جگر مرادآبادی ایک رومانی شاعر

اپریل ۶ ،۱۸۹۰ء کو اردو دنیا کا مایہ ناز شاعر جگر ؔ اتر پردیش کے مراداباد علاقے میں پیدا ہوا ،جو آگے چل کر جگرؔمرادآبادی کے نام سے مشہور ہوا۔شاعری کے پیچ وخم سیکھنے کے لئے انھوں  نے رساؔرامپوری کو اپنا استاد مقرر کیا۔نوجوانی کے زمانے میں ہی جگرؔ نے گونڈہ علاقے کا رخ کیا جو لکھنئوشہر کے بالکل قریب ہے ،یہاں پر ان کی پہچان اصغر سے ہوئی جس نے آگے چل کر اردو ادب میں ایک خاص مقام بنا لیا اور اردو ادب میں اصغر گونڈویؔکے نام سے شہرت پالی۔

جگرؔمرادآبادی ایک بلند پایہ شاعر گزرے ہیں ۔جگرؔنے ساری زندگی غزل کو اعلیٰ مقام دلانے میں صرف کی ۔سعادت صدیقیؔ جگر کی شاعری کے بارے میں لکھتے ہیں:۔

’’غزل اگر اردو ادب کی آبرو ہے تو جگر بلاشبہ غزل کی آبرو تھے،انھوں نے اردو غزل کی صالح روایات کو جدید نظریات سے مزین کرکے شاعری کو ایک لطیف و دلکش حقیقت کا روپ دیا۔‘‘

جگرؔ کی زندگی خاصی رنگین ،دلچسپ اور پر کیف رہی ہے۔اس کے عشق میں ایک تندرست انسان کی صحت مند جنسی کشش ہے مگر یہ مریض عشق نہیں ہے ان کی رومانیت ایک جذباتی تخیل پرست انسان کی رومانیت ہے۔جگرؔ کے حسن و عشق میں احترام موجود ہے،مگر یہ تصور محض روایت نہیں ہے ۔ان کی زندگی ہے۔یہ شوخ ہوتے ہوئے بازاری نہیں ہے،یہ اخلاقی قدروں کو سمیٹ لیتا ہے۔جگرؔ کی شاعری کا اگر بغور جایزہ لیا جائے تو معلوم پڑتا ہے کہ ان کی بیشتر شاعری ساغرو مینا کے ارد گرد گھومتی ہے۔۔۔۔۔

بے کیف ہے دل اور جئے جارہاہوں میں

خالی ہے شیشہ اور پیے جا رہا ہوں میں

رخصت ہوئی شباب کے ہمراہ زندگی

کہنے کی بات ہے کہ جئے جا رہا ہوں میں

پہلے شراب زیست تھی اب زیست ہے شراب

کوئی پلا رہا ہے پئے جا رہا ہوں میں

جگرؔ کی غزلوں میں سادگی وسلاست کے ساتھ اثر پزیری اور اثر انگیزی بھی ہے،حسن وناز کے ساتھ سوزو گداز بھی ہے ،سرشاری کے ساتھ خلوص بھی ہے۔ان کی غزلوں میں عشق کا پاکیزہ تصوربھی ملتا ہے۔۔۔

رند جو مجھ کو سمجھتے ہیں انہیں ہو ش نہیں

میکدہ ساز ہوں میں میکدہ بر ہوش نہیں

حسن سے عشق جدا ہی نہ جدا عشق سے حسن

کون سی شے ہے جو آغوش در آغوش نہیں

کبھی ان مد بھری آنکھوں سے پیا تھا اک جام

آج تک ہوش نہیں ہوش نہیں ہوش نہیں

محو تسبیح تو سب ہیں مگر ادراک کہاں

زندگی خود ہی عبادت ہے مگر ہوش نہیں

جگرؔ کے بارے میں مولانا سید سلیمان ندوی رقمطراز ہیں:۔

’’جگر مست ازل ہے ،اس کا دل سرشار ازل ہے ،وہ محبت کا متوالا ہے،اور عشق حقیقی کا جو یا مجاز کی راہ سے حقیقت کی منزل تک اور بت خانے کی گلی سے کعبہ کی شاہراہ کو اور صنم خانہ کے بادہ کیف سے بے خود فراموش ہو کر بزم ساقی کوثر تک پہنچنا چاہتا ہے ،جگر سر شار مگر در حقیقت بیدار ہے ،اس کی آنکھیں پر خمار مگر اس کا دل ہوشیار ہے اورکیا عجب کہ خود جگر کو بھی اپنے دل کی خبر نہ ہو تو اس کے کلام میں اثر نہ ہو۔‘‘

