(اکیسویں صدی میں جموں وکشمیرکے  چند نمائندہ شاعرات (نسائی حسیت کے  تناظر میں

سمیرا بانو

ریسرچ اسکالر مولانا آزاد نیشنل اُردو یونی ورسٹی

 حیدر آباد۔ سیٹالیٹ کیمپس ( سری نگر)

ای۔میل  gulsameera.rs@manuu.edu.in

    ہندوستاں کے  باقی خطوں کے  ساتھ ساتھ ریاست جموں  کشمیر میں بھی خواتین نے  ادب میں مردوں کے  بعد قدم رکھا۔ ہاں البتہ کشمیری زبان میں بہت پہلے  لل دید اور حبہ خاتون نے  اپنے  جذبات واحساسات کا اظہار شاعری کے  ذریعے  کیا  تھا۔ لیکن اُردو ادب میں خواتین بیسویں صدی کے  آخری دہائی میں رونما ہویئں  ، اور شاعری کو اظہار خیال کا وسیلہ بنایا، اور دیکھتے  ہی دیکھتے  ریاست کے  شعری منظر نامے  پر کئی شاعرات کا نام ابھر کر سامنے  آیا۔ جنھوں  نے  نہ صرف صنفِ غزل کو اظہار خیال کا وسیلہ بنایا بلکہ صنفِ نظم میں بھی طبع آزمائی کی۔ ایسی شاعرات میں عائشہ مستور،  رخسانہ جبین،  رخشندہ رشید،  نسرین نقاش،  پروین راجہ،  شبنم عشائی،  صاحبہ شہریار،  نکہت فاروق نظر،  ترنم ریاض،  سلمی فردوس،  روبینہ میروغیرہ کے  نام لیے  جاسکتے  ہیں۔ یہ تمام شاعرات اپنے  تجربات کو سادہ اور سہل انداز میں پیش کرتی ہیں اور عورت کے  نازک احساسات کو پیش کرنے  میں کامیاب نظر آتی ہیں ۔ ان کے  نسائی آواز کی کار فرمائی

بلا کسی رکاوٹ اور بندش کے  دکھائی دیتی ہے  اور اب وہ مردوں کی زبان میں اپنے  احساس وفکر کی ترجمانی

نہیں کرتیں بلکہ خود اپنی آواز کی انھوں نے  اچھی شناخت پیش کی ہے۔

   ریاست کی ان سبھی شاعرات کی شاعری کو نسائی حسیت کے  تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔مرد اساس معاشرے  نے  جو غیر مساوی اور غیر انسانی رویہ عورت کے  لئے  روا رکھا ہے  انھوں نے  اس کے  خلاف احتجاج اور مزاحمت کا انداز اختیار کیا ہے۔ جموں و کشمیر کے  ان سبھی شاعرات پر سیر حاصلِ بحث اس مختصر مضمون میں ممکن نہیں لہذا چند نمائندہ شاعرات اور ان کے  کلام کے  اجمالی تذکرے  پر اکتفا کیا جاتا ہے۔

 ترنم ریاض:ترنم ریاض شاعری کے  ساتھ ساتھ فکشن کا بھی ایک اہم نام ہیں ان کا شاعری میں

’’پرانی کتابوں کی خوشبو‘‘ کے  نام سے  شعری مجموعہ شائع ہو چکا ہے۔ اُن کی شاعری پر اگر نظر ڈالی جائے  تو وہ محبتوں کی شاعرہ ہے  جن کی نگاہ میں رشتوں کی بڑی اہمیت ہے۔انھوں نے  جذباتی رشتوں پر بڑی فنکاری سے  قلم اٹھایا اور ان کے  دکھ درد کو سمیٹنے  کی کوشش کی ہے۔ ان کے  یہاں خود اعتمادی اور خود شناسی پائی جاتی ہے۔ انھوں نے  غزل گوئی کے  ساتھ ساتھ نظم نگاری میں بھی اپنے  جذبات و احساسات اور تجربات کو الفاظ میں ڈھالنے  کی کامیاب کوشش کی ہے۔ عورت شرم وحیا،  تابع داری اور روایتی بندشوں میں بندھی ایک کٹھ پتلی تھی۔ سماجی اور روایتی بندشوں کے  ساتھ اس کی سوچوں پر بھی مہر لگا دی گئی تھی۔ ترنم

