برج پریمیؔ کی ادبی خدمات
برج کشن ایمہ المعروف برج پریمیؔ ریاست جموں و کشمیر کے وہ مایہ ناز محقق اور نقاد ہیں،جنہوں نے اردو کے مشہور افسانہ نگارسعادت حسن منٹو کے فکروفن اور اپنے آبائی وطن کشمیر کی تہذیب و ثقافت اور ادب کو تحقیق وتنقید کے کینوس پر اُبھار کر اپنا نام ریاست اور ریاست سے باہربلکہ بر صغیر کے ادبی حلقوں میں متعارف کرایاہے۔ان دونوں موضوعات کے پہلو بہ پہلو انہوں نے فن اورآرٹ کے دیگر پہلو ؤں پر بھی لکھا اور قلیل ادبی زندگی میں اردو ادب کو ڈیڑھ درجن کے قریب کتابیں تفویض کیں ،جن میں سے چند ایک اردو کے افسانوی ادب کے محققین کے لیے بنیادی ماخذ کا کام کرتی ہیں اور چند ایک کو وادیٔ کشمیر کے اردو طلباء کے لیے یونی ورسٹی نے سیلیبس میں تجویز کرکے شامل کی ہیں۔برج پریمیؔ ۲۴ستمبر ۱۹۳۵ء کو درابی یار حبہ کدل سری نگر میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم مقامی اسکولوں سے حاصل کی اور بعد میں ڈی۔اے ۔وی ہائی اسکول مہاراج گنج (سری نگر) سے ۱۹۴۸ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور ابھی سری پرتاپ کالج میں ایف۔ایس ۔سی میں داخلہ لیا ہی تھا کہ والد(پنڈت شیام لال ایمہ جو اپنے زمانے کے مشہور استاد اور ادیب تھے) کا انتقال ہوگیااورگھریلو ذمہ داریوں کے بہ مؤجب تعلیم کے سلسلے کو منقطع کرنا پڑا۔والد کی خالی اسامی پر انہیں ماڈل اسکول امیرا کدل سری نگر میں بحیثیت ایک کم سن استاد کے ماہوار تیس روپے پر تعینات کیا گیا۔برج پریمیؔ چوں کہ کچھ سے کچھ بننا چاہتے تھے اس لیے انہوں نے ملازمت کے دوران ایک پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے تعلیم جاری رکھی اور بی ۔ای ۔سی(بیسک ایجوکیشن کورس) ،ادیب کامل،ادیب فاضل،بی ۔اے،بی ایڈ (ٹیچرس ٹریننگ کالج سری نگر۱۹۵۹ء) اور ایم ۔اے (جموں و کشمیر یونی ورسٹی۱۹۶۲ء)جیسے امتحا نات امتیازات کے ساتھ پاس کیے ۔ایم۔اے مکمل کرنے کے بعد انہیں پی ایچ۔ ڈی کرنے کا بہت شوق تھا لیکن اس کے داخلے کے لیے انہیں تقریباً دس سال کا طویل انتظار کرنا پڑا ۔اس کے با وجود انہوں نے اس شوق کو جانے نہیں دیا بلکہ اپنی لگن اور محنت سے اس پر کاربند رہے اور بالآخر کشمیر یونی ورسٹی میں انہوں نے مشہور شاعر،نقاد اور افسانہ نگار پروفیسر حامدی کاشمیری (جو بعد میں اسی یونی ورسٹی کے وائس چانسلر تعینات ہوئے)کی نگرانی میں اردو کے مشہور افسانہ نگارسعادت حسن منٹو پر تحقیقی مقالہ بعنوان’’سعادت حسن منٹو حیات اور کارنامے‘‘ لکھا جس پر انہیں ۱۹۷۶ء میں مذکورہ یو نی ورسٹی سے پی ایچ۔ڈی کی سند تفویض ہوئی۔اس دوران وہ اسکولی محکمہ تعلیم میں مختلف ترقیوں سے ہوتے ہوئے سینئر ماسٹر،ایڈیشنل ہیڈماسٹر،ہیڈ ماسٹر،ڈسٹرکٹ سروے آفیسر اور ڈسٹرکٹ پلاننگ آفیسر جیسے ذمہ دار عہدوں پر بھی فائز رہ چکے تھے۔پی ایچ۔ڈی مکمل کرنے کے بعد ۱۹۷۷ء میں اسکولی تعلیم کے محکمے کو خیر باد کہہ کر جامعہ کشمیر کے شعبۂ اردو سے وابستگی اختیار کی اور درس و تدریس کے فرائض انجام دینے لگے ۔شعبۂ اردو کو اپنے ادبی ذوق و شوق کی سیرابی کے لیے انہوں نے موزوں اور زرخیز پایااور پھر اپنے انتقال کے وقت تک اردو ادب کی خدمت انجام دینے میں مشغول رہے۔
