ عمر کا وہ شخص بلکل پاپا کی طرح لگا تھا۔اسی طرح کنپٹیوں کے پاس اس کے بال سفید ہو گئے تھے اور بات چیت کا انداز بھی وہی تھا۔اس کے شوہر کی کسی بات پر وہ یکایک زور سے ہنسا تو اس کی آنکھیں اسی طرح حلقوں میں دھنس گئی تھی اور گالوں پر شکن پڑ گئے تھے۔تب ایک اچڑتی سی نظر اس نے اپنے شوہر پر ڈالی تھی جواس وقت اس کو اس قدر اجنبی معلوم ہوا تھا کہ وہ ایک لمحے کے لے حیران رہ گئی تھی۔پھر وہ یہ سوچ کر اداس ہو گئی تھی کہ اس کا شوہر پاپا سے کس قدر مختلف ہے۔‘‘(۳)
زندگی میں سمجھوتے کی کس قدر گنجائش ہے اس کا بیان مذکورہ سطور میں بلکل واضح ہے ۔بظاہر ڈگر پر چل رہی زندگی میں ’پاپا کی طرح کے شخص‘ کے یکایک آجانے سے ارتعاشات کی لہریں اس قدر پر زور ہو جاتی ہیں کہ بیان کردہ کے نزدیک اس کا شوہر جس سے اس کا مستقبل وابستہ ہے،صرف سامان حسرت رہ جاتا ہے۔وہ بھی ایسا کہ جس کو پہلی صورت میں راویا کے یہاں کوئی گنجائش نہیں ہاں دوسری صورت میں ضرور اپنایا جا سکتا ہے۔جنسی نفسیات پر نظر رکھنے والے بتاتے ہیں کہ باپ کے تصور میں جینے والی لڑکی عمر کے ہر مقام پر باپ جیسا معروض تلاشتی رہتی ہے۔اب یہ معاشرتی دبائو کا لازمی نتیجہ ہے کہ اسے باپ جیسا نہ سہی لیکن کسی نہ کسی کے ساتھ وابستہ ہونا پڑتا ہے۔پہلی پسند کے خون کے بعد دوسری پسند کو گلے لگانے کا انجام یہ ہوتا ہے کہ انسان سامنے کے شخص کے خدو خال کو بظاہر جیسا ہے ویسا نہ دیکھ کر اپنے مخصوص تصور کے حوالے سے’’اسی طرح‘‘ دیکھنے لگتا ہے ۔مقابلے اور موازنے کا عمل اتنی سرعت کے ساتھ انجام پذیر ہوتا ہے کہ نتیجہ برآمد ہونے میں دیر نہیں ہوتی۔دیرینہ خواہش سر اٹھاتی ہے اور موجودہ رشتہ جس سے مستقبل وابستہ ہے ،تمام تر سماجی تحفظات حاصل ہونے کے بعد بھی بے وقعت ٹھہرتا ہے اور انسان اس جانب جست لگا دیتا ہے جس سے تمام قسم کی خرابیاں منسوب ہیں ۔
افسانہ نگار نے تعارف کے بعد کہانی میں بیان کی سطح پر یہ قرینہ رکھا ہے کہ مرکزی کردار کے تعارف کے سوا تمام باتیں صیغئہ ماضی میں صورت پذیر ہوتی ہیں ۔کرداروں کو ترتیب وار رکھا جائے تو کچھ یوں ہوگا۔پہلے پہل راویا ،اس کے بعد اس کاباپ،پھر رواویا کاشوہراور آخر میں شوہر کا ادھیڑ عمر رشتے دار ۔اس کے شوہر کا کردارصرف کہانی کے ابتدا اور انجام کی کڑی میں پر تحرک ہے ورنہ اس کی حیثیت نام بھر ہے۔شوہر کے رشتے دار کا کردار راویا کے لیے catalyst کی طرح ہے۔ یہی وہ شخص ہے جس کی آمد سے راویا کے اندر ارتعاشات کی لہریں جنم لیتی ہیں اور خاموش سمجھوتے کے تحت چل رہی زندگی کی ریل گاڑی کو رفتار ملتی ہے۔راویا کے والد کا کرداربظاہر صیغئہ ماضی میں ابھرتا ہے تاہم اس کی متحرک حیثیت سب سے غالب ہے۔یہ وہ شخص ہے جس نے لاشعوری طور پر روایا کے اندر رونما ہو رہی تبدیلیوں کو ایک سمت دینے کی کوشش کی ہے۔اس کے جذبات میں کسی قسم کا کھوٹ نظر نہیں آتالیکن تبدیلیوں کی زد پر کھڑی راویا کے ظاہر و باطن میں اس کے اس عمل سے کس قسم کے طوفان اٹھ رہے ہیں اس کا اندازہ بہ جز راویا کے کسی کو بھی نہیں :