ریاض نے  اپنی شاعری میں عورت کو ان روایتی فرسودہ بندشوں سے  آزاد کرنے  کی کوشش کی ہیں۔ اُن کی نظم ’’ خالقِ بحرو بر‘‘ عورت کی بے  بسی کا اظہار ہے  جس میں وہ اللہ تعالیٰ سے  دُعا گو ہیں ۔ نظم ملاحظ ہوں  :

   کِھلے  پھول سا دل بجھا/ذہن آمادہ تھا نظم کہنے  کو  /مفلوج ہو کر  /اسی ایک نقطے  پہ رک سا گیا/  کیوں  ،  نہیں سوچتے  سنگدل  /یوں دلوں کو دُکھانے  سے  پہلے /  اگر جھیلنا ہی ہے  ان کو تو پھر/  اس قدر مجھ کو حساس کیوں ہے  بنایا  /مجھے  بھی دیا ہوتا پتھر جگر !  /خالق بحرو بر۔

  اسی طرح ایک اور نظم میں انھوں نے  عورت جو کہ ایک بیوی بھی ہوتی ہے  اس کے  لاشعور میں چھپے  وہم کو زبان دی ہیں جس کا عنوان ’’ سوچتی ہوں اکثر‘‘ نظم پیش ہے :

   سوچتی ہوں اکثر یہ ہی بات / کیا مری کتب کا ہوگا /مرے  مرجانے  کے  بعد /کون اس گھر کی نگہبانی کرے  گا /پیار بھی دے  گا میری چیزوں کو؟ /میرے  چہلم کے  بعد ہی میری اکلوتی نند/  بھائی سے  کرنے  لگے  گی اصرار/ اور ادھیڑ عمری میں  /  واسط دے  گی جوانی کا اسے  /کہ بسالے  پھر گھر /اور چہرے  پہ کئے  طاری سعادت مندی /سر تسلیم وہ خم کر دے  گا / پھر مگر کیا ہوگا / میرے  بچے  جو ہیں اس وقت دُلارے  سب کے /  ان کے  حصّے  میں بھی آئے  گا دُوبارہ شفقت ؟ / آج کل سوچتی رہتی ہوں یہ باتیں اکثر۔

    ترنم ریاض نے  نظم کے  علاوہ غزل میں بھی اپنے  جذبات کی عکاسی کی ہے۔ غزل میں بھی وہ منفرد لب ولہجہ،  آہنگ کے  لئے  پہچانی جاتی ہے۔ انھوں نے  غزل میں بھی اپنے  معمولی خیالات اور تجربات کو بڑی خوبصورتی سے  بیاں کیا ہے  جس سے  شاعری کا حُسن دوبالا ہو جاتا ہے۔ انھوں نے  گل و بلبل سے  پرے  زندگی کی حقیقتوں کو اپنے  غزلوں میں برتنے  کی کوشش کی ہے۔ چند اشعار ملاحظ ہوں  :

  ؎ مر جاتے  ہیں جذبے  لوگ بدل جاتے  ہیں

  کچھ آدم پتھر کے  بت میں ڈھل جاتے  ہیں

   یہ لمحہ جو مانگے  اِس پل  ہی  دے دینا

   کل پر چھوڑے  کام تو اکثر ٹل جاتے  ہیں

   مظلوموں کو  ملزم  ٹھہرانا ہے  منصف

    سارے  ظالم بچ کر صاف نکل جاتے  ہیں

   شبنم عشائی:ریاست کی شاعرات میں شبنم عشائی کا نام بہت ہی اہمیت کا حامل ہے  وہ کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔ انھوں نے  نظم نگاری کو اپنے  اظہار کا وسیلہ بنایا۔ شاعری میں ان کے  کئی شعری مجموعے  چھپ کر سامنے  آئے  ہیں جن میں  اکیلی،  میں سوچتی ہوں ،  من بانی اور کتھارس شامل ہیں۔  ان کی نظموں میں علامت و استعاروں کے  نادر استعمال سے  ان کی شاعری میں نغمگی اور شیرنیی پائی جاتی ہے۔ بقولِ دیپک بدکی:

   ’’شبنم عشائی دورِ جدید کی پیدوار ہیں اس لئے  ان کی شاعری میں تشبہات اور

    استعاروں کی فراوانی ملتی ہے۔ انھوں نے  روایتی تشبہات کے  علاوہ خودساختہ

     تشبہات کا استعمال بھی ہے  جو نہ صرف برمحل ہیں بلکہ دلکش بھی ہیں  ‘‘۔

                   عصری شعور۔ ص۔ ۴۲

  شبنم عشائی کی شاعری میں مرد اساس معاشرے  کے  خلاف ایک دھیما احتجاج بھی ملتا ہے  عورت کے  ذاتی مسائل اور معاشرے  میں عورت پر مرد کی بلا دستی کو اپنے  نظموں میں پیش کیا ہے۔ اور عورت کو بیدار کرنے  کی بھر پور کوشش کی ہے۔ یہاں ان کی ایک نظم پیش ہے :

  میں جسم پر ٹیلکم(TALCUM)نہیں  / اپنے  وجود پہ /نمک چھڑکنا چاہتی ہوں  /صدیوں سے  جمی ہوئی / برف کاٹنا چاہتی ہوں  / کیا تم رشتوں کا الائو  /دہکا سکتے  ہو ؟ / میں اپنی آنکھوں کو/ آنسوئوں سے /  طلاق دلانا چاہتی ہوں /جو صدیوں سے / آنسوکاشت کررہی ہیں /کیا تم میری آنکھوں کو  /خوب دے  سکتے  ہو؟ /زمانے  کے  بکھیڑوں میں نہیں  /  من کی دنیا میں / گھر بنانا چاہتی ہوں /بس اب میں /دل کی بات سننا چاہتی ہوں /کیا تم میرے  من میں /بول سکتے  ہو۔

 یا ایک اور نظم  دیکھی:

   میرے  ناخن مت کا ٹنا /  مدافعت کے  لئے /ایک ہتھیار تو ضروری ہے

  رخسانہ جبین:رخسانہ جبین بھی ریاست کی شاعرات میں ایک اہم نام ہے  وہ بنیادی طور پر غزل کی شاعرہ ہے  لیکن نظم میں بھی انھوں نے  طبع آزمائی کی ہے  وہ شاعری میں اپنا ایک جُداگانہ لب و لہجہ رکھتی ہے۔ انھوں نے  اپنے  تجربات اور احساسات کو غزل میں بڑی منفرد انداز میں پیش کیا ہے  اُن کی ہر غزل میں نغمگی اور ترنم موجود رہتا ہے  انھوں نے  غزل کو ایک نازک اور حسین ترین صنف سخن کی طرح برتا ہے  اور غزل ان کی پسندیدہ صنف بھی رہی ہے  چند اشعار پیش ہیں :

  ؎    ہمارے  خواب عجب کہکشاں بناتے  ہیں

      زمین کو تاروں بھرا آسماں بناتے  ہیں

     میں بھول جاتی ہوں ان کی کہانیاں کتنی

     ذارا سی بات کو وہ داستاں بناتے  ہیں

   نسرین نقاش ریاست کی ایک با کمال شاعرہ ہے۔انھوں نے  اپنے  آپ کو کسی ایک صنف تک محدود نہیں رکھا بلکہ ہر صنف میں طبع آزمائی کی جس میں خاص طور پر غزل،  نظم اور ماہیا شامل ہیں ۔ ان کے  اب تک کئی شعری مجموعے  شائع ہو چکے  ہیں جن میں دشتِ تنہائی، روحیں چناب کی،  تنہایاں  ، لہو پکارتا ہے شامل ہیں اور خاص پزیرائی حاصل کرچکے  ہیں۔ انھوں نے  جہاں اپنی شاعری میں حسنِ کائنات کو موضوع بنایا تو وہی عورتوں  کے  مسائل اور ان کی نفسیات کو بھی اپنی شاعری میں جگہ دی۔دو کنوارے  ہاتھ،  صلیب، بیری ساون،  امن کے  دیوتا ان کی خاص نظمیں  ہیں ۔ یہاں  ان کی نظم صلیب پیش ہے :

 کاٹ دو ہاتھ / سر قلم کردو /میرے  چہرے  سے  نوچ لو آنکھیں  / کیھچ دو کیھچ سکے  جو میری زبان/ میری سانسوں میں /ڈال دو زنجیر/ ہاں مگر! /اس سے  قبل میں تم سے / صرف اتنا سوال پوچھوں گی /اپنے  احساس کی صلیب سے  تم  /کیا فراموش کر سکو گے  مجھے ؟