جگر ؔ ایک دررمند دل رکھتے تھے جس میں ہر کسی کے لئے جگہ تھی،وہ سراپا خلوص و محبت تھے۔۔۔۔۔

گلشن پرست ہوں مجھے گل ہی نہیں عزیز

کانٹوں سے بھی نباہ کئے جا رہا ہوں میں

ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں

میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

جگرؔ کی درد مندی اور انسان دوستی ملاحظہ ہو۔۔

درد سے معمور ہوتی جا رہی ہے کائنات

اک دل انسان مگر درد آشنا ہوتا نہیں

وہ ہزار دشمن جان سہی مجھے غیر پھر بھی عزیز ہے

جسے خاک پا تری چھو گئی وہ برا بھی ہو تو برا نہیں

جگر ؔ کے کلام میں آسان فارسی تراکیب ملتی ہیں ۔ان کے یہاں تغزل ،معاملہ بندی،بے خودی اور والہانہ انداز ملتا ہے۔۔۔۔۔

وہ زلفیں دوش پر ڈالے ہوئے ہیں

جہان آرزو تھرّا رہا ہے

تجاہل،تغافل۔تبسم،تکلم

یہاں تک تو پہنچے وہ مجبور ہوکر

جگرؔکا دعویٰ رہا ہے کہ سارے زمانے کی رونقیں ہم سے ہیں ،ہمارے ہی دم سے اس حسین دنیا میں بہاریں ہیں ،پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ زمانہ ہمیں مٹا سکے۔۔۔۔۔۔۔

ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں

ہم سے زمانہ خو د ہے زمانے سے ہم نہیں

زاہد کچھ اور ہو نہ ہو میخانے میں

کیا کم یہ ہے کہ فتنہ دیر و حرم نہیں

جیسے کہ میں نے پہلے ہی عرض کیا کہ جگر ؔ کی زیادہ تر شاعری میخانے کے اردگرد گھومتی ہے۔جگرؔ خود بھی میکش تھے اور زند گی کے آخری سالوں میں اصغرگونڈویؔکے کہنے پر میکشی ترک کی،مگر تب بہت دیر ہو چکی تھی کیونکہ ساقی کے جام نے جگرؔ کا جگر پارہ پارہ کیا تھا۔۔۔۔۔

ساقی کی ہر نگاہ پہ بل کھا کے پی گیا

لہروں سے کھیلتا ہوا لہرا کے پی گیا

اے رحمت تمام مری ہر خطا معاف

میں انتہائے شوق میں گھبراکے پی گیا

پیتا بغیراذن یہ کب تھی مری مجال

درپردہ چشم یار کی شہ پا کے پی گیا

جگرؔ کے تین شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں ،جن میں ’’داغ جگر‘‘ ’’شعلہ طور‘‘اور’’آتش گل ‘‘قابل ذکر ہیں۔جگرؔتا عمر گونڈہ میں ہی سکونت پزیر رہے۔۹ ستمبر ۱۹۶۰ء کو جگرؔ نے وفات پائی اور ان کی یہ پیشنگوئی حقیقت ثابت ہوئی۔۔۔

جان کر منجملہ خاصان مے خانہ مجھے

مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے

٭٭٭

ڈاکٹر تجمل اسلام

بلہ پورہ شوپیان کشمیر (جموں و کشمیر ) سرینگر

ای۔میل۔maliktajamul1@gmal.com

Leave a Reply

1 Comment on "جگر مرادآبادی ایک رومانی شاعر"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] جگر مرادآبادی ایک رومانی شاعر […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.