جامعہ کشمیر میں استاد ہونے کے تیرہ سال بعد ۱۹۹۰ء میں جب برج پریمیؔ کے گھریلو حالات اقتصادی طور پر خوش گوار ہو نا شروع ہوئے تھے،تو اچانک وادیٔ کشمیر میں ہر طرف خوف و دہشت کا ماحول چھا گیا اور مہاجرین کی ایک بڑی تعداد نے ترک سکونت کرکے محفوظ مقامات کی طرف ہجرت کی۔ برج پریمیؔ نے بھی اپنے اہل و عیال سمیت جموں ہجرت کی اور کسمپرسی کی حالت میں محلہ افغاناں میں کرایے پر ایک مکان لے کر عارضی سکونت اختیار کی ۔ابھی وہ ہجرت کے صدمے میں مبتلا ہی تھے کہ صحت نے بھی ساتھ دینا دھیرے دھیرے چھوڑ دیا اور آخر کا ر ہجرت کے فوراً بعد ۲۰اپریل ۱۹۹۰ء کو جموں میں ہی ان کا انتقال ہوگیا اور اپنے وطن کشمیر سے دور دریائے توی کے ساحل پر نذرِ آتش کیے گئے۔
برج پریمیؔ ایک اہلِ علم پنڈت گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ ان کے والد اپنے زمانے کے ایک مشہور استاد او رمعروف ادیب وشاعر تھے۔ اُ س دور کے مشہور و معروف ادباء اکثر ان کے یہاں تشریف لاتے تھے جن میں نندلال کول طالب کشمیری‘ کشپ بندھو‘ غلام حیدر چشتی‘ دینا ناتھ واریکو‘ شاہد کاشمیری‘ پریم ناتھ پردیسی‘ دینا ناتھ دلگیر او رپریم ناتھ بزاز وغیرہ شامل تھے۔ان ادباء کی موجودگی میں شیام لال ایمہ(بر ج پریمیؔ کے والد) کے گھر پر شعر و ادب کی محفلیں منعقد ہوا کرتی تھیں جن سے برج پریمیؔ کو تحریک ملی او ر کہانیاں لکھنے کی طرف مائل ہوئے۔ان کے ادبی ذوق کو نکھارنے میں اس دور کے مختلف رسائل و جرائد نے اہم رول ادا کیا ہے۔ برج پریمیؔ پہلے اپنے والد سے اصلاح لیتے رہے لیکن والد کے انتقال کے بعدانہوں نے پریم ناتھ پردیسی کو اپنا ادبی مرشد بنایا او ر ان سے نہ صرف افسانوں پر اصلاح لی بلکہ ہیئت اور تکنیک کی تربیت بھی حاصل کی ۔ چنانچہ اپنی ایک مشہور تصنیف’’ کشمیر کے مضامین‘‘ میں وہ پریم ناتھ پردیسی کی اُستادی کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’نہ صر ف یہ کہ میری کہانیوں کی تصحیح کرتے تھے بلکہ کہانی بننے کے فن اورکردار سازی پر لیکچر دیا کرتے تھے میرے ساتھ کبھی کبھی تیجوری المعروف ارون کول بھی ہوا کرتے تھے ‘‘ ۱
برج پریمیؔ نے پہلا افسانہ۱۹۴۹ء میں لکھا۔’’آقا‘‘ کے نام سے ان کا یہ افسانہ روزنامہ ’’ امر جیوتی ‘‘ سرینگر میں شائع ہوا۔ آقا کے بعد انہوں نے بہت سے افسانے لکھے جو ریاست اور بیرون ریاست کے مختلف گراں قدر رسائل و جرائد میں شائع ہوئے جن میں بیسویں صدی(دہلی) ‘راہی (جالندھر)‘ مصور(پٹنہ)‘ استاد(سرینگر)‘پگڈنڈی(امرتسر)‘ جیوتی(سرینگر)‘ فلمی ستارے(دہلی)‘ سب رنگ(بمبئی)دیش اور گاشہِ آگُر(سرینگر) وغیرہ شامل ہیں ۔ان کی کہانیوں کا مجموعہ۱۹۹۵ء میں ’’ سپنوں کی شام‘‘کے عنوان سے شائع ہوکر منظرعام پر آیا۔افسانوں کے پہلو بہ پہلو برج پریمیؔ نے متعدد خاکے او رانشائیے بھی لکھے ہیں اور تحقیقی و تنقیدی نوعیت کے مضامین بھی ۔ اپنے تخلیقی سفر کی ابتدا کے بارے میں وہ اپنے اوّلین تنقیدی مضامین کے مجموعہ ’’حرفِ جستجو‘‘میں لکھتے ہیں:
’’میری ادبی زندگی کاسفر بیسویں صدی کے نصف میں ایک کہانی کار کی حیثیت سے ہوا اور کافی عرصہ تک میں اپنی روح کادرد اپنی کہانیوں میں انڈیلتا رہا اور اب بھی جب کسی داخلی کرب کی ٹیسیں اندر ہی اندر دور دور تک کاٹتی ہوئی چلی جاتی ہیں تو کہانی جنم لیتی ہے مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ کہانی میرا پہلا عشق ہے ‘‘ ۲
