ہریانوی اور اُردو زبان کی ثقافتی مماثلت:لسانیاتی ومساحتی مطالعہ

Cultural Similarities of Haryanvi and Urdu Language:A linguistic study & survey

Abstract:

It is a sociolinguistic survey to know about the influence of cultural similarities and differences among Haryanvi and Urdu Language and its different regional languages on the local verities of the dialects,especially on Haryanvi, Saraki / Multani, Punjabi,Urdu and its Subdialects. It also overview the social and cultural bindings to Haryanvi, Punjabi and Siraiki’s different accents.Whereas this research paper investigates the geographical linguistic background of Haryanvi language,its regional dialects of Haryanvi language,its origin and traces the emergence, and interaction of new regional varieties of these languages with local dialects.with the help of the classical linguistic theories ,this paper emphasis on the cultural and social bindings of Haryanvi and Urdu Language as well.

زبان ثقافتی و تہذیبی رشتوں سے بندھی ہوتی ہے۔ معاشرتی رویے اس کے ابلاغ کے لیے جواز فراہم کرتے ہیں ۔ زبان کی انفرادی و اجتماعی ترویج و اشاعت کے لیے افراد آلہ کار کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ کسی بھی خطے کی زبان تہذیبی و ثقافتی اقدار و روایات کی پابند ہوتی ہے۔ زبان نہ تو ایسی جامد ہے کہ اس کو ابلاغ کے لیے بیرونی و اندرونی محرکات درکار ہوں اور نہ اتنی محرک کہ از خود ہی تنہا اپنی روایات و اقدار کے برخلاف ابلاغ کے عمل سے گزرتی رہے۔زبان، سماج، تہذیب وتمدن اور ثقافتی اقدار و روایات کسی بھی خطہ کی تہذیبی زندگی کے عکاس ہیں ۔ تہذیب انسانوں کے آپسی طرز تمدن اور طریقہ معاشرت کے سبب ہی وجود میں آتی ہے جب کہ کسی بھی تہذیب میں رسومات محض ثقافتی ورثے کی منتقلی کا نام ہے نہ کہ تہذیبی ارتقاء کی بنیادی وجہ۔ رسومات کے ساتھ ساتھ جغرافیائی ماحول اور تبدیلیاں بھی سماجی اکائیوں کی ساخت اور رشتوں کے نظام میں محض عارضی حوالہ تو ہو سکتا ہے مگر بنیادی نہیں ۔ سماج اور تہذیب میں تغیر پذیری کا براہ راست اثر زبان پر پڑتا ہے اسی لیے لسانی ارتقاء میں تہذیبی عوامل سب سے زیادہ کار فرما ہوتے ہیں ۔ شعوری اور غیر شعوری طور پر بھی تہذیبی زندگی کی عکاسی قوموں کے اجتماعی شعور میں با آسانی دیکھی جا سکتی ہے۔ جبکہ یہاں ایک اور بات بھی با آسانی کہی جا سکتی ہے کہ تہذیبی زندگی قوموں کے لسانی پہلوؤں  کو سامنے رکھتے ہوئے لسانی تاریخ سازی کی جانب سفر کرتی ہے۔زبان، سماج اور تہذیب کے اس ارتقائی سفر کے بارے میں خلیل صدیقی لکھتے ہیں کہ:۔

’’ اگرچہ نجی اور سماجی تقاضوں نے انسان سے زبان تخلیق کرائی تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ زبان سماجی ارتقاء کا وسیلہ بنتی رہی ہے۔ انسان کے تمام ذہنی و جذباتی تجربے زبان کے سانچوں میں ڈھلتے، روایات بنتے ،بگڑتے اور مستقل ہو رہے ہیں ۔ اس طرح انسان کی اجتماعی زندگی میں تنظیم او رنکھار پیدا ہوتا ہے۔ انسان کے اس بیش بہااکتساب نے اس کی زندگی کے ہر پہلو اور ہر شعبے کو اپنا مرہون منت بنایا ہے۔ سماجی زندگی کی کوئی ایسی سطح نہیں ہے جس میں زبان کا سکہ نہ چلتا ہو‘‘(۱)

زبان جس کا سب سے اہم منصب ہی سماجی ہے اور سماجی اداروں نے مذہب، اخلاقیات سیاست اور تعلیم و تنظیم کو ایک مربوط صورت میں پیش کیا ہے۔ زبان جہاں عمرانی مسائل کے حل کی جانب کوشاں ہے وہیں اس کی مدد سے انسان کی فکری و ذہنی اکتسابی واجتہادی صورت گری ایک تہذیب اور نسل سے دوسری میں منتقل ہوتے رہتے ہیں ۔ زبان سماج کی ہر سطح اور ہر ورثے پر اثر انداز ہو کر اظہارو ابلاغ کی تنظیم سازی کرنے میں مصروف عمل ہے۔ زبان کی جڑیں سماجی اور تہذیبی اقدار سے لپٹی ہوتی ہیں جس کا تعلق نہ صرف بولنے والے کی زبان سے وابسطہ ہوتا ہے بلکہ سننے والا بھی اس کا عکس اپنی تہذیبی زندگی میں محسوس کرتا ہے۔ زبان اور سماج کا یہ رشتہ قومیت سے مربوط ہو کر ثقافتی اقدار وروایات کے بنانے میں مصروف عمل رہتا ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری زبان، سماج اور معاشرتی ضرورتوں کے باب میں لکھتے ہیں کہ:۔

’’زبان انسان کی سماجی اور معاشرتی ضرورتوں کی ایجاد ہے۔ ہر زبان اپنی ارتقائی منزلیں سماجی زندگی ہی کر سہارے طے کرتی ہیں اور اس کے زیر اثر اس کی صورت اور معنی میں تبدلیاں رونما ہوتی ہیں ۔ کسی زبان کے عروج و زوال کی داستان کو دراصل کسی قوم کی تاریخ سمجھنا چاہیے۔ بات یہ ہے کہ زبان بھی اپنے بولنے والوں کی طرح اپنے سماجی محرکات و عوامل کی پابند ہوتی ہے‘‘۔(۲)

تہذیب کا تعلق چونکہ انسانی اکتسابات واجتہادات سے بہت گہرا ہوتاہے۔ زبان چونکہ تہذیبی اقدار، مادی پہلو یا خارجی عناصر اور تجریدی یا غیر مرئی عناصر کے مرہنون منت ہوتے ہیں لہذا کسی بھی تہذیب کے اصل خال و خد کو تلاش کرنا بے حد مشکل ہو جاتا ہے ۔یہ بات بھی لسانی نقطہ خیال کے مطابق درست ہے کہ خدوخال نہ تو دائمی ہوتے ہیں اور نہ ہی عارضی۔ تاہم خاص لسانی اکائی تہذیبی زندگی پر دائمی اثرات مرتب کرتی ہے۔ زبان اور سماج کے اس رشتے میں تیسری چیز جو زبان کو غالب یا مغلوب کرنے کا سبب بنتی ہے وہ سیاسی عدمِ استحکام ہے۔ سیاسی غلبہ جہاں محکوم تہذیب کی اخلاقی برتری کو پامال کر دیتا ہے وہیں غالب سیاسی اشرافیہ کی زبان اُس خطہ کی مرکزی زبان کی حیثیت بھی اختیار کر لیتی ہے۔ مسلمانوں کی خطہ ملتان میں آمد اور حکمرانی سے جو تہذیبی و لسانی تبدلیاں اس خطہ میں پیدا ہوئیں ، وہ جدید ہند آریائی زبان کی صورت میں ہمارے سامنے آج تک موجود ہیں ۔یہ بات ارتقاء کے باب میں بے حد اہمیت رکھتی ہے کہ تہذیبی ارتباط کی نوعیت چاہے جیسی بھی ہو مغلوب تہذیب غالب تہذیب کی بیو ہاری صورتوں ، تہذیبی برتری اور تنظیمی اصول و قواعد کو اپنے لسانی حوالوں میں شامل کرنے پر خود کو پابند خیال کرتی ہے۔ اشرافیہ کی زبان مغلوب تہذیب کی زبان میں دخیل الفاظ کی حد سے زیادہ تہذیبی استعارے پر بھی مصر نظر آتی ہے جبکہ یہی سیاسی اور لسانی برتری تہذیبی زندگی کو متاثر کرنے کا سبب بھی بنتی ہے۔ یہی حال اُردو زبان کے بارے میں بھی صادق آتا ہے جس نے نہ صرف خطہ ملتان بلکہ پوری سرائیکی تہذیب اور تمدن کو بھی اپنے حصار میں جکڑ رکھا ہے۔ اس باب میں ڈاکٹر نصر اللہ خان لکھتے ہیں کہ:۔

’’ اُردو جنوبی اشیا کے مسلمانوں کی تہذیبی و تمدنی اسطور، ثقافتی تشخص کی علامت، سماجی اقدار کی سب سے بڑی آئنہ دار ہے۔ اس کی روح میں برصغیر کی تمام زبانوں کی ابلاغی معنویت سانس لیتی ہے، اس زبان کے مآخذات اور رشتے سرائیکی زبان اور دھرتی کے کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں ‘‘۔(۳)