’’در اصل اس عجیب پھیکے پن کے احسا س سے وہ پہلے بھی دوچار رہی تھی۔اکثر چپ چاپ رہتی۔یکایک اداس ہو جاتی۔تب اسے ساری چیز مصنوعی بے کیف اور بھدی لگنے لگتی تھیں ۔ایسے میں وہ کھڑکی کے قریب بیٹھ جاتی ۔پھر اس کی نگاہیں خلا میں کچھ ڈھونڈھنے لگتیں ۔آسمان میں بادل طرح طرح کی شکلیں بناتے معلوم ہونے لگتے ۔تب اس کی آنکھیں خود بخود بند ہو نے لگتیں ۔۔۔پھر پاپا قریب آجاتے اور اس کے گالوں کو تھپتھپاتے ہوئے آہستہ سے کہتے تھے۔۔۔بے بی۔۔۔کیا بات ہے۔۔۔؟بہت اداس ہو؟بے بی۔۔۔اور اس کا جسم آہستہ آہستہ کانپنے لگتا تھا۔اس کو لگتا وہ سچ مچ بے حداداس ہے۔بے حد تنہا۔۔۔اور تب ایک گہرے پھیکے پن کے احساس سے وہ بھر اٹھتی تھی۔وہ دیر تک پھیکے پن کے احساس میں ڈوبی رہتی اور اس کا آہستہ آہستہ اسی طرح کانپتا رہتا۔آنکھیں بند رہتیں ۔پھر پاپا کب اٹھ کر چلے جاتے اس کو پتہ بھی نہیں رہتا۔‘‘(۴)
شموئل احمد نے اس کہانی میں اشاراتی زبان کا اتنا بہتر استعمال کیا ہے کہ کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ زبان کا مزاج بھی کہانی کے موضوع کے ساتھ ساتھ تغیر و تبدل سے آشنا ہوتا ہے۔ایک بڑے عمر کے مرد سے متاثر نوجوان لڑکی کے جذبات کس قدر مبہم اور پر اسرار طریقے سے سر ابھارتے ہیں ،کہانی کار اسے بڑی عمدگی سے صفحات پر بکھیر دیتا ہے۔نوجوانی کی سرحد پر دستک دے رہی ایک دوشیزہ کے غالب جذبات کس نوع کے ہوں گے اس کا بیان لازم نہیں ۔ لیکن اس کے اسبا ب و عوامل کیا ہیں ،اسے ضرور دیکھا جا سکتا ہے اور اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ فریقین میں کس جانب سے کون سا عمل شعوری طور پر ہو رہا ہے اور کس کا عمل غیر شعوری طور پر۔چونکہ کہانی کا مرکزی دھارا راویا کے طرز عمل سے راہ پاتا ہے اس لیے اس کی متحر ک حیثیت اور اس کے ہر عمل سے وابستہ جذبات کی کیفیت کا اندازہ سامنے کے دو اقتباسات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے:
’’ایک د ن اس نے کھڑکی کھولی تو باہر بارش یکایک شروع ہو گئی تھی۔بارش کا اس طرح یکایک شروع ہو جانا اسے اچھا لگا تھا۔پھر تیز ہوائیں چلنے لگی تھیں ۔ہوائوں کو جھوکوں سے بارش کی چھینٹے اندر تک آنے لگی تھی۔تب اس نے خشکی کے احساس سے آنکھیں بند کر لی تھی اور کھڑکی کے قریب بیٹھ گئی تھی۔پھر ہو ائیں تیز ہو گئی تھیں ۔اس کا جسم آہستہ آہستہ کانپنے لگا تھا لیکن وہ آنکھیں بند کیے اسی طرھ بیٹھی رہی تھی اور تب اس کو لگا تھا کہ کوئی برف میں ڈوبی انگلیوں سے اس کو آہستہ آہستہ بار بار جھونے لگا تھا ۔۔۔اس نے آنکھیں کھولیں تو پاپا کھڑے تھے اور پاپا نے کہا تھا کہ اسے کھڑکیاں بند کر لینی چاہئے تھی۔وہ خاموش رہی تھی۔