علی سردار جعفری کے تنقیدی افکار

Click Here for PDF File

Click Here for PDF File

علی سردار جعفری (۱۹۱۳ء تا ۲۰۰۰ء)ترقی پسند تحریک کے مبلغ اور اس سے بڑھ کر اردو کے عظیم شاعر،افسانہ نگار ،مفکراور نقادکی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔وہ محض صاحبِ اسلوب شاعر ہی نہیں تھے بلکہ انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے ترقی پسند اصول و نظریات کو عملی جامہ بھی پہنایا۔ان کی ذہنی نشونما میں اردوکے قدیم ادبی روایات، کلاسیکی اقدار و افکار اور ساتھ ہی ساتھ اس دور کے سماجی ،سیاسی اور معاشرتی ماحول کا بھر پور عمل دخل رہا ہے۔انھوں نے جس وقت ادب کی دہلیز پر قدم رکھا اس وقت پورا ملک ٓآزادی کی جدو جہد اور برطانوی حکومت کے خلاف آواز بلند کررہا تھا۔اردو ادب کی تاریخ میں یہ دور ہر اعتبار سے انقلابی ثابت ہوا ہے۔

سردار جعفری بچپن سے ہی ذہین اور حا ضر جواب تھے جس کی وجہ سے گھر کے افراد اور اسکول کے اساتذہ شفقت سے پیش آتے تھے۔ وہ اپنے تخلیقی ذہن کا استعمال اسکول کے زمانے سے ہی شعروشاعری اور افسانے وغیرہ میں طبع آزمائی کے ذریعے کر نے لگے۔ لیکن جب انھیں اعلیٰ تعلیم کے لیے علی گڑھ جانے کاموقع ملا تو وہاں کی علمی و ادبی فضا نے ان کے فکری ذہن میں مزید اضافہ کیا۔ علی گڑھ کی اس زرخیز وادی میں ان کے رفقائے کار کا دائرہ بھی وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا ۔ ان میں اخترحسین رائے پوری ، سبطِ حسن، حیات اﷲ انصاری، منٹو ، مجاز،جانثار اختر اور آل احمد سرور جیسے ہونہار طلبہ سے تبادلۂ خیال اور ساتھ میں وقت گزارنے کا موقع بھی فراہم ہوا۔

بیسویں صدی کی دوسری دہائی جس میں انقلابِ روس (۱۹۱۷ء) اور پہلی جنگِ عظیم(۱۹۱۴تا۱۹۱۸) نے دنیا کے تمام ادیبوں اور شاعروں کو حد درجہ متاثر کیا۔ اس انقلاب نے دنیا کے بہت سے ممالک میں ادیبوں اور دانشوروں کے ساتھ ساتھ عوام اور مزدور طبقے میں بھی تحریک پیدا کی۔جس سے تخلیق کاروں کے ساتھ ساتھ عوام و مزدور بھی سرمایہ دارانہ اور ظالم حکومت کے خلاف آواز بلند کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ جولائی ۱۹۳۵ء میں پیرس کے مقام پر کلچر کے تحفظ کے لیے تمام دنیا کے ادیبوں کی ہونے والی کانفرنس نے تخلیق کاروں میں ایک حرکت پیدا کی ۔ان دنوں کچھ ہندوستانی طلبہ جو لندن میں زیرِتعلیم تھے پیرس کانفر نس سے متاثر ہوکر ایک انجمن قائم کی اور اس کا باقاعدہ مینی فیسٹو بھی تیار کیا۔اس مینی فیسٹو کو ہندوستان میں نوجوان ادیبوں اور شاعروں کے پاس بھیجا گیا ۔جسے تمام ادیبوں اور شاعروں نے خیر مقدم کیا۔ان ادیبوں میں بزرگ ادیب پریم چند نے اس مینی فیسٹو کو دل سے لگایا اور اس کو اپنے رسالہ’’ہنس ‘‘ میں ایک اداریہ لکھ کر شائع بھی کیا ۔اس مینی فیسٹو سے متاثر ہوکر اختر حسین رائے پوری نے ایک مضمون ’’ادب اور زندگی‘‘ تحریر کیا ۔جسے نوجوان ادیبوں نے خوب سراہا۔اسی مضمون سے متاثر ہوکر سردار جعفری نے بھی ایک مضمون ’’جدید ادب اور نوجوانون کے رجحانات‘‘ لکھا جو پہلی بار ۱۹۳۶؁ء میں علی گڑھ میگزین میں شائع ہوا۔اس مضمون میں سردار جعفری نے بھی وہی جذباتی اور باغیانہ رویہ اختیا ر کیا جو اختر حسین رائے پوری نے اپنایا تھا۔ آزاد نطم کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’روایت،قافیہ اور بحر کی یک رنگی ایشیائی شاعروں میں ایک ایسی چیز ہے جس سے اس کا حسن دوبالا ہوگیا ہے۔لیکن بعض نوجوا ن اسے بے جا قیود کا نام دے کر مغرب کی تقلید میں بلینک ورس کی طرف راغب ہو گئے ہیں اور ایسی چیزیں پیش کررہے ہیں جو اردو ادب کے دامن پر بد نما دھبّہ ہیں۔‘‘(نیا ادب : اپریل۱۹۳۹ء)