 لغت کی قدیم کتابوں میں جوکہ چودھویں صدی عیسوی سے لے کر اٹھارویں صدی عیسوی تک شائع ہوئیں ان میں بھی اُردو زبان کے لیے ہندی یا ہندوی ہی درج ملتاہے۔ اس کے بعد تزکِ بابری میں بھی ایک طویل عرصے تک اُردو شاعری کے لیے ’’ ریختہ‘‘ کا لفظ بولے جانے کے ہی کے آثار ملتے ہیں ۔ خطہ ملتان میں بھی چونکہ ایک طویل عرصے تک فارسی کا دور دور اں رہا لہذا عرب مورخوں اور سیاحوں نے بھی اپنی کتابوں میں ایک طویل عرصے تک اُردو کے لیے’ ہندوی‘ کا نام ہی استعمال کیا۔ فارسی چونکہ اکثریتی زبان کا درجہ رکھتی تھی لہذااُس نے یہاں کی مقامی زبان ہندوی پر بھی اپنے اثرات مرتب کرنا شروع کئے لہذا فارسی اور ہندوی کے اشتراک سے بعد ازاں اُردو کے لئے ریختہ کا لفظ بولا جانے لگا۔ ریختہ جو کہ فارسی زبان کا لفظ ہے اور جس کا مصدر ریختن ہے جو کہ بنانا، اختراع کرنا یا نت نئے سانچے میں ڈھالنے کے معنوں میں کیا جاتا ہے ۔ ریختہ کی اصطلاح کوامیر خسرو نے موسیقی کی اصطلاح کے لیے بھی استعمال کیا ہے۔ فارسی خیال کو ہندی زبان کے باہم ملاپ واتحاد کے باعث ایسے کلام کو ریختہ کہا جانے لگا جس میں آدھا لفظ ہندی اور آدھا فارسی زبان کا ہوتا تھا۔اُردو زبان کے لئے لفظ ’’ریختہ‘‘ کے استعمال کیے جانے کی بھی یہی توجیح سمجھ میں آتی ہے ۔ اکثر لسانی محققین اس بات پرمتفق دکھائی دیتے ہیں کہ اُردو ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی لشکر یا پڑائو کے ہیں ۔ ترکی زبان کی لغت میں بھی اردو زبان کو ’’ ORDU‘‘ہی لکھا گیا ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں سے تزک بابری میں ہندوی کے بعد اس زبان کو اُردوئے معلی، اُردوئے غلیا، اُردوئے ظفر قرین، اُردوئے لشکر، اُردوئے عالی اور اُردوئے بزرگ جیسے ناموں سے پڑھا اور لکھا جاتا رہا ہے۔ جس کا ثبوت اکبر کے زمانے کی تاریخی کتب میں بھی ملتا ہے، بہرحال زبان کے لیے شاہ جہاں نے سب سے پہلے’ اُردوئے معلی ‘کا لفظ استعمال کیا جو شاہ جہاں کی درباری زبان کے لیے بھی بولا جاتا تھا۔ جس سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ ’’اُردوئے معلی‘‘ خاص درباری لوگوں کی زبان تھی نہ کہ عام لوگوں کی زبان۔ العرض اُردوئے معلی کو ٹکسالی زبان کہا جا سکتا ہے نہ کہ خاص اُردو زبان۔شاہ جہان کے بعد بے شمار شعراء نے ’’ اردوئے معلی‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ان میں میر تقی میر کے نکات الشعراء میں سراج الدین خان (۱۷۲۶ء۔ ۱۶۷۵ء) آرزو نے اپنی لغت کی کتاب ’’ نواد ار الفاظ‘‘ میں اور عطا حسین خان تحسین نے اپنی کتاب ’’ نوطرز مرصع‘‘ میں اُردوئے معلی کا لفظ بارہا استعمال کیا ہے۔ اس کے بعد کثرت استعمال اور عام لوگوں کی زبان ہونے کے ناطے اس زبان ’’ اُردوئے معلی‘‘ سے معلی کا لفظ حذف ہو گیا اور اب براہ راست ’’اُردو‘‘ مستعمل ہے۔یہ اقتباس ملاحظہ ہو:۔

’’ حقیقت میں یہ وہی زبان ہے جس کا ظہور ابتدائی شہر ملتان میں ہوا اور لاہور میں پرورش پائی، پھر دہلی پہنچی تھی اور یہ زبان صدیوں کے میل ملاپ اور تہذیبوں کے استعمال کی پیداوار ہے‘‘(۴)

مغربی مستشرقین جارج گریرسن، چارلس لائل، گارسین دتاسی اور جان بمیز سمیت بے شمار مشرقی لسانی محققین نے بھی اُردو کی ابتداء کا زمانہ مغل دور حکومت کو ہی قرار دیا ہے۔ اس دور میں اُردو کو درباری سرپرستی حاصل تھی جس نے اس زبان کے اثر و رسوخ کو بہت حد تک قبول کر لیا تھا ۔بعد ازاں مسلمانوں کے دہلی پر حملے نے اس زبان میں عربی اور فارسی کے الفاظ و محاورات باضابطہ طور پر استعمال ہونا شروع ہوئے۔ اسی بنا پر مرزا جان تپش سمیت بہت سے مصنفین دہلی کی زبان کو ہی اردو زبان کی اصل قرار دیتے ہیں ۔اس باب میں ’پنجاب میں اُردو‘ کے خالق حافظ محمود شیرانی لکھتے ہیں کہ:۔

          ’’ جب ہم اُردو کے ڈیل ڈول، اس کی ساخت اور وضع قطع کو دیکھتے ہیں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس کاڈہنگ اور ہے اور برج بھاشا کا رنگ اور ہے دونوں کے قواعد واضوابط و اصول مختلف ہیں ‘‘(۵)

 جہاں تک سوال اُردو زبان کے صوتی وصرفی قواعد میں مماثلت کا ہے تو یہ بات اپنی جگہ بے حد اہمیت رکھتی ہے کہ اس زبان کے صوتی قواعد زیادہ تر فارسی قواعد کے قریب تر دیکھائی دیتے ہیں ۔ عربی زبان کی بیشتر الفاظ اس کے ذخیرہ الفاظ میں اضافے کا باعث بنے لہذا اس صرفی قواعد میں عربی زبان کے قاعدے بھی دیکھنے میں آتے ہیں ۔ملتانی زبان کو اس خطہ کی قدیم زبان ہونے کا شرف حاصل ہے لہذا اس مقامی زبان ہونے کے ناطے سے اُردو زبان پر اس کے اثرات پڑنا ایک یقینی امر ہے۔ خطہ ملتان کا پنجاب میں شامل ہونا بھی اس خطہ کی لسانی زرخیز ی کی ایک بنیادی وجہ قرار پاتا ہے۔ چونکہ اس خطہ میں پنجابی زبان کے بولنے والے افراد بھی کثرت میں آباد رہے،لہذا ملتانی زبان اور پنجابی بولنے والے افراد نے آپس میں بات چیت کے لیے ایک پچ میل قسم کی زبان کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کیا۔ اُردو پر ملتانی زبان کے اثر و مماثلت کے باب میں حافظ محمود شیرانی لکھتے ہیں کہ :۔

’’ اُردو برج بھاشا کے مقابلے میں پنجابی بالخصوص ملتانی سے مماثلت ومرتبہ رکھتی ہے‘‘(۶)

اُردوزبان کی اس مختصرثقافتی تعبیر کے بعداب گفتگواس بات کا تقاضا کررہی ہے کہ کسی قدر ہریانوی زبان کی جغرافیائی،لسانی اور ثقافتی پہلوئوں پربھی بات کرتے ہوئے بات کوآگے بڑھایا جائے۔اس باب میں بیان ہے کہ ہریانہ کی وجہ تسمیہ ہندو قوم کے خدا وشنو کی مناسبت سے ’ہری رام‘ یعنی ہری سے منسوب ہے۔ ہری سنسکرت لفظ ہے جس کا مطلب ’سبز ‘ہے جبکہ اس کے تحقیق سے وابسطہ افراد کا خیال ہے کہ ’ہریانہ‘ سنسکرت لفظ’ ہریت‘ یعنی سبزہ اور ’آریانہ‘ یعنی جنگل سے ماخوذ ہے لہٰذا اس پورے لفظ ہریانہ کا مطلب ہے کہ’ سبز جنگلات‘۔اس خطہ میں دو تہذیبوں سندھ اور ویدک کے آثار نمایاں طور پر نظر آتے ہیں ۔ رکھی کٹوی اس صوبے کا قدیم ترین علاقہ ہے جو کہ ضلع حصار کا ایک گائوں ہے اس کی تاریخ پانچ ہزار سال پرانی ہے۔جغرافیائی تناظر میں صوبہ ہریانہ کے شرق میں نیو دہلی، اترپردیش، اتر انچل، مغرب میں راجستھان کا صحرائی خطہ، چندی گڑھ اور پنجاب، شمال میں ہما چل پردیش جبکہ جنوب میں ہریانہ آباد ہے۔ جغرافیائی اور لسانی نقطہ خیال میں یہ علاقہ دو بنیادی خطوں پر مشتمل ہے جس میں سے ایک بانگر اور دوسرا ہریانہ ہے۔ بانگر میں بانگڑی زبان بولی جاتی ہے جس کو گریرسن نے بانگڑو بھی کہا ہے (۱) جبکہ ہریانہ میں ہریانی زبان بولی جاتی ہے چونکہ اس زبان کو زیادہ تر جاٹ برادری یا قوم زیادہ بولتی ہے لہٰذا اسی نسبت سے اس کو’ جاٹو‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ بعد ازاں اس خطہ کو ہریانہ کھادر اور ہریانہ بانگر بھی کہا جانے لگا۔ پڑھے لکھے افراد اس خطہ کی زبان کو ہریانوی جبکہ ان پڑھ اور مقامی افراد اس کو ’’دیسوالی‘‘ اور کہیں کہیں ’’دیساری‘‘ کے مقامی ناموں سے بھی پکارتے ہیں ۔ہریانوی اور اردو کے باہمی تعلق کے بارے میں سید محی الدین قادری زور لکھتے ہیں کہ:۔

’’یہاں ایک اور بات مد نظر رکھنی چاہیے کہ اردو پر بانگڑو یا ہریانوی کا قابل لحاظ اثر ہے۔‘‘ (۷)

اس خطہ ہریانہ کی لسانی تشکیل میں مغربی ہندی کی بولیوں بُرج، قنوجی، بندیلی اور کھڑی بولی سمیت سنسکرت زبان کا بھی عنصر نظر آتا ہے۔ ہریانوی یا بانگڑی زبان کا ذخیرہ الفاظ اپنی مقامی بولیوں ، ذیلی بولیوں ، تحتی بولیوں اور مغرب کی بے شمار چھوٹی چھوٹی زبانوں کی آمیزش سے تشکیل پاتا ہے۔ ڈاکٹر شوکت سبزواری اس ضمن میں لکھتے ہیں کہ:۔

’’اردو، برج، ہریانی، قنوجی ،بندیلی کا مشترک لسانی سرمایہ مغربی ہندی ہے۔‘‘(۸)