۱۹۶۰ء کے آس پاس انہوں نے اردو افسانہ اور ناول سے وابستہ متعد د فن کاروں کے فن پر کئی فکر انگیز مقالے لکھ کر ایک ناقد کی حیثیت سے دستک دی ،لیکن ۱۹۷۷ء میں شعبۂ اردو جامعہ کشمیر سے منسلک ہونے کے بعد ان کے تحقیقی و تنقیدی کام تیز رفتاری کے ساتھ جاری ہوئے ۔اگر چہ وہ بیچ بیچ میں کہانیاں بھی لکھتے رہے تاہم تحقیق و تنقید کی طرف وہ زیادہ متوجہ رہے ۔۱۹۸۲ء میں ان کے تنقیدی مضامین کا پہلا مجموعہ’’حرفِ جستجو‘‘ کے نام سے منظرِ عام پر آیا ۔یہ کتاب ادبی حلقوں میں کافی سراہی گئی اور اس پر مصنف کو یو۔پی اردو اکادمی کے اعزاز سے نوازا گیا۔ اس کتاب میں برج پریمی ؔنے پریم چند،منٹو ،کرشن چندر،بیدی و غیرہ جیسے فکشن سے وابستہ فن کاروں کا احاطہ کیا ہے اور ان کی تخلیقات کا فکری و فنی جائزہ حتی الامکان اپنی ادبی بصیرت اور تنقیدی شعور کے تحت پیش کیا ہے۔اس کتاب میں شامل مضامین کے مطالعے سے برج پریمیؔ کے ادبی و تنقیدی رویوں کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ چونکہ شعبۂ اردو کشمیر یونیورسٹی میں وہ اپنے رفقائے کار جن میں حامدی کاشمیری‘ شکیل الرحمن‘ عبدالقادرسروری اہم ہیں‘ کے رجحان ساز تنقیدی میلانات سے مستفید ہوتے رہے۔ انہی کے زیر اثر انہوں نے عملی تنقید کی طرف مراجعت کی او رنتیجہ یہ ہوا کہ وہ مروجہ تنقیدی رویے سے فرار حاصل نہیں کرسکے۔ ’پریم چند اور تحریک آزادی،پریم چند کے تکنیکی تجربے،پریم چند اور دیہات،منٹو کے خطوط،سعادت حسن منٹو اور نگار خانے،منٹو بحیثیت ترجمہ کار،پردیسی اور ان کے افسانے،دو زاویے تکون کے(منٹو اور کرشن چندر)،اردو کے چند قدآور افسانہ نگار،مختصر افسانہ اور خواتین‘ وغیرہ اس مجموعہ میں شامل چند اہم مقالات ہیں۔جن میں بقول پروفیسر شکیل الرحمٰن مشرقی اور مغربی اصولِ انتقادیات کی بہتر روشنی میں برج پریمیؔ نے اردو کے چند تخلیقی فنکاروں کے تخلیقی عمل اور ان کی تخلیقات کے بعض اہم پہلوؤں کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے۔۳
’’جلوۂ صد رنگ ‘‘ وادیٔ کشمیر کی ادبی و ثقافتی زندگی سے متعلق تحقیقی مضامین پر مشتمل برج پریمیؔ کی ایک اور کتاب ہے جو ۱۹۸۵ء میں پہلی بار منظرِ عام پر آکر مصنف کو کشمیر کے ایک بے باک ترجمان کی حیثیت سے اردو دنیا میں متعارف کرا گئی۔یہ کتاب بھی ریاستی کلچرل اکادمی کے اعزاز سے نوازی گئی ۔ رمزیت اور ایمائیت کا سہارا لے کر برج پریمیؔ نے اس کتاب میں کشمیر کی ہزاروں سال قدیم تاریخ کو سمیٹا ہے او راپنی محققانہ جگر کاوی سے کام لے کر کشمیر سے متعلق بہت ساری واقفیت بہم پہنچائی ہے۔ کشمیر کو دھرتی کے سورگ سے تعبیر کرتے ہوئے وہ زیرِبحث کتاب میں’’ جہاں میں رہتا ہوں‘‘ کے عنوان کے تحت رقمطراز ہیں:
’’ جہاں میں رہتا ہوں اسے صدیوں سے دھرتی کاسورگ کہا جاتاہے۔ اپسراؤں کایہ دیس تہذیب کی صبح سے اپنے ملکوتی حسن اپنے رنگ اور اپنے نو رسے سورگ کے انسانی تصور کا پیکر ہے ۔یہ وہ خطہ ارضی ہے جہاں کے صدر نگ جلوؤں نے صدیوں سے سیلانیوں کو برمایا ہے۔ یہاں گیان و عرفان کے کتنے سوتے پھوٹتے ہیں ۔آگہی و بصیرت کے کتنے چراغ روشن ہوئے ہیں اور عقل وعشق کے کتنے مرحلے انجام کو پہنچے ہیں۔ تاریخ کے اوراق پر یہ سب داستانیں نقش ہیں‘‘ ۴
یہ کتاب جہاں کشمیر ی کلچر کی عکاس کہی جا سکتی ہے کہ اس میں کشمیر ی رہن سہن ، آثارِ قدیمہ،یہاں کی ادبی شخصیات ،روحانی بزرگوں،یہاں کے لوک گیتوں کے سماجی پس منظر، زیب و زینت،خردو نوش وغیرہ پر تحقیقی مضامین لکھے گئے ہیں اور کشمیر کو غیر ملکی سیاحوں کی نظر میں پیش کیا گیا ہے وہیں یہاں کی ادبی تاریخ پر بھی تحقیقی و تنقیدی مضامین شامل ہیں ۔’اردو افسانہ ریاست میں‘،’اردو نثر ریاست میں‘ اور’ ریاست جموں و کشمیر میں اردو تنقید و تحقیق‘ فکر انگیز مقالے ہیں جن کے مطالعے سے یہاں کی ادبی صو رتِ حال سے آگہی حاصل ہوتی ہے۔پرو فیسر عنوان چشتی نے اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’’ جلوہ ٔصد رنگ کشمیر کے آرٹ،فن ،کلچر اورثقافت کے تناظر میں اسم بامسمیٰ ہے آپ نے اس میں کشمیر کی تہذیب ،ماضی او رحال کوبڑی شگفتہ زبان میں پیش کیا ہے یہ ایک ایسا ادبی جام جہاں نما ہے جس میں کشمیر کے جلوے بے نقاب نظر آتے ہیں‘‘ ۵