سردار جعفری کے بالا سطور سے واضح ہوتا ہے کہ وہ آزاد نظم کے سخت مخالف تھے ۔ یہاں تک کہ نوجواں ادیبوں اور شاعروں کو مغربی ادب کی تقلید سے منع کیا اور کہا کہ ایشیائی ادب کا دل سے احترام کیا جائے۔ لیکن جب انہیں یہ احساس ہوا کہ غزل ان کے مزاج کے خلاف ہے کیونکہ غزل کی اکہری طبیعت انہیں راس نہ آئی تو سردار جعفری نے غزل کو ترقی پسند دائرے سے خارج کرنے کا مشورہ دیا۔ اس کے باوجودبھی یہ کہتے ہیں کہ ’’ غزل اپنی تمام سامنتی خصوصیات کے ساتھ اردو ادب کی گردن پر ابھی سوار ہے۔‘‘سردار جعفری شروع سے ہی رجعت پسند ادب کے خلاف تھے کیونکہ ان کا فکری رجحان اجتماعی ادب کی طرف تھا۔ وہ مانتے ہیں کہ شاعری یا ادب ایک فرد کا نہیں بلکہ پوری جماعت کا ترجمان ہونا چا ہیے۔ کیونکہ ادب کا تناور درخت جو شاعروں اور ادیبوں کی ذہنی فضا میں تیار ہوتا ہے ، اپنی جڑوں کی آبیاری کے لیے عوام کے دماغوں کا محتاج ہوتا ہے،اس لیے ادب کو عام زندگی سے دور نہیں کیا جا سکتا۔

سرادر جعفری کی تنقیدی تحریروں کے مطالعے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کہیں بھی اپنے آپ کو نقاد کی حیثیت سے پیش نہیں کرتے بلکہ ہمیشہ نہایت انکساری کے ساتھ ایک قاری اور ادیب کی حیثیت سے اپنے نقطۂ نظر کو بیان کیاہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’حقیقتاً میں نے نقاد کے فرائض انجام نہیں دیے ہیں کیونکہ مجھے نقاد ہونے کا دعویٰ نہیں ہے۔میں نے خود ایک ادیب اور شاعر کی حیثیت سے اس تحریک کے بارے میں جو مجھے سب سے زیادہ عزیز ہے اورجس سے میرا شروع سے بہت قریبی تعلق رہا ہے اسے کاغذ پر منتقل کردیا ہے۔‘‘(ترقی پسند ادب :از۔علی سردار جعفری ۔ص ۱۱)

اس کے علاہ انہوں نے ترقی پسند جمالیات کی شیرازہ بندی کا بھی اہم فریضہ انجام دیا ہے۔جیسا کہ ان کی اس تحریر سے ظاہر ہے :

’’ترقی پسند تحریک جمالیات کے سا ئنٹفک اور علمی تصوّر ہی کو اپنا سکتی ہے۔وہ اس پیمانے سے ادب کی رفتار ناپتی ہے اور اسی کسوٹی پر اسے کستی ہے۔وہ ادب کو مستقل ابدی اور غیر تغیر پذیر قدروں کی قائل نہیں ہے کیونکہ اس کاتصوّر تاریخی اور سماجی ہے۔ وہ ادب کو تاریخ کی حرکت اور سماج کی جنبش کے ساتھ دیکھتی ہے اور ادب کو بھی تاریخ کی حرکت اور سماج کی جنبش کا آلۂ کار سمجھتی ہے۔ــ‘‘ (ترقی پسند ادب : ص ۳۱)

