فیض اور ترقی پسند ادب

               فیضؔ کے تنقیدی مضامین کا صرف ایک مجموعہ ’’میزان‘‘ کے نام سے شائع ہوا اور اسی میں  انھوں  نے اپنے نظریات کی وضاحت کی اور چند شعرا سے متعلق تنقیدی خیالات بھی پیش کیے، لیکن ایک نقاد کی حیثیت سے فیض نے وہ مرتبہ حاصل نہیں  کیا جو ایک شاعر کی حیثیت سے حاصل کیاہے۔ اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ’’میزان‘‘ کی اشاعت کے وقت عام ادبی مباحث کے نظریات بدل چکے تھے جس کو فیض نے بھی محسوس کیا تھا۔ میزان کے دیباچہ میں  لکھتے ہیں : ’’ان تحریروں  میں  جگہ جگہ ترمیم و وضاحت کی ضرورت محسوس ہوئی لیکن میں  نے ردّوبدل مناسب نہ سمجھا اس لیے کہ بنیادی طورپر مجھے ان تنقیدی عقائد سے اب بھی اتفاق ہے۔‘‘ لیکن ان کے تنقیدی مضامین کے مطالعہ سے یہ چیز بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ فیض نے ادب کی افہام و تفہیم کے لیے ایک واضح نقطۂ نظر اپنایا اور نظریاتی اور عملی دونوں  سطحوں  کے تجزیہ میں  ایک مخصوص رجحان پیش کیا۔ چنانچہ ان کے تنقیدی مضامین سے یہ احساس بھی ہوتاہے کہ انھوں نے اگر اس طرف زیادہ توجہ دی ہوتی تو وہ اردو کے ممتازترین نقادوں  کی فہرست میں  شامل ہوجاتے۔

                ’’میزان‘‘ میں  انھوں نے اردو شاعری کی پرانی روایتیں ، غزل میں  جدید فکروخیال، اردو شاعری میں  اشاریت کے موضوعات پر اظہارخیال کیاہے۔ ایک مضمون ادب اور ثقافت سے متعلق ہے اور ہم عصر لوگوں  کی تحریروں  پر بھی اپنی رائے کا اظہار کیاہے۔ چند مضامین میں  پاکستانی تہذیب، وہاں  کے قومی مسائل کا تجزیہ کیاہے۔ نظریاتی اعتبار سے فیض ترقی پسند ادب کے بہت بڑے نمائندے مانے جاتے ہیں  اور یہ محض اس حیثیت سے نہیں ہے کہ انھوں نے اپنے کو ترقی پسند تحریک سے وابستہ کرلیا تھا بلکہ بنیادی طورسے وہ انھیں  عقائد کے قائل تھے جو ادب اور زندگی کے رشتوں  کو ایک دوسرے سے قریب سمجھتے ہیں  اور سماجی حقیقت نگاری کے ساتھ ساتھ ادب کو ایک ایسا ذریعہ قرار دیتے ہیں  جس سے زندگی کی رفتار کو تیز تر کیا جاسکے۔ قنوطی اور شکست خوردہ ذہنیت سے سماج کو دور کیا جاسکے ان تصورات کا اظہار انھوں نے محض سطحی طورپر نہیں  کیا بلکہ مطالعہ کی وسعت اور مختلف علوم کے تجزیہ کے بعد یہ نتائج اخذ کیے تھے۔ فیض نے اپنے مضمون ’’ادب کا ترقی پسند نظریہ‘‘ میں  ترقی پسند نظریہ کو کلچر کے فروغ کے لیے ایک راستہ بتایا ہے اور کلچر کے فروغ کا منصب یہ بتایا ہے کہ سماجی اقدار کی ترتیب موزوں  کی جائے۔ اس میں  انھوں نے رجحانات سے بحث کرنے کے بعد اور دلائل کے ساتھ ساتھ ان تصورات کو سائنٹفک نقطۂ نظر کی حیثیت سے اپنایا۔ اس میں  لکھا ہے کہ ترقی پسند ادب سے دو قسم کی تخلیقات مراد لی جاتی ہے: (۱) جو سماجی ترقی میں  مدد دیں  (۲) جو ادب کے فنی معیار پر پوری اتریں ۔ اسی سلسلے میں  انھوں نے ’’کلچراور تہذیب‘‘ کی اصطلاحوں  سے بھی بحث کی ہے اور لکھتے ہیں : ’’یہ کلچر ذرا مبہم لفظ ہے۔ کلچر سے اقدار (Values) کا وہ نظام مراد ہے جس کے مطابق کوئی سماج اپنی اجتماعی زندگی بسر کرتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہماری روزمرہ کی دنیوی زندگی میں  بعض خیالات اور اشیا اہم سمجھے جاتے ہیں ، بعض غیراہم۔ بعض کو ہم عزیز جانتے ہیں  اور بعض کو حقیر گردانتے ہیں ۔ اپنی ترجیحات کو اقدار کہتے ہیں ، انہی کے عملی اظہار سے ہماری سماجی زندگی کا نقشہ بنتاہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ کلچر ہوا میں  معلق نہیں  رہ سکتا اور ایک مخصوص سماج کے بغیر اس کا وجود ذہن میں  کرنا محال ہے۔ کلچر ہماری زندگی کا ایک کونہ ہے اس لیے اس کی نوعیت اس کی ترقی اور تنزل بھی انہی قوتوں  کے قبضہ میں  ہے جو سماج پر حکمرانی کرتی ہے۔