پاپا اس کے قریب بیٹھ گئے تھے اور اس کے بالوں کی لٹ کو پیچھے کرتے ہوئے انہوں نے آہستہ سے کہا تھا کہ وہ تو بلکل بھیگ گئی ہے۔پھر وہ ان کے لیے چائے بنانے کے لیے اٹھ گئی تھی تو اس کو یکایک خیال آیا تھا کہ ٹوکری میں کچھ سیب ہیں ۔ٹوکری سے سیب نکالتے ہوئے اس نے پاپا کی طرف دیکھا تھا ۔پھر طشتری میں سیب لیے وہ پاپا کے قریب بیٹھ گئی تھی تو پاپا نے جیب سے چاقو نکال کرٹیبل پر رکھ دیا تھا اور تب بند دریچوں کے باہر بارش کا شور اس کو بے حد عجیب لگنے لگا تھا۔جیسے وحشی پرندوں کا غول آس پاس ایک تنگ دائرے میں تیزی سے گردش کر رہا ہو۔‘‘(۵)
مذکورہ صورت حال راویا کی شادی سے قبل کی ہے اب شادی کے بعد کی کیفیت ملاحظہ ہو:
’’اور جب اس کی شادی ہوئی تو کوئی چیز جیسے کہیں چلتے چلتے یکایک رک گئی تھی۔جیسے منجمد ہو گئی تھی۔شوہر کی بانہوں میں وہ جیسے ریت میں دھنسنے لگتی تھی۔شوہر کی گرم سانسیں اس کو اتنی بے کیف ،اور غیر مانوس اور اتنی بے کار لگتیں کہ اس کا دم گھٹنے لگتا تھا۔ایسے میں محض اس کی سانسیں تیز تیز ہو کر رہ جاتی تھیں اور کچھ بھی تو نہیں ہو پاتا تھا۔جیسے فوارے کے منھ پر کسی نے پتھر رکھ دیا ہو۔اور اس کا شوہر جب سو جاتا تو وہ ایک گہرے پھیکے پن کے احساس سے بھر اٹھتی تھی۔‘‘(۶)
دونوں اقتباسات میں موازنے کا جو انداز موجود ہے،راویا کے احساسات کو بلکل واضح کر دیتا ہے۔اپنے سے بڑے عمر کے انسان کی طرف مائل کہانی کا مرکزی کردار کسی بھی صورت میں چیزے دیگر کو اپنانے پر راضی نہیں ۔کہانی کا اختتام بلکہ خوشگواراختتام راویا کے جذبے کی جیت کا اعلان ہے اور اس بات کی ببانگ دہل تصدیق بھی کی جنسی نفسیات کے تعلق سے معرض وجود میں آنے والے ماہرین نفسیات کے نظریات کسی دوسری دنیا ئوں کی تلاش و تفتیش سے برآمد نہیں ہوئے ہیں ۔ ان کا تعلق ہماری اسی سر زمین سے ہے ،جہاں ہم آپ جیسے لوگ اپنی انسانی جبلتوں کے ساتھ حیات روپی سمندر میں اپنی اپنی کشتی کو اپنے اپنے انداز سے کھے رہے ہیں ۔شموئل احمد کی یہ کہانی ان کی جنسی نفسیات پر گہری گرفت کا پتہ فراہم کرتی ہے۔راقم کے نذدیک اس کہانی کے بیان میں شموئل احمد نے جس طرح سے زبان کا عمدہ استعمال کیا ہے اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔اس کہانی کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ شموئل احمد پر جنسی بیان میں لطف اندوزی اور حظ اٹھانے کا الزام ہر جگہ عائد نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ کہنابھی کہ ان کی کہانیوں میں بصیرت نہیں ہوتی ،غلط ہے۔
حوالہ جات۔:
۱۔http://en.wikipedia.org.wiki/oedipus_complex
۲۔study.com/academy/lesson/electra-complex-and-freud-defination-story-exampls.html ۳۔بگولے،شموئل احمد،سرخاب پبلی کیشنز،پٹنہ،۱۹۸۸،ص۱۰۷
۴۔ایضاً،ص۱۰۸
۵۔ایضاً،ص۱۱۰
۶۔ایضاً،ص۱۱۰
……………..
فیض الرحمن
ریسرچ اسکالر دہلی یونی ورسٹی
Leave a Reply
Be the First to Comment!