سردار جعفری کے ان تصوّرات سے معلوم ہوتا ہے کہ ترقی پسند تحریک میں جمالیات کے سائنٹفک تصوّر کے ذریعے ہی ادب کی صحیح معنویت کا اندازہ ہوتا ہے۔لیکن کہیں کہیں اس طرح کے ادب میں انتہا پسندی بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ جس کے بارے میں سردار جعفری کا یہ خیال ہے کہ مزدور اور عوام کی اکثریت جہالت کا شکار ہے۔ ہمیں ان سے ہمدردی ضرور ہے لیکن وہ ادب کی کلاسکیت سے واقف نہیں۔ اگر ہم ان کی سطح پر اتر تے ہیں تو ہمارا ادب گھٹیا اور سستا ہوکر رہ جاتا ہے۔ان کاخیال ہے:

’ ’ہم ادیب ہیں ہمارا کام ادب کی تخلیق کرناہے اگر ادب میں فن ہی ہاتھ سے چلا گیا تو کیا باقی رہ جائے گا محض برہنہ موضوع،نعرے بازی اور پروپگنڈہ۔‘‘

سردار جعفری نے ان ہی خامیوں کی بنیاد پر رجعت پرستوں پر لعن طعن کیا ہے۔ان کا یہ ماننا ہے کہ ادیب کو ادب کے ساتھ ساتھ سیاسی جدوجہد میں بھی عملی حصہ لینا چاہیے کیونکہ ہمارے ادب میں مزدور اور عوام کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔اس لیے ترقی پسند ادب کے ذریعے سماج کے بنیادی مسائل کو کو حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سردار جعفری لکھتے ہیں:

’’قدیم یونانیوں نے کہا تھا کہ صرف دیوتا اور شاعر تخلیق کرتے ہیں۔آج ہمیں یہ کہنا ہے کہ صرف مزدور(عوام) اور شاعر (ادیب،فنکار) تخلیق کرتے ہیں۔اگر ہمارا اور ان کا اتحاد نہیں ہوا تو ان کی تخلیق نامکمل رہ جائے گی اور ہماری تخلیق بھونڈی اور جھوٹی ہوگی۔ اس لیے ادیبوں اور مزدوروں کا اتحاد تخلیقی اتحاد ہے۔‘‘ ( ترقی پسند ادب: ص ۵۸تا ۵۹)

سردارجعفری کے ان خیالات سے معلوم ہوتا ہے کہ ادب کی تخلیق میں عوام کو خاص اہمیت حاصل ہونی چاہیے کیونکہ ان دونوں کے اتحاد سے ہی اعلیٰ پائے کا ادب تخلیق ہونا ممکن ہے۔ہر ادب کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہوتا ہے۔ دنیا کے ادب میں شاید ہی کوئی ایسی مثال ملے جو بے مقصد اور غیر جانبدار ادب ہو؟ سماج میں بہت سی ایسی چیزیں ہوتی ہیں جس کو کوئی ادیب اچھا سمجھتا ہے اور کوئی برا ۔ کوئی ادیب اسے کھل کر بیان کرتا ہے توکوئی اشارے اورکنائے میں ۔ یہ تو ان کے اندازِبیان کا فرق ہے۔سردار جعفری اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہر ادیب کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ سماجی مسائل کو سمجھے اور پھر سماج کو ترقی کی طرف لے جانے میں مدد فراہم کرے۔ترقی پسند ادب کے مقاصد پر جعفری کا یہ خیال ہے:

’’․․․وہ ادب کو عوام کی ملکیت قرار دیتے ہیں اور اس پر زندگی کے سدھارنے اور سنوارنے کے مقدس فرائض عاید کرتے ہیں اور جدوجہد حیات میں اسے ایک حربے کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ادب کے مسائل وہی ہیں جو زندگی کے مسائل ہیں۔ادب کے موضوعات بھی زندگی کے موضوعات سے الگ نہیں ہو سکتے اور آج کے ہندوستان میں وہ موضوعات وہی ہیں جن کا ذکر ترقی پسند مصنفین کے پہلے اعلان نامے میں کیا گیا تھا۔ ‘‘ (ترقی پسند ادب :ص ۴۵)