     تاریخی و جغرافیائی تناظرات کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تولسانی آبیاری کے اس عمل میں مغربی ہندی نے ہریانوی کے نہ صرف صرفی و نحوی پہلوئوں کو متاثر کیا بلکہ اس خطہ کی تہذیب و ثقافت کا بھی اس میں خاص عمل دخل نظر آتا ہے۔٭۳ہریانوی زبان بولنے والوں کے اس خطہ میں ہریانوی تہذیب کی بھرپور عکاسی بھی یہاں کے میلوں ، تہواروں ، شادی بیاہ کی رسموں اور محافل میں خاص طور پر دیکھنے میں آتی ہے۔ اس خطہ میں ہریانوی رقص گگا، پھاگ، جھومر، دھمال، دھومر، چٹی، کھور یا سمیت مقدس ناچ گنگورے پوجا اور سوانگ بھی بے حد مقبول ہیں ۔ راس لی لا اور لور خاص ہریانوی رقص ہیں جو یہاں کی ہریانوی زبان بولنے والے خواتین میں بہت پسند کیے جاتے ہیں ۔

     ہریانوی ثقافتی اہمیت کے باب میں یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ ہریانوی خواتین زیور میں چوٹی، جھومر، کوکلی، ٹیکہ، جک، بجنی، بالا، جھمکے، مُرلی، پتے، ڈنڈیاں ، میخ، لونگ، کوکا، ہنسلی، تلڑی، توڑے، گلو بند، گلسری، کنٹو مالا، چمپا کلی، آرسی، کنگن، بازو بند، پلچھی، چھن، ہتھ ھول، رم جھول، سُوت، پازیب، جھاتوری، چمک چوڑی وغیرہ سے بخوبی ہوتا ہے جو یہاں کی ہریانوی زبان، جھاتوری، چمک چوڑی وغیرہ سے بخوبی ہوتا ہے جو یہاں کی ہریانوی زبان بولنے والی خواتین خصوصیت کے ساتھ تہواروں اور شادی بیاہوں میں زیب تن کرتی ہیں ۔ہریانوی ثقافت میں ہریانوی قوم کی چھتیس شاہی خاندانوں اور تقریباً ساڑے پانچ ہزار گوتوں (قبائل) کا ذکر ملتا ہے ۔ اس قوم کے افراد نے افغانستان سے لے کر راس کماری تک ایک طویل عرصے تک حکمرانی کی ۔زمانہ قدیم میں ہریانوی فرد گھشتری کے لقب سے مشہور تھے۔ہندوستان کی پوری تاریخ راجپوتوں کے اذکار سے بھری پڑی ہے اور ان میں زیادہ تر کا تعلق ہریانوی زبان بولنے والوں میں سے تھا۔ یہ قوم تاج و تخت کے شاہی قوانین سے مکمل آگاہ تھی اور فن سپاہ گری، تلوار زنی اور شمشیر زنی میں اِن کا ثانی ملنا مشکل تھا۔ اس قوم میں جہاں ہریانوی رسم و رواج کا امتزاج نظر آتا ہے وہیں ان میں تہذیبی زندگی کے آثار بھی نمایاں ہیں ۔ ہریانی گوتوں میں شادی بیاہ و مرگ کی رسوم دیگرقبائل سے یکسر مختلف ہیں ۔ ان کے ہاں رسوم و رواج گویا جدید و قدیم کا سنگم ہے جبکہ بسااوقات دو تہذیبوں میں ٹکرائو کی صورتحال بھی بخوبی دیکھی جا سکتی ہے۔ ہریانوی کی قدیم رسومات میں سے ایک ’سوئمبر‘ کی رسم ہے جس میں راج کمار راج کماری سے بیاہ رچانے کے لیے اپنی ہی گوت کے دیگر افراد سے تلوار زنی و دیگر مقابلوں میں سبقت لے جانے کی کوشش کرتا ہے اور اصلاًیہ رسم تھی جس میں راج کمار کو ایک بھاری چٹانی پتھر اٹھا کر باقی افراد کے سامنے اپنی طاقت کا اظہار کرنا ہوتا تھا۔ سیتا اور رامائن اس رسم کے بنیادی کردار تھے۔ اسی طرح پھول مالاکی رسم بھی سوئمبر کی طرح اب اس قوم میں قریباً ناپید ہی ہوگی ہے۔ اس کے علاوہ رشتہ کی تلاش کا کام ہریانوی قوم میں نائی کے سپرد ہوتا ہے۔ شادی بیاہ کی رسومات رشتہ کی تلاش سے شروع ہوجاتی ہیں اور منگنی کی رسم لڑکے اور لڑکی دونوں جانب سے باقاعدہ ادا کی جاتی ہے ۔بعد ازاں چھٹی لکھنا جو کہ لڑکی والوں سے مخصوص رسم ہے کے بعد چھٹی کھلنا جو لڑکے والوں کے ہاں کھلتی ہے اس کے بعد ماہیے یا مائیوں بیٹھنا، بان یعنی اُبٹن لگانا، ڈھولک وار پھیر، پٹٹرا اتارنا، مہندی، بھات، سہرا چوٹی، سہرا بندی، گھڑ چڑھی، جنیت یعنی برات، سہہ بالا، سمدھ ملادا، میل، نکاح بدکی تقسیم، بری اوربریوا، وداع یا رخصتی (اس کو بداعی کے مخصوص نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے) بارت کی رخصتی، بارت کی گھر واپسی، بار رکائی، دلہن کا استقبال، سند دکھائی، ولیمہ، مکلاوہ، منڈھا جھیکائو جیسی بے شمار رسومات قابلِ ذکر ہیں ۔ ڈاکٹر مسعود حسین خان کی رائے اس ضمن میں بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے کہ:۔

’’قدیم اردو کی تشکیل براہ راست ہریانی کے زیر اثر ہوئی ہے۔ اس پر رفتہ رفتہ کھڑی بولی کے اثرات پڑے ہیں ۔ ‘‘ (۹)

ہر زبان کے صوتی ڈھانچے میں ۳ پہلو خاص طور پر نمایاں ہوتے ہیں ،فعلی، انفعالی جبکہ تلفظ (Phonation) اور سماع (Audition) باہم مدغم ہو کر صوتیات کو جنم دیتے ہیں ۔ اسی قسم کی صورتحال ہریانوی زبان کے بارے میں بھی ہے، لہٰذا یہ ضروری امر ہے کہ کسی بھی زبان کے صوتیوں (Phonemies) پر گفتگو کرتے وقت یہ دونوں پہلو زیر غور رہیں ۔ اس کے بعد صوتیہ کی باری آتی ہے۔ منہ سے نکلنے والا صغیر سلسلہ لفظ یا کلمہ جبکہ کبیر سلسلے کو مکمل جملہ یا فقرہ کہا جاتا ہے اور اس کو صوتیہ کہا جاتا ہے۔ ان دونوں سلسلوں کی تقسیم قوت سامعہ، آلات سامعہ، فاصلہ اور شعور و ادراک پر منحصر ہوتی ہے۔ نظام اصوات میں علامات کا بھی بڑا محل دخل ہوتا ہے اس کے علاوہ صوتیے، ہائیہ آوازیں ، روزمرہ اور محاورہ، مرادفی مرکبات، دخیل الفاظ کی شناخت اور ہائے نسبت وغیرہ انتہائی اہمیت کے حامل ہیں ۔

اس زبان کے بولنے والے چونکہ ہریانہ متحدہ ہندوستان سے ہجرت یا نقل مکانی کرکے جہاں جہاں میں آباد ہوئے وہ اپنے ساتھ اپنی تہذیب اپنا تمدن اور اپنی زبان بھی لائے۔ ہریانوی زبان بولنے والوں کی اکثریت راجپوت قوم سے تعلق رکھتی ہے لہٰذا زبان و ادب کے بیان سے قبل ضروری ہے کہ راجپوت قوم کے عادات و خصائل اور راجپوتی رسم و رواج سے واقفیت حاصل ہوجائے کیونکہ رسم و رواج کسی بھی قوم، قبیلے یا گوت کی زبان کی طرح علیحدہ تشخص رکھتا ہے ۔کسی بھی علاقہ، خطہ، تعلقہ یا قوم کی رسم و رواج اور لوک گیت لکھ لینے سے اس کی تاریخ خود بخود مرتب ہوجاتی ہے۔

     راج+پوت میں راج بمعنی حکمران یا مملکت جبکہ پوت ہریانوی میں بیٹا کو کہا جاتا ہے۔ جس کو ہندی میں راج پتر بھی کہا جاتا ہے یعنی راج کا حاکم یا راجا کا بیٹایا حکمران خاندان کا فرد مراد ہے۔ راجپوت دراصل ویدک نظامِ حکومت میں شامل کھشتریوں کی اولاد ہیں بعد ازاں ان کے مزید قبائل یا گوتیں سورج اور چاند دیوتا کی اولاد کہلوانے لگیں اور سورج بسنی اور چندو بسنی راجپوت کے نام سے مشہور ہوئیں ۔ مغربی مفکرین یا غیر ملکی سیاحوں کے نزدیک راجپوت بیرونی حملہ آوروں کی اولاد ’’ہونوں ‘‘ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ راجپوتوں کو دو بڑے گروہوں ملکی اور غیرملکی میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان راجپوتوں کو مزید گوتوں چوہان، چالو کیہ، گورجر میں تقسیم کیا جاتا ہے جو غیر ملکی راجپوت گروہ کہلاتاے ہیں جبکہ ملکی راجپوت گروہ میں راشٹر کوٹ دکن کے، راٹھور راجپوتانہ کے جبکہ چنڈیل اور بند یلے پلکھنڈکے بہت زیادہ مشہور ہیں ۔ غیر ملکی راجپوتوں نے ہندو مت قبول کیا اور متحدہ ہندوستان میں اپنی چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم کرلیں ۔ یہ تمام راجپوت آریہ نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ اس نسل نے ویدک دھرم اور بدھ مت کی تین ہزار سالہ تاریخ میں اپنی تہذیبی و تمدنی زندگی کی ارتقائی منازل طے کیں اور ساتویں صدی عیسوی میں بدھ ازم اور برہمنیت کی طویل ذہنی و جنگی مصاعی کی بدولت اور کشمکش کے نتیجے میں ہندو تہذیب روبہ زوال ہوئی تو یہ کھشتری یا فوجی باغیوں کے روپ میں پورے ہندوستانی میں پھیل گئے اور انہوں نے اپنی طاقت جوان مردی اور شجاعت کے بل بوتے پر اپنی الگ الگ ریاستیں اور چھوٹی چھوٹی حکومتیں قائم کرلیں ۔ خود کو راجپوت یعنی حاکم کا بیٹا کہلوانے لگے اور انہوں نے اپنی اپنی ریاستوں میں قوانین مرتب کیے ۔بعد ازاں جب دین محمدیﷺ کی واحدانیت کا پرچار اس خطہ میں ہوا تو یہ راجپوت بھی مشرف بہ اسلام ہوئے اور ایک ہی بنیادی نسل میں متحد ہو گئے۔ مسلمانوں کی آمد کے وقت اجمیر شریف میں چوہان، قنوج میں راٹھور، دہلی میں تنور، بنگالہ میں سین، گجرات میں مرلھی، جوڑا، چالوکیہ، بگھیلا، لاہور میں بندیلے جبکہ دکن میں امرائوئی پراندھیرا، میسور پر ہوئے سالہ، کا نجی ورم پرچلوکیہ اوردیوگری خاندان برسرِ اقتدار تھے اور یہ سب کے سب راجپوت کہلواتے تھے۔اس ضمن میں یہ اقتباس ملاحظہ ہو:۔