’’سعادت حسن منٹو حیات اور کارنامے‘‘ برج پریمی ؔکی وہ کتاب ہے جس کی بدولت انہوں نے برصغیر میں بحیثیت ایک محقق کے اپنی شخصیت تسلیم کروائی ۔ یہ اصل میں ان کا وہ تحقیقی مقالہ ہے جس پر انہیں ۱۹۷۶ء میں کشمیر یونی ورسٹی سے پی ایچ۔ڈی کی ڈگری ملی۔دس سال بعد جب ۱۹۸۶ء میں یہ کتابی صورت میں منظرِ عام پر آیا تو اسے یو ۔پی اور مغربی بنگال کی اردو اکادمیوں کے اعزازات سے نوازا گیاکیوں کہ یہ منٹو پر پہلا باقاعدہ اور جامع تحقیقی کام ہے اور منٹو کی حیات اور ادبی کارناموں کا نہایت ہی عرق ریزی کے ساتھ اس میں احاطہ کیا گیا ہے ۔یہ کتاب منٹو شناسی کے سلسلے میں حوالے کا حکم رکھتی ہے ۔ یہ کتاب برصغیر کے مستند محققین اورناقدین کی توجہ کا مرکز بھی بنی جن میں محمد حسن،قمر رئیس،آل احمد سرور ، مسعود حسیں خاں، جگن ناتھ آزاد،گوپی چند نارنگ،وارث علوی،محمد یوسف ٹینگ اور بیسیوں دیگر شامل ہیں ۔ کتاب چھ ابواب میں منقسم ہے ……منٹو کی حیات ‘اردو کا مختصر افسانہ منٹو تک ‘منٹو کی افسانہ نگاری ‘منٹو کے مضامین،انشایے اور خاکے ‘منٹو کے خطوط اور آخری باب میں منٹو کے ان کارناموں سے بحث کی گئی ہے جو انہوں نے ڈراما،ناول،ترجمہ اور صحافت جیسی اصناف ادب میں انجام دیے ہیں ۔مختصراً کتاب میں منٹو کی حیات‘ شخصیت او رکارناموں کو بنیاد بناکر ان کے فن کے مختلف او رمتنوع پہلوؤں سے مفصل او رمدلل بحث کی گئی ہے اور معتوب کے برعکس سعادت حسن منٹو کو محبوب کے روپ میں پیش کیا گیا ہے۔
’’ذوقِ نظر ‘‘ تحقیقی و تنقیدی نو عیت کی ایک اور کتا ب ہے جو جموں و کشمیر کلچرل اکادمی کے مالی اشتراک سے ۱۹۸۷ء میں منصہ شہود پر آئی۔اس میں تنقید،افسانہ،شاعری ،شخصیات اور فلم کے عنوانات کے تحت کئی بصیرت افروز مضامین شامل ہیں جو مصنف کے سوچ و فکر اور ذہنی رویوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔’اردو کہانی کے بدلتے ہوئے رنگ ۱۹۳۶ء تک،پریم ناتھ پردیسی:شخص اور فنکار،پریم ناتھ پردیسی کی شاعری،منٹو اور شراب،سردار جعفری اور قومی رواداری،کشمیر میں اردو تنقید،منٹو اور ہندوستانی فلم،بیدی اور ہندوستانی فلم وغیرہ ا س کتاب میں شامل چند ایسے مضامین ہیں جن میں ،برج پریمیؔ نے اپنی تحقیقی صلاحیت اور تنقیدی شعور کو بروئے کار لاکر ان فن کاروں کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے ۔ان مضامین کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ برج پریمیؔ کے ہاں تحقیق کے ساتھ ساتھ تنقید بھی چلتی نظر آتی ہے جس وجہ سے ان کی تحریریں جاذبِ نظر بن جاتی ہیں۔
’’چند تحریریں ‘‘برج پریمیؔکی ایک اور کتاب ہے جو ۱۹۸۸ء میں زیورِطبع سے آراستہ ہوئی ۔اس میں تحقیق وتنقید ‘مختصر سفر نامہ‘انشائیے‘دیو مالا ‘ فلم‘نثری مرثیے(شخصی)اورترجمہ کے عنوانات کے تحت کل ملا کر۲۳مضامین شامل ہیں۔ جن کے مطالعے سے برج پریمیؔ کی تحقیقی اور تنقیدی صلاحیتوں کااندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ تحقیق و تنقید کے باب کے تحت اس میں چھ مضامین درج ہیں یہ ہیں:تحریک آزادی او راردو ادب‘اردو فکشن اور قومی وحدت‘ قومی وحدت اور اردو شاعری‘ منٹو کاعہد بوئے خلوص کامتلاشی اور منٹو کی دو کہانیاں ایک اجمالی مطالعہ۔
