علمِ عروض کا ارتقا: فارسی سے اردو تک

      ایران میں عروض اور شاعری سے متعلق عام خیال یہ تھا کہ یہاں شاعری کا وجود نہ تھا۔اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اردو کے ایک اہم عروض داں سلیم جعفر اپنے ایک مضمون ’گاتھا کا عروض ‘ میں لکھتے ہیں :

          ’’ایران پر پرچمِ اسلام لہرانے کے بعد ایک ادیب نے لکھا کہ ایران میں مسلمانوں کے آنے سے پہلے شعر نہ تھا ۔صدیوں تک یہ خیال دنیا میں قائم رہا۔خود ایرانی اور غیر ایرانی اس قابل نہ تھے کہ اس کی تردید کرتے۔مصالحہ موجود تھا غلطی فوراً رفع کی جاسکتی تھی ،لیکن تحقیقات کے تنگ وسعت دائرے نے لبوں پر مہرِ خاموشی لگادی۔کوئی مخالفت کی بنا پر قلم اٹھاتا تو کس بنا پر۔رفتہ رفتہ زمانے ترقی کی۔۔۔پہلے یوروپ نے اس طرف قدم اٹھایا اس نے پارسیوں کی کتاب پڑھ کر فیصلہ کیا کہ ایران میں اسلام سے پہلے شعر تھا۔ خود ایرانیون کا ادب اتنا تباہ و برباد ہو چکا تھا کہ اس سے مدد لینا ممکن نہ تھا ۔اس لیے دعوے کو سنسکرت کی مدد سے مستحکم کرنے کی کو شش کی۔‘‘ ؎۱

      اپنے اسی مضمون کے آخر میں گاتھا کے عروض ست متعلق نتیجہ نکالتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’در حقیقت گاتھا کا منظوم ہونا تو اس بنا پر مسلم ہے کہ اس میں مصراع ہیں ،توازن ہے، اور ہر مصرع میں اصول کی تعداد مقرر ہے۔ ‘‘۲؎

                 اسی طرح الیاس عشقی لکھتے ہیں :

      ’’اوستا ژند پاژند اور گاتھا میں ایران کی قدیم ترین شاعری کے نمو نے ملتے ہیں ۔ایک مدت تک تو مو ضوع زیرِ بحث رہا یہی رہا کہ آیا ان مذہبی صحیفوں میں کوئی وزن بھی موجود ہے یا نہیں ،لیکن ایران میں پور دائود کی اکتشافی کو ششوں سے اور ہندوستان میں سلیم جعفر صاحب کی مساعی سے یہ ثابت ہو گیا کہ ان صحیفوں کے بعض حصوں میں کچھ مخصوص قسم کے اوزان پائے جاتے ہیں جن سے ایرانِ قدیم کے عروض کے متعلق کچھ اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ایران کے قدیم عروض کے متعلق جے ایچ مولٹن کی ’ایران کی ابتدائی شاعری‘ اے وی ولیم جیکسن کی’ ابتدائی ایرانی شاعری‘اور پور دائود کی ’ زرتشت گاتھا‘ اور پروفیسر اے کرسٹنسن اور برائون کی بعض تحریروں سے مفیدمعلومات حاصل ہوتی ہیں ۔ پور دائود نے سب سے پہلے بتا یاکہ اوستا کی (۱۰۱۶)سطروں میں سے ۲۷۸ میں وزن مو جود ہے۔اور ان میں ۲۳۸ بند یعنی ۸۹۶ سطریں گا تھا کی ہیں ۔ساسانیوں کے عہد میں جس شاعری کا وجود سرکش اور بارید وغیرہ کی تحریروں میں ہوگا اس کے اوزان کسی نہ کسی صورت میں انھیں مذہبی صحیفوں کے اوزان سے ملتے جلتے ہوں گے۔ان صحیفوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایرانِ قدیم کے عروض میں اوزان عربی عروض سے مختلف ہی نہ ہوں گے بلکہ اس کے اصول بھی صرفی زبان کے اصول سے مختلف ہوں گے۔’پندارِ رازی‘ میں فہلویات کے تحت جو مثالیں دی گئی ہیں ان سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔فہلویات کے علاوہ بعض قدیم لوک گیتوں کے اوزان کے مطالعے سے بھی ذہن یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ زمانۂ قدیم میں ایران میں جو عروض رائج ہو گا اس کی بنیاد اجزاے الفاظ کے اشباع و ادغام اور ان کے امختلف اجزا کی توکید پر ہوگی۔جیسا کہ ان لوک گیتوں سے ظاہر ہوتا ہے           ؎

 بہی کن بہی بہ دل ازکینہ تہی بہ

ہماکس کہ بدی کرد       ہم او گفت بہی بہ

بیا بریم تا مے خوریم شراب ملک دے خوریم

      حال نہ خوریم پس کے خوریم

دی شب کہ بارون اومد  یادم لب بون اومد

رفتم لبش ببوسم          نازک بو خون اومد

خونش چکید تو بغچہ         یہ دسہ گل دراومد

      یہاں باران‘ کے بجاے بارون‘ اور بام کے بجاے بون،یک کے بجاے یہ اور دستہ کے دسّہ استعمال ہوا ہے ۔چونکہ ان گیتوں میں کا وزن توکیدی اجزاے الفاظ پر ہے اور فارسی زبان میں چھوٹے اجزا کے الفاظ کی کمی قدرتی طور پر واقع ہوئی ہے اس وجہ سے عربی عروض کو بھی خاصی ترمیم کے بعد ہی ایران میں رائج کیا جا سکا۔خلیل بن احمد اور ابوالحسن اخفش کی کوششوں  اور تجربوں نے اس مشکل کو حل کیا اور اسی وجہ سے اس زمانے سے آج تک عربی عروض میں عرب و عجم کی تقسیم چلی آتی ہے۔‘‘۳؎