’’راجپوتوں کی تشکیل چھٹی اور دسویں صدی عیسوی کے درمیان ہوئی۔ پانچویں صدی کے وسط میں سفید ’’ہونوں ‘‘ نے گپتا سلطنت کو تہ و بالا کردیا۔آٹھویں صدی تک اُن کی آمد جاری رہی۔ شمالی ہند کا سیاسی نظام تتر بتر ہوکر رہ گیا۔ ان لوگوں کے جتھے ملک کے دور افتادہ حصوں مثلاً آسام اور اُڑیسہ تک جا کر آباد ہوگئے، جگہ جگہ ان کی چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم ہوگئیں اور کھشتریوں کے ساتھ ان کے ازدواجی تعلقات قائم ہوگئے۔ یہ سب ریاستیں ایک دوسری پر برتری حاصل کرنے کی خواہاں تھیں چنانچہ باہمی حدو عداوت کے باعث کوئی متحدہ مرکزی حکومت قائم نہ ہوسکی۔‘‘(۱۰)

     بھارت کا پورا صوبہ ہریانہ جس کو Bettle Field of India کے نام سے یاد کیا جاتا ہے یہاں زبانوں کی اختلاط کا ہونا لازمی امر ہے اور اس کثیر اللسانی خطہ میں موجودہ زمانہ میں بھی راجستھان کی خودمختار ریاستوں امور جوت پور، ضلع کانگڑہ سمیت دہلی کے چاروں طرف ۱۵۰ میل تک تقریباً ۵۰ راجواڑوں کی آج بھی مادری زبان ہریانی یا ہریانوی ہے۔ تقسیم پنجاب سے قبل مشرقی پنجاب کی کمشنری انبالہ کی مادری زبان بھی ہریانوی ہی تھی اور چولیستان جنوبی پنجاب میں روہیلے قوم پوری کی پوری ہریانوی زبان بولنے والی تھی۔ کنور نثار احمد اس ضمن میں لکھتے ہیں کہ:۔

’’ہریانی پنجاب کی سب سے بڑی علاقائی زبان ہے۔ پاکستان میں ہریانوی زبان بولنے والے چار پانچ کروڑ افراد ہیں جو پورے پاکستان کے طول و عرض میں منتشر آباد ہیں ۔۔۔۔ پنجاب کی تین علاقائی زبانیں ہریانی،پنجابی اور سرائیکی ہیں ۔ اردو اور ہریانوی زبان لازم و ملزوم ہے۔ ہریانوی زبان کو اردو کی ماں کہیں تو بے جانہ ہوگا۔‘‘(۱۱)

     ہریانوی ادبی سرمایہ زمانہ کی شکست و ریخت کی نذر ہوگیا ہے مگر اس کے باوجود اس زبان کے لکھنے والے چونکہ زیادہ تر راجپوت قوم سے تعلق رکھتے ہیں لہٰذا جہاں جہاں ہمیں راجپوت تاریخ ملتی ہے وہیں ہریانوی اور راجپوتی زبانسے تعلق رکھتے ہیں لہٰذا جہاں جہاں ہمیں راجپوت تاریخ ملتی ہے وہیں ہریانوی اور راجپوتی زبان کے ادبی قدیم متون بھی سامنے آتے ہیں ۔ اس زبان میں نہ صرف علمی و ادبی سرمایہ بلکہ نقاشی، مصوری اور ہریانوی فنونِ لطیفہ کی بھی ایک کثیر تعداد ہمارے سامنے آتی ہے مثلاً:۔

’’راجپوتوں کی نقاشی اور مصوری (امبر، جے پور، بندیلہ، میواڑ، ماحوہ بشمول کانگڑہ اور گڈھوال کے دبستان) اپنے رومانی ماحول اور دلفریب خطوط کی وجہ سے مشہور ہیں ۔ راجپوت ادب جو ہندی، راجستھانی، پہاڑی اور پنجابی میں موجود ہے مختلف انواع کی رزمیہ نظموں ، صوفیانہ غزلوں اور عاشقانہ گیتوں پر مشتمل ہے۔ جن کا ممتاز ترین موضوع رادھا اور کرشن کی اساطیری کہانی ہے۔‘‘(۱۲)

     زبان، تحتی بولی یا ذیلی بولیوں کی مسلمہ جغرافیائی حدود و قیود اور لسانی ہمواری و یکسانیت کسی طور ممکن نہیں ہے کیونکہ زبان ایک خود رو پودے کی مانند مناسب لسانی آب و ہوا کے باعث اپنا لہجہ تبدیل کرسکتی ہے۔ کسی بھی لسانی گروہ میں مناہج فکر، نفسی کیفیات اور طبعیت و مزاج میں یکسانیت تو شاید ممکن ہو مگر اس گروہ کی صوتی کیفیات یکساں ہونا محال ہے۔ جس طرح مرد اور عورت کے و ترانِ صوت ایک دوسرے سے طبعی طور جد اور الگ ہوتے ہیں بالکل اسی طرح ان کی تکلمی آوازوں ، حدود و ارتفاع اور معیاری انحرافات میں خاصا فرق ہوتا ہے۔ ان کے لب و لہجہ اور کیفیت آواز میں اختلاف کے باعث تمیز کرنا بالکل آسان ہوجاتا ہے ۔تاہم علاقائی اثر، نفسی کیفیت اور خاندانی و لسانی مناہج کا اثر لہجہ پر ضرور پڑتا ہے۔ اپنے مخصوص لب و لہجہ میں بات کرتے ہوئے کوئی بھی شخص غیر شعوری طور پر قواعد کی پابندی اور صوتی و لسانی انداز میں یکسانیت کا خیال رکھتا ہے۔ تاہم کسی علاقے میں تھوڑے سے لسانی انحراف، فقروں کی در و بست اور محلِ استعمال کو دیکھ کر یہ قطعاً نہیں کہا جاسکتا کہ یہ مختلف لہجے ہیں یا یہاں کے لوگ کس قسم کی تحتی یا ذیلی بولیاں بول رہے ہیں ۔ انحرافات کو نظر انداز کرکے صوتی عادات اور لسانی تجرید کو دیکھنے کے بعد ہی کسی زبان یا اس کے لہجے میں تبدیلی کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس ضمن میں لسانی محقق خلیل صدیقی لکھتے ہیں کہ:۔

’’ہر زبان کے مسلمہ علاقے میں تلفظ گرامر اور کلموں کے انحرافات کی دو سطحیں ہوتی ہیں ۔ ایک علاقائی اور دوسری سماجی یا طبقاتی۔ جن کی شناخت کے لیے بولی Dialect کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک لسانی جغرافیہ ناقابلِ تقسیم لسانی اکائی نہیں بلکہ بہت سی بولیوں کی آماجگاہ ہوتا ہے اور یہ بولیاں اپنی اپنی شناخت کے باوجود اس مجموعی لسانی شناخت کا حصہ ہوتی ہیں جسے ایک مخصوص زبان سے موسوم کیا جاتا ہے۔‘‘(۱۳)

 اس لیے ان زبانوں کے نام علاقے کی نسبت سے ہی مروج ہوجاتے ہیں مثلاً ہریانہ کی نسبت سے ہریانوی، ملتان سے ملتانی، سندھ سے سندھی، بلوچستان سے بلوچی، ہندوستان سے ہندی، پنجاب سے پنجابی، گجرات سے گجراتی، میوات سے میواتی، ریواڑ سے ریواڑی، روہتک سے روہتکی وغیرہ۔ چند تحتی بولیاں ایسی بھی ہیں جن کے نام قبائل کی نسبت سے مشہور و مروج ہو جاتے ہیں جیسے مرہٹوں سے مرہٹی، دراوڑ سے دراوڑی، راجپوت سے راجپوتی، آریا سے آریائی وغیرہ۔ اس کی بنیادی وجہ خطہ کی برتری اور قبائل کا ذاتی اثر و رسوخ بتایا جاتا ہے تاہم اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ علاقے کی نسبت زبان یا بولی کا جو نام مروج ہے وہ کوئی نئی زبان یا ذیلی تحتی بولی ہی ہو۔تاہم اس کی لسانی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ ڈاکٹر مسعود حسین خان کی رائے میں :۔

’’اردو اپنی ابتداء اور ارتقاء کے دوران دہلی اور نواح دہلی کی تین بولیوں سے خاص طور پر متاثر ہوئی ہے جن کے نام ہیں ۔ ہریانی، کھڑی بولی اور برج بھاشا ان کے علاوہ راجستھانی کی ایک بولی سرائیکی نے بھی ابتدائی عہد میں اردو کو متاثر کیاہے لسانی اعتبار سے دہلی کا محل وقوع کچھ اس طور پر ہے کہ چاروں بولیاں یہاں آ کر مل جاتی ہیں ۔ گویا دہلی ان بولیوں کا سنگھم ہے۔‘‘(۱۴)