’’تحریک آزادی اور اردو ادب‘‘ زیرِ بحث کتاب میں شامل ایک معلوماتی مقالہ ہے جس میں ڈاکٹر برج پریمیؔ نے ہندوستان کی تحریک آزادی میں اردو ادب کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے ادب کی مختلف اصناف سے وابستہ ادیبوں کی ان تخلیقات کاجائزہ لیا ہے جن میں قومیت اور حب الوطنی کے جذبات کااظہار ملتاہے ۔افرنگی راج او رسرمایہ دارانہ لوٹ کھسوٹ کے خلاف اردوادب سے وابستہ جن شاعروں ‘افسانہ نگاروں‘ڈرامہ نگاروں‘صحافیوں او ردوسرے قلمکاروں نے اپنے اپنے قلم کی نوک سے انگارے برسائے‘برج پریمیؔ نے ان کے تخلیقی عمل میں جدوجہد آزادی کے جذبہ احساس کی جس نرالے انداز سے نقاب کشائی کی ہے وہ انہی کا حصہ ہے ۔انہوں نے قومیت اور حب الوطنی کے جذبے سے لبریز مختلف اشعار بھی حوالے کے طور پر درج کیے ہیں جس سے ان کے استد لالی انداز بیان کا پتہ چلتاہے ۔غالبؔ‘امام بخش صہباؔئی‘ فضل حق خیر آبادی ‘شبلیؔ ‘ چکبستؔ ‘سرو رؔجہاں آبادی‘ظفر علی خاں‘حسرت موہانی‘ فیض‘ اقبالؔ‘مجازؔ‘سردار جعفری‘وامقؔ‘کیفیؔ‘مخدوم محی الدین‘سلام مچھلی شہریؔ وغیرہ جیسے شعراء کے ساتھ ساتھ منشی پریم چند‘ؔکرشن چندؔر‘ سدرشنؔ‘اعظم کریویؔ‘علی عباس حسینیؔ‘ پریم ناتھ پردیسیؔ‘منٹو‘ؔ بیدیؔ‘عصمتؔ‘اشکؔ‘ قدرت اﷲ شہابؔ‘ رامانند ساگرؔ‘مولوی محمد باقرؔ‘ مولانا ابوالکلام آزاؔد وغیرہ جیسے افسانہ نگاروں ‘ ڈرامہ نگاروں او رصحافیوں کی خدمات کااحاطہ کیا گیا ہے۔
’’کشمیر کے مضامین‘‘برج پریمیؔکی کشمیر شناسی کی ضامن ایک اور کتاب ہے جو ۱۹۸۹ء میں منظرِ عام پر آئی اور ریاستی کلچرل اکادمی کے اعزاز سے نوازی گئی،اس کتاب میں بھی ’’جلوۂ صد رنگ‘‘ہی کی طرح کشمیر کی ثقافت،تاریخ،شخصیات اور ادب کے بعض مستور پہلوؤں کی نقاب کشائی کی گئی ہے ۔ پروفیسر حامدی کاشمیری کے مطابق یہ مجموعہ کشمیر کے ادب ‘ تہذیب اور تاریخ کے بعض نئے ابعاد کو روشن کرتاہے اور پریمیؔ کو کشمیریات کے ایک بالغ نظر ماہر کی حیثیت سے سامنے لاتاہے۔ ۶ ’’لل دید کی شاعری‘منٹو او رشاعر کشمیر مہجور‘ کشمیر میں ترقی پسند ادبی تحریک‘ کشمیر میں اردو پروفیسر سروری کے حوالے سے اور جموں وکشمیر میں صحافت‘‘ اس کتاب میں ادب کے باب کے تحت خالص ادبی مضامین ہیں،جو مصنف کی تحقیقی و تنقیدی صلاحیتوں پر دال ہیں۔
’’کشمیر میں ترقی پسند ادبی تحریک‘‘ ایک فکر انگیز مضمون ہے جو بقول پروفیسر جگن ناتھ آزادکشمیر میں ادب کی ترقی پسند تحریک کاایک ایسا باب ہے جس کے بغیر ہندوستان میں ترقی پسند ادب کی تاریخ مکمل قرار نہیں دی جاسکتی ۔۷
’’جموں و کشمیر میں اردو ادب کی نشو ونما ‘‘: یہ کتاب ۱۹۹۲ء میں شائع ہوئی۔اس کتاب کی اہمیت کے پیش نظر اسے کشمیر یونی ورسٹی نے ایم۔اے کے اردو طلباء کے لیے شاملِ نصاب کیا ہے۔ ’ریاست جموں و کشمیر میں اردو ناول کے خدوخال،جموں و کشمیر میں اردو ڈراما،ریاستی کلچرل اکادمی کی ادبی خدمات،ریاست کے تمدنی ادارے،جموں و کشمیر میں اردو ادب کے نمائندہ فن کار وغیرہ جیسے مضامین اس کتاب میں شامل ہیں۔ ریاست جموں و کشمیر میں اردو ادب کی تاریخ مرتب کرنے والا کوئی بھی ادبی مؤرخ اس کتاب سے صرفِ نظر نہیں کر سکتا۔