جدیدشاعری ایک جائزہ

آج کا دورترقی یافتہ دور ہے۔اس ترقی یافتہ دور کی دوڑتی بھاگتی زندگی میں  انسانی قدریں ،محبت،وفا،سب کچھ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ہرطرف بربریت،قتل و غارت گری،دہشت گردی،ذخیرہ اندوزی،رشوت خوری،خود غرضی،اور ہوس کا بازار گرم ہے۔ذات پات کے جھگڑے،نسلی امتیاز،رنگ ومذہب کے فرق کے تنازعات اور سماج مختلف جھگڑوں میں مبتلا ہے،مزدور وں اور کسانوں کااستحصال،غریب اور بے سہارا لوگوں اور عورتوں کا جنسی استحصال کیا جا رہا ہے۔جس سے انسانیت شرمسارہوتی جا رہی ہے۔ان تمام مسائل کو مدّنظررکھتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں  کہ بیسویں صدی کے آغاز میں  اردو شاعری کی پوری تاریخ آزادی کی جدوجہد،اتحاد ویکجہتی ،سیاسی و سماجی شعور،اخلاقی قدروں ،وطنیت اور قومیت کے اعلیٰ تصور سے بھری ہوئی ہے۔اس نے ہر مقام پر قومی مسائل اور اس کی ضرورتوں کا خیال رکھا ہے۔اس نے نہ صرف ملک کی سیاسی و معاشی اور قومی معاملات ومسائل میں  دلچسپی لی بلکہ ادب وسماج کے باہمی رشتوں کوبھی استوارکیا اور ایسی شاعری کی بنیادرکھی جو اختلاف و انتشار اور علیحدگی پسند رجحانات کو شکست دے سکے،انسانیت اور ملک سے محبت کرنا سکھائے،امیدویقین کے نغمات سے بے حسی وبے ضمیری کو ختم کرکے اورزندگی کی حقیقتوں پر نظر رکھے۔لہٰذاآزادی کے بعدہمارے مسائل میں  جو تبدیلیاں آئیں اس نے فرد کے احساسات،تصورات وخیالات میں تغیرپیداکیا۔اس نے اپنی ذات وشخصیت کے سمجھنے کے لئے نئے نئے زاویے تلاش کئے۔اور موجودہ زندگی اور وقت کی تیز رفتاری پر گہری نظر رکھی۔یعنی اسے محسوس کیا اوراس کا حل تلاش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔اور غزل کی نئی سمت سازی ونئے رمز اگانے پر خصوصی توجہ دی۔اس نئی سمت کے تعین سازوں میں مجید امجد،ناصر کاظمی،ظفر اقبال،خلیل الرحمٰن اعظمی،شکیب جلالی،منیر نیازی، شاذتمکنت، وزیر آغاوغیرہ کے نام قابلِ ذکرہیں ۔چند اشعار ملاحظہ ہوں ۔

رین اندھیری ہے اور کنارہ دور

چاند نکلے تو پار اتر  جائیں

(ناصر کاظمی)

آگے آگے کوئی مشعل سی لیے چلتا تھا

ہائے کیا نام تھا اس شخص کا پوچھا بھی نہیں

     (شاذتمکنت)

اے عمر رفتہ میں  تجھے پہچانتا نہیں

اب مجھ کوبھول جا کہ بہت بے وفا ہوں میں

     (خلیل الر حمٰن اعظمی)

کھلی ہے دل میں  کسی کے بدن کی دھوپ شکیبؔ

ہر ایک پھول سنہرا دکھائی دیتا ہے

     (شکیبؔجلالی)

میں  ڈوبتا جزیرہ تھا موجوں کی ما رپر

چاروں طرف ہوا کاسمندر سیاہ تھا

     (ظفراقبال)