ذیل میں ہم جن علاقائی لہجوں روہتکی، رانگڑی، میواتی، ریواڑی کے مابین اشتراک و انجذاب کا جائزہ لے رہے ہیں ان سب کا مآخذ ہریانوی زبان ہی قرار پاتی ہے۔ لسانی انحرافات اور علاقائی نسبت کے باعث مذکورہ لہجوں میں معمولی فرق دیکھنے میں آتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہریانہ میں بسنے والے افراد جب ہجرت یا ترک سکونت کے باعث ہندوستان کے دیگر خطوں یا علاقوں میں جاکر آباد ہوئے تو اپنی جنم بھومی پر تفاخر یا علاقے کی نسبت سے ہریانوی کہلائے جبکہ ہریانوی کے لیے ہریانہ میں بھی ہریانی لفظ ہی مروج ہے۔ ہریانوی زبان بولنے والے یہ قبائل جب میوات گئے تو میواتی کہلائے اور رہتک گئے تو روہتکی۔ الغرض زبان کا سفر مسلسل ارتقاء پذیر ہے۔ ان مقامی بولیوں میں فرق و امتیاز کو تو باآسانی محسوس کیا جاسکتا ہے مگر زبان یا بولی میں ہونے والے لسانی تغیرات کا پتہ لگانا اتنا آسان نہیں ہے۔ ہر شخص یہ خیال کرتا ہے کہ وہ اپنی آباء کی زبان بول رہا ہے جبکہ زمانی و مکانی انحرافات سمیت معانی و مفاہیم کا ادراک اس کے ذہن میں نہیں ہوتا۔ زبان یا بولی میں ذخیرہ الفاظ وقت کی ضرورت کی سبب سے مستقل بڑھتا رہتا ہے۔ زبان چونکہ اکتسابی روایت کی امین ہے لہٰذا اس میں تبدیلی کے امکان اور غرض و غایت کا ہونا بھی لازمی امر ہے۔ زبان یا بولی کے وہ اجزا جو سماج یا ثقافتی اظہار کے قابل نہیں ہوتے بہت جلد ان کی موت واقع ہوجاتی ہے ۔تاہم علمی، ادبی شعوری اور ارادی تشکیل لسانی سرمائے سمیت ذخیرہ الفاظ کے بڑھنے میں بھی ممدو معاون ثابت ہوتی ہے۔ زبان یا بولی مسلسل بالیدگی، ارتقاء اور تغیر پذیری کا شکار ہے ۔ان تغیرات کی بے شمار نوعتیں ہوسکتی ہیں جو صوتی، صرفی، معنوی سمیت ثقافتی بھی ہوسکتی ہیں اور تکلمی بھی۔ حرفی، نحوی اور معنویاتی تغیرات کی نسبت صوتی انحرافات زیادہ آسانی سے سامنے آجاتے ہیں ۔اسی سبب سے ہم بولی میں علاقائی نسبت کے ادغام کے باعث اسے ایک نیا لہجہ یا بولی قرار دے دیتے ہیں حالانکہ زبان کے بارے میں ایسا ہر گز نہیں ہے۔اس ضمن میں ڈاکٹر مرزا خلیل بیگ رقمطراز ہیں کہ:۔

’’اردو کی جائے پیدائش دہلی اور نواح دہلی تسلیم کر لینے کے بعد کوئی وجہ نہیں کہ ہم قدیم اردو کا رشتہ پنجابی سے استوار کریں ۔ زبانیں اور بولیاں ہمیشہ اپنے قرب و جوارکی زبانوں اور بولیوں ہی سے متاثر ہوتی ہیں ۔ ایسی صورتحال میں اردو کا ہریانی (جو دہلی اور دہلی کے شمال مغربی علاقے کی بولی تھی) سے متاثر ہونا ایک لازمی امر تھا۔‘‘ (۱۵)

ہریانوی باقاعدہ ایک زبان ہے جو فرہنگ، ضرب المثل، محاورات، ذخیرہ الفاظ، ادب، صرفی و نحوی قواعد، صوتی علامات و نظام اور معنوی قوانین رکھتی ہے جبکہ اس کے دیگر علاقائی لہجے روہتکی، رانگڑی، میواتی، راجپوتی اور ریواڑی سمیت دیگر لہجوں کا نہ تو صوتی و صرفی نظام ہے اور نہ ہی کوئی باقاعدہ رسم الخط یا حروفِ تہجی۔

’’رہتک‘‘ صوبہ ہریانہ کی چار ڈویژن میں سے ایک ہے جس میں ۵ اضلاع روہتک پانی پت، سونی پت، جھگار اور کرنال آتے ہیں ۔ ہریانہ صوبائی دارلحکومت ہے لہٰذا صوبے کی مرکزی زبان ہریانوی ہی قرار پاتی ہے حالانکہ عہد بہ عہدبولی جانیوالی زبان کا اثر و رسوخ اس پورے خطے میں بہت زیادہ ہے لہٰذا یہاں کو ہریانوی بولنے والے افراد جب رہتک جاکر آباد ہوئے تو ہریانوی زبان میں روہتک کا مقامی رنگ بھی شامل ہوگیا اس لیے یہ لہجہ علاقائی نسبت سے ’’روہتکی‘‘ کہلاتا ہے جبکہ اس لہجے میں لسانی اختلاف نہ ہونے کے برابر ہے اور روہتکی لہجہ سارا کا سارا ہریانی لب و لہجہ اور صوتی و صرفی قواعد پر مشتمل ہے۔

اسی طرح کا معاملہ ریواڑی لہجے کے بارے میں بھی ہے۔ ریواڑی صوبہ ہریانہ کے ۲۱ اضلاع میں سے ایک ہے جو گوڑگائوں ڈویژن کے ۵ اضلاع میں سے ایک ہے۔ یہاں کی اکثریت راجپوت جاٹوں پر مشتمل ہے اور صوبائی دارلحکومت کا ہریانوی رنگ یہاں کی تہذیب و ثقافت سمیت یہاں کہ ریواڑی لہجہ میں با آسانی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ہریانوی زبان بولنے والے جب ہریانہ سے ہجرت یا ترکِ سکونت کے باعث ’ریواڑی ‘میں آکر آباد ہوئے تو یہاں کے مقامی علاقے کی نسبت سے ان کی زبان بھی ریواڑی کہلائی جبکہ اس لہجے کا بھی صرفی، نحوی اور معنوی سرمایہ ہریانوی زبان سے ماخوذ ہے۔

     جہاں تک سوال ’’میواتی‘‘ لہجے کا ہے تو اس کا معاملہ بھی روہتکی یا ریواڑی سے جدا نہیں ہے۔ میوات مسلم اکثریتی ضلع ہے جس میں ۸۷%مسلمان آباد ہیں ۔ یہ ضلع بھی صوبہ ہریانہ کی ڈویژن گوڑگائوں میں آتا ہے۔ صوبائی دارلحکومت کے ہریانوی زبان بولنے والے افراد جب ہجرت کرکے میوات آئے تو یہاں کے مقامی رنگ کی وجہ سے یہاں کی ہریانوی زبان میواتی لہجے میں بولی جانے لگی لہٰذا میواتی کہلائی۔

     اب رہ گیا سوال رانگڑی اور راجپوتی لہجوں کاتو اس باب میں نہ تو لسانی محققین کے ہاں اور نہ کسی اور ذریعے سے ان لہجوں کی علیحدہ اور جداگانہ اہمیت واضح ہوسکی ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ رانگڑی اور راجپوتی الگ سیکوئی لہجے یا بولیاں ہیں ہی نہیں ۔ رانگھڑ اور راجپوت متحدہ ہندوستان کی ۲ بڑی قومیں ہیں اور ان کے ذاتی اثر و رسوخ، دبدبہ، قومی تشخص اور قومی جاہ و جلال کے باعث یہ لہجے عرف عام میں مشہور ہوگئے جبکہ یہ دونوں قومیں دراصل ہریانوی اور بانگڑو زبان بولتی تھیں اور آج کے دور میں بھی ان کی زبان ہریانہ کے انہی دو لہجوں کو اپنی روزمرہ بول چال اور مجلسی زندگی میں استعمال میں لاتی ہے۔

     جہاں تک سوال ان لہجوں کے مابین اشتراک و انجذاب کا ہے تو چونکہ ہریانوی زبان بولنے والے قبائل اور ہریانہ میں سکونت پذیر کئی نسلیں صدیوں سے ترک سکونت اور ہجرت کے عمل سے مسلسل گذر رہی ہیں لہٰذا جہاں جہاں یہ قبائل جاتے ہیں وہاں وہاں یہ اپنی ثقافتی و تہذیبی اقدار اور زبان بھی ساتھ لے جاتے ہیں ۔ یہ افراد خود کو وہاں کے مقامی لوگوں سے منفرد اور جدا کرنے کے لیے اپنی زبان انہی کے مقامی یا علاقائی حیثیت میں بولنا شروع کردیتے ہیں اور یوں انجذاب کی ایسی صورتحال سامنے آتی ہے کہ معمولی معمولی سے فرق و امتیاز کے ساتھ آج کے دور تک آتے آتے یہ تمام لہجے اس حد تک آپس میں مدغم ہوگئے ہیں کہ کسی بھی لہجے کی الگ سے شناخت نہیں کی جاسکتی ۔تاہم ہریانوی زبان کی واضح چھاپ اِن لہجوں میں آسانی سے معلوم کی جاسکتی ہے۔ ان لہجوں کے مابین اشتراک و انجذاب کی یہ ساری صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ ان لہجوں کو بولی اور زبان کے فرق و امتیازات کو سامنے رکھتے ہوئے پرکھا جائے تاکہ لسانی اور لسانیاتی پہلوئوں سمیت ان لہجوں کی از سرِ نو بازیافت کے عمل سے واقفیت حاصل ہوسکے۔

     اب رہا سوال ہریانوی کے موجودہ رسم الخط کے مابین اشتراک و امتیاز کا تو اس ضمن میں یہ بات انتہائی اہمیت رکھتی ہے کہ اس زبان کی جائے پیدائش چونکہ ہریانہ ہے اس لیے پورے بھارت میں ہریانوی زبان دیوناگری رسم الخط میں لکھی جاتی ہے جبکہ اس کا تعلق انڈو آرین زبانوں کے گروہ سے بھی ہے۔ پاکستان بھر میں خطہ ملتان سمیت یہ زبان عربی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے جبکہ اس کے حروفِ تہجی اردو سے زیادہ ہونے کی وجہ سے ہریانوی زبان کا ادبی سرمایہ عربی یا فارسی رسم الخط میں ہی موجود ہے۔۔ رسم الخط سے کسی بھی زبان کی لسانی ہیئت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس ضمن میں عامر سہیل لکھتے ہیں کہ:ْ