علی سردار جعفری کے ان سطور سے ظاہر ہوتا ہے کہ ادب میں مقصدیت کا ہونا لازمی ہے ۔ جس سے زندگی میں بہتری آسکے کیونکہ ادب زندگی کی جدوجہد میں ایک حربے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ وہ سنجیدہ ادب کے لیے موضوع اور ہئیت کو بھی لازمی قرار دیتے ہیں کیو نکہ شاعری میں یہ چیزیں زیادہ اہم ہیں۔ شاعری کے لیے ایسا میعار قائم کیا جائے جو نہ صرف فنی اور جمالیاتی خوبیوں پر پورا اترے بلکہ مو ضوع اور حسن کے لحاظ سے بھی دیدہ زیب ہوں ۔ شاعری میں موضوع کو خارج کرکے ادب کو دلکش اور حسین نہیں بنایا جا سکتا ہے۔اچھے ادب کے لیے ان تمام خوبیوں کاشامل ہوناضروری ہے۔

تقسیمِ ہند کے بعد ترقی پسند مصنفین کے بھمڑی کانفرنس میں ادب کے لیے نیا منشور نامہ تیار کیا گیا ۔جس سے تحریک کو بہت سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔اس کانفرنس کے بعد بہت سے ادیبوں اور شاعروں کے فکری رویے میں تبدیلی آگئی یہاں تک کہ سردار جعفری نے بھی بعض معاصرین پر تنقیدی وار کرنا شروع کردیا۔اسی تعلق سے انہوں نے ایک مضمون’’ترقی پسند کے بعض بنیادی مسائل ‘‘ لکھا جس میں فیض احمد فیض کی مقبول نظم ’’صبح ِآزادی‘‘ کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا۔سردار جعفری لکھتے ہیں:

’’فیض نے ۱۵ ؍اگست کی نظم میں استعاروں کے کچھ ایسے پردے ڈال دیے ہیں جن کے پیچھے پتہ نہیں چلتا کہ کون بیٹھا ہے۔اس نظم کا پہلا شعر ہے

یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر

وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

اور آخری مصرع ہے

چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

لیکن یہی بات تو مسلم لیگی لیڈر بھی کہہ سکتے ہیں کہ’’وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں ــ‘‘۔کیونکہ انہوں نے پاکستان کے لیے چھ صوبوں کا مطالبہ کیا تھا لیکن انہیں ملے مغربی پاکستان میں ساڑھے تین صوبے اور مشرقی پاکستان میں پون صوبہ۔پھر کیوں نہ ترقی پسند عوام کے بجائے مسلم لیگ کے نیشنل گارڈ اسے اپنا قومی ترانہ بنالیں اور ڈاکٹر ساور کر اور گاڈ سے بھی یہی کہتے ہیں کہ ’’ وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں‘‘ کیوں کہ اکھنڈ ہندوستان نہیں ملا جسے وہ بھارت ورش اور آریہ ورت بنانے والے تھے۔پوری نظم میں اس کا کہیں پتا نہیں چلتا کہ سحر سے مراد عومی انقلاب کی منزل ۔اس نظم میں داغ داغ اجالا ہے، شب گزیدہ سحر ہے،حسینانِ نور کا دامن ہے،فضا کا دست ہے، تاروں کی آخری منزل ہے،نگارِ صبا ہے،چراغِ سرِ راہ ہے ،پکارتی ہوئی باہیں اور بلاتے ہوئے بدن ہیں ۔یہ سب کچھ ہے لیکن نہیں ہے تو عوامی انقلاب اور عوامی آزادی، غلامی کا درد اور اس درد کا مداوا۔ ایسی نظم تو ایک غیر ترقی پسند شاعر بھی کہہ سکتا ہے۔‘‘(بحوا لہ اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک ۔از۔خلیل الرحمٰن اعظمی ص ۱۱۲)