      پرویز خان لری بھی کہتے ہیں لفظ گاتھا خود سرود اور شعر کے معنی میں ہے۔اور یہ اوستا کی ایک قسم ہے ۔مستشرقینِ مغرب نے نہ صرف اس میں مستعمل اوزان کا پتہ لگایا بلکہ ان کے قواعد و ضوابط کا تعین بھی کیا ہے۔گاتھا کے علاوہ اوستا کی ایک اور قسم یشتہا ہے اور منظوم ہے۔ مگر گاتھا اور یشتہا کے اوزان میں فرق پایا جاتا ہے۔ گاتھا کے اشعار ۱۱ ، ۱۲، ۱۴، ۱۶ اور ۱۹ ہجائی ہیں جبکہ یشتہا کے اکثرا اشعار ۸ ہجائی ہیں ۔اس کے کچھ اشعار ۱۰؍ اور ۱۲؍, ہجائی بھی دیکھنے میں آئے ہیں ۔خانلری کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزنِ اوستا موجود عروض سے مشابہت نہیں رکھتا۔پہلوی زبان میں وزنِ شعر کے حوالے سے خان لری لکھتے ہیں کہ ایک مدت یہی خیال کیا جاتا رہا کہ ایرانی شاعری نہیں جانتے تھے اور انھوں نے یہ فن عربوں سے سیکھا ۔ اس کی وجہ یہ کہ اشکانیان اور ساسنیان عہد کی زبان میں شعر کے نمونے ندارد تھے لیکن ، ایف سی اندریس نے اس زبان میں لکھے گئے کتبے ( شاہپور در حاجی آباد) میں بتا یا کہ یہ ہفت یا ہشت ہجا پر مبنی مصرع ہیں جن میں زور Accent کی جگہ متعین ہے۔۴؎

      اس کے بعد تورفان میں مانی مذہب سے متعلق کتابیں بھی دستیاب ہوئیں ۔اور ان میں بھی اشعا ر موجود ہیں ۔بہت سے محققین نے اس سلسلے میں مزید تحقیقات کیں جن میں کریستن سن ، بنو نیست فرانسوی ، ایچ ایس نے برگ Nyberg اور M W Hennig وغیرہ کے نام اہم ہیں جنھوں نے مختلف اوستائی اور پہلو ی زبان میں مستعمل وزن پر گراں قدر تحقیقات پیش کیں ۔ان میں سے اکثر کا یہ خیال ہے کہ یہ کہ اوستا اور پہلوی زبان میں مستعمل وزن ہجائی وزن تھا کمی نہیں ۔ کریستن سن کا خیال ہے کہ:

           ’’ از اصولِ کمّی کہ از عروجِ عرب ماخوذ است ؛بحر متقارب حتی شکلِ مثنوی در شعر فارسی پیش از اسلام وجود داشتہ و قافیہ نیز بکار بردہ اند‘‘ ۱۹

      وہ آگے لکھتے ہیں کہ

 ’ بعضے ازنظم ِ قواعدِ فارسی کہ از عربی مقتبس است در حقیقت میراث سانیان شمردہ می شود و آنانگاہ سوالی مطرح می شود و آن اینست کہ آیا ممکن نیست کہ درزمان ہائے پیش از اسلام عرب در صنعتِ شاعری بعض نکات را از ایرانیان اقتباس کردہ باشد‘‘۵؎

       ڈاکٹر پرویز خانلری نے اپنی کتاب ’ وزنِ شعر فارسی ‘ اور’ تحقیقِ انتقادی در عروضِ فارسی و چگونگی تحول اوزانِ غزل‘( انتشاراتِ دانشگاہِ تہران ، ۱۳۲۷ھ)میں ’ کتاب المسالک والممالک ( تالیف ۲۳۰ ھ کے آس پاس)بہرام ،ابو ینبغی( اواخرِ قرون دوم یا اوائلِ قرونِ سوم) کے اشعار نقل کیے ہیں ۔اسی طرح انھوں نے’مجمل التواریخ،تاریخِ سیستان اور دیگر تاریخی کتابوں میں قبل از آمدِ اسلام دور کے اشعار در ج کیے ہے ۔جس سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ ایران میں بھی شعر کہے جاتے تھے اور ان کا پنا عروضی نظام بھی رہا ہو گا ۔ جسے ایران کی تباہی اور عرب اثرات کے سبب فراموش کردیا گیا اور اس کی جگہ عربی عروض کو اپنا لیا گیا۔۶؎

       مغربی مستشرقین کے علاوہ ہندوستانی اورایرانی محققین نے بھی اس سلسلے میں کوششیں کی ہیں ،جن میں دولت شاہ سمرقندی،محمد صالح کنبوہ( بہارِ سخن)،رضا علی خان،خان آرزو، محمد حسین آزاد ،میرزا عباس خاں آستیانی معرف بہ اقبال وغیرہ پیش پیش ہیں ۔ لیکن پرو فیسر محمود شیرانی کو ان کے نظریات سے اختلاف ہے۔ انھوں نے اپنے مضمون ’ فارسی شاعری اور اس کی قدامت‘ میں مذکورہ مصنفین کی آرا کا جائزہ لیا ہے ۔۷؎

      فارسی میں ابتدائی دور کے عربی عروض کے نقوش بھی کچھ باقی رہے اور کچھ مٹ گئے۔ابتداً عروض سے متعلق کون سی کتابیں لکھی گئیں ،اس کی تفصیلات دستیا ب نہیں ۔ پروفیسر محمود شیرانی فارسی عروض کی تاریخ کے حوالے سے لکھتے ہیں :

          ’’بد قسمتی سے عروض کی تاریخ کی غیر حاضری نے ہمارے کام کو بے حد دشوار بنا دیا ہے۔ہم کو یہ معلوم ہے کہ فارسی عروض بہ تتبعِ عرب ایجا د ہوئی۔لیکن وہ ہستیاں جنھوں نے اس کی ترویج میں محنت کی،اور وہ ہاتھ جنھوں نے اس کی تعمیر کی بنیاد ڈالی ،افسوس کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ آج ہم ان کی حقیقت سے بے خبر ہیں ۔ابتدائی حالات کی جو کڑیاں دوسری ،تیسری اور چوتھی صدی ہجری سے تعلق رکھتی ہیں ،سب برباد ہو گئیں ۔پانچویں قرن میں اس پر مستقل تصنیفات معتد بہ مقدار میں لکھی جا چکی ہیں ،لیکن عنصر المعالی کیکائوس کے بیان کے سوا سب کچھ مفقود ہے۔‘‘ ۸؎