’’اردو عالمی زبانوں کی فہرست میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہے اور عالمی سطح پر اس کے دو رسم الخط رائج ہیں ۔ ۱۔عربی و فارسی رسم الخط ۲۔دیوناگری رسم الخط۔ پنجابی زبان کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے کہ پاکستان میں اس کے لیے وہی رسم الخط مستعمل ہے جس میں اردو لکھی جارہیہے (یعنی نستعلیق میں ) جبکہ بھارت میں یہی پنجابی گورمکھی رسم الخط میں لکھی جارہی ہے۔ یعنی ایک زبان ایک ہی عہد میں دو بالکل مختلف رسم الخطوں میں لکھی، پڑھی اور سمجھی جارہی ہے اور اس ضمن میں نہ تو کوئی الجھن پیدا ہو رہی ہے اور نہ پریشانی۔‘‘(۱۶)

     الغرض ایک ہی عہد میں ایک زبان کے دو بالکل منفرد اور جدا رسم الخط میں لکھے جانے سے کسی قسم کا لسانی الخطاط وقوع پذیر نہیں ہوتا اور اپنی اپنی سرزمین پر یہ زبان بغیر کسی لسانی کمزوری کے لکھی، پڑھی اور سمجھی جارہی ہے نیز ہریانوی زبان کے لسانی سرمایہ، ذخیرہ الفاظ، ضرب المثل و محاورات، صوری، صرفی و نحوی قاعدے اور معنوی قدر و منزلت پر بھی رسم الخط کی تفریق سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔سندھی، سرائیکی، ہریانوی، پوٹھوہاری اور راجستھانی کے مصادر کا مطالعہ کرنے سے ایسا لگتا ہے کہ یہ زبانیں کسی ایک ہی زبان کے مختلف رنگ ہوں کیوں کہ ان کے مصادر تقریباً یکساں ہیں :۔

اردو، ہریانوی، ملتانی، پنجابی اور میواتی زبان کے فقرات کا لسانی جائزہ

نمبر شمار اردو ہریانوی ملتانی پنجابی
۱ یہ بوڑھا نہیں ہے یوہ بڈھا کونیاں اے بڈھا کینی اے بڈھا نئیں
۲ اکرم اسلم کے ساتھ گیا ہے اکرم اسلم گیلاں گیا سَے اکرم اسلم نال گئے اکرم اسلم دے نال گیا اے
۳ اکبر کو کسی نے مارا اکبر نے کسی نے ماریا اکبر کوں کہیں مارے اکبر نوں کنے ماریا
۴ ہم وہاں گئے تھے ہم اُت گئے تھے اساں اُتھاں گئے ہاسے اسی اوتھے گئے سی
۵ یہ کس کا دروازہ ہے یوہ کس کا بارنا سَے اے کیں دا بُوہا ہے اے کِدا بوہاوَا
۶ آپ کو کس نے پڑھایا؟ تھم کس نَے پڈھائے تہاکوں کیں پڑھائے تہانوں کنے پڈھایا
۷ یہ بوڑھا وہاں سے یہاں آیا ہے یوہ بُوڈّھا اُت سَے اُرے آیا سے اے بُڈھا اُتھوں اِتھاں آئے اے بڈھا اوتھوں ایتھے اے
۸ پانی کون پلائے گا پانی کون پیاوَے گا؟ پانی کون پلیسی؟ پانی کنے پیاوناں ؟
۹ آہستہ آہستہ چل اَلگے اَلگے چال ہولے ہولے ٹُر ہولی ہولی ٹُر
۱۰ وہ کس کا انتظار کررہا ہے واہ کس کی باٹ میں سَے او کیندی تانگھ اِچ ہے او کِدی راہ ویکھدا اے

سرائیکی اور ہریانوی کے مصادر بھی بہت حد تک آپس میں مماثلت رکھتے ہیں ۔اس باب میں مندرجہ ذیل مثالوں پر غور کریں :

سرائیکی مصادر ہریانوی مصادر
لکھن لکھن
بولن بولن
ڈیکھن دیکھن
دُکھن دُکھن
بھجن بھاجن

یہ صرف سرائیکی ہریانوی سندھی پنجابی میں یکساں استعمال ہوتے ہیں جیسے سرائیکی میں ’اڈون‘ ہریانی میں ’ نون‘ کہا جاتا ہے جس کو ’ن‘ پر چھوٹی سی ’ط‘واضح کیا جاتا ہے۔مثلاً

     ن         ن

     ہریانوی زبان کا ایک حرف جو صرف پنجابی میں مشترک ہے ’ل‘ کی دوسری شکل ’ل‘ ہے یہ عموماً صرف الفاظ کے آخر میں استعمال ہوتا ہے۔ کہیں کہیں ہریانوی الفاظ کے درمیان میں بھی آتا ہے۔ مثلاً

ہریانوی اُردو
بالک بچے
بال بال
ہل ہل

     اُردو اور ہریانوی میں واحد سے جمع بنانے کا قاعدہ بھی تقریباً یکساں ہے۔ الف کو الف غنہ کے اضافے کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔مثلاً:۔

اُردو واحد ہریانوی جمع
لوگ لوگاں
دیگ دیگاں
یار یاراں
دھوپ دھوپاں
بادل بادِلاں

ہریانوی زبان بولنے والے افراد اپنی روزمرہ زندگی اور گھریلو بول چال میں اردو زبان کی آمیزش کرتے ہیں ۔ خالص ہریانوی زبان یا لہجہ اب محض اندرونِ خانہ تک ہی محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ خواتین کے ہاں خصوصاً خالص ہریانوی زبان ابھی تک موجود ہے جبکہ مرد حضرات اپنی مجلسی زندگی میں اس زبان کو بولتے ہوئے ہچکچاہٹ کا شکار ہیں ۔خصوصاً پڑھے لکھے افراد کے ہاں یہ رویہ زیادہ عام ہے جبکہ اَن پڑھ اور عمر رسیدہ افراد آج بھی آپس میل جول کے لیے خالص اور ٹھیٹھ ہریانوی زبان بولتے ہیں ۔ خالص ہریانوی لہجے کی بازیافت کے لیے ہریانوی زبان بولنے والے خاندانوں کے لیے ایک سروے مرتب کیا گیا جس میں طریقہ کار کے مطابق اندرونِ خانہ افراد کو یہ بتائے بغیر کے اُن کی آپسی بات چیت کو ریکارڈ کیا جارہا ہے ان کے درمیان ہونے والی گفتگو کو ریکارڈ کیا گیا۔ اس مقصد کے لیے شہر، مضافات، قصبوں اور دیہاتوں میں ۳۰ خاندانوں کی آپس کی گفتگو کو محفوظ کیا گیا ۔بعد ازاں سروے کے مکمل ہونے کے بعد تمام تر ریکارڈ نگزکا لسانی اور لسانیاتی پہلوئوں کو سامنے رکھتے ہوئے جائزہ لیا گیا۔ اس جائزے کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ وہ گھرانے جن میں ذرائع ابلاغ کے لیے ریڈیو، ٹی وی وغیرہ یا کوئی اور ذریعہ موجود تھا اُن کی زبان میں ہندی اور اردو کے علاوہ سرائیکی زبان کی بھی آمیزش دیکھنے میں آئی جبکہ وہ گھرانے جن میں یہ سہولیات میسر نہیں تھیں یا وہ شہر سے خاصے دور یا مضافاتی علاقوں میں آباد ہیں اُن کی زبان اور لہجہ خالص ہریانوی ہے ۔ چند ایک گھرانوں میں اردو زبان کی کہیں کہیں آمیزش کے اثرات دیکھائی دے جبکہ ۳۰ میں ۶ گھرانوں میں ہریانوی زبان کا خالص لہجہ اور صوتی آہنگ دیکھنے میں آیا۔

روزمرہ بول چال کے اطوار اور صوتی پہلوئوں کا جائزہ لینے کے لیے ایک سروے کیا گیا جس میں ۵۰ افراد کو شامل کیا گیا۔ ان افراد کو مختلف علاقائی زبانیں بولنے کی بنا پر منتخب کیا گیا۔ ان علاقائی بولیوں میں ہریانوی، سرائیکی، پنجابی اور پشتو بولنے والوں کی تھی۔ اردو زبان میں چند جملے اور لفظ لکھ کر ان سے اُن کو دہرانے کے عمل سے گزارا گیا تاکہ مختلف زبانیں اور تحتی بولیاں بولنے افراد کے سلسلہ صدا کے درمیان تقسیم و تفریق، قوت سامعہ میں یکسانیت کی کیفیات کے ساتھ ساتھ اختلافات کو بھی مدِنظر رکھا جائے۔ اس سروے میں اس بات کا جائزہ بھی لیا گیا کہ یہ افراد اپنے مخصوص لہجے کے باوجود ادائیگی الفاظ میں کس قسم کی مشکل کا سامنا کرتے ہیں ۔ ذہن کی ارتقائی قوت نہایت نرم اور نازک ہوتی ہے جس پر ہر صوت اپنا ایک مبہم یا عشیہ مفہم یا واضح تاثر چھوڑتی ہے اور یوں نقاط کی صورت میں مواد اس پلیٹ پر نقش ہوتا چلا جاتا ہے۔قبل اس کے کہ اُردو ہریانوی کے لسانی خط و خال پر بات کی جائے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اُن تاریخی و لسانی حقائق کی جانب توجہ مبذول کی جائے جوکہ ہریانوی کے پنپنے کی بنیاد ٹہرے۔ہریانوی اور اُردو زبان کی آپسی جڑت ،اشتراکات ،روابط اور لسانی خصوصیت کو پرکھنے کے لیے ان دونوں زبانوں کے بولنے والے افراد سے ایک مساحتی مباحثے کا اہتمام کیا گیا بعد ازاں ا س سروے کے دوران درج ذیل نتائج ہمارے سامنے آئے:۔

۱۔۵۰ میں سے ۱۳ افراد نے وہ فقرات جن کی مشق اُن سے دہروائی گئی انہوں نے معمولی سے صوتی اختلاف کے ساتھ اردو کے مذکورہ فقرات کو آسانی سے بول لیا۔

۲۔ان ۱۳ افراد میں سے ہریانوی زبان بولنے والے افراد کی تعداد ۶ تھی جنہوں نے آسانی کے ساتھ اردو کے ان فقرات کو اپنے vocal cards میں کسی بھی تبدیلی کے بغیر ان فقرات کی ادائیگی کی۔

۳۔۵۰ میں سے ۹ افراد نے اپنے مخصوص لہجے میں ان فقرات کی ادائیگی کی مگر صوتی آہنگ بہر حال کچھ منفرد صورت میں نظر آیا۔