سردار جعفری نے بالا سطور میں فیض اور ان کی نظم کو غیر ترقی پسند ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔اس نظم کو مقصدیت سے خالی اور ہیئت پرستی سے منسوب کیا ہے ۔اس اقتباس میں سردار جعفری ایک اور پہلو کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ فیض مسلم لیگی فکر سے قریب نظر آتے ہیں کیونکہ مسلم لیگی رہنماؤں نے سیاسی بنیاد پر تقسیمِ ملک کی حمایت میں تھے۔جب کہ فیض کی کسی بھی تحریر یا کلام میں یہ بات نہیں ملتی ہے کہ وہ ملک کا بٹوارہ چاہتے تھے۔بلکہ فیض نے یہ نظم ملک میں تقسیم کے بعد رونما ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات اورظلم و تشدد سے متاثر ہوکر لکھی۔فیض کی نظر میں یہ آزادی ہندوستانی عوام کے لیے دھوکہ ثابت ہوئی۔سردار جعفری آگے لکھتے ہیں کہ فیض نے عوامی انقلاب اور عوامی آزادی کی کوئی بات نہیں کی ہے جب کہ اس دور میں فیض کی لکھی ہوئی بیشتر نظمیں مثلاً ’’رقیب سے، تنہائی،موضوعِ سخن،ملاقات اورنثارمیں تیری گلیوں کے‘‘ وغیرہ اجتماعی اور سماجی مسائل کی بہترین عکاسی کرتی ہیں۔فیض کی بڑی خوبی یہ رہی ہے کی انہوں نے سماجی اور اجتماعی مسائل اور عشقیہ تجربات کے لطیف پہلو کو ترقی پسندانہ خیالات میں بیان کیے ہیں۔اس کے علاوہ انہوں نے کسی بھی مسائل کو سیدھا سادہ انداز میں بیان کر نے کے بجائے علامتوں اور استعاروں کا سہارا لیا ہے ۔ جس سے اکثر ناقدین اور شعرا کو ان کی ترقی پسندی پر شک ہونے لگتا ہے۔

اسی طرح جب سردار جعفری دوسرے شاعروں کی تخلیقات پر نظر ڈالتے ہیں تو وہاں بھی ان کا انداز جذباتی ہو کر رہ جاتا ہے ۔ اگرچہ انہوں نے بہت سے ترقی پسند شعرا مثلاً راشد ،اخترالایمان، فیض اور مخدوم وغیرہ پر کئی طرح کے اعتراضات قائم کیے ۔ جسے ترقی پسند حلقے میں بھی حمایت نہیں مل سکی۔

لیکن جب سردار جعفری اقبال کی شاعری کا جائزہ لیتے ہیں تو وہاں اپنی تنقیدی صلاحیت کا بہترین نمونہ پیش کرنے کیا ہے۔ انھوں نے اقبال کو سرسید ،حالی اور شبلی کی روایت کا امتزاج بتایا اور یہ بھی کہا کہ علم و فن کی سطح پر اقبال زیادہ بلند ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے سرسید اور حالی کی روایت کو آگے بڑھایااور ساتھ ہی سماجی تضادات،الجھاؤ اور غیر جمہوری روایت کو بھی مستحکم کیا۔سردار جعفری اقبال کی شاعرانہ عظمت کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ ابھی تک اردو زبان نے اقبال سے بڑا شاعر پیدا نہیں کیا ہے۔وہ ہمہ گیری اور وسعت ابھی کسی اور شاعر کو نصیب نہیں ہوئی جو اقبال کی شاعری میں پائی جاتی ہے۔یہ قومی تحریک آزادی کے ابتدائی ابال کا زمانہ تھاجو اپنے سارے تضاد کو لے کر اقبال کی شاعری میں ڈھل گئی۔‘‘(ترقی پسند ادبـ: ص ۱۰۲)

سردار جعفری کو اقبال کی ہمہ گیر شخصیت کا مطالعہ کرنے سے یہ اندازہ ہوا کہ ان سے بڑا عظیم شاعر ابھی تک اردو ادب میں پیدا نہیں ہوا ہے کیونکہ ان کی شاعری میں اصلاح پسندی اورماضی پرستی دونوں رجحانات موجود ہیں۔وہ شاعری کی ابتدائی دور سے ہی حب الوطنی اور سامراجی حکومت کے خلاف نعرے بلند کر رہے تھے جو آخر تک ان کی شاعری میں قائم رہا۔سردار جعفری کے نزدیک اقبال کے خودی کی بنیاد عینیت کے فلسفے اور ہیگل کی جدلیت پر مبنی ہے جس کو انہوں نے اسلامی فلسفے اور روایت کا پیکر عطا کیا۔جو کہ بعد کی شاعری میں مردِکامل کے ساتھ شاہین کی علامت کو خوب سراہا گیا۔اقبال نے ان علامت میں ابھرتی ہوئی تحریک ِآزادی کی تمام خصوصیات کو پیش کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔اس تعلق سے سردار جعفری کا خیال ہے:

’’اقبال نے اپنے اس شاہین کو تیمور،ابدالی،نیپولین اور مسولینی کی شکل میں دیکھا تھا اور اقبال کے نزدیک پوری انسانی تاریخ ایسے ہی خودی سے سرشار اور افراد کے اشاروں پر چلتی ہے اور فوق البشر کی تلاش میں ہے۔یہ انفرادیت پرستی اور ہیرو پرستی خالص بورژوا تصور ہے جو اپنی آخری شکل میں فاشٹ ڈکٹیٹر کا روپ دھار لیتا ہے۔اور یہ ڈکٹیٹر(شاہین) جب ابی سینا میں’حمام و کبوتر‘ کے شکار کے لیے نہیں بلکہ لہو گرم رکھنے کا بہانہ ڈھونڈنے کے لیے جاتا ہے تو اقبال کا انسان دوست دل تڑپ اٹھتا ہے۔‘‘ (ترقی پسند ادب: ص ۱۰۸)

سردار جعفری نے بالا سطور میں اقبال کے شاہین کو مختلف ناموں سے منسوب کیا ہے اور آخر میں لفظ ڈکٹیٹر سے بھی مخاطب کیا۔ان کا ماننا ہے کہ اقبال کے یہاں مستقل تضاد ہے وہ اپنی شاعری میں جس حسین و جمیل دنیا کی تشکیل کرنا چاہتے ہیں ۔وہ فلسفہ اس دنیا کے تباہ کرنے والے افراد کی پیدائش میں مدد فراہم کرتا ہے۔اسی لیے اگر اقبال کی شاعرانہ شخصیت کو فلسفیانہ شخصیت سے علیحدہ کرکے دیکھا جائے تو وہ شاعر بڑے اور فلسفی چھوٹے نظر آتے ہیں۔

سردار جعفری کا یہ ماننا ہے کہ اقبال کو ماضی پرستی اور مذہبی احیا کے تصورات ورثے میں ملے۔اس دور کے ادب میں سامراج اور انگریز ی سرمایہ داری کے ظلم و ستم کا ذکر نظروں سے بوجھل رہاہے لیکن اقبال کی نظروں سے وہ چیزیں پوشیدہ نہیں رہیں۔انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے اس کے خلاف آواز بلند کی اور سرمایہ داری کے برخلاف جدوجہد کرکے انسانوں کو وہ عظیم الشان تصور دیا جو غالباً اردو ادب کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتا۔سردار جعفری یہ بھی کہتے ہیں کہ اقبال کی درویشی ،قلندری،شاہنی اور انفرادیت پسندی سے ہمارے عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا لیکن ہم ان تصورات کے بنیاد پر اقبال کی ترقی پسند پہلو کونظر انداز نہیں کرسکتے۔

سردار جعفری جب اقبال کے کلام کے مختلف ادوار پر نظر ڈالتے ہیں تو انہیں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال کی خودی کے استحکام کے سارے عناصر ہندوستان اور ایشیا کی مسلم بیداری کے خاص وسائل ہیں۔ان کی شاعری نے مشرقی عوام کو خواب سے بیدار کرکے ملک کی جدو جہدِ آزادی کی تحریک میں شامل کیا۔ سردار جعفری کے الفاظ میں:

’’اقبال نے ان تصورات سے اردو شاعری کو نئی سطح پر پہنچا دیا اور آج یہ سب تصورات ترقی پسند شاعری کی رگوں میں خون کی طرح دوڑ رہے ہیں۔ہم اس سرمائے کی قدر کرتے ہیں اور اس کے لیے اقبال کا بے انتہا احترام ہمارے دل میں ہے۔ اقبال کے بغیر ہم اپنی موجودہ شاعری کا تصور نہیں کر سکتے۔‘‘ (ترقی پسند ادب ص ۱۱۷)