       حافظ محمود شیرانی نے مولانا یوسف عروضی نیشا پوری کو فارسی عروض کا ابو البشر قرادیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا فارسی عروض سے وہی رشتہ قائم کیا ہے جو عربی عروض کو خلیل کے ساتھ ہے۔یوسف قرن چہارم میں گزرے ہیں عروض میں وہ صاحبِ تصنیف تھے ۔بحرِ قریب ان ہی کی ایجاد مانی جاتی ہے۔پروفیسر محمود شیرانی کا خیال ہے کہ فارسی عروض عربی عروض سے یوسف نیشاپوری کے ز مانے سے قبل ہی اپنی جداگانہ شناخت کی راہ پر گامزن ہو چکا تھا ۔وہ لکھتے ہیں :

          ’’ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اگرچہ عروض کی تدوین مالانا یوسف عروضی کے ہاتھوں سے ہوئی ہے،عروضِ فارسی یقیناً ان کے عہد سے پیش تر عربی عروض سے علیٰحد ہو چکی تھی۔چنانچہ حنظلہ باد غیسی ۲۱۹ھ اور محمد بن وصیف سجزی کے اشعار میں ،جو یعقوب بن لیث صفار کے عہد کا ادیب ہے،اور رودکی نظموں میں ،جو ۳۲۹ھ میں وفات پاتا ہے ،ایسے اوزان ملتے ہیں جو فارسی طرزِ عروض کے رنگ میں ہیں ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تیسرے قرن میں فارسی عروض اپنے مدارجِ ارتقا میں کافی ترقی کر چکا تھا۔‘‘۹؎

      رودکی کے ایک معاصر فرالاوی نے بحرِ مقلوب طویل ایجاد کی ۔ عبداللہ فوشی نے دائرۂ منعکسہ ایجاد کیا ۔ابوالحسن علی البہرامی نے غایۃ العروضین ، کنز القافیہ اور خجستہ نامہ تالیف کیں ۔غایۃ العروضین اس کی بہت اہم کتاب ہے۔بہت دنوں تک یہ کتاب فارسی اور عربی عروضیوں کے لیے ایک اہم اور معتبر ماخذ بنی رہی۔اس کتاب کے حوالے محقق طوسی، شمس الدین محمد بن قیس جاراللہ زمخشری کے یہاں  بکثرت ملتے ہیں ۔ ۱۰؎۔نظامی عروضی ’ چہار مقالہ ‘ میں اسے ان کتابوں میں شامل کرتے ہیں جن کا مطالعہ شاعر کے لیے لازم ہے۔’کنز القافیہ در معرفتِ قوافی‘ کو نظامی انھیں کی تصنیف قرار دیتا ہے۔ اسی طرح’ خجستہ نامہ در علمِ عروض ‘ کولباب الاباب میں انھیں سے نسبت دی گئی ہے۔اسی زمانے میں بزرچمہر نے بحرِ جدید دریافت کی ۔بقول حافظ محمود شیرانی اسی بزرچمہر اور بہرامی نے اکیس نئی بحریں ایجاد کیں ۔وہ اکیس بحریں یہ ہیں :

      ۱۔صریم  ۲۔کبیر    ۳۔مذیل۴۔ قلیب۵۔حمید۶۔صغیر۷۔ اصیم۸۔سلیم۹۔حمیم۱۰۔مصنوع۱۱۔مستعمل۱۲۔اخرس ۱۳۔مبہم            ۱۴۔ معکوس۱۵۔مہمل۱۶۔وطع۱۷۔مشترک۱۸۔معمم۱۹۔مستر۲۰۔معین اور۲۱۔ باعث۔

                پہلی نو بحریں دائرۂ منعکسہ سے تعلق رکتی ہیں ، جس کے موجد عبد اللہ فوشی ہیں ۔بعد کی دائرہ منعلقہ سے اور آخری چھ دائرۂ منغلطہ سے۔اسی قرن میں وزن رمل مثمن مشکول دریافت ہوتا ہے ۔جس کی سب سے پہلی مثال خواجہ مسعود بن سلمان کے ہاں ملتی ہے۔۱۲؎

                رشید االدین وطواط کے معاصر فطّان نے شجرۂ اخرم و اخرب ایجاد کیا ۔ محمود شیرانی کے مطابق اس قرن میں مندرجہ ذیل اوزان وجود میں آئے:

                 رجز مطوی :متاخرین نے خبن اور طی کی تکرار سے ( مفاعلن مفتعلن یا اس کے عکس مفتعلن مفاعلن ) خوشگوار اوزان نکالے۔۱۳؎

                مخبون مطوی :         زنیکواں لطف و کرم سزا تر از جو رو ستم   مدار ازین بیش بہ غم دلِ مرا ماہ رخا

                                 ( مفاعلن مفتعلن مفاعلن مفتعلن)

      مطوی مخبون:          چشمۂ خضر ساز آب از لب جام کو ثری     کز ظلمات بحر جست آئینۂ سکندری

                 ( مفتعلن مفاعلن مفتعلن مفاعلن)

      حافظ محمود شیرانی کے کے بقول یہ وزن انوری کے یہاں نہیں ملتا پہلی بار اس اس وزن کو خاقانی نے اپنے قصائد میں برتا ہے۔محقق طوسی نے وزن ثمانی کا ذکر بھی کیا ہے جو دو وتد اور ایک سبب سے بنتا ہے ۔جسے مفاعلاتن سے ظاہر کیا جا سکتا ہے۔اس کی مربع اور مثمن دونوں شکلیں ملتی ہیں ۔ مثمن کی مثال امیر خسرو سے منسوب یہ شعر ہے۔

     زحالِ مسکیں مکن تغافل دراآی نیناں بنائے بتیاں

     چوں تابِ ہجراں ندارم ای جاں نہ لیو کاہے لگائے چھتیاں        ( مفاعلاتن ×۴)

      عصمت بکاری کے یہاں بھی اس وزن میں اشعار پائے جاتے ہیں ۔شیرانی کے مطابق مندرجہ ذیل اوزان متا خرین کی ایجاد ہیں ۔

     گر تیغ بارد در کوی آن ماہ        گردن نہادیم الحمد للہ               (حافظ شیرازی)