۴۔۵۰ میں ۷ افراد جن کی مادری زبان سرائیکی تھی ان اردو فقرات کی ادائیگی میں اپنے و تران صوت vocal cards میں کسی قسم کی جنبش یا تبدیلی کے بغیر ان الفاظ و فقرات کی ادائیگی کی۔ تاہم ان کے لہجے سے سرائیکی کی بو آرہی تھی۔

۵۔۵۰ میں سے ۹ افراد جن کا تعلق بلوچی زبان بولنے والوں میں سے تھا اردو کے ان فقرات کی ادائیگی مکمل طور پر نہ کرسکے اور ان کے vocal cardsنے نئے صوتی آہنگ کو قبول ہی نہ کیا۔

۶۔۵۰ میں سے ۱۲ افراد ایسے تھے جو زیادہ پڑھے لکھے تھے اور یہ ہریانوی ، سرائیکی، پنجابی اور بلوچی بولتے تھے انہوں نے مکمل صحت کے ساتھ اور صوتی آہنگ کا خیال رکھتے ہوئے vocal cardsمیں کسی تبدیلی کے بغیر ان اردو فقرات کی مکمل ادائیگی کی۔ ان ۱۳ افراد میں ۵ کا تعلق پنجابی، ۴ کا سرائیکی، ۳ کا ہریانوی جبکہ ایک کا تعلق بلوچی زبان بولنے والے سے تھا ۔تاہم سروے کے دوران یہ حیران کن بات بھی سامنے آئی کہ یہ ۱۲ کی ۱۲ خواتین تھیں ۔

اس سروے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ روزمرہ بول چال سے خالص زبان اور لہجے کی بازیافت میں صوتی ڈھانچہ اور وترانِ صوت کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ عورتوں کی زبان پر چونکہ مجلسی زندگی محدود ہونے کی بنا پر کسی بھی دوسری زبان کے اثرات بہت کم پڑتے ہیں لہٰذا ان کے ہاں زبان خالص حالت میں اور لہجہ اپنی مخصوص ہیت میں برقرار رہتا ہے۔وترانِ صوت کے استعمال، روزمرہ زندگی اور گھریلو بول چال، خالص زبان اور لہجہ کی بازیافت کے لیے ایک ہی سروے کیا گیا تاکہ زبان پر اثر پذیری کے اثرات کا جائزہ لیا جاسکے۔

(۱)            لسانی سروے کے دوران اس بات کا بھی اداراک ہوا کہ نمایاں زبانوں میں سے وہ افراد جن کی مادری زبان پنجابی، سرائیکی ؍ ملتانی یا ہر یانوی ہے وہ اپنی آنے والی نسل میں اپنی مادری زبان کی بجائے اردو کے فروغ اور اس کو بطور پہلی زبان کے سیکھنے پر اصرار کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ شاید اس کی وجہ اُردوکا ہماری قومی زبان ہونا ہے۔مذکورہ لسانی سروے کے دوران چند ایک تحقیقی نوعیت کے سوالات بھی اٹھائے گئے تھے جن کے جوابات کچھ اس صورت کی میں سامنے آئے۔

۲۔ نمایاں زبانوں پنجابی، ملتانی ؍سرائیکی یاہریانوی پر سب سے زیادہ اثرات سندھی اور فارسی زبان کے دیکھنے میں آئے۔

۳۔ مذکورہ نمایاں زبانوں کے لسانی سرمایہ میں شامل الفاظ کی کثیر تعداد مشترک الفاظ و محاورات پر مشتمل ہے۔

۴۔ مذکورہ نمایاں زبان بولنے والے افراد میں وہ طبقہ جو کم پڑھا لکھا ہے یا اَن پڑھ ہے اس نے کسی بھی قریبی یا ہمسایہ زبان کا بہت کم اثر قبول کیا ہے جبکہ پڑھے لکھے افراد میں اس کی شرح زیادہ نظر آتی ہے۔

۵۔ مردوں کے مقابلے میں اندرون خانہ رہنے والی عورتوں کے ہاں اپنی مادری یا پہلی زبان کے صاف جبکہ وہ خواتین جو باہر روز گار یاکسی دوسری وجہ مثلاً ترکِ سکونت کے باعث باہر نکلتی ہیں ان کی زبان میں کسی بھی دوسری زبان کے الفاظ کی آمیز ش کے زیادہ امکانات نظر آئے۔

۶۔ مرد حضرات اپنی مجلسی زندگی میں بول چال کے لیے زیادہ تر اردو کی بجائے ملتانی؍سرائیکی یا پنجابی بولنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔

۷۔            لسانی سروے کے دوران یہ بات بھی دیکھنے میں آئی صحافتی ادارے چونکہ اس خطہ سے صرف اردو زبان میں اپنی اشاعت پر زیادہ توجہ دیتے ہیں لہٰذا اخبارات، رسائل، ٹی، وی اور انٹر نیٹ پر بھی دیگر علاقائی زبانوں کے مقابلے میں اردو زبان کا سرمایہ الفاظ زیادہ نظر آتا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ دیگر نمایاں زبانوں بشمول سرائیکی/ ملتانی، پنجابی اور ہریانوی کے لیے باقاعدہ طور پر ایسا فورم نہیں ہے جس کے باعث ان علاقائی زبانوں کو پھلنے پھولنے کا موقع میسرآسکے۔

۸۔ لسانی سروے کے دوران یہ بات بھی دیکھنے میں آئی کہ نمایاں زبانوں کے بولنے والے افراد کی اکثریت سرکاری زبان کے طور پر ’’اردو ‘‘کے نفاذ کے لیے مطمئن نظر آتے ہیں ۔

۹۔ نمایاں زبانوں پر غالب اثرات اردو کے ہیں جبکہ دیگر چھوٹی چھوٹی علاقائی زبانیں میواتی، رانگڑی، راجپوتی وغیرہ کے بولنے والے افراد اندرون خانہ اپنی ہی مادری زبان کے بولنے پر اصرار کرتے ہیں ۔

۱۰۔            ذریعہ تعلیم انگریزی یااردو ہونے کی بابت سوال کے جواب کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ سروے میں حصہ لینے والے بیشتر افراد کی رائے یہ تھی کہ ذریعہ تعلم قومی زبان اردو کو ہی ہوناچاہیے۔

۱۱۔            سروے کے دوران یہ بات بھی دیکھنے میں آئی کہ نمایاں زبانوں بشمول، پنجابی، ہریانوی، اور سرائیکی ؍ ملتانی بولنے والے افراد اور لسانی اکائیوں کے مظہر خاندانوں کے پاس لسانی حوالے سے کوئی نمایاں دستاویزی ثبوت یا اپنی قدیم بولی کے بارے میں کوئی ادبی سرمایہ محفوظ نہیں ہے۔

۱۲۔            مذکورہ زبانوں کے بولنے والے افراد اورخصوصاً لسانی اکائیوں کے مظہر خاندانوں کے عمر رسیدہ افراد چونکہ غیر تعلیم یافتہ ہیں لہٰذ ا ان کے پاس شعوری طور پر لسانی اہمیت کے باب میں کہنے کے لیے کچھ خاص نہیں ہے۔

۱۳۔           مذکورہ زبانوں کی ادبی قدرو منزلت کے باب میں یہ بات دیکھنے میں آئی کہ ہر زبان بولنے والے افراد اپنی زبان کو احساس تفاخر کے باعث تو اولیت دیتے ہیں ۔مگر ان کے پاس قدیم لہجے کی بازیافت کے حوالے سے کوئی تحقیقی ثبوت یا جواز نہیں ہے۔

۱۴۔           لسانی سروے کے دوران اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد نے اس لسانی سروے پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جبکہ ان میں سے اکثر اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کو خاص کر ہریانوی زبان کے بارے میں کوئی علم ہی نہیں تھا۔

۱۵۔           اس سروے کے دوران یہ بات بھی دیکھنے میں آئی کہ ہماری فوج میں آج کل لشکری زبان یعنی پوٹھوہاری زبان کا رواج ہے جبکہ ہماری پولیس پنجابی زبان کو آپس میں گفت و شنید کے لیے استعمال             کرتے ہے ۔

جہاں تک سوال ہریانوی کے لسانی روابط کے باب میں ہے تو اس سلسلے میں ہر یانوی کی چند صوتی، صرفی ونحوی خصوصیات درج ذیل ہیں ان صوتی، صرفی و نحوی خصوصیات کاجائزہ لینے کے لیے قدیم ہریانوی تصانیف تیرہ ماسہ (اکرم روہتکی )، فقہ ہندی( شیخ عبدل)درد نامہ (شیخ محبوب عالم )کا از سر نوجائزہ لیاگیا جبکہ جدید ہریانوی ادب کے باب میں ہریانوی !ایک توضیحی تعارف مشمولہ جنرل آف ہریانہ اسٹیڈیز جلد ۴۔۱۹۷۳ء سے مدد لی گئی ہے۔

۱۔  ہریانوی میں ’’ڑ‘‘ کی آواز کو اکثر ’’ڈ‘‘ سے بدل دیا جاتا ہے۔جیسے پڑھے۔۔۔۔۔پڈھے، پڑھنا۔۔۔۔۔ پڈھنا، چڑھنا۔۔۔۔۔ چڈھنا۔۔۔۔۔ بڑا۔۔۔۔۔ بڈا، مثلاً ایک کتاب، نام : بڈھے ہوگئے ہون تے پہلے وغیرہ

۲۔ ہریانوی زبان اور خصوصاً قدیم ہریانوی میں مصوتوں کی انفیعت کی بھی کئی مثالیں دیکھنے میں آتی ہیں مثلاً تو۔۔۔۔۔ توں ، ہمارے۔۔۔۔۔ مہارے، پہلے۔۔۔۔۔ پہلے، برسات۔۔۔۔۔ برسات، کوچ۔۔۔۔۔ کوچ، سے۔۔۔۔۔ سَے، ستانا۔۔۔۔۔ ستاناوغیرہ۔

۳۔ ہریانوی زبان میں بھی اردو کیطرح مضمون میں غیر ہکاریت کے عناصر بخوبی دیکھے جاسکتے ہیں مثلاًبھی۔۔۔بی، ابھی۔۔۔۔۔ابی،کب۔۔۔۔۔ کدا، کدھر۔۔۔۔۔ کہاں ، کٹر ے، کھٹے، کنگے اور کنیہن وغیرہ غیرہلکار یت کی مثالیں ہیں ۔جبکہ ساتھ ہی ساتھ قدیم ہریانوی میں ہلکاریت والے الفاظ بھی بخوبی دیکھے جاسکتے ہیں مثلاً اردو کے قدیم نمونوں میں ہاتھ۔۔۔۔۔ ہات، لکھنا۔۔۔۔۔ لکنا، وغیرہ۔