پروفیسر سلیمان اطہر جاوید اس تصنیف پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’جموں وکشمیر میں اردو ادب کی نشوونما‘ ڈاکٹر برج پریمیؔ کے ان مضامین کامجموعہ ہے جو جموں وکشمیر میں اردو شعر و ادب او رثقافت سے تعلق رکھتے ہیں۔ان مضامین کی نوعیت تحقیقی بھی ہے او رتنقیدی بھی۔ کشمیر سے جذباتی وابستگی او رعشق کے باعث ان مضامین میں جہاں تہاں غالبؔکی طرفداری کااحساس ہوتاہے لیکن بنیادی طور پر ڈاکٹر برج پریمی کاجو مقصد ہے کہ کشمیر کی شعری‘ادبی‘ صحافتی او ر تمدنی زندگی کو متعارف کرایا جائے اور ممکنہ حد تک اس کی بھر پور او ررنگین تصویر پیش کی جائے‘ ہاتھ سے جانے نہیں پاتا او ریہی اس کتاب کی سب سے اہم اور امتیازی خصوصیت ہے ‘‘ ۸
’’منٹو کتھا‘‘منٹو شناسی کے سلسلے کی ایک اور کڑی ہے جو مصنف کے انتقال کے چار سال بعد ۱۹۹۴ء میں منظرِعام پر آئی۔منٹو اور کشمیر چوں کہ برج پریمیؔکے پسندیدہ موضوعات تھے اور ان کے مختلف پہلوؤں پر لکھنا وہ باعثِ سعادت سمجھتے تھے ۔شایدیہی وجہ ہے کہ منٹو پر تحقیقی مقالہ لکھنے کے بعد بھی برج پریمیؔ نے ان کی شخصیت اور فن پر یہ دوسری کتاب لکھی ۔پروفیسر گوپی چند نارنگ رقمطراز ہیں:
’’برج پریمیؔ صاحب کاکام منٹو پر بنیادی نوعیت کاہے ۔ منٹو کاسنجیدہ مطالعہ کرنے والا کوئی بھی شخص مرحوم برج پریمیؔ کے کام سے صرف نظر نہیں کرسکتا۔ انہوں نے پوری زندگی اس میں کھپا دی ۔ان کاادبی کمٹ منٹ مثالی تھا۔ان کی دلسوزی ‘نیکی اورشرافت ان کے رفقاء کے لیے نمونے کادرجہ رکھتی ہے ‘‘ ۹
منٹو کی شخصیت اور فکرو فن کے جن گوشوں کی نقاب کشائی کا احاطہ ’سعادت حسن منٹو حیات اور کارنامے‘ میں نہیں ہوا تھا۔ زیرِبحث کتاب میں اُن مخفی گوشوں پر سے چادر ہٹا کر منٹو کے فکروفن کا جائزہ لیا گیا ہے۔
’’مباحث‘ ‘ ڈاکٹربرج پریمی کے مختلف النوع تحقیقی‘ تنقیدی‘فکری او رتجزیاتی مضا مین کاایک اورمجموعہ ہے جسے ان کے فرزند سبھاش ایمہ(المعروف پریمی رومانی) نے ترتیب دے کر۱۹۹۷ء میں رچنا پبلی کیشنز جموں کے زیر اہتمام شائع کروایا۔ اس مجموعہ میں کل ملا کر۲۳مضامین شامل ہیں۔جن میں سے چند ایک کے عنوانات اس طرح ہیں……’مولانا ابوالکلام آزاد بحیثیت انشاء پرداز‘، ’مختصر افسانے کا آرٹ‘،’لفظوں کا جادوگر: کرشن چندر‘،’حبیب کیفی شخص اور فنکار‘،’کشمیر ی غزل ‘،’کشمیر ی افسانہ ‘،کشمیری ڈراما‘،پریم چند اور ہندوستانی فلم‘،’اوپندرناتھ اشک اور ہندوستانی فلم‘وغیرہ۔مولانا ابولکلام آزاد کے اسلوب پر بحث کرتے ہوئے برج پریمیؔ کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’مولاناکے نثری اسلوب کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ وہ الفاظ کے بلیغ استعمال سے جادو جگاتے ہیں او ربلاغت کاپورا حق ادا کرتے ہیں……. یہ صحیح ہے کہ سیاسی‘فلسفیانہ یا دینی مباحث کو سمجھانا ایک جان لیوا کام بھی ہے اور خشک اور بے حد دقیق کام ہے لیکن مولانا کااندازہ نگارش ان مباحث کے بیان میں حسن و تاثیر کے عناصر آمیز کرتا ہے ‘‘ ۱۰
اس کتاب کی اہمیت مسلّم ہے کہ اس میں تحقیقی و تنقیدی نوعیت کے مضامین کے علاوہ انشایے اور خاکے بھی شامل ہیں اور بچوں کے لیے چھوٹی چھوٹی کہانیاں بھی۔
’’پریم ناتھ پردیسی :عہد شخص اور فن کار ‘‘ریاست جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک افسانہ نگار اور شاعر کی شخصیت اور فن پر لکھی ہوئی تحقیقی و تنقیدی نوعیت کی ایک اورکتاب ہے جو ۲۰۰۹ء میں منظرِ عام پر آئی ۔یہ کتاب کشمیر کے پریم چند یعنی پریم ناتھ پردیسی کی شخصیت اور ادبی کارناموں پر مفصل کتاب تصور کی جاتی ہے ۔ اس میں تحقیق کے ساتھ ساتھ تنقید کا حق بھی ادا کیا گیا ہے اور کشمیر کے مشہور اردو ادیب کی زندگی اور ادبی کارناموں کو اردو دنیا کے وسیع حلقے تک پہنچانے کی سعیٔ جمیل کی گئی ہے۔