                  فعلن فعولن فعولن فعولن، متقارب مثمن اثلم

     چست کن قبا بر تن تند کن فرس بر من    گہ بسینہ جولاں زن گہ بدیدہ میداں کن                 (امیر خسرو دہلوی)

                 فاعلن مفاعیلن فاعلن مفاعیلن، بحر ہزج مثمن اشتر

     رای پتھورا پوری داشت       پور نگویم حوری داشت             ( امیر خسرو دہلوی)

                 فعل فعولن فعل فعل بحر متقارب مثمن اثرم محذوف

     سرو گلعذار منی ، فصلِ نو بہار منی           من اگرچہ ننگِ تو ام عز و افتخار منی            (مولانا جامی)

                 فاعلاتُ مفتعلن فاعلاتُ مفتعلن ،بحر مقتضب مثمن مطوی

     زلفِ معنبر بر مۂ رویت تیرہ شب ست و آتشِ موسیٰ

     جامۂ صبرم در کفِ عشقت دامنِ یو سف دستِ زلیخا                (مولانا جامی)

      فعل فعولن فعل فعولن فعل فعولن فعل فعولن،بحر متقارب مثمن مضاعف اثرم سالم

      چہ بود سروکار غلط سبقان در علم و عمل بفسانہ زدن

      بہ قبول دلائل بی خبری ہمہ تیر خطا بہ نشانہ زدن                        (بیدلؔ)

      فعِلن ×۸)بحر متدارک مثمن مخبون / مسکن مضاعف،فعِلن × ۸)

  صنما خیالت را چہ شد کہ بما ندارد الفتی

     خجلم ز داغت کز وفا بسرم گذارد منتی      (بیدل ؔ)

                 متفاعلن مستفعلن متفاعلن مستفعلن ،بحرِ کامل مثمن سالم مضمر۔۱۴؎

      حافظ محمود شیرانی کا خیال ہے کہ فارسی عروض غزنوی دور سے پہلے ہی تکمیل کو پہنچ چکا تھا۔اور عنصر المعالی کے زمانے تک عربی و فارسی عروض میں تفریق قائم ہو چکی تھی۔انھوں نے المعالی کا قول نقل کیا ہے:

       ’’ و دوائر ہا کہ اندر عروض پارسیان ست بشناس و نام ہر یک نیکوں بدان و نام بحر ہا کہ از ددائرہ ہا بر خیزد چون ہزج و رمل و ہزج منسوب و رجز اخرب و رجز مطوی و رمل مخبون و منسوخ و خفیف و مضارع اخرب و مقتضب و مجتث و متقارب و سریع و قریب اخرب و منسرح کبیر۔وزن ہا ے تازیان چون بسیط و مدید و کامل و وافر و طویل و مانند آن وآن پنجاہ و سہ عروض و ہشتاد دو ضرب کہ دریں  ہفدہ دائرہ بیاید ،جملہ معلومِ خویش گردان۔‘‘ ۱۵؎

 اس کے بعد شیرینی صاحب لکھتے ہیں کہ:

      ’’ اس کے ہاں ( عنصرلمعالی کے یہاں ) صرف سترہ بحور کا ذکر ہے بحر متشاکل و بحر جدید ( غریب) ان میں شامل نہیں ہیں ،حالانکہ موخر الذکر غزنوی دور کی یادگار ہے اور کوئی تعجب نہیں اگر بحر متشاکل بھی اسی دور میں دریافت ہوئی ہو۔ ‘‘ ۱۶؎

       وہ آگے لکھتے ہیں :

          ’’طویل و بسیط و مدیدو کامل و وافر خالص عربی بحور ہیں ،قریبوجدید ومتشاکل خالص فارسی الاصل ہیں ۔ باقی گیارہ بحریں یعنی ہزج، ، رجز، رمل ،منسرح، مضارع، مقتضب، مجتث، سریع، خفیف ،متدارک، اور متقارب فارسی و عربی میں عام ہیں ۔‘ ۱۷؎

     اہلِ ایران نے اپنی زبان کے مزاج کے مطابق عربی عروض میں تبدیلیاں کی۔ بہت سی عربی بحور یہاں رائج نہ ہو سکیں ۔ اور بہت سے نئی بحور اورزان تشکیل دیے گئے۔ اس کے پیچھے کارفرما اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے حافظ محمود شیرانی لکھتے ہیں کہ :

          ’’ ان زبانوں کے اوزان پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایرانی اپنے لیے اوزان تلاش کرنے میں ایک خاص اصول پرکاربند ہوتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ عرب ماہرین بوجہِ ثقالتِ الفاظ و کثرتِ حرکات اپنے اوزان کو جب کہ مسلمات کے دائرے میں محدود رکھتے ہیں ، ایرانیوں  نے عام طور پر اپنے اوزان کو مثمنات کا پابند کردیا ہے اور یہی وہ امتیازی اصول ہے جس نے آخر کار عربی و فارسی عروض میں اساسی تفریق پید اکردی۔‘‘ ۔۔ لیکن یہ انقلاب فارسی شاعری میں کس وقت کارفرما ہوا ؟ آیا وہ اتفاقی اور شخصی دریافت کا نتیجہ تھا یا تدریجی اور ارتقائی ؛ ہماری موجودہ معلومات اس پر کوئی روشنی نہیں ڈالتیں ۔ مگر یہ فراموش نہ کرنا چاہیے کہ اس اصول کی ابتدائی دریافت کرنے والے عرب ہیں ۔چنانچہ دائرہ مختلفہ اور دائرہ ٔ متفقہ عربی میں بھی مثمن الاصل ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ایک اور نمایاں فرق جو فارسی شاعری کو عربی شاعری سے ممتاز کرتا ہے ، اس کے اصولِ عروض کی پابندی ہے، جس نے اس کے اشعار میں موزونیت و موسیقیت پیدا کردی ہے۔ اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ فارسی زبان کی نوعیت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس کے اشعار میں مو زونیتِ تامّہ موجود ہو۔اس میں خفیف سا خفیف تغیر بھی نا گوار گزرتا ہے اور طبیعت کو مکدر کرتا ہے۔خلیل کے عروض کے تتبع نے اس بارے میں انھیں بے حد کامییاب کردیا ۔اس کے مقابلے میں عربی شاعری اپنے زحافات کے بے موقع استعمال،قواعد سے عدم اعتنا اور قلتِ اوزان کے لیے رسوا ہے۔‘‘ ۱۸؎