مندرجہ با لا اشعار سے نئے شعراکا مزاج نمایاں طور پر واضح ہو تا ہے ۔

نئے شعرا نے اظہار و اسلوب کے جو اجتہاد کئے ہیں ،سابقہ شعریات سے مختلف ہیں ۔لفظوں کے اختراع میں  اور اس کے استعمال میں  اپنی نادرہ کاری کا عمدہ ثبوت دیا۔ان کی غزلیات کے بنیادی عناصر ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔لطیف انسانی جذبات اور نازک احساسات کی مصوری،فطرت کو بے نقاب کرنے اور عصری رویے کو پہچاننے کی سعی،فکر ی حسن کو موثر بنانے میں نفسیاتی اصولوں کی مدد،زندگی کی حقیقتوں اور اس کی بصیرتوں کو سمجھنے کی کوشش،اس کے علاوہ زندگی کی تلخ و شیریں حقائق کا اظہار، سیاسی،سماجی،معاشی اور تہذیبی رشتوں کی آئینہ گری،ماضی وحال کے باہمی رشتے،شہری زندگی اور شخصیت کے منہدم ہوتے رشتے، صنعتی تہذیب اور اس کے اثرا ت، مشینی آلات کے لمبے ہوتے ہاتھ،فسادات اور نفرت کی توسیع،سمٹتی زمین اور وقت کی چلتی،چنگھاڑتی چکی میں  پستا ہوا انسان۔۔۔۔۔۔۔۔۔وغیرہ مو ضوعات پر قلم اٹھایا۔

     جدید غزل کے ان معماروں کے بعد دوسری نسل میں  احمد فراز،وحید اختر ،مظہر امام،محمد علوی،ندافاضلی،حامدی کاشمیری،شمس الرحمٰن فاروقی وغیرو کے نام اہم ہیں ۔اور اس دوسری نسل کے ساتھ قدم بقدم چلنے والی تیسری نسل جو اس نسل کے مقابلے زیادہ تیز اور شعلہ گیر رویہ اختیار کرتی ہے۔جن میں  سلیم شہزاد،لطف الرحمٰن،شاہد ماہلی،عرفان صدیقی،وقار خلیل،عتیق اللہ وغیرہ اسی سلسلہ سے وابستہ ہیں ۔

     نئے شعرا نے اظہار و اسلوب کے جو اجتہاد کئے ہیں ،سابقہ شعریات سے مختلف ہیں ۔لفظوں کے اختراع میں  اور اس کے استعمال میں  اپنی نادرہ کاری کا عمدہ ثبوت دیا۔ان کی غزلیات کے بنیادی عناصر ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔لطیف انسانی جذبات اور نازک احساسات کی مصوری،فطرت کو بے نقاب کرنے اور عصری رویے کو پہچاننے کی سعی،فکر ی حسن کو موثر بنانے میں نفسیاتی اصولوں کی مدد،زندگی کی حقیقتوں اور اس کی بصیرتوں کو سمجھنے کی کوشش،اس کے علاوہ زندگی کی تلخ و شیریں حقائق کا اظہار، سیاسی،سماجی،معاشی اور تہذیبی رشتوں کی آئینہ گری،ماضی وحال کے باہمی رشتے،شہری زندگی اور شخصیت کے منہدم ہوتے رشتے، صنعتی تہذیب اور اس کے اثرا ت، مشینی آلات کے لمبے ہوتے ہاتھ،فسادات اور نفرت کی توسیع،سمٹتی زمین اور وقت کی چلتی،چنگھاڑتی چکی میں  پستا ہوا انسان۔۔۔۔۔۔۔۔۔وغیرہ مو ضوعات پر قلم اٹھایا۔

     جدید غزل گو شعرا نے اپنی غزل کی بنیاد حقیقت نگاری،پر خلوص داخلی جذبات کی تشہیر اور عہد کے حالات کی بھرپور عکاسی پر رکھی۔اس سے قبل جتنے بھی رجحانات ملتے ہیں ان میں  ایک مخصوص سمت رہی ہے۔اس لئے اس زمانے کے بیشتر شعراپر آسانی سے ایک لیبل لگایا جا سکتا ہے۔اور وہ خاص شاعر اس مخصوص خاکہ میں پورا بھی اترتاہے۔مثلاًقومی شاعر، سیاسی شاعر، روحانی شاعر، شاعرِشباب، شاعرِفطرت، شاعرِانقلاب،شاعرِمزدور،اشتراکی شاعریاسیاست پسند شاعر،خارجی موضوعات کا شاعر،داخلی موضوعات کا شاعر،غمِ جاناں کا شاعر،غمِ دوراں کا شاعر وغیرہ وغیرہ ایسے پیمانے ہیں  جس کے ذریعہ شعرا کو پرکھنے کی کوشش کی جاتی تھی۔

     اس کے برخلاف نئی شاعری نہ طے شدہ راستوں پراستوار ہے اور نہ ہی کسی نظریہ،اصول یا تحریک سے وابستہ ہے ،در اصل یہ ایک میلان نہیں بلکہ مختلف میلانوں کا مجموعہ ہے۔جس میں  بہت سے دھارے ایک دوسرے کو سہارادیتے اور کاٹتے ہوئے گزر جاتے ہیں ان کے یہاں بنیادی طور پرآج کے معاشرے اور انسانی مسائل کواپنی ذات کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔جو دراصل بیسویں صدی کی سائنس اور ٹیکنالوجی کی بے پناہ ترقیوں اور اس سے پیدا شدہ خوف و ہراس کی دین ہے۔