                فیض نے ترقی پسند ادب سے وہ تحریریں  مراد لی تھیں  جن کی پہلی شرط یہ تھی کہ سماجی ترقی میں  مدد دیں  اور مندرجہ اقتباس میں  انھوں نے پہلی چیز ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ سماجی زندگی کا تعلق پورے کلچر کی تاریخ سے ہے جس میں  سیاسی اور اقتصادی انقلابات بھی نظرانداز نہیں  کیے جاسکتے۔ اس وضاحت کے بعد جب فیض نے ترقی پسند ادب کی تعریف کی تو اس میں  بڑی فصاحت پیدا ہوگئی، یعنی ان کے الفاظ میں  ترقی پسند ادب ایسی تحریروں  سے عبارت ہے جن سے سماج کے اقتصادی اور سیاسی ماحول میں  ایسی ترغیبات پیدا ہوں  جن سے کلچر ترقی کرے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان ادبی تخلیقات کا احاطہ کرنا بھی ضروری تھا جو ترقی پسند ادب سے مختلف ہوتی ہیں  اور یہیں  سے رجعت پسند ادب کا احساس شروع ہوجاتاہے۔ فیض نے اپنے خیالات کی وضاحت اس طرح کی ہے ’’رجعت پسند ادب وہ تحریریں  ہیں  جو ترقی پسند رجحانات کی مخالفت کرے اور جن کی وجہ سے کلچر کے راستے میں  رُکاوٹیں  پیدا ہوں ۔‘‘ کلچر کو اس لیے انھوں نے ارتقا پذیر مانا ہے کیوں کہ اس سے اقدار کی اہمیت جانچی جاسکتی ہے وہ اس کی ترقی پر عوام کی زندگی کا ارتقا سمجھتے ہیں  اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ادب ترقی پسند رویہ سے قریب رہے۔ وہ لکھتے ہیں : ’’ترقی پسند ادب وہ ہے جو کلچر کی ترقی میں  مدد دے۔ کلچر کی ترقی کا مطلب یہ ہے کہ سماجی اقدار کی ترتیب موزوں  کی جائے اور صحیح اقدار کا پرچار کیاجائے۔ ان اقدار کو عوام کے لیے اجتماعی طورپر سہل الحصول بنایاجائے۔‘‘ اسی موقع پر فیض نے یہ دلچسپ بحث بھی اٹھائی ہے کہ بعض رجعت پسند افراد اس کے قائل ہیں کہ ’’آرٹ، کلچر، ادب یہ سب خود رو پودے ہیں  اور دین کی طرح ان میں  جبروکراہ قطعاً جائز نہیں ۔‘‘ لیکن وہ اس بات پر زور دینا چاہتے ہیں کہ ادیب و فنکار اتنا بے شعور نہیں  ہوتاکہ وہ بغیر غوروفکر کے اپنی تخلیقات پیش کرتا رہے اور کسی ’’سماوی روح‘‘ کے زیراثر اس عمل کو آگے بڑھاتا رہے۔