   نصرت آراء چودھری نرم مزاج کی شاعرہ ہے  اور ریاست کی شاعرات میں ایک معتبر نام ہے  انھوں نے  اپنے  ذاتی تجربات اور احساسات کو غزل کے  علاوہ نظم میں بھی پیش کیا ہے۔ ان کے  نظموں اور غزلوں کا مجموعہ ’’ ہتھیلی کا چاند‘‘ ۲۰۰۴؁ء میں منظرعام پر آ چکا ہے  اور ادبی حلقوں میں خاص پزیرائی حاصل کر چکا ہے  انھوں نے  بہت ہی سادہ اور آسان لفظوں میں اپنی غزلیں اور نظمیں کہں ہیں عورت پر ہو رہے  ظلم و جبر،  اُ ن کی بے  بسی، دنیا کی بے  ثباتی ان کی نظموں اور غزلوں کے  موضوعات ہیں ۔ وہ ایک عورت کے  جذبات اور نفسیات کو باریک بینی سے  دیکھنے  کی کوشش کرتی ہے۔مثلاً

 ؎    جیون کے  موسم کو کیسے رُوپ بدلتے  دیکھا ہے

      ہنستے  ہوئے  بادل سے  میں نے  خون برستے  دیکھا ہے

      دولت کے انبار  پہ بیٹھے لوگوں پر  ہم رحم  کریں

      خوشیوں کے  اک لمحے  کو دن رات تراستے  دیکھا ہے

     عورت کی توہین کا منظر نُصرت کیسے  بھولوں میں

      بن کے  دُلہن ہر اک کو سیج پر لٹتے  دیکھا ہے۔

    ریاست کی ایک اور شاعرہ صاحبہ شہریار نے  بھی اپنی شاعری میں نسائی حسیت کے  ساتھ ساتھ نسوانی زبان کو برتا ہے۔ان کے  تین شاعری مجموعے  ــــــــ’’شاخ لرزاں  ‘‘،  ’’برگ چنار‘‘، ’’آگہی کا در‘‘ منظر عام پر آچکے  ہیں۔

    ریاست کی شاعرات میں نکہت فاروق نظر نے  اپنے  شاعری میں مرد اساس معاشرے  کے  خلاف کھل کر احتجاج کیا۔  اس سلسلے  میں ان کی نظم ’’کڑوا سچ ‘‘ پیش ہے۔۔

   تم کہتے  ہو کہ نصف کبھی پورا نہیں ہوسکتا

    ذرا آج تم غور سے  دیکھو

    میرے  وجود کے  ست رنگی پہلو کو

   میں تو اکِ چھتنار پیڑ کی مانند

   گھنا سایہ اور بھری شاخیں لئے

    اپنی جگہ بھر پور ہوں

   کہیں ماں ہوں ، کہیں بہن

    کہیں بیوی تو کہیں بیٹی

    ملا کہیں دیوی کا درجہ

   کہیں بنی بازار کی رونق

    کبھی کسی مجنوں کی لیلی

    تم ہی کہتے  ہو میرے  پیروں تلے  جنت ہے

     کیا

     یہ ست رنگی شخصیت لے  کر بھی میں

     ادھوری ہوں

    نصف ہوں  ؟

    اپنے  آپ کو پورا کہنے  والے  تم کیسے  پورے  ہو سکتے  ہو

    جب کہ تم ایک نصف سے  جنمے  ہو!!!

    الغرض ریاست کی ان سبھی شاعرات نے  اپنی شاعری کے  ذریعے  سماجی، سیاسی  اور  معاشی مسائل کے  علاوہ سماجی برائیوں  کا بھی ذکر کیا ہیں ۔ اس کے  علاوہ عورت کی سماجی حیثیت اور اس پر ہورہے  استحصال کو اپنے  نظموں اور غزلوں کا موضوع بنایا اور عورت کو اس کے  حقوق دلانے  اور بیدار کرنے  کی بھرپور کوشش کی ہیں تاکہ وہ سماج کی فرسودہ روایات کو توڑ کر کھلی فضا میں سانس لے  سکے۔

٭٭٭٭

سمیرا بانو

ریسرچ اسکالر مولانا آزاد نیشنل اُردو یونی ورسٹی

 حیدر آباد۔ سیٹالیٹ کیمپس ( سری نگر)

ای۔میل  gulsameera.rs@manuu.edu.in

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.