۴۔ قدیم ہریانوی میں بھی اردو کی طرح ’’نے ‘‘بطور فاعل اور علامت مفعول دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے مثلاًہریانوی میں ’’نے ‘‘ علامت فاعل کے طور پر بھی بے شمار الفاظ و محاورت میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ مثلاً اس نے بھینس کوڈنڈا مارا۔۔۔۔۔ اس نے مھینس کَے لٹھ          ماریا’’نے ‘‘ علامت مفعول کے طور پربھی قدیم ہریانوی میں دیکھنے کو ملتا ہے مثلاً بچہ کتے کو مارتا ہے۔۔۔۔۔ بالک کتے نے پیٹے سَے۔           اسلم کوا یک بچہ چاہیے۔۔۔۔۔ اسلم نے ایک بالک چہئیے وغیرہ۔

۶۔ قدیم ہریانوی اور اردو دونوں میں ماضی مطلق بنانے کے لیے قاعدہ یکساں ہے مثلاًمصوتوں پر ختم ہونے والے فعلی جملوں کے بعد ’’یا‘‘بطور اضافی لفظ کے داخل کیا جاتا ہے مثلاً

     بولا۔۔۔۔۔ بولیا، چلا۔۔۔۔۔چالیا، لگا۔۔۔۔۔لاگیّا، کہا۔۔۔۔۔ کہیا، مارا۔۔۔۔۔ ماریا، سونکھا۔۔۔۔۔ سونگھیا، ہنسا۔۔۔۔۔ ہنسیا، وغیرہ

۷۔            ہریانوی میں جمع بنانے کاقاعدہ بھی قدیم اردو کے بالکل شابہ ہے۔ دونوں میں جمع بنانے کے لیے آخر میں ’’ں  ‘‘ لگا دیا جاتا ہے مثلاً

     عاشق۔۔۔۔۔ عاشقاں ، رازق۔۔۔۔۔ رازقاں ، عارف۔۔۔۔۔ عارفاں ، خالق۔۔۔۔۔ خالقاں ، بلبل۔۔۔۔۔ بلبلاں ،وغیرہ

۸۔ قدیم ہریانوی اور قدیم اردو کے ضمائر میں بھی بڑی حد تک مماثلت پائی جاتی ہے مثلاً

     اس، ان، وہ۔۔۔۔۔ واہ، کون۔۔۔۔۔ کون، تم۔۔۔۔۔ تَم، میرا۔۔۔۔۔ منے، کہاں ۔۔۔۔۔ کنگے، کٹھے وغیرہ

اس لسانی اشتراک کے باعث ابتدائی طور پر یہ خیال کیا جاسکتا ہے کہ ہریانوی اور اردو میں صوتی، حرفی اورنحوی قواعد میں بہت زیادہ مماثلت موجود ہے اور دونوں زبانوں میں اشتراک و انجذاب اور اد غام کے واضح امکانات موجود ہیں ۔ہریانہ کے معنی لغت کی کتابوں میں ’’سر سبز ہو جانے والا‘‘ یا ہری آنہ۔ وہ جگہ جہاں بھگوان آیا یا گیتا لکھی گٖئی ‘‘کے معنوں میں آتا ہے۔ ہریانوی زبان کے چار لہجے خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ مثلاً اردو کے لفظ ’’کہاں ‘‘ کو ہی لیجئے۔

۱۔   ہریانی الاصل لفظ ___کِت جو کہ ہانسی، حصار اور روہتک کے علاقوں میں بولا جاتا ہے۔

۲۔ کٹھے ___یہ لہجہ بھی ہانسی، حصار اور روہتک سمیت میوات کے چند علاقوں میں بولا جاتا ہے۔

۳۔ کِنگھے ___یہ لہجہ کرنال اور اس کے اطراف میں کثرت کے ساتھ بولنے اور سننے کو ملتا ہے۔

۴۔ کڑے ___یہ لہجہ حصار، ہانسی اور اس کے قریبی علاقوں میں بولا جاتا ہے۔

اردو زبان پر ہریانوی کا اثر ہو یا نہ ہو مگر یہ بات بہر حال انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ اردو کی تشکیل اور ارتقاء میں دیگر زبانوں کے ساتھ ساتھ ہریانوی نے میں اپنا مخصوص کردار ادا کیا ہے۔ یہاں ایک اور بات بھی لسانی حوالے سے بے حد اہم ہے کہ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ زبانوں میں تغیروتبدل ہونا ایک فطری امر ہے اگرچہ موجودہ عہد میں نہ تو ہمیں کہیں قدیم اردو کے اثرات دیکھنے میں آتے ہیں اور نہ ہی قدیم ہریانوی کے اثرات موجودہ عہد میں زبان کی صورت میں باقاعدہ زندہ ہیں ۔ ارتقائی حالت میں ہونے کی وجہ سے قدیم اور جدید ہریانی کا موازنہ کسی بھی طور لسانی حوالوں سے درست اقدامنہیں ہو سکتا تاہم نواح دہلی کی بولیوں میں بہر حال ہریانوی کی اہمیت مسلمہ ہے اور یہ وہی زبان ہے جس نے اردو زبان کو شسدر بنانے میں اپنا مخصوص کردار ادا کیاہے۔

مذکورہ بالا بحث کے بعد اہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اگرچہ ہریانوی اقلیتی زبان کا درجہ رکھتی ہے اور اس کے بولنے والے افراد بہت کم تعداد میں ہیں لیکن اس کے باوجود اس کی لسانی اہمیت مسلمہ ہے ۔ اردو زبان کو موجودہ عہد تک بطور زبان کے نہ صرف ثقافتی بلکہ لسانی اور ادبی سطح پر بھی پوری دنیا میں متعارف کروانے میں ہر یانوی نے بھی ااہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ زبان بلاشبہ مستقل قریب یا بعید میں ایک باضابطہ زبان کے طور پر اپنا جداگانہ تشخص منوانے کے لئے میدان میں ہو گی۔

حواشی و حوالہ جات

۱۔  خلیل صدیقی’’ زبان کیا ہے‘‘،ایضا، ص ۷۳

۲۔فرمان،فتح پوری،ڈاکٹر،’’اُردو املاء اور رسم الخط‘‘،سنگِ میل پبلی کیشنز،لاہور،۱۹۷۷ء،ص

۳۔ نصراللہ خان، ناصر ، ڈاکٹر، سرائیکی دھرتی اور زبان سے اُردو کے رشتے شمولہ خبار اُردو مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، شحار، فروری ۲۰۱۲، ص

۴۔ کے۔ایس،بیدی، ڈاکٹر ’’ تین ہندوستان زبانیں ‘‘ انجمن ترقی اُردو دھلی ص ۷۱

۵۔ حافظ ،محمود، شیرانی،’’ پنجاب میں اُردو ‘‘،نسیم بُک ڈپو،لکھنو،۱۹۷۰ء،ص۷

۶۔ ایضاً ،ص ۹

۷۔             محی الدین، قاری، زور، سید ’’ہندوستانی لسانیات، نسیم بک ڈپو، لکھنؤ ۱۹۶۰ء، ص ۹۵

۸۔ سبزواری،شوکت،ڈاکٹر،’’اُردو لسانیات‘‘،ایجوکیشنل بُک  ہاؤس،علی گڑھ،۲۰۰۰ء،ص۱۹

۹۔ خان، مسعود حسین، دکنی یا اردوئے قدیم، ایضاً، ص ۲۴۱

۱۰۔            ماہنامہ’پیام‘راجپوت،کراچی،مارچ،اپریل،۲۰۰۰،ص۹

۱۱۔            احمد،نثار،کنور،’’ہریانوی‘‘عوامی زبان،مشمولہ ماہنامہ ’راجپوتاں ، بہاولپور،جنوری،۲۰۰۰،ص۳۰

۱۲۔            ماہنامہ’پیام  راجپوت‘، کراچی، مارچ، اپریل، ۲۰۰۰،ص۱۳

۱۳۔           صدیقی،خلیل،’’زبان کیا ہے؟‘‘،بیکن بُکس، ملتان،بار دوم،۲۰۰۱،ص۴۷

۱۴۔            خان، مسعود حسین، دکنی یا اردوئے قدیم، ایضاََ،حیدر آباد، ۱۹۴۴ء، ص ۱۷۳

۱۵۔            خلیل احمد، بیگ، مرزا، ڈاکٹر،’’اردو کی لسانی تشکیل‘‘  ایجوکیشنل بک ہاوس، ایضاً،علی گڑھ،ص ۱۵۷

۱۶۔            سہیل،عامر،’’رسم الخط کی تاریخ اور ہندکو زبان کا رسم الخط‘‘،مشمولہ’اخبارِ اُردو،اسلام آباد، اگست، ۲۰۱۲ء، ص۳۔۲

 ٭ ۱            ماخوذ از،نوشاد قاصر،’’ہریانوی لغت‘‘ غیر مطبوعہ،ملتان

٭۲           ’’ن ‘‘کے نقطے کے اوپر اور’’ل‘‘ کے نیچے ہریانوی میں ’’ط‘‘ کا حرف لکھا جاتا ہے،لہذا جہاں بھی ہریانوی میں یہ حرف استعمال ہوں انہیں ’’ط‘‘ کے ساتھ ہی پڑھا جائے۔

٭۳۔         لسانیاتی جائزہ ہند از جارج گریرسن، جلد ہفتم میں مغربی ہندی کی بولیوں میں بانگڑو کے علاقائی نام کی نسبت سے ہریانو زبان کو یاد کیا گیا ہے اور مستشرقین بھی ہریانوی کو بانگڑو یا بانگڑی ہی سے پکارتے ہیں ۔

٭۴           مہتمم ہریانہ اردو اکادمی،رائو سجاد بابر، احمد، ڈانوراں ، تحصیل و ضلع لودھراں ، صر ف اول مشمولہ راجپوتی رسم و رواج اگست ۲۰۰۱ء، ص۷

٭٭٭

ڈاکٹر عمران اختر

شعبہ اُردو،گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج خانیوال،پاکستان

Email:imeehasrat@gmail.com

Cell No:923006357936

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.