                فیض اس چیز کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ایک اچھے ادیب کو اپنے ارادے اور اپنی قوتِ تخلیق پہ یقینا اتنی قدرت ہوتی ہے کہ وہ جو لکھے اپنے فلسفے اور اپنے نظریے کے مطابق لکھے، اگر اس نظریے میں  خلوص اور جان ہے تو اس سے ایک نئے رجحان کی تخلیق بھی ناممکن نہیں ۔‘‘ مضمون کے آخری حصہ میں  انھوں نے ’’ادب اور پروپیگنڈہ‘‘ کی بحث اٹھائی ہے کہ ہرقسم کا ادب کوئی نہ کوئی پروپیگنڈہ کرتاہے فرق صرف یہ ہے کہ ایک پروپیگنڈہ بہتر ہے اور دوسرا مضر۔ کیوں کہ ترقی پسند ادب پر یہ اعتراض بھی کیا جاتاہے کہ اگر اس میں  تہذیب اور ثقافت، سماجی زندگی کے ارتقا پر زور دیا جاتا ہے تو ایک گروہ نے یہ تصور پیدا کردیا کہ ادبی تخلیق کے بجائے ایسی تحریریں  سیاسی پروپیگنڈہ کی حیثیت اختیار کرلیتی ہیں ، اس موضوع کو بھی فیض نے بڑی تفصیل سے پیش کیاہے۔ یوں  تو بہت سے ترقی پسند نقادوں  نے اس الزام کو مختلف انداز میں  رد کیا ہے لیکن فیض اس کی تردید کرنے کے بجائے ادب اور پروپیگنڈہ میں  ایک طرح کا گہرا تعلق سمجھتے ہیں ۔ کیوں کہ ان کے خیال میں  اگر ادیب اپنی تخلیقات سے قاری کو متاثر نہیں  کرتا تو اس کی تخلیقات اہمیت حاصل نہیں  کرسکتیں ۔ وہ لکھتے ہیں :

’’ترقی پسند ادب اور دوسری اقسام کے ادب میں  یہ فرق نہیں  ہے کہ یہ پروپیگنڈہ کرنا ہے اور وہ نہیں  ۔ فرق یہ ہے کہ ایک پروپیگنڈہ صحیح اور مفید ہے اور دوسرا گمراہ کن اور مضریا غیرمفید۔ تو کیا ادب اور پروپیگنڈہ میں  کوئی فرق نہیں  ہے پھر ہم سیاسی تقریروں  اور صحافتی مقالوں  کو ادب کیوں  نہیں  کہتے۔ اس لیے نہیں  کہتے کہ ان میں  فنی خوبیاں  نہیں  پائی جاتیں ۔ ان بہ نفسہٖ کوئی ایسی چیز نہیں  ہے جو انھیں  ادب بننے سے روکے لیکن لکھنے والوں  یا بولنے والوں  کی بے احتیاطی، خامیٔ اظہار یا قلت خلوص کی وجہ سے انھیں  ادبی حیثیت نصیب نہیں  ہوتی۔ اس لیے میں  نے ترقی پسند ادب کی تعریف میں  یہ بات شامل کرلی تھی کہ ترقی پسند ادب صرف ترقی پسند ہی نہیں ، ادب بھی ہے۔‘‘

                آخر میں  فیض نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ادب اور خاص طورسے ترقی پسند ادب گمراہ کن نہ ہونا چاہیے۔ محض اتنا ضروری نہیں کہ خارجی ماحول کا نقشہ ہوبہ ہو پیش کردیا جائے بلکہ اس ماحول کا انتخاب ضروری ہے جس سے ادبی تقاضے محروم نہ ہوں ۔ انھوں نے ایک فوٹوگرافر اور ادیب کی سماجی زندگی کی مصو ّری کی مثال دیتے ہوئے لکھاہے کہ: ’’جس طرح ایک اچھا فوٹوگرافر بھی اپنے مواد کو ترتیب دیتے وقت کسی منظر کے بعض نقوش کو نمایاں  کرتاہے بعض کو دبا دیتا ہے اس طرح ان کے خیال میں  ادب میں  بھی اچھے اور برے موضوعات اور ان کا انتخاب ضروری ہے۔ اس کی مثالیں  پیش کرتے ہوئے انھوں نے لکھاہے کہ کسی محفل کی کیفیت بیان کرتے وقت اس کا ماحول اس طرح بھی پیش کیا جاسکتا ہے کہ آپ اسے قبول کرلیں  اور اس طرح بھی کہ آپ اس کے خلاف بغاوت کریں ۔ اس سلسلے میں  وہ آگے لکھتے ہیں کہ ترقی پسند ادیب اگر اپنے ماحول کو تسلی بخش خیال کرتاہے تو دوسرا یعنی ان کے خیال میں  ادیب نقاش ہی نہیں  نقاد بھی ہے اور یہ تنقید ضروری نہیں  ہے کہ پوری وضاحت سے پیش کی جائے، بلکہ انھیں  کے الفاظ میں :

’’یہ بین السطور بھی ہوسکتی ہے لیکن اتنی بین السطور نہیں کہ خودبین کے بغیر نظر نہ آئے۔‘‘

٭٭٭٭

پروفیسر سید شفیق احمد اشرفی

خواجہ معین الدین چشتی اردو عر بی فارسی یونی ورسٹی، لکھنؤ

Leave a Reply

1 Comment on "فیض اور ترقی پسند ادب"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] فیض اور ترقی پسند ادب […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.