      ایرانیوں نے عربی عروض میں جو ایک اہم تبدیلی کی وہ یہ تھی کہ انھوں نے مربعات کو مضاعف کرکے مثمنات میں داخل کر لیا۔ایک خاص صنف رباعی بھی ایجاد کی۔ترانہ یا رباعی تیسری یا چوتھی صدی میں وجود میں آئی۔ا س کے علاوہ جو بحریں یا اوزان فارسی میں وجود میں آئے اس کے پس پشت فارسی زبان کا لسانی مزاج کام کرتا نظر آتا ہے ۔

      عروض سے متعلق فارسی میں سب سے اہم دو کتابیں مانی گئی ہی،جو قرنِ ہفتم میں لکھی گئیں ۔پہلی المعجم فی معیارِ اشعار العجم،تالیف محمد بن قیس الرازی۔یہ کتاب قرنِ ہفتم کے ربع اول میں تالف ہوئی۔دوسری کتاب معیارالاشعار مصنفہ خواجہ نصیرا لدین طوسی ہے جو اسی قرن میں ۶۴۹ھ میں لکھی گئی۔ان دونوں کتابوں کے بارے میں محمدبن عبد الوہاب قزوینی لکھتے ہیں :

          ’اما مولفاتی کہ بعد ازین کتاب الیٰ حال ،درین فنون ِ ثلثۃ نوشتہ شدہ ،بخصوص آنچہ در علمِ عروض تالیف کردہ اند ہیچ کدام قابلِ ذکرو محلِ اعتنا نیست۔ وغالباً موجزات و مختصراتی است لایسمن ولایغنی من جوع،خشک و کسالت انگیز،خالی از تحقیق و عاری از تدقیق،فقط کتابِ معتنی بہ مہمی کہ مقارن عصر مصنف تالیف شدہ و بواسطۂ اہمیت و قدمت،آن نمی توانیم آنرا تحت السکوت بگزاریم؛کتابِ مرغوب ’معیار لاشعار است۔در علم ِعروض و قوافی کہ در سنہ ۶۴۹ تالیف شدہ و مصنف آن معلوم نیست۔و مفتی محمد سعد اللہ مرادآبادی این کتاب را شرح نفیس ممتازی نمودہ موسوم بمیزان الافکار فی شرح معیار الاشعا وآن را ،۱۲۸۲ھ درلکھنئو از بلادِ ہندوستان طبع نمود والحق اداد فضل و تحقیق در این شرح دادہ است۔وی تالیفِ این کتاب را بخواجہ نصیرالدین طوسی معرو ف ،متوفی ۶۷۲ نسبت دادہ است ولی معلوم نیست از روی چہ ماخذ۔‘‘۱۹؎

      المعجم فی معایر اشعار العجم مصنف نے پہلے عربی زبان میں لکھی تھی جس کی ابتدا ۶۱۴ھ میں ہو ئی۔اور ۶۳۰ھ تک مکمل ہو سکی۔اگرچہ یہ کتاب فارسی شاعری سے متعلق تھی لیکن اس میں فارسی اور عربی دونوں زبانوں کے اشعار مثال کے طور پر درج کیے گئے تھے۔ لوگوں نے اعتراض کیا تو اس نے اس کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ۔فارسی سے متعلق مواد ایک جا جمع کرکے اسے فارسی میں لکھا اس کا نام المعجم فی معایرِ اشعار العجم رکھا۔ عربی سے متعلق مواد جس حصے ے میں تھا اسے المعرب فی معایر اشعار العرب نام دیا۔عبد الوہاب قزوینی حدائق العجم کو بھی شمس قیس رازی کی تصنیف قرا دیتے ہیں جس سے مفتی محمد سعد اللہ مراد آبادی نے’ میزان لافکار‘ اور صاحبِ غیاث الغات نے اپنی لغت میں استفادہ کیا ہے۔۲۰؎

      پروفیسر خانلری نے اپنی کتاب ’ وزنِ شعر فارسی ‘ لکھا ہے کہ ایرانی عروضی ابتدا ہی سے اس بات کو محسوس کرتے تھے کہ دوایر بحورِ فارسی کی تنظیم و ترسیم میں عربی عروض کی تمام تر پیروی نہیں کی جا سکتی۔اسی لیے فارسی کی خاص بحور کو نئے دوایر میں جگہ دی اور کچھ ایسے دوائر ِ عربی جن کی بحریں فارسی میں لائقِ استعامل نہ تھیں انھیں ترک کردیا۔انھوں نے قابوس نامہ سے ایک اقتباس نقل کرکے لکھا ہے کہ :

          ’ اما از متنی کہ در بالا آوردیم و صورتِ صحیح عبارتِ کتاب است می تواں دریافت کہ از دوایرِ خاص فارسی دایرہ ای بودہ است کہ در آن بحر ہاے ہزج مکفوف، و ہزج اخرب و رجز مطوی،و رمل مخبون قرار داشتہ و دایرۂ دیگر شاید شامل مزاحفات بحور منسرح و خفیف و مضارع و مجتث و سریع بودہ است۔۲۱؎

      خواجہ نصیر الدین طوسی نے اپنی کتاب میں فارسی زبان کی ضرورریات کے مطابق مندرجہ تین دایرے ترتیب دیے جو خاص فارسی اوزان سے تعلق رکھتے ہیں اور عربی عروض میں جن کا وجود نہ تھا۔

      دایرۂ مجتلبہ:

      ۱۔ ہزج مکفوف       ( مفاعیل چار بار)

      ۲۔رجز مطوی       (مفتعلن چار بار)

      ۳۔رمل مخبون       (فعلاتن چار بار)

      دوم دایرۂ مشتبۂ مزاحفہ ۔

      ۱۔سریع مطوی      ( مفتعلن مفتعلن فاعلات)

      ۲۔منسرح مطوی   (مفتعلن فاعلات مفتعلن)

      ۳۔مقتضب مطوی  ( فاعلات مفتعلن مفتعلن)

      ۴۔قریب مکفوف    ( مفاعیل مفاعیل فاعلات)