     اس رجحان سے وابستہ شعرا نے اپنے داخلی احساس کو اپنا رہنما بنایااور اپنی آزادانہ سوچ کو پروان چڑھایا۔زندگی کی محرومیوں ،نا کامیوں ،اور مایوسیوں اور چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا جس سے ان شعرا کے اندرداخلی تجربات اور محسوسات میں  وسعت پیدا ہوئی۔

     چنانچہ ہم دیکھتے ہیں  کہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ شعرا نے اجتماعیت، سماج، کسان،مزدور،استحصال، تحریکِ آزادی،انقلاب اور ان جیسے دیگر موضوعات کو اپنایاتھا۔یعنی اس تحریک کے زیرِاثرزندگی اور اس کے عام مسائل کا مکمل طور پر اظہار ہوا۔ اس کے بر عکس آزادی کے بعداردو ادب میں کئی رجحانات پنپے جن میں  بعدکے آنے والے شاعروں نے ذات کی تلاش پر زور دیا اوروجودیت سے باہم رشتہ قائم کیا۔اس لئے داخلی ارتقاء  کے اولین مرحلوں میں تنہائی کا احساس دردو غم،خوف و دہشت،اضطراب وانتشار،عارضیت اور ثباتیت اور محرومی و ناامیدی وغیرہ کی صورت میں  ظاہر ہوتا ہے نئی غزل میں  ایسے احساسات وسیع پیمانے پر شعری تجربے کا حصہ بنے ہیں  مثلاً

ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصرؔ

اداسی بال کھولے سو رہی ہے

یونہی اداس رہا میں  تو دیکھنااک دن

تمام شہر میں  تنہائیاں بچھا دوں گا

(ناصر ؔکاظمی)

میں بکھر جاؤں   گا زنجیر کی کڑیوں کی طرح

اور رہ جائے گی اس دشت میں  جھنکار میری

(ظفر اقبال)

وہ رت جب لوٹ کر آئی تو دیکھا

مکیں غائب،مکاں خالی پڑا ہے

(وزیر آغا)

رات پھر وہی بات ہوئی ہم کو نیند نہیں آئی

اپنی روح کے سناٹے سے شور کوئی اٹھتا دیکھا

(خلیل الرحمٰن اعظمی)

جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے

مری طرح سے اکیلادکھائی دیتا ہے

(شکیب جلالی)

ڈر جانا ہے،دشت و جبل نے تنہائی کی ہیئت سے

آدھی رات کو جب مہتاب نے تاریکی سے ابھرنا ہے

(منیر نیازی)

یہ شب ،یہ دشت طوالت ہرے بھرے ہو جائیں

نسیم سبز چلے ارض جاں پہ بارش ہو

(شمس الر حمٰن فاروقی)

جب تک نہ تھا بہار کا ایما،صبا کی قید

فصل ِگل آئی پاؤں  سے زنجیر کھینچ گئی

(وحید اختر)

چمگادڑوں کا غول بھی حیران سا لگے

خالی حویلیوں میں پریشان سا لگے

پتھر کی چوٹ کھا کے زمانہ گزر گیا

بے رنگ سی حیات اک بہتان سا لگے

(عتیق اللہ)

     مندرجہ با لا اشعار اس بات کی غمازی کر رہے ہیں  کہ نئی غزل کے شعرا انسانی زندگی اور اس کے ماحول کوایک جداگانہ انداز میں  دیکھتے ہیں ، اس میں  داخلیت اور خارجیت کی حدیں نظر نہیں آتیں اور شعر میں معانی کی بیک وقت کئی سطحیں ابھرتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں ۔انھوں نے زندگی کی محرومیوں ،مایوسیوں اور چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو اپنی شاعری کا مو ضوع بنایا۔ اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ بیسویں صدی میں  اردو شاعری میں  بہت زیادہ وسعت ہوئی اور نئے موضوعات وجود میں  آئے۔

۔۔۔۔

گلشن

ریسرچ اسکالر،شعبہ اردو ،دہلی یونیورسٹی،نئی دہلی،۷

gulshanrehman123@gmail.com

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.