برج پریمی کی جو تصانیف ابھی غیر مطبوعہ ہیں ان میں ’’پریم چند:ایک نئی جہت‘‘،’’اردو ادب میں کشمیری پنڈتوں کی خدمات‘‘،’’نئی تحریریں ‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ان کے علاوہ کشمیری زبان میں بھی ان کی دو کتابیں (وژھنے۱۹۹۹ء اور وراثت۲۰۰۳ء)منظرِعام پر آئی ہیں۔انہوں نے کشمیری زبان کے ایک مشہور صوفی شاعر صمد میر پر لکھاہوا مونو گراف بھی کشمیری سے اردو میں ترجمہ کیا جو ۱۹۹۲ء میں شائع ہوکر منظر عام پر آیا۔ادبی تصانیف کے علاوہ تعلیمِ بالغاں کے سلسلے میں بھی انہوں نے’’مرغ بانی‘‘ ’’ شجر کاری‘‘ اور ’’ روشن چراغ‘‘ جیسی کارآمد کتابیں لکھیں۔
مذکورہ بالا تفصیل سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ برج پریمیؔ برق رفتاری کے ساتھ اردو ادب کی خدمت میں مصروف تھے ۔جامعہ کشمیر میں درس و تدریس سے وابستہ ہونے سے لے کر ان کے انتقال تک ہر سال اُن کی کوئی نہ کوئی کتاب شائع ہوکر منظرِ عام پر آتی رہی۔صرف کتابیں لکھتے ہوئے اور درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے ہوئے ہی وہ اردو ادب کی خدمت میں مشغول نہیں رہے بلکہ انہوں نے تخلیقی سفر کے دوران متعدد علمی و ادبی انجمنوں سے بھی وابستگی اختیار کی او رادبی نشستوں میں باقاعدگی کے ساتھ شمولیت کرتے رہے ۔اتنا ہی نہیں بلکہ وہ کبھی کبھی اپنے گھر پر بھی ادبی نشستوں کااہتمام کیا کرتے تھے ۔۱۹۵۴ء میں شہرِ سرینگر کے خانیار علاقے میں بہاؤ الدین زاہدؔ اور بدر الدین نے ’’حلقہ علم و ادب‘‘ کی بنیاد رکھی جو کچھ عرصہ بعد ایک مشہور ادبی او رثقافتی مرکز بن گیا۔برج پریمیؔ اس کے اراکین میں شامل تھے ۔ اس ادبی حلقے کی نشستوں میں کشمیر اور بیرونِ کشمیر کے مشہور ادباء شرکت کرتے تھے جن کے ساتھ برج پریمیؔ کو ملاقات کے مواقعے فراہم ہوئے۔اور اس طرح ان کی تخلیقی صلاحیت ادبی ماحول میں پروان چڑھتی گئی۔اسی دور میں گنپت یار سرینگر میں ہندی سنسد نام کی ایک انجمن بھی قائم ہوئی جس کے ساتھ پرتھوی ناتھ جوتشی‘ سوم ناتھ بالی‘ رادھاکرشن بے کس‘موہن رینہ‘راج کمل وغیرہ جیسے ادیب شامل تھے ۔ہندی کے معروف ادیب وسنت کمار تیجوری المعروف ارون کول اس انجمن کے صدر اور برج پریمیؔ اس کے سیکرٹری تھے ۔۱۹۵۷ء میں زینہ کدل سرینگر میں ا یک اور ادبی مرکز’’ انجمن اربابِ ذوق‘‘ کے نام سے وجود میں آیا اوربر ج پریمیؔ بھی اپنے دوست او ر معاصر ادیب پشکر ناتھ کے ہمراہ ایک سرگرم کارکن کی حیثیت سے اس انجمن کے ساتھ وابستہ ہوئے ۔ اس دوران ان کی ملاقاتیں قدآور ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ ہوئیں جن میں غلام رسول نازکی‘دینا ناتھ نادم‘ امین کامل‘رحمن راہی‘ شمیم احمد شمیم‘ راہی معصوم رضا‘ سوم ناتھ زتشی اور اختر محی الدین وغیرہ شامل ہیں۔ برج پریمیؔ انجمن اد ب بڈگام کے ساتھ بھی وابستہ رہے جو بعدمیں انہی کی تجویز پر ’’انجمن ترقی ادب بڈگام‘‘ کے نام سے از سر نو منظم کی گئی او روہ اس کے نائب صدر منتخب کیے گئے ۔اس انجمن کی ادبی نشستوں میں بر ج پریمیؔ نے اپنی کئی کہانیاں پڑھ کر سنائیں او راپنی خداداد صلاحیتوں کی بناء پر داد و تحسین حاصل کیے۔شاہد بڈگامی اپنے ایک مضمون میں رقمطراز ہیں:
’’برج پریمیؔ کامطالعہ بہت وسیع تھا او راپنی عمر سے وہ کہیں زیادہ بالغ اور تجربہ کار لگتے تھے ۔انہوں نے انجمن ادب بڈگام کی نشستوں میں شعراء او ر ادباء کی تخلیقات پر تنقید کاسلسلہ بھی رائج کیااور علمی سطح پر ہماری ادبی تحریک کو جدید ادبی رجحانات سے روشناس کرانے میں اہم رول ادا کیا۔‘‘ ۱۱
برج پریمیؔ کلچرل فرنٹ‘آزاد کلچرل فورم او رآزاد میموریل کمیٹی سے بھی وابستہ رہے۔ کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں انہوں نے’’صدف‘‘ نام کی ایک انجمن تشکیل دی۔ جس کی طرف سے یادگار جلسے اور ادبی نشستیں منعقد ہوا کرتی تھیں۔اس انجمن کے ساتھ پروفیسر حامدی کاشمیری‘ پروفیسر جعفر رضا‘ پروفیسر نذیر احمدملک او رپروفیسر مجید مضمر(مرحوم) جیسی ادبی شخصیات وابستہ تھیں ۔
مختصراً برج پریمی ؔنے قلیل عرصے میں ایک طویل ادبی سفر طے کیا اور بہ یک وقت افسانہ نگار،مترجم،صحافی،ناقد،محقق اور مؤرخ کے اردو ادب میں وہ مناسب مقام پایاجس کے وہ یقیناً مستحق تھے ۔ کشمیریونیورسٹی کاشعبہ اردو ’’ بازیافت‘ ‘کے نام سے جو سالانہ تحقیقی وتنقیدی مجلہ شائع کررہاہے اس کے مجلس مشاورت کے ایک رکن کی حیثیت سے بھی انہوں نے تحقیقی وتنقیدی کاموں کو بحسن و خوبی نبھایا ہے ۔وہ ملک کے متعدد رسائل و جرائد سے بالواسطہ یا بلا واسطہ بھی وابستہ رہے ہیں جن میں ماہنامہ’’دیس‘ (سرینگر) استاد (سرینگر) آگہی (شعبۂ اردو کشمیر یونیورسٹی) صدف (سرینگر) او رہندوپاک کے مشہور ماہنامہ سہیل(گیا) وغیرہ شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ ریاست کی کئی ادبی اورثقافتی انجمنوں سے بھی ان کا تعلق رہا جو ان کے متحرک ذہن‘ تخلیقی وفوراو رقلم کی روانی کا پتہ دیتاہے۔برج پریمیؔ کی تحقیقی و تنقیدی تصانیف کامطالعہ کرتے ہوئے محسوس ہوتاہے کہ ان کااسلوب نگارش ارتقائی منزلیں طے کرتا ہوا آگے بڑھتا ہے ۔ان کی تحریروں میں روانی اور شگفتگی کے ساتھ ساتھ بے ساختہ پن بھی موجود ہے ۔ ریاست میں اردو ادب کو فروغ دینے میں ان کے کلیدی رول کو کوئی بھی ادبی مؤرخ نظر انداز نہیں کرسکتا۔
حوالہ جات:
۱۔برج پریمی ’’کشمیر کے مضامین‘‘ ،دیپ پبلی کیشنز سری نگر۱۹۸۹ء، ص ۷۳
۲۔برج پریمی ’’حرفِ جستجو‘‘ ،دیپ پبلی کیشنز سری نگر ۱۹۸۲ء ،ص۱۱
۳۔ایضاً،ص۷
۴۔برج پریمی ’’جلوۂ صد رنگ‘‘ ،دیپ پبلی کیشنز سری نگر۱۹۸۵ء،ص۱۵
۵۔ماہ نامہ ’حریم ِ ناز‘ جموں برج پریمی نمبر ،ماہ ِ ستمبر اکتوبر ۱۹۹۹ء،ص ۴۱
۶۔برج پریمی ’’کشمیر کے مضامین‘‘ دیپ پبلی کیشنز سری نگر ۱۹۸۹ء،ص۱۳
۷۔بحوالہ ’’برج پریمی ایک مطالعہ‘‘ مرتبہ پریمی رومانی،دیپ پبلی کیشنز جموں ۱۹۹۳ء،ص۱۳۵
۸۔ ’’برج پریمی ایک مطالعہ‘‘ مرتبہ پریمی رومانی،دیپ پبلی کیشنز جموں ۱۹۹۳ء، ص۱۵۷
۹۔بحوالہ ’سپنوں کی شام‘(افسانوی مجموعہ برج پریمیؔ)،دیپ پبلی کیشنز جموں ۱۹۹۵ء،ص۱۳۴
۱۰۔برج پریمی ’’مباحث‘‘ ، رچنا پبلی کیشنز جموں۱۹۹۷ء،ص ۱۳
۱۱۔بحوالہ ’’برج پریمی :شخصیت اور فن‘‘ مرتبہ پریمی رومانی،رچنا پبلی کیشنز جموں ۲۰۰۳ء،ص ۳۱
٭٭٭٭
سرتاج احمد بدرو
جونئیر ریسرچ فیلو،شعبۂ اردو کشمیر یونی ورسٹی ،حضرت بل ،سری نگر کشمیر ۱۹۰۰۰۶
موبائل نمبر :09596470678
ای میل:badroosartaj6@gmail.com
SARTAJ AHMAD BADROO
JUNIOR RESEARCH FELLOW
DEPARTMENT OF URDU, UNIVERSITY OF KASHMIR ,SRINAGAR KASHMIR 190006
E-mail Id: badroosartaj6@gmail.com
Leave a Reply
1 Comment on "برج پریمیؔ کی ادبی خدمات"
[…] برج پریمیؔ کی ادبی خدمات← […]