      ۵۔مضارعِ مکفوف  ( مفاعیل فاعلات مفاعیل)

      ۶ خفیف مخبون      (فعلاتن مفاعلن فعلاتن)

      ۷۔مجتث مخبون      ( مفاعلن فعلاتن مفاعلن)

سوم ۔دایرۂ مشتبہ زائدہ ۔اس میں  مندرجہ ذیل مثمن اوزان شامل ہیں ۔

      ۱۔منسرح مطوی    ( مفتعلن فاعلات ۲ بار)

      ۲۔مضارع مکفوف   ( مفاعیل فاعلات ۲ بار)

      ۳۔مقتضب مطوی  (فاعلات مفتعلن ۲ بار)

      ۴۔مجتث مخبون      (مفاعلن فعلاتن۲ بار)

      ۵۔وزنِ مہمل       (فاعلات مفاعیل ۲ بار)

       شمس قیس رازی کے بارے میں خانلری کہتے ہیں کہ انھوں نے ایرانی عروضیوں کے ایجاد کردہ ان دائروں کو رد کردیا ہے ،جنھیں خواجہ نصیرالدین نے مجتلبۂ زائدہ ٔ مزاحفہ کہا ہے ۔مگر وہ دو دیگر دائروں کو قبول کرتے ہیں ۔خانلری نے شمس قیس رازی کا قول نقل کیا ہے ۔شمس قیس رازی لکھتے ہیں ۔

          ’’جملہ بحورِ اشعار عجم در چہار دایرہ نہم و ہزج و رجز و رمل در یک دایرہ و جملگی مفترعات و منشعبات ہر یک بہ اصول آن ملحق گردا نیم و چون بہ علت بی انتظامی ارکان بحور دایرۂ مشتبہ چناں کہ پیش ازین تقریر رفتہ است ،در ہیچ یک از آن بحور بر اجزائِ سالمہ شعری مستعذب نیست۔از ہر یک وزنے خوش کہ اوزان ِ دیگر بحور بی اختلال ارکان از آن مفکوک شود ،اصل دایرہ سازیم و منسرح مطوی و مضارع مکفوف و مقتضب مطوی و مجتث مخبون را سبب تثمین اجزاء در دایرہ ای نہیم و مسدسات و مزاحفات ہر یک بہ اصولِ آن ملحق داریم و سریع مطوی و غریب مخبون و قریب مکفوف و خفیف مخبون و مشاکل مکفوف را علت تسدیس اجزاء در دایرہ ٔ دیگر داریم۔‘‘۲۲؎

       شمس قیس رازی کے قبول کردہ یہ دو دایرے اس طرح ہیں :

      دایرۂ مختلفہ شامل چہار وزن:

      ۱۔منسرح مطوی – مفتعلن فاعلا ت مفتعلن فاعلات

      ۲۔مضارع مکفوف- مفاعیل فاعلات مفاعیل فاعلات

      ۳۔مقتضب مطوی-            فاعلات مفتعلن فاعلات مفتعلن

      ۴۔مجتث مخبون-    مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلاتن

       شمس قیس رازی کے اس دایرے پر تبصرہ کرتے ہوئے خانلری کہتے ہیں کہ یہ ان زحافا ت کے علاوہ ہے جو ان کے اجزا میں راہ پا گئے ہیں ۔یا اصل دایرۂ مشتبہ، اجزا کی تعداد کے لحاظ سے بھی متفاوت ہے۔یعنی دایرۂ مشتبہ کی بحریں تین جزء اور دایرہ مختلفہ کی بحور چار جزء پر مبنی ہوں گی۔ اور یہ تمام دایرۂ مشتبہ زائدہ ہیں جو معیار الاشعار میں مذکور ہیں ۔۲۳؎

      شمس قیس رازی نے ان مزاحف اجزاء سے ایگ دوسرا دایرہ بنایا ہے جو تین اجزا پر مبنی ہے۔ اور اس نے اس دایرے کا نام دایرہ ٔ منتزعہ رکھا جس سے مندرجہ ذیل پانچ وزن برآمد ہوتے ہیں ۔۔

      دایرۂ منتزعہ:

      ۱۔ خفیف مخبون-فعلاتن مفاعلن فعلاتن

      ۲۔سریع مطوی-مفتعلن مفتعلن فاعلات

      ۳۔غریب مخبون- فعلاتن فعلاتن مفاعلن

      ۴۔قریب مکفوف-مفاعیل مفاعیل فاعلات

      ۵۔مشاکل ممکفوف-فاعلات مفاعیل مفاعیل

       یہ دایرہ بھی وہی ہے جو معیار الاشعار میں مشتبۂ مزاحفہ کے نام سے آیا ہے۔

       محقق طوسی اور شمس بن قیس رازی کے ان اختراعات کا جائزہ لتے ہوئے ڈاکٹر خان لری فارسی عروض کے حوالے سے لکھتے ہیں ۔

          ’’بہ ایں طریق دو دائرہ و سہ بحر ( غریب و قریب و مشاکل) بہ موضوعاتِ خلیل و اخفش افزود شدہ است ۔ و در عروضِ فارسی ہفت دایرہ و نوزدہ بحر یا وزن اصلی کہ دوایر استخراج می شود ذکر و ہمہ اوزانِ دیگر از متفرعاتِ آنہا شمردہ است ۔اما شمارۂ بحور و دوایری کہ عروضیانِ ایرانی یافتہ بودند بسیا ربیش ازیں ہا است۔ازں جملہ شمس قیس نام سہ دایرہ و بیست و یک بحر مستحدث را کہ می گوید عروضیانِ عجم چون بہرامی سرخسی و بزر جمہر قسیمی و امثال ایشان احداث کردہ اند ذکر و رد کردہ است۔۲۴؎

       اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ فارسی میں عروض کی وہ شکل نہیں رہی جو عربی میں تھی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ فارسی زبان کامزاج عربی زبان سے مختلف ہے۔وہ سامی خاندان السنہ سے تعلق رکھتی اور فارسی ہند آریائی سے ۔اسی طرح تہذیبی اور جغرافیائی اختلافات بھی اس تبدیلی کی بنیاد بنے۔ان کے بعد جو اہم کتابیں لکھی گئیں ان میں عروضِ سیفی ‘ ۸۹۶/ ۱۴۹۱ء  مرتبہ سیفی (بخارا) اور رسا لۂ عروض از عبد الرحمٰن جامی تقریباً ۸۸۵/ ۱۴۸۰،تکمیل الصناعۃ (علمِ قافیہ) میر عطا اللہ الحسینی مشہدی، تنقید الدور -ازپایندہ محمد بن محمد بن شیخ محمد متخلص بہ قصائی ( ۹۹۹ھ) شامل ہیں ۔

      مستشرقین نے بھی بھی عروض کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا ۔ عربی عروض سے متعلق جن مستشرقین کے نام سامنے آتے ہیں ان میں سیمو ئل کلارک(۱۶۶۱ء)،ایولڈ(۱۸۲۵ء) اور فریٹیج(۱۸۳۰ء) شامل ہیں ۔فارسی عروض پر جن مستشرقین نے توجہ دی ان میں جان گلکرسٹ،ولیم پرائز ،گلیڈون(۱۸۰۱ء)،روکرٹ(۱۸۲۷ء)،گارساں دیتاسی،(۱۸۴۸ء)بلاکمان(۱۸۷۲ء) خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں ۔ان میں گارساں دی تاسی نے شمس الدین فقیر کی تصنیف ’ حدائق البلاغہ کا فرانسیسی میں ترجمہ کیا ۔ بلاکمان نے عروضِ سیفی اور مولوی عبد الرحمان جا می کے رسالۂ عروض کوکو مرتب کیا جو ۱۸۶۷ء میں کلکتہ سے ایک ہی جلد میں شائع ہوئیں ۔

      ہندوستان میں بھی عروض پر کتابیں لکھی گئیں ان میں صنائع الحسن از فخری دسویں صدی ہجری (سندھ)رضی الدین حسن الصغانی الہندی کی مختصر العروض ۔محمد اشرف کے مطابق یہ پہلے اہلِ قلم ہیں جنھوں نے عروض پر کتاب لکھی۔اس کا مخطوطہ برلن لائبریری میں موجود ہے ۔جس کا اندراج نمبر ۲۷۷۱ نمبر ہے۔۲۵؎۔ اندرجیت حقیر کی طراز الانشا (۱۱۳۰ھ/۱۷۱۸ء جس میں ایک باب عروض سے متعلق ہے۔)،حدائق عروض الہندی ‘ شیخ محمد عبد دل عظیم آبادی(۱۷۶۲ء)دریاے لطافت انشا اور قتیل(۱۸۰۸ء) ، چہار شربت ۱۷۹۹/ ۱۲۱۴ھ ( مرزا قتیل)میزان الافکار شرح معیار الاشعار از مولانا سعد اللہ مرادابادی، شجرۃ العروض ، روضۃ القوافی از مظفر علی اسیرلکھنوی وغیرہ شامل ہیں ۔مولانا حکیم سید عبد الحی نے اپنی کتاب میں عروض پر ہندوستان میں لکھی گئی کتابوں کی تفصیل پیش کی ہے ۔جس میں مندرجہ ذیل کتابوں کا ذکر آیا ہے۔

      ۱۔ حاجب کی عروض- مصنفہ شیخ غلام نقشبند بن عطاء  اللہ لکھنوی( ۱۱۲۶ھ)

      ۲۔خطیب تبریزی کی عروض- مصنفہ شیخ غلام نقشبند بن عطاء  اللہ لکھنوی( ۱۱۲۶ھ)

      ۳۔ابن القطاع کی عروض – مصنفہ شیخ غلام نقشبند بن عطاء  اللہ لکھنوی( ۱۱۲۶ھ)

      ۴۔ابو الجیس اندلسی کی عروض خزرجی کی عروض شرح قصیدہ خزرجیہ- مصنفہ شیخ غلام نقشبند بن عطاء  اللہ لکھنوی( ۱۱۲۶ھ)

      ۵۔رسالہ مختصر در فنِ عروض ۔مصنفہ شاہ رفیع الدین بن شاہ ولی اللہ دہلوی

      ۶۔محقق طوسی کی معیار لاشعار کی شرح میزان الافکار مصنفہ مفتی سعد اللہ بن نظام الدین مراد آبادی

      ۷۔محصل العروض شرح محصل العروض : مفتی سعد اللہ مراد آبادی

      ۸۔التوجیہ الوافی فی مصطلحات العروض والقوافی: شیخ یوسف علی لکھنوی

      ۹۔الدراسۃ الوافیہ فی علم العروض وا لقافیہ: شیخ محمد بن احمد ٹونکی

      ۱۰۔المورد الصافی فی العروض و القوافی : شیخ محد بن حسین یمانی مالوی

      ۱۱۔میزان الوافی فی علم العروض و القوافی : شیخ محمد سلیم بن محمد عطا جونپوری

      ۱۲۔رسالہ در فنِ عروض و قافیہ : شیخ عبد القادر بن محمد اکرم رامپوری

      ۱۳۔رسالہ مختصر در عروض و قافیہ: حکیم غیاث الدین رامپوری

      ۱۴۔رسالہ مختصر در عروض و قافیہ: سید کرامت علی کجگانوی جونپوری

      ۱۵۔رسالہ مختصر در عروض و قافیہ: سید نعمت حسین جونپوری

      ۱۶۔الوافی فی العروض و القا فیہ : شیخ شمس الدین فقیر

      ۱۷۔رسالہ مرأۃ العروض : شیخ نوازش علی حیدر آ بادی

      ۱۸۔مجمع البحرین:مفتی تاج الدین بن غیاث الدین مدراسی

      ۱۹۔رسالہ منظوم در علمِ عروض : شیخ عبد القادر بن خیرا لدین جونپوری

      ۲۰۔مفتاح العروض : مولوی عباس علی خاں

      ۲۱۔زبدۃ العروض : سید محمد مومن ۔۲۶؎

       مذکور تمام کتابوں میں میر شمس الدین فقیر کی کتاب حدائق البلاغت اس لیے اہم ہو جاتی ہے کہ مولاناامام بخش صہبائی اور دیگر لوگوں نے اس کا اردو میں ترجمہ کیا جس سے اردوں داں طبقے نے اس کتاب سے بیش ازبیش استفادہ کرسکا۔ ابتداً اردو میں عروض پر جو کتابیں لکھی گئیں ان میں فارسی کتابوں کی تقلید کی گئی۔ اس لیے اردو عروض کی تفہیم میں فارسی عروض بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے بغیر اردو عروض کی تفہیم ممکن نہیں ۔