اس اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سردار جعفری اقبال کے شاعرانہ تصورات سے کافی حد تک متاثر رہے ۔وہ مانتے ہیں کہ اقبال کی شاعری کے بیشتر خیالات آج کے ترقی پسند شاعروں کی رگوں میں نظر آتا ہے اور ان کے خیالات ترقی پسند شاعروں کے لیے مثلِ راہ ثابت ہوئے ۔یہاں تک کہ سردار جعفری یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اقبال کی شاعری کے بغیر جدید شاعری کا تصور ممکن نہیں۔

شاعری کے بعدجب سردار جعفری اردو نثر پر نظر ڈالتے ہیں تو وہاں بھی انہیں حقیقت نگاری اور رومانیت کے تصورات کافی اہم معلوم ہوتا ہے۔ان کا ماننا ہے کہ عوام کی زندگی اور ان کے حالات کی سچی تصویر بنانا حقیقت نگاری کا خاص جز ہے۔

جدید ادب کے ابتدائی دور میں عقل پسندی ،حب الوطنی،انسان دوستی اورسامراج دشمنی کا جذبہ زیادہ غالب رہا ہے لیکن اس جذبے میں انقلاب کی مہک آرہی تھی جس میں اقبال اور چکبست جیسے عظیم شعرا اپنی خدمات انجام دے رہے تھے ۔ان کے بعدپریم چند اور جوش ملیح آبادی نے اردو ادب کی رہنمائی کی۔ یہ الگ بات ہے کہ پریم چند نے حقیقت کے دامن کو نہیں چھوڑا اور جوش نے رومانیت کا۔لیکن جوش کی شاعری میں رومانیت کے ساتھ ساتھ حقیقت نگاری کا بھی عکس نظر آتا ہے ورنہ ان کا ادب فراری کی صورت اختیا ر کرلیتا ۔سردار جعفری کا خیال ہے کہ پریم چند میں ٹالسٹائی کی روح ملتی ہے اور جوش کے یہاں شبلی کی۔پریم چند کے حوالے سے سردار جعفری کا یہ خیال ہے:

’’پریم چند نے حقیقت نگاری کی جو بنیادیں قائم کی ہیں وہ بڑی صحت مند ہیں اور انہیں بنیادوں پر مستقبل کے اردو ادب کی عمارت کھڑی ہوگی۔ہر بڑاادیب اپنے عہد کے انقلاب کے کسی نہ کسی پہلو کی ترجمانی ضرور کرتا ہے اور اس اعتبار سے پریم چند کی عظمت مسلّم ہے کہ انہوں نے اپنے عہد کے انقلاب کے بنیادی سوال کو اپنے ادب کا مرکزی نقطہ بنالیا۔اور وہ کسانوں کا سوال ہے جسے انہوں نے فنکارانہ انداز سے پیش کیا ہے۔‘‘(ترقی پسند ادب ص ۱۲۳)

سردار جعفری کے ان خیالات سے پتہ چلتا ہے کہ پریم چند نے اپنی حقیقت نگاری کا موضوع کسانوں کو بنایا۔کیونکہ وہ کسان اور متوسط طبقے کی زندگی سے بہت اچھی طرح واقف رہے بلکہ وہ خود اسی ماحول میں زندگی بسر کر رہے تھے۔سردار جعفری یہ مانتے ہیں کہ جس طرح پریم چند نے اردو ادب کو بحران سے نجات دلایا ٹھیک اسی طرح جوش نے بھی اردو شاعری کے لیے نئی راہیں تلاش کیں۔لیکن دونوں میں بنیادی فرق حقیقت پسندی اور رومانیت پسندی کا تھا۔جوش کی رومانیت پسندی پر سردار جعفری کہتے ہیں:

’’جوش سو فیصد رومانی شاعر ہیں اور ان کا انقلاب کا تصور بھی رومانی ہے۔جس کے زیرِاثر وہ بہت جلد مشتعل ہوکر جذبات اورہیجان کے طوفان میں بہہ جاتے ہیں اور مجاہد کی شان سے نیزہ ہلاتے اور تلوارچلاتے میدان میں اترآتے ہیں۔یہ جوش کی رومانی فطرت ہی کی کرشمہ سازی ہے کہ کبھی ان کا انقلاب مٹھیوں میں افشاں بھر کر چلتا ہے اور کبھی سرمایہ داروں کی ہڈیاں چباتا ہوا،کبھی وہ نئی دلہن کی طرح خوبصورت ہوتا ہے اور کبھی دیو کی طرح مہیب اوردہشت ناک ۔․․․اصل میں ان کی رومانی فطرت انہیں جلد بازی کی ترغیب دیتی ہے اور وطن کی آزادی کے لیے وہ اس قدر بیتاب ہو جاتے ہیں کہ واقعات اور حالات کی رفتار میں اپنے تخیل کی سرعت پرواز نہ پاکر مایوس ہونے لگتے ہیں۔‘‘(ترقی پسند ادب ص ۱۴۰)

سردار جعفری جوش کی شاعری کو سو فیصد رومانی اور ان کے انقلابی تصور کو بھی رومانی سمجھتے ہیں لیکن آگے یہ بھی کہتے ہیں کہ جو ش کبھی کبھی اپنے جذبات اور ہیجان کے طوفان میں بہہ جاتے ہیں جس سے ان کے انقلاب میں رومانی عنصر زیادہ غالب ہوجاتا ہے۔اس کی وجہ سے ان کی شاعری کبھی دلہن کی طرح خوبصورت تو کبھی دیو کی طرح مہیب اور دہشت ناک صورت اختیار کرلیتی ہے۔جس سے ان کی شاعری میں رومان اور انقلاب کے درمیان ایک دیوار کھڑی ہو جاتی ہے اور نقاد کو یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ ان کی رومانی شاعری انقلابی شاعری سے بہتر ہے یا انقلابی شاعری رومانی سے۔

سردار جعفری کی تنقیدی تحریروں کے مطالعہ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں سنجیدگی کے ساتھ ساتھ ایک قسم کی سرکشی بھی پائی جاتی ہے۔مثلاًجب وہ اقبال کی شخصیت اور کلام پر نظر ڈالتے ہیں تو وہاں اپنی عملی اور تجزیاتی تنقید کابہترین نمونہ پیش کرتے ہیں۔ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــلیکن اسی تجزیاتی مطالعے میں کچھ ایسی بھی باتیں کہہ جاتے ہیں جس سے ان کی نا پختگی اور کم علمی ظاہر ہونے لگتی ہے ۔

سردار جعفری کی تحریروں میں مارکسی تنقید کا بہتریں عکس نظر آتا ہے ۔اس سلسلے میں ان کی شاہکار تصنیف’’ترقی پسند ادب‘‘دبستانِ تنقید میں ایک نئے باب کا اضافہ کرتی ہے۔ جس میں انھوں نے تحقیق و تنقید کے ساتھ ساتھ ترقی پسند مصنفین کی تاریخ ، اس کا پس منظراور اس کے بنیادی مسائل پر بھر پورروشنی ڈالی ہے۔اس کے علاوہ شاعری میں حقیقت نگاری اور رومانیت کے تصور کو واضح طور پر بیان کیا ۔مزیدیہ کہ اقبال شناسی میں بھی اپنی تنقیدی بصیرت گراں قدر کارنامہ پیش کیا ہے۔ سردارجعفری کی زبان سلیس اور عام فہم ہونے کے ساتھ ساتھ کہیں کہیں تلخ اور جارہانہ صورت بھی اختیار کرلیتی ہے لیکن ان چھوٹی موٹی خامیوں کے باوجود ان کی تنقیدی بصیرت پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور نہ ہی ان کی

مقبولیت پرکوئی آنچ آئی۔

محمد قمر( Mohd.Qamar)

ریسرچ اسکالر

شعبۂ اردو ، جامعہ ملیہ اسلامیہ

نئی دہلی ۔۱۱۰۰۲۵

م ن۔9990111306

اردو ریسرچ جرنل میں شائع شدہ مواد کی بغیر پیشگی اجازت کے دوبارہ اشاعت منع ہے۔ ایسا کرنا قانوناً جرم ہے۔

Leave a Reply

1 Comment on "علی سردار جعفری کے تنقیدی افکار"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] علی سردار جعفری کے تنقیدی افکار […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.