حواشی:

۱؎۔ زمانہ ،جنوری ۱۹۴۲،ص ،۱

۲؎۔ زمانہ ،جنوری ۱۹۴۲،ص۲ ۱

۳؎۔ساقی کراچی،جوبلی نمبر ۱۹۵۵،ص، ۳۱۵ تا ۳۱۶

۴؎۔’ تحقیقِ انتقادی در عروضِ فارسی و چگونگی تحول اوزانِ غزل‘ ،انتشاراتِ دانشگاہِ تہران ، ۱۳۲۷ھ ص۱۵

۵؎۔’ تحقیقِ انتقادی در عروضِ فارسی و چگونگی تحول اوزانِ غزل‘ ،انتشاراتِ دانشگاہِ تہران ، ۱۳۲۷ھ ص ۲۰

۶؎۔ وزنِ شعر فارسی، پرویز ناتل خانلری ، انتشاراتِ توس، اول خیابان ، دانشگاہ تہران ۱۳۶۷، ۵۶ تا ۷۷

۷؎۔دیکھیے -مقالاتِ حافظ محمود شیرانی،جلد پنجم،مجلسِ ترقیِ ادب لاہور ،ص۶۶۹

۸؎۔مقالاتِ حافظ محمود شیرانی ،جلدپنجم،تنقیدِ شعرالعجم،مرتبہ مظہر محمود شیرانی ،مجلسِ ترقیِ ادب، کلب روڈ لاہور۶۹۷ تا ۶۹۸

۹؎۔مقالاتِ حافظ محمود شیرانی ،جلدپنجم،تنقیدِ شعرالعجم،مرتبہ مظہر محمود شیرانی ،مجلسِ ترقیِ ادب، کلب روڈ لاہور۶۹۹

۱۰؎؎۔مقالاتِ حافظ محمود شیرانی ،جلدپنجم،تنقیدِ شعرالعجم،مرتبہ مظہر محمود شیرانی ،مجلسِ ترقیِ ادب، کلب روڈ لاہور ص ۷۰۰

۱۱؎۔ المعجم فی معایرِ اشعار العجم ، شمس الدین ابنِ قیس رازی بیروت، ۱۹۰۹،ص ج

۱۲؎۔مقالاتِ حافظ محمود شیرانی ،جلدپنجم،تنقیدِ شعرالعجم،مرتبہ مظہر محمود شیرانی ،مجلسِ ترقیِ ادب، کلب روڈ لاہور۷۰۰

 ۱۳؎۔ مقالاتِ حافظ محمود شیرانی ،جلدپنجم،تنقیدِ شعرالعجم،مرتبہ مظہر محمود شیرانی ،مجلسِ ترقیِ ادب، کلب روڈ لاہور ص ۷۰۱

 ۱۴؎۔ دیکھیے ۔مقالاتِ حافظ محمود شیرانی ،جلدپنجم،تنقیدِ شعرالعجم،مرتبی مظہر محمود شیرانی ،مجلسِ ترقیِ ادب، کلب روڈ لاہور۷۰۱ تا ۷۰۲

 ۱۵؎۔مقالاتِ حافظ محمود شیرانی ،جلدپنجم،تنقیدِ شعرالعجم،مرتبہ مظہر محمود شیرانی ،مجلسِ ترقیِ ادب، کلب روڈ لاہورص ۷۰۳

۱۶؎۔مقالاتِ حافظ محمود شیرانی ،جلد ہنجم،تنقیدِ شعرالعجم،مرتبہ مظہر محمود شیرانی ،مجلسِ ترقیِ ادب، کلب روڈ لاہور۷۰۳

۱۷؎ مقالاتِ حافظ محمود شیرانی ،جلدپنجم،تنقیدِ شعرالعجم،مرتبہ مظہر محمود شیرانی ،مجلسِ ترقیِ ادب، کلب روڈ لاہورص ۷۰۳

۱۸؎۔مقالاتِ حافظ محمود شیرانی ،جلدپنجم،تنقیدِ شعرالعجم،مرتبہ مظہر محمود شیرانی ،مجلسِ ترقیِ ادب، کلب روڈ لاہورص ۷۰۶ تا ۷۰۷

۱۹؎۔ مقدمہ المعجم فی معایرِ اشعار العجم ص،ھ، و، بیروت ۱۹۰۹

۲۰؎۔ مقدمہ المعجم فی معایرِ اشعار العجم ص، یب بیروت ۱۹۰۹

۲۱؎۔وزن ِ شعرِ فارسی ، اشاعتِ ثانی ۱۳۴۷ ،انتشاراتِ توس ، دانگاہِ تہران ،ص ۱۶۸

۲۲؎۔وزن شعرِ فارسی ،اشاعتِ ثانی ۱۳۴۷ ،انتشاراتِ توس ، دانگاہِ تہران ص ۱۷۱ تا ۱۷۲

۲۳؎۔ وزنِ شعرِ فارسی ، اشاعتِ ثانی ۱۳۴۷ ،انتشاراتِ توس ، دانگاہِ تہران ،ص، ۱۷۲

 ۲۴؎۔وزنِ شعرِ فارسی ، اشاعتِ ثانی ۱۳۴۷ ،انتشاراتِ توس ، دانگاہِ تہران ،ص ۱۷۳

۲۵؎۔Contribution of India to arabic Literature page No.208,1965,Lahore

۲۶؎۔اسلامی علوم و فنون :ہندوستان میں -ازمولانا حکیم سید عبد الحی،ترجمہ مولانا ابولعرفان ندوی،درامصنفین اعظم گڑھ،۱۹۷۰ء میں ص ۶۲ تا ۶۴

۔۔۔۔

ڈاکٹر محمد حسین،

صدر شعبۂ اردو ، گورنمنٹ ڈونگر کالج، بیکانیر،راجستھان،انڈیا

Mob.09413481379

Email:husainbkn@